aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

مشتاق احمد یوسفی

رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

مشتاق احمد یوسفی

MORE BYمشتاق احمد یوسفی

     
    روٹی توبہر طور کما کھائے مچھندر
    از بسکہ ہماری ہر تباہی اور خانہ بربادی ہمارے مخدوم مرزا عبد الودود بیگ کی ذاتی نگرانی میں ہوئی ہے۔ ہم نے جاکر انہیں خوش خبری سنائی کہ ہم بینکنگ کے پیشے میں حادثاتی طور پر داخل ہوگئے ہیں۔ بولے ، ’’دست بخیر! بینک کو چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ مبارکباد کے بجائے انہوں نےاسےاس صدی کا سب سے بھونڈا مذاق قرار دیا۔ ہم نے کہا، ’’تمہیں یقین نہیں آتا۔ ہم تو کل صبح سے بینک جانا شروع کردیں گے۔‘‘ 
     
    فرمایا، ’’جب تک کوئی شخص نشے میں دھت نہ ہو، تمہیں بینک میں ملازم نہیں رکھ سکتا۔‘‘ 
     
    ’’جس شخص نے ہمیں ملازم رکھا وہ اسی عالم میں تھا۔‘‘ 
     
    ’’سچ؟‘‘ 
     
    ’’سچ۔ خدا خیر کرے! ہم نے اندھیرے میں چھلانگ لگائی ہے۔‘‘ 
     
    ’’چھلانگ تو ضرور لگائی ہے، مگر کپاس کے ڈھیر میں۔ بدن پر سریش مل کر۔ عیش کروگے، دوست! آدمی اپنی گرہ سے پیسہ ادھار دے اور وہ ڈوب جائے تو احمق کہلاتا ہے۔ وصول ہو جائے تو سود خور۔ لیکن دوسروں کا رویپہ بیاج پر چلائے اور مونچھیں داڑھی سے بڑھ جائیں، یعنی بیاج مول سے زیادہ ہو جائے تو بینکر باجے! سود میں بڑی برکت ہے۔ سود اور سرطان کو بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مزا تو جب تھا کہ۔۔۔ پیشہ بھی ڈھونڈ، سود کا سودا بھی چھوڑدے۔‘‘ 
     
    ’’بقول غالب، پیشہ میں عیب نہیں۔‘‘ 
     
    ’’حضور نے تو شرعی عیب ہی کو پیشہ بنا لیا۔ خیر بینک کے پاس تو تمہیں ملازم رکھنے کی ایک نہایت معقول وجہ موجود ہے۔ وہ یہ کہ اس کا جنرل منیجر نشے میں تھا۔ لیکن تمہارے پاس کیا جواز ہے؟ 
     
    ’’بینک میں تنخواہ ۲۶ تاریخ کو ہی مل جاتی ہے۔‘‘ 
     
    ’’ہمیں اس سے بھی پہلے مل جاتی ہے۔ ۴ تاریخ کو!‘‘ 
     
    ’’سنو۔ ہمارے پاس ایک چھوڑ تین معقول وجہیں ہیں۔ اول، اس پیشے میں دیانت، ذہانت اور نجابت کی بڑی قدر ہے۔ دوم، پاکستان بن رہاہے۔ قوم کو نئے خون، ایثار و قربانی کی اشد ضرورت ہے۔ سوم، ہمیں کوئی اور ملازمت نہیں ملی۔‘‘ 
     
    ’’ملازمت! ملازمت! کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ آخر حیات انسانی کا مقصد اعلیٰ کیا ہے؟‘‘ 
     
    ’’ہم تو زمین پر محض اس لیے اتارے گئے ہیں کہ آپ کو ہماری اصلاح کا موقع ملے۔ نہیں تو آپ کی ساری زندگی بے مقصد ہو جاتی۔‘‘ 
     
    ’’پھر بھی۔ یہ سوجھی کیا؟ ایک تو اونٹنی تھی ہی دوانی، اوپر سے گھنگھرو اور باندھ لیے۔‘‘ 
     
    ’’پہلے تو اس نے ہمیں روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا۔ پھر یکبارگی اتنے پیار سےآفردی کہ ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ مجھ ڈرتی نے کرلیےقول و قرار۔ تنخواہ تک پوچھنی بھول گئے۔ وہی حال ہوا جو جیمز جوائس کی سادہ و کمسن MOLLY کا ہوا تھا،

    ‘He asked me with his eyes, Yes, and with his hands, Yes, and Yes, I said, Yes, I will, Yes!’
     
    اور وہ جر مرگیا ہے سوہے وہ بھی آدمی، اس ایجاب و قبول پر تیس سال گزر گئے۔ اور ان تیئس برسوں میں دنیا نے کیا کچھ نہیں دیا۔ لیکن اپنا قرض جو اپنے آپ پر تھا، وہ آج تک نہ اترسکا۔ حساب کتاب سے دلی نفرت تھی۔ وہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا۔ اس سے زیادہ بدنصیبی اور کیا ہوگی کہ آدمی ایک غلط پیشہ اپنائے اور اس میں کامیاب ہوتا چلا جائے۔ اور پھر، تھا جونا خوب بتدریج وہی خوب ہوا۔ روپیہ اور اس سے متعلق تمام تر کاروبار میں کامیابی کی اولین شرط یہ ہے کہ آدمی ہر چیز سے ناتا توڑ کر اسی کا ہو رہے۔ پیسہ ہی اس کے لیے بس ہے۔ بھروسا رکھنے والے اسی پہ بھروسا رکھتے ہیں۔ عالم نزع میں بھی وہ ’’پانی! پانی!‘‘ نہیں پکارتا۔ ’’پیسہ! پیسہ! پیسہ!‘‘ 
     
    دولت، سیاست، عورت اور عبادت، کامل یکسوئی، مکمل خود گزاشتگی، سرتاپا سپردگی چاہتی ہیں۔ ذرادھیان بھٹکا اور منزل کھوٹی ہوئی۔ رچی بسی، جامع الحیثیات و حسیات شخصیت کا اس کوچے میں گزر نہیں۔ جب تک آدمی اپنے دل و دماغ سے ہر آرزو کو رخصت اور ہر آدرش کو ارپن کر کے، خود کو ان کے لیے خالص نہ کرلے، یہ چھلاوے کہیں ہاتھ آتےہیں۔ پھر جب مسافر اپنے قافلے سے بچھڑ کر ان کی جستجو میں بہت دور اکیلا نکل جاتا ہے اور شام کا جھٹپٹا سا ہونے لگتا ہے تو یکبارگی اسے احسا س ہوتا ہے کہ منزل تو وہیں تھی جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اتنے میں سورج ڈوب جاتا ہے۔ 
     
    اورنگ زیب عالمگیر نے راجپوت سرداروں کے ایک جیش کو ایک دور دراز مہم پر بھیجا تھا۔ جگ بیت گئے۔ چاندنی راتیں آئیں اور اپنی چاندی لٹا کے گزر گئیں۔ کتنے ہی ساون آئے اور نین کٹوروں کو چھلکا کر چلے گئے۔ پروہ نہ لوٹے۔ نہ نیند نیناں، نہ انگ چینا، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں۔ آخر برہ کی ماری ٹھکرانیوں نے بادشاہ کو ایک عرضداشت پیش کی جو صرف ایک دوہے پر مشتمل تھی، 
     
    سونا لادن پی گئے، سونا کر گئے دیس
    سونا ملا نہ پی ملے، روپا ہوگئے کیس

    (پیا سونا لینے گئے اور ہمارا دیس سونا کر گئے۔ ہمیں تو نہ سونا ملا، نہ پی ملے۔ اور بال روئی کے گالے ہوگئے۔)

    چاہیں تو اسے انسانی روح کے سفر کی داستان سمجھ لیجیے۔ 
     
    گڈ مارننگ کے جواب میں گڈ آفٹرنون، پہلے دن ڈیوٹی پر رپورٹ کرنے ہم سوا نو بجے مسٹر اینڈرسن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہماری ’’گڈ مارننگ‘‘کے جواب میں فرمایا، ’’گڈ آفٹر نون!‘‘ اس پیشے میں پابندی وقت کا نمبر ایمانداری سے بھی پہلے آتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، یہاں لوگ دفتر اتنے لیٹ کیوں آتے ہیں۔ میری اور تمہاری پیدائش میں اتنا لمبا وقفہ ہے کہ اس میں ایک نسل پیدا بھی ہوئی، بدراہ بھی ہوئی اور ہار جھک مار کر راہ راست پر بھی آگئی۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب لندن میں کار کو HORSE-LESS CARRIAGE (بغیر گھوڑے کی گاڑی) کہتے تھے۔ میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب ٹرام کو گھوڑے کھینچتے تھے۔ اس لیے اس کی رفتار موجودہ ٹرام سے کہیں زیادہ تیز ہوتی تھی۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا، یہاں لوگ آفس اتنے لیٹ کیوں آتے ہیں۔ 
     
    آج سے پینتالیس سال پہلے جب میں نے اسکاٹ لینڈ کے ایک چھوٹے سے بینک میں ملازمت کی تو صبح برف گرتی ہوتی تھی۔ سڑک پر گھٹنوں گھٹنوں ہوتی تھی۔ لیکن میں صفر سے بھی دس ڈگری نیچے ٹمپریچر میں ٹھیک آٹھ بجے بینک پہنچ جاتا تھا۔ تم لوگ ۱۱۳ ڈگری ٹمپریچر (۱۱۳ ڈگری= ۴۵ سینٹی گریڈ) میں بھی وقت پر نہیں آسکتے! 
     
    اسٹول کی ایجاد کا اصل مقصد، اس پند سودمند کے بعد اس نے چپراسی کو حکم دیا کہ اس ’’کوونٹڈ افسر‘‘ کو اس کے آفس تک پہنچا آؤ۔ چپراسی جس مقام تک ہمیں لے گیا وہ زمین سے ساڑھے چار فٹ کی بلندی پر ایک چوبی سطح مرتفع تھی۔ یہ تختہ جس کی قسمت میں ہماری دارِ منصبی ہونا لکھا تھا، ۱۲x۱۲ انچ سے زیادہ نہ ہوگا۔ بینکوں میں ایسے گوانینر کلرک موجود تھے جو بیس بیس برس سے ایک ہی اسٹول پر بیٹھے ٹٹ پونجیوں کو کروڑپتی بنتے دیکھ چکے تھے۔ انگلش بینکنگ کی یہ دیرینہ روایت تھی کہ کلرک جس اسٹول پر پہلے دن آن کر بیٹھتا ہے، اسی سے ریٹائر ہوکر اترتا ہے۔ اس خیال سے وحشت ہونے لگی کہ ایک انسان کی پوری زندگی، دیوار کی طرف منہ کرکے، ایک مربع فٹ تختے پر بیت سکتی ہے۔ اس پر سے کودنا، اس پر چڑھنے سے زیادہ دشوار تھا۔ اور گرم تھری پیس سوٹ، بغیر فریم کی عینک اور سنہری پاکٹ واچ کے ساتھ یہ کرتب انگلش بینکنگ کے بجائے کسی انگلش کامیڈی کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ 
     
    اسٹول کے بیچ میں گردے کی شکل کا ایک کثیر المقاصد سوراخ تھا۔ گدی کا تکلف بھی نہ تھا، جس میں غالباً یہ مصلحت تھی کہ اس سے اصلی برما ساگوان کے ابر اور جوہر چھپ جانے کا احتمال تھا۔ اپنے ’’آفس‘‘ کو دیکھ کر ہماری نومولود امیدوں پر روایتی اوس کی بجائے اولے پڑگئے۔ ہم پیچھے مڑ کر دیکھنے لگے کہ جس بینک میں ’’کوونٹڈ افسر‘‘ اسٹول پر قبضہ جمالیں وہاں غریب کلرک کیا کرتے ہوں گے۔ لیکن ہمیں کوئی گھڑونچی نظر نہ آئی۔ کچھ دن بعد ہم نے جمعدار اجمل خاں کو ڈانٹا کہ ہمارا اسٹول گرد سے اٹا رہتا ہے۔ ہم انگلی سے اس پر سودے سلف کا حساب کرلیتے ہیں۔ صبح کوئی اسے صاف نہیں کرتا۔ بولا، ’’بادشاہو! ایس بینک دے سٹول نویں افسراں دے پیندے نال صاف کیتے جاندے نے۔‘‘ (باشاہو! اس بینک میں اسٹول نئے افسروں کے پیندے سے صاف کیے جاتے ہیں۔) ایک دن ہم نے لیجر کیپر شفیع قریشی سے کہا کہ گروجی! گیارہ گھنٹے روز اسٹول پر بیٹھنے سے آپ کے چیلے کے کولہے سلیٹ کی طرح سپاٹ اور چورس ہوگئے ہیں تو اس نے مطلع کیا کہ اسٹول تو کہنی ٹکانے کے لیے ہوتا ہے۔ اسٹول کی ایجاد کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ اس کے تلفظ و املا پر پنجابی اور غیر پنجابی ایک دوسرے پر ہنس سکیں۔ 
     
    اب اور تب
    اس زمانے میں بینکوں میں یہ طمطراق نہ تھا جو آج کل دیکھنے میں آتا ہے۔ بعض بینکوں میں تو ویسا ہی فرنیچر ہوتا تھا جیسا چھوٹے ریلوے اسٹیشنوں اور قصباتی پوسٹ آفسوں میں، جہاں کرسی کی بید کی بنائی ادھڑنے کے بعد اس میں فارغ التحصیل صاحبزادے کی تختی جڑوی جاتی ہے۔ اور ریٹائر ہونے سے پہلے ہر بابو چاقو سے اپنا نام میز پر مندہ کر جاتا ہے۔ ثبت است برجریدہ عالم دوام ما۔ میز کرسیوں کی ٹانگوں کو ابھی پولیو نہیں ہوا تھا۔ اور بینکوں میں کیکڑے جیسی ٹانگوں والے مڑے تڑے فرنیچر نے ’’پیریڈ فرنیچر‘‘ کا روپ دھار کر رواج نہیں پایا تھا۔ باتھ روم کی دیوار وں پر بھی پنسل سے جو GRAFFITOS (باتصویر عبارتیں) تحریر ہوتی تھیں۔ 
     
    ان کے بارے میں ہم اتنا ہی عرض کرسکتے ہیں کہ نسل کشی کے گھوڑے اگر اپنی خواہشات قلمبند کرنے پر قادر ہوتے تو یہی کچھ رقم کرتے۔ (پروفیسر قاضی عبد القدوس کو ایسی عبارتوں کے فحش مضمون پر اتنا غصہ نہیں آتا جتنا کہ املا کی فاش غلطیوں پر۔) صورت حال اب بحمداللہ رو بہ اصلاح ہے۔ غسل خانوں میں اب فحش اور ناشائستہ فقرے بالکل نظر نہیں آتے۔ باتھ روم ٹائلز اتنی چکنی اور ’’گلیزڈ‘‘ ہوتی ہیں کہ ان پر پنسل سے کچھ نہیں لکھا جا سکتا۔ 
     
    اور کمرشل بینکوں کا کیا ذکر، خود اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا صدر دفتر جس میں اعلیٰ حکام بیٹھتے تھے ایک ایسی عمارت میں واقع تھا جس نے کبھی اچھے دن بھی دیکھے تھے۔ مطلب یہ کہ یہاں پہلے ایک عجائب گھر تھا جس میں ہڑپہ، موہن جودڑد، اور گندھارا کے گڑے ہوئے مردے اکھاڑ کر سجائے گئے تھے جو کسی کو آزار نہیں پہنچاتے تھے۔ اس عمارت میں کبوتروں کی اتنی کثرت تھی کہ چپراسی گلے میں چپراس کی بجائے غلیل ڈالے پھرتے تھے۔ چہار سو غٹرغوں اور ’’بسم اللہ، اللہ اکبر‘‘ کا غلغلہ! سادگی و پرکاری کا کہ یہ عالم بینک دولت پاکستان کے خزانوں پر کنڈلی مارکے بیٹھنے ولے ایک اعلیٰ افسر ۲۵ انچ چوڑے پاپینچے کی پتلون پہن کر (جس کا ایک پائنچہ ہی ان کی اور ہماری ضروریات کے لیے کافی تھا) سائیکل پر اسٹیٹ بینک آتے تھے۔ اور ہم انہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ ہمارے پاس تو وہ بھی نہ تھی۔ 
     
    وہ سائیکل کو تالا لگا کر نظروں کے سامنے اپنے کمرے ہی میں پارک کرتے تھے۔ تالے کا تکلف اس لیے کہ سائیکل عربی گھوڑے کی طرح وفادار تو ہوتی نہیں کہ اپنے سوار کے علاوہ کسی کو پٹھے پر ہاتھ ہی نہ رکھنے دے اور زخمی مالک کو منھ میں دابے میدان جنگ سے بگ ٹٹ جراح کے پاس لے جائے اور تلوار اور اپنے ہی دانتوں کے لگے ہوئے زخموں پر مومیائی رکھوائے۔ چپراسی کا بیان تھا کہ موصوف ہر ملاقاتی کے جانے کے بعد دو انگلیاں رکھ کر ٹائروں کی نبض دیکھ لیتے ہیں۔ پھر دیکھتے دیکھتے نقشہ بدل گیا اور دم بھر میں یہ ماجرا ہوگیا کہ عمارتوں کا جنگل کا جنگل کھڑا ہوگیا۔ زردی مائل بھر بھرے پتھر کی جگہ سیمنٹ نے لے لی۔ کھلے ’’فرنٹ‘‘ اور ننگ دھڑنگ دیواریں کم کم نظر آنے لگیں، اس لیے کہ بینک ذرا سیانے ہوئے تو سترپوشی کے لیے سنگ مرمر استعمال کرنے لگے۔ 
     
    یہ بات قابل غور ہے کہ مغلوں نے سرد اور سنگ مرمر کا استعمال حتی الامکان مقبروں کے لیے مختص و محدود رکھا۔ ذوقِ سلیم مانع تھا، ورنہ کس چیز کی کمی تھی۔ وہ چاہتے تو تالاب کے پشتے، منجنیق سے پھینکنے کے پتھر اور توپ کے گولے تک سنگ مرمر کے بنوا سکتے تھے۔ اور قلعے کی فصیلیں بھی، جن پر سے معتوب کو زندہ نیچے پھنکوایا جاتا تھا۔ چونکہ اسٹیٹ بینک کو دوسروں کے مقبرے بنوانے کی قانونی اجازت نہیں ہے، اس لیے اس نے اپنی آرام گاہ کی نہ صرف دیواریں بلکہ فرش بھی رنگین سنگ مرمر (سنگ مرمر سفید ہوتا ہے۔ افسوس کہ رنگ برنگے ONYX کا اردو مترادف مجھے معلوم نہیں۔ عتیق رنگارنگ، جزع اور سنگ بابا فوری اردو میں کشتہ جات کے نام معلوم ہوتے ہیں۔) کا بنوا ڈالا جو اتنا چکنا اور پھسلنا تھا کہ پہلے ہی ہفتے میں پندرہ آدمیوں کی سولہ ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ چنانچہ بہ نظر احتیاط یہ حکم صادر ہوا کہ چپراسی چمڑے کے جوتے نہ پہنیں، کریپ سول کے پہن کر آئیں تاکہ ہڈی پسلی تڑواکر اپاہج نہ ہوجائیں۔ افسروں کو تاکید تھی کہ صرف چمڑے کے جوتے پہنے۔ 
     
    اس زمانہ میں خوش خلقی کا یہ عالم تھا کہ کرایہ دار، مالک مکان کو گالی دیے بغیر پانچ پانچ منزلہ زینہ چڑھ جاتے تھے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ اسٹیٹ بینک نے صرف پہلی منزل تک جانے کے لیے زینہ رواں (ESCALATOR) کا بصرف زر (مبادلہ) کثیر چونچلا کیا تو ڈیڑھ دو مہینے تک کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب اس کی آخری سیڑھی میں پھنس کر ڈیڑھ دو سو لاوارث جوتے جمع نہ ہوگئے ہوں۔ ان جوتوں کا سابقہ تعلق ان خواتین سے تھا جو شوہروں کی اجازت کے بغیر چوری چھپے ’’ایسکے لیٹر‘‘ دیکھنے آئیں اور بمشکل تمام پیر سلامت لے کر گھر لوٹیں۔ صبح کی بھولی اگر شام تک ننگے پیر بھی لوٹ آئے تو اسے بھولی نہیں کہنا چاہیے۔ ان جوتوں میں کبھی کوئی مردانہ جوتا نہیں پایا گیا، جس کے دو سبب تھے۔ اول تو مرد جوتے چھوڑ کر بھاگنا بزدلی سمجھتے ہیں۔ دوم، وہ اپنے جوتوں کے فیتے کس کر باندھتے ہیں۔ 
     
    دارالخلافہ اسلام آباد ابھی پاکستان کے نقشہ پر نہیں ابھرا تھا اور کراچی ہی دارالخون خرابا تھا۔ کراچی کا نقشہ ہی نہیں، تلفظ اور املا تک گنوارو سا تھا۔ زکام نہ ہو، تب بھی لوگ کراچی کو کرانچی ہی کہتے تھے۔ چیف کورٹ کے سامنے گاندھی جی کا ایک نہایت بھونڈا مجسمہ نصب تھا جس کی کوئی چیز گاندھی جی سے مشابہت نہیں رکھتی تھی، سوائے لنگوٹی کی سلوٹوں کے۔ گوانیز جوڑے وکٹوریہ گاڑی میں بندر روڈ پر ہواخوری کے لیے نکلتے اور نورانی شکل کے پیرانِ پارسی شام کو ایلفنسٹن اسٹریٹ کی دکانوں کے تھڑوں پر ٹھیکی لیتے۔ ایلفنسٹن اسٹریٹ پر کراچی والوں کو ابھی پیار نہیں آیا تھا اور وہ ’’ایلفی‘‘ نہیں کہلاتی تھی۔ سارے شہر میں ایک بھی نیون سائن نہ تھا۔ اس زمانے میں خراب مال بیچنے کے لیے اتنی اشتہار بازی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ نیپیر روڈ پر طوائفوں کے کوٹھے، ڈان اخبار کا دفتر اور اونٹ گاڑیوں کا اڈا تھا۔ یہاں دن میں اونٹ گاڑیوں کا اول الذکر حصہ کلیلیں کرتا اور رات کو تماش بین۔ اہل کمال اس زمانے میں بھی آشفتہ حال پھرتے تھے۔ کچھ ہماری طرح تھے کہ محض آشفتہ حال تھے۔ 
     
    شریف گھرانوں میں جہیز میں سنگرمشین، ٹین کا ٹرنک اور بہشتی زیور دیا جاتا تھا۔ اردو غزل سے معشوق کو ہنوز شعر بدر نہیں کیا گیا تھا اور گیتوں اور کجریوں میں وہی ندیا، نندیا اور نندیا کا رونا تھا۔ سیٹھانیوں اور اونچے گھرانوں کی بیگمات نے ابھی ساریاں خریدنے اور ہندوستانی فلمیں دیکھنے کے لیے بمبئی جانا نہیں چھوڑا تھا۔ ڈھاکہ اور چٹگانگ کے پٹ سن کے بڑے تاجر ’’ویک اینڈ‘‘ پر اپنی آرمینین واشتاؤں کی خیر خیریت لینے اور اپنی طبیعت اور امارت کا بار ہلکا کرنے کے لیے کلکتے کے ہوائی پھیرے لگاتے تھے۔ کیا زمانہ تھا۔ کلکتے جانے کے لیے پاسپورٹ ہی نہیں، بہانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ 
     
    آم، کیلا اور شاعر ہندوستان سے اور لٹھا جاپان سے آتا تھا۔ بینکوں میں ابھی ایئرکنڈیشنر، میز پر فنانشل ٹائمز، ایرانی قالین، سیاہ مرسڈیز کار، قلم چھوڑ ہڑتال، رشوت، آسٹن ریڈکے سوٹ، مگرمچھ کی کھال کے بریف کیس اور اتنی ہی موٹی ذاتی کھال رکھنے کا رواج نہیں ہوا تھا۔ فقیر ابھی ہاتھ پھیلا پھیلا کر ایک پیسہ مانگتے اور مل جائے تو سخی داتا کو کثرتِ اولاد کی بددعا دیتے تھے۔ اور یہ فقیر پر تقصیر؟ اپنی اوقات کو نہیں بھولا تھا۔ کنڈوں کی آنچ پر چکنی ہانڈی میں ڈوئی سے گھٹی ہوئی ارد کی بے دھلی دال چٹخارے لے لے کر کھاتا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا تھا۔ 
     
    ہم الٹے، بات الٹی یار الٹا، جن صاحب کے ذمے ہمیں بینکنگ کے اسرار و رموز سے واقفیت پیدا کروانی تھی، ان کی خست کا عجیب عالم تھا۔ عقل کے استعمال میں بھی کفایت شعاری سے کام لیتے تھے۔ دن بھر آئی ہوئی ڈاک کے لفافوں کو جمع کرتے رہتے اور انہیں الٹ کر ’’رف پیڈ‘‘ کے طور پر استعمال کرتے۔ اپنی دور افتادہ بیگم کو بھی اسی کاغذ پر اپنی عدم خیریت سے مطلع فرماتے۔ ان کے ایک نامۂ محبت کا فقرہ آج تک لوح دل پر نقش ہے۔ لکھا تھا ، ’’بیگم! اس دنیا میں صرف تمہی میری مونث و غمخوار ہو۔‘‘ پنسل جب گھستے گھستے اتنی سی رہ جاتی کہ بغیر چمٹی کے گرفت میں نہ آسکے تو وہ ٹوٹے پر اسی کاغذ کی نلکی چڑھا کر اتنا لمبا کرلیتے تھے کہ لکھتے میں دوسرا سرا ان کی عینک کے شیشے پر ’’وائپر‘‘ کی طرح پچارا پھیرتا رہتا تھا۔ اس نلکی میں ایک خلال اور پانچ چھ لونگیں ڈال لیتے تھے۔ درد بہت ستاتا تو ایک لونگ نکال کر ڈاڑھ کے نیچے رکھ لیتے۔ جتنی دیر لونگ ڈاڑھ تلے دبی رہتی، اسٹاف لذت دشنام سے محروم رہتا۔ 
     
    ایک دن ہماری تربیت پر توجہ فرمائی تو ہمیں بھی نلکی بنائی سکھائی اور رسان سے سمجھایا کہ باتھ روم جائیں تو پنکھے کا سوئچ آف کر کے جایا کریں۔ اور خدارا! اپنے غصے اور مثانے کو کنٹرول کرنا سیکھیں۔ ٹک مارک لگانا بھی اسی دن سکھایا۔ کہنے لگے، ’’بینک میں ٹک مارک اس طرح نہیں، بلکہ اس طرح الٹا لگایا جاتا ہے۔ تم ایم اے، ایل۔ ایل۔ بی ہو۔ اتنا بھی معلوم نہیں! ہم اس غلطی سے اتنے نادم اور خائف ہوئے کہ اپنے ہر بات کو غلط اور الٹی سمجھنے لگے۔ تین چار دن بعد پھر ہمارا چالان ہوا۔ کہنے لگے، ’’میں تو عاجز آگیا۔ آپ کی ہر بات الٹی ہے۔ تقسیم کا نشان اس طرح بنا ہوا میں نے تو خدا کی قسم اپنے پورے بینکنگ کیریر میں نہیں دیکھا۔‘‘ ہم نے معذرت کی کہ ہم نے از روئے احتیاط و خوف اسے کھڑا کردیا ہے۔ خیریت گزری کہ انہوں نے ضرب کے نشان میں کوئی تبدیلی نوٹس نہ کی، ورنہ ہم نے تو اپنی طرف سے دائیں ڈنڈے کو بائیں طرف اور ب ائیں کو دائیں طرف کردیا تھا۔ 
     
    یعسوب الحسن غوری، کہ ان کا یہی نام تھا، کسی کلرک سے خفا ہوتے تو بزبان انگریزی اس کے درجات بلند کرتے۔ اس سے سیری نہ ہوتی تو آخر میں اصلی دیسی گالی کا کڑکڑاتا بگھار دیتے۔ منہ زور ماتحتوں کو ان چپراسیوں اور کلرکوں کی فہرست دکھاتے جو گزشتہ تیس سال میں ان کی چھنگلیا کے اشارے سے برخاست ہوئے تھے۔ بابر نے بھی دو تین دفعہ اپنے دشمنوں کے کٹے ہوئے سروں کے مینار بنوائے تھے تاکہ پسماندگان عبرت پکڑیں۔ ہاں کبھی ہمیں ترقی پر اکسانا مقصود ہوتا تو دراز میں سے ایک گراف نکال کر دکھاتے۔ اس میں لکیروں کے ذریعہ یہ دکھایا گیا تھا کہ انہوں نے پچھلے تیس برسوں میں سال بسال کتنی ترقی کی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ۲۷سال تک، یعنی پاکستان بننے سے پہلے، ان کے کیریر کے گراف کی جو لکیریں زمین پر لوٹیں لگارہی تھیں وہ ۱۹۴۷میں کپڑے جھاڑ کر ایک دم کھڑی ہوگئیں اور اب ان کا رخ آسمان کی طرف تھا۔ ان کی ترغیب و تشویق پر ہم نے بھی اپنے کیریر کا چار سالہ گراف بنایا۔ اگر اسے الٹا کر کے دیکھا جاتا تو ہم نے بھی بڑی تیزی سے ترقی کی تھی۔ 
     
    کچھ تو فطرتاً وہمی، اور کچھ شک و شبہ کو پیشہ وارانہ ڈسپلن کے طور پر اپنا لیا تھا۔ موقع بے موقع یہ نصیحت کرتے کہ ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھنا سیکھو۔ چوکس بینکر نوٹ کھڑکنے کی آواز سے بھی چونک پڑتا ہے۔ آٹھ کروڑ کی آبادی میں کچھ نہیں، کچھ نہیں تو سولہ کروڑ تالے ضرور ہوں گے۔ اسی سے اندازہ لگا لو کہ ہم ایک دوسرے پر کتنے فیصد بھروسا کرتے ہیں۔ اکثر فرماتے کہ جب ہر دستخط اور چہرہ جعلی اور ہر ہندسہ میں ہتھکڑی نظر آنے لگے تو سمجھ لو کہ اب تم اکاؤنٹنٹ بننے کے لائق ہو گئے ہو۔ ٹائپ کیے ہوئے خط کی تین چار کاپیاں ہوں تو ہر کاپی کا ایک ایک حرف از سرنو چیک کرتے۔ رجسٹروں کے اندراجات کا محدب شیشے سے بار بار معائنہ کرتے کہ کسی نے ربر سے مٹاکر کچھ اور تو نہیں لکھ دیا۔ کسی کے قبضے سے چرس یا بغیر لائسنس کی بندوق یا بیوی برآمد ہو جاتی تو غالباً اتنا تہلکہ نہ مچتا جتنا ہماری دراز سے ربر برآمد ہونے پر۔ حد یہ کہ اپنی قسمت کی لکیر میں بھی انہیں کا تب تقدیر کی کچھ جعلسازی نظر آتی تھی۔ 
     
    قاعدے قانون کے پابند تھے۔ باتھ روم میں بھی سڑک کے بائیں طرف چلتے تھے۔ ان کے دشمنوں کا کہنا تھا کہ کبھی ٹرین سے لاہور جانا ہو تو اپنی برتھ پر رات اکڑوں بیٹھے اسٹیشنوں کو ٹائم ٹیبل سے، اور ہر دو سے اپنی گھڑی کو ملاتے رہتے ہیں۔ اس خوف سے آنکھ نہیں جھپکتے کہ خواب غفلت میں کہیں ان کا ڈبہ نہ کٹ جائے اور انجن انھیں جنگل بیابان میں چھوڑ کر خالی ہاتھ پسٹن ہلاتا لاہور پہنچ جائے۔ ایک دن ہمارے سامنے جمعدار اجمل خاں کو اپنی بیگم کے نام خط دیا کہ اندر کی جیب میں رکھ کر لے جاؤاور جنرل پوسٹ آفس کے لیٹر بکس میں ڈال آؤ۔ وہ پوسٹ کرکے آیا تو اس پر یہ جرح ہوئی،
     
    ’’خط ڈال آئے؟‘‘ 
     
    ’’جی ہاں! ڈال آیا۔‘‘ 
     
    ’’لیٹر بکس کے تالے کو زور سے کھینچ کر دیکھ لیا تھا کہ ٹھیک سے بند ہے یا نہیں۔‘‘ 
     
    ’’میں زور زور سے کھینچ رہا تھا کہ ایک ڈاکیے نے پکڑ لیا۔‘‘ 
     
    ’’ابے فارن میل کے ڈبے میں تو نہیں ڈال آیا؟ لیٹر بکس کے اندر چاروں انگلیاں ڈال کر پوسٹ کیا تھا؟‘‘ 
     
    ’’یس سر! میں نے تو انگوٹھا بھی ڈال دیا تھا۔‘‘ 
     
    ’’لیٹربکس سے کان لگا کے لفافہ گرنے کی آواز سنی تھی؟ یا اس دفعہ بھی دور سے ہی مستی کر کے آگیا؟‘‘ 
     
    وہ ایک چھوٹے سے برساتی گاؤں میں پلے بڑھے تھے، جہاں قدم قدم پہ سانپ بچھو اور مشترکہ بزرگ کاٹنے کو دوڑتے تھے۔ چنانچہ اب بھی یہ حال تھا کہ صبح جوتے میں اس ڈر سے پاؤں نہیں ڈالتے تھے کہ سانپ دبکا نہ بیٹھا ہو اور پیڑ ڈالتے ہی ڈس لے۔ لہٰذا پہلے ہاتھ ڈال کر اطمینان کر لیتے تھے۔ دفتر میں بنی ہوئی چائے کبھی نہیں پیتے تھے مبادا کوئی کچھ ملا دے۔ ملباری ہوٹل سے ایک آنے کی کڑک سلیمانی چائے منگا کر دن میں تین چار دفعہ طلب مٹا لیتے تھے۔ اسے چائے کہنے کے لیے رواداری کے علاوہ ضعف بصارت و شامہ بھی درکار تھا۔ اس میں پودینہ، بڑی الائچی، اجوائن، سفید زیرہ، لاہوری نمک، زعفران، تمباکو کے پتوں پر پلی ہوئی مکھیوں کا شہد، لیموں، دارچینی، اور کیوڑہ تو ہم بھی پہچان لیتے تھے۔ سننے میں آیا تھا کہ عبداللہ ملباری اس میں دودھ کے بجائے ’’پہلن‘‘ (پنجابی میں پہلی بار بیائی ہوئی گائے یا بھینس کو کہتے ہیں) کی کھیس ڈال کر افیم اور سلاجیت کی سلائی پھیر دیتا ہے۔ جس نے ایک دفعہ اس کے ہاتھ کی چائے پی لی، ہمیشہ کے لیے اسی کا ہورہتا۔ یعسوب صاحب تو چائے کا جوگا تک حلق میں انڈیل لیتے تھے۔ کسی حکیم کو بھنک نہیں پڑی ورنہ اس نسخے سے تو یونانی امراض کا علاج کیا جا سکتا تھا۔ بہت سی روٹھی ہوئی، اٹواٹی کھٹواٹی لیے پڑی ہوئی جوانیوں کو منایا جاسکتا تھا۔ 
     
    ہم نے ایک دن شکایت کی کہ ہمیں ایک ہی سولی پر لٹکے لٹکے چار مہینے ہوگئے۔ دوسرے شعبوں کا بھی ذائقہ چکھنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ دوسرے دن انہوں نے ہمیں رانگی واڑہ میں شیخ شمس الدین اینڈ سنز کے چمڑے کے گوداموں اور کچی کھالیں کمانے کے حوضوں کا معائنہ کرنے بھیج دیا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ دوزخ میں، منجملہ دیگر ضیافتوں کے، بدبو کا تکلف بھی ہوگا یا نہیں۔ لیکن اگر ہوا تو دیکھ لیجیے گا یہی ہوگی۔ تین دن تک ہر چیز میں سے وہی سڑانڈ آتی رہی۔ دماغ میں بس کے رہ گئی۔ تھوڑی بہت اس وقت نکلی جب چوتھے دن ہم مرچوں کے گودام کا معائنہ کرکے دو دن تک چھینکتے پھرے۔ یہ بو، بقول شاعر، وصل کی حسرت کی طرح نکلنے کو تو نکلی، مگر جیسی نکلنی چاہیے ویسی نہیں نکلی۔ 
     
    پرانے خیال کی حیادار بیبیاں ہر مرد کا نام لے سکتی ہیں، سوائے اپنے میاں کے۔ اپنے مرد کا نام لینا بے حیائی میں شمار ہوتا ہے۔ یعسوب الحسن غوری بھی کبھی کسی محرم انگریز کا نام نہیں لیتے تھے۔ ان کا ذکر آتے ہی ’’بڑا صاب، باس اور چیف‘‘ کا گھونگھٹ نکال لیتے تھے۔ اینڈرسن کے کمرے سے الٹے قدموں نکلتے، کبھی پیٹھ نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ آخری قدم تک منہ در منہ ڈانٹ کھاتے نکلتے۔ اینڈرسن کبھی اچانک آنکلے تو جلتے ہوئے سگرٹ کو مٹی میں دم پخت کر دیتے۔ ناک اور مٹھی سے دیر تک دھواں ’’لیک‘‘(LEAK) ہوتا رہتا۔ وہ گالی بھی دیتا تو بالکل اس طرح سنتے جیسے ہز ماسٹرز وائس کے ریکارڈ کی تصویر میں دکھایا جاتا ہے۔ سخت جاڑے میں اس کی بات کا جواب محض گردن کے اشارے سے دیتے۔ انگریز کے سامنے منھ سے بھاپ نکالنے کو گستاخی جانتے تھے۔ غرض کہ انگریز کی تعظیم و تکریم میں غلو برتتے اور انیں فطری تقاضوں سے بالاتر سمجھتے تھے۔ انگلستان کی ملکہ معظمہ کے ہاں بچہ ہوگیا تو ہفتوں شرمائے شرمائے پھرے۔ 
     
    آئندہ اس واقعہ کو نہ دہرایا جائے، اگر کسی سے غلطی ہو جائے یا لندن کیبل بھیجنے میں ایک ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر کے باعث بینک پر ایک دن کا سود چڑھ جائے تو خطاوار کو وہ رقم گرہ سے بھرنی پڑتی تھی۔ برٹش بینکوں میں یہ تاوان عام تھا۔ رخصت کا نام لیتے ہی ’’بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے، تن کے بیٹھے ہیں‘‘ والا نقشہ ہو جاتا تھا۔ ہمیں یاد ہے۔ جون کا مہینہ، فری امپورٹ کا زمانہ تھا۔ کام بے اندزہ، آدمی کم۔ ہم چار آدمیوں کے برابر کام اور آٹھ آدمیوں کے برابر غلطیاں بڑی تندہی سے کر رہے تھے۔ ایک منحوس صبح خبر آئی کہ ٹنڈو آدم میں اخبار پڑھتے پڑھتے ابا جان پر دل کا دورہ پڑا اور زمین نے اپنی امانت واپس لے لی۔ حیدرآباد میں ان کی تدفین کے سلسلہ میں تین دن کی رخصت اتفاقیہ لینے کی پاداش میں یعسوب الحسن غوری نے ہماری تنخواہ کاٹ لی، جو کچھ عرصہ بعد اینڈرسن نے اس ’’وارننگ‘‘ کے ساتھ واپس دلوا دی کہ ’’آئندہ اس واقعہ کو نہیں دہرایا جائے گا۔‘‘ 
     
    سلطان علاء الدین خلجی کا بھی کچھ ایسا ہی دستور تھا۔ اگر کوئی سوار لڑائی کے وقت غیرحاضر ہوجائے تو سلطان اس سے گزشتہ تین برس کی ساری تنخواہ دھروا لیتا تھا۔ اور احمد شاہ درانی نے تو ذرا سی حکم عدولی پر دو سو سپاہیوں کی مشکیں بندھوا دیں۔ ناک میں تیروں سے چھید کرکے نکیلیں ڈالیں اور اونٹوں کی طرح ہانک کر شجاع الدولہ کے پاس بھیج دیا کہ چاہے قتل کرو، چاہے ازراہِ ترحم معاف کرکے اسی حالت میں دشمن سے لڑواؤ۔ 
     
    ہاتھ کی لکیریں بولتی ہیں، ہم ریوڑ میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ ہر ایک سینگ مارتا تھا۔ کی جس سے بات اس نے ہدایت ضرور کی۔ یوں تو سارے جہاں کی کھڑکیاں ہمارے ہی آنگن میں کھلتی تھیں، لیکن یعسوب الحسن غوری کا انگوٹھا ہمارے ٹینٹوں پر ہی رہتا تھا۔ روز روز کے طعن و تشنیع سے ہمارا کلیجہ چھلنی ہوگیا تھا۔ بلکہ چھلنی میں چھید بھی ہوگئے تھے جن میں سے اب تو موٹے موٹے طعنے پھسل کر نکلنے لگے تھے۔ منجملہ دیگر الزامات کے ہم پر ایک الزام یہ تھا کہ ہمارے دستخط گستاخانہ حد تک لمبے ہیں۔ اتنی قلیل تنخواہ اتنے بڑے دستخط کی کفالت نہیں کرسکتی۔ یعسوب الحسن غوری کو اینڈرسن دن میں کئی بار طلب کرتا۔ کبھی کچھ پوچھتا، کبھی کچھ۔ اندر جانے سے پہلے وہ اپنی ہتھیلی پر ’’کاپنگ‘‘ پنسل سے وہ تمام متعلقہ و غیر متعلقہ اعداد و شمار نوٹ کرلیتے جن کے بارے میں اینڈرسن سوال کر سکتا تھا۔ جیسے ہی وہ سوال کرتا، یعسوب الحسن غوری منھ پھیر کرید بے داغ کے متعلقہ حصہ کو زبان سے چاٹ کر حروف کو روشن کرتے اور کھٹاک سے صحیح اعداد و شمار آنے پائی سمیت بتا دیتے۔ 
     
    ایک دن ہم نے عرض کیا آپ کاغذ پر لکھ کر کیوں نہیں لے جاتے؟ ارشاد ہوا، آپ کو بینک میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ آپ انگریزوں کے مزاج سے واقف نہیں۔ کاغذ پر نوٹ کرکے لے جاؤں تو وہ یہ سمجھے گا کہ میرا حافظہ جواب دے چکا ہے۔ میں خدا نخواستہ بوڑھا ہوگیا ہوں۔ ابھی تک تو وہ ولایتی الو یہ سمجھتا ہے کہ مجھے تمام اعداد و شمار منھ زبانی یاد ہیں۔ 
     
    اس کے کچھ دن بعد اینڈرسن نے ہمیں طلب کیا اور پوچھا کہ نرائن گنج برانچ کے بٹے کھاتے قرضوں کی مجموعی رقم اور تعداد کیا بنتی ہے؟ صحیح صحیح بتاؤ۔ صحیح صحیح تو در کنار، ہم تو غلط جواب دینے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے تھے۔ ہمیں شش و پنج میں مبتلا دیکھا تو کہنے لگا، ’’ہری اب! جلدی سے ہتھیلی چاٹ کر بتاؤ۔‘‘ اس دن ہم نے دیکھا کہ اینڈرسن کی میز پر پیتل کے نقشین پیپرویٹ کی جگہ پلاسٹک کے چھ گھٹیا پیپرویٹ رکھے ہیں۔ ہم نے جمعدار اجمل خاں سے کہا کہ پیتل کے پیپرویٹ اچھے لگتے تھے۔ کیوں بدل دیے؟ کہنے لگا غوری صاحب بولتے ہیں کہ پلاسٹک کی چوٹ سیپٹک نہیں ہوتی۔ 
     
    کیا بیئر حرام ہے؟ ایک دفعہ جمعہ کی اذان کے وقت ہمیں بینک میں گپ شپ کرتے دیکھا تو اشارے سے تخلیہ میں، یعنی باتھ روم کے دروازے تک لے گئے اور نصیحت کی کہ نماز پڑھا کرو۔ اس سے دھیان غبن کی طرف نہیں جاتا، بشرطیکہ پنج وقتہ پڑھی جائے۔ اتوار کی صبح کو حضرت غلام احمد پرویز کا درس سننے جاتے۔ دو تین دفعہ ہمیں بھی لے گئے۔ پر طبیعت ادھر نہیں آئی۔ فلسفہ اور اشعار کی بھرمار سے وعظ و درس پرہمیں اپنی نثر کا گمان ہونے لگا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی ’’رولراسکیٹ‘‘ پہن کر سجدہ کرنے کی کوشش کرے۔ رہے ابو الکلام آزاد، سو وہ اپنی انا کے قتیل تھے۔ اسلام میں اگر انسان کو سجدہ روا ہوتا تو وہ اپنے آپ کو سجدہ کرتے۔ یعسوب الحسن غوری کہتے تھے کہ عالم دین کی صحبت سے روح کا سارا زنگ اتر جاتا ہے۔ البتہ دل پر جو پھپھوندی لگ گئی تھی، اسے اتوار کی سہ پہر کو بیئر سے رگڑ رگڑ کر دھوتے تھے۔ ایک ڈاکٹر نے کہا تھا کہ تمہارے گردے میں جو سنگ ریزے ہیں وہ اس ہفتہ واری عمل سے فلش ہوجائیں گے۔ اکثر فرماتے کہ یوں بھی بیئر کو کٹھ ملاؤں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے۔ ایران میں تو اسے آب جو کہتے ہیں۔ 
     
    خدا جانے کہاں تک صحیح ہے، دشمنوں نے اڑائی تھی کہ ایوب خاں کے عشرۂ انحطاط میں سرکاری مفتی اعظم ڈاکٹر فضل الرحمن نے کہ میگل یونیورسٹی سے علم دین کی سند لائے تھے، یہ فتویٰ دے دیا کہ ازبسکہ بیئر میں فقط پانچ فی صد الکحل اور ۹۵ فیصد پانی ہوتا ہے، اس کا پینا از روئے شرع حلال ہے۔ اسی نوع کے دوتین فتاویٰ پرفتور کی پاداش میں انہیں جلاوطن ہوکر دس گنی تنخواہ پر امریکہ جانا پڑا۔ اگر ڈاکٹر صاحب قبلہ ذرا بھی سمجھ اور سائنس سے کام لیتے تو فتویٰ میں عاقلوں کو بس اتنا اشارہ کافی تھا کہ بیئر ۹۵ فی صد حلال ہے! 
     
    نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے، غبن، خیانت مجرمانہ اور جعلی نوٹ اور دستخط بنانے کی جتنی بھی بامشقت یا بے مشقت سزائیں تعزیراتِ پاکستان میں ہیں، ان کی متعلقہ دفعات ہمیں سامنے بٹھا کے حفظ کروا دی تھیں۔ چار پانچ سبق کے بعد ہم اس قدر رواں ہوگئے کہ اپنا ہر فعل کسی نہ کسی دفعہ کے تحت نظر آنے لگا۔ ہر لحظہ قانون کے لمبے ہاتھ کا بوجھ اپنے کندھے پر محسوس کرتے کرتے ہماری چال میں فرق آگیا تھا۔ پھر ایک دن معاً خیال آیا کہ ہمارے اور غبن کے درمیان تو کئی مضبوط تجوریاں اور ہم سے بھی زیادہ بدنیت افسر حائل ہیں۔ پھر ڈر کا ہے کا۔ اب سر اٹھاکر چلنے لگے۔ ابتدائی مغلیہ عہد کے شاعر نوری نے بھی اسی قسم کی بے خوفی کا اظہار کیا ہے حالانکہ اس نے تو خود کو ایمان دار ثابت کرنے کے لیے کسی بینک میں بھی ملازمت نہیں کی تھی، 
     
    ہرکس کہ خیانت کند البتہ بترسد
    بے چارۂ نوری نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے
     
    بیماری اس علاج سے بہتر ہے، اکثر فرماتے کہ تفکرات سے میرے گردے میں پتھریاں ہوگئی ہیں۔ خان سیف الملوک خان کی تشخیص تھی کہ پتھریوں کی تعداد ان کے دیے ہوئے بٹے کھاتے قرضوں کے برابر ہے۔ انہیں نکالنے کے لیے ہر پندرہ منٹ بعد ایک گلاس پانی پیتے اور اس کی ایک لکیر اپنے سگرٹ کے پیکٹ پر کھینچ دیتے۔ شام کو خالی پیکٹ جمع کرتے اور ان پر لگائے ہوئے نشانوں کو جوڑ کر یہ دیکھتے کہ آج کتنے گلاس پانی پیا۔ پھر FACIT مشین پر گلاسوں کے گیلن اور گیلن کے پیکٹ بنا کر دیکھتے کہ بقیہ سنگ ریزوں کو خارج کرنے کے لیے سگرٹ کے کتنے پیکٹ اور پھونکنے پڑیں گے۔ 
     
    بلا کے وہمی تھے۔ مزاج پوچھو تو جواب نہیں دیتے تھے۔ کراہنے لگتے تھے۔ اس عمل سے فارغ ہوتے تو ’’الحمداللہ‘‘ یا ’’خدا کا شکر ہے‘‘ اس طرح کہتے گویا محض عقیدے کی پختگی کا اعلان مقصود ہے، خیریت کہاں؟ چالیس سال سے اپنی زندگی سے مایوس تھے۔ اینڈرسن کے اصرار پر ایک دفعہ ڈاکٹر سم کا کس سے بھی رجوع کیا تھا۔ انہی کا بیان ہے کہ میرا حال دیکھ کر ڈاکٹر سم کا کس کی نبضیں چھوٹ گئیں۔ اپنے پلنگ کی پائینتی ایک قدِآدم ANATOMY CHART (انسانی ڈھانچے کا نقشہ، جیسا فٹ پاتھ پر مجمع لگانے والے دوافروش ساتھ رکھتے ہیں) کھڑا کر رکھا تھا۔ دن میں جسم کے کسی نہ کسی حصے میں درد ضرور ہوتا۔ کہیں ٹیس اٹھتی۔ شام کو چارٹ کے سامنے کھڑے ہوکر، منھ سے منھ، ہڈی سے ہڈی، گردے سےگردے اور رگ سے رگ ملا کر تشخیص کرتے کہ آج کون سا عضو یا عضلہ اور ماؤف ہوا۔ پھر اس کا علاج کشمیر ہوٹل کے ادلے کے قورمے اور بریانی سے کرتے جس میں برابر کے بادام پڑے ہوتے تھے۔ 
     
    ہم نے تو انہیں اپنی تنخواہ اور تندرسی کی طرف سے ہمیشہ فکر مند (یا پروفیسر قاضی عبد القدوس کے الفاظ میں، متردد و مشوش) ہی دیکھا۔ ایک سال پہلے ان کے چچا جان قبلہ صبح سوکر اٹھے تو پتہ چلا کہ لقوہ مار گیا۔ اوپر کا ہونٹ ٹیڑھا ہوگیا۔ دو مہینے بعد فالج کا حملہ ہوا اور دائیں ٹانگ بھی بیکار ہوگئی۔ چچاجان قبلہ پر ان حملوں سے ان کی اپنی طبیعت ایسی مفلوج ہوئی کہ صبح آنکھ کھلتے ہی آئینے میں اپنا اوپر کا ہونٹ ضرور چیک کرلیتے تھے۔ اور نلکے کے نیچے نہانے سے پہلے گھٹنے پر ڈاکٹر کی طرح چھوٹی سی ہتھوڑی مار کر REFLEXES دیکھ لیتے تھے کہ رات فالج گرایا نہیں۔ غسل خانے کی اندر سے چٹخنی بھی نہیں لگاتے تھے تاکہ میت نکالنے میں آسانی رہے۔ یہ تھے ہمارے معلم اول! 
     
    ۲ 
     
    ڈی سوزا کی قینچی، اس زمانے میں نہ کوئی ٹریننگ ہوتی تھی نہ لیکچروں کا بکھیڑا۔ نووارد گھس بیٹھ کر خود کچھ سیکھ لے تو سیکھ لے، ورنہ کوئی کچھ بتاکے نہیں دیتا تھا۔ واحد ہدایت یہ تھی کہ ہر بات ’’آبزرور‘‘ کرتے رہو۔ بس دیکھتے چلے جاؤ۔ نئے رنگروٹ پر جگادریوں کو چھوڑدیا جاتا تھا۔ جیسے ایک زمانے میں روم میں حق و ناحق کا فیصلہ بھوکے شیر کیا کرتے تھے جنہیں مسیحیوں پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ شیرویجی ٹرین نہ تھے۔ خلقت تالیاں بجابجاکر حق یعنی شیر کی فتح پر مسرت کا اظہار کرتی تھی۔ 
     
    بینک اپنے تار اور کیبل خفیہ ’’کوڈ‘‘ میں بھیجتے ہیں۔ فائدہ اس کا یہ کہ جن کو بینک کے ساتھ فراڈ کرنا ہو، انہیں پہلے اس کا کوڈ چرانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ کوڈ اتنی ہی ضخیم ہوتی ہے جتنی عام ڈکشنری۔ ڈی سوزا پچیس سال سے سادہ انگریزی کو ’’پیٹرسن کوڈ‘‘ میں منتقل کرنے اور پھر اس آملیٹ سے دوبارہ انڈہ بنانے پر مامور تھا۔ ساری کوڈ حفظ ہوگئی تھی اور بغیر دیکھے ترجمہ کر لیتا تھا۔ تنہا پانچ آدمیوں کے برابر کام کرتا تھا۔ اس کے ذمے ہمیں اس جناتی زبان میں تار بنانا سکھانا تھا۔ مراقی تھا۔ سننے میں آیا تھا کہ پندرہ سال پہلے اسے ایک گوانیز ٹائپسٹ سے عشق ہوگیا تھا لیکن وہ ایک ہندو تاجر سے شادی کرکے ہانگ کانگ چلی گئی۔ اس دن سے اس کا یہی حال تھا۔ فرصت کے اوقات میں محبوبہ کے نام ’’پیٹرسن کوڈ‘‘ میں ایکسپرس تار ڈرافٹ کرتا اور پھاڑتا رہتا۔ کوئی قریب جاتا تو تار کو ہاتھ سے ڈھانک کر کہتا کیا تمہاری ماں بھین نہیں ہے؟ 
     
    بڑی بڑی آنکھوں میں، جو ابلی پڑتی تھیں، بے خوابی کے سرخ ڈورے۔ سر آگے کے گول، پیچھے سے چپٹا۔ گندمی (میکسی پاک ورائٹی) رنگ۔ چہرے پر دائمی وحشت۔ رات کو دوگھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا تھا۔ دفتر آتے ہی اپنا سیاہ کوٹ، جس کا کالر روزانہ استری کرنے سے چمکنے لگا تھا، کرسی پر ٹانگ دیتا۔ نظر اتنی کمزور کہ جب تک ہمارا چہرہ اس کی آنکھ کے ڈھیلے سے تین انچ فاصلے پر نہ ہو ہمیں پہچان نہیں پاتا تھا۔ اس فاصلے سے ہمارے سر میں پڑے ہوئے گارڈینیا تیل کی خوشبو سے ہمیں فوراً پہچان لیتا تھا۔ عینک کی قسم تھی۔ صبح ساڑھے ۸ بجے رجسٹر پر سجدہ ریز ہوتا تو چھ بجے سلام پھیرتا تھا۔ 
     
    کبھی کوئی جھوٹوں بھی چھیڑ دیتا تو دفتر میں بھونچال آ جاتا۔ مارپٹائی کے بعد وہ بائیں ہاتھ پر کوٹ ڈال کر چیف اکاؤنٹنٹ کے سامنے جاکر کھڑا ہوتا۔ دائیں ہاتھ سے اپنے سولا ہیٹ کو چھوتا۔ دہرا ہوکر BOW کرتا اور بغیر کچھ کہے سنے دروازے سے گولی کی طرح نکل جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس نے وہیں اور اسی وقت استعفے دے دیا ہے۔ کل سے بینک نہیں آئے گا۔ شام کو دوتین چرب زبان افسر اسے منانے گھر جاتے اور منتیں کرکے دوسرے دن آنے پر رضامند کرتے۔ جون جولائی میں بھی کمبل اوڑھ کر سوتا۔ کہتا تھا کمبل نہ اوڑھوں تو ڈراؤنے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ دفتر میں جہاں بیٹھتا وہاں پنکھا نہیں چلنے دیتا تھا۔ کہتا تھا پنکھا چلنے سے مجھے خونی بواسیر ہو جاتی ہے۔ اس سے بینکنگ کے رموز اگلوانا ایسا ہی تھا جیسے کسی خونخوار کتے کے جبڑے میں دبی ہوئی نلی میں سے گودا نکالنا۔ 
     
    ڈی سوزا کی صحت قابل رشک حد تک اچھی تھی۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ تمہاری تندرستی کا کیا راز ہے تو اس نےجواب دیا کہ میں کبھی چت نہیں سوتا۔ اور میں نے پچیس سال سے کوئی چھٹی نہیں لی۔ ایک روز وہ اچانک غیر حاضر ہوگیا۔ دوسرے دن اس کے گھر ایک افسر بھیجا تو وہ خبر لایا کہ ڈی سوزا پولیس تھا نہ پریڈی اسٹریٹ کی حوالات میں بند، جہازی سائز کی گالیاں بک رہا ہے۔ اس کے باپ کی سمرسٹ اسٹریٹ میں ٹیلرنگ کی بڑی پرانی دکان تھی۔ کسی بات پر باپ سے جھگڑا ہوگیا اور اس نے جہازی سائز کی قینچی اس کے کولہے میں گھونپ دی۔ نوٹانکے آئے۔ 
     
    اس واقعہ سے بینک میں دہشت پھیل گئی۔ لوگ اس کے دائیں بائیں دو دو کرسیاں چھوڑ کر بیٹھنے لگے۔ ڈسپیچ ڈیپارٹمنٹ نے اپنی قینچی کیش بکس میں مقفل کردی۔ دوسرے قسم کی قینچیاں بھی تالو سے لگ گئیں۔ بڑے بڑے افسر کمر پر پیچھے ہاتھ باندھ کر چلنے لگے۔ ڈی سوزا کو پنسل کی نوک بھی تیز کرتے دیکھتے تو لرز اٹھتے۔ ایک دن چار پانچ کلرک ہماری قیادت میں چیف اکاؤنٹنٹ کے سامنے وفد کی صورت میں پیش ہوئے۔ اور فریاد کی کہ دو دن سے ڈی سوزا کے سامنے ایک سات انچ پیوست ہونے والا پیپر نائف (کاغذ تراش) پڑا ہے جس سے وہ کھیلتا رہتا ہے۔ ہمیں ٹانکے لگوانے سے ڈر لگتا ہے۔ چیف اکاؤنٹنٹ نے ڈی سوزا کو بلاکر نرمی سے سمجھایا کہ تم چاقو واپس کردو۔ ان بچاروں کو ڈر لگتا ہے۔ کہنے لگا یہ سالا لوگ کائے کو بوم (بوم مارنا (گجراتی) شور و غوغا کرنا) مارتا ہے۔ بے فضول ڈرتا پڑا ہے۔ یہ میرے فادر تھوڑا ہی ہیں۔ 
     
    ۳ 
    عباد الرحمن قالب، ہجرت کرنے سے پہلے نہ جانے کیوں یہ خیال تھا کہ ارض موعود میں ہرشخص کباب پراٹھا کھاتا ہوگا۔ دالیں اور سبزیاں صرف ہندوستان برآمد کرنے کے لیے اگائی جاتی ہوں گی۔ حجام، سارنگئے اور فری اسٹائل کشتی لڑنے والے بھی داڑھی رکھتے ہوں گے۔ بازاروں میں ہر قدم پر ہمارے ایمان کی آزمائش کے لیے اتنے سارے حسین نہ چھوڑ رکھے ہوں گے۔ لفظ سود کا استعمال صرف پند سودمند کے ساتھ جائز و مباح ہوگا۔ ہرشحص اینٹ کا جواب شعر سے دیتا ہوگا۔ الحمد للہ کہ ان میں سے بعض خدشات غلط ثابت ہوئے۔ البتہ یہ دیکھ کر قدرے مایوسی ہوئی کہ بینک میں سب سوٹ یا قمیص پتلون پہنتے ہیں، سوائے عباد الرحمن قالب کے۔ 
     
    وہ ہمیشہ ٹسر کی شیروانی پہنتے اور اس کی اوپر کی جیب میں، فاؤنٹن پین کی طرح مسواک لگاتے، جس کا فعال سرا باہر نکلا ہوتا تھا۔ نچلی جیب میں بیاض اور سانچی پان کی ڈبیا۔ ڈبیا میں پانوں کے اوپر چنبیلی کے تین پھول۔ انہوں نے ہمیں کروڑپتیوں کے کرنٹ اکاؤنٹ کی جھلکیاں دکھائیں۔ ہم یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ کوے کی طرح کالا ’’کریڈٹ بیلنس‘‘کس طرح دھیرے دھیرے سرمئی ہوتا ہے اور پھر لال چہچہا ہو جاتا ہے۔ منے منے سیونگ ڈپازٹ سے بڑے بڑے اوور ڈرافٹ بنتے ہیں اور ان سے بڑے بڑے کارخانے، جو انہیں سیونگ ڈپازٹ رکھنے والوں کو نوکر رکھ لیتے ہیں۔ 
     
    عباد الرحمن قالب اخبار بڑی توجہ سے پڑھتے تھے۔ جہاں کہیں بری خبر نظر آجائے، ٹانک لیتے۔ اکثر فرماتے، دیکھا! آخر میرا خدشہ درست ثابت ہوا۔ دن بھر بیٹھے اخبار کی جوئیں بینتے رہتے۔ شام تک۔۔۔ خدشہ خدشہ بہم شود خطرہ۔ کبھی کسی اچھی خبر پر نظر پڑجائے تو دوسرے دن تک طبیعت منغض رہتی۔ ایک دن بہت ہی خبرناک صورت بنائے بیٹھے تھے۔ پوچھا کیا بات ہے؟ آہِ سرد کے بعد فرمایا، ’’میرے ریٹائرمنٹ میں کل ۲۲سال باقی رہ گئے ہیں۔ کچا ساتھ ہے۔‘‘ اس زمانے میں بینک کا بیشتر عملہ گجراتی بولتا تھا۔ اہم عہدوں پر گجراتی بولنے والے حضرات فائز تھے جن کا اردو بولنے والوں کے بارے میں غالباً یہ خیال تھا کہ انہوں نے شعر و شاعری کے لیے نہایت موزوں طبیعت پائی ہے لیکن ’’کیش‘‘ (نقد) اور ان کے ذہن رسالے کے درمیان ایک محتاط فاصلہ ضروری ہے۔ 
     
    عباد الرحمن قالب اس پر بہت کڑھتے تھے۔ شعر و شاعری کے بہتان کی تردید میں وہ ایک طول مسدس ’’مکالمہ جبریل وابلیس‘‘ لکھ رہے تھے، جس کا مرکزی خیال دانتے کے جہنم اور مرکزی کردار بینک سے لیے گئے تھے۔ اس نظم میں فرشتے فارسی میں، آدم اردو میں اور حوا ریختی میں گفتگو کرتے تھے۔ داروغہ جہنم ہم سے گجراتی میں خطاب کرتا تھا۔ تاریخ گوئی میں البتہ اپنی نظیر آپ تھے۔ معمولی سے معمولی واقعہ اور تازہ سے تازہ واردات میں سے سارا تاریخی مادہ و مواد کھینچ کر نکال لیتے تھے۔ سننے میں آیا تھا کہ قالب صاحب کے والد مرحوم بھی شاعر تھے اور اپنے سامنے کسی کو کچھ نہیں گردانتے تھے۔ چنانچہ مرتے وقت بھی اپنا ہی ایک مقطع زبان پر جاری تھا۔ 
     
    قالب تخلص کرنے کی بادی النظر میں تو یہی وجہ معلوم ہوتی تھی کہ غالب کے مقطعوں میں بغیر رندامارے یا پچر ٹھونکے فٹ ہوجاتا تھا۔ بینک میں شعر و ادب کا معیار معلوم۔ غالب کے شعر اپنے بتاکر سخن ناشناسوں سے داد لیتے رہتے۔ مجیب صاحب بھی اکثر یہی کرتے تھے۔ ایک دن قالب صاحب نے اپنا ایک ایسا شعر سنایا جو ایک ہفتہ پہلے مجیب صاحب اور ایک صدی پہلے غالب اپنا کہہ کر سنا چکے تھے۔ ہم نے تخلیہ میں توجہ دلائی تو قالب صاحب نے کمال کشادہ پیشانی سے اعتراف کرلیا کہ سرقہ میں توارد ہو گیا ہے۔ 
     
    وہ نیم کہاں سے لائیں؟ عباد الرحمن قالب بلندشہری، ثم ٹونکی، ٹونک کی میونسپل کمیٹی میں متصدی تھے۔ مشاہرہ ۳۰ روپے چنور شاہی کہ جس کے ۲۰روپے کلدار بنتے تھے۔ مگر یہ نشہ کیا کم تھا کہ چار دانگِ ٹونک میں کوئی کتا ان کی منشا کے بغیر بھونک نہیں سکتا تھا۔ اور نہ کوئی پرنالہ ان کی منشا کے بغیر غلط جگہ گر سکتا تھا۔ اپنی متروکہ حویلی سے زیادہ اس شفیق نیم کو یاد کرتے جسے آنگن میں سرجھکائے تنہا کھڑا چھوڑ آئے تھے۔ کہتے تھے مکان کے عوض مجھے مکان الاٹ ہو گیا۔ لیکن حکومت وہ نیم کہاں سے لائے گی جس کی چھاؤں میں نیند کی پریاں جھولا جھلاتی تھیں۔ جس کے نیچے ایک بچے نے نبولیوں سے آم کی دکان لگائی تھی۔ جہاں بہنیں گڑیاں کھیلیں۔ شادی کی شہنائی بجی۔ باپ کا جنازہ رکھا گیا۔ 
     
    پھر اسی بوڑھے نیم کی سینک سوگوار ماں نے کانوں میں پہن لی۔ روایت ہے، اورنگ زیب عالمگیر نے جب یہ خبر سنی کہ کشمیر کی تاریخی مسجد میں آگ لگ گئی ہے تو اس نے کہا مسجد تو دوبارہ تعمیر ہو جائے گی۔ لیکن صحن مسجد کے چنار جل گئے تو ایک ہزار عالمگیر مل کر بھی ایک بوڑھا چنار پیدا نہیں کر سکتے۔ اب انہیں کون بتاتا کہ یادوں کے ایسے بوڑھے نیم تو ہر گاؤں، ہر دل کے آنگن میں سایہ فگن ہوتے ہیں۔ ہاں جب دل کی آگ بجھ جائے تو ان کی جڑیں شریانوں کی جگہ لے لیتی ہیں۔ 
     
    کیا وہ بھی بلن شے کا ہے؟ جب تک ٹونک میں رہے اپنے مولد و آبائی مسکن بلن شے (بلند شہر کا وہ اسی طرح تلفظ فرماتے تھے) کے گن گاتے رہے۔ کراچی کو اپنا دارالقرار بنانے کے بعد بھی ان گلیوں سے نہیں نکلے جہاں جوانی کھوئی تھی۔ کہیں کسی بھلے آدمی کی تعریف ہو رہی ہو تو فوراً پوچھتے، ’’کیا وہ بھی بلن شے کا ہے؟‘‘ 
     
    کبھی کوئی لاہور کے موتیا، چناب روپ، یا کراچی کی سہانی سلونی، شام کی تعریف کردے تو مقابلے پر فوراً صبح بنارس، بدایوں کے پیڑے، ٹونک کے خربوزوں اور وہیں کی برقع پوش پٹھانیوں کو کھڑا کر دیتے۔ دریائے بناس کے کنارے کنارے گلود گھاٹ کی ان مہکتی فالیزوں کو یاد کرتے، جہاں چاندنی راتوں یں لونگ کے لشکارے سے لہو میں شرارے ناچنے لگتے تھے۔ چھولداریوں کے سامنے دف اور دائرہ پر وحشت بھرے ’’چاربیت‘‘ گاتے گاتے ذرا سی بات پر پنڈاری خان زادوں اور قائم خانی پٹھانوں کے سان چڑھے خنجر اور مرصع پیش قبض لہرانے لگتے۔ ارمان بھرے سینے ان کے نیام بن جاتے اور خون میں نہائے ہوئے جسم اسی بالو پہ تڑپ تڑپ کے ٹھنڈے ہوتے جہاں کیوڑے میں بسی ہوئی سرخ صافی سےڈھکی ہوئی، پانی کی قدآدم گول (گول، پانی یا اناج رکھنے کے بڑے بڑے ماٹ۔ راجستھان میں انہی لمبوترے گھڑوں میں اودے پور توراواٹی کے سورج ونشی راجپوت سردار نوزائیدہ بیٹی کو زندہ گاڑدیتے تھے۔) ٹھنڈی ہونے کے لیے دریائی ریتہ میں گلے گلے تک گڑی ہوتی تھی۔ بناس کی موجیں روز یہی منظر دیکھتی تھیں۔ پچھلے پہر تک جوا سے کی باڑھ، بیلے کے گجروں، تازہ خون، لو میں پکے ہوئے خربوزوں، خس کی پنکھیا، مہندی رچے ہاتھوں کی نمی، سوندھے چھڑکاؤ، کوری ٹھلیاں اور کورے پنڈے کی مہکار سے ہوائیں دیوانی ہو جاتیں۔ اور رات چاند کا جھومر اتار دیتی۔ 
     
    ہر شاخ پہ پنچھی بیٹھا ہے، اور دریائے بناس بہتا رہتا اور وہ لہروں لہروں ’’بلن شے‘‘ پہنچ جاتے۔ کہاں بلن شے کہاں کرانچی۔ بلن شے کی کیا بات ہے۔ ایک تیر تو نے مارا جگر میں کہ ہائے ہائے۔ ’’اوپر کوٹ پہ برسات کی بہاریں، کیا کہنے! رم جھم رم جھم مینہ برس ریا ہے۔ ندی نالے اور پائینچے چڑھے ہوئے ہیں۔ ننگی کھلی حالیت میں کوئی یاں پہ رپٹ رئی ہے، کوئی واں پہ رپٹ رئی ہے۔ (ہم نے بہت ضبط و اختصار سے کام لیا ہے ورنہ وہ تو اپنے پھسلنے حافظے پر گھنٹوں پٹخنیاں کھلواتے رہتے تھے اور اس وقت تک دم نہیں لیتے تھے جب تک سراپا کی تمام تفصیلات بتا کر فارغ التفصیل نہ ہوجائیں۔)
     
    کچی کچی امبیا پہ روم جھوم پانی برس ریا ہے۔ کوئل کوک رئی ہے۔ دل میں ہوک سی اٹھ رئی ہے۔ امبوا کی ڈالی پہ جھولا پڑا ہوا ہے۔ بہو بیٹیاں کمر لچکا لچکا کے گارئی ہیں، چھا رہی کالی گھٹا جیارا مورا لہرائے ہے۔ سہیلیاں جھونٹے دے رہی ہیں۔ کاسنی روپٹے ہوا میں اڑتے جا ریے ہیں۔ حرام کے جنے لمڈے ون کو حریان کر رئیے ہیں۔ بلبلیں چہچہا رئی ہیں۔ مینائیں چہک رئی ہیں۔ دوسری ڈال پہ موربول ریا ہے۔ وس کی جروا الگ ایک ٹہنے پہ مستارئی ہے۔ تیسری ڈال پہ شاما ایسا جی توڑ کے گارئی ہے مانو جی جان سے گزر جاوے گی۔ چوتھی پہ، کیا نام وس کا، پاپی پپیا پی او! پی او! کر ریا ہے!‘‘ 
     
    ’’پی او! پی او!‘‘ پر خان سیف الملوک خان کے صبر کا پیمانہ ایک دن لبریز ہو گیا۔ وہی لہجہ بنا کر بولے، ’’ اماں بس کرو۔ سالا آم کا پیڑ نہ ہوا، شہر کرانچی ہوگیا کہ دنیا جہان کا جناور اپنی اپنی بولی بولے چلا جا ریا ہے اور خدئی قسم اڑنے کا نام نئیں لے ریا!‘‘ 
     
    پھٹکر آدمی؟ ہر بینک کا ایک اپنا محکمہ تفتیش و سراغ رسانی ہوتا ہے، جس کا کام کم و بیش وہی ہوتا ہے جو اگلے وقتوں میں شادی بیاہ کے موقع پر نائنوں اور مغلانیوں کا ہوتا تھا۔ یعنی چال چلن وغیرہ کی پوری طرح چھان بین کر کے غلط فیصلہ کرنا۔۔۔ طرفین کی کون سی پشت میں فی ہے؟ دولہا کی بائیں آنکھ دبی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ معمولی لقوہ ہے یا چال چلن کی مستقل خرابی؟ دلہن کی ننھیال برقع سے باہر کب نکلی؟ نئی کوٹھی کی نیومیں سیمنٹ، سریا، بجری اور بلیک کا تناسب معمول کے مطابق ہے یا کمی بیشی کی ہے؟ اگر مقروض نہیں ہے تو وجہ بتاؤ۔ کیا لوگ بھروسا نہیں کرتے؟ خاندان خالص ہے یا جد امجد پاندان اٹھاتے تھے؟ آدمی ایماندار، شریف اور سو فیصد قابل اعتبار ہے یا نہیں؟ مطلب یہ کہ محکمہ انکم ٹیکس کے علاوہ کسی اور کو دھوکا تو نہیں دیتا؟ 
     
    اچانک روئی کی قیمت گرنے سے اس کی روئی آگ تو نہیں پکڑتی؟ ہارٹ اٹیک نہ ہونے کا کہیں یہ سبب تو نہیں کہ نفع نقصان کا حساب ہی نہیں کرتا؟ دفتر سے سیدھا جمخانہ جاتا ہے یا گھر گھسنا ہے؟ کون سے دوا لے کے بعد نام سے پہلے حاجی لکھنا شروع کیا؟ یہ سارا محکمہ حسن احمد فاروقی کی تنہا ذات پر مشتمل تھا کہ وہ خود اپنے باس تھے اور خود ہی ماتحت۔ ہم نے ان کی شاگردی اختیار کی تو کہنے لگے، برخوردار! جس تندہی اور بے جگری سے تم کام کر رہے ہو، اس پر تو ناکام اقدام خودکشی کا گمان ہوتا ہے۔ خودکشی کی اور بھی ترکیبیں ہیں جن میں اتنی محنت نہیں پڑتی۔ ہمیں وہ باتونی، بے فکرے، آسانی سے گھل مل جانے والے پھٹکر آدمی لگے۔ 
     
    سنیچر کی سہ پہر کو شطرنج کھیلنے بیٹھتے تو اتوار کی رات کو دو بجے اٹھتے۔ پان کی لت ایسی کہ رات کو بھی کلے میں دباکر سوتے۔ دلی کے روڑے تھے۔ انہیں ہمارے ذہن کی اصلاح سے زیادہ زبان کی فکر کھائے جاتی تھی۔ ہر ایک کے لہجہ، چال اور MANNERISMS کی بڑی اچھی نقل اتارتے تھے۔ کوئی لکھنؤ جاتا تو اس سے اصغر علی محمد علی کے عطر شمامۃ العنبر کی فرمائش ضرور کرتے۔ بیگم کو بہت پسند تھا۔ 
     
    بانس بدھی، ہمارے سامنے کی بات ہے، ایک عامتہ الورود واقعہ۔۔۔ موت۔۔۔ نے فاروقی صاحب کی ساری زندگی یکلخت منقلب کردی۔ ان کے ایک ساتھی اور ہم عمر کو ان کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے اچانک سینہ میں درد محسوس ہوا اور دیکھتے دیکھتے ان کے ہاتھوں میں دم توڑدیا۔ اسے دفنا کر لوٹے تو شطرنج کا دوسرا کھلاڑی بھی مرچکا تھا۔ فراق گورکھپوری کہتے ہیں کہ بدھی (عقل) کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ گھڑا بدھی، نمدہ بدھی، بانس بدھی۔ گھڑا بدھی وہ کہ چکنے گھڑے پر کتنا ہی پانی ڈالو، وہی سوکھے کا سوکھا۔ نمدہ بدھی۔۔۔ نمدے کے سمان کہ جب تک سوئی نمدے کے اندر ہے، سوراخ قائم ہے۔ سوئی نکلی اور گویا کچھ تھا ہی نہیں۔ اور سب سے اتم بدھی بانس بدھی کہ اوپر ایک ذرا چوٹ پڑی اور بانس نیچے تک چرتا چلا گیا۔ سو ان کی چھاتی شق ہوچکی تھی۔ 
     
    عیاشی سے توبہ، کئی دن گم صم رہے۔ پھر ایک دن سنا کہ سہون شریف کے ایک بزرگ سے بیعت ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد بلیڈ کو رخسار سے نہ لگنے دیا۔ بڑی بھرواں داڑھی نکلی۔ ایسی ہی داڑھی کو دیکھ کر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے کہا تھا کہ حضرت آپ تو میدانِ حشر کے بھیڑ بھڑ کے میں اپنی داڑھی کے چھپر تلے چھپ جائیں گے، میں خدا کو اپنا ننگا منہ کیسے دکھاؤں گا۔ پیر و مرشد کبھی کراچی تشریف لاتے تو جمعہ اور اتوار کو عصر و مغرب کے درمیان منگھوپیر کی طرف سفید گھوڑی پر سیر کو نکلتے۔ یہ رکاب تھامے ساتھ ساتھ چلتے۔ انہیں سے مروی ہے کہ حضرت جتنی دیر گھوڑی پر سوار رہتے ہیں، لید میں سے شمامۃ العنبر کی خوشبو آتی ہے۔ حجرے میں تہجد سے پہلے بیر شیر اپنی دم سے جھاڑو دیتا ہے۔ ہم نے ٹوکا ، ’’شیر ببر تو افریقہ کے جنگلوں میں ہوتا ہے۔‘‘ فرمایا، ’’یہ میں نے کب کہا کہ وہ منگھوپیر کی جھاڑیوں میں سے آتا ہے؟ اپنی طرف سے آپ بات خوب جوڑتے ہیں۔‘‘ 
     
    ہمیں بھی نیک رہنے اور باز آنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ ہمیں اس کا بڑا قلق تھا کہ خدا نے ہمیں بدی کی استطاعت دی ہوتی تو آج ہم بھی اس سے توبہ کرکے ثواب لوٹتے۔ ابھی تک یاد ہے۔ جاڑوں کے دن تھے۔ رات کے بارہ بجا چاہتے تھے۔ ہم مع اپنے چار بچوں اور بیوی کے پیر الٰہی بخش کالونی کے کوارٹر کے چھوٹے سے کمرے میں فرش پر دیا سلائیوں کی طرح ایک طرف سر کیے پڑے تھے کہ کسی نے گھر کے سامنے حیدرآبادی انداز سے تالی بجائی۔ (حیدرآباد دکن میں شرفا کے گھر کے سامنے کھڑے ہوکر آوازدے کر بلانا خلاف تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ تالی بجاتے ہیں۔) آنکھیں ملتے ہوئے باہر نکلے تو دیکھا کہ فاروقی صاحب سر پر روئی کا ٹوپا پہنے، ہاتھ میں لالٹین لیے کھڑے ہیں۔ ان کے دانت اور گھٹنے بج رہے تھے۔ گھبراہٹ میں ہم بھی ململ کا پھٹا کرتا پہنے، ننگے پیر بستر سے نکل آئے تھے۔ بہیترا ہاتھ سے جبڑے کو تھاما لیکن دانت تھے کہ اس آلے کی طرح کٹ کٹ، کٹ کٹ ’’مارس کوڈ‘‘ میں بجے چلے جا رہے تھے جو ٹیلی گراف آفس میں تار دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 
     
    سادہ زبان میں سلام و کلام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ دیر تک دونوں آمنے سامنے کھڑے بصد خلوص کٹکٹاتے رہے۔ ہمارے تصرف میں ایک ہی کمرہ تھا۔ اس لیے ہم انہیں اندر آنے کو بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔ لیکن وہ خود بھی خاصی عجلت میں تھے۔ انہوں نے بکمال شفقت ہمیں اپنی داڑھی سے لگایا۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑی دیر تک چمٹے رہے۔ اس میں خلوص کی شدت سے زیادہ جاڑے کی شدت کو دخل تھا۔ وہ اپنی شلوار اور ہم اپنے پاجامے میں تھر تھر کانپ رہے تھے۔ 
     
    بار بار مصافحہ اور مسلسل معانقہ کی گرمائی سے الفاظ پگھلے تو انہوں نے چھوٹتے ہی ہمیں شراب اور زنا سے پرہیز کرنے کی تلقین کی۔ ہم نے ننگے پیر، پھٹے کرتے کے نیچے دھڑکتے دل پر ٹھٹھرا ہوا ہاتھ رکھ کر رئیسانہ طرز زندگی اور عیاشی سے اجتناب اور پرہیزی زندگی گزارنے کا وعدہ کیا۔ اور عرض پرداز ہوئے کہ حضرت! آپ نے رات گئے بڑی زحمت فرمائی۔ 
     
    جواب میں انہوں نے (اپنے یخ ہاتھ کو، دونوں طرف سے، ہماری گدی پر اس طرح گرم کرتے ہوئے جس طرح نائی استرے کو چموٹے پر چلاتا ہے) فرمایا کہ انہوں نے اپنے پیر صاحب قبلہ کے سامنے مترجم قرآن اٹھا کر عہد کیا ہے کہ روزانہ کم از کم سات آدمیوں کو شراب اور زنا سے باز رہنے کی تلقین کریں گے۔ عشا کے بعد وہ اپنی ’’روند پر‘‘ نکلے ہوئے تھے۔ آج کی رات ہم چوتھے آدمی تھے۔ مگر ان کی لالٹین میں ابھی کافی تیل باقی تھا اور بتی خاصی لمبی تھی۔ وقت رخصت سکوت کیا اور فرمایا کہ ہمارے شیخ کا قول ہے کہ جاڑے اور بڑھاپے کو جتنا زیادہ محسوس کرو اتنا ہی لگتا چلا جاتا ہے۔ پیر صاحب کا سن شریف ۱۰۵ سال تھا۔ چالیس حج کرآئے تھے۔ بال کالے ہوتے جا رہے تھے۔ 
     
    وہ پو پھٹی وہ کرن سے کرن میں آگ لگی، سادہ دل کثیر العیال آدمی تھے۔ اس مرحلہ پر یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ ان کے ہاں تنگ دستی پہلے آئی یا اولاد۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے ہمیں اپنے گھر لے جاتے جو برنس روڈ کے گنجان علاقے میں ادیب سہارنپوری کے فلیٹ کے قریب تھا۔ راستے میں ادیب کو ساتھ لیتے۔ چائے، شاعری اور اسکینڈل کا دور چلتا۔ اس کے بعد تینوں کباب کھانے نکل جاتے۔ ادیب کی عمر اس وقت چالیس کے لگ بھگ ہوگی۔ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہتے تھے اور بھاوج سے اس قدر خوفزدہ کہ کبھی اپنے فلیٹ میں گندے لطیفے اور اپنا کلام نہیں سناتے تھے۔ اور نہ وہاں بیگم کے قصے سناتے۔ 
     
    وہ ان کا کلام انہی کے ترنم میں اس طرح پڑھتیں کہ جب خود ادیب یہی غزل پڑھتے تو اصل پر نقل کا گمان ہوتا۔ آنکھیں بند کرکے لہک کر پڑھتے تھے۔ بعض حسینوں کے بال گھنگریالے ہوتے ہیں۔ ادیب کی آواز گنگریالی تھی۔ رسیلی اور پرامید تان میں نہ جانے درد کی گونج کہا ں سے آتی تھی۔ جیسے ہنستے ہنستے آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئیں اور چہرہ ہنستا رہ جائے۔ یہ مسکراہٹ۔۔۔ وہ پوپھٹی، وہ کرن سے کرن میں آگ لگی۔۔۔ کے لہرے کے ساتھ ابھرتی اور ’’اے مری عمر رواں! اور ذرا آہستہ!‘‘ اور ذرا آہستہ! اور ذرا آہستہ میں گم ہو جاتی۔ 
     
    ادیب بڑے میٹھے اور ملائم لہجے میں بات کرتے۔ نجی محفلوں میں دیکھا کہ لطیفہ کے پہلے ہی فقرہ پر اپنی نشست چھوڑ کر، لطیفہ گو کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر، داد اس طرح دےکر آتے جیسے ریس میں پستول چلنے سے پہلے ہی بعض بے صبرے دوڑ پڑتے ہیں اور واپس بلائے جاتے ہیں۔ پھر سب کے ساتھ اسی جوش و خروش سے دوڑتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک مداح نے جوش عقیدت میں ادیب کی غزل کو ایک دوسرے شاعر کی اسی زمین میں کہی ہوئی غزل سے بہتر قرار دیا۔ اس شاعر کا ادیب بہت احترام کرتے تھے۔ کہنے لگے یہ سب انہی کا فیضان ہے۔ پھر انہوں نے حضرت جگرمرادآبادی کا قصہ سنایا کہ انہوں نے اپنے بھتیجے کو متبنی کرلیا تھا۔ ایک دن وہ ان کے اندھے پر بیٹھ کر کہنے لگا کہ ابا! میں آپ سے بڑا ہوں۔ جگر صاحب نے کہا بیٹا! تم ٹھیک کہتے ہو۔ تمہاری اس بڑائی میں میرے جسم کی لمبائی بھی شامل ہے۔ 
     
    ٹاٹ کا ایک تھیلا، جس میں بیاض، عینک، تین چار کتابیں اور رسالے، قلم، ڈائری اور چھوٹا سا کٹوردان، بالعموم ہاتھ میں رہتا۔ بغل گیر ہونے سے پہلے اسے اپنی اور فریق ثانی کی ٹانگوں کے درمیان رکھ دیتے۔ بحریہ کی ایک لائبریری میں ملازم تھے تنخواہ قلیل۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ، جن کے یہ باپ بھی تھے اور ماں بھی۔ بیوی کے انتقال کو کئی برس گزر چکے تھے۔ کبھی کوئی دوسری شادی کا مشورہ دیتا تو ہنس کر کہتے کہ بجلی ایک ہی جگہ دوبارہ نہیں گرا کرتی۔ کبھی انہیں دل گرفتہ و مغموم نہ پایا۔ شام کو کسی نہ کسی کے ساتھ SNAKES AND LADDERS کھیلتے اور اپنی ہار پر قہقہے لگاتے ہی دیکھا۔ ٹوکتے ہی ہمارے ساتھ ہولیتے۔ ساتھی سانپ پیٹتا رہ جاتا۔ 
     
    بارہ تیرہ سال کے عرصہ میں صرف ایک موقع ایسا آیا جب ادیب نے ساتھ چلنے سے صاف انکار کردیا۔ اتوار کی سہ پہر کو ہم پہنچے تو کہنے لگے کہ جناب آج بندہ شعر سنائے گا نہ کباب کھائے گا۔ مجھے اشد ضروری کام ہے۔ ادیب نے جو اپنی دلداری و دل نوازی کے لیے مشہور تھے، ایسا کورا جواب ہمیں ہی کیا، کسی کو نہ دیا ہوگا۔ کریدا تو معلوم ہوا کہ ہندوستان سے ایک فٹ بال ٹیم میچ کھیلنے آئی ہوئی ہے۔ اس میں ایک سکھ کھلاڑی بھی ہے، ’’یوسفی بھائی! مجھے فٹ بال سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ مگر خدا کی قسم! سات سال سے کوئی زندہ لطیفہ نہیں دیکھا۔‘‘ 
     
    دف کیسے مارا جاتا ہے؟ گرم چائے، تازہ غزل اور تیز چونے کے پان سے تواضع کے بعد فاروقی صاحب دلی کے کبابئے کی دکان پر لے جاتے اور گولے کے کباب کھلاتے۔ پیٹ بھرنے سے پہلے آنکھیں بھرآتی تھیں۔ پہلی دفعہ دکان پر لے گئے تو دلی کے کلچر اور قیمے کی باریکیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کباب کھانے کے ادب آداب اتنی تفصیل سے بتائے کہ ہم جیسے مارواڑی رانگڑ کی سمجھ میں بھی آگیا کہ سلطنت ہاتھ سے کیسے نکلی۔ دلی کے کبابیوں کا کیا کہنا۔ بالکل وہی تیزابی مصالحے جو بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں تھے، وہی شاہی رکاب داروں کی ترکیبیں سینہ بسینہ چلی آتی ہیں۔ اور وہی امراض بھی معدہ بہ معدہ۔ حالانکہ اب نہ وہ تگڑی راسیں رہیں نہ وہ قدردان۔ کچری او رپپیتے کی ایسی گلاوٹ لگاتے ہیں کہ موٹے سے موٹا گوشت پل بھر میں سرمہ ہوجائے۔ 
     
    بقول شخصے مست بجار کے یہ مصالحہ لگادیں تو وہیں کھڑا کھڑا گل کے قیمے کا ڈھیر بن جائے۔ یوں تو دنیا میں غیبت سے زیادہ زود ہضم کوئی چیز نہیں، لیکن یہ کباب بھی حلق سے اترتے ہی جزو بدن ہو جاتے ہیں۔ انہیں سے معلوم ہوا کہ گولے کے کباب میں ایک حصہ قیمہ، ایک حصہ مرچیں اور ایک حصہ دھاگے (دھاگے،  کباب پر کثرت سے لپیٹے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ دلی میں دھاگے اور سوت کے گولے کے کارخانے انہی حضرات کے تھے جو گولے کے کبابوں کے رسیا تھے۔) پڑتے ہیں۔ سیخ سے اتار کے کڑکڑاتے گھی کا بگھا دیتے ہیں۔ 
     
    ’’سیخ کباب میں بگھار؟ یہ کس خوشی میں؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ 
     
    ’’اس سے مرچوں کا دف مر جاتا ہے۔ ساتھ بھرت کی سبک سی کٹوری میں گرم مصالحہ رکھ دیتے ہیں۔ پھر کبابوں میں بکری کا بھیجا اور الھڑ بچھڑے کی نلیوں کا گودا علیحدہ سے ڈالتے ہیں۔‘‘ 
     
    ’’یہ کیوں؟‘‘ 
     
    ’’اس سے گرم مصالحہ اور جائفل جاوتری کا دف مر جاتا ہے۔ پھر بڑی پیاز کے لچھے اور ادرک کی ہوائیاں۔ اور ان پر ہری مرچیں کترکے ڈالتے ہیں۔ یہ میسر نہ ہوں تو محض سی سی کرنے سے بھی لذت بڑھتی ہے۔ خمیری نان کے ساتھ کھاتے وقت برف کا پانی خوب پینا چاہیے۔‘‘ 
     
    ’’کیوں؟‘‘ 
     
    ’’برف سے خمیری روٹی اور ہری مرچوں کا دف مرتا ہے۔ مصلح ہے۔ بعض نفاست پسند تو کبابوں پر تتیا مرچ کی چٹنی چھڑک کر کھاتے ہیں۔ پھر حسب حیثیت دہی بڑے یا قلفی فالودے کی ڈاٹ لگاتےہیں۔‘‘ 
     
    ’’کیوں؟‘‘ 
     
    ’’اس سے چٹنی کا دف مرتا ہے۔‘‘ 
     
    ’’اگر یہ سارے چونچلے فقط کسی نہ کسی کا دف مارنے کے لیے ہیں تو چٹوروں کی سمجھ میں اتنی سی بات کیوں نہیں آتی کہ یکے بعد دیگرے دف مارنے کے بجائے، شروع میں ہی کم مرچیں ڈالیں یا پھر زبان پہ ربر کا دستانہ چڑھا کر کھائیں۔‘‘ 
     
    ادیب سہارنپوری نے (جو پیدائش و توطن ہی نہیں، طبیعت کے لحاظ سے بھی دلی اور پنجاب کی سرحد پر واقع ہوئے تھے) اس مرحلہ پر شعر کا سفید پرچم لہرا کر جنگ بندی کرائی۔ ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولے حضرت! دنیا میں ہر بات منطق کے مطابق ہونے لگے تو خدا کی قسم زندگی اجیرن ہو جائے۔ اسی بات پر ایک ظالم کا شعر سنیے، 
     
    سپرد خاک ہی کرنا تھا مجھ کو
    تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں؟ 
     
    بعد ازاں اسی نکتۂ راز کو پروفیسر قاضی عبد القدوس ایم۔ اے نے اپنے بقراطی انداز میں یوں ذہن نشین کرایا کہ جوانی دیوانی کادف بیوی سے مارا جاتا ہے۔ بیوی کا دف اولاد سے مارتے ہیں۔ اور اولاد کا سائنسی تعلیم سے۔ سائنسی تعلیم کا دف اپنے ہاں دینیات سے مارا جاتا ہے۔ ارے صاحب! دف کا مرنا کھیل نہیں ہے، مرتے مرتے مرتا ہے۔ 
     
    فاروقی صاحب ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو دسترخوان کے بجائے سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ انہیں کھانے سے زیادہ کھلانے میں مزا آتا تھا۔ ہر لقمے کے ساتھ دہلوی دسترخوان کی نزاکتیں بھی ذہن نشین کراتے جاتے۔ ایک دن کہنے لگے کہ دلی میں تو جو شخص شیرمال اور تافتان میں فرق نہ کرسکے اسے کلچرڈ نہیں سمجھتے۔ 
     
    ’’یہ کون سی مشکل بات ہے۔‘‘ ہم نے کہا۔ 
     
    ’’بتائیے۔ کیا فرق ہوتا ہے؟‘‘ 
     
    ’’ایک زیادہ بدمزہ ہوتا ہے۔‘‘ 
     
    اجرک
    بیعت کے بعد فاروقی صاحب نے اپنے شیخ کے ایما پر حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائی کے عارفانہ کلام سے کسب فیض کی خاطر سندھی سیکھنی شروع کی۔ قلب گداز ہو چکا تھا۔ ویسے بھی صلح کل آدمی تھے۔ سندھی کی پہلی کتاب سبقاً سبقاً پڑھ کر بولے کہ صاحبو! مجھے تو اردو اور سندھی میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔ سندھی کے نقطوں کو الٹا لگا دیا جائے تو اردو بن جاتی ہے۔ گھر پر سیاہ کرتا اور ٹخنے سے اونچی شلوار پہننے لگے تھے۔ شانے پر شیخ کی بخشی ہوئی ایک چھوٹی سی سندھی اجرک جسے لمبا رومال یا انگوچھا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کثیر المقاصد شے ہم نے نہیں دیکھی۔ 
     
    ہائیڈروجن بم اور قمری راکٹ بنانے والے ایسی کوئی چیز ایجاد کر کے دکھائیں تو ہم جانیں۔ فاروقی صاحب اس سے منھ پوچھتے۔ دسترخوان کا کام لیتے۔ کہیں پیدل منزل مارتے تو اسی سے گرد سفر جھاڑتے۔ لو چلنے لگے تو اسے پانی میں تر کر کے عربوں کے غترہ عقال کی طرح سر پر ڈال لیتے۔ حلقۂ یاراں میں بریشم کی طرح نرم ہوں اور عین غیبت میں اگر وقت نماز آجائے، تو اسی کو فرش پر قبلہ رو بچھا کر سربسجود ہو جاتے اور رب کا شکر ادا کرتے جس سے انسان کو قوت گویائی عطا کی۔ دن میں بچے اور رات کو مچھر ستاتے تو اسے منھ پر تان کر سو جاتے۔ جاڑے اور زکام میں یہ مفلر کا کام دیتی۔ اور رات کو حلوائی کی دکان سے بیمار بچے کے لیے اونٹتا دودھ لاتے تو اس کی اینڈوا بنا کر ہتھیلی پر رکھ لیتے۔ بیوی کو اچانک ننگے سر دروازہ کھولنے جانا پڑے تو اس کی بکل مار کے اوڑھنی بنا لیتی۔ خود نروس یا کھسیانے ہوتے تو کونے کو بل پہ بل دیتے یا یونہی عینک کا شیشہ صاف کرنے لگتے۔ 
     
    سودا سلف لینے بازار جائیں تو یاد دہانی کے لیے بیوی اس میں گرہیں لگادیتی تھی، مگر یہ بھول جاتے کہ کون سی گرہ کس شے مطلوبہ کا سمبل ہے۔ پہلی تاریخ کو مہینے کا سودا خریدنے نکلتے تو یہ دیہاتن کی مینڈھی کی طرح گوندھی ہوئی ہوتی تھی۔ رات کو بچے اس کا کوڑا بناکر اگلے پچھلے حساب چکاتے۔ عجلت میں ہوں یا کسی خاص مہم پر جارہے ہوں تو کندھے سے اتار کر ہاتھ میں لے کر چلتے۔ کوئی گھر ملنے آئے تو بٹھانے سے پہلے اسی سے مونڈھے کو صاف کرتے۔ خانقاہ میں ایک دن وضو کرتے ہوئے مسجد کے حوض میں گرپڑے اور کہنی زخمی ہوگئی تو دوسرے دن اسی کے ’سلنگ‘ میں ہاتھ کو ۷ کے ہندسہ کی طرح رکھ کر بینک آئے۔ 
     
    کوئی بھری محفل میں نازیبا بات یا مذاق کر بیٹھے تو اسے منھ میں ٹھونس کر کھس کھس کر ہنسی کو چھانتے رہتے۔ بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ رات کو خانقاہ سے ایک جلالی وظیفہ پڑھ کر لوٹ رہے تھے کہ راستے میں چار غنڈوں نے گھیر لیا۔ اب کیا تھا۔ انہوں نے امام ضامن کا کلدار روپیہ اجرک کے کونے میں باندھ کر بنوٹ کے ایسے ہاتھ دکھائے کہ ایک غنڈے کی کنپٹی میں بھمباقا کھل گیا۔ وہیں کھیت رہا۔ پسماندہ غنڈے تھانے میں رپٹ لکھوانے بھاگے۔ ہماری مسکراہٹ میں انہیں استہزا کی جھلک نظر آئی تو طیش میں آکر فرمایا کہ آپ جیسوں کو تو چونی میں ہی ڈھیر کر سکتا ہوں۔ 
     
    دوپہر کو فرش پر کھانا کھانے بیٹھتے تو بیوی اسی اجرک کی چنوری بنا کر مکھیاں جھلتی رہتی۔ روز صبح اسے دھوکر شام کے استعمال کے لیے سجل کردیتی۔ بڑی بیٹی کی شادی طے ہوئی تو بینک سے پانچ سو روپے قرض لیے اور ایک دن شام کو شاداں و فرحاں اپنی بٹیا کے جہیز کے سارے کپڑے اس میں باندھ کر دکھانے لائے۔ پھر وہ گھڑی بھی آئی جب سکھی سہیلیوں نے ایسی رندھی ہوئی آواز میں ’’لکھی بابل مورے! کاہے کو بیاہی بدیس رے، لکھی بابل مورے!‘‘ گایا کہ دولہا والوں کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔ جس باپ نے جہیز میں چاندی کا زیور، ململ کے دوپٹے اور ایلومینیم کے برتن دیے، اس کے سینے سے لگ کے بیٹی جس طرح پھوٹ کے روئی ہے، ہم نے کسی امیر کبیر کی بیٹی کو اس طرح تڑپ کر روتے نہیں دیکھا۔ شادی بخیر و خوبی انجام پاگئی تو میاں بیوی کو اطمینان ہوا کہ بارے بوجھ ہلکا ہوا۔ 
     
    لیکن مشیت کو کچھ اور منظور تھا۔ تین مہینے بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ بیوی کو ٹائیفائیڈ ہوا۔ پانچ چھ دن تک تیز بخار میں کھانا پکاتی، جھاڑو بہارو دیتی اور بچوں کو نہلا دھلا کر اسکول بھیجتی رہی۔ قرض میں بال بال بندھا ہوا تھا۔ شام کو گھر جاتے تو پاکستان چوک سے ایک ہومیو پیتھ ڈاکٹر سے چار آنے کی پڑیا لیتے جاتے۔ کسی سے تذکرہ تک نہ کیا۔ رات کی جگار سے سوجی سوجی آنکھوں کو ہتھیلیوں سے مل مل کر دن بھر کام کرتے رہتے۔ دس دن بیمار رہ کر وہ نیک بی بی اپنے رب سے جا ملی۔ دل پر کیا کچھ نہ گزری ہوگی۔ لیکن کیا مجال کہ حرف شکایت زبان پر آئے۔ یہی شیخ کی ہدایت تھی۔ 
     
    جنازے میں محلے کے سبھی لوگ شریک تھے۔ بیٹا جو مشکل سے نو سال کا ہوگا اسی اجرک میں پھولوں کی چادر، اگربتی، گلاب جل اور شمامۃ العنبر باندھے بے خبر پیچھے چل رہا تھا۔ اس میں ابھی تک کچھ یاد دلانے کے لیے، ایک ننھی سی گرہ مرحومہ کے ہاتھ کی لگی ہوئی تھی جسے انہوں نے تین دن سے نہیں کھولا تھا۔ ڈولا لحد کے پہلو میں رکھا گیا اور سرہانے سے غلاف کعبہ کا پارچہ ہٹا دیا گیا۔ میت قبر میں اتارنے لگے تو اپنے ہاتھوں سے اجرک کمر میں ڈال کر دکھ درد کے ساتھی کو مٹی میں سلا دیا۔ اسی سے گوشۂ چشم پونچھا۔ دھیرے سے گرہ کھولی۔ اور پھر اپنے شیخ کے اس تبرک کو کفن پر ڈال دیا۔ 
     

    مأخذ:

    زرگزشت (Pg. 43)

    • مصنف: مشتاق احمد یوسفی
      • ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
      • سن اشاعت: 1983

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے