Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پروٹوکول

MORE BYمشتاق احمد یوسفی


    (PROTOCOL ، تشریفات)
     
    بہت کام رفو کا نکلا
    چپراسی نے آکر کہا، ’’صاحب سلام بولتا ہے۔ حرامی کی عینک کھو گئی ہے۔ آپ کو انگلش گالیوں کا ترجمہ کرنے کو بلا رہا ہے۔‘‘ 
     
    اینڈرسن کے حضور پیش ہونے سے پہلے ہم نے ایک غیر متعلق فائل ہاتھ میں لے لی جسے CASUAL انداز سے پیچھے لگا لینے سے گرم پتلون کی سیٹ کے سوراخوں، ہوادانوں اور رفو در رفو کی سترپوشی ہوجاتی تھی۔ (ابھی جوؤں کی نرسری یعنی JEANS ایجاد نہیں ہوئی تھی۔) اس نے کبھی نہیں پوچھا کہ برخوردار تم اس فائل کو ہر وقت سینہ بلکہ کولہوں سے کیوں لگائے پھرتے ہو۔۔۔ تم ہنس دیے، تم چپ رہے، منظور تھا پردہ مرا۔ 
     
    میز کے سامنے ہم اس کی ناک کی سیدھ میں کھڑے ہوگئے۔ یہ اس لیے کہ جہاں اس کی ذات و اعضا سے اور بہت سے شرعی و غیرشرعی عیب منسوب تھے، وہاں یہ بھی مشہور تھا کہ ایک کان سے اونچا سنتا ہے۔ کوئی دایاں بتاتا، کوئی بایاں۔ غالباً وہ خود بھی صحیح تشخیص نہیں کرپایا تھا۔ ہاتھ کا سوالیہ نشان کبھی دائیں اور کبھی بائیں کان کے گرد بنا کر بات مکرر سنتا۔ چپراسی کہ مقرب بارگاہ اور مصنف مزاج واقع ہوا تھا، کہتا تھا کہ دونوں کان آدھے آدھے بہرے ہیں۔ چنانچہ توازن سماعت برقرار رکھنے کا ہم نے یہ غیر جانبدارانہ زاویہ دریافت کرلیا تھا۔ 
     
    چہرہ عورت کا اور دھڑ؟ فرمایا، ’’پہلی بات تو یہ کہ صبح سے میری عینک لاپتہ ہے۔ اس باسٹرڈ سے پوچھتا ہوں تو منہ ہی منھ میں ورنا کیولر گالیاں بکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کچھ دن سے دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا ہے۔ مجھے زرد رنگ پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اس رنگ کی صحیح جگہ وہ نہیں جہاں تم نے لگا رکھی ہے۔ تمہارے چہرے کا ایکسپریشن ہر وقت ایسا رہتا ہے جیسا بجٹ کے بعد بزنس مین کا۔ دبلے ہوتے جارہے ہو۔ تمہارے پتلون کی کمر ڈھیلی ہوگئی ہے اور تم نے بینک کے اسٹیشنری ڈپارٹمنٹ کی پن لگارکھی ہے۔ پاپنچے بھی کافی ڈھیلے ہوگئے ہیں۔ تمہیں کھلی کھلی فضا اور تازہ سمندری ہوا کی ضرورت ہے۔ اشد۔ پرسوں سہ پہر ایک جرمن مال بردار جہاز سے مسز شوارز پہنچ رہی ہے۔ پہنچ رہی ہے کیا معنی، پہنچ چکی۔ جہاز کل سے برتھ کے انتظار میں کھڑا ہے۔ مگر نہ معلوم کیوں ڈس ایمبارک ہونے کی اجازت پرسوں ملے گی۔ اس کا شوہر کھلنا میں تعینات ہے۔ تم اور یعسوب ویسٹ وہارف پر اس کا شایانِ شان استقبال کرو۔ 
     
    سوا دو مہینے لگے ہیں اس سفر میں۔ آرام اور لذیذ کھانے کے لیے، کارگو بوٹ سے زیادہ رئیسانہ سفر کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ صرف ایک کیبن ہوتا ہے۔ جہاز کا سارا عملہ اکلوتے مسافر کے آگے پیچھے پھرتا ہے۔ ڈرنکس نہ صرف مفت بلکہ اتنے وافر کہ محسوس ہوتا ہے گویا وہسکی کے ڈرم میں بیٹھے ہزاروں میل بہے چلے جا رہے ہیں۔ جی چاہتا ہے خدا کرے منزل مقصود کبھی نہ آئے۔ بحری جہاز کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کا ایئر کریش نہیں ہوتا۔ کم از کم میرے علم میں تو نہیں۔ پرسوں وقت سے پہلے گودی پہنچ جانا۔ تمہیں اس عورت کو پہچاننے میں زیادہ وقت نہیں ہوگی۔ کس واسطے کہ اول تو تم بہت ذہین آدمی ہو۔ دوم، اس جہاز میں سوائے اس کے سب مرد ہیں۔ دو سال پہلے ملی تھی تو اپنی عمر ۳۵ سال بتاتی تھی۔ اب کا پتہ نہیں ۳۵ تک پہنچتے پہنچتے عورت، مصری SPHINX (ابو الہول) ہو جاتی ہے۔ چہرہ عورت کا اور دھڑ وغیرہ شیر ببر کا! ہاہاہاہا! تمہاری عمر کیا ہے؟ 
     
    اچھا تو پروٹوکول میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ تم میری نمائندگی کروگے اور یعسوب پاکستان کی۔ پروٹوکول سے واقفیت ضروری ہے۔ ایک دن تمہیں برٹش ہائی کمشنر سے بھی ملواؤں گا۔ تمہاری ٹریننگ میرا ذمہ ہے۔ قاعدے سے تو مہمان کو لینے مجھے خود جانا چاہیے تھا۔ لیکن میں ان گوبھی کھانے والے نازیوں کا دماغ خراب کرنا نہیں چاہتا۔ تمہیں شاید معلوم نہ ہو، ہم جرمنی کو KRAUTLAND یعنی گوبھی خوروں کا ملک کہتے ہیں۔ اس کے سامنے گوبھی کا نام نہ لینا۔ ورنہ منہ نوچ لے گی۔ اور تمہارے منھ پر، نچوانے کے لیے، عینک کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔‘‘ 
     
    مشورے ہو رہے ہیں آپس میں
    فائل کا عقبی نقاب ڈالے ہم اس کوچے سے یوں بے آبرو ہو کر نکلے۔ باہر آکر ہم نے اپنے باس مسٹر یعسوب الحسن غوری کو یہ مژدہ سنایا تو ان کی کلغی ڈھلک کر ایڑی سے آلگی۔ مصیبت یہ تھی کہ ہم نے کوئی بحری جہاز نہیں دیکھا تھا۔ اور نہ انہوں نے ۳۵سالہ جرمن عورت۔ لہٰذا تشریفاتی مہم پر روانگی سے پہلے دونوں نے ایک دوسرے کے معلوماتی خلا کو پر کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً ہم نے پوچھا، پانی کا جہاز تو منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد بھی غالباً پانی میں ہی کھڑا رہتا ہے یا ’لینڈ‘ کرتا ہے۔ ریل کی طرح سیٹی دیتا ہے یا ہوائی جہاز کی طرح بغیر ہارن کے چھٹا پھرتا ہے؟ بحیرۂ عرب کی سطح آب، سطح کراچی سے، اور سطح جہاز ان دونوں سے کتنی اونچی یا نیچی ہوگی؟ نسینی لگانی پڑے گی؟ مال بردار جہاز سے پسنجر کس طرح چھڑایا جاتا ہے؟ طوفان اور بجلی کے ڈر سے تنہا عورت ذات لوہے لکڑ سے لدے ہوئے کارگو اسٹیمر میں کس سے چمٹتی ہوگی؟ جہاز میں کھمبا ہوتا ہے؟ 
     
    انہوں نے بھی ۳۵سالہ جرمن عورت سے متعلق کچھ ایسے ہی مبتدیانہ سوال اٹھائے۔ ہم تو خیر تھے ہی ریگستان کے رہنے والے، لیکن وہ بھی کچھ کم پیاسے نہیں نکلے۔ ان کا بچپن ایک چھوٹے سے گاؤں میں گزرا تھا اور وہ آج بھی عورت کا تصور، سر پر گھڑے کے بغیر کر ہی نہیں سکتے تھے۔ جیسے جیسے سوال ہوئے، ایک دوسرے کی لاعلمی پر ترس آنے لگا۔ اس وقت ان کی داڑھ میں شدید درد تھا جس کی وجہ سے جبڑا کان تک سوجا ہوا تھا۔ چہرے کا یہ نصف حصہ بالکل نارمل اور بھلا معلوم ہوتا تھا۔ دوسرے نصف حصے میں بے شمار جھریاں اور ایک گڑھا تھا جسے صرف ورم سے پر کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے بمبئی سے کراچی ہجرت مال بردار جہاز میں کی تھی، جس کا برا بھلا اسکیچ بناکر ہمارے جذبہ تجسس کی تھوڑی بہت تسکین کردی ورنہ ہمیں تو بچپن میں پانی کی تخلیق و مصرف کے بارے میں کچھ اور ہی اطلاع فراہم کی گئی تھی جس میں جہاز اور جرمن خاتون، دوربین سے بھی نظر نہیں آتے تھے، 
     
    آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تونے
    مچھلی کے تیر نے کو آبِ رواں بنایا
     
    لیکن ہمیں محسوس ہوا کہ جب تک ان کی داڑھ، جبڑے سے، بلکہ جبڑا داڑھ سے علیحدہ نہ کردیا جائے، جرمن عورت کا سراپا ان کے متورم دماغ میں نہیں گھس سکتا۔ انہوں نے صرف مال بردار جہاز اور ہٹلر کا فوٹو دیکھا تھا اور انہی پر جرمن عورت کے ہیولے کو قیاس کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ واحسرتا کہ عورت کے باب میں ہمارا سرمایہ حکمت ’کتابِ آلودہ‘ تھا اور کتابِ حکمت مردم خوردہ۔ آنے کو تو وہ رت بھی آئی جس کا نام کوئی دیوانی کہے بغیر نہیں لیتا، پر۔۔۔ مٹی ترسی، بوند نہ برسی، بادل گھر گھر آئے بہت۔ 
     
    سچ تو یہ ہے کہ ہمیں زندگی کے بنیادی کوائف و حقائق اور اپنی ادھوری جوانی کے خلاؤں کا علم و انکشاف بھی فلموں ہی کے ذریعے ہوتا رہتا ہے۔ راز و نیاز اور بے تکلفی تو بڑی بات ہے، ہم نے تو کسی خاتون کے سامنے کبھی موزے بھی نہیں اتارے۔ آج بھی ہمارے جذبات منھ کھول کر اپنا نام نہیں بتاسکتے۔ جن سنگ دل حسیناؤں پر ہماری جوانی کی ہائے پڑی ان کے مہاسے نکل آئے۔ بعضی بعضی کے تو جڑواں بچے بھی ہوئے۔ بالآخر یہ طے پایا کہ پرسوں یعنی اتوار کو ہم دس بجے ان کے ہوٹل پہنچ جائیں۔ وہاں باہمی صلاح مشورے سے ایک دوسرے کی تشنگی علم رفع کی جائے گی۔ 
     
    ہم ٹھیک دس بجے سندھ اسلامیہ ہوٹل پہنچ گئے۔ کمرے کے تین کونوں میں تین چارپائیاں پڑی تھیں اور چوتھے میں ایک ماچا۔ ہمارا سر اس کے پائے کے شانے تک آتا تھا۔ یہ بینک کے چار افسروں کا کچھار تھا، جنہیں مختلف برانچوں سے بسبب ضعیف العمری، نااہلی، شورہ پشتی، آدم/ رشوت خوری تبادلہ کر کے یہاں ایک دوسرے پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ جیل میں اناڑی چور اچکے اور معمولی جیب کترے عادی مجرموں اور خونیوں کے سامنے تھر تھر کانپتے ہیں۔ سو یہی کیفیت ہماری تھی۔ یہاں کمرے کے ہر کونے میں ایک فرعونِ بے ساماں پڑا تھا، اپنے اپنے بوریے پر جو گدا تھا شیر تھا۔ (پروفیسر قاضی عبد القدوس کا خیال ہے کہ شاعر نے دونوں جگہ جانوروں ہی کے نام باندھے تھے، لیکن کاتب نے سہواً شیر کے پہلو میں گدا بٹھا دیا۔) 
     
    دو چارپائیاں اور ماچا تو آباد تھے۔ البتہ یعسوب الحسن غوری کی جھلنگی چارپائی بے چراغ پڑی تھی۔ ٹوٹے ہوئے بانوں کی داڑھیاں کہیں خشخشی، کہیں چگی، کہیں بھرواں یک مشت دو انگشت، اور بیچ میں شرعی حدود سے تجاوز کرکے زمین پر جھاڑو دے رہی تھیں۔ اسی کی پٹی میں ٹانگ کا آنکڑا اٹکا کر ہم بھی جھولنے لگے۔ ہمارے گھٹنے، آنکھوں کو چھو رہے تھے۔ محاورہ کچھ ہی کہتا رہے لیکن اس وقت کوئی ہمارے گھٹنے پر مارتا تو آنکھ ضرور پھوٹتی۔ غوری صاحب کو پوچھا تو معلوم ہوا کہ کچھ دن پہلے انہوں نے اپنی داڑھ فٹ پاتھ پر رپریکٹس کرنے والے ایک دنداں شکن سے ساڑھے تین آنے میں پلاس سے نکلوائی تھی۔ وہ سیپٹک ہوگئی۔ اب اس کا علاج کروانے ایک ہومیوپیتھ کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔ آتے ہی ہوں گے۔ 
     
    چہار درویش
    کم و بیش چھ مہینے سے یہ جی جوڑا کنبہ اس فرودگاہ میں قیام و طعام پذیر تھا۔ خوش خوری کے علاوہ ہمیں ان میں کوئی چیز مشترک نظر نہ آئی۔ صبح ناشتے میں پاؤ بھر حلوہ اور ایک ایک درجن پوریاں فی کس۔ ہاں کسی کا پیٹ خراب ہو تو تین پراٹھے۔ کھانا بولٹن مارکٹ کے ’’اللہ کی رحمت کا محمدی ہوٹل‘‘ (جی ہاں! آج بھی اس کا یہی نام ہے۔ اب تو فون بھی لگ گیا ہے۔) میں کھاتے۔ اس لیے کہ وہاں پانچ آنے میں ایک بھنا ہوا تیتر مل جاتا تھا۔ دس آنے میں پیٹ بھر جاتا۔ پندرہ آنے میں نیت بھی بھر جاتی تھی۔ جس شے کو ہم نے ماچا کہا ہے وہ در اصل ایک مچان تھا۔ اسی قبیل کا جیسے کھیتوں میں بیچوں بیچ نظر آتے ہیں جن کے نیچے سے گیا بھن بھینس بآسانی نکل جاتی ہے۔ اس مچان کے نیچے پہیوں والی ایک اسپتالی چارپائی پارک تھی جو رات برات اچانک آنے والے مہمان کے لیے لڑھکا کر کمرے کے وسط میں عین پنکھے کے نیچے بچھادی جاتی تھی۔ پنکھے کے نیچے چاروں میں سے کوئی نہیں سوتا تھا، اس لیے کہ چھت کے جس آہنی کڑے میں وہ بیس سال سے ہمارے ایمان کی طرح متزلزل تھا، وہ ۳/۴ گھس چکا تھا۔ چاروں اپنی اپنی چارپائی پر سوتے اور مہمان اس پر جاگتا تھا۔ 
     
    دروازے کے دائیں طرف والی چارپائی پر مولود احمد ترمزی غسل کے بعد تولیہ باندھے بیٹھے تھے۔ ہم نے ان کے کندھوں پر کہنیاں رکھ کر استقبال کو اٹھنے سے باز رکھا۔ کسی زمانےمیں ان کے بھتیجے کی چینی کے برتنوں کی اچھی خاصی دکان تھی۔ ناہنجار کو ریس کھیلنے کا چسکا لگ گیا۔ اسے پکڑنے ہر اتوار کو ریس کورس جاتے تھے۔ وہ تو خیر طوائفوں کا شجرہ نسب اور اس کے بزرگوں کی خر گرمیاں انہیں تاریخ وار حفظ تھیں۔ مجھے یاد ہے وہ ذرا ذرا، انہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ چارپائی کے سرہانے والی دیوار پر ایک فوٹو تھا جس میں وہ جتانے والے گھوڑے کی گردن میں ہاتھ ڈالے، اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے کھڑے تھے۔ ہونٹوں والی بات سمجھ میں نہیں آئی، اس لیے کہ چومنا فرض ہی تھا تو متعلقہ سم چومتے۔ 
     
    دائیں جانب چارپائی پر احمد اللہ ششدر دراز تھے۔ فرماتے تھے کہ احمد اللہ کچھ ادھورا ادھورا، سپاٹ سا لگتا تھا۔ پینتیس سال پہلے بمبئی میں ملازمت کو تو انگریز اکاؤنٹنٹ مسٹر اللہ کہہ کر مخاطب کرنے لگا۔ لہٰذا میں نےنام کے ساتھ ششدر جوڑ لیا۔ ویسے اسی زمانے میں دس بارہ غزلیں کہہ کر اتنے ہی مشاعروں میں خود کو ہوٹ کروا چکے تھے۔ اکثر فرماتے کہ بمبئی میں اچھے سننے والے عنقا ہیں۔ لکھنؤ میں تو اس گئے گزرے زمانے میں بھی ایسے ایسے سخن شناس باقی تھے کہ سہ روزہ مشاعرے میں داد دیتے دیتے بے ہوش ہو جاتے تھے۔ دو تین غزلیں ہمیں بھی سنائیں۔ ۲۵ فیصد اشعار وزن سے گرے ہوئے تھے۔ بقیہ تہذیب سے۔ عمر ۵۷ کے لگ بھگ ہوگی۔ تمام عمر کنوارے، مگر نچلے نہیں رہے۔ اب طاقت گناہ جواب دے رہی تھی۔ شبے ماند شبے دیگر نمی ماند۔ دوسال قبل آخری معاشقے میں ناکامی ہوئی اور عشرت صحبت خوباں کا امکان نہ رہا تو پیر و مرشد حضرت سید گلمبر شاہ کا دامن تھام لیا، گر نہیں وصل تو حضرت ہی سہی۔ (جہاں تک پیری مریدی کا تعلق ہے، ہم مریدی کے بالکل قائل نہیں۔ پیری کے ہیں۔ بڑھاپے کسے نہیں آتا)
     
    گلمبر شاہ کسی خاندانی یا پیدائشی مجبوری کی بناپر نہیں بلکہ اپنی مرضی واختیار سے سید بنے تھے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے حضرت ہوگئے اور پھر رحمتہ اللہ علیہ۔ 
     
    ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان پیدا ہوتا ہے۔ احمد اللہ ششدر نے اپنے شیطان کو مسلمان کرکے اس کی لبیں کتردیں اور ٹخنوں سے اونچا پاجامہ پہنوا دیا۔ اب آکے نہ جانے والے بڑھاپے نے چہرے پر گہری خندقیں کھود لی تھیں۔ ویسے صحت اور کاٹھی مضبوط تھی، جس کے ثبوت میں اکثر فرماتے کہ میرا فجر کا وضو مغرب تک نہیں ٹوٹتا۔ اگر وہ سن پیدائش جو انہوں نے ملازمت کے فارم میں درج کیا تھا، واقعی صحیح تھا تو انہوں نے ساڑھے تین سال کی عمر میں میٹرک کرلیا ہوگا۔ جس دن ان کی پتلون میں سے پاجامہ جھانکتا نظر آتا، وہ جمعہ کا دن ہوتا تھا۔ طب میں بھی تھوڑا بہت دخل و درک رکھتے تھے۔ ہر مرض کا علاج انجیر سے کرتے۔ پرانے اور پوشیدہ امراض کا علاج سڑے ہوئے انجیر سےکرتے تھے۔ 
     
    مچان پر قنبر علی شاہ براجمان تھے۔ گرم جلیبی کھا رہے تھے۔ پٹی سے آدھا دھڑ نیچے لٹکا کر چپچپاتے ہوئے ہاتھ کو مصافحہ سے صاف کیا۔ شاہ جی کے صحیح وزن کا کبھی تعین نہ ہو سکا۔ سننے میں آیا تھا کہ ایک دفعہ کسی کے ’’باتھ روم اسکیلز‘‘ پر چڑھ گئے تو سوئی باؤلی ہوگئی۔ چلنا پھرنا تو بہت بعد کی بات ہے، اٹھنا بیٹھنا دوبھر تھا۔ ہر وقت ہانپتے رہتے۔ گپ کے شوقین، حالانکہ ایک سانس میں تین الفاظ کے بعد چوتھے پر پنکچر ہو جاتا تھا۔ آٹھ دس تھوتھے سانس لے کر تازہ دم ہوتے تو یہ بھول جاتے کہ کس موضوع پر جملے کا دم ٹوٹا تھا۔ چنانچہ تازہ موضوع پر تازہ جملے پھر سے بناتے۔ اور اسی طرح دن بھر چکنے کھمبے پر چڑھتے پھسلتے رہتے۔ پورا جسم ایک کرۂ لحمی تھا جس پر سیاہ بیلٹ سے خطِ استوا کھینچ لیتے تھے تاکہ شمال و جنوب پہنچاننے میں آسانی رہے۔ شکل و ساخت مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی کے گنبد آسمان کی مانند، 
     
    بنایا ہے کیا دستِ قدرت نے گول
    چُرس ہے، نہ جُھری، نہ سلوٹ، نہ جھول
     
    کچھوا پروفیسرسے بازی لے گیا
    شاہ جی کی ساری زندگی ایک سلوموشن فلم تھی، سوائے ان چست لمحات کے جب طبیعت غذایا غیبت پر راغب ہو۔ ایک دفعہ کرسی پر قیلولہ فرما رہے تھے کہ خواب میں ایک گداز سی جلیبی دیکھ کر آنکھ کھل گئی۔ ہمیں مسکراتے دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ ’’لوجی! وسط ایشیا اور ترکی میں دنیا کے معمر ترین آدمی پائے جاتے ہیں۔ معلوم ہے کیوں؟ لمبی عمر کا راز در اصل لمبی نیند، موٹی کھال اور SLOW LIVING (آہستہ زیستن) میں مضمر ہے۔‘‘ پروفیسر قاضی عبد القدوس اسے لے اڑے۔ لقمہ دیا، ’’مثلاً کچھوے ہی کو لیجیے۔ سیکڑوں سال جیتا ہے۔ اکبر اعظم کے چند ہم عصر کچھوے آج بھی زندہ ہیں۔ بعضوں کے تو دادا نانا بھی بقید حیات ہیں۔ 
     
    یہ میکینزم قدرت نے صرف کچھوے میں ہی رکھا ہے کہ ذرا کوئی چیز ناگوار خاطر ہوئی اور سٹ سے گردن اندر کرلی۔ بصورت دیگر، جب ذرا گردن نکالی دیکھ لی۔ خشکی سے جی اوب گیا تو گھنٹوں پانی میں دم سادھے پڑے ہیں۔ گرمی سردی کا تو ذکر ہی کیا، رائفل کی گولی تک بے اثر۔ حد یہ کہ شارک مچھلی تک کچھوے کو سور برابر سمجھتی ہے۔ اگر میں آواگون کا قائل ہوتا تو پرماتما سے یہی دعا کرتا کہ ہے بھگون! تیری لیلا نرالی ہے۔ مجھے تو اگلے جنم میں کچھوا بنادے۔ انسان، اور وہ بھی پروفیسر، دوبارہ ہرگز نہ بنائیو۔‘‘ 
     
    دھنک رنگ
    ہنسی بالکل بچوں جیسی۔ ہنستے تو ہنستے ہی چلے جاتے۔ ذرا سی بات پر سارا جسم جیلی کی طرح تھل تھلاتا۔ دوسرے کو لمبی بات نہیں کرنے دیتے تھے۔ کوئی ناآشنائے مزاج، بات کو طول دیتا تو اپنا مخصوص نوٹس ’’کم زیادہ تے ٹیم گھٹ اے‘‘ (کام زیادہ اور وقت کم ہے) دے کر بیٹھے بیٹھے سو جاتے۔ وقفے وقفے سے آنکھ کھول کر رنگ محفل دیکھتے اور مسکرا کے پھر سو جاتے۔ شاہ جی نے تمام عمر دنیا کو ایسی نظروں سے دیکھا گویا کسی نے کچی نیند اٹھا دیا ہو۔ 
     
    خوش طبع، خوش باش، بزم آرائی میں طاق، ظاہر و باطن ایک سا، سیرچشم ہونے کے علاوہ شکم سیر بھی تھے۔ کسی کو افسردہ و پریشان نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اکثر فرماتے کہ بعض کوتاہ بیں کارخانہ قدرت میں اس طرح عیب نکالتے ہیں گویا پی ڈبلو ڈی کا بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے خود تو کبھی ذکر نہیں کیا، لیکن سنا، اور بعد میں دیکھا بھی، کہ ان کا اکلوتا بیٹا ماؤف العقل ہے۔ شاہ جی سے پہلے پہل تعارف ہوا تو چہرے پر چیچک کے گہرے گہرے داغ دیکھے تھے۔ پھر کبھی نظر نہ آئے۔ بس مسکراہٹ کی ایک دھنک یاد ہے جس کے دونوں سرے اسی زمین سے پھوٹے تھے۔ 
     
    جہلم کے رہنے والے تھے۔ وہی مردم خیز جیالا جہلم جس کے بارے میں حضرت سید ضمیر جعفری فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں کے لوگ خدا کے تصور کے لئے تھانیدار کو دیکھتے ہیں۔ قد و قامت وہی جس کا ضلع جہلم میں کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ یعنی چھ فٹ۔ پچیس سال ٹانگا نیکا میں گزارآئے تھے۔ ہرچند کہ پاکستان میں نازل ہوئے چار برس ہوگئے تھے، لیکن دل ابھی کھجور میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ چنانچہ جب وہ یہ تمہید باندھتے کہ ’’ہمارے ہاں تو دستور ہے کہ۔۔۔‘‘ تو یہ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی تھی کہ ان کا منہ ٹانگا نیکا شریف کی طرف ہے یا جہلم کی جانب۔ مثلاً جب وہ یہ کہتے کہ ’’ہمارے حلوائی کی جلیبی انگوٹھے کے برابر موٹی ہوتی ہے۔‘‘ تو ان کا اشارہ جہلمی پاؤں کے انگوٹھے کی طرف، اور ان کا ممدوح و مشارالیہ ٹانگانیکا کا حلوائی مول چند ہوتا تھا۔ 
     
    ’’ہونٹ چھواتے ہی شیرے کی پچکاریاں چھوٹنے لگتی ہیں۔‘‘ (یہ کہہ کر اپنی زبان فرضی شیرے میں لتھڑے ہوئے ہونٹوں پر بار بار پھیرتے۔ اس شے پر جان دیتے تھے۔ ہم نے تو انہیں دوشیزہ کو بھی دوشیرہ ہی کہتے سنا۔) اور جب وہ یہ فرماتے کہ ’’ہمارے ہاں کوئی بی۔ اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کرلے تو پرائمری اسکول میں ماسٹر ہوجاتا ہے اور فیل ہوجائے تو فوج میں کپتان!‘‘ تو اس کا اشارہ ضلع جہلم کے ناقص نظام تعلیم کی طرف ہوتا تھا۔ پچیس برس وطن سے باہر رہے۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا نہیں تو چکھا ضرور تھا۔ لیکن لہجے میں پوٹھوہاری حلاوت باقی تھی اور زبان پر اب بھی دیہات کی سوندھی اصطلاحیں چڑھی ہوئی تھیں۔ 
     
    نمونہ بیان ملاحظہ ہو
    ’’میں ٹانگا نیکا سے بائی ایئر فلائی کرکے گاؤں آیا۔ تاریخ شاریخ تو یاد نہیں۔ ہمارے چکوک کی دودھیا چھلیوں (بھٹوں) میں رس پڑگیا تھا، پروانہ نے سختی نہیں پکڑی تھی۔ چراغ جلے ہوائی جہاز نے رن وے پر تین کھیت دوڑ کر ایک دم ٹیک آف کیا۔ ابھی چار بانس ہی اوپر اٹھا ہوگا کہ ایسی گھمیر آئی کہ کیا بتاؤں۔ جیسا کہ بچپن میں بیت الخلا میں پہلا سگرٹ پی کر دیگر احوال ہوا تھا۔ تین دفعہ سورہ یاسین کے بعد دس ہزار فٹ اوپر پہنچے تو واہ وا! بادلوں کے یہ موٹے موٹے گالے ایسی افراتفری سے اڑ رہے تھے جیسے غصے میں بھنائے ہوئے اپنے دُلا دھنیے کی دھنکی ہوئی روئی۔۔۔ جب اس کی عورت شیداں اور الف دین پٹواری باہمی تعاون سے ایک دوسرے کا منھ کالا کرتے ہوئے پکڑے گئے اور انجام کار وہ خدا بخش جلاہے کے ساتھ بھاگ گئی۔ اجی ادھر اپنے ٹانگا نیکا میں تو اغوا کی صرورت ہی پیش نہیں آتی۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ دفعتاً ایک ایئر پاکٹ آیا اور جہاز نے ہائٹ لوز کی۔ لوجی ۱۰۰ / ۱ سیکنڈ میں پچیس تیس کنویں نیچے اترگیا۔ محسوس ہوا گویا دل حلق میں آکر پھنس گیا ہے۔ جیسا کہ میٹرک کا رزلٹ دیکھ کر ہوا تھا۔۔۔‘‘ شاہ جی کے بارے میں مشہور تھا کہ میٹرک میں ناکامی کے بعد خودکشی کی کوشش کی۔ اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ 
     
    ہر چارپائی کے نیچے ایک ٹین کا ٹرنک، کھڑاؤں اور لوٹا رکھا تھا، سوائے شاہ جی کے مچان کے۔ شاہ جی اپنے تمام پتلون تکیے کی استری کے نیچے اور بشرٹ کھونٹی پر رکھتے تھے۔ فرماتے تھے کہ موزے صرف شادی کے دن پہنے تھے۔ سہرے کے بغیر بالکل بے معنی معلوم ہوتے ہیں۔ انہیں جب چرخ چہارم سے اترنا ہوتا تو ساتھی باری باری اپنا ٹرنک بطور پائیدان رکھ دیتے اور وہ اس پر پاؤں رکھ کر سہارے سے نیچے اترجاتے۔ پہلے یہاں مولود احمد ترمزی کا بکس مستقلاً پڑا رہتا تھا۔ لیکن ایک دن شاہ جی نے بے دھیانی میں پورا وزن اس پر ڈال دیا تو پچک کر چپاتی ہوگیا۔ اور کپڑوں میں دبی ہوئی وہسکی کی بوتل چور چور ہوگئی۔ مولود احمد ترمزی بہت خفا ہوئے کہ شاہ جی نے میری جمعہ کی اچکن ناپاک کردی۔ اس حادثے کے بعد ہر ٹرنک کی باری مقرر ہوگئی۔ شاہ جی کو باتھ روم جانا ہوتا تو باری والا اپنا ٹرنک رکھ کر ذاتی نگرانی میں انہیں اترواتا چڑھواتا۔ تینوں ’’روم میٹ‘‘ شاہ جی کوپانی نہیں پینے دیتے تھے۔ لہٰذا بینک پہنچتے ہی وہ پانی اور باتھ روم پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ 
     
    ایک کھڑکی کھلی ہوئی ہے ابھی
    شاہ جی کے ذمے ہمیں غیر ملکوں کے زرمبادلہ اور درآمد برآمد کے رموز و غوامض سے آگاہی بخشنی تھی۔ لیکن وہ غیرملکوں کے جغرافیائی کوائف میں کانوں تک دھنسے ہوئے تھے اور زرمبادلہ پر نظر کرنے کا یارا تھانہ مہلت۔ اور ’’غیرملکوں‘‘بھی ہم روانی میں لکھ گئے، ورنہ وہ ٹانگا نیکا (اب اسے تنزانیہ کہتے ہیں) سے ایک عرض البلد بھی آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ وہاں کے برٹش بینکوں کے طریق کار کے بارے میں پوچھتے تو وہ شیروں، گھڑیالوں، اژدہوں اور دیگر آدم خوروں کا طریقہ واردات بتانے لگتے۔ اور بعض اوقات تو سوال کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ اس لیے کہ وہ ہمیں دیکھتے ہی کہتے کہ آج تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کام کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ رج کے گل بات ہوتی۔ 
     
    جب کوئی رس بھری بات کہنی ہو تو دو جملے پیشتر ہی، بطور حظ ماتلفظ، سسکاری بھر کے ایک آنکھ میچ لیتے اور دوسری سے اس کا رد عمل ملاحظہ فرماتے رہتے۔ عملاً وہ نیک اور پرہیزگار آدمی تھے۔ اپنے گرد پارسائی کی ایک فلک بوس فصیل کھینچ رکھی تھی۔ لیکن اس کی چنائی اس کاریگری سے کی تھی کہ فاصلے فاصلے پر جھریاں، روزن اور موکھے چھوڑ دیے تھے۔ ان روزنوں میں سے، وہ ایک آنکھ بند کرکے، دوسری طرف کا حال کچھ اس طرح دیکھتے اور دکھاتے کہ ہماری تو دونوں بند ہو جاتی تھیں۔ وحشی افریقہ کے شمشیر برہنہ حالات وہ راسِ امید کے اس پار ہمیں کچھ اس طور سناتے کہ بے اختیار جی چاہتا کہ گرہستی زندگی کو دھتا بتا کر بقیہ عمر وسط افریقہ کے جنگل میں ایک سلاد کا پتا باندھ کر اور اسی کو کھا کر گزار دیں۔ پچھلی نسل کے اس بزرگ کی شوخی بسا غنیمت تھی، ابھی پچھلی شرارت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔ 
     
    ہماری ٹریننگ میں ہاتھی کود پڑا
    یعسوب الحسن غوری کی داڑھ کا ذکر آیا تو ہم نے خاقانی ہند استاد ذوق کا شعر پڑھ دیا، 
     
    جن دانتوں سے ہنستے تھے ہمیشہ کھل کھل
    اب درد سے ہیں وہی رلاتے ہل ہل
     
    شعر سن کر شاہ جی پہلے تو کھل کھل ہنسے۔ پھر آنکھ بند کرکے جیلی کی طرح تھل تھل ہلے۔ آنکھ کھلی تو افریقہ میں تھے اور ہاتھیوں نے گھیرا تھا۔ شروع ہوگئے۔ ان کےہاں ہاتھی دانت کی لمبائی کتنی ہوتی ہے۔ ہاتھی بوڑھا ہوجائے تو پہلے اس کے کھانے کے دانت گرتے ہیں یاد کھانے کے۔ مستی سے ہاتھی کے دانت کا رنگ کیسا ہوجاتا ہے۔ اسے دیکھ کر مادین کیسی متوالی چال چلتی ہے۔ انہوں نے مولود احمد ترمزی کا سیاہ کمبل اوڑھ کر مچان پر ہی گج گامنی چال چل کر دکھائی جو واقعی ایسی تھی کہ اگر ہم ہاتھی ہوتے تو ہمارے دانتوں کا رنگ تبدیل ہو جاتا۔ ہاتھی سے شیفتگی کا یہ عالم کہ اکثر فرماتے، آپ کیا جانیں، ہاتھی کتنا قیمتی جانور ہوتا ہے۔ ملایا کے ایک شاعر نے ایک عاشق صادق کی زبان سے کہلوایا ہے کہ اگر مجھے اپنی محبوبہ کے بدلے میں ہاتھی بھی دیا جائے تو نہ لوں۔ 
     
    ہم نے مست ہاتھیوں کی روندن سے بچنے کے لیے پوچھا، اچھا یہ بتائیے مشرقی افریقہ میں بینک کے انگریز افسر، کالے اور سانولے گاہکوں اور ماتحتوں سے کس طرح پیش آتے ہیں۔ جواب میں وہ سرکش، سرشور ہاتھی پکڑنے کی ترکیبیں بتانے لگے۔ ہم نے سوال دہرایا۔ اللہ جانے سنا بھی یا نہیں۔ ارشاد ہوا، ’’آہوجی! ہمارے ہاں خاص خاص ضیافتوں میں سانپ کے سیخ کباب اور فیل مسلم پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے گرد انسانی کھال سے منڈھی ہوئی ڈھولک پر رقص ہوتا ہے۔ برہنہ۔‘‘ 
     
    ’’برہنہ؟‘‘ ہم نے بڑے اشتیاق سے تصدیق و تفصیل چاہی۔ 
     
    ’’ہاں جی! دیکھنے والے سب برہنہ ہوتے ہیں۔‘‘ 
     
    انہیں مائل بہ تفصیل دیکھ کر ہم نے افریقی بینکوں کے انگریز افسروں کے عادات و اطوار سے متعلق اپنی کرید بند کردی، مبادا شاہ جی مشتعل ہوکر درندوں گزندوں کی غیر شرعی زندگی پر سے پردہ اٹھانا شروع کردیں۔ بارہ بجے یعسوب غوری ایک اینٹ بغل میں دبائے، کانکھتے کراہتے ہوٹل لوٹے۔ ہومیوپیتھ کو تو پولیس ایک پوشیدہ مرض کے لاعلاج مریض کے ساتھ مارپیٹ کرنے پر دفعہ ۳۰۲میں گرفتار کر کے لے گئی تھی۔ سردست اس کے والد ہی سے مشورہ کیا اور نقد فیس مشورہ کے عوض بیٹے کی ضمانت کا انتظام اپنے ذمے لیا۔ بزرگوار اپنے بتیسوں دانتوں کے منفرد درد اور ایک ایک کے داغ جدائی کا جدا تجربہ رکھتے تھے۔ وہ اس وقت اپنی حالیہ صورت کے اصل سبب کو کھرل میں کوٹ رہے تھے۔ مطلب یہ کہ پان کے اجزا کو کوٹ کر مسوڑھوں کی مشکل آسان کر رہے تھے۔ موصوف نے سرخ اینٹ یا بھاڑ کی بھوبل سے جبڑا سینکنے کی ہدایت کی تھی۔ مصیبت یہ کہ کراچی میں دونوں نایاب۔ محاورتاً بھی عنقا۔ اہل کراچی ’’بھاڑ میں جائے‘‘ کے بجائے دوسرے غیر متعدد آسمانی مقام کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس شہر میں اینٹ سے مراد ہمیشہ تاش کی اینٹ ہوتی ہے۔ پتھر کا جواب بھی اسی سے دیا جاتا ہے اور اسی سے ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی ہے۔ 
     
    بڑی تلاش کے بعد ایک بوڑھے پارسی کی اس سے بھی زیادہ بوڑھی کوٹھی ملی، جس کی نیم پوپلی ’’کمپاؤنڈ وال‘‘ سے انہوں نے نظر بچا کے نسخہ کا جزو اعظم کھینچ نکالا۔ اب سوال یہ تھا کہ غریب الوطنی کے عالم یعنی ہوٹل میں اینٹ کو گرم کس طرح کیا جائے۔ مولود احمد ترمزی نے تجویز پیش کی کہ جبڑے اور اینٹ کو سرخ فیتے سے باندھ کر اینٹ میں بجلی کا کرنٹ ’’پاس‘‘ کر دیا جائے۔ یہ سنتے ہی شاہ جی اپنے جبڑے پورے کھول کر اتنا ہنسے، اتنا ہنسے کہ دیر تک ان کے حلق میں پھدکتا ہوا کوا نظر آتا رہا۔ ہنسی رکی تو فرمایا کہ ہمارے یہاں تو اینٹ ایسی عالی شان اور زوداثر ہوتی ہے کہ ہاتھی کی داڑھ کی بھی ٹکور ی جا سکتی ہے۔ ہم نے پوچھا، آپ کے ہاں کیا بڈھا بے دانت ہاتھی بھی گنے کا شوقین ہوتاہے؟ گودانت کو جنبش نہیں۔۔۔ اس پر یعسوب غوری نے ہمیں ایسی قہر آلود نظروں سے دیکھا کہ اگر ہم موم کے بنے ہوتے تو جہاں جہاں اس کی نظر پڑی تھی وہیں سے پگھل جاتے۔ 
     
    شاہ جی کا جواب منھ کے منھ میں رہ گیا۔ بس بائیں آنکھ میچ کے منھ سے گنڈیری چوسنے کی سی آواز نکالی اور اثبات میں سر کو اس طرح ہلایا کیے گویا خود گنے کے کھیت کے کھیت روندتے مسلتے مستانہ وار چلے جا رہے ہیں۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں، اس لیے کہ خود ہاتھی ہیں۔ اور دانتوں کا رنگ ہے کہ ہر لحظہ بدلتا جا رہا ہے۔ خود ہانپے، ہمیں بھی دیر تک ہنپاتے رہے۔ ہاتھی کے نجی جذبات کا اس سے بہتر مظاہرہ ہماری تو کیا، کسی ہتھنی کی نظر سے بھی نہ گزرا ہوگا۔ 
     
    کرائے کے ہار
    ان چار درویشوں کے صلاح و مشورے سے ’’مہماننی‘‘ (شاہ جی آنے والی کے لیے برابر یہی صیغہ مونث استعمال کر رہے تھے۔) کے استقبال کی تفصیلات طے ہوئیں، جنہیں درحقیقت جہاز اور دعوت سے متعلق ۲۵۱ برس کی غلط فہمیوں کا نچوڑ کہنا چاہیے۔ (ہم پانچوں کی عمروں کا میزان کل ۲۵۱ سال بنتا تھا۔) اخیر میں یعسوب غوری نے کہا کہ تین گوٹے کے ہار ضرور لیتے آنا۔ ہم نے پوچھا، ایک خاتون کے لیے ایک کافی نہ ہوگا؟ فرمایا، ’’مسٹر! یہ سوئمبر نہیں ہے کہ گلے میں ایک جے ما لا ڈلوائی اور کنواری کنیا کو مشکی گھوڑے پہ آگے بٹھاکے ایڑھ لگائی اور یہ جاوہ جا!‘‘ ہم نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا، ’’جیسے ناٹک میں پرتھوی راج چوہان سرپہ مکٹ سجائے، سنجوگتا کو بھگا کر لے جاتا ہے۔ مگر ہم نے جو کھیل دیکھا اس میں تو پرتھوی راج، گھوڑے کے بجائے سنجو گتا کے ایڑھ لگا رہا تھا!‘‘ 
     
    ’’لا حول و لا!‘‘ انہوں نے حقارت سے کہا۔ غوری ہونے کی نسبت سے وہ خود کو پرتھوی راج کا رقیب و حریف سمجھتے تھے۔ 
     
    ’’گھوڑے کی باگ سنجو گتا کے ہاتھ میں تھی جو آگے بیٹھی تھی۔ چنانچہ جب پرتھوی راج کو باگ کھینچنی ہوتی تو سنجو گتا کو کھینچتا تھا۔ باگ کافی تنگ تھی۔ سنجو گتا کو بار بار پوری قوت سے کھینچنے کے باوجود گھوڑا اور مکالمہ آگےنہیں بڑھ رہا تھا۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ گھوڑا کاٹھ کا تھا اور دوسری سواری کی کاٹھی کا کیا کہنا!‘‘ 
     
    ’’یہ کھیل کہاں چل رہا ہے؟‘‘ 
     
    انہیں منھ زور مشکی گھوڑے سے بدقت تمام اتار کر موضوع کی طرف لائے تو دیر تک ہنہنایا کیے۔ فرمایا، ’’تمہاری کھوپڑی میں اتنی سی بات نہیں گھستی۔ ایک ہار تمہاری طرف سے بھی تو ہونا چاہیے۔ کیا فقط دعاؤں کا ہار اس کے گلے میں ڈالوگے؟‘‘ 
     
    ’’اور تیسرا ہار؟‘‘ 
     
    ’’ایک بات تجربہ کی آج بتاتا ہوں۔ زندگی میں کام آئے گی۔ کبھی کسی VIP کو ہار پہنانے جاؤ تو احتیاطاً ایک ہار فالتو لے جایا کرو۔ پتہ نہیں عین موقع پر کون ایکسٹرا حرامی اور نکل آئے جسے ہار نہ پہناؤ تو نقصان پہنچادے گا۔ میں نے یہ بال پاؤڈر سے سفید نہیں کیے ہیں۔ چالیس برس بینک میں جھک نہیں ماری۔ تمہیں جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں انڈے سے نکلے۔ اور انڈے کی معراج بس یہی ہے کہ مرغا بن جائے! اور ہاں! گوٹے کانیا ہار آٹھ روپے میں آتا ہے۔ بیٹھے بٹھائے ۲۴روپے کا خون ہوجائے گا۔ عرض کیا سیٹھ طیب بھائی ولی محمد کے پاس ۱۹۴۹سے ہزار ہزار کے DEMONETISED (منسوخ شدہ) نوٹ پڑے ہیں۔ ان کے ہار بناکر کیوں نہ پہنادیں۔ بولے وہ تو انہیں نئی مسجد کے چندے میں دینا چاہتا ہے۔ 
     
    تم یہ کرو کہ باس (اینڈرسن) کے بیرے سے تین ہار کرائے پر لےآؤ۔ ڈیڑھ روپے میں کام بن جائے گا۔ باس کو اب تک جتنے ہار پہنائے گئے ہیں وہ سب اس بے ایمان نے جمع کر رکھے ہیں۔ انہیں کرایہ پر چلاتا ہے۔ پچھلی دفعہ جب باس لندن سے چھٹی گزار کر آیا تھا، تب بھی ہم نے اسی بے ایمان سے ٹیکسی ہار کرائے پر لے کر پہنائے تھے۔ لیکن ہاں ایسا نہ ہو کہ مہماننی ہار پہنے پہنے ہی سٹک جائے۔ بہانے سےترنت اتروا کر اپنی SAFE CUSTODY (تحویل) میں لے لینا۔‘‘ 
     
    ہاتھوں ہاتھ
    اگلے دن ہار لے کر دونوں ویسٹ وہارف پہنچے۔ جہاز ہمارے خوف زدہ تخمینے سے کچھ زیادہ ہی بڑا نکلا۔ ہمارا خیال تھا کہ جب ہم اس پر ایک قدم جماکر رکھیں گے تو جھوک سے الل کر ہچکولے کھانے لگے گا۔ لیکن ہمیں اپنے وزن سےمایوسی ہوئی۔ جہاز پر اِدھر اُدھر گبرو ملاح خوش خوش پھر رہے تھے۔۔۔ روایتی ملاحوں کی طرح جن کی مچی مچی آنکھیں دھوپ میں نہائے ہوئے جزیروں کے لیے ترستی ہیں جہاں گرم دن اور گرم تر عورتیں مسکراتی رہتی ہیں۔ جہاز پر ایک ملاح سے پوچھا کہ مسز شوارز کہاں ملے گی؟ بولا، ’’رات کے تین بجے تک تو اس کی نائٹی کپتان کی کیبن کی کھونٹی پر ٹنگی دیکھی گئی تھی۔ وہ بھی کہیں نزدیک ہی پڑی ہوگی۔‘‘ 
     
    ایک اور معتبر صورت ملاح سے، جس کی داڑھی اور نیکر اوروں سے لمبی تھی، پوچھا تو جواب ملا، ’’کل تک تو SAILORS اسے باسکٹ بال کی طرح اٹھائے اٹھائے پھر رہے تھے۔ اسی کی وجہ سے جہاز دودن سے برتھ پر نہیں لایا گیا۔‘‘ تیسرے نے کہا، ’’آپ اس FRAGILE CARGO (شکستنی مال) کی ڈلیوری لینے آئے ہیں؟ تری کے خزانے کو خشکی پر اتارنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ دونوں مجھے ایک ایک کراری لونڈیا سے ملوا سکتے ہیں؟ پلیز! میرے پاس ڈالر ہیں۔‘‘ 
     
    ہمارے اوسان اور یعسوب غوری کا چالیس سالہ تجربہ خطا ہوگئے۔ ’’ماسٹر آف سیری منیز‘‘ تو خیر وہ تھے، لیکن تقسیم کار یہ قرار پائی کہ فیصلہ طلب امور میں فیصلہ وہ کریں گے، جذبات و خواہشات وہ رکھیں گے اور انگریزی کا جامہ ہم پہناتے چلے جائیں گے۔ اس لیے کہ انہوں نے کھلے دل سے اعتراف کرلیا تھا کہ ہماری عقل اور ان کی گرامر کمزور ہے۔ بہرحال دونوں نے خاصی رواداری سے کام لیا۔ نہ ہم نے ان کے جبڑے پر فقرہ کسا جس پر آج انہوں نے ہینگ کا لیپ لگا رکھا تھا اور نہ انہوں نے ہماری پتلون پر انگشت اعتراض اٹھائی کہ وہ ہماری عسرت و نیک نیتی پر دال تھی۔ تھوریو کا قول ہے کہ ہر ایسی مہم کو مشکوک و پرفتور جانو جس کے لیے نئے کپڑے پہننے پڑیں۔ 
     
    ہمارے فرائض کے لذائذ
    جویندہ یا بندہ، اس کا کیبن بھی مل گیا۔ وہ اس کے دروازے پر اپنا سر ہاتھوں سے تھامے کھڑی تھی۔ ہمیں دیکھ کر نہ جانے کیا دل میں آئی کہ اندر جاکر برتھ پر لیٹ گئی۔ ہلکے مہندی رنگ کا لمبا اسکرٹ پہن رکھا تھا۔ اس زمانے میں کاشف الاعضا

    MINIS,HOT PANTS, اور HIPSTER ساریوں کا رواج نہیں ہوا تھا۔ دل والیاں ایسے موقعوں پر بتی بجھادیتی تھیں۔ یعسوب غوری نے اپنی بین الاقوامی خواہشات کی ترجمانی کے لیے ہمیں آگے کردیا۔ ہم نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس نے نیند بھری آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ سینہ پر رکھ لیا۔ نجریا سے جیا بھردوں گی، چھونے نہ دوں گی شریر۔ (شریر، ہندی۔ بدن۔ جب یہ اپنی چھل اور چھب دکھلاتا ہے تو اردو کا شریر بن جاتا ہے۔) 
     
    یعسوب غوری لیٹی ہوئی ’مہماننی‘ کو ہار پہنانے جھکے تو اس نے ان کی گردن میں بانہیں ڈال دیں اور ان کی گدی پر سارا وزن ڈال کر اٹھنا چاہا۔ وہ نشہ میں دھت تھی۔ ایک ہاتھ نہ جانے کیسے ان کے دکھتے ہوئے جبڑے سے ٹکرا گیا۔ اس پر انہوں نے ایسی چنگھاڑ ماری کہ وہ دوبارہ لیٹ گئی۔ اور لیٹے لیٹے اپنی شاخسارسی کلائی آگے بڑھادی۔ وہ منظر دیدنی تھا جب یعسوب غوری نے ہمیں دھکا دے کر اپنی راہِ تپاک سے ہمایا اور فرش پر ’’نیل ڈاؤن‘‘ہوگئے۔ جس طرح انگریزی فلموں میں عہد وسطیٰ کے KNIGHTS ہوا کرتے ہیں۔ اپنی ہینگ آلود ناک سے اس مرمیڈ کے ہاتھ کو بوسہ دے کر ہمیں بھی یہ پروٹو کول فریضہ ادا کرنے کا اشارہ کیا۔ ہم نےاس کا ہاتھ چت کرکے شادی کی دوسری لکیر کو چوما۔ 
     
    روز محشر ہمیں حسینوں کو بھی منہ دکھانا ہے۔ کیسے کہہ دیں کہ حسین چہرہ دیکھ کر جو فرحت ہوتی ہے اس سے ہم نے خود کو محروم رکھا۔ اس کے بائیں شانے پر ایک تازہ نیل تھا۔ پنڈلیوں پر مہین مہین سنہری رواں، جیسا کھٹ مٹھے آڑو پر ہوتا ہے۔ ناخن اتنے نکیلے گویا انگلیاں پنسل شارپنر میں ڈال کر نوکیں بنائی ہیں۔ ایک ناخن ٹوٹا ہوا تھا۔ عمر پینتیس سے اوپر ہی ہوگی کہ انداز وآواز میں ایک ٹھسک آگئی تھی۔ منہ سے عجیب طرح کے بھبکے نکل رہے تھے۔ یعسوب غوری نے تسلی دی کہ اصلی جرمن بیئر ہے۔ وہ بری طرح لڑکھڑا رہی تھی۔ یعسوب غوری نے آنکھوں ہی سے ہر قدم پہ کولی بھر بھرلی۔ دیرینہ سال پیرے بردش بیک نگاہے۔ گلے میں گوٹے کا ہار ڈالتے ہوئے ہم نے ’’ویلکم ٹو پاکستان!‘‘ کہا۔ اس نے بھی مغربی جرمنی کی جانب سے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ نیز امید ظاہر کی کہ دونوں ملک بہت جلد ایک دوسرے کے زیادہ قریب آجائیں گے۔ 
     
    اس پیش گوئی کے پورے ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی، اس لیے کہ جملہ ختم ہونے سے پہلے ہی وہ ہمارے منہ سے منہ بھڑاکے، دونوں کے کندھوں پہ ہاتھ رکھے، پنڈولم کی طرح جھولنے لگی۔ البتہ ازراہ تلطف اپنی گلبدنی کا سارا جھوک ہماری جانب اس طرح ڈالا کہ ہماری چال شطرنج کے گھوڑے جیسی ہوگئی۔ اگر یعسوب غوری کے جبڑے پر ہینگ کا لیپ نہ ہوتا تو یہ لطف و عنایت ان پر ہوتی، گلبدنی کا بار اٹھا کر ڈھائی گھر کی چال انہیں چلنی پڑتی۔ کچھ دیر بعد کہنے لگی، ’’دو مہینے سے یہ جہاز بھنور میں ہے۔ بندرگاہ پر بھی ٹھیک سے کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اور ان لہروں کو تو دیکھو۔ کیسی شیخیاں مار رہی ہیں۔ افوہ! تمہارے قدم بھی بہکے بہکے پڑ رہے ہیں۔ تمہیں تو چکر آرہا ہے۔ (اپنا سرخ پرس کھولتے ہوئے) تمہارا جی ماندہ ہے۔ لو یہ گولی کھا لو۔ متلی بند ہوجائے گی۔ ننھا ایرک پیٹ میں تھا تو روز صبح کھاتی تھی۔‘‘ خیر گولی تو شرم حضوری ہم نے کھا لی لیکن تین چار دن تک ہول اٹھتے رہے۔ صبح متلی ہوتی اور ایسا لگتا گویا پتلون کمر پر سے تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ 
     
    اس نے محبتانہ سرگوشی کے انداز میں تقریباً ہمارا کان چباتے ہوئے پوچھا کہ مجھے لینے وہ کچا بیف اور مارملیڈ کھانے والا بڈھا جان بل کیوں نہیں آیا؟ ہم نے اینڈرسن کی طرف سے جھوٹی معذرت کی کہ آج اسے کہیں کاک ٹیل پر جانا ہے۔ کراچی میٹرو پولیٹن شہر ٹھہرا۔ روز کہیں نہ کہیں پارٹی ہوتی ہے۔ کراچی عظیم شہر ہے۔ فرینکفرٹ سے تیس گنا بڑا۔ کراچی پاکستان کا دروازہ ہے۔ بولی، جہاز کا کپتان کہہ رہا تھا کہ کراچی پاکستان کافٹ اسٹول ہے، بڑا سؤر ہے وہ! 
     
    افتاں و خیزاں آدھا راستہ ہی طے کیا ہوگا کہ وہ کندھوں کے جھولے سے چھلانگ لگا کر کھڑی ہو گئی۔ کہنے لگی، ’’ہائے! میں بھی کیسی بھلکڑ ہوں۔ تمہارا تعارف کپتان سے تو کرایا ہی نہیں۔ بہت ڈیشنگ ہے۔ بالکل GREGORY PECK لگتا ہے۔‘‘ دونوں بار برداروں نے کندھوں کی جوڑی کا رخ کپتان کے کیبن کی طرف کرلیا۔ ہر چھ سات جھونٹوں کے بعد وہ ہماری ٹائی پکڑ کے نیچے اترتی اور ہماری چال درست کرکے واپس سوار ہو جاتی۔ 
     
    گریگری پیک نے ہمیں بھی سینہ سے لگاکر پیار کیا
    گریگری پیک نے اس وقت صرف سفید نیکر اور ہوائی چپل پہن رکھی تھی۔ پیشانی سے پسینے کے ریلے بہہ رہے تھے۔ اس کے گال اور ناف پر جو کھرونچے تھے ان پر عنابی کھرنڈ آگئے تھے۔ سینہ پر ایک بہت بڑ دل گدا ہوا تھا اور اس کے اندر کسی سابقہ محبوبہ کی برہنہ تصویر TATOO کی ہوئی تھی۔ تصویر کے پیٹ پر حسینہ کا نام بھی لکھا تھا جو اب پڑھا نہیں جاسکتا تھا اس لیے کہ اس پر امریکی پرچم کے ستارے گدوا کر نام مٹا دیا گیا تھا۔ شیوۂ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا۔ دائیں ہاتھ پر گریگری پیک نے اپنا پورا نام گدوا رکھا تھا، تاکہ کسی حادثے یا جنگ میں کٹ کر گر جائے تو جن صاحب کو ملے وہ اخبار میں اشتہار دے کر اصل مالک کو لوٹا دیں۔ وہ ہمیں دیکھ کر بہت مسکرایا۔ ایسی گرم جوشی سے مصافحہ کیا کہ ہماری انگلیوں کی ہڈی سے ہڈی بجا دی۔ کہنے لگا، آئیے۔ جشن منائیں۔ آپ اس خوب صورت بوجھ کے سینڈل میں ڈیوٹی فری شیمپین سے جام صحت نوش کرنا پسند کریں گے یا اچھے محمڈن کی طرح ڈسنٹری کے جراثیم سے بھرپور کراچی واٹر؟ 
     
    یعسوب الحسن غوری نے پاسپورٹ لیتے اور فارم آگے بڑھاتےہوئے پوچھا، کسٹم میں ڈکلیر کرنے کے لیے کچھ ہے؟ گریگری پیک نظروں سے مسز شوارز کی جامہ تلاشی لیتے ہوئے بولا، ’’آف کورس! ۳۸۔ ۲۴۔ ۳۷ اور منجھلے عدد میں ایک گیلن DUTY-FREE LIQUOUR‘‘
     
    وہ اسے الوداع کہنے سیڑھی تک آیا اور وقت رخصت ہمیں بھی سینہ سے لگا کر دیر تک چچوڑا۔ غوری کو ہینگ کے لیپ نےایک مرتبہ پھر بچا لیا۔ زینہ سے اترنے لگی تو نہ جانے کیا دل میں آئی کہ دونوں ہار اتار کر گریگری پیک کے گلے میں ڈال دیے اور ہم دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ ہمارا دل اور ہاروں کی رقم جہاز کے لنگر کی طرح ڈوب گئی۔ غوری نے جن قرض آلود نظروں سے ہمیں دیکھا ان کی تصویر کھینچنا ہمارے بس کاکام نہیں۔ وہ سر سے پاؤں تک مجسم گالی بنے کھڑے تھے۔ تیسرا ہار انہوں نے ہمیں پہنا دیا۔ 
     
    پروفیسر قاضی عبد القدوس غالب کے مختلف مصرعوں کو پھینٹ کر اکثر فرماتے ہیں کہ تنگ دستی نہ ہو تو تندرست آدمی کی تمنا کا دوسرا قدم گرہستی حدود کے باہر پڑتا ہے! یوں تو کوئی ارمان ایسا ہوگا جس کے ہم مرتکب نہ ہوئے ہوں۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ گھر بگڑے۔ حد یہ کہ تندرستی کی آرزو بھی کی ہے۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ ناکردہ گناہوں کی اس ناگفتنی فہرست میں اس سے پہلے مال بردار جہاز کا کپتان بننے کی خواہش کبھی شامل نہ ہوئی تھی۔ اب رہ رہ کر پچھتاوا ہو رہا تھا کہ ہائے! یوں خشکی پر وقت ضائع نہ کیا ہوتا تو کیا کیا مزے کرتے۔ قسمت میں اگر جہاز کا کپتان ہونا نہیں لکھا تو کم از کم کچھوا ہی ہوتے۔ رہ گیا، تھادل میں جو کچھ ذوقِ خواری، ہائے ہائے! 
     
    ’’عجب ہریال عورت ہے!‘‘ ہم نے کہا۔ 
     
    ’’مسٹر! تم ابھی BANKERS اور SAILORS کو نہیں جانتے۔ کٹے کو بھی دوہ کر پھینک دیں!‘‘ 

    *** 
    (ہریال (پنجابی) اس آوارہ گائے یا بھینس کو کہتے ہیں جسے ہر کوئی دوہ لے۔) 
    (کٹا (پنجابی) بھینس کا بچہ۔) 
    ***
     
    اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
    یعسوب الحسن غوری تو داڑھ کے درد کاعذر کرکے ویسٹ وہارف ہی سے رخصت ہو لیے۔ ہم نے اسے بیچ لگژری ہوٹل کے کمرہ نمبر ۳۷ میں چھوڑا تو رات ہوچکی تھی۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ فلڈلائٹس کی روشنی میں پھوار ایسی لگتی تھی جیسے سامنے موتیوں کی لڑیوں کی چلمن پڑی ہوئی ہے۔ سمندری ہوا سے پام کے درختوں کے پتے مجیرے بجارہے تھے۔ دور لنگر انداز جہازوں کی روشنیاں گدلے آسمان کے نیچے جھلمل جھلمل کر رہی تھیں۔ مسز شوارز کہنے لگی تم لاؤنج میں انتظار کرو۔ میں اسباب سنبھال سنگھوا کر دومنٹ میں آتی ہوں۔ ہم بیٹھے انتظارِ ساغر کھینچتے رہے۔ آدھ گھنٹے بعد ہمیں بیرے سے اپنےکمرے ہی میں بلوا لیا۔ بن سنور کر نکلی تو عالم ہی کچھ اور تھا۔ ہم بھی دل مضبوط کیے بیٹھے رہے۔ 
     
    اس میں ہماری محبوب ایکٹرس اوا گارڈنر کی بڑی شباہتیں تھیں۔ اس وقت اس کے آرپار مخفف لباس کے اختصار اور اس کے مشمولات و ملحقات کے بسط و کشاد کو دیکھ کر بڑا ترس آیا کہ افوہ! جرمنی میں کپڑے کی اتنی قلت ہے! معلوم ہوتا ہے وہاں کے مل تو ابھی ہمارے جیسا موٹا سوت بھی نہیں بنا سکتے۔ مقام ادب ہے، محاورے کی اوٹ لے کر بس اتنا عرض کرسکتے ہیں کہ اوچھے کے گھر تیتر، باہر رہے نہ بھیتر۔ مصنوعی ابرو کی کمان کھینچتے ہوئے بولی کہ تمہارا بہت قیمتی وقت ضائع ہوا۔ کس طرح تمہارا شکریہ ادا کروں۔ تھکن سے چورہوں۔ یہاں فرنچ برانڈی ملتی ہے؟ جہاز کا کپتان آنے ہی والا ہے۔ مسٹر شوارز کو بھی کھلنا ٹرنک کال کرنی ہے۔ اسے بہت MISS کرتی ہوں۔ کل سہ پہر جہاز چلا جائے گا۔ شام کو تم یہیں میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ پرسوں صبح کی فلائٹ سے ڈھاکہ جانا ہے۔ مگر یاد رہے، میں ساڑھے دس بجے سے پہلے ڈنر کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔ ڈرنکس کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔‘‘ 
     
    ’’شکریہ! مگر اس وقت تو ہم بینک میں ہوں گے۔‘‘ 
     
    کھل اٹھی، ’’ونڈرفل! کیا وہاں ڈرنکس کا انتظام ہوتا ہے؟ ہاہا! کراچی از اے ونڈرفل سٹی۔ گیٹ وے ٹو پاکستان! اچھا تو۔‘‘ 
     
    ’’گڈ نائٹ!‘‘ 
     
    ”SEE YOU!“

    مأخذ:

    زرگزشت (Pg. 149)

    • مصنف: مشتاق احمد یوسفی
      • ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے