Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ساڑھے چھ

شفیق الرحمان

ساڑھے چھ

شفیق الرحمان

MORE BYشفیق الرحمان

    ٹن سے گھنٹی بجی اور میں تھک کر اپنے کارنر میں سٹول پر آ گرا۔ یار لوگوں نے مالش شروع کی۔ بولے گھبرانے کی کوئی بات نہیں، ابھی دو راؤنڈ اور ہیں۔ ہمت سے کام لو۔ ایک آدھ ہک جما دینا اور جیت یقینی ہے۔ پہلے راؤنڈ میں یہی ہوا کرتا ہے۔ اورمیں دل ہی دل میں اس گھڑی کو کوس رہا تھا جب میں نے چچا جان کے سامنے خواہ مخواہ ٹورنامنٹ کا ذکر کر دیا۔ اگر وہ یہاں نہ ہوتے تب کسی چیز کی پرواہ نہ ہوتی، لیکن اب تو وہ بغور ملاحظہ فرما رہے ہوں گے اور شاید تبصرہ بھی کر رہے ہوں۔ ادھر وہ پرنسپل صاحب۔۔۔ نہ جانے وہ کہاں سے آٹپکے۔ اگر ان سے واقفیت ہونی تھی تو ضرور اسی طرح ہونی تھی کیا؟ ہم بھی قسمت کے دھنی ہیں۔ اب وہ دونوں ہنس رہے ہوں گے۔

    کل یونہی منہ سے نکل گیا۔ وہ پوچھنے لگے کہ کہاں ملوگے؟ میں نے کہہ دیا جناب کل تو باکسنگ کا میچ ہے۔ بولے اچھا ہم میچ دیکھنے آئیں گے۔ تم نے ایک عرصہ سے ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔ اس مرتبہ ہم ضرور تمہیں لڑتے دیکھیں گے۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ بہتیری منتیں کیں۔ آپ وہاں تشریف نہ لائیے، شور مچتا ہے۔ فضول سا ٹورنامنٹ ہے۔ آپ کو ہرگز پسند نہ آئے گا۔ وقت ضائع ہوگا آپ کا۔ میں خود حاضر ہوجاؤں گا۔ لیکن کیا مجال جو وہ مانے ہوں۔ ادھر یہ پرنسپل صاحب بھی شامت اعمال سے تشریف فرما تھے۔ کہنے لگے کہ ہم بھی ضرور دیکھیں گے۔

    کوئی مقابلہ ہوتا تو بات بھی تھی۔ میرا مقابل ایک بھاری بھرکم سیاہ فام گینڈا تھا جس کے سامنے مجھے کم از کم زرہ بکتر پہن کر آنا چاہیے تھا۔ سوچ رہا تھا کہ یہ تو وزن میں کم از کم ایک دو من زیادہ ہوگا۔ آخر کس طرح مجھ سے اسے لڑا رہے ہیں؟ آتے ہی اس نے وہ الٹے سیدھے ہاتھ دیے کہ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ عرش بریں تک کے تمام چھوٹے بڑے تارے آنکھوں کے سامنے ناچنے لگے، اور اس کے بعد تو پیچھا چھڑانا مشکل ہوگیا۔ منہ بناکر دانت بھینچ کر جو چھلانگ مارتا تو دھمادھم پندرہ بیس مکے یک مشت ہی لگا جاتا۔ اور سوچتا رہ جاتا کہ کیا کروں؟ اچھے پھنسے! اب تو نجات مشکل ہے۔ کہیں ناک آؤٹ نہ ہوجائیں اور ساری شیخی دھری رہ جائے۔

    خیر دوسرا راؤنڈ شروع ہوا اور میں نے مدافعت شروع کردی۔ بازو موڑ کر چہرے کے دونوں طرف آڑ بنا لی۔ اب وہ ہے کہ مکے لگا رہا ہے اور میں روک رہا ہوں۔ اس طرح بھی کوئی خاص فرق نہ پڑا۔ پھر خیال آیا کہ میں اس سے کہیں ہلکا ہوں۔ ذرا سی ہمت کروں تو اسے تھکا لوں گا۔ اب میں نے قلانچیں بھرنی شروع کیں۔ ایک مکا دیا اور تڑپ کر برابر سے نکل گیا۔ جتنے میں وہ مڑا ہے اتنے میں ایک اور جڑدیا اور پھر تیزی سے دوسری طرف دوڑ گیا۔ یہ نسخہ بہت کارآمد ثابت ہوا۔ اس پر تھکاوٹ کے آثار نمودار ہونے لگے۔ سینہ ہے کہ دھونکنی بنا ہوا ہے۔ بازو لٹک رہے ہیں۔ ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ اس راؤنڈ میں میں نے اسے بالکل تھکا مارا۔ ریفری نے مجھے ٹوکا بھی کہ یہ کیا کبڈی سی کھیل رہے ہو؟

    تیسرے راؤنڈ میں اسے اچھی طرح زدوکوب کیا۔ جو جو حربے یاد تھے اور جس جس سٹائل کا ذکر کتابوں میں پڑھا تھا ان کے مطابق اس کی مرمت کی۔ جب کبھی دھم سے اس کی لہراتی ہوئی ملائم توند پر مکا لگتا، تو قہقہوں کا شور مچتا اور خوب تالیاں بجتیں۔ سب سے زوردار اور دیرپا قہقہہ پرنسپل صاحب کا تھا جو فضا کو زیر و زبر کردیتا۔ میں نے اسے جلدی ناک آؤٹ نہیں کیا، کیونکہ اس کی توند پر مکا لگنے سے نہایت پیاری اور ترنم خیز آواز نکلتی تھی جس سے تماشائی کافی خوش ہوتے تھے۔ راؤنڈ ختم ہونے سے پہلے ایک چھوٹا سا مکہ بلکہ ’’مکی‘‘ لگا کر اسے ناک آؤٹ کردیا۔

    ہمارے کالج کے لڑکے چھلانگیں مار کر رنگ میں آگئے۔ بڑا شور مچا۔ پھر میں چچا جان اور پرنسپل صاحب سے ملا۔ پرنسپل صاحب نے تعریفوں کے پل باندھ دیے، بولے، ’’تم نے بڑی ہمت سے کام لیا اور اس نے کمال رعونت سے۔ میں تمہاری وجاہت کو دیکھتا تھا کبھی اس کی جہالت کو۔ تمہاری مدافعت بھی ظرافت سے پر تھی جس سے شرارت ٹپکتی تھی۔‘‘

    میں نے مؤدبانہ عرض کیا، ’’افسوس کہ میں نے امانت میں خیانت کرلی۔‘‘ وہ قہقہہ لگا کر بولے، ’’کیا لیاقت ہے؟‘‘

    یہ تھی پرنسپل صاحب سے پہلی ملاقات۔

    ایک شام کو پاؤں پھیلا کر اور سر کرسی کی پشت پر ٹکا کر مزے سے پکچر دیکھ رہا تھا۔ انٹرول میں ایک خاتون نظر آئیں جو اپنے ننھے بہن بھائیوں کے ساتھ بالکل قریب ہی بیٹھی تھیں۔ وہ بیرے کو بلانا چاہتی تھیں۔ کسی چیز کے لیے بچے ضد کر رہے تھے شاید۔ لیکن ان کی آواز یا ہاتھ کا اشارہ بیرے تک نہ پہنچ سکا۔ آس پاس اور کوئی نہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے میری طرف دیکھا کہ میں اسے بلا دوں۔ میں نے بڑے اطمینان سے سگریٹ کیس نکالا اور ایک سگریٹ سلگا کر کش لگانے لگا۔ بھلا مجھے کیا پڑی جو کسی کو بلاتا پھروں۔ نہ جانے ایسی کیا اشد ضرورت تھی کہ انہوں نے پھر اسے بلانے کی کوشش کی اور پھر میری جانب دیکھا۔ میں نے جواباً تین چار عمدہ کش لگائے اور دھوئیں کے چھلے بنانے لگا۔ وہ کچھ ناراض سی ہوکر بیٹھ گئیں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ لیکن اس کے بعد میں اکثر انہیں دیکھا کرتا۔ جب علی الصبح کالج جاتا تو ایک چوک میں کبھی کبھی نظر آتیں۔ ایک لمبی سی چمکیلی کار میں۔ شاید کہیں آس پاس ان کا کالج تھا۔

    ایک مرتبہ میں نے اسی چوک میں اپنے بالوں پر بیٹھی ہوئی مکھی کو اڑایا۔ وہ سمجھیں سلام کر رہا ہے۔ انہوں نے جواب میں مجھے بری طرح دیکھا۔ اگلے روز پھر میرا ہاتھ ہونہی ہل گیا۔ انہوں نے بہت برا منایا۔ میں نے جلدی سے بالکل ان کی نقل اتاری۔ اس کے بعد تو جان بوجھ کر میں نے سلام کرنا شروع کردیا۔ خفا ہوئیں۔ منہ پھیرا، منہ چڑایا، چپ رہیں، لیکن آخر راہِ راست پر آگئیں۔ اب میرے سلام کا جواب تو نہ ملتا تھا، لیکن بس مسکرا دیتیں۔ آہستہ آہستہ اچھی لگنے لگیں اور میں ان کا انتظار کرنے لگا۔ ان کی کار کا نمبر میری ڈائری میں محفوظ تھا۔ ایک روز تو میں بہت ڈرا کہ کہیں ان سے سچ مچ محبت نہ ہو جائے۔

    پرنسپل صاحب سے دوسری ملاقات کانسرٹ میں ہوئی۔ ہم کلب میں کانسرٹ کر رہے تھے۔ پروگرام کے ایک حصے میں قریشی صاحب اور مسز قریشی کی نقل اتاری گئی۔ دونوں میاں بیوی حد درجے کے قنوطی تھے۔ جب دیکھو بسور رہے ہیں (اور جب نہ دیکھو تب بھی بسور رہے ہیں۔) شیطان کا خیال تھا کہ ان کاہاضمہ خراب ہے۔ میں کہتا تھا کہ یہ ورزش نہیں کرتے اس لیے ایسے ہیں۔ دوسال کے عرصے میں ہم نے انہیں صرف تین مرتبہ مسکراتے دیکھا۔ وہ بھی ایسے موقعوں پر جب لوگ ہنستے ہنستے بیہوش ہوگئے تھے۔ تب وہ دونوں اس بیزاری سے مسکرائے تھے جیسے سب پر بہت بڑا احسان کر رہے ہوں۔ قریشی صاحب کا پارٹ میں کر رہا تھا اور مسز قریشی شیطان تھے۔

    سانولے ہونے کی وجہ سے ان پر پاؤ بھر پاؤڈر ضائع کیا تھا۔ وہ کہتے تھے (یا کہتی تھیں) کہ میں سفید کپڑے پہنوں گا، جیسے کہ اکثر مسز قریشی پہنتی تھیں۔ میں نے انہیں علیحدہ لے جاکر بتایا کہ، ’’ایک بالکل سیاہ انسان سفید کپڑے پہنے جا رہا تھا۔ ادھر سے ایک ننھا سا بچہ اپنے باپ کے ساتھ آرہا تھا جو فوٹو گرافر تھے۔ بچہ اس شخص کو دیکھ کر ٹھٹک گیا اور انے والد سے بولا، ’’وہ دیکھیے ابا جان ایک نیگیٹو NEGATIVE جا رہا ہے۔‘‘ اس پر ان کے کان کھڑے ہوئے اور وہ باز آگئے۔

    شیطان دبلے پتلے تھے۔ چونکہ ان کاقد مجھ جتنا تھا اس لیے انہیں نیچی کرسی پر بٹھایا گیا تھا تاکہ چھوٹے لگیں۔۔۔ قریشی صاحب منہ لٹکائے کوئی بیماریوں کی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ دوسرے طرف چہرہ پھلائے مسز قریشی بالکل بیزار بیٹھی ہیں۔ سامنے کتابوں کا ڈھیر لگا ہے۔ ایک کتاب اٹھاتی ہیں اور فوراً پھینک دیتی ہیں۔ پھر بیزار ہوکر بیٹھ جاتی ہیں۔ قریشی زور سے کھانستے ہیں۔ مسز قریشی چونک پڑتی ہیں۔

    ’’یہ کم بخت زکام مجھے دبوچ بیٹھا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے تو ورم جگر دفع ہوا تھا۔‘‘ وہ بولیں۔

    ’’اور مجھے کھانسی دم نہیں لینے دیتی۔ اُدھر گلا ہے کہ الگ پکا دھرا ہے۔‘‘ قریشی بولے۔

    ’’آج پھر میری پسلی میں درد ہو رہا ہے۔‘‘

    ’’میری بائیں آنکھ رہ رہ کر پھڑک رہی ہے۔ خدا خیر کرے۔‘‘

    ’’رات گرمی کس قدر تھی؟‘‘

    ’’اور مچھروں نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ آج ہی کاٹیں گے۔‘‘ وہ بولے۔

    ’’آج کا دن کتنا پھیکا اور غمگین ہے۔‘‘

    ’’اور رات کس قدر اداس اور ڈراؤنی تھی؟ کتنے تارے ٹوٹے ہیں۔ توبہ الہی!‘‘

    (طویل خاموشی)

    ’’سنا ہے کہ امریکہ کے شمالی حصے میں بڑا زبردست زلزلہ آیا ہے۔ حالات کتنے خطرناک ہوتے جارہے ہیں۔‘‘ مسز بولیں۔

    ’’اور آسٹریلیا کے جنوب مغربی ساحل پر بڑا سخت طوفان آیا ہے، جس سے لوگ بہت سہمے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’میں نے ایک اخبار میں پڑھا تھا کہ عنقریب دنیا سے کوئی سیارہ ٹکرائے گا اور بیچاری دنیا چکناچور ہوجائے گی۔ کیسی کیسی مصیبتیں نازل ہونے والی ہیں۔‘‘

    ’’مجھے بھی ہفتہ بھر سے طرح طرح کے ڈراؤنے خواب آ رہے ہیں۔ رات تو ایک لمبے سے اونٹ نے مجھے نگل ہی لیا تھا۔‘‘

    (ایک اور وقفہ)

    باہر سے نوکر کے ہنسنے کی آواز آتی ہے۔ مسز قریشی کی تیوری چڑھ جاتی ہے۔ ہاتھ پیروں میں تشنج سا آجاتا ہے، جیسے ابھی کوئی دورہ پڑے گا۔ غصے سے کہتی ہیں، ’’یہ کم بخت ہر وقت ہنستا رہتا ہے۔ شاید اسے موت یاد نہیں۔۔۔!‘‘

    ’’جو زیادہ ہنستے ہیں، وہی روتے بھی ہیں۔ انشاء اللہ جلد مصیبت میں گرفتار ہوگا۔ بھول جائے گا سب چوکڑی۔‘‘

    لوگ ہنس رہے تھے۔ اتنے میں ایک خاص قسم کے فلک شگاف قہقہے کی آواز آئی۔ چوکنا ہوکر جو دیکھتا ہوں تو سامنے پرنسپل صاحب بیٹھے ہیں۔ ان کی نوکدار مونچھیں بجلی کی روشنی میں چمک رہی تھیں۔ مونچھیں حسب معمول تاؤ شدہ تھیں اور یوں اوپر کی طرف اٹھی ہوئی تھیں جیسے گھڑی کی سوئیاں گیارہ بج کر پانچ منٹ پر ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ غورسے دیکھا تو یہ وہی خاتون تھیں جن سے ہر روز اس چوک میں جھڑپ ہوتی تھی۔ میں بالکل گھبرا گیا۔ کچھ اپنا پارٹ بھی پوری طرح یاد نہیں کیا تھا اور پرامپٹر کے سہارے کام چل رہا تھا۔ اب انہیں دیکھ کرا ادھر ادھر کی ہانکنی شروع کردیں۔ فقرے غلط سلط بول رہا تھا۔ یہ غالباً پرنسپل صاحب کی صاحب زادی ہوں گی یا بھتیجی وغیرہ ہوں۔ یا شاید یونہی اتفاقیہ طور پر بیٹھ گئی ہوں۔۔۔

    عجب مصیبت ہے۔ میں ہوں کہ بہک رہا ہوں، پرامپٹر چیخ چیخ کر پارٹ بتا رہا ہے۔ اس کی آواز لوگ سن رہے ہیں اور خوب ہنس رہے ہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ معاملہ کیا ہے۔ شاید اس لیے ہنس رہے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسی طرح ہونا تھا۔ ادھر پرنسپل صاحب کے فلک شگاف قہقہوں سے فضا کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ ابھی یہ ڈراما تہائی بھی ختم نہ ہوا تھا کہ مجبوراً پردہ گرا دیا گیا۔ سٹیج پر کسی صاحب کو وائلن دے کر بھیج دیا گیا۔ لڑکوں نے مجھے جھنجھوڑ ڈالا، دھمکایا، چمکارا، منتیں کیں، لیکن میں مچل گیا کہ اب اسٹیج پر نہیں جاؤں گا۔ مجھے اپنا پارٹ یاد نہیں۔ باہر لوگ شور مچارہے تھے۔ آخر تنگ آکر شیطان بولے، ’’تمہاری سزا یہ ہے کہ تم خود سٹیج پر جا کر ان سے کہو کہ مجھے معاف کیجیے۔ میں اپنا پارٹ بھول گیا ہوں۔‘‘

    انہوں نے دھکیل کر مجھے سٹیج پر لاکھڑا گیا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کہوں۔ پھر یکایک کچھ سوجھ گیا اور میں نے بڑے اطمینان سے کہا، ’’خواتین و حضرات! یہ جو کچھ آپ نے دیکھا محض نمونہ تھا جسے عموماً ٹریلر کہا جاتا ہے۔ پورا ڈرامہ آپ کو پھر کبھی دکھایا جائے گا۔ اسی ٹریلر سے اندازہ لگا لیجیے کہ اصل چیز کتنی زوردار ہوگی۔‘‘ لوگ ہنسنے لگے۔ لیکن پرنسپل صاحب کے بلند اور دیرپا قہقہے سارے غل غپاڑے پر فوقیت رکھتے تھے اور ان کی مونچھیں بجلی کی روشنی میں بہت پیاری لگ رہی تھیں۔ آخر میں نے شیطان کو ساری بات بتا دی۔ وہ بہت ہنسے۔ پھر پوچھنے لگے، ’’کیا واقعی تمہیں محبت ہوگئی ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں کچھ کچھ ہوگئی ہے۔‘‘

    بولے، ’’ان کا نام کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’پتہ نہیں!‘‘ پوچھا، ’’رہتی کہاں ہیں؟‘‘

    ’’یہ بھی پتہ نہیں! البتہ ان کی کار کا نمبر زبانی یاد ہے۔‘‘

    ’’کبھی بات کی ہے؟‘‘

    ’’نہیں تو!‘‘ میں نے سچ کہہ دیا۔

    ’’ان کے ابا کی تعریف؟‘‘

    ’’اچھی طرح تو پتہ نہیں، لیکن کچھ اندیشہ سا ہے کہ کہیں پرنسپل صاحب ہی نہ ہوں!‘‘ بولے، ’’حد ہوگئی! اندیشہ سا ہے؟ اور جو پرنسپل صاحب نہ ہوئے پھر؟ تم تو فرہاد وغیرہ کی قسم کے انسانوں کو بھی مات کرگئے۔ ایسا عشق تو ہوا کرتا تھا، کہیں سن سولہ سو۔۔۔ سولہ سو پچیس میں! یہ خواہ مخواہ کی محبت تب ہوا کرتی تھی جب مشرق میں لڑکیاں نہیں تھیں۔ میرامطلب ہے سارا دن چھپی بیٹھی رہتی تھیں، کہیں کسی کو اتفاق سے دیکھ پایا اور فوراً محبت شروع کردی۔۔۔ اور اب۔۔۔ آج کل تو خدا کافضل ہے۔ اس زمانے میں اس قسم کے دقیانوسی خیالات بالکل بے موسمے ہیں۔‘‘

    ’’مجھے تو ہر رات ان کے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ خوابوں میں ان سے باتیں کرتا رہتا ہوں۔‘‘

    ’’خوب! تو خواب دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں تمہارا قصور نہیں۔ اگر رات کو دسترخوان پر ذرا دیر لگادی جائے تو پھر خواب نہیں نظر آئیں گے۔ تو اور کیا ہوگا؟ ذرا بھوک رکھ کر کھایا کرو تب دیکھیں گے کیا نظر آتا ہے۔ مجھے تو سوکر ذرا سدھ نہیں رہتی۔ صبح حجام ہی جگاتا ہے، کبھی پریاں نہیں جگاتیں۔‘‘ وہ بولے۔

    ’’آج کل تو تقریباً ہر روز انہیں دیکھتا ہوں۔۔۔ اسی چوک میں۔۔۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا کرتی ہیں۔۔۔ اور۔۔۔!‘‘

    ’’تمہاری ہی ہمت ہے جو اتنی گرمیوں میں محبت کا نام لیتے ہو۔۔۔ مجھے تو ان دنوں محبت کا ذکر سنتے ہی پسینہ آجاتا ہے۔ میری مانو تو اپنی اس عجیب و غریب محبت کو تھوڑے دنوں کے لیے ملتوی کردو۔ تین چار مہینوں کی بات ہے۔ موسم خوشگوار ہو جائے گا۔ تب جو مرضی آئے کرنا۔‘‘ میں نے ایک لمبی آہ بھری اور چھت کی طرف دیکھ کر کہا، ’’روفی! تم کیسی باتیں کر رہے ہو آج؟ محبت بھی کہیں ملتوی ہوئی ہے بھلا۔۔۔؟ عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

    ’’میرا ذاتی نظریہ تو یہی ہے کہ ایک تندرست انسان کو محبت کبھی نہیں کرنی چاہیے۔ آخر کوئی تک بھی ہے اس میں؟ خواہ مخواہ کسی کے متعلق سوچتے رہو، خواہ وہ تمہیں جانتا ہی نہ ہو۔ بھلا کس فارمولے سے ثابت ہوتا ہے کہ جسے تم چاہو وہ بھی تمہیں چاہیے۔ میاں یہ سب من گڑھت قصے ہیں۔ اگر جان بوجھ کر خبطی بننا چاہتے ہو تو بسم اللہ! کیے جاؤ محبت۔ ہماری رائے تو یہی ہے کہ صبر کرلو۔‘‘

    مجھے غصہ آگیا۔ یہ شخص ہمیشہ مسخرہ بنا رہتا ہے۔ ’’تم بالکل خشک انسان ہو، بلکہ گرم خشک ہو۔ بالکل غیر رومانی قسم کے۔ تم سے ایسی باتیں کرنی فضول ہیں۔ تم ہرگز نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ میں نے جھلا کر کہا۔

    ’’اور تم بہت سمجھ سکتے ہو۔ کم از کم تمہیں اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ ایک چھ فٹ کے تندرست انسان کو کوئی حق نہیں کہ وہ محبت کرے، اور اس صورت میں جب کہ وہ صبح سے شام تک ورزش کرتا ہو۔ تمہاری صحت ہرگز محبت کے قابل نہیں۔ تم تو جا کر ورزش کرو۔‘‘ میں غصے سے تلملا اٹھا اور بغیر ایک لفظ کہے واپس چلا آیا۔

    یکایک وہ خاتون غائب ہوگئیں۔ اگلے ہفتے پتہ چلا کہ پرنسپل صاحب کا تبادلہ ہوگیا ہے اور وہ خاتون واقعی ان کی صاحب زادی تھیں۔ بڑا افسوس ہوا۔ دن بھر سوچتا رہا، اگر پتہ ہوتا کہ یہ ان کی صاحب زادی ہیں تو یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھا رہتا۔ اب تو وہ سب کہیں دور چلے گئے ہوں گے۔ شیطان کے پاس گیا۔ ساری بات بتائی اور پوچھا کہ اب کیا کیا جائے؟ وہ بولے، ’’بھلے آدمی! عقل کے ناخن لے۔ نہ کبھی بات کی تھی نہ کچھ اور۔ خواہ مخواہ افسوس کرنے سے فائدہ؟ دنیا بہت وسیع ہے اور حادثے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ کیا پتہ کل تجھے کوئی اور چیز نظر آجائے اس سے بہتر۔ باقی رہا تبادلہ، سو اس پر کسی کا زور نہیں، یہ دنیا کا دستور ہے۔ ہم نے صبر کیا، تو بھی کر۔ انا للہ وانا۔۔۔‘‘

    ’’آہ پرنسپل صاحب!‘‘ میں نے ایک سرد آہ بھری۔ ان دنوں سرد اور گرم دونوں آہیں بڑی آسانی سے بھرسکتا تھا۔ کافی پریکٹس تھی۔

    ’’اب آہ پرنسپل صاحب یا ہائے پرنسپل صاحب کہنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ پرنسپل صاحب کی ذات سے تمہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ویسے وہ کچھ اتنے دور بھی نہیں گئے۔ اور اگر تم ان کی نگاہوں میں آگئے ہو تو وہ تمہیں نہیں بھولیں گے اور شاید کبھی یاد ہی فرمالیں۔‘‘

    میں سوچنے لگا، شاید یاد ہی فرما لیں۔ اور سچ مچ انہوں نے یاد فرما لیا۔۔۔ ایک ٹورنامنٹ کے سلسلے میں مدعو کیا اور یہ بھی لکھا کہ کوٹھی میں کافی جگہ ہے۔ میرے پاس ٹھہرنا۔ میں بہت خوش ہوا۔ اس روز خوب اکڑ کر چلا۔۔۔ مٹھیاں بھینچ کر سینہ نکال کر۔ میرے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ اب بہت جلد ان خاتون کا اچھی طرح سے منہ چڑاؤں گا اور انہیں سلام کا جواب بھی دینا پڑے گا اور یہ کہ میں ایک ذمہ دار عقل مند لڑکا ہوں۔ لوگ مجھے بہت اچھا سمجھتے ہیں، تبھی تو پرنسپل صاحب محض دوتین مرتبہ دیکھنے کے بعد اتنے متاثر ہوگئے۔ ورنہ شیطان بھی تو ہیں۔۔۔ سانولے رنگ کے، شتر مرغ کی قسم کے انسان۔ چہرے پر نہ ذہانت ہے نہ کچھ اور، بالکل کورے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں تو کسی نے پسند نہیں کیا۔

    شاید پرنسپل صاحب اس شام کو مجھے لڑتا دیکھ کر خوش ہوگئے۔ انہوں نے ضرور میرا نام اخباروں میں پڑھا ہوگا۔ بس مرعوب ہوگئے ہیں۔ ولایت میں تو کھلاڑیوں کی بہت قدر ہوتی ہے۔ کیا سپرٹ دکھائی ہے۔ انہوں نے واللہ! اور پھر میں ہوں کس سے کم؟ ایم۔ اے، کا طالب علم۔ ہمیشہ چوٹی کے لڑکوں میں شمار ہوتا ہوں۔ چند مہینوں میں ایم۔ اے۔ پاس کرلوں گا۔ پھر مرکزی مقابلے کے امتحان میں شریک ہوں گا۔ تب سب کو پتہ چلے گاکہ میں محض ایک کھلاڑی ہی نہیں ہوں۔ مجھ میں کئی اور خوبیاں بھی ہیں جن کے سامنے پرنسپل صاحب جیسے نقاد نے ہتھیار ڈال دیے۔ میں نے تیاریاں شروع کردیں۔ پانچ چھ روز کے بعد جانا تھا۔ متوقع گفتگو کی سکیم بنائی کہ وہ تقریباً کیسی کیسی باتیں کرسکتے ہیں اور ان کے دندان شکن جواب کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ ان کے سامنے گھبرانے کا تو سوال ہی نہ تھا۔ سپورٹس مین کبھی گھبراتے ہیں کیا؟

    شیطان نے بڑی بدتمیزی دکھائی کہ مبارک باد تک نہ دی۔ میں نے سوچا رشک آ رہا ہوگا جناب کو۔ لیکن اتفاق سے جس شہر میں پرنسپل صاحب تھے، وہیں شیطان چند دنوں کی چھٹی پر جا رہے تھے، چنانچہ ہم اکٹھے روانہ ہوئے۔ میں نے دھاریوں والا بہت اچھے رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا اور ویسے ہی رنگ کی پھولدار بو لگا رکھی تھی۔ بو کچھ تنگ تھی، اس کاایک سخت ساحصہ بری طرح چبھ رہا تھا۔ میری گردن بالکل اکڑی ہوئی تھی۔ ذرا بھی ہلانہ سکتاتھا۔ بار بار اسے ڈھیلا کرتا اور وہ گردن میں پھر پیوست ہو جاتی۔ شیطان بولے، ’’اگر میں تمہاری جگہ ہوں تو اس کم بخت کو پھینک دوں ایک طرف، آخر کس حکیم نے کہا ہے کہ ضرور بو لگائی جائے۔‘‘ مجھے شبہ ہوا کہ حسد سے جل رہے ہیں!

    ’’اور اپنی طرف سے دل میں خوش ہو رہے ہوگے کہ بڑے تیر مارنے جا رہے ہو۔‘‘ وہ بولے، اور میرا شبہ یقین میں تبدیل ہوگیا۔ مجھے شیطان کے عزیزوں کے ہاں ٹھہرنا پڑا۔ اگلے روز پرنسپل صاحب سے ملنا تھا۔ لباس کا انتخاب کرنے لگا اور شیطان کی رائے لی۔ وہ بولے، ’’کچھ پہن لو، کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘

    ’’فرق کیوں نہیں پڑے گا۔ میرے خیال میں تو یہ دھاریوں والا سوٹ اور یہ بو سب سے۔۔۔‘‘

    ’’خواہ نیکر پہن کر چلے جاؤ یا تہمد باندھ لو۔ اب کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘

    ’’آخر کیوں نہیں پڑے گا؟ لباس کی تمیز بھی تو کوئی چیز ہے۔‘‘

    ’’لباس کا خیال چھوڑو، وہ پہلے سے فیصلہ کرچکے ہیں۔‘‘

    ’’تو گویا مجھے تفریحاً بلایا گیا ہے۔‘‘

    ’’یقیناً۔‘‘

    ’’روفی! تم ایک زودرنج اور چڑچڑے انسان ہو۔ پہلے میرا خیال تھا کہ تمہیں رشک آ رہا ہے۔ اب معلوم ہوا کہ حسد سے تمہارا برا حال ہے۔‘‘

    اور انہوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔

    ’’آخر ہنسنے کی کیا بات ہے اس میں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’پرنسپل صاحب کو جو کچھ چاہیے وہ تمہارے ہاں موجود ہے۔ تمہارے ابا کی تنخواہ کافی ہے۔ تمہارے ہاں اچھی سی کار ہے۔ تمہاری جائداد بھی ہے اور بالکل مختصر سا کنبہ ہے۔ بس ان سب باتوں کی جانچ پڑتال کے بعد پرنسپل صاحب راضی ہوگئے ہیں۔ اور تم خواہ مخواہ بیچ میں تاؤ کھا رہے ہو۔‘‘

    ’’لیکن کار تو ابا کی ہے۔ اس سے میرا تعلق؟‘‘

    ’’کچھ بھی سمجھ لو، لیکن انہیں تو یہی چاہیے تھا۔‘‘

    ’’اور اگر یہ سب باتیں ہم میں نہ ہوتیں تو؟‘‘

    ’’تو یہی کہ تم دن رات مکے بازی کرتے۔ تیرنے میں کپوں کی گٹھری جیت لیتے۔ ایم، اے چھوڑ کر کچھ اور بھی کرلیتے۔ تب بھی تمہیں کوئی نہ پوچھتا۔‘‘

    ’’جھوٹ ہے۔‘‘ میں نے جوش سے کہا، ’’بھلا ابا کی چیزوں کا مجھ سے تعلق؟ میرے پاس تو اپنی قابلیت ہے۔ بلند ارادے ہیں، ہمت ہے!‘‘

    ’’تمہارے پاس سب کچھ ہوگا، لیکن تمہارا انتخاب محض کار وغیرہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ کوئی نئی بات نہیں، عموماً یونہی ہوا کرتاہے۔‘‘ مجھے بڑا غصہ آیا۔ جی چاہاکہ شیطان کو ناک آؤٹ کردوں۔ یونہی انٹ سنٹ ہانک رہے ہیں۔

    ’’پرنسپل صاحب بہت بڑے عالم ہیں۔ نہایت وسیع خیالات کے انسان ہیں۔ تم ان پر اتنا بڑا الزام لگا رہے ہو۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ وہ مجھے محض میری خوبیوں کی وجہ سے پسند کرتے ہیں۔‘‘

    ’’خیر، تم مصر ہو تو کرتے ہوں گے۔‘‘

    مجھے پھر غصہ آگیا، ’’آخر کیا ثبوت ہے تمہارے پاس؟‘‘

    ’’ثبوت۔۔۔؟ ثبوت یہی ہے کہ کل پرنسپل صاحب سے اپنے گھر کے متعلق ذرا اکھڑی اکھڑی باتیں کرکے تو دیکھو۔ پھر پتہ چل جائے گا۔‘‘

    ’’اور جو تمہاری باتیں غلط ثابت ہوئیں تو؟‘‘

    ’’تو جو چور کی سزا، وہ میری سزا۔ عمربھر تمہیں ایک نصیحت کر جاؤں تو نام بدل دینا۔‘‘ میں سوچنے بیٹھ گیا۔ بتانے کو تو غلط باتیں بتا دوں، لیکن اس کے نتائج نہ جانے کیسے نکلیں۔ کہیں اما کو پتہ نہ چل جائے۔

    ’’پرنسپل صاحب تو ابا سے ملے ہوں گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’نہیں! صرف چچا جان سے ملے تھے۔ وہ بھی سرسری طور پر۔‘‘

    ذرا سی مزید بحث کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا کہ پرنسپل صاحب کو غلط باتیں بتاؤں گا۔ مجھے پختہ یقین تھا کہ وہ ان باتوں کا اتنا سا بھی خیال نہیں کریں گے۔ وہ مجھے پسند کرتے ہیں، بھلا اس میں موٹر اور جائداد کا کیا سوال ہے۔ شیطان مجھ سے ہاتھ ملا کر بولے، ’’آزمائش شرط ہے۔‘‘

    شام کو ان کے ہاں جانا تھا۔ میں نے وہی دھاریوں والا سوٹ پہنا۔ پھولدار بو لگائی جس نے میری گردن کو جکڑ کر رکھ دیا۔ پرنسپل صاحب نے اپنی کار بھیجی تھی۔ میں نے شیطان کو بھی ساتھ گھسیٹا کہ چلو تم بھی یہ تماشا دیکھ لو۔ مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا۔ شیطان بہانے سے ان کی لائبریری میں گھس گئے جو ساتھ ہی تھی۔ میں بڑی حیرانی سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ تین ریڈیو رکھے تھے۔ ایک کو استعمال کرتے ہوں گے، دو شاید بگڑے ہوئے ہوں۔ چھوٹے چھوٹے کتے، بلیاں، طوطے، بت، عجیب و غریب تصویریں۔ انگیٹھی، میزیں، الماریاں، سب کی سب ایسی چیزوں سے لدی ہوئی تھیں۔ لیکن صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب کچھ آج ہی رکھا گیا ہے۔

    خوشبو کی ایک زبردست لپٹ آئی اور پرنسپل صاحب داخل ہوئے۔ ایک بہت ہی چمکیلے سوٹ میں ملبوس۔ بال بہت اچھے بنے ہوئے تھے، بلکہ استری کیے گئے تھے۔ ان کی دونوں نوک دار بڑھیا مونچھیں بجلی کی تیز روشنی میں نگاہوں کو خیرہ کیے دیتے تھیں۔ وہ حسب معمول چھت کی جانب اشارہ کر رہی تھیں جیسے کسی ٹائم پیس میں گیارہ بج کر پانچ منٹ ہوئے ہوں۔ نہ جانے انہوں نے روغن مونچھ استعمال کیا تھا یا کوئی خاص مونچھ کریم لگا کر آئے تھے۔ مجھے دیکھ کر تو وہ جیسے آپے سے باہر ہوگئے۔ مسکرائے، ہنسے، چلائے، میرے ہاتھ کو دس ہارس پاور سے یوں بھینچا کہ جیسے توڑ کر دم لیں گے۔ ان کا میک اپ دیکھ دیکھ کر میں حیران ہو رہا تھا۔ بھلا یہ انٹرویو کس کا ہو رہا ہے۔ میرا یا ان کا؟

    بولے، ’’کم از کم ایک ماہ تو تم یہاں ضرور ٹھہرو گے۔ نہیں؟ واہ یہ بھی کوئی بات ہے۔ تمہیں جانے کون دیتا ہے۔ میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا۔ غیرحاضری لگے گی؟ لگ جائے، کیا پروا ہے؟ کھیلنے کے لیے یہاں بے شمار کلب ہیں۔ کرکٹ ہے، باکسنگ ہے، ٹینس ہے، سب کچھ ہے۔‘‘ جس تیز رفتاری سے وہ باتیں کر رہے تھے میں ان سے مرعوب ہوتا جارہا تھا۔ وہ کم بخت بو گردن میں بری طرح چبھ رہی تھی۔ اسے ٹھیک کرتے کرتے تنگ آ چلا تھا۔

    ’’میں نے چھ برجی کلب میں تمہیں کھیلتے دیکھا۔ پروفیسر گراؤ چو تمہاری بڑی تعریف کر رہے تھے۔ اخباروں میں کتنی مرتبہ تمہارے متعلق پڑھا۔ خوب! تو ایم۔ اے کا امتحان دے رہے ہو۔ ہم نے تمہاری لیاقت کی شہرت بھی سنی ہے۔ یہ ساری خوبیاں تم میں اکٹھی کیسے ہوگئیں؟ ایم۔ اے کوئی مذاق تھوڑا ہی ہے اور پھر ذہین لڑکے تو کھیلنے میں عموماً پھسڈی ہوتے ہیں۔ نہ جانے تم یہ سب کچھ کس طرح کر لیتے ہو؟‘‘ انہوں نے جوش میں آکر میرے کندھے مسل ڈالے۔

    میں سوچنے لگا کہ شیطان بالکل جھوٹ بولتے تھے۔ پرنسپل صاحب تو میری خوبیاں بیان کر رہے ہیں۔ بھلا انہوں نے ہمارے گھر کے متعلق بھی پوچھا ہے کہیں؟ مجھے شرمندہ ہونا چاہیے۔ توبہ توبہ کیسی کیسی فضول باتیں میں ان سے منسوب کرتا رہا ہوں۔۔۔ استغفراللہ!

    ’’تو کم از کم ایک ماہ یہاں رہو گے۔ مجھے تو فقط دو مرتبہ کار کی ضرورت پڑتی ہے۔ دن بھر یہ یونہی کھڑی رہتی ہے۔ تم اسے خوب لیے پھرنا۔ یہ کار کیسی ہے؟ یہی جس میں تم آئے ہو۔ بیوک کا نیا ماڈل ہے۔ پہلے ہمارے ہاں ڈاج تھی۔ وہ اچھی نہ تھی۔ جی چاہا کہ پونیٹک لے لوں۔ سٹوڈی بیکر پر بھی دل للچایا، بڑی عمدہ کار ہوتی ہے، لیکن آخر یہی لے لی۔ بھلا تمہارے ہاں کون سی کار ہے؟‘‘ میں چونک پڑا۔ سوچنے لگا کہ اب کیا کہوں۔ بو زور سے چبھی۔ میں نے جلدی سے اسے ٹھیک کیا، پھر عجب سامنہ بنا کر کہا، ’’ہمارے ہاں۔۔۔؟ ہمارے ہاں تو کوئی کار نہیں!‘‘

    ’’کیا کہا؟ کوئی کار نہیں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔۔۔ ہمارے ہاں کوئی کار تھی ہی نہیں۔ البتہ مربعوں پر چند اونٹ ضرور ہیں؟‘‘

    ’’لیکن مجھے بتایا گیا تھا کہ تمہارے ہاں کار ہے۔‘‘ انہوں نے یوں منہ بنایا کہ جیسے بچے کو نین مکسچر پی کر بنایا کرتے ہیں۔

    ’’جی ہاں کسی نے غلط بتا دیا ہوگا۔‘‘ میں نے کہا۔

    ان کی دونوں تنی ہوئی تاؤ شدہ مونچھیں یک لخت ڈھیلی پڑگئیں اور اب وہ بالکل خط مستقیم بنا رہی تھیں، جیسے گھڑی کی سوئیاں سوا نو بجے ہوتی ہیں۔

    ’’آپ خاموش ہوگئے۔‘‘ میں نے مؤدبانہ کہا، ’’کیا ہوا کار ہوئی نہ ہوئی اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟‘‘

    ’’ہاں! ہاں کوئی بات نہیں۔ وہ تو یونہی پوچھ رہاتھا۔۔۔ لیکن مجھے۔۔۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ تمہارے ہاں کار ہے۔ خیر!‘‘ ان کا جوش و خروش کچھ کم ہوگیا تھا۔ اپنی انگلیاں چٹخانے لگے۔ پھر بولے، ’’آج کل ابا کہاں ہیں؟‘‘

    ’’پنشن ہوگئی ہے۔ کشمیر گئے ہوئے ہیں۔‘‘ حالانکہ پنشن ملنے میں ابھی کئی سال باقی تھے۔

    ’’افوہ! پنشن پر ہیں۔ لیکن مجھ سے کسی نے کہا تھا ابھی سروس میں ہیں۔‘‘

    ’’یونہی کسی نے کہہ دیا ہوگا۔‘‘ پرنسپل صاحب نے پھربہت برا منہ بنایا۔

    ’’اور ہاں! تمہاری زمینیں۔۔۔؟‘‘

    ’’اچھا! ماموں جان کے مربعوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ دراصل وہ ہمارے نہیں، ساری جائداد ماموں جان کی ہے۔‘‘

    ’’وہ زمینیں بھی تمہاری نہیں؟‘‘ وہ چلاکر بولے، ’’غضب خدا کا۔ تو کیا سچ مچ وہ کسی اور کی ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں! سچ مچ! نہ جانے کس نے آپ کو ساری باتیں غلط بتادیں۔‘‘

    ’’لا حول و لا قوۃ! کاروالی بات بھی غلط۔ سروس والی بھی غلط۔ جائداد والی بھی غلط، لا حول و لا قوۃ!‘‘

    ’’میں اس مرتبہ ایم، اے کے امتحان کی تیاری۔۔۔‘‘ میں نے شروع کیا۔

    ’’لا حول و لا۔۔۔ ابھی ایم، اے کے امتحان میں بڑے دن ہیں، اسے چھوڑو۔ تمہارے چھوٹے بھائی کہاں ہیں آج کل؟‘‘

    ’’کون سے چھوٹے بھائی کا ذکر کر رہے ہیں آپ؟‘‘ میں نے معصومیت سے پوچھا۔

    ’’لا حول و لا۔۔۔ تمہارے چھوٹے بھائی کا۔۔۔!‘‘

    ’’جناب ہم کل آٹھ بھائی ہیں!‘‘ میں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ انہوں نے ایک چیخ سی ماری، ’’آٹھ بھائی ہیں؟ لیکن مجھے تو بتایا گیا تھا کہ۔۔۔ (زور سے) تو گویا سچ مچ آٹھ بھائی ہیں۔۔۔ اور کار والی بات بھی غلط ہے۔۔۔؟ لا حول و لا قوۃ۔‘‘

    پرنسپل صاحب کا چہرہ دفعتاً اترگیا۔ ان کی چمک دار مونچھیں اور نرم ہوگئیں اور یکلخت ڈھلک سی گئیں، جیسے گھڑی کی سوئیاں آٹھ بج کر بیس منٹ پرہوتی ہیں۔

    ’’تو گویا مجھے بالکل غلط باتیں بتائیں گئی ہیں۔ یقین نہیں آتا۔۔۔ لاحول ولا۔۔۔ سچ مچ تمہارے ہاں کار نہیں ہے؟ عجب تماشا ہے۔ مجھے تو بڑے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا تھا کہ۔۔۔‘‘

    ’’قبلہ گستاخی معاف! آپ پانچ منٹ میں سات آٹھ مرتبہ لا حول پڑھ گئے ہیں!‘‘

    ’’اوہو! خیال نہیں رہا لیکن سوچو تو سہی ذرا، سب کی سب باتیں غلط بتائی گئیں۔‘‘

    پرنسپل صاحب نے صاف ظاہر کردیا تھا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں۔ میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا، ’’آپ برا نہ مانیے، مجھ میں نقائص نکالیے۔ بھلا ابا جان کی کار ہو یا ان کی جائداد، اس سے میری خوبیوں میں تو کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔ میں ایم۔ اے کا امتحان دینے والا ہوں، ضرور پاس ہو جاؤں گا۔ اس کے بعد کئی مقابلوں میں شامل ہو سکتا ہوں۔ ابھی ابھی آپ نے مجھے ذہین کہا ہے۔ میرے ارادے بلند ہیں۔ مجھ میں ہمت ہے۔ آپ میرے پرانے سرٹیفیکیٹ دیکھ لیجیے، اور وہ۔۔۔!‘‘

    ’’ہاں ہاں یہ سب ٹھیک ہے۔ خدا کرے تم کامیاب ہو جاؤ۔ لیکن مجھے تو ایک معتبر ذریعے سے معلوم ہوا تھا کہ تمہارے ہاں۔۔۔ ویسے تم بھی سچ کہہ رہے۔ لیکن وہ۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔ مجھے سچ مچ غلط بتایا گیا۔‘‘

    ’’آپ کار کا ذکر بار بار کرتے ہیں، سو میں سچ عرض کرتا ہوں کہ چند ہی سالوں میں ایک چھوڑ دو کاریں لے لوں گا اور وہ میری ہوں گی۔ آپ میرے متعلق بھی تو کچھ پوچھیے۔ آپ نے اکثر اخباروں میں میرے متعلق پڑھا ہوگا۔‘‘

    ’’اسے چھوڑو۔ کھیل کود بے کار چیز ہے اور یہ ڈراما وغیرہ مسخروں کاکام ہے۔ باقی رہا ایم۔ اے میں پڑھنا، سو یہ ایک معمولی سی بات ہے۔ ہزاروں لڑکے ایم۔ اے میں پڑھتے ہیں۔‘‘ وہ بیزار ہو کر بولے۔

    ’’لیکن جناب میرے پاس حوصلہ، امیدیں ہیں، مستقل مزاجی ہے، بلند ارادے ہیں۔‘‘

    ’’ہوں گے۔۔۔! خدا کرے ہوں۔۔۔! نہ جانے مجھے یہ باتیں کیوں غلط بتائی گئیں۔ اگر کہیں مجھے پہلے پتہ چل جاتا کہ تمہارے ہاں۔۔۔‘‘

    اس کے بعد وہ کچھ دیر تک کمرے میں ٹہلے۔ انہوں نے ایک سگریٹ پیا (اکیلے اکیلے۔) کچھ دیر سرجھکائے سوچتے رہے۔ تین چار مرتبہ مجھے دیکھا بھی۔ دیر تک مراقبے میں رہے، پھر بولے، ’’میں کل کہیں باہر جا رہا ہوں۔ بڑا ضروری کام ہے۔ کئی روز تک نہ آ سکوں گا۔ تم یہاں اکیلے اداس ہو جاؤگے۔ ویسے تمہارا ارادہ کب ہے واپس جانے کا؟‘‘

    ’’چلاجاؤں گا۔۔۔!‘‘

    ’’ہاں میں کم از کم ہفتہ بھر باہر رہوں گا۔ یہاں ننھا ہوگا۔ اس سے تمہارا کیا جی بہلے گا۔ پھر تمہاری غیرحاضریاں بھی لگ رہی ہیں۔۔۔ اچھا، تو بہت دیر ہوگئی۔ کہو تو موٹر نکلوا دوں۔ ویسے راستہ لمبا تو نہیں ہے، کل دس پندرہ منٹ کا ہے۔ میرے خیال میں پیدل بہتر رہے گا۔‘‘

    ’’اچھا!‘‘

    انہوں نے ایک ڈھیلا سا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا۔ ہاتھ ملاکر بلکہ ہاتھ چھوا کر میں نے مؤدبانہ سلام عرض کیا اور چل پڑا۔ دروازے سے مڑکر جو دیکھتا ہوں تو وہ دونوں نوک دار مونچھیں بالکل لٹک رہی تھیں۔ پرنسپل صاحب کی بڑھیا مونچھوں میں ساڑھے چھ بج چکے تھے۔ دروازے پر شیطان ملے۔ ہم دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنے لگے۔ بو ایک مرتبہ پھر چبھی، اس دفعہ میں نے اسے نوچ کر پرنسپل صاحب کے لان میں پھینک دیا۔ کوٹھی کے دروازے پر شیطان نے ایک زبردست فلک شگاف قہقہہ لگایا اور مجھے بھی ان کا ساتھ دینا پڑا۔ ہم کتنے زور سے ہنسے؟ اس کا اندازہ تو نہیں، البتہ آس پاس کے درختوں پر جتنے پرندے بسیرا کر رہے تھے وہ سب کے سب اڑ گئے۔

    ان باتوں کو ایک عرصہ گزر گیا ہے۔ اب کسی چوک میں گزرتی ہوئی کار کو دیکھ کر ہرگز نہیں ٹھہرتا۔ کسی خاتون کو دیکھ کر اگر میرے بالوں پر مکھی بیٹھی بھی ہو تب بھی نہیں اڑاتا۔ نہ کبھی کسی خاتون کو سلام کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ رات کو ہمیشہ بھوک رکھ کر سوتا ہوں۔ اور جب کبھی کھیل کود کے بعد زیادہ تھک جاتا ہوں تو آنکھیں مندنے لگتی ہیں۔ غنودگی سی طاری ہو جاتی ہے۔ پرانی یادیں تازہ ہونے لگتی ہیں۔ نظروں کے سامنے سیاہی اور سفیدی کے ٹکڑے ناچنے لگتے ہیں۔ کچھ تصویریں بن جاتی ہیں۔ پھر وہ متحرک ہوجاتی ہیں۔ تب سامنے رکھے ہوئے ٹائم پیس کے گرد ایک ہالہ بن جاتا ہے۔

    کبھی کبھی شام کو ساڑھے چھ بجے ایک جوڑی بڑھیا، نوک دار، چمکیلی، تاؤ شدہ مونچھیں یاد آجاتی ہیں۔ جن پر پہلے گیارہ بج کر پانچ منٹ تھے۔ پھر سوا نو اور اسی طرح آخر میں ساڑھے چھ بج گئے تھے۔

    مأخذ:

    شگوفے (Pg. 92)

    • مصنف: شفیق الرحمان
      • ناشر: کتاب والا، دہلی
      • سن اشاعت: 1994

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے