Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نوکری کا انٹرویو

بھارت چند کھنہ

نوکری کا انٹرویو

بھارت چند کھنہ

MORE BYبھارت چند کھنہ

    اس مضمون پر بحث کرنے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ نوکری کے انٹرویو دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جس میں امیدوار ایسا نوجوان ہوتا ہے جس کی تعلیم پر ماں باپ کی کمائی لٹ چکی ہوتی ہے جس نوجوان کی آئندہ زندگی سے والدین کی ہزاروں امیدیں وابستہ ہوتی ہیں جو ان کی آنکھوں کا تارا زندگی کا سہارا اور جان سے پیارا ہوتا ہے۔ یہ نوجوان بڑی مشکلوں سے پالا جاتا ہے۔ اس کی صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اس کی خوراک بھی ماں باپ کے لئے خاص اہمیت رکھتی ہے اسے زکام ہو جائے تو ڈاکٹر آ جاتا ہے۔ زکام بڑھ کر فلو بن جائے تو پھیپڑوں کا ماہر بلایا جاتا ہے۔ بہرحال یہ نوجوان اپنی طالب علمی کا زمانہ بڑے آرام سے گذارتا ہے۔ آرام و راحت کا یہ زمانہ ایسے گذر جاتا ہے جیسے پٹری سے ریل گاڑی۔ مصیبت کا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب تعلیم ختم ہو جاتی ہے۔ نوجوانی ختم ہو رہی ہوتی ہے اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ اس کا جواب ہے، نوکری۔ ان سب نوجوانوں کے لئے جو کئی پیشہ یا تجارت نہیں کرتے اور تعلیم حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔ ان کی نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے نوکری۔ نوکری حاصل کرنے کے لئے انٹرویو میں جانا ہوتا ہے۔ ایسے انٹرویو کے لئے تعلیم یافتہ لوگ جاتے ہیں اور نوکری کے انٹرویو کی یہ پہلی قسم ہے۔

    متعدد ڈگریوں سے مسلح ہو کر اور علم کے نور سے روشن ہو کر جب ہم نے اپنے آپ کو آزاد پایا یعنی امتحانوں کو پاس کرنے کی مصیبت سے جب ہم کو چھٹکارا ملا تو خوشی سے ہمارے قدم زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ کانوٹ آف مونٹی کرشو کی طرح ہم بھی بیخود ہو کر چلائیں کہ دنیا ہماری ہے۔ کچھ دن بلکہ مہینے اس عالم میں گذرے۔ اس کے بعد ہم کو گھر والوں نے بڑی صلاحیت سے اس بات کا احساس دلایا کہ ہم سیروتفریح اور پانچ وقت کھانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کر رہے تھے۔ یہ جان کر ہمیں بڑا دکھ ہوا اور ہم یکلخت بےفکری کے آسمان سے بیکاری کے سخت میدان پر دھم سے آ گئے۔ لیکن ابھی نوجوانی کے کچھ ولولے دل میں باقی تھے۔ کچھ گرمی ڈگریوں کی بہتات نے پیدا کر رکھی تھی۔ ہم نے سوچا کہ یہ بھی کوئی بات ہے، جہاں چاہیں گے، جب چاہیں گے ملازم ہو جائیں گے۔

    کچھ اشتہاروں کے جواب میں ہم نے عرضیاں دیں یعنی دفتروں کے ہم نے چکر کاٹے بعض با رسوخ لوگوں سے ہمیں ملایا گیا، لیکن جہاں جاتے جس سے ملتے وہ یہی بتلاتا کہ ’’صاحب نوکری! کسی اور چیز کا ذکر کیجئے۔ آج کل نوکری ملنی بڑی مشکل ہے۔‘‘ پانچ چھہ مہینوں کی مسلسل کوشش کے بعد جب کہ ملازمت دلانے والے محکموں اور متعدد دفتروں کے کئی لوگ ہم سے کافی مانوس ہو چکے تھے اور ہم کو بھی اپنے ہی زمرہ کا ایک سخت جان جاندار سمجھنے لگے تھے، ہم اس نتیجہ پر پہونچے کہ کورووں اور پانڈووں کے زمانہ میں شاید نوکری مل جاتی ہو مگر 1937 میں یہ شئے کم از کم ہمارے لئے نایاب ہو چکی تھی اور اس کے باوجود جس نوکری کے اشتہار کو ہم دیکھتے ہم کو ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے ہم کو ہی ذہن میں رکھ کر یہ اشتہار لکھا گیا ہو۔ مگر جب انٹرویو کے لئے پہنچتے تو انٹرویو کرنے والے اصحاب کی نظروں ہم ’’ناتجربہ کار‘‘ ’’خام اور کچے‘‘ سمجھتے جاتے۔ لہٰذا ملازمت زیر بحث کے لئے ناقابل! ان انٹرویو ؤں میں ہم سے کچھ اس قسم کے سوالات کئے جاتے تھے، ’’چین کا سب سے بڑا دریا کون سا ہے، مونٹ ایورسٹ کی اونچائی کیا ہے‘‘، ’’آج کل ہندوستان میں کہاں سیلاب آیا ہوا ہے؟‘‘ ’’امریکہ کا پریزیڈنٹ کون ہے، ڈنمارک کن چیزوں کے لئے مشہور ہے؟‘‘ اور ’’اگر تمہارا ہوائی جہاز گر پڑے تو زمین سے اٹھنے کے بعد سب سے پہلا کام تم کیا کرو گے؟‘‘ وغیرہ وغیرہ اور جب ہم ایسے سوالوں کے جواب خاطر خواہ طور پر دے دیتے تو پھر اگر ملازمت اسکول ماسٹری ہوتی تو پوچھا جاتا کہ پہلے کبھی اسکول میں پڑھایا ہے؟ اور جب ہم کہتے کہ جی نہیں تو وہ کہتے کہ خدا حافظ تشریف لے جائیے۔ اگر کام انتظامی نوعیت کا ہوتا تو انتظامی کام کا تجربہ پوچھا جاتا۔ جب ہم اس تجربہ والے سوال کو سن سن کر تنگ آئے تو بعد کے انٹرویو میں جب چین کے بڑے دریا کو عبور کرکے مونٹ ایورسٹ کی چوٹی پر سے ہوتے ہوئے ہندوستان کے سیلاب پر سے منڈلاتے ہوئے روزولٹ سے تعارف کراکر ڈنمارک کے پتھروں کا مزہ چکھتے ہوئے اور ہوائی جہاز گر پڑنے کے بعد اپنی پتلون جھاڑتے ہوئے تجربے کے مضمون پر پہنچتے تو ہمارا جواب یہ ہوتا کہ صاحب امتحانوں کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد کام کا تجربہ حاصل کرنے کی کوشش میں اب تک ہمارا جو تجربہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم کو تجربہ حاصل کرنے کا موقع دینے کے لئے کوئی تجربہ کار تیار نہیں۔ یہ جواب دے کر اور خدا حافظ کہتے ہوئے ہم باہر نکل آئے اور مقام انٹرویو سے گھر تک راستہ طے کرکے اور انٹرویو کے کپڑے آئندہ کے انٹرویو کے لئے حفاظت سے تہہ کرکے اپنی کھٹیا پر بےکسی اور بےبسی کی تصویر بن کر پڑ جاتے۔

    بالآخر جب ہماری سب امیدیں مٹ گئیں اور تمام ولولے پاش پاش ہو گئے تو پھر ہماری بےبسی اور بےکسی پر ترس کھاکر ایک صاحب کی سفارش پر ہماری ڈگریوں کی بنا پر نہیں بلکہ محکمہ ٹیم کی طرف سے کھیلنے کے لئے ہمیں فسٹ گریڈ کی کلر کی کی نوکری ملی اور جب ہم دفتر پہنچے تو بجائے اس کے کہ ہماری ڈگریوں کا لحاظ کرتے ہوئے ہم سے ہمدردی جتلائی جاتی اس دفتر کے سینئر سکینڈ گریڈ اور تھرڈ گریڈ کلرکوں نے جن کی ترقیاں ہمارے آ ٹپکنے سے رک گئی تھیں، ہمیں ایسی صلواتیں سنائیں کہ وہ دن کبھی نہیں بھولےگا۔ بہرحال رفتہ رفتہ ان کی مخاصمت کم ہوتی گئی اور ہم نے تجربہ حاصل کرنا شروع کیا۔

    دوسری قسم نوکری کے انٹرویو کی وہ ہے جس میں امیدوار اَن پڑھ ہوتے ہیں۔ نوکری جس کی تلاش کی جاتی ہے وہ کھانا پکانے، برتن مانجھنے یا اس قسم کے محنت مزدوری کے کام ہوتے ہیں۔ اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ ان کا موں کے لئے نوکر نوکری تلاش نہیں کرتا بلکہ ملازم کی تلاش ہونے والا آقا کرتا ہے۔ بڑی تلاش کے بعد جب ہونے والا نوکر اور ہونے والی مالکن یا مالک آمنے سامنے ہوتے ہیں تو کچھ اس قسم کا انٹرویو عمل میں آتاہے؛

    ’’کیوں جی نوکری کروگے؟‘‘ کہا جاتا ہے۔

    ’’نوکری تو کروں گا گھر میں کتنے لوگ ہیں؟‘‘ نوکر سوال کرتا ہے۔

    جواب، یہی بال بچے ملا کر کوئی چھ سات آدی ہوں گے۔

    سوال، چھ سات آدمی۔۔۔! بچے کتنے ہیں؟

    جواب، تین بچے ہیں۔‘‘

    سوال، اور کوئی نوکر ہے گھر میں؟

    جواب، ہاں ایک باورچن ہے جو کھانا پکاتی ہے۔

    اب کے سوال کیا جاتاہے کہ برتن کون مانجھتا ہے اور اگر آپ جو اب دیں کہ برتن تم ہی صاف کروگے تو وہ پوچھتا ہے کہ ’’اگر میں برتن مانجھوں گا تو بازار کا کام گھر کی صفائی اور دوسرا چلر کام کون کرےگا؟‘‘ اب آپ چونکتے ہیں کیوں کہ بازار کا کام اور گھر کی صفائی بھی تو اس کمبخت کے سپرد ہوئی تھی۔ آپ سر کھجاتے نظر آتے ہیں، کوئی موزوں جواب سوچ ہی رہے ہوتے ہیں، اتنے میں آپ کی بیوی موقع کی نزاکت کو سمجھ کر مداخلت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بھئی گھر کی صفائی وغیرہ میں گھر کی عورتیں ہاتھ بٹاتی ہیں اور رہا بازار کا کام۔۔۔ تو وہ اس گھر میں ہے ہی کتنا۔ یہی ایک مرتبہ سودا سلف لانا اور بس۔

    ہونے والے نوکر کے اس مصلحت انگیز جواب سے تشفی نہیں ہوتی۔ وہ پوچھتا ہے؛ ’’اچھا صاحب آپ ایک نوکر رکھئے یا سات، مجھے اس سے بحث نہیں۔ لیکن ’’ہاں‘‘ کرنے سے پہلے مجھے صاف صاف بتا دیجئے کہ مجھے کیا کیا کام کرنا ہوگا۔ اب آپ صاف صاف کیا خاک بتائیں۔ گھر کے کاموں کو کون گنا سکتا ہے اور اگر آپ واقعی صاف گوئی سے کام لیں تو انٹرویو کرنے والا نوکر غائب ہو جاتا ہے اور اگر گول مول جواب دیں تو نوکر وضاحت کرنے کو کہتاہے۔ آپ پھر بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ بیوی پھر آپ کی مدد کو آتی ہیں، ’’کہتی ہیں تم تو عجیب آدمی ہو نوکری کرنے آئے ہو یا وکالت۔ کہہ تو دیا کہ کام برتن مانجھنا ہے، اس کے علاوہ کچھ تھوڑا بہت بازارکا بھی کام ہوگا۔‘‘ مگر صاحب نوکر بھی کوئی کچی گولیاں کھیلا ہوا نہیں ہوتا کہ ان چکنی چپڑی باتوں سے پھسل جائے۔ اس لئے وہ پھر سوال کرتا ہے۔ اچھا میم صاحبہ اگر آپ صاف صاف نہیں بتا سکتیں تو میں بتاتا ہوں میں صرف برتن مانجھوں گا اور بازار سے دووقت سودا لے آیا کروں گا۔ اس کے علاوہ میں اور کچھ کام نہیں کروں گا۔ کپڑے نہیں دھووں گا، راشن کے چاول نہیں کوٹوں گا، ا ٓٹا نہیں پساؤں گا، کیوں ہے منظور؟ اور جب بیوی بھیگی بلی کی طرح کہتی ہیں کہ ہاں منظور ہے، تو آپ حیرت سے اپنی انگلی دانتوں تلے دے لیتے ہیں کیونکہ یہ وہ شاذونادر ہونے والا واقعہ ہوتا ہے جب کہ بیوی شکست تسلیم کرتی ہیں ورنہ آپ جانتے ہیں کہ زندگی میں آپ کے ساتھ کئی مواقع آئے اور گذر گئے، کئی جھپٹیں ہوئیں اور ہوکے رہ گئیں۔ کئی جھگڑے ہوئے اور ہوکے مٹ گئے، لیکن آپ کو ایسا وقت یاد نہیں آتا جب بیگم صاحبہ نے ہار مانی ہو۔ آپ سگریٹ سلگا کر کونے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ بیوی اب میدان عمل میں آچکی ہوتی ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ آپ جو بھی گل فشانی فرمائیں گے اس سے گتھیاں سلجھیں گی نہیں بلکہ پرپیچ ہوتی جائیں گی۔

    اب نوکر صاحب پوچھتے ہیں کہ کام کے اوقات کیا ہوں گے۔ بیوی یہ سن کر ذرا جھنجلاتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ وہی عتاب، وہی غصہ دکھائیں اور ویسی خشمگیں ہو جائیں جس طرح آپ سے دوران گفتگو میں ہو جایا کرتی ہیں، لیکن گھر کے کاموں کا خیال آتے ہی سنبھل جاتی ہیں اور پھر جواب دیتی ہیں۔ یہ کوئی دفتر یا اسکول نہیں جو کام کے اوقات بتلائے جائیں۔ یہاں یہ تو نہیں ہو سکتا کہ گھنٹہ بجا اور لڑکے جماعتوں میں آبیٹھے اور پھر جب گھنٹی بجی تو بچے گھر وں کو چلدیے۔ گھروں کے کام تو صبح شروع ہوکر رات کو ختم ہوتے ہیں، یہ تو تم جانتے ہی ہو۔ اس پر بھی موصوف کی تسلی نہیں ہوئی۔ اب کے پوچھتے ہیں، یہ تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی وقت مقررہ ہونا چاہئے تاکہ ہم لوگوں کو بھی کچھ وقت آرام کا ملے۔

    اس موضوع پر کچھ اور بحث ہوئی ہے اور یہ وقت کا معاملہ بھی طے ہو گیا۔ معلوم ہوتا ہے جب کہ ایک اور شرط یہ پیش کی جاتی ہے نوکر صاحب جو ہفتہ میں ایک دن سنیما دیکھنے کے عادی ہیں اور بچت کی خاطر میٹنی شو کو زینت بخشا کرتے ہیں، اتوار یا شکروار کے دن دوپہر میں ڈیڑھ بجے سے چھ تک چھٹی منائیں گے۔ بیوی یہ شرط بھی مان لیتی ہیں اور چیخ کر پوچھتی ہیں کہ کیا اور بھی کچھ پوچھنا باقی ہے۔ جواب ملتا ہے کہ جی ہاں، ابھی کچھ اور باتیں پوچھنی ہیں مثلاً ایک تو یہ کہ ان کو اس گھر کا رواج معلوم نہیں کہ یہاں کیا اور کب ناشتہ کیا جاتا ہے۔ کب اور کس طرح کھانا کھایا جاتا ہے اور چائے کس وقت پی جاتی ہے؟ ان باتوں کا مطلب یہ سمجھایا جاتا ہے کہ وہ ٹھیک آٹھ بجے چائے یا کافی پینے کے عادی ہیں اور چار بجے دن کے وقت بھی ان کو اس چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور یہ بھی ایک عجیب واقعہ ہے کہ اگر ایک چائے پینے کا عادی ہو تو نوکر کا فی نوش ملتے ہیں اور وہ بھی بلا نوش ہونے کے علاوہ۔

    اس مضمون پر بھی کچھ باتیں ہوتی ہیں اور یہ امر بھی طے پا جاتا ہے۔ بیوی جواب دینے کی نہیں بلکہ سوال کرنے کی عادی ہیں۔ سوالوں کے اس گھن چکر سے ان کا سرچکر انے لگتاہے۔ آپ کو نے میں بیٹھے اس چیز کو محسوس کرتے ہیں لیکن اس وقت گفتگو ہونے والے نوکر اور مالکن کے درمیان ہے اور آپ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس موقع پر دخل دینا چھٹی کے دن کو ستیاناس کرنے کے برابر ہوگا۔ اس لئے آپ دم بخود اور خاموش رہئے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو ایک سگریٹ اور سلگا لیتے ہیں۔ اب یہ خدائی فوجدار پوچھتا ہے کہ اس کے رہنے کے لئے کون سی جگہ گھر میں رکھی گئی ہے۔ خوش قسمتی سے گھر میں غلہ کی کوٹھری کے ساتھ ایک کمرہ ہے اور یہ نوکر کو دیا جا سکتا ہے۔

    یہ معاملہ بھی رفع دفع ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انٹرویو ختم ہو گیا؟ جی نہیں۔ ہرگز نہیں مزدوروں کی یونین کا یہ معزز رکن پھر مخاطب ہوتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا دیں گے آپ؟ اور آپ کو نے میں اپنی کرسی پر بیٹھے کانپ جاتے ہیں۔ آپ کو اپنے بچپن اور بزرگوں کا وہ زمانہ یاد آجاتا ہے جب تین چار روپے ماہانہ پر اچھے اچھے جفاکش محنتی اور وفادار نوکر مل جاتے تھے اور نوکر بھی ایسے کہ جس گھر میں رہ گئے وہیں عمریں گزار دیتے تھے۔ پھر پہلی جنگ چھڑی لوگ بھرتی ہونے شروع ہوئے۔ وہ جنگ ختم ہوئی لیکن اس وقت تک ہٹلر جنم لے چکا تھا۔

    حالات زمانہ خوشگوار تھے کہ اس طاقت کے متلاشی نے دنیا کو فتح کرنے کی دھن میں پورے عالم کو جنگ کی آگ میں گھسیٹ لیا۔ اس کا اپنا حشر تو جو ہونا تھا ہوا لیکن دوسری عالمگیر جنگ کے بعد سے دنیا کے عوام کی جو حالت ہوئی ہے ویسی شاید پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ جس چیز کی ضرورت ہو وہ نہیں ملتی، اگر ملتی بھی ہے تو ایسے داموں کہ عام انسان اس کو نہ خرید سکے۔ غلہ مہنگا ہو گیا، ریڈیو، برتن، موٹریں، پٹرول، کرایہ، مکان، دودھ، پنکھے، گھڑیاں، دوائیاں، سنیما، بجلی بلکہ فقیر تک جو ایک آنہ ملنے پر بھی گالیوں پر اتر آتا ہے۔ حتی کہ پانی تک مہنگا ہو گیا اور نوکر یہ شئے پہلے تو دنیا کی مارکٹ سے غائب ہو گئی اور اب جو کبھی کبھار نظر آ جاتی ہے تو اتنی مہنگی کہ عام انسان کے بس کی نہیں ہوتی۔ اس لئے جب نوکر یہ سوال کرتا ہے تو بجا طور پر آپ اپنی بوسیدہ کرسی میں اپنی نازک مالی حالت کا خیال کرتے ہوئے کانپنے لگتے ہیں، بیوی بھی ٹھٹکتی ہیں۔ جو اس کو ایک جگہ رکھنے کی خاطر سوال کرتی ہیں کہ وہ کیا تنخواہ لینے کے عادی ہیں۔

    نوکر صاحب جواب دیتے ہیں کہ پہلے وہ ایک انگریز کے ہاں ملازم تھے اور صرف پانی بھر نے کے پینتالیس روپے پاتے تھے۔ پھر ایک اور صاحب کے ہاں تھے جہاں کھانا پکانے کے لئے ان کو پچاس روپے ملتے تھے۔ اس کے بعد جب جنگ میں شریک ہوئے تو ان کی تنخواہ پچھتر ہو گئی تھی۔۔۔ اور یہ سن کر آپ سن ہوئے جاتے ہیں کہ جب آپ نے ملازمت شروع کی تھی تو آپ کی تنخواہ بھی لگ بھگ پچھتر ہی تھی! اس دوران میں بیوی گلا صاف کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ ان کا گھر روس اور کوریا کا میدان نہیں اور نہ یہ نوکری جنگی خدمت کہلائی جا سکتی ہے، یہ تو گھر کی نوکری ہے۔ برتن صاف کرنے اور بازار سے سودا وغیرہ لانے کی۔ اس موقع پر انگریزوں کے لئے پانی بھرنے یا جنگ میں گولیاں چلانے کی مثالیں دینے کی ضرورت نہیں اور۔۔۔ اور۔۔۔ اس نوکری کے لئے وہ زیادہ سے زیادہ (بیوی سوچتی ہیں کہ بیس کہوں یا پچیس اور آخر ہمت کرکے اور سخاوت کے سیلاب بہاتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ) پچیس روپے دے سکیں گی۔

    اس پر جب حقارت سے نوکر کہتا ہے کہ جی صرف پچیس! تو بیوی سمجھاتی ہیں کہ اس پچیس کے ساتھ ساتھ موصوف چالیس پچاس کا کھانا چائے وغیرہ بھی پائیں گے اور اس طرح ان کی کمائی پچھتر کے لگ بھگ ہی پڑےگی۔ اس جواب کا نوکر کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا لیکن اسمتھ کے اسکول ماسٹر کی طرح وہ بحث جاری رکھتا ہے اور کبھی ڈرا دھمکاکر تو کبھی غریبی، مہنگائی اور بیوی بچوں کی افراط بتاتے ہوئے اپنی تنخواہ ستائیس روپے تک ٹھہرا لیتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ سنیما اور سگریٹ کا خرچ وہ گوشت کے بجائے چھچڑے لاکر دودھ میں پانی ملاکر اور مختلف طریقوں سے گھر والوں کی آنکھوں میں دھول ڈال کر نکال لےگا۔

    اس نوبت پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انٹرویو ختم ہو گیا اور نوکر نے مالک اور نوکر ی دونوں پسند کر لیے، لیکن آپ کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی جب کہ 27 روپے ماہانہ پر رکھا ہوا نوکر یہ پوچھتا ہے کہ بازار سے سودا وغیرہ لانے کے لئے کون سی سواری کا آپ کے گھر میں انتظام ہے اور آپ بحالت مجبوری انٹرویو میں شریک ہوتے ہیں کیونکہ گھر میں موٹر، ٹانگہ یا ٹمٹم نہیں ہیں۔ بلکہ صرف ایک سائیکل ہے جسے آپ جان سے بھی عزیز سمجھتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ’’سہگل کے گیت کی چونی کی طرح وہ جوگئی تو گیا سہارا۔ جان گئی۔‘‘ اس لئے آپ جواب دیتے ہیں کہ میاں چھوکرے کیا تم نے ہم کو آغاخاں سمجھ رکھا ہے جو بے تکے سوالات کئے جا رہے ہو۔ تم نوکری کی تلاش میں ہو یا بادشاہت ڈھونڈھتے ہو۔ یہاں تو بازار جانے کے لئے کوئی سواری نہیں ہے۔

    وہ آدمی سمجھ دار ہے یہ جان کر کہ ان تلوں میں تیل نہیں کہتا ہے کہ صاحب مجھے کیا اگر سواری نہ ہوگی تو بازار سے لوٹنے میں دیر ہواکرے گی اور گھر کے کام میں ہرج ہوگا۔ میں نے آپ کے فائدے کے لئے ہی یہ پوچھا تھا۔

    بیوی کہتی ہیں کہ جب کبھی گھر میں سائیکل موجود ہو اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس قطعی فیصلہ کے بعد اب کچھ اور کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہتی حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ یہ نوکروں کے پایہ کے لوگ کس طرح سائیکل چلاتے ہیں۔ ایڑیاں پیڈل پر ہوتی ہیں، سائیکل تیزی سے چل رہی ہوتی ہے اور وہ سنیما کے اشتہار اور ایسی ہی جاذب نظر چیزوں پر آنکھیں چسپاں کئے رہتے ہیں۔ سائیکل موٹر سے ٹکرا جائے تو ان کی بلا سے کیوں کہ نقصان مالک کا ہوگا اور بہرحال جنتا موٹر والے کو پکڑ کر حوالات میں پہنچا آئےگی۔ ان معاملات میں عام تصور یہی ہے کہ قصور موٹر والے کا ہی ہوتا ہے۔

    بہرحال یہ انٹرویو خیر خیر کر کے ختم ہوتا ہے۔ نوکر صاحب ملازم ہو جاتے ہیں اور بیوی کا جواب دے دے کر گلا بیٹھ جاتا ہے۔ ایسے انٹرویو کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ نوکری ڈھونڈھنے والے سوالات کرتے ہیں اور نوکر رکھنے والوں کو جواب دینے ہوتے ہیں۔ میں اکثر سوچا کرتا ہوں کہ کاش مجھے بھی کبھی ایسے انٹرویو کرنے کا موقع پرماتما دے کہ جس میں میں سوال کر سکوں۔ اب تک تو صورت حال یہ رہی ہے کہ تعلیم کے زمانے سے جو جوابات دینے شروع کئے تو ملازمت حاصل کرنے کے لئے اور شادی کے بعد سے بیوی کے علاوہ نوکر کے سوالات کے جواب دے رہا ہوں۔

    مأخذ:

    ٹھنڈی بجلیاں (Pg. 56)

    • مصنف: بھارت چند کھنہ
      • ناشر: ادارہ ادبیات اردو، حیدرآباد
      • سن اشاعت: 1961

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے