Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شیخ سلی

MORE BYکنہیا لال کپور

    شیخ سلی کہ جو شیخ چلی کے پڑ پوتے کہلاتے تھے، دور کی کوڑی لانے میں یکتائے روزگار تھے۔ ایک دن بیگم سے کہنے لگے، ’’پلان بناؤ ورنہ تباہ ہو نے کے لئے تیار ہو جاؤ۔‘‘ بیگم سمجھیں شیخ صاحب فیملی پلاننگ کا ذکر کر رہے ہیں۔ ہوا میں ہاتھ نچاتے ہوئے بولیں، ’’شرم نہیں آتی، اس عمر میں فیملی پلاننگ کا ذکر کرتے ہوئے۔ گیارہ بچے پیدا کرنے کے بعد جب طبیعت اوب گئی تو توبہ کی سوجھی۔‘‘

    شیخ صاحب نے بیگم کی نا سمجھی پر سر پیٹنے کے بعد جوا ب دیا، ’’ہمیں آج تک پتہ نہ چلا خدا نے کس مصلحت کی بنا پر تمہیں عقل سے محروم رکھا۔ ہم فیملی پلاننگ کا نہیں سات سالہ پلان کا ذکر کر رہے ہیں۔ اودلا کے متعلق ہمارا جو نظریہ ہے اس سے ساری دنیا بخوبی واقف ہے۔ دراصل غالب کا جو عقیدہ آموں کے بارے میں تھا، ہمارا وہی بچوں کے بارے میں ہے۔ یعنی زیادہ ہوں اورمیٹھے ہوں۔ میٹھے یعنی ’سویٹ‘۔ ہم بچوں کی تعداد سے کبھی نہیں گھبرائے۔ اگر ایک بچہ بھی لائق ثابت ہو ننانوے لائق بچوں کی تلافی ہو جاتی ہے۔‘‘

    ’’پھر یہ سات سالہ پلان کیا ہے؟‘‘

    ’’توبہ توبہ! بد مذاقی کی حد ہو گئی۔ تم پلان کو بلا سمجھتی ہو۔ یہی وجہ ہے ہمارے یہاں زبوں حالی نے ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ تم نے شاید وہ شعر نہیں سنا؛

    یاران تیز گام نے منزل کو جا لیا‘‘

    ہم۔۔۔

    بیگم نے شیخ صاحب کی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا، ’’کون سے یاران تیز گام نے؟‘‘ شیخ صاحب نے جھلا کر کہا، ’’لاحول واللہ۔ عجیب نا معقول عورت ہو۔ کتنے بیہودہ سوال کرتی ہو، ارے بھئی انہوں نے جنہیں خدا وند کریم نے توفیق دی کہ سات سالہ پلان بنائیں۔‘‘

    ’’اس سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟‘‘

    ’’ان کے وارے نیارے ہو گئے۔ ان دنوں وہ کروڑ پتی کہلاتے ہیں۔ شاندار کوٹھیوں میں رہتے ہیں۔ پر تکلف کاروں میں گھومتے ہیں۔ مطلب یہ کہ بڑے ٹھاٹھ سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ کبھی ہم سے بھی زیادہ مفلس اور قلاش تھے۔‘‘

    ’’اگر یہ بات ہے تو آپ بھی اللہ کا نام لے کر سات سالہ پلان بنا ڈالیے۔ شاید اس سے ہی ہمارے دن پھریں۔‘‘

    ’’ابھی بناتے ہیں، تم ہمت کر کے ایک کاغذ اور قلم لے آؤ۔‘‘

    کاغذ کو میز پر رکھتے ہوئے شیخ صاحب نے بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’اچھا پہلے اس پلان کا ذرا خاکہ سن لو۔‘‘

    ’’فرمائیے۔‘‘

    ’’ہم اپنے گیارہ بچوں کو ولایت بھیجیں گے۔‘‘

    ’’کرکٹ ٹیسٹ میچ میں حصہ لینے کے لئے۔‘‘

    ’’تم بھی الٹی کھوپڑی کی ہو، کرکٹ ٹیسٹ میچ میں حصہ لینے کے لئے نہیں، آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے۔‘‘

    ’’اس کے لئے روپیہ کہاں سے آئے گا؟‘‘

    ’’اس کی فکر نہ کرو۔ ہم اپنی زمین بیچ دیں گے۔ پھر بھی کام نہ بنا تو گھر کا اسباب فروخت کر دیں گے۔‘‘

    ’’یہ مسئلہ تو حل ہوا آگے چلئے۔‘‘

    ’’ہم اپنا بوسیدہ مکان مسمار کر دیں گے ، اس کے بجائے عالی شان کوٹھی تعمیر کریں گے۔‘‘

    ’’کوٹھی کے لئے۔۔۔ ‘‘

    ’’روپیہ کہاں سے آئے گا، تم یہی بات کہنا چاہتی ہو نا۔ کوئی نہ کوئی خدا کا بندہ دے ہی دے گا۔ آخر ہندوستان میں پچپن کروڑ انسان رہتے ہیں۔ یہ سب تو بخیل ہو نہیں سکتے۔ بالفرض ہمیں کسی نے روپیہ نہ دیا،ہم غیر ممالک میں رہنے والوں سے اپیل کریں گے کہ اس کار خیر میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔ بہر حال مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔‘‘

    ’’کوٹھی بھی بن گئی، اب اور کیا بنانے کا ارادہ ہے؟‘‘

    ’’اس کے بعد ہم ایک ڈی لکس کار خریدں گے۔ یہ ماہانہ قسطوں پرخریدی جائے گی جنہیں ہمارا کوئی نہ کوئی دوست ادا کرے گا۔‘‘

    ’’فرض کیجئے، ہمارا کوئی دوست قسطیں ادا کرنے پر رضا مند نہیں ہوتا پھر؟‘‘

    ’’تم ایسی فضول بات فرض ہی کیوں کرتی ہو۔ یہ کیوں نہیں فرض کرتیں کہ ہمارے اتنے دوست رضا مند ہو جائیں گے کہ ہمیں ہرماہ بذریعہ قرعہ اندازی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ان میں سے کون قسط ادا کرے گا۔ بصورت دیگر ہم اسی ہزار روپیہ قرض لے لیں گے۔‘‘

    ’’کار لینے کے بعد ہمارا اگلا پروگرام کیا ہوگا؟‘‘

    ’’اگلا پروگرام پیدا وار بڑھانا ہوگا۔ تم شاید پوچھنا چاہو گی زمین بیچنے کے بعد ہم فصلیں کہاں اگائیں گے۔ اس سوال کا صاف اور سیدھا جواب ہے اپنی کوٹھی کے آنگن میں اور کوٹھی کی چھت پر۔‘‘

    ’’کوٹھی کی چھت پر آپ ہل چلائیں گے کیا؟‘‘

    ’’ہل نہیں ٹریکٹر۔‘‘

    ’’پھر تو چھٹ کاخدا حافظ ہے۔‘‘

    ’’کوئی مضائقہ نہیں ہم ٹریکٹر ذرا آہستہ چلائیں گے۔‘‘

    ’’لیکن چھت پر جگہ ہی کتنی ہوگی؟‘‘

    ’’اس کا وہم نہ کرو۔ ہم جدید کھاد کا استعمال کر کے تھوڑی زمین میں زیادہ پیداوار حاصل کر لیں گے۔ تین سال کے بعد ہمیں فصل سے اتنی آمدنی ہو جائے گی کہ ہم اپنا سارا قرض ادا کر سکیں گے۔ اس کے بعد آنے والے چار برسوں میں ہماری خوشحالی کا وہ ٹھکانہ ہوگا کہ لوگ ہم پر رشک کیا کریں گے۔‘‘

    ’’تو یہ ہے آپ کی سات سالہ پلان کا مکمل خاکہ۔‘‘

    ’’ابھی مکمل کہاں ہے، ہم نے تمہیں یہ تو بتایا نہیں کہ کوٹھی کے دو کمروں میں پولٹری فارم کھولا جائے گا۔ پانچ سو مرغیاں پالی جائیں گی۔ ہر ایک مرغی اوسطاً دس چوزہ۔۔۔‘‘

    ’’آپ تو اپنے پڑ دادا شیخ چلی کی طرح ہوائی قلعے بنانے لگے۔‘‘

    ’’پڑ دادا جان تو بڑے سادہ لوح تھے۔ اگر کوئی باقاعدہ پلان بناتے تو آج ہمارے خاندان کی حالت اتنی پتلی نہ ہوتی۔ ہاں تو ہم کہہ رہے تھے ایک چوزہ دو روپے میں فروخت کیا جائے گا۔ اب ہمارے پاس دس ہزار روپیہ ہو جائے گا۔‘‘

    ’’اس سے شاید آپ بھیڑیں خریدں گے؟‘‘

    ’’ہاں، اور بھیڑوں کے اون فروخت کر کے جو روپیہ آئے گا اس سے ہم ایک نئی قسم کا کار خانہ لگائیں گے۔‘‘

    ’’یہ کار خانہ کون سا مال تیار کرے گا؟‘‘

    ’’یہ کارخانہ چھوٹے چھوٹے کارخانے تیار کرے گا، جیسے سیمنٹ تیار کرنے کا کار خانہ، بلیڈ بنانے کا کار خانہ، کھانڈ بنانے کا کار خانہ، موٹریں بنانے کا کار خانہ وغیرہ وغیرہ۔ آئندہ جس شخص کو کار خانہ لگانا مقصود ہوگا وہ ہمارے کار خانے سے بنا بنایا کار خانہ آ کر لے جایا کرے گا۔‘‘

    ’’تب تو ہم کروڑپتی ہو جائیں گے؟‘‘

    ’’اس میں کیا شک ہے؟‘‘

    ’’اس پلان کو عملی جامہ کپ پہنایا جائے گا؟‘‘

    شیخ صاحب نے یک لخت ایک قہقہہ لگا کر کہا، ’’عملی جامہ، بیگم کیا تم واقعی سمجھتی ہو، پلانوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ تم بڑی سادہ لوح ہو۔ ہم شیخ چلی کے پڑ پوتے سہی لیکن اتنا تو ہم بھی جاتنے ہیں پلان صرف کاغذ پر بنائے جاتے ہیں۔ جانتی ہو اگر ہم اس پلان پر عمل کریں گے، ہمارا کیا حشرہوگا۔ ہمیں زمین اونے پونے فروخت کرنی پڑے گی۔ کوئی شخص ہمیں قرض دینے پر آمادہ نہ ہوگا۔ ہمارا کوٹھی بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ اگر ہم اپنا بوسیدہ مکان گرا دیں گے ہمیں فٹ پاتھ پر بسیرا کرنا پڑا گے۔ ہمارے بچے فیس ادا نہ کر سکیں گے اور انہیں آکسفورڈ سے نکال دیا جائے گا۔ مختصر یہ کہ ہماری حالت پہلے سے بھی بد تر ہو جائے گی۔‘‘

    ’’اگر یہ معاملہ ہے تو اتنی ناف زنی کی کیاضرورت تھی؟‘‘

    ’’بیگم دہلی میں ایک بہت بڑے شاعر ہوئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا تھا؛

    ’’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔‘‘

    ’’پھر بھی اسے عملی جامہ پہنانے میں حرج کیا ہے؟‘‘

    ’’ضرور جاننا چاہتی ہو۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’حرج صرف اتنا ہے جب ہمارا سات سالہ پلان فیل ہو جائے گا تو ہم دونوں کو یہ نعرہ لگانا پڑے گا، ’’پلان بناؤ اور تباہ ہو جاؤ۔‘‘

    مأخذ:

    نازک خیالیاں (Pg. 48)

    • مصنف: کنہیا لال کپور
      • ناشر: کمال پرنٹنگ ورکس، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے