Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شریک غالب

صالحہ عابد حسین

شریک غالب

صالحہ عابد حسین

MORE BYصالحہ عابد حسین

    غالب کا چند جز کا دیوان ہمیشہ سےہماری محبوب کتاب رہی ہے۔ اس کا ننھا سا خوبصورت جرمن ایڈیشن تو تعویز کی طرح سفر اور حضر میں ساتھی بنا رہتا ہے۔ دل خوش، موڈ ٹھیک اور طبیعت موزوں ہو تو غالب کے دل کش، پرجوش اور طرب افزا اشعار اور پھڑکتی ہوئی غزلیں دماغ اور زبان پر رہتی ہیں۔ پریشانی ہو تو پرسوز و پر اثر شعر دل بہلاتے ہیں۔ رنج و غم ہو تو مایوسی و ناکامی سے بھرپور شعر اسے ہلکا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ بیماری کی شدت میں ہمارا ذہن غالب کے حسین و پر اثر اشعار کی نامعقول پیروڈی کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جی ہاں یہ گستاخی عام طور پر بیماری کی شدید تکلیف ہی میں ہوتی ہے۔ مثلاً ہمارے گردے کا آپریشن ہوا تو یہ شعر الہام ہوا،

    شق ہوگیا ہے گردہ خو شا لذّت فراغ

    تکلیف پردہ داریِ دردِ کمر گئی

    اور دمہ کے شدید دوروں میں توغالب کے اشعار ذرا سی ردّ و بدل سےہمارے بڑے آسانی سے بن جاتے ہیں،

    یہ مرض دمے کا بھی جانے کیا قیامت ہے

    آہ بے اثر دیکھی نالہ نار سا پایا

    یا

    کھانسی ہے صبر طلب سانس ہمارا بے تاب

    دل کا کیا رنگ کریں خونِ جگر ہونےتک

    اور،

    نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے

    جو واں نہ سر ہوئے وہ یہاں آکے ’’دم‘‘ ہوئے

    اس ذکر سے مطلب نصیب دشمنان یہ غلط فہمی نہیں کہ خدا نخواستہ ہم میں شعر گوئی کےجراثیم موجود ہیں بلکہ اس محبت اور شفقت کااعتراف ہے جوہم کو غالب کےاشعار سے ہے کہ درد کی تکلیف میں کمی بھی اسی بہانے ہوتی ہے۔

    ایک رات کچھ ایسی حالت تھی۔ دمہ کی تکلیف سے کئی راتیں آنکھوں میں کٹ چکی تھیں تیماردار تھک کر سوگئے تھے مگر ہماری آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی اور دماغ تھاکہ غالب کےاس شعر کاورد کیے جارہاتھا، ذراسے تصرف کے بعد،

    کاوے کاوے سخت جانی ہائے بیماری نہ پوچھ

    صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

    ایک شعر کی تکرار سےتنگ آکر ہم نےسرہانےکی الماری سے ہاتھ بڑھاکر دیوانِ غالب اٹھایا۔ لیمپ کا بڈسوئچ دبایا اور دمہ کی رات اور ہجر کی شب کا موازنہ شروع کردیا کہ کون سی زیادہ سخت زیادہ قابل برداشت ہوتی ہے،

    کیوں اندھیری ہے شب ’’دم‘‘ ہے بلاؤں کا ہجوم

    آج ادھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا؟

    پڑھتے پڑھتے جب اس شعر پر پہنچی،

    ہوئی مدّت کہ غالبمرگیا پر یاد آتا ہے

    وہ ہر اک بات پر کہناکہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

    تو ہم ٹھٹک گئے۔ کیا شعر غالب کاہےیا ان کی بیوی کا۔ بھلا مرنےکی مدت بعد غالب یہ شعر کہہ کر کیسے بھیج سکتےتھے، ابھی تک تو وائرلیس کا اِدھر اور ادھر سےبراہِ راست تعلق قائم نہیں ہوسکاہے اور پھر مدت بعد اس ملک سے غالب کو اور کون یاد کرتا سوائے ان کی بیوی کے۔

    میں یہ سوچ رہی تھی کہ مجھے اپنے سرہانے سےکسی کی ہلکی سی ہنسی کی آواز آئی۔ یہ کون ہنسا؟ میں نے تکیوں پر ٹکے سر کر بمشکل اٹھایاتو کیا دیکھتی ہوں کہ سر سے پاؤں تک سفید پاکیزہ لباس میں ملبوس ایک نورانی صورت بی بی ہاتھ میں تسبیح لیےبیٹھی ایک خاص انداز میں ہنس رہی ہیں۔ جیسےماں بچے کی نادانی پر پیار بھری طنزیہ ہنسی ہنستی ہے۔ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا! وہ دلی کی پاکیزہ اور لوچ دار اور شیریں زبان میں خاص عورتوں کے لہجے میں بولیں ’’بچی تو تو غالب کی بڑی دلدادہ ہے نا؟ اور خیر سے اللہ رکھے اپنے نزدیک شعر وسخن کا ذوق بھی رکھتی ہے، کیوں جھوٹ کہتی ہوں؟ پھر بھی تجھے اس میں شبہ ہے کہ یہ شعر غالب کا ’’اللہ انھیں کروٹ کروٹ بہشت نصیب کرے، ہے یا ان کی بیوی کا؟‘‘

    مجھے حیرت تھی کہ یہ کون بی بی ہیں جو ایسی پیاری زبان بول رہی ہیں اور بغیر کہے میرے خیالات جان گئیں۔

    ’’ہاں! ہاں! تیرا خیال درست ہے۔ یہ شعر غالب کی بیوی کاہےاور ایک اسی شعر پر کیا موقوف ہے، غور سےان کا دیوان پڑھو بی بی پھر دیکھو گی کہ اس میں کتنے شعر ان کی بیوی کے موجود ہیں۔‘‘

    اب تو میں سنبھل کر بیٹھ گئی۔ واہ یہ بزرگ خاتون بھی خوب ہیں کس آسانی اور یقین سے وہ اتنا بڑا دعویٰ کر رہی ہیں آخر ان کے پاس اس کاثبوت کیا ہے۔ میں نے جرأت کرکے پہلی بار زبان کھولی مگر ’’مثلاً‘‘ سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکی۔

    ’’اے بوا مثالیں کہاں تک دوں گی، دوچار دس بیس شعر ہوں تو کوئی مثالوں سے سمجھائے، وہاں تو کتنی غزلوں میں اس کےشعرموجود ہیں۔ کتنے قطعوں میں وہ نظر آتی ہے۔ ذرا دیکھنےوالی آنکھ، سوچنےوالا دماغ اور عقل سلیم ہو تو ہی اس کی پرکھ ہوسکتی ہے بچی۔ تو نے اس شعر کے بارے میں کیا سوچا اور یہ شعر بتا کس کاہے،

    گھر میں کیا تھا کہ ترا غم اسے غارت کرتا

    وہ جو رکھتی تھی میں اک حسرتِ تعمیر سو ہے

    اب تو میں اور چوکنی ہوئی! یعنی ان بی بی حضرت نےغالب کا اتنا اچھا شعر بھی ان کی بیوی کو بخش دیا۔ اس طرح تو یہ سارا دیوان کادیوان ان کے نام منصوب کردیں گی۔ میں نےڈرتے ڈرتے احتجاج کیا ’’مگر دیکھیے تو مصرعہ ہے،

    وہ جو رکھنے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر سو ہے‘‘

    وہ پھر ہنسیں، وہی بزرگانہ ہنسی ’’اے ہے بحث کرنا آج کل کی لڑکیوں کو خوب آتا ہے۔ اول تو مصرعہ یوں ہو تب بھی غالب کی بیوی کا ہوسکتا ہے۔ مگر وہ یوں نہیں یوں ہے جیسے میں نے تجھے سنایا۔ تو تو جانتی ہوگی کہ پہلے زمانے میں یائے معروف اور یائے مجہول ایک ہی طرح چھوٹی ی کے انداز میں لکھی جاتی تھی، غالب کی بیوی بچاری کے کتنےشعر تو کتابت کےاسی اصول کے سرصدقے ہوگئے۔‘‘

    بھلا میں کیسےمان لیتی کہ میرے محبوب ترین شاعر غالب کےاشعار کسی اور کی ملکیت ہیں۔ ڈر تو لگتاتھا کہ ڈانٹ نہ پڑجائے۔ مگر میں ایسی آسانی سے ہتھیار ڈالنےوالی نہ تھی۔ ’’یہ بھلا آپ کیا فرمارہی ہیں۔ غالب کی دقیانوسی، اَن پرھ بیوی بھلاشعر اور ایسے شعر کہتیں جن پر آج تک اہلِ ذوق کو غالب کےاشعار کادھوکاہوتا رہے، یہ میں نہیں مان سکتی۔‘‘

    ایک لمحے کے لیے بڑی بی کا چہرہ تمتما اٹھا مگر پھر شفقت بھری مسکراہٹ چہرے پر کھیلنے لگی ’’احمق یہ تیرا نہیں تیرے زمانے کا قصور ہے۔ آج کل کی لڑکیاں اسکولوں میں چار حرف گٹ پٹ کے پڑھ کر اپنےکو عالم فاضل سمجھتی ہیں اور پرانے زمانے کی عورتوں کو جاہل محض۔ تو نےکیسے یہ سمجھا کہ غالب کی بیوی جاہل بے وقوف اور دقیانوسی تھی۔ وہ ایک عالم فاضل خاندان کی بیٹی تھی جو ذوق شعر و سخن میں سارے ہندوستان میں مشہور تھا۔ پھر اس کا غالب جیسے بے مثال شاعر کاپچاس سال سے زیادہ ساتھ رہا تھا یا نہیں؟ تو بوا، ایسے گھرانے کی لڑکی، ایسے خاوندکی بیوی، اگر اللہ میاں نے بھی اسے شعر کہنےکا ذوق دیا ہو تو پھر؟ پھر بھی تو کہے گی کہ اس کا شعر کہنا اور اچھے شعر کہنا کیسے ممکن ہے؟‘‘

    میری دلچسپی اب محویت کی حدتک پہنچ گئی تھی اور زبان کھولنے کی یوں بھی جرأت مشکل تھی۔

    ’’غالب کے دیوان میں تجھے کتنے ہی شعر ملیں گے جو ان کے نہیں ان کی بیوی کے ہیں۔ جانتی ہو بواکہ ان دونوں کا بیاہ بہت نوعمری میں ہوگیا تھا۔ کچھ شعر نوجوانی کے اسی رنگین زمانےکی یادگار ہیں۔ جب غالب کا بانکا اور مردانہ حسن اس کے دل میں کھب کر رہ گیا تھا۔ مشرقی حیادار بیوی ہوتے ہوئے بھی آخر دل تو وہ بھی رکھتی تھی، نامراد! اسی زمانےکاایک شعر ہے،

    سبزۂ خط سے ترا کا کل سرکش نہ دبا

    یہ زمرّد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

    ایک بار سج بن کر کہیں جانے لگے بیوی کو دھج دکھانے آئے کیسا لگ رہا ہوں فی البدیہہ کہا،

    ترے جواہر طرف کلہ کو کیاں دیکھیں

    ہم اوج طالع لعل و گہر کو دیکھتے ہیں

    یہ تو بیوی تم جانتی ہو کہ شاعر عاشق ضرور ہوتا ہے چاہےسچا عاشق ہو یا جھوٹ موٹ بن جاتا ہو۔ اب بوا جانے میری بلا کہ وہ جو عشقیہ شعر کہتے تھے تو سچ مچ کسی پر عاشق تھے یا بیوی کو جلانے کے لئے بن گئے تھے۔

    بیوی نے ڈومنی وومنی کو آنکھ سے کبھی نہیں دیکھا، مگر ان کےشعروں میں ان کے عشق کی داستان کو پڑھا اور سنا ضرور کرتی تھی۔ اور تم بھی بواعورت ہو۔ عورت کے دل کا حال سمجھ سکتی ہو۔ شریف زادیاں منہ سے نہ کہیں چاہتی یوں ہی ہیں کہ ان کا میاں ان کی محبت کی داستان کے سوا کسی اور کا ذکر ہی نہ کرے۔ مگر غالب ٹھہرے شاعر وہ بھی غزل گو، رندمشرب۔ اب تم ہی کہو ان کی باتیں سن سن کر بیوی کا دل جلتا یا نہ جلتا؟ ان کی بیوی کے اس زمانے کے شعروں میں شکوہ وشکایت بھی ہے اور اپنی چپکی چپکی شریف زادیوں والی محبت کااظہار بھی۔ طعنے تشنے بھی ہیں اور فضیحت بھی۔ مگر بوا غور کرو گی تو ہر جگہ ایسی اپنائیت پاؤگی جو صرف بیوی کا ہی حصہ ہوسکتی ہے۔ تم ہی کہو یہ شعر کس کا ہو سکتا ہے،

    ہوگئی ہے غیر کی شیریں زبانی کارگر

    عشق کاان کو گماں ہم بے زبانوں پر نہیں

    یہ بے زبان محبت مرد شاعر یا اس کی بازاری معشوقہ نگوڑی کیا کھا کے کرے گی۔ بیوی جب میاں سے شکایت کرتی تو وہ یا تو کوئی بہانہ بنادیتے یا کہتے ہم تو یہ باتیں محض تمھارے آزمانے کو کہتےہیں تو اس کےسوا وہ اور کیا کہتی،

    یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں

    عدو کے ہولیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو

    لیکن یہ سب منہ سے کہنے کی باتیں تھیں، بیوی کے دل کی سچی آواز تو وہی تھی،

    ہم کوئی ترکِ وفاکرتے ہیں

    نہ سہی عشق، مصیبت ہی سہی

    لیکن رشک و رقابت تو پیچھا بھی نہیں چھوڑتے۔ جب کبھی بھولے بسرےغالب اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو وہ شعروں ہی میں دل کی لگی کااظہار کیا کرتی۔ جانتی تھی ناکہ حساس شاعر کے دل پر کیا چیز زیادہ اثر کرتی ہے۔ اس قسم کے دوچار شعر بھی سن لے۔ ایک دن آبدیدہ بیٹھی تھی۔ غالب نے پوچھا کیا بات ہے؟ تنک کر بولی،

    دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

    روئیں گے ہم ہزار بارکوئی ہمیں ستائے کیوں

    اس لفظ ’’کوئی‘‘ سےتجھے نشان نہیں ملتا کہ یہ شعر کس کاہے؟ اور وہ کبھی دلداری کرتے تو جھٹ دل پگھل جاتا،

    تم جانو تم کو غیر سے گر رسم و راہ ہو

    مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیاگناہ ہو

    غالب نیک دل با محبت اور شریف آدمی تھی۔ ان باتوں پر خواہ مخواہ شرمندہ ہوجاتے تو شوخی سے کہتی،

    کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے

    جفائیں کرکے اپنی یاد، شرماجائے ہے مجھ سے

    ایک بار کئی دن غالب کی صورت نظر نہ آئی۔ جب آئے اور معذرت کی تو بولی جی ہاں جانتی ہوں،

    ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

    آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

    اور پھر ٹھنڈی سانس بھر کر کہا،

    تم سےبیجاہے مجھے اپنی تباہی کاگلہ

    اس میں کچھ شائبہ خوبیِ تقدیر بھی تھا

    ایک بار بہت دن کے بعد غالب نے پاؤں دبوانے کی خواہش ظاہر کی۔ ایسے موقعے بھی کبھی نصیبوں ہی سے ملتے ہیں خوشی کے مارے اس سے دباتے نہ بن رہا تھا۔ انھوں نے پوچھا ’’کیا بات ہے؟ کیسے دبا رہی ہو؟‘‘ مسکرا کر جواب دیا،

    اسدؔ خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے

    کہا جو تو نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے

    جوں جوں زمانہ گزرتاگیا آپس کی یگانگت اور بے تکلفی بڑھتی گئی، یوں سمجھو کہ اب عشقیہ رنگ نے دوسرا رنگ پکڑ لیا۔ غالب کےشاعرانہ مزاج کا لا ابلالی پن بڑھا تو بیوی کی نصیحت فضیحت بڑھی مگر۔۔۔

    وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو

    اب تلک تو یہ توقع تھی کہ واں ہو جائے گا

    اور۔۔۔

    زندگی اپنی جو اس شکل سے گزری غالب

    ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

    غالب کی بادہ خواری تو سمجھ سکتی ہے بچی کہ ان کی باخدا بیوی پر کیسی گزرتی ہوگی۔ غالب کی وہ مشہور غزل تجھے یاد ہوگی،

    نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

    ایک دن بڑے انہماک سے بیٹھے اسے لکھ رہے تھے۔ بیوی بھی تسبیح پھیرتی ادھرسے گزریں اور معرفت بھرے یہ شعر سن کر بہت متاثر ہوئیں۔ غالب نےپوچھا کہو کیسے ہیں؟ بے اختیار بولیں،

    یہ مسائل تصوّف یہ ترا بیان غالبؔ

    تجھے میں ولی سمجھتی جو نہ بادہ خوار ہوتا

    ایک بار غالب نےکعبہ جانے کاارادہ ظاہر کیا۔ صاف صاف نہ کہہ سکی کہ یہ حرکتیں اور یہ تمنا۔ بس اتنا کہہ کر رہ گئی،

    کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب

    شرم تم کو مگر نہیں آتی

    غالب کو گردشِ زمانہ سے پریشان اور ابنائے زمانہ کے رویہ سے رنجیدہ دیکھتی تو دلدہی اور دلداری بھی کرتی تھی۔ ایک بار سمجھاتے سمجھاتے آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی،

    بےخانگی خلق سے بیدل نہ ہو غالب

    کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے

    ایک شعر اس وقت کا ہے جب غالب نئے نئے جہاں پناہ کے دربار سے وابستہ ہوئے تھے۔ ان کو چھیڑنے کے لیے کہہ اٹھیں،

    بنا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

    و گر نہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

    یہ ایسی ہی محبت بھری نوک جھونک تھی، جیسی غالب اپنے انداز میں اپنے خطوں میں کیا کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے بھی تو بیوی کو بیڑی سےتشبیہ دی تھی نا۔ مگر تو بھی جانتی ہے اور وہ بھی جانتی تھی کہ یہ محض ان کی شوخی بیان اور ظریفانہ طرزِ ادا ہے۔

    تجھے بعض شعر غالب کے یہاں زنانہ لب و لہجہ میں کہے ہوئے نظر آئیں گے اگرچہ جو کلام میں نے تجھے ان کی بیوی کا ابھی تک سنایا، اس میں زنانی بولی کم ہے۔ غالب کی صحبت کااثر تھا نا اس پر کبھی کبھی اپنا مخصوص رنگ جھلک اٹھتا ہے،

    دی سادگی سے جان پڑوں کوہ کن کے پاؤں

    ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے پیرزن کے پاؤں

    غالب کی ایک مشہور غزل کا مطلع ہے،

    حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

    مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

    اس کے پہلے مصرعہ میں تجھے کس کی بولی نظر آتی ہے۔ یہ بیوی کا مصرعہ ہی تو تھا جس پر گرہ لگا کر انھوں نے مطلع کردیا اور پھر اپنی وہ مشہور غزل مکمل کی۔ ایک اور شعر خالص زنانی بولی میں اس وقت کا ہے جب نیا نیا بیاہ ہوا تھا،

    میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی

    اے وہ خلوت سہی جلوت نہ سہی

    میں سب کچھ بھول کر ان بڑی بی کی باتیں سن رہی تھی۔ دل کہہ رہاتھا کہ ذرا دیر یہ اور بیٹھی گئیں تو غالب بے چارے کو جن کےدیوان کاحجم یوں ہی بہت کم ہے بالکل تہی دست نہ کردیں اور وہ کہے جارہی تھیں ’’لیکن جب پچاس برس کا ساتھی بچھڑ گیا تو باوفا بیوی کا دل ٹوٹ گیا۔ شعر و سخن سے بھی جی بھر گیا اور سوائے اللہ اللہ کرنےکے کچھ بھی یاد نہ رہا۔ غالب کے بعد اس نےبہت کم اشعار کہے کبھی کبھی کراہ کے ساتھ کوئی شعر بے ساختہ منہ سے نکل جاتا تھا۔ ان ہی میں سے ایک مجھے یاد آیا،

    غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

    روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں

    یا وہ شعر جو میں نے تجھے سنایا تھا اپنا ویران گھر دیکھ کر دل سےنکلا تھا،

    گھرمیں کیا تھا کہ ترا غم اسے غارت کرتا

    وہ جو رکھتی تھی میں اک حسرتِ تعمیر سو ہے

    اور یہ شعر تو اکثر زبان پر رہتا تھا، جسے تم ابھی پڑھ رہی تھیں،

    ہوئی مدّت کہ غالب مرگیا پریاد آتا ہے

    وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

    ’’اللہ! اللہ!‘‘

    اب غور سے ان کی صورت دیکھتی ہوں تو یا اللہ۔۔۔ میں سکتہ میں رہ گئی۔ یہ خواب ہے یا بیداری۔ میں سوتی ہوں یا جاگتی ہوں۔ گورا چٹا رنگ تیکھے نقش و نگار لوہار و خاندان کا مخصوص انداز اور آبِ کوثر میں دھلی ہوئی زبان۔ میرے منہ سے نکلا۔ آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ امراؤ بیگم۔۔۔ امراؤبیگم۔۔۔ بیگم غالب‘‘

    میں نے آنکھیں کھولیں۔

    کھانسی کے جھٹکے نےمجھے کہیں سے کہیں لا پھینکا۔ کوئی میرا بازو ہلاکر کہہ رہا تھا۔ ’’کیا ہوا۔ کسے پکار رہی ہو۔ کون امراؤ بیگم!‘‘میرا سانس شدّت سے پھول رہا تھا۔ سینے پر دیوانِ غالب کھلا پڑا تھا۔

    مأخذ:

    آزادی کے بعد دہلی میں اردو طنز و مزاح (Pg. 91)

      • ناشر: اردو اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1990

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے