Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سسرالی رشتہ دار

شوکت تھانوی

سسرالی رشتہ دار

شوکت تھانوی

MORE BYشوکت تھانوی

    مصیبت یہ ہے کہ ریڈیو سیٹ سسرال میں بھی ہے اور وہاں کی ہر دیوار گوش دارد، مگر بزرگوں کا یہ مقولہ اس وقت رہ رہ کر اکسا رہا ہے کہ بیٹا پھانسی کے تختہ پر بھی سچ بولنا، خواہ وہ پھانسی زندگی بھر کی کیوں نہ ہو، موضوع جس قدر نازک ہے اسی قدر اخلاقی جرأت چاہتا ہے۔ اور اس اخلاقی جرأت کا نتیجہ بھی معلوم، کہ سسرال کی آنکھوں کا تارا، خوش دامن صاحبہ کا راج دلارا اس تقریر کے بعد پھر شاید ہی سسرال میں منہ دکھانے کے قابل رہ جائے۔ ہر چند کہ حفظ ماتقدم کے طور پر آج سسرال والوں کو سنیما کے پاس لاکر بھی دے دیے ہیں۔ اور ریڈیو سیٹ کا ایک بلب بھی احتیاطاً جیب میں ڈال لائے۔ مگر یہ سب کچھ سسرال کے ایک گھر میں ہوا ہے اور گھر ٹھہرے وہاں درجنوں ظاہر ہے کہ کوئی نہ کوئی تو یہ تقریر سن ہی لے گا۔ اور پھر سسرال ٹرانسمیٹر سے نمک مرچ لگا کر یہ تقریر نشر ہوگی، بیوی کا منہ پھول جائے گا۔ ان کی والدہ کی سرد آہیں محلہ بھر کو فریجیڈیر بناکر رکھ دیں گی، ان کی خالہ گردن ہلا ہلاکر اور آنکھیں مٹکا مٹکاکر فرمائیں گی کہ میں نہ کہتی تھی کہ داماد آستین کا سانپ ہوتا ہے۔ آخر کب تک نہ پھنکارتا۔ سارا کیا دھرا ملیا میٹ کرکے رکھ دیا کہ نہیں۔ مگر اب تو جو کچھ ہو سچ بولنا ہی پڑے گا۔ ان لوگوں کا وہاں ذکر نہیں جو سسرال میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ بلکہ مخاطب وہ ہیں جن کو ابھی واصل بہ سسرال ہونا ہے کہ،

    اے تازہ دار دانِ بساطِ ہوائے دل

    زنہار اگر تمہیں ہوسِ عقد و قد ہے

    دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

    مجھ سے وصول کرلو نصیحت جو عقد ہے

    میں ایک داماد ہوں اور میں نے جلدبازی سے کام لے کر شادی کے معاملے میں صرف بیوی کے سلسلے میں تو ضروری تحقیقات کرلی تھی کہ کیا عمر ہے صحت کیسی ہے، صورت و شکل کا کیا عالم ہے، تعلیمی استعداد کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اب سرپر ہاتھ رکھ کر رونا پڑتا ہے کہ یہ کیوں پوچھا تھا کہ ان میں کتنی خالائیں۔ کتنی نانیاں۔ دادیاں۔ چچیاں۔ تائیاں۔ بہنیں۔ اور بھاوجیں ہیں۔ اور کتنے اسی قسم کے مرد رشتہ دار ہیں، اور ان رشتہ داروں کے کتنے ایسے رشتہ دار ہیں جن کو جبراً اپنا رشتہ دار سمجھنا پڑے گا۔ اور کتنے ایسے عزیز ہیں جن کو اخلاقاً عزیز ماننا پڑے گا۔ پھر ان کے بعد ان عزیزوں کی باری آتی ہے جن کو انتظاماً عزیز کہا جاتا ہے۔ پھر انتقاماً عزیز بن جانے والوں کی باری آتی ہے۔ اور آخر میں جغرافیائی رشتہ دار آتے ہیں، مثلاً خالہ، ہمسائی، اور چچا پڑوسی وغیرہ، اس کی تحقیقات نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب۔

    دل غریب ادھر ہے ادھر زمانہ ہے

    ایک سے ایک سسرالی رشتہ دار روز دیکھ لیجیے جو محبت چھڑکنے دھرا ہوا ہے۔ غریب خانے پر دفتر سے تھکے ہارے بھوکے پیاسے دماغ کا عرق نکلوائے ہوئے سکون کی تلاش میں گھر پہنچے ہیں، کہ دیکھتے کیا ہیں، میٹھے پانی کی بوتلیں بھقابھق کھل رہی ہیں، مرغ ذبح ہو رہا ہے، خانساماں باورچی خانہ میں پتیلیوں سے ورزش کر رہا ہے۔ اور اندر سے ایسے قہقہوں کی آوازیں آرہی ہیں گویا کوئی بے چارہ آسیبی خلل میں مبتلا ہے۔ کسی ملازم سے پوچھا کہ یہ گھر کس کے نام الاٹ ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ بیگم صاحبہ کے کوئی پھوپھا معہ اہل و عیال تشریف لائے ہیں۔ جل تو جلال تو۔۔۔ صاحب کمال تو، آئی بلا کو ٹال تو۔ کا وظیفہ پڑھتے ہوئے جو گھر میں داخل ہوئے تو بیگم صاحبہ خوشی سے بدحواس دوڑی ہوئی تشریف لائیں۔ ارے آپ کو خبر بھی ہے کون آیا ہے۔ پھوپھا میاں۔ پھوپھی۔ نجو۔ جگنو۔ چھمی۔ لاڈو۔ رانی۔ آئیے نا آپ نے تو دیکھا بھی نہ ہوگا ان سب کو۔ بڑا انتظار کر رہے ہیں سب آپ کا۔ عرض کیا۔ کچھ بتائیے تو سہی یہ کون پھوپھا تصنیف کرلیے آج وہ جو پرسوں آئے تھے۔ وہ بھی تو پھوپھا تھے۔ احمق سمجھ کر مسکرائیں۔ ارے وہ تو ذرا دور کے پھوپھا تھے۔ یہ ان سے ذرا قریب کے پھوپھا ہیں۔

    ابا جان کی رشتہ میں خالہ زاد بہن کی سگی نند ہیں۔ یہ تو ہماری شادی میں نہ آسکی تھیں۔ پھوپھا میاں بیچارے پر ایک جھوٹا مقدمہ چل گیا تھا ان دنوں، مطلب یہ ہے کہ اب آئے ہیں یہ لوگ، بڑی محبت کے لوگ ہیں آپ بہت خوش ہوں گے۔ چلیے میں چائے لگواتی ہوں سب کے ساتھ آپ بھی پی لیجیے۔

    اب جو ہم ذرا ان کے قریب پھوپھا کے پاس پہنچے تو جی چاہا کہ ان سے مزاج پوچھنے کے بجائے گھی کا بھاؤ پوچھ لیں۔ چڑھی ہوئی داڑھی۔ بڑا سا پگڑ۔ خوفناک آنکھیں، پہاڑ کا پہاڑ انسان۔ ہماری شادی کے زمانے میں اس شخص پر جھوٹا نہیں بلکہ ڈکیتی کا سچا مقدمہ چل رہا ہوگا۔ آنکھیں چار ہوتے ہی ڈر کے مارے عرض کیا۔ السلام علیکم۔ وہ حضرت ایک دم سے وعلیکم السلام کا بم رسید کرکے حملہ آور ہوگئے اور اس زور سے مصافحہ فرمایا ہے کہ بھتیجی کا سہاگ ٹمٹما کر رہ گیا۔ ابھی ان حضرت سے زور کر ہی رہے تھے کہ ان کی اہلیہ محترمہ بلائیں لینے کو جو آگے بڑھی ہیں تو بیساختہ کلمہ شہادت زبان پر آگیا کہ اس سے بڑی سعادت اور کیا ہے کہ مرنے سے پہلے کلمہ پڑھ سکے آدمی۔ مگر یہ محترمہ یعنی۔ یکے از خوشدامن دعائیں دیتی ہوئی ہٹ گئیں۔ اب جو نظر پڑتی ہے تو ان کے ایک صاحبزادے ہمارا ٹینس کا بلاّ لئے ایک سڈول قسم کے پتھر سے کھیل رہے ہیں اور ہم پر وہ وقت پڑا ہے کہ ہم ان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ وہ بلا ہے جس سے ہم کو لان ٹینس چیمپئن شپ کے میچ کھیلنا ہیں۔ ٹینس کے اس بلے پر فاتحہ بھی پڑھنے نہ پائے تھے کہ ایک نہایت گھناؤنی سی صاحبزادی ایک اس ہاتھ میں اور ایک اس ہاتھ میں دو پیپرویٹ لیے ہوئے نظر آئیں جو ظاہر ہے کہ لکھنے کی میز سے اٹھائے گئے ہوں گے۔ لپک کر لکھنے کی میز کی جو دیکھتے ہیں۔ تو وہاں روشنائی کا سیلاب آچکا ہے۔ اور اکثر ضروری کاغذات روشنائی میں ڈوب کر خشک بھی ہوچکے تھے۔ ابھی رونے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ ڈریسنگ ٹیبل پر زلزلہ سا آگیا۔

    چھوٹی بڑی شیشیاں آپس میں ٹکرانے لگیں اور ایک آدھ گر بھی گئی۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ایک برخوردار اس کے نیچے سے برآمد ہورہے ہیں۔ جی چاہا کہ سرپیٹ لیں، مگر بیگم نے باہر ہی سے آوازدی کہ چائے لگ گئی ہے۔ لہٰذا خون کے گھونٹ پیتے ہوئے چائے کی اس میز پر آگئے جو مہاجرین کا کیمپ بنی ہوئی تھی۔ پھو صاحب چائے کی پیالی سے طشتری میں چائے انڈیل انڈیل کر شٹرب شٹرب کی آوازوں کے ساتھ چائے نوش فرمارہے تھے۔ ان کی اہلیہ محترمہ کیلا کھا چکنے کے بعد ایک ایک کیلا اپنی اولاد کو تقسیم فرمارہی تھیں۔ اور اولاد خشک میوے سے اپنی جیبیں بھر رہی تھی۔ ایک صاحبزادے نے اپنی بہن سے بادام چھیننے کی کوشش میں جو ہاتھ مارا ہے تو نئے سیٹ کی کیتلی ایک زمزمے کے ساتھ فرش پر گرکر چکنا چور ہوگئی تو ہم نے اپنے کو غشی سے بچاتے ہوئے عرض کیا کوئی مضائقہ نہیں۔ حالانکہ یہ سوفیصدی مضائقہ ہی مضائقہ تھا۔ پھوپھا صاحب نے اِدھر سے اور پھر پھوپی صاحبہ نے ادھر سے صاحبزادے کو دو ہاتھ رسید کرکے رہی سہی فضا کو اور بھی نغموں سے لبریز کردیا۔ اور اب جو ان برخودار نے رونا شروع کیا ہے تو خودکشی کو جی چاہنے لگا۔ خدا خدا کرکے یہ طوفان تھما تو پھوپھا صاحب نے تقریب تشریف آوری کچھ اس فصاحت سے بیان فرمایا ہے کہ ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ معلوم ہوا کہ مقدمہ چل جانے کی وجہ سے ملازمت جاتی رہی ہے۔ لہٰذا آپ ملازم ہونے تشریف لائے ہیں۔ اور جب تک خاکسار ان کے لیے ملازمت کا انتظام نہیں کرتا وہ ٹلنے والے نہیں ہیں۔ عمر پنشن لینے کے لگ بھگ، تعلیم ایسی کہ خواندہ کانسٹیبل بھرتی ہوکر ہیڈ کانسٹیبل کے عہدہ جلیلہ تک ترقی فرمائی تھی کہ اب یہ پکڑی جانے والی رشوت پکڑلی گئی اور،

    دھرے گئے دلِ خانہ خراب کے بدلے

    وہ تو کہیے خوش نصیب تھے کہ قالین بانی سیکھنے جیل نہیں بھیجا گیا۔ صرف ملازمت ہی گئی۔ خیر یہ تو جو کچھ ہوا، وہ ہوا، سوال تو یہ تھا کہ آخر ہم اپنی کس جیب سے ملازمت نکال کر ان کے حوالے کرتے۔ کہ اے ہماری بیوی کے محترم پھوپھا یہ لے ملازمت۔ ہم کو خاموش دیکھ کر بولے۔ ’’برخوردار اس خاموشی سے کام نہ چلے گا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تم کس قدر اثر اور رسوخ کے آدمی ہو۔ ذراسا اشارہ کردوگے تو اچھی سے اچھی ملازمتیں میرے لیے خود ہاتھ پھیلائیں گی۔ صاحبزادے حکام رسی بڑی چیز ہوتی ہے اور میں تو اس کو اپنے خاندان کے لیے نعمت غیر مترقیہ سمجھتا ہوں کہ تمہارا ایسا بارسوخ برخوردار ہمارے خاندان میں شامل ہوگیا ہے۔ تو میاں مطلب یہ ہے کہ میرے گھر کا خرچ ڈھائی سو روپیہ ماہوار سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ ملازمت ایسی ملے کہ بالائی آمدنی کی لعنت میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔‘‘

    بیگم صاحبہ نے بڑی شگفتگی سے فرمایا۔ ’’پھوپھا میاں بس اب اطمینان رکھیے۔ آپ نے ان سے کہہ دیا ہے۔ بس اب یہ سمجھ لیجیے کہ نوکری مل گئی۔ ان کی کوشش ٹل نہیں سکتی۔ اور ہم کو گھور کر چپ رہنے کا اشارہ کردیا۔ لہٰذا ہم کو کہنا ہی پڑا کہ انشاء اللہ کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔‘‘

    چائے کے بعد ہم نے اپنے کمرے میں آکر بیوی صاحبہ کو بلاکر سچ مچ رو دینے کے انداز سے کہا۔

    ’’خدا کے لیے یہ تو بتاؤ کہ تم نے آخر میرا کیا انجام تجویز کر رکھا ہے۔ یہ تمام نقصانات یہ ابتری گھر کی۔ یہ ستیاناسی میرے کمرے کی۔ میرے قیمتی ریکٹ کی یہ بربادی وغیرہ تو ایک طرف میں ان سب نقصانات کو اپنی جان کا صدقہ سمجھ لیتا۔ مگر مجھ سے آخر ایسے وعدے کیوں کرادیتی ہو۔ جو میرے امکان ہی میں نہ ہوں۔ بھلا غور تو کرو میں ان حضرت کو ڈھائی سو روپیہ ماہوار کی ملازمت کیسے دلواسکتا ہوں۔‘‘ سرگوشی کے انداز میں بولیں آپ سچ مچ عقل کے دشمن ہیں۔ میں نے تو اپنے میکے میں آپ کا نام اونچا کرنے کے لیے مشہور کر رکھا ہے کہ آپ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ بڑے بڑے افسر آپ کے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں۔ آپ کو نہیں معلوم اس طرح عزت بڑھتی ہے آدمی کی۔ ایک آدھ دن کے بعد خوبصورتی سے ٹال دوں گی۔ عرض کیا، کاش یہ خوبصورتی آپ اب نہ آزمائیں تاکہ میرا قیمتی ریکٹ بچ جاتا۔ اتنے حسین چائے کے سٹ کی کیتلی نہ ٹولتی۔‘‘

    پھر رازداری سے بولیں ’’ارے آپ کو نہیں معلوم ہے۔ یہ پھوپھا بڑے ڈھنڈورجی ہیں۔ اگر یہاں سے ہم لوگوں کے حسنِ سلوک کے قائل ہوکر گئے تو سارے خاندان میں آپ کی تعریفیں کرتے پھریں گے۔ آج ان سب کو سنیما ضرور دکھادیجیے۔ کسی کا موٹر چپکے سے منگوالیجیے گا۔ میں نے کہہ رکھا ہے کہ موٹر کارخانے گیا ہوا ہے۔‘‘ لیجیے یک نہ شد دو شد آپ نے یہ بھی مشہور کر رکھا ہے۔ کہ گھر کا موٹر بھی ہے۔ اب بتائیے کہ اس میں بیچارے سسرال والوں کا کیا قصور وہ تو اسی قسم کی موٹی تازی توقعات لے کر آتے ہی رہیں گے۔ اور بیگم صاحبہ کی یہ شیخی دیوالہ نکلواتی رہے گی۔ اسی طرح بات یہ ہے کہ اس بات کاصحیح انداز تو مردم شماری کے کاغذات دیکھ کر ہوسکتا ہے کہ بیگم صاحبہ کی معرفت ہمارے سسرالی عزیزوں کے صحیح اعداد شمار کیا ہیں۔ مگر فی الحال تو یہ ہو رہا ہے کہ دفتر میں بیٹھے کہ چلمن اٹھائی اور کوئی نہ کوئی اجنبی بزرگ موجود۔ برخوردار تم مجھ کو نہیں جانتے مگر تم دراصل میری آنکھوں کے نور اور دل کے سرور ہو اور میں رشتہ میں تمہارا خسر ہوتا ہوں۔ وہ بچی جو تم سے منسوب ہے میری گودوں کی کھلائی ہوئی ہے اور بچپن ہی سے اس کی پیشانی پر وہ ستارا چمکتا ہوادیکھ رہا تھا جس کو نیراقبال کہتے ہیں۔ تو عزیز من دیکھنے کو بے حد جی چاہتا تھا۔

    دوسرا کام یہ تھا کہ میرے بچے یعنی تمہارے برادرِ نسبتی کا چالان ہوگیا ہے۔ بلوے کے سلسلے میں غالباً صاحبزادے نے کسی کا سر پھوڑ دیا ہے۔ بہرحال تم میرا اتنا کام کردو کہ اس چالان کے قصے سےنجات دلوادو۔ کسی طرح اب وہ کام ہوسکتا ہو یا نہ ہوسکتا ہو مگر اس حماقت کی پاداش میں کرنا ہی پڑے گا کہ ان کے خاندان میں شادی کر بیٹھے ہیں۔ دفتر سے گھر پہنچے ہیں تو کوئی اور ہی رشتہ دار موجود ہے اپنی کسی ایسی ہی غرض کو لیے ہوئے۔ اور اگر کچھ نہ بھی سہی تو آج اس سسرالی عزیز کے کسی عزیز کی شادی ہے اور دلہن کے لیے تحفہ کی ضرورت ہے۔ آج اس سسرالی عزیز کے بندہ زادے کا عقیقہ ہے اس میں شرکت کی ضرورت ہے اور شرکت ٹیکس کی بھی۔ بیگم صاحبہ واقع ہوئی ہیں ایسی مرنجان مرنج کہ میکوں والوں سے تعلقات بھی زیادہ سے زیادہ استوار رکھنا چاہتی ہیں اور شوہر کو بھی کچھ ایسا رائی کا سا پہاڑ بناکر اپنے میکے بھر میں مشہور کر رکھا ہے کہ ان کی تصنیف کی ہوئی پوزیشن کو سنبھالنا ایک مستقل عذاب بن کر رہ گیا ہے۔

    یہ حال ہے کہ کسی پر مقدمہ چل جائے وہ دوڑا آجائے گا اس خاکسار کے پاس۔ کسی کو کوئی سفارش پہنچوانا ہوگی منہ اٹھائے چلے آئیں گے غریب خانے پر۔ کسی سے کوئی جرم سرزد ہوگا، پناہ لی جائے گی اس خاکسار کی آڑ میں۔ بیوی نے اس خاکسار شوہر کو تبرک بناکر اپنے میکے میں بانٹ دینے کی ٹھان لی ہے۔ اور خوش ہیں کہ ماں کا سکہ جم رہا ہے۔ میرے عزیزوں میں۔ میاں ایسے حواس باختہ ہوچکے ہیں کہ ان سسرالی نوازشات کا اب سلسلہ بند ہوتا ہی نہیں۔ کوئی لاکھ محبت چھڑکتا، خلوص برساتا، مامتائیں لٹاتا ہوا آئے مگر یہ سنتے ہی خون خشک ہوجاتا ہے کہ یہ کوئی سسرالی عزیز ہے۔ وہ بے چارہ داماد پرسی کااحسان کرتا ہے اور داماد ایسے سسرال سے بیزار ہوتے جارہے ہیں۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ،

    مجھ پہ احسان جو کرتے تو احسان ہوتا

    مأخذ:

    (Pg. 115)

    • مصنف: شوکت تھانوی
      • ناشر: آہلو والیہ بک ڈپو، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے