Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیا شکنجہ

کنہیا لال کپور

نیا شکنجہ

کنہیا لال کپور

MORE BYکنہیا لال کپور

    پارلیمنٹ میں ایک نہایت اہم تقریر

    مسٹر اسپیکر!پارلیمنٹ کا یہ غیر ضروری اجلاس ہے، اسے منعقد کرنے کی بالکل ضرورت نہ تھی۔ملک کی بد قسمتی سے انتخابات ہم نے بھاری اکثریت حاصل کر کے پارلیمنٹ میں ایسی مضبوط پارٹی بنا لی ہے کہ ہم اقلیت کے معقول سے معقول مطالبے بھی رد کر سکتے ہیں جیسا کہ بہت دنوں سے کر رہے ہیں اور تھوڑے دن اور کرسکیں گے۔ اس غیر ضروری اجلاس میں غیر قانونے نقطے پیش کئے جائیں گے۔ ’’قانونی‘‘ کہنا بھی تکلف ہے۔ ورنہ وہ نقطے ایسے ہیں کہ ان کا کسی قانون سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ نقطے کسی ایسی پارلیمنٹ میں پیش کئے جاتے جس کے افرادذی ہوش اور سمجھ دار انسان ہوتے تو شاید دہلی کی بجائے مجھے آگرہ میں منتقل کر دیا جاتا تاکہ اپنے دماغی توازن۔۔۔ خیر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس ہاؤس میں ایسا کوئی خطرہ نہیں۔

    ہاؤس کو یاد ہوگا، آخر ہاؤس کا حافظہ اتنا کمزور نہیں اور اگر کمزور ہو تو مجھے بخوبی یاد ہے۔ ہاؤس کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ہاؤس کو یاد ہوگا کہ چند سال میرا مطلب ہے چند مہینے ہوئے ہم نے ملک کے لئے ایک ’’نیا آئین‘‘ تیار کیا تھا۔ اس آئین کا ملک کے بے سمجھ حلقوں میں کافی خیر مقدم کیا گیا۔ چند غیر ممالک نے بھی اس کی بہت تعریف کی۔ یہ غیر ممالک وہ تھے جن کے آئین سے ہم نے کافی حصے حرف بحرف نقل کر لئے تھے۔ مجھے افسوس ہے کہ یہ آئین مرتب کرتے وقت جلد بازی سے کام لیا گیا۔

    ہاؤس کو یاد ہوگا کہ ہم نے اسے مرتب کرنے کیلئے محض تین سال کا مختصر عرصہ صرف کیا تھا۔ اس قلیل عرصے میں ایک معیاری آئین مرتب کرنا نا ممکن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں کافی نقائص رہ گئے۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اس آئین میں وقت بے وقت تبدیلیاں کرتے رہیں گے تاکہ چند صدیوں کے بعد یہ ایک معیاری آئین بن جائے۔

    آج کے اجلاس میں ایک ترمیم پیش کرنے کی جرأت کرتا ہوں۔ جرأت کا لفظ میں نے غلطی سے استعمال کیا ہے۔ در اصل جرأت کی بجائے ’’ڈھٹائی‘‘ زیادہ بر محل ہوگا۔

    مسٹر اسپیکر! میں آپ کی اجازت سے تجویز کرتا ہوں کہ اس نئی ترمیم کا نام نیا شکنجہ رکھا جائے۔ (گورنمنٹ بنچوں سے تالیا ں اور اپوزیشن سے شیم شیم کی آوازیں) میں سمجھتا ہوںاور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہاؤس بھی یہی سمجھتا ہے کہ کوئی بھی ترمیم ،ترمیم کم اور شکنجہ زیادہ ہونی چاہئے۔

    حضرات! آپ نے تالی نہیں بجائیحالانکہ تالی بجانے کا یہ نادر موقع تھا، بات یہ ہے۔۔۔

    مسٹر اسپیکر! کہ اس شکنجے کی عدم موجودگی میں گورنمنٹ کو بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سب سے بڑی مشکل تو یہی ہے کہ گو ہم کافی لوگوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ تا ہم بہت سے ایسے لوگ ہیں جو گرفتار ہونے سے بچ گئے ہیں۔ جب تک وہ کسی جرم کا ارتکاب نہ کریں، گورنمنٹ انہیں گرفتار کرنے سے معذور ہے۔ لیکن مسٹر اسپیکر! آخر گورنمنٹ کب تک انتظار کر سکتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جرم نہ کرے تو اسے گرفتار ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عجب اندھیر ہے یعنی گورنمنٹ تمام عرصہ ہاتھ پر ہاتھ دھرکر بیٹھی رہے۔ کہ کب کوئی شخص جرم کرتا ہے میں ہاؤس سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ گورنمنٹ کی بے بسی ملاحظہ فرمائے اور اس کے بعد فیصلہ کرے کہ آیا گورنمنٹ نیا شکنجہ مرتب کرنے میں حق بجانب ہے یا نہیں۔ (اپوزیشن، بالکل نہیں، بالکل نہیں) مسٹر اسپیکر! آپ اپوزیشن سے خاموش رہنے کے لئے کہئے۔ کیونکہ اب میں مختصراً اس نئے شکنجے کی تشریح کرنا چاہتا ہوں۔

    نئے شکنجہ کی دفعہ ایک کی رو سے کسی شخص کو سچ بولنے کہنے یا لکھنے کی اجازت نہ ہوگی۔

    (توضیح) کانے کو کانا، اندھے کو اندھا، بہرے کو بہرا، قحط کو قحط،بد انتظامی کو بد انتظامی، رشوت کو رشوت ،ٹیکس کو ٹیکس، چور بازاری کو چور بازاری، کہنا سچ ہے۔ جو شخص بولنے، کہنے یا لکھنے کا مرتکب ہو گا اسے فورا نظر بند کر دیا جائے گا۔ اگرو ہ لیکھک ہے تو اس کا قلم توڑ دیا جائے گا اور دوات ضبط کر لی جائے گی۔ اگر وہ سیاست داں ہے تو اسے غدار کا لقب دے کر بدنا م کیا جائے گا۔ اگر وہ مقرر ہے تو اس کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے گی۔

    مسٹر اسپیکر! میرے خیال میں یہ سزائیں کافی عبرت ناک ثابت ہوں گی۔ بین الاقوامی حالات بھی کچھ ایسے ہیں کہ ہم ان سے زیادہ سخت سزائیں نہیں دے سکتے۔ ورنہ میرا تو خیال ہے کہ ایسے اشخاص کو زندہ جلا دیا جائے تاکہ وہ سچ بولنے کی شرمناک عادت سے توبہ کریں۔

    نئے شکنجے کی دفعہ دو کی رو سے ہر اس شخص کو گرفتار کیا جائے گا جس نے کوئی جرم نہیں کیا ہے لیکن جس سے جرم کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ حضرات! توقع کا لفظ غور طلب ہے۔ جرم کرنے کی توقع ہر شخص سے کہ جو ہماری پارٹی کا ممبر نہیں ہے،کی جا سکتی ہے۔ صرف ہماری پارٹی ہی ایسی ہے جو جرائم کا ارتکاب کرتی ہوئی بھی جرائم کا ارتکاب نہیں کرتی۔ باقی سب پارٹیاں ایسی ہیں کہ ان کے افراد سے مہینے کی کسی تاریخ اور دن کے کسی وقت بھی جرم کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ شاید میں اپنا خیال آپ پر واضح نہیں کر سکا۔ اگر آپ اسے ڈھٹائی نہ سمجھیں تو میں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ ہم محض شک کی بنا پر بہت سے لوگوں کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ شک کی چند مثالیں دے کر میں یہ لفظ اور زیادہ واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔

    (۱) آپ اس وقت پاگل نہیں ہیں۔ لیکن ہمیں شک ہے کہ آپ کسی وقت بھی پاگل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے پاگل خانہ۔۔۔ بھجوا دینے میں آپ کی بھلائی

    (۲) آپ کی بیوی کا چال چلن ٹھیک ہے لیکن نہ معلوم وہ کس وقت کسی غیر آدمی کے ساتھ بھاگ جائے۔ اس لئے آپ کو ابھی سے اسے طلاق دے دینا چاہئے۔

    (۳) آپ کا مکان اچھی حالت میں ہے لیکن کون جانتا ہے کہ کب اس کی چھت نیچے آ رہے۔ اس لئے مکان کو فوراً گرا دیجئے۔

    (۴) جس اجنبی سے ابھی ابھی آپ کا تعارف ہوا ہے وہ شریف آدمی ہے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ وہ پندرہ منٹ کے بعد شرافت کو خیر باد کہہ کر آپ پر حملہ نہیں کرے گا۔ اس لئے آپ اس پر فوراً حملہ کیجئے۔

    ان مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ دنیا میں اپنے سوا یعنی اپنی پارٹی کے افراد کے سوا کسی پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ’’احتیاط علاج سے بہتر ہے۔‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ہمیں باقی تمام پارٹیوں کو نظر بند کر دینا چاہئے۔

    نئے شکنجے کی دفعہ تین۳ کی رو سے گورنمنٹ کو ہر اس شخص کو گرفتار کرنے کا حق ہوگا۔ جس سے گورنمنٹ کو خواہ مخواہ ڈر لگتا رہتا ہے۔ مسٹر اسپیکر! آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ملک میں ایسے لوگوں کی بھاری تعداد موجود ہے جن کے محض تصور سے گورنمنٹ لرزہ بر اندام ہو جاتی ہے۔ میں ہاؤس کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ اشخاص اکثر میرے خوابوں میں آکر مجھے ڈراتے رہتے ہیں۔ پر سوں رات تو مجھے اتنا ڈر لگا کہ مارفیا کے ڈبل انجکشن کے باوجود نیند نہیں آئی۔ میں ہاؤس سے پوچھتا ہوں، ان لوگوں کو کیا حق ہے کہ وہ ہماری نیندیں حرام کردیں۔ کبھی فلک شگاف نعرے لگا کر کبھی لال لال جھنڈے دکھا کر کبھی ہمارے فریق کی قلعی کھول کر، کبھی ہماری جہالت پر طنز کر کے، کبھی ہماری بیہودگیوں کا مذاق اڑا کر۔ میں سچ کہتا ہوں، ان لوگوں نے ہمارے اعصاب کا جو حال کر رکھا ہے وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ مسٹر اسپیکر! آپ کی اجازت سے میں ہاؤس کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب تک ایسے لوگ جیل کی کوٹھریوں میں بند نہیں کئے جائیں گے کم از کم میں آرام سے نہیں سو سکونگا۔ حضرات کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ کا محبوب لیڈر ساری ساری رات ڈر کے مارے سو نہ سکے اور یہ لوگ اسے ڈرا ڈرا کر ادھ موا کر دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہاؤس میں کوئی سنگدل انسان نہیں جو یہ چاہتا ہو۔

    مسٹر اسپیکر! آخر میں صرف اتنا عرض کرنا باقی ہے کہ ہم نے جو نیا آئین بنایا تھا، وہ بالکل لغو اور فضو ل تھا۔ ہاؤ س کو یاد ہوگا کہ اس آئین میں ہم نے ہر شخص کی آزادی تقریر و تحریر کا حق دیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں یہ ہماری غلطی تھی۔ہم اس کے لئے نادم ہیں،ہم نہایت عاجزی سے مرحوم باپو کی روح سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس غلطی کے لئے معاف کر دیں۔اگر وہ نہ بھی معاف کریں تو چنداں مضائقہ نہیں کیونکہ مرحوم اب وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں سے وہ صرف ہماری حرکتوں پر ’’لاحول‘‘ پڑھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔

    مأخذ:

    بال و پر (Pg. 164)

    • مصنف: کنہیا لال کپور
      • ناشر: لاجپت رائے اینڈ سنز، دہلی
      • سن اشاعت: 1953

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے