Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پابندی کی اوقات

محمد یونس بٹ

پابندی کی اوقات

محمد یونس بٹ

MORE BYمحمد یونس بٹ

    میں وقت کا اس قدر پابند تھا کہ عین اس وقت دوسروں کے گھر پہنچتا، جب وہ کھانا شروع کرنے لگتے۔ لیکن جب سے میرے پروفیسر دوست ایک تقریب میں پابندی وقت پر تقریر کرکے لوٹے ہیں، میں نے اس پابندی سے آزادی کا اعلان کردیا ہے۔

    پروفیسر موصوف مقامی کالج میں لیکچرار ہیں۔ لیکچرار کی تعریف یہ ہے کہ وہ شخص جو دوسروں کی نیند میں بولتا ہے۔ لیکن ہمارے پروفیسر صاحب کی کلاس میں تو کوئی نہیں سو سکتا۔ بہت بلند بولتے ہیں۔ جب وہ میرے کلاس فیلو تھے، تب بھی کلاس میں کسی کو سونے نہ دیتے۔ ان کے خراٹوں کی وجہ سے پاس سوئے ہوئے کی فوراً آنکھ کھل جاتی۔ جب سے پروفیسر طاہر القادری صاحب نے لیکچرار اور پروفیسر کے فرق کو ختم کیا ہے، وہ بھی پروفیسر کہلانے لگے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہی نہیں خود کو پائے کا لیڈر بھی سمجھتے ہیں۔ یوں ہمارے ہاں چھوٹے پائے بڑے پائے کے لیڈر ہی ہیں بڑے سر کے لیڈر کم ہیں۔

    انہیں ایک کونسلر نے پابندی وقت پر تقریر کرنے کے لیے اپنے محلے میں بلایا۔ پروفیسر صاحب اس قدر بااصول ہیں کہ ٹریفک کی سرخ بتی پر سائیکل کو لٹا کر کپڑے جھاڑتے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بتی سبز ہوتی ہے تو سائیکل پر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، بتی پھر سرخ ہو جاتی ہے اور وہ وہیں لال پیلے ہوتے رہتے ہیں۔ اس قدر تیز چلتے ہیں کہ جب تک آپ رک نہ جائیں، آپ کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ چل رہے ہیں۔ بال بنانے میں اتنی دیر لگاتے ہیں جتنی امجد اسلام امجد، جو ہر بال سنوارنے میں آدھ منٹ لگاتے ہیں، یوں انہیں صرف بال سنوارنے میں دس منٹ لگتے ہیں جب کہ پروفیسر صاحب کو بھی لگتے تو دس منٹ ہی ہیں مگر یہ بال سنوارنے میں نہیں، بال ڈھونڈنے میں لگتے ہیں۔ شیو یوں آہستہ آہستہ کرتے ہیں کہ جتنی دیر میں شیو مکمل کرتے ہیں، اتنی دیر میں وہ دوبارہ اتنی ہی بڑھ چکی ہوتی ہے۔ ’’فارغ البال‘‘ ہونے کی وجہ سے انہیں منہ بھی دور تک دھونا پڑتا ہے۔ سو ابھی انہوں نے منہ دھونا شروع ہی کیا تو میں نے برین واشنگ شروع کردی، یوں بھی برین واشنگ آج کل اتنی اہمیت حاصل کرگئی ہے کہ امریکہ میں ۹۴ فی صد گھرانوں میں ٹی وی سیٹ تو موجود ہیں مگر نہانے کے ٹب صرف ۹۱ فیصد گھرانوں میں ہیں۔

    ویسے بھی میں اس قدر صفائی پسند ہوں کہ جس کے پیچھے پڑتا ہوں، ہاتھ دھوکر پڑتا ہوں۔ سومیں نے انہیں قائل کیا کہ بقول شیکسپئر ’’تین گھنٹے پہلے جانا ایک منٹ دیر سے جانے سے بہتر ہے۔‘‘ کیونکہ وہ دیر کرنے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔ یہ ان کی پیدائشی خوبی ہے۔ پیدا بھی دسویں مہینے ہوئے۔ شام کو تقریب سے لوٹے تو لوٹے کم اور لٹے زیادہ لگتے تھے، آکر خاموشی سے بیٹھ گئے۔ حالانکہ مقرر، ڈاکٹر اور بیوی کی خاموشی کوئی اچھا شگون نہیں ہوتی۔ سیاست دانوں کی تو نبض بھی نرس ۷۲ فی منٹ بتائے تو اس کا مطلب ہوگا، ’’۷۲ الفاظ فی منٹ۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘

    ’’بڑی بے عزتی ہوئی۔‘‘

    ’’کوئی نئی بات بتاؤ۔ تمہیں کہا تھا وقت پر نہیں پہنچوگے تو ایسا ہوگا۔‘‘

    ’’وقت پر پہنچا تھا اسی لیے تو بے عزتی ہوئی۔‘‘

    ہوا یوں کہ جب پروفیسر صاحب عین وقت پر جلسہ گاہ پہنچے تو جلسہ ابھی گاہ تک نہیں پہنچا تھا۔ جمعدار جھاڑو دے رہا تھا۔ ٹینٹ والے سامان اتار رہے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی موصوف کو نہیں پہچانتا تھا۔ سو انہوں نے کہا، ’’ذرا صاحب! دوسری طرف سے پکڑنا، آپ ہی کا کام کر رہے ہیں۔‘‘ جب تک کونسلر صاحب آئے، موصوف کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ جب تک کوئی باقاعدہ تعارف نہ کرواتا، یہ خود کو بھی نہ پہچان سکتے۔ اوپر سے شکل اللہ نے ایسی دی کہ ریلوے میں سفر کریں تو ٹکٹ چیکر سب سے پہلے ان کا ٹکٹ چیک کرتا ہے اور سمجھتا ہے اگر ان کے پاس ٹکٹ ہے تو ڈبے کے ہر مسافر کے پاس ہوگا۔ بہرحال انتظامیہ نے انہیں کرسی صدارت پر بٹھا بلکہ لٹا تو دیا مگر ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھتے رہے کہ فارغ تھے جوبہت جلدی آگئے۔ ان کے خیال میں صدارت کے شوق نے پروفیسر صاحب کو اتنی جلدی وہاں پہنچوایا تھا۔

    ویسے دیکھا جائے تو یہ ہے بھی ٹھیک، ہم آزاد قوم ہیں۔ پابندی چاہے وقت کی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی ہمارے سامنے کیا اوقات! دیر کرنے میں تو ہم ذرا دیر نہیں کرتے۔ سابق وزیر اعظم جو نیجو تو ایسے تھے کہ شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے نکلتے تو ولیمے پر پہنچتے۔ آج کا کام کل پر نہ چھوڑتے بلکہ کل کا چھوڑا کام آج ہی کر لیتے۔ یوں دیکھا جائے تو آپ اکیلے جلدی کریں گے تو دیر تو ہوگی۔ اندھوں میں پہلے وہ گرتا ہے جسے تھوڑا نظر آتا ہے۔ آپ وقت کی پابندی کرکے زیادہ سے زیادہ وہ کام صرف ایک ہفتے میں کرلیں گے، جسے دوسری صورت میں پورے سات دن لگ جائیں گے۔

    کہاوت ہے، ’’دیر آید درست آید۔‘‘ اپنی آمد درست ثابت کرنے کا اب ایک ہی طریقہ ہے، دیر سے آئیں۔ جتنی دیر آپ دوسروں سے انتظار کراتے ہیں، در اصل اتنی دیر آپ ان سے اپنا ذکر کرواتے ہیں۔ اہم آدمی اس وقت آتا ہے جب سب آچکے ہوتے ہیں اور اس کی آمد کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ دیر سے آنا در اصل عام سے خاص ہونے کا عمل ہے۔ آپ دیر سے آکر کہیں کہ بہت مصروفیت تھی، صرف آپ کی خاطر چند منٹ نکال کر آیا ہوں۔ یوں انہیں اپنی اہمیت کا احساس دلائیں کہ جب تک آپ خود کو اہم نہیں سمجھیں گے، کوئی آپ کو اہم نہیں سمجھے گا۔

    مأخذ:

    افرا تفریح (Pg. 10)

    • مصنف: محمد یونس بٹ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے