Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سماج

MORE BYشفیق الرحمان

    بچپن میں بھوتوں پریتوں کی فرضی کہانیاں سننے کے بعد جب سچ مچ کی کہانیاں پڑھیں تو ان میں عموماً ایک مشکل سا لفظ آیا کرتا۔ سب کچھ سمجھ میں آجاتا، لیکن وہ لفظ سمجھ میں نہ آتا۔ وہ دن اور آج کا دن، اس لفظ کا پتہ ہی نہ چل سکا۔ وہ لفظ ہے، ’’سماج۔‘‘ یوں تو یہ لفظ آسان سا ہے، اس کے معنی برادری یا معاشرہ وغیرہ ہوں گے۔ لیکن پتہ نہیں اس جماعت کے لوگ بستے کہاں ہیں اور کیوں بات بات پر اعتراض کر بیٹھتے ہیں۔ لوگوں کو کچھ کرنے نہیں دیتے، کسی کو آرام سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ نہ جانے اس جماعت کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ اور یہ لوگ کیوں سکون کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی یہ سننے میں آیا۔ ظالم سماج، خوفناک سماج، مکروہ سماج۔۔۔ سنگ دل سماج!

    کچھ یوں معلوم ہوتا جیسے سماج کوئی بیہودہ سا آوارہ گرد شخص ہے۔ جس کا کام دن بھر ظلم کرنا اور لوگوں کو ڈرانا ہے، چنانچہ بچپن میں جتنا شیطان سے ڈرلگتا اتنا ہی سماج سے ڈرا کرتے۔ اس کے بعد ایک اور دماغی تصویر بن گئی۔ یہ لفظ بڑے بڑے دکھائی دینے لگے۔ سماج کا شکار۔۔۔ سماج کے تیز پنجوں میں حقیر سی جان۔ سماج کے بھیانک منہ کا نوالہ۔ کئی سال تک ہمارے لیے سماج ایک ڈراؤنا سا جانور رہا جو اونٹ کی طرح بے تکا، ریچھ کی طرح مکار اور بھدا اور چیتے کی طرح خوفناک تھا۔ کوئی پوچھے کہ یہ اونٹ ریچھ وغیرہ اکٹھے کیسے ہوگئے؟ بس یونہی ہوگئے۔ لڑکپن ہی تو تھا اور پھر سماج کوئی سادہ سی چیز تو نہیں۔ خیر کتنے ہی دنوں ہم سماج کو خوفناک درندوں میں گنتے رہے۔

    اس کے بعد ذرا عقل مند ہوئے۔ اب سماج پر ایک نقاد کی طرح غور کیا تو چند اور الفاظ کھٹکنے لگے۔ سماج کے ٹھیکے دار، سماج کے اجارہ دار۔ نتیجہ جو نکلا تو افسوس ہوا کہ اب تک سماج کو بالکل غلط سمجھتے رہے۔ سماج تو ایسی چیز ہے جس کا ٹھیکہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ کوئی تجارتی جنس ہوگی۔ یا شاید کاروباری چیزوں میں سے کچھ ہو۔ بہرحال ہمیں یہ ضرور معلوم ہو گیا کہ سماج کا ٹھیکہ لینا آسان نہیں۔ بڑے دل گردے کا کام ہے۔ لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں، کیونکہ بچہ بچہ ان ٹھیکے داروں کے خون کا پیاسا نظر آتا ہے۔ ساری خلقت ان کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑی ہوئی ہے۔

    کتنے دنوں ہمیں یہی تلاش رہی کہ کسی سماج کے ٹھیکے دار کا بغور ملاحظہ کریں۔ بازاروں میں تلاش کی، گلی کوچوں میں پھرے، ہر قسم کے ٹھیکے دار دیکھے۔۔۔ کوئلے کے، لکڑی کے، عمارتوں کے اور نہ جانے کس کس چیز کے۔ لیکن اس قسم کا ٹھیکے دار کہیں نہ ملا۔ سیانے لوگوں سے کہا کہ آپ ہی یہ مشکل آسان کردیجیے، لیکن کوئی مدد پر آمادہ نہ ہوا۔ پھر ایک خاتون سے جن کے ہر افسانے کے ہر صفحے پر ہر پانچ چھ سطروں کے بعد سماج کا لفظ آتا تھا، ملنے گئے اور بڑی عاجزی سے کہا کہ محترمہ آپ کو تو ان ٹھیکے داروں کا اتہ پتہ معلوم ہوگا۔ اگر آپ ان میں سے کسی ایک کو اس خاکسار سے ملا دیں، تو ایک بوجھ میرے سینے سے اتر جائے۔ لیکن وہ یہی سمجھیں کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔

    سماج کی کہانیوں میں عموماً ایک مزدور کی محبت کسی امیر لڑکی سے ہوجاتی ہے۔ فریقین محتلف ذات پات کے ہوتے ہیں۔ آنکھ جھپکتے ہی محبت ہوجاتی ہے۔ پریم کی شراب نینوں میں چھلکنے لگتی ہے۔ پریم کے تیر نینوں کو چیر کر دلوں میں کھب جاتے ہیں۔ پھر رسوائی ہوتی ہے۔۔۔ اور رسوائی کیا اچھی خاصی پبلسٹی کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں نہ کچھ ہونا تھا نہ ہوسکتا ہے۔ لیکن سماج نہ جانے کہاں سے بیچ میں آجاتا ہے۔ سماج کے ٹھیکے داروں سے اپیل کی جاتی ہے۔ پھر بغاوت ہوتی ہے اور محض سماج کی ضد میں ہیرو ہیروئن کو لے کر بھاگ نکلتا ہے۔ اگر ہیروئن پوچھے کہ بھلا ہم کہاں جا رہے ہیں؟ تو جواب ملتا ہے کہ دور۔۔۔ دور۔۔۔! اس مکر و فریب کی دنیا سے بہت دور! جہاں آشائیں مچلتی ہیں۔ جہاں امنگیں پنپتی ہیں۔۔۔ جہاں سماج کا خوفناک پنجہ معصوم روحوں کا تعاقب نہیں کرتا۔ وغیرہ۔

    اس قسم کی جگہ کی مجھے بڑی تلاش رہی ہے۔ خاص طور پر امتحان کی تیاری کے دنوں میں، تاکہ یکسوئی سے پڑھ سکوں۔ کوہ ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں سے سی، پی، کے جنگلوں تک اور وہاں سے سندھ کے ریگستانوں تک جاکر دیکھ لیا، لیکن اس قسم کی پرسکون جگہ کہیں نہیں ملی۔ جہاں بھی گیا وہاں وہی مکر و فریب کی قسم کی دنیا ملی۔

    فرض کیا وہ دونوں چل پڑے۔ اب کہانی لکھنے والے کی ڈیوٹی ہے کہ وہ یا تو دونوں کی، ورنہ کم از کم ایک کی تو ضرور خودکشی کروا دے۔ ورنہ پھر کہانی ہی کیا رہی۔ اور اگر ایک انتقال کر گیا (یا کر گئی) تو دوسرے کا انجام بھی نزدیک ہی ہے۔ عموماً یہ بھی ہوتا ہے کہ دونوں اکٹھے سماج کے چنگل میں آ جاتے ہیں اور شہیدانِ محبت کی لاشیں کسی دریا میں تیرتی ملتی ہیں۔ یا یوں ہوتا ہے کہ ایک کچھ دیر پہلے مرتا ہے اور دوسرا اس کی لاش پر چیخ مارکر گرتا ہے اور مرجاتا ہے۔ میری حقیر رائے میں اس قسم کی موت بہت مشکل ہے۔ مشکل کیا ایک حدتک ناممکن ہے۔ پھر یہ فقرہ آتا ہے، ’’ان معصوم ہستیوں کی یاد میں جو سماج کی بھینٹ چڑھ گئیں۔‘‘ اور آخر میں سماج پر دل کھول کر لعنت بھیجی جاتی ہے۔ اسے خوب کوسا جاتا ہے۔ گالیاں دی جاتی ہیں۔ یہاں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ بھلا ایک مزدور سے کس حکیم نے کہا ہے کہ وہ ضرور ایک سیٹھ کی لڑکی سے محبت کرے۔ بالفرض وہ محبت کر بھی لے تو پھر خواہ مخواہ اس سے شادی کرنے پر بھی اتر آئے۔ کم از کم یہی سوچ لے کہ اسے لاکر بٹھائے گا کہاں۔ اس قسم کے لوگ سماج کو کوسنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ٹھنڈے دل سے عملی باتوں پر غور کرلیا کریں تو یقیناً افاقہ ہوگا۔

    ایک دن میرے ایک واقف آئے جنہوں نے خلافِ معمول لمبے لمبے سانس لیے۔ میں سمجھا کسی ڈاکٹر نے لمبے سانس لینے کی ورزش تجویز کی ہے۔ پھر انہوں نے بار بار پیٹ پر ہاتھ رکھنا شروع کردیا اور ساتھ ساتھ سینے کی بھی مالش کرنے لگے۔ مجھے رحم آنے لگا کہ بیچارے بیمار ہیں۔ درد ہوگا کہیں۔۔۔ ابھی تیمارداری کے لیے الفاظ تلاش کر رہا تھا کہ وہ اٹھ کر چلے گئے۔ دوسرے دن ان کا یہی پروگرام بڑے زور و شور سے شروع ہوا۔ پوچھا کہ اب تک درد اچھا نہیں ہوا؟ ایک روز فاقہ کرلو تو بہتر ہوگا۔ بولے، ’’یہ درد تو اب جان لے کر ٹلے گا۔‘‘ میں ڈر گیا۔ پھر انہوں نے پوچھا، ’’کیا کبھی تمہیں کسی سے پریم ہوا ہے؟‘‘ میں نے چمک کر کہا، ’’میرے دشمنوں کو ہو پریم، مجھے کیا مصیبت پڑی ہے!‘‘ وہ منہ بسور کر بولے، ’’ہائے تم کیا جانو اس آگ کو، کیا سچ مچ تمہیں پریم نہیں ہوا؟‘‘

    ’’بتا تو دیا ایک دفعہ کہ نہ تو ہوا ہے اور نہ ہی ارادہ ہے۔ خوب نیند آتی ہے۔ سارے کھیل کھیل لیتا ہوں۔ دوسرے تیسرے دن سینما دیکھتا ہوں۔ میرے پاس ایک موٹر سائیکل بھی ہے۔ تندرست ہوں، مگن رہتا ہوں۔۔۔ پریم کی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔۔۔!‘‘

    وہ کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر انہوں نے رک رک کر اپنی خونچکاں داستانِ حسن و عشق سنائی کہ کس طرح انہیں دفتر کے افسر انچارج کی حسین لڑکی سے محبت ہوگئی ہے اور وہ بھی ان کی طرف دیکھ کر مسکرایا کرتی ہے۔ میں نے پوچھا، ’’مسکرایا کرتی ہے؟ کس بات پر؟‘‘ وہ بولے، ’’میرے گھائل دل پر مرہم لگانے کے لیے!‘‘

    ’’تو پھر تم چاہتے کیا ہو؟‘‘

    ’’اس فرشتے کو اپنا بنانا چاہتا ہوں!‘‘

    ’’کس فرشتے کو؟ ابھی تو تم افسر کی لڑکی کا ذکر کر رہے تھے؟‘‘

    ’’اسی کو۔۔۔ اس سے میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’تو پھر رکاوٹ کس بات کی ہے؟‘‘ بولے، ’’ظالم سماج۔۔۔ یہ ہندوستان کی مصیبت۔ یہ لعنت۔ ذلیل سماج! سماج کے ٹھیکے دار جنہوں نے یہ ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ سماج کے اس مقتل میں معصوم زندگیاں ذبح ہو رہی ہیں۔ سماج کا بیڑا غرق ہو۔!‘‘ میں نے جلدی سے کہا، ’’چچ چچ۔۔۔ یوں سماج کی گردان مت کرو۔ پہلے یہ بتاؤ کہ تمہاری آمدنی کیا ہے؟‘‘ بولے، ’’ایک سو اٹھانوے روپے، دس آنے، چارپائی!‘‘

    ’’اور افسر انچارج کی؟‘‘

    ’’ساڑھے آٹھ سو!‘‘

    ’’تو تم یہ چاہتے ہو کہ سماج تمہاری تنخواہ اتنی بڑھادے کہ تم ان کی لڑکی سے شادی کر سکو؟‘‘

    ’’نہیں تو۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔ وہ دیکھیے نا میرا مطلب ہے کہ سماج؟‘‘

    ’’فضول گفتگو سے پرہیز کرو۔ بہتر ہوگا کہ تم ان ایک سو اٹھانوے روپے دس آنے چارپائیوں ہی پر قانع رہو اور پھر تم نے کبھی غور سے اپنی شکل کسی اچھے سے آئینے میں۔۔۔‘‘

    ’’آہ! تم نہیں جانتے۔ پریم شکل صورت، آمدنی اور تنخواہ وغیرہ سب سے بلند ہے!‘‘

    ’’یہ سب فضول ہے۔ نکمی باتیں ہیں۔ میں نہیں مانتا۔ تم اسی وقت اپنی صورت کسی آئینے میں۔۔۔!‘‘

    ’’آہ! ظالم سماج!‘‘

    ’’خبردار! اگر اب تم نے سماج کو برا بھلا کہا تو شاید میں تمہارے کان کھینچنے پر مجبور ہو جاؤں۔‘‘ میں نے سماج کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔

    اکثر حضرات افسانے کو پڑھنے سے پہلے صفحات کو جلدی سے الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں اور اگر انہیں کہیں سماج کا لفظ نظرآجائے تو وہ فوراً افسانہ چھوڑدیتے ہیں۔ پوچھا جائے کہ یہ کیوں؟ تو جواب ملتا ہے، ’’جناب اس کا پلاٹ تو پہلے ہی معلوم ہوگیا۔ یقین نہ ہو تو سن لیجیے!‘‘ اس کے بعد وہ پلاٹ بھی سنادیں گے جو قریب قریب صحیح ہی نکلے گا۔ پانچ چھ سرخیاں تو ہیں ہی۔۔۔ بے جوڑ محبت۔۔۔ امیری غریبی کارونا۔۔۔ عاشق کے بیوی بچوں کی علالت۔ سیٹھ کا مٹاپا اور دولت۔ بے کاری کی حمایت۔ سماج سے اپیل۔ خودکشی۔ دوسرے نمبر پر بوڑھے آدمیوں کی کہانیاں ہوتی ہیں کہ کس طرح ایک غریب ضعیف آدمی پر مصیبتیں ٹوٹتی ہیں۔ وہ بیمار ہو جاتا ہے۔ اسے دوا تک کو پیسے میسر نہیں ہوتے اور پڑوس کے محل میں جشن ہو رہا ہے۔

    نغموں کی صدا اتنی بلند تھی کہ اس نے بوڑھے کے کراہنے کی مدھم آواز کو دبا لیا۔ ادھر مسرت تھی مستی تھی۔ سرمایہ داری نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ ادھر ایک غریب بیماری میں مبتلا تھا۔ اس کی کمزور ہڈیاں چٹخ رہی تھیں۔ ہاتھ پاؤں میں رعشہ تھا۔ داڑھی پر آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور زمین کھودنے لگا، جس میں سے ایک زنگ آلود صندوقچی نکلی، اور اس میں کیا تھا؟ آہ! اس میں ایک حسین لڑکی کی دھندلی سی تصویر تھی۔ بوڑھے نے ایک آہ سرد کھینچی۔ اس کے ہونٹ ہلے۔ وہ بولا، ’آہ ظالم سماج!‘ ایک لمحے بعد اسے غش آگیا اور پڑوس میں نغموں کی صدائیں بلند ہوتی جارہی تھیں۔ اب اس میں سماج کو ہر طرف سے گھیر لیا گیا ہے۔

    ایک تو یہ کہ وہ شحص بوڑھا کیوں ہوا۔ ہمیشہ جوان کیوں نہ رہا؟ بوڑھا تو آخر ہر کوئی ہوتا ہے، یہ قدرت کا آرڈر ہے۔ جو جوانی میں چھلانگیں لگاتا پھرے گا وہ ایک دن بوڑھا بھی ہوگا۔ دوسرے یہ کہ وہ بوڑھا بیمار کیوں ہوا؟ ضرور سماج کی شرارت ہے۔ طبی کتابیں پڑھیے تو پتہ چلے گا کہ بوڑھے آدمی عموماً بیمار رہتے ہیں اور بڑھاپا بذاتِ خود ایک بیماری ہے۔ پھر یہ کہ وہ بوڑھا اتنا غریب کیوں تھا؟ پھر یہ کہ اسے جوانی میں جو محبت تھی اس میں سماج نے خواہ مخواہ اپنی ٹانگ کیوں اڑائی؟ کیوں اس کی محبوبہ کو اس سے چھین لیا؟ کیا حق تھا سماج کو دو پریم کے متوالے دلوں کو توڑنے کا؟ اور ہاں ایک بات رہ گئی۔ وہ یہ کہ پڑوس میں ایک محل کیوں تھا؟ اور سماج کی سازش سے اس میں اسی رات جشن کیوں ہوا؟ (مرثیہ گوئی کیوں نہ ہوئی؟) سو یہ محل وقوع کا قصور ہے۔ حدود اربعہ کا قصور ہے اور پڑوسی سیٹھ کے پروگرام کا قصور ہے۔ اور آخر میں ان انسانوں کا قصور ہے جنہیں پڑھ کر اچھے بھلے انسان کو مالیخو لیا ہو جائے۔

    یا شاید سماج اس طاقت کا نام ہے جو کسی شخص کو اپنا واجب ناواجب مقصد پورا کرنے سے روکتی ہے۔ لوگوں کو فوراً امیر ہونے سے روکتی ہے۔ معمولی شکل و آمدنی والے عاشقوں کی محبت میں حائل ہوتی ہے۔ ایک اَن پڑھ مزدور کو کار میں بیٹھنے سے باز رکھتی ہے۔ کسی کوشش کا نتیجہ خاطر خواہ نہ نکلا یا کوئی اوٹ پٹانگ حرکت کر بیٹھے تو بجائے اصل وجہ سمجھنے کے کہہ دیا کہ ظالم سماج کا قصور ہے۔

    اگر اسی طرح ہر بات میں غریب سماج کو قصور وار ٹھہرایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب کسی کو بخار چڑھے گا تو وہ منہ بسور کر کہے گا کہ یہ سماج کا قصور ہے۔ کوئی کمزور ہوا تو کہے گا کہ یہ سماج کی برائی ہے اور اگر کوئی بہت موٹا ہوگیا تو بھی سماج ہی کو کوسا جائے گا۔ نالائق لڑکے امتحان میں فیل ہونے کی وجہ سماج کی کھوکھلی بنیادوں کو قرار دیں گے۔ یہاں تک کہ گالیاں بھی یوں دی جائیں گی کہ ’’خدا کرے تجھ پر سماج کا ظلم ٹوٹے۔‘‘

    ’’یا اللہ اسے سماج کے پنجے میں کر۔‘‘ یا ’’پرماتما نے چاہا تو سماج سر پر چڑھ کر بولے گا۔‘‘ اور دعائیں بھی اسی قسم کی ہوں گی۔ ’’پیسہ دیتا جا بابا خدا تجھے سماج سے بچائے۔‘‘

    ’’یا میرے اللہ مجھے سماج کی ہوا سے بچائیو۔‘‘ وغیرہ۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سماج کے متعلق زیادہ سوچنے والوں یا لکھنے والوں میں بیشتر تعداد کمزور، چڑچڑے اور غمگین حضرات کی ہے۔ تندرست اور ہنس مکھ آدمیوں کو کبھی سماج کی غیبت کرتے نہیں سنا گیا۔ شاید وہ جانتے ہی نہیں کہ سماج کس جانور کا نام ہے۔ اور اگر کوئی ان سے سماج کی برائیاں کرنے لگے تو وہ اسے اتنی سی اہمیت نہیں دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ سماج کے متعلق سوچتے رہنا ایک بیماری ہو جس کا تعلق خون کی کمی، اعصاب کی کمزوری اور ہاضمے کی خرابی سے ہوتا ہو۔ ایسی بیماری اس وقت تک رفع نہیں ہوتی جب تک دیگر شکایات دور نہ کی جائیں۔ اور اگر اس مرض کو یونہی چھوڑ دیا جائے تو مریض کی حالت خطرناک ہوتی جاتی ہے۔ ذرے ذرے میں اسے سماج کی کرشمہ سازیاں نظر آتی ہیں۔۔۔ رنگ رنگ کے پھول دیکھ کر اسے افسوس ہوتا ہے کہ یہ مسرور کیوں ہیں۔ سوکھے ہوئے پتوں کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سوچتا ہے کہ یہ سوکھے ہوئے کیوں ہیں۔ کووں کو دیکھ کر غمگین ہوجاتا ہے کہ یہ کالے کیوں ہیں۔

    کسی کو ہنستے دیکھ کر اس کا خون کھولنے لگتا ہے اور یوں منہ بناتا ہے جیسے کہہ رہا ہو، ’’ہنستا ہے بے؟ ابھی کہہ دوں گا سماج سے!‘‘ اسے خواب بھی عجیب و غریب دکھائی دیتے ہیں، جیسے سارا ملک ایک بہشت ہے جس میں نہ جنگل ہیں، نہ پہاڑ ہیں، نہ صحرا ہیں، نہ دریا۔ نہ کسی دوسرے ملک کو یہاں سے کوئی راستہ جاتا ہے۔ بس ایک پیارا پیارا وطن ہے۔ نہ اونچی عمارتیں ہیں نہ جھونپڑیاں۔ جدھر نظر جاتی ہے ایک منزلہ کوارٹر نظر آتے ہیں۔ آدمیوں میں ذات پات کی تمیز مٹانے کے لیے انہیں نمبروں سے پکارا جاتا ہے۔ مثلاً ابا کا نمبر ہے تین سو پچاس الف/۴، بڑا بیٹا سولہ سو تیس ج/ن ہے اور چھوٹی بچی سترہ سو سولہ ل/ب ہے۔ سب کے سب ایک قد کے ہیں۔ ایک رنگ ہی ہے اور ایک جیسے لباس۔ شکلیں بھی اتنی ملتی ہیں کہ بس نمبر سے پہچانے جاتے ہیں۔

    کارخانوں میں مزدوروں کا نام و نشان تک نہیں۔ مشینیں خود بخود چل رہی ہیں۔ اور جو کام ایسے تھے جن کے لیے مزدوروں کی اشد ضرورت تھی وہ بند کردیے گئے ہیں۔ ہر ایک کے پاس ایک خوبصورت سی کار ہے اور ایک حسین بیوی۔ کار کی پچھلی سیٹ پر چند بکریاں بیٹھی جگالی کر رہی ہیں۔ لوگ جہاں چاہیں، جس وقت چاہیں، جس سے چاہیں بلاروک ٹوک پریم کرسکتے ہیں۔ نہ صرف پریم بلکہ شادی بھی کرسکتے ہیں۔ قرض لے سکتے ہیں۔ لڑ جھگڑ سکتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ سب کچھ ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر ہوجائے تب بھی سماج کو کوسنے والے خوش رہیں گے یا نہیں؟ غالباً نہیں! شاید اس قسم کے بیمار سماج حضرات کاعلاج لوہے کا ٹانک، مچھلی کا تیل، فروٹ سالٹ، ورزش اور تبدیلی آب و ہوا ہے۔ بہتر ہوگا اگر ان کے ٹانسل نکلوا دیے جائیں اور خراب دانت بھی!ان سے زبردستی ورزش کرائی جائے اور انہیں ہنس مکھ حضرات کی صحبت میں رکھا جائے۔ افاقہ ہونے پر انہیں تاکید کی جائے کہ اپنی صحت برقرار رکھیں، مبادا کہیں پھر دورہ پڑجائے۔

    کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ یہ سماج کا مذاق بہت پرانا ہوچکا ہے۔ آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سماج (جو کچھ بھی ہے اور جہاں کہیں بھی ہے) اس کی وہ مٹی پلید ہوئی ہے جس کی انتہا نہیں۔ اب مارے شرم کے اس نے اپنی بہت کچھ اصلاح کرلی ہے۔ وہ پشیمان ہے۔ آپ کے سامنے سر جھکائے کھڑا ہے۔ اس کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو رواں ہیں۔ اس کے ہونٹ کانپ رہے ہیں۔ وہ سچے دل سے معافی کا خواست گار ہے۔ کیا آپ اسے معاف نہیں کریں گے؟ اسے ضرور معاف کردیجیے، اور اس کا ثبوت اس صورت میں مل سکتا ہے کہ افسانوں میں غریب سماج پر مزید لعنت ملامت نہ کی جائے، بلکہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ افسانوں میں خودکشی کے واقعات ذرا کم ہوجائیں اور مزدور سیٹھوں کی لڑکیوں سے محبت کرنا چھوڑ دیں۔ پریم کے متوالے اگر پریم کر کے ضرور ثواب لوٹنا چاہتے ہوں تو اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ہی ذات پات میں محبت کیا کریں اور محبت کرنے سے پہلے ذرا کسی اچھے سے آئینے میں اپنا چہرہ بھی بغور ملاحظہ فرما لیا کریں۔

    باقی رہے سماج کے ٹھیکے دار! سو جب سماج میں وہ بات نہ رہے گی تو ان کی ٹھیکے داری کیا خاک چلے گی؟ سارا کام ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ خود سیدھے راستے پر آجائیں گے۔ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ للہ آپ سماج کی خطائیں معاف کردیجیے!

    مأخذ:

    شگوفے (Pg. 70)

    • مصنف: شفیق الرحمان
      • ناشر: کتاب والا، دہلی
      • سن اشاعت: 1994

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے