Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پان کا بادشاہ

محمد یونس بٹ

پان کا بادشاہ

محمد یونس بٹ

MORE BYمحمد یونس بٹ

    اگرچہ وہ پان کی چلتی پھرتی پبلسٹی کمپیین ہیں، لیکن اتنی شہرت انہوں نے پان کونہیں دی جتنی پان نے انہیں دی ہے۔ ویسے تو پان کے ذکر کے بغیر ہمارا بھی حدود اربعہ بیان کرنا دشوار ہے کہ ہم بڑے دھان پان ہیں، لیکن مولانا دھن پان شخصیت ہیں۔ وہ جے۔ یو۔ پی کے تاحیات صدر ہیں یعنی جب تک جے۔ یو۔ پی حیات ہے۔ بول رہے ہیں تو جے۔ یو۔ پی کے کم اور یو۔ پی کے زیادہ لگتے ہیں۔ وہ نام کے ہی شاہ نہیں کام اور پان کے بھی شاہ ہیں۔

    میرٹھ میں پیدا ہوئے مگر پوچھو کہاں پیدا ہوئے تو کہیں گے، ’’گھر میں۔‘‘ بچپن میں فٹ بال کے کھلاڑی تھے۔ فٹ بال اور سیاست میں یہ قدر مشترک ہے کہ اگر فٹ بال گول میں گرانا ممکن نہ ہو تو مخالف کھلاڑی کو گرانے کی کوشش کریں۔ مولانا صاحب میں شروع ہی سے سیاست دان بننے والی خوبیاں موجود تھیں۔ کوچ نے ایک بار کہا کہ اگر فٹ بال نہ چھین سکو تو مخالف کھلاڑی کو ٹانگ مار کر گرانے کی کوشش کرو۔ اس کے بعد کہا ابھی فٹ بال آتا ہے تو کھیل شروع کرتے ہیں۔ اس پر مولانا نے کہا فٹ بال کو چھوڑیں آپ کھیل شروع کروائیں۔ سیاست میں بھی فٹ بال ایم کیو ایم والے لے گئے کیونکہ الطاف حسین حالی تو پانی پت میں پیدا ہوئے تھے مگر ایم کیو ایم کے الطاف حسین بے حالی پانی پت کے میدان میں پیدا ہوئے۔

    ہر وقت ان کے منہ میں پان اور جماعت اسلامی ہوتی۔ دوران گفتگو بات کرتے کرتے جماعت اسلامی پر فقرہ یوں پھینکتے ہیں جیسے پان کھاتے کھاتے پیک پھینکتے ہیں۔ اب تو جماعت اور پاندان کے بغیر کہیں جاتے بھی نہیں۔ گلوری کلے میں یوں دباتے ہیں جیسے کلرک فائل دباتے ہیں۔ منہ ایسا کہ اس میں پان نہ ہو، تب بھی لگتا ہے کہ ہے۔ ہمیں تو پان کھانے کا سلیقہ ہی نہیں آتا۔ یوں شرم سے پان پان ہوتے رہتے ہیں۔ مولانا کو اقوام متحدہ پر محبت آئے تو اسے قوام متحدہ کہیں گے۔ پان اس قدر نفاست سے کھاتے ہیں کہ کیا مجال منہ سے پتہ چلے کہ پان کھا رہے ہیں، قمیض سے پتہ چلتا ہے۔ پانوں کے بعد ان کی دوسری مصروفیات جماعت اسلامی ہے۔ سال میں چند دنوں کے لیے وہ پاکستان کے تبلیغی دورے پر آتے ہیں۔ مذہبی رہنما انہیں سیاست دان سمجھتے ہیں اور سیاست دان انہیں مذہبی رہنما مانتے ہیں۔ ان کے والد محترم کو قائد اعظم نے بیرونی ملک کے دورے پر بھیجا تھا کہ باہر پاکستان کی فضا بہتر بنائیں۔ اب مولانا خود دوروں پر چلے جاتے ہیں تاکہ پاکستان کی فضا بہتر رہے۔ جب تک وہ باہر رہتے ہیں، بہتر رہتی بھی ہے۔

    انہیں دنیا کی ہر اہم زبان آتی ہے جو نہیں آتی اسے اہم نہیں سمجھتے۔ فرانسیسی، فارسی، اردو، انگریزی، اور سواحلی اس قدر روانی سے بولتے ہیں کہ سننے والے کو بہا لے جاتے ہیں۔ ویسے فرانسیسی تو ہم بھی سمجھ لیتے ہیں بشرطیکہ اردو میں بولی جائے۔ عربی پسند ہے۔ گلا تک عربی سے صاف کرتے ہیں۔ اردو تک یوں بولتے ہیں کہ ایک صاحب خربوزے بیچ رہے تھے، ان سے پوچھا، آپ عدداً بیچتے ہیں یا وزناً؟ تو دکان دار نے کہا، مولانا میں خربوزے بیچتا ہوں۔ بڑے بدلہ سنج اور بذلہ سنج ہیں۔ بھٹو مرحوم نے ایک بار کہا، ’’آپ ایک شریف آدمی کی بات پر اعتبار کریں اور میری بات مان لیں۔‘‘ تو مولانا بولے، ’’جس سے ناراض ہوتا ہوں اسے ایک منٹ میں نکال دیتا ہوں۔ دل سے بھی اور پارٹی سے بھی۔‘‘ ان کی پارٹی اتنی ہی بڑی ہے جتنا بڑا ان کا دل ہے۔ وہ دین کو سیاست سے الگ رکھتے ہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو سے حزب اختلاف کی لڑائی میں وقت نماز وہ اپنی جماعت کی الگ جماعت کراتے ہیں اور سیاست میں مفتی محمود کی امامت میں لڑتے۔ ان کی جماعت ملک کی چھوٹی پارٹیوں میں سب سے بڑی پارٹی ہے۔ لیکن وہ پارٹیاں جو اس سے بہت بڑی ہیں یہ ان سے تھوڑی ہی چھوٹی ہے۔ البتہ الیکشن کے دنوں میں جب دوسری پارٹیوں کے سربراہ اپنے ووٹ تلاش کر رہے ہوتے ہیں، یہ اپنے امیدوار تلاش کرتے ہیں۔ دوسری پارٹیوں کا منشور ہی ان کا مسلک ہوتا ہے۔ ان کا مسلک ہی ان کا منشور ہوتا ہے۔

    ایک تاجر سے ہم نے پوچھا کہ مولانا کے سیاست میں آنے سے کیا فرق پڑا ہے؟ تو اس نے کہا، سرمہ نورانی اور پان نورانی زیادہ بکنے لگا ہے۔ مولانا کے مداح ان کے نام کے ساتھ اتنے القاب و آداب لگاتے ہیں جیسے ان جیسے ایک بزرگ نے رات کو ہوٹل کا دروازہ کھٹکھٹایا اور کمرے کے لیے پوچھا۔ اندر سے آواز آئی کون؟ کہا ہم ہیں علامہ سرکار شریعت، حافظ قادری صوفی چشتی صابری ثم لاہور تو چوکیدار نے گھبرا کر اندر ہی سے جواب دیا، معاف کیجیے صاحبان، ہوٹل میں اتنے آدمیوں کے لیے جگہ نہیں۔

    سیاست میں ہم خیال جماعت سے اتحاد کرتے ہیں۔ ہم خیال سے مراد وہ جو ان کی ’’ہم‘‘ کا خیال رکھے۔ اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد اتنی ہوتی ہے کہ ساتھ تقریباً لگانا پڑتا ہے۔ گول میز کانفرنس کا اتنا ذکر کرتے ہیں کہ مریدوں نے گھر کی میزیں گول کرنا شروع کردیں۔ اگرچہ کانفرنس وہ جگہ ہوتی ہے جہاں لوگ وہ کہتے ہیں جو کرنا چاہیے اور جلوس وہ جگہ ہوتی ہے جہاں لوگ وہ کرتے ہیں جو کہنا چاہیے۔ بہرحال وہ کہتے ہیں ملک کے دوٹکڑے اس لیے ہوئے کہ یحیی خان کے پاس گول میز نہ تھی، لیکن بقول پگاڑہ مولانا کے گھرمیں تو میز ہی نہیں، گول میز تو دور کی بات ہے۔ موصوف کا گھر محلے میں ہے جب کہ سیاست دانوں کے گھر میں تو کئی محلے ہوتے ہیں۔ پوچھو گھر سجانا ہو تو کیا کرتے ہیں؟ کہیں گے خود گھر آ جاتا ہوں۔ ’’خواتین‘‘ کا بے نظیر احترام کرتے ہیں۔

    مولانا دو ہزار کافر مسلمان کر چکے ہیں۔ میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے کہ ہم تو ایک کافر کو ہی بمشکل مسلمان بنا سکے۔ دوسری کو بنانے لگے تو پہلی نے کیس کردیا۔ دوران گفتگو عروسی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یوں پہلو بدلتے ہیں جیسے رامے صاحب پارٹیاں بدلتے ہیں۔ گفتگو میں الفاظ کا انتخاب کرتے ہوئے لگتے ہیں جمعیت علمائے پاکستان کے عہدہ داران کا انتخاب کر رہے ہیں۔ مولانا الیکشن میں صرف اسے کھڑا کرتے ہیں جو کھڑا ہوتا رہا ہو۔ یعنی انہیں دیکھ کر کھڑا ہوتا رہا ہو۔ ان کے پی اے سے وقت لیے بغیر کوئی انہیں نہیں مل سکتا، بلکہ لگتا ہے وہ اپنے پی اے سے وقت لیے بغیر خود سے بھی نہیں ملتے۔ مزاج اور مزاح برا ہو تو بہت برا لگتا ہے بہت اچھا ہو تو صرف اچھا لگتا ہے۔ مخصوص انداز سے بولتے ہی نہیں، چپ بھی مخصوص انداز سے ہوتے ہیں۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں، لیکن جسے معاف کرنا چاہیں، اسے اینٹ کا جواب اینٹ ہی سے دیتے ہیں۔ ان کا مشورہ بھی کارکنوں کے لیے حکم ہوتا ہے۔ مرید تو ان کی تجویز کو بھی تعویز سمجھتے ہیں۔ اس قدر انا کہ کوئی کہہ دے کہ آپ تو بوڑھوں کی طرح چلتے ہیں تو کہیں گے، نہیں بوڑھے میری طرح چلتے ہیں۔

    وہ جگہ جہاں ناپسندیدہ افراد کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے، سسرال کہلاتی ہے۔ اور مولانا صاحب کی بیوی سعودی عرب کی ہیں۔ صحافیوں میں ان کی افطاری کی بریانی بہت مشہور ہے۔ وہ اتنی لذیذ ہوتی ہے کہ اگر مولانا سیاست نہ بھی کرتے، تب بھی انہیں روزگار کی فکر نہ ہوتی۔ لوگ ان سے اپنا نکاح اور دوسرے کا جنازہ پڑھوانا بڑی سعادت سمجھتے ہیں اور اکثر مذہبی لوگ ہر سال یہ سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہر کام مسلمانوں کے لیے کرتے ہیں۔ وہ تو پان بھی یوں کھاتے ہیں جیسے مسلمانوں کے لیے کھا رہے ہو۔ یہی نہیں وہ تو کہتے ہیں میں پان نہیں کھا رہا ہوتا، در اصل مسلمانوں کی امداد کر رہا ہوتا ہوں کیونکہ پان انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے آتا ہے اور زیادہ تر اس کا مسلمان ہی کاروبار کرتے ہیں۔ یوں اگر میں نے پان چھوڑ دیے تو مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔

    مزاروں پرہم نے کسی پیر کو جاتے نہیں دیکھا، مریدوں کو ہی دیکھا جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پیر مزار کے اندر ہوتے ہیں۔ لیکن مولانا پہلے سیاست دان ہیں جن کی الیکشن کمپین میں مردے بھی زندوں کی طرح حصہ لیتے ہیں۔ ان کے سیاست میں آنے سے پہلی بار ’’مزار‘‘ کا لفظ سیاست میں آیا کیونکہ وہ ’’مزاری‘‘ سیاست دان ہیں۔

    مأخذ:

    مزاح بخیر (Pg. 26)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے