Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تمباکو کانفرنس

حاجی لق لق

تمباکو کانفرنس

حاجی لق لق

MORE BYحاجی لق لق

    برطانیہ کی جنگی کا بینہ نے اپنا خاص ایلچی سر سٹیفورڈکرپس ہندوستان بھیجا تاکہ وہ ہندوستان کی مختلف سیاسی جماعتوں اور حکومت برطانیہ کے مابین کوئی سمجھوتہ کرادے۔

    سرسٹیفورڈ کے ہندوستان پہنچتے ہی مختلف سیاسی جماعتوں نے مشاورتی کانفرنسیں منعقد کرنی شروع کر دیں تاکہ اپنے اپنے حقوق متعین کرکے برطانی ایلچی کے ساتھ گفت و شنید کر سکیں۔

    اس موقع پر ہندوستان کی مشہور سیاسی جماعت حقہ کانفرنس نے بھی جو ۲۵ کروڑ حقوقیوں کی نمائندہ جماعت ہے، سر گرمی دکھائی اور منٹو پارک لاہور میں ایک عظیم جلسے کا علان کر دیا۔ تمام ہندوستان کے وزیٹروں کو دعوت شرکت دی گئی اور منٹو پارک میں شاندار پنڈال بنایا گیا۔

    صدارت کے لیے مولانا ظفر علی خاں کا نام تجویز ہوا اور پنڈت میلا رام وفا استقبالیہ کمیٹی کے صدر بنائے گئے۔

    تاریخ مقررہ پر ’’زمیندار‘‘ کے دفتر سے صدر منتخب کا جلوس نکلا۔ مولانا کو عطا محمد بٹ سوداگر تمباکو کے اس تانگے میں سوار کیا گیا جس میں بٹ صاحب کے آدمی تمباکو رکھ کر شہر کے تمباکو فروشوں میں تقسیم کیا کرتے ہیں۔ تانگے میں ایک شاندار حقہ صاحب صدر کے لیے رکھا گیا جو تمام حقوق کا صدرمعلوم ہوتا تھا۔ جلوس میں ہزار ہا ہندو مسلمان حقوقی شریک تھے اور قدم قدم پر حقہ زندہ باد، مولانا ظفر علی خاں زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے اور ہر شخص کے ہاتھ میں ایک حقہ تھا اور حقہ کے کشوں سے فضا دھواں دھار ہو رہی تھی۔

    جلوس شہر کے بڑے بڑے بازاروں میں چکر لگانے لگا۔ شہر میں مختلف مقامات پر تمباکو کے پتوں سے خوبصورت محرابیں بنائی گئی تھیں اور ان کے نام مشہور حقہ نوشوں کے نام پر رکھے گئے تھے۔ اقبال گیٹ، میر نور احمد گیٹ، ملک نور الہی گیٹ، نواب ظفر خاں گیٹ وغیرہ۔

    جلوس ان محرابوں سے گزرتا ہوا تین گھنٹے کے عرصہ میں منٹو پارک پہنچا جہاں باقاعدہ جلسہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے مجلس استقبالیہ کے صدر نے اپنا خطبہ پڑھا، جس میں مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد صاحب صدر نے اپنا خطبہ صدارت پڑھنا شروع کیا جس میں حقوقیوں کی بے حسی کا رونا رویا گیا تھا۔ مولانا نے کہا کہ ہندوستان میں اتنے حقہ نوش ہیں کہ اگر ایک کش لگا کر دھواں آسمان کی طرف چھوڑیں تو سارے فلک کے اوپر دھویں کی ایک گھنگھور گھٹا چھا جائے لیکن افسوس ہے کہ انہیں اپنے حقوق کا کوئی خیال نہیں۔ آپ نے ہندوستانیوں کی فیشن پرستی کی مذمت کی اور کہا کہ لوگ حقے کو چھوڑ کر سگریٹ سگار اور پائپ کی طرف بھاگ رہے ہیں اور اس طرح اپنے ملک کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    مولانا نے حقوقیوں کو متحدہ ہونے کی تلقین کی اور کہا کہ حقوقیوں کے ہاتھوں ہمارا ملک دنیا میں سر بلند ہو سکتا ہے۔ آخر میں اس بات پر آپ نے زور دیا کہ ہم ہندوستان میں اپنے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کرتے ہیں جس کا نام ’’چلمستان‘‘ ہو۔ مولانا کا خطبہ صدارت چلمستان زندہ باد کے نعروں کی گونج میں ختم ہوا۔

    اس کے بعد مولانا محمد اشرف خاں عطا معاون مدیر ’’شہباز‘‘ نے اپنی گڑ گڑی ہاتھ میں لے کر ذیل کی قرار داد پیش کی،

    ہم ہندوستان کے ۲۵ کروڑ حقوقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں ہندوستان میں ’’چلمستان‘‘ بنانے کی اجازت دی جائے۔ ہم سگریٹ، سگار اور پائپ پینے والوں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے کیوں کہ ہماری ان کی تہذیب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم حیوانوں میں نہیں رہنا چاہتے، اس لیے ’’چلمستان‘‘ کا مطالبہ کرتے ہیں۔

    عطا صاحب نے یہ قرار داد پیش کر کے ایک طویل تقریر کی، جس میں بتایا کہ مغربی فیشن کے تمباکو نوش حقہ نوشوں کے حقوق پر کس طرح ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ مثلا یہ کہ ایک حقہ نوش گلی میں بیٹھا حقہ پی رہا ہوتا ہے اور ادھر سے ایک شخص ہاتھ میں سگریٹ لیے آتا ہے۔ اس کے پاس ماچس نہیں ہوتی، اس لیے وہ بغیر اجازت لیے حقے پر جھک کر چلم سے اپنا سگریٹ سلگا لیتا ہے اور اس طرح آگ کی کئی چنگاریاں غصب کر لیتا ہے۔

    تمام حاضرین نے اس قرار داد کی تائید کی۔

    اس کے بعد ملک نور الہی مالک اخبار ’’احسان‘‘ نے ذیل کی قرار داد پیش کی،

    لاہور میونسپلٹی سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ حقہ نوشوں کے بادشاہ حضرت علامہ اقبال مرحوم و مغفور کی یاد گار کے طور پر واٹر ورکس کے پاس ہی ایک ’’دھواں ورکس‘‘ تعمیر کرے۔ یہ ایک اتنے بڑے حقے کی شکل میں ہو جو سارے لاہور کے حقہ نوشوں کے لیے کفایت کرے۔ اس میں سے پانی کے نلوں کی طرح دھویں نکل نکل کر ہر گھر میں پہنچیں تا کہ حقہ نوش اپنے اپنے گھروں یا دفتروں میں بیٹھے نلکے کی ٹوٹی گھما کر حقہ نوشی کا لطف اٹھا سکیں۔

    اس میں پنڈت ہری چند اختر نے یہ ترمیم پیش کی کہ میونسپلٹی دھوئیں کے نلکوں کا جو ٹیکس وصول کرے، وہ نصف پیسہ روزانہ سے زیادہ نہ ہو۔ ترمیم شدہ قرار داد منظور ہو گئی۔

    اس کے بعد لالہ امر ناتھ نے ایک قرار داد اس مضمون کی پیش کی کہ حقہ نوشوں کو بکری ٹیکس سے مستثنی قرار دیا جائے۔ نواب ظفر خاں نے اس کی مخالفت میں تقریر کی اور رائے شماری پر یہ قرار داد منظور نہ ہو سکی۔

    دو تین اور قراردادوں کے بعد جلسہ حقہ پائندہ باد، تمباکو زندہ باد، چلم گرم باد، نیچہ گڑ گڑباد کے نعروں میں ختم ہوا۔ اختتام کے قریب آکر جلسہ گاہ کے ایک کونے میں کچھ گڑ بڑی ہوئی اور چند آدمیوں نے جو سگریٹ نوش تھے، شورش بپا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن حقہ بردار والنٹیروں نے ان پر قابو پا لیا اور انہیں جلسہ گاہ سے باہر نکال دیا۔

    اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے دن لاہور کے بازاروں میں بڑے بڑے پوسٹر چسپاں پائے گئے جن میں لکھا تھا کہ حقہ کانفرنس والے سگریٹ نوشوں کے ہر گز نمائندہ نہیں۔ وہ ہمارے حقوق پر چھا پہ مار نا چاہتے ہیں، اس لیے لاہور کے تمام سگریٹ نوشوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور اپنے بچاؤ کی تدبیر سوچنا چاہے۔ اس غرض کے لیے کل ۱۵ مارچ کو ٹاؤن ہال میں ایک جلسہ عام منعقد ہوگا، جس میں سگار اور پائپ پینے والے حضرات کو بھی شامل ہو کر اور ہمارے ساتھ مل کر متحدہ محاذ بنانا چاہیے۔

    ۱۵مارچ کو وقت مقررہ پر ٹاؤن ہال اہل جلسہ سے کھچا کھچ بھر گیا۔ حاضرین میں تار کے سگریٹ سے لے کر ہوانا کے سگریٹ پینے والے لوگ موجو تھے۔ جلسے کا افتتاح مولانا چراغ حسن حسرت کی تقریر سے ہوا۔ مولانا نے حقے کے نقصانات اور سگریٹ کے فوائد پر بہت کچھ کہا۔ مثلاً یہ کہ حقے کو ہر شخص منہ لگا سکتا ہے اور اس طرح بعض امراض کے جراثیم ایک سے دوسرے کو منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس کے بر عکس سگریٹ جراثیم کش ہے۔

    حسرت صاحب نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا،

    حقہ کانفرنس کے اجلاس میں ایک مقرر نے بڑے فخر کے ساتھ کہا تھا کہ ریل کے سفر میں ایک حقے والے کو فوراً ڈبے کے اندر جگہ مل جاتی ہے، کیوں کہ سواریوں کو حقے کے چند کش لگانے کا لالچ ہوتا ہے اور وہ خود تکلیف اٹھا کر اس کے لیے جگہ بنا دیتے ہیں۔ یہ بالکل درست ہے لیکن کتنی بری بات ہے کہ پڑھے لکھے سفید پوش آدمی میلے کچیلے کپڑوں والے ذلیل دیہاتی کے لیے جگہ بنا دیتے ہیں۔ حالانکہ اس کے کپڑوں سے بو آ رہی ہوتی ہے۔ اگر یہ لوگ سگریٹ کو ہی اپنا پیدائشی حق تصور کریں تو ان سے ایسی ذلیل حرکت ہرگز سر زد نہ ہو۔ بہر حال ہمیں حقہ کانفرنس کے خلاف متحدہ محاذ بنانا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ سگار نوش اور پائپ نوش بھی آج ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمیں عہد کر لینا چاہیئے کہ ہم چلمستان ہر گز نہیں بننے دیں گے۔

    حسرت صاحب کے بعد شیخ فضل الہی سپرنٹنڈنٹ محکمہ دیہات سدھار پائپ منہ میں لیے ا سٹیج پر آئے اور آپ نے یقین دلایا کہ تمام پائپ پینے والے سگریٹ نوشوں کے ساتھ ہیں۔ شیخ صاحب کے بعد خاں بہادر چودھری مشتاق احمد گورمانی نے اپنے سگار کے دو تین کش لگا کر ایک دھواں دھار تقریر کی اور حاضرین سے چلمستان مردہ باد کے نعرے لگوائے۔

    اس کے بعد ایک صاحب نے درخواست کی کہ مجھے بھی چند منٹ بولنے کی اجازت دی جائے۔ اجازت دی گئی۔ ان صاحب کا نام میرزا خاموش تھا۔ آپ نے کہا افسوس ہے کہ تمباکو نوشوں کے ایک بڑے طبقہ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ نہ ان کو پوسٹر میں دعوت دی گئی ہے نہ کسی دوسرے طریقہ سے۔ میں بیڑی نوشوں کا نمائندہ ہوں اور بغیر دعوت کے چلا آیا ہوں۔ آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ بیڑی نوشوں کی تعداد ہندوستان میں کتنی زیادہ ہے۔ میرزا صاحب کی تقریر کے بعد صدر جلسہ جناب حسرت نے اس فرد گزارش پر اظہار تاسف کیا اور ذیل کی قرار داد پیش کی جو با اتفاق آرا منظور ہوئی۔

    ہم ہندوستان کے سگریٹ نوش، پائپ نوش، سگار نوش، بیڑی نوش، سر سٹیفورڈ کرپس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کوئی ایسی تجویز منظور نہ کریں، جس سے ہندوستان کے اندر چلمستان بننے کا امکان پیدا ہو جائے۔

    تین چار روز بعد اخباروں میں خبر شا ئع ہوئی کہ سر سٹیفورڈ کرپس نے مولانا طفر علی خاں، مولانا چراغ حسن حسرت، خاں بہادر چودھری، مشتاق احمد گورمانی اور میرزا خاموش کو تار بھیج کر ملاقات کے لیے بلایا ہے۔

    ملاقات ہوئی، جس میں سر سٹیفورڈ نے سب کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ سب تمباکوی فرقے متحد ہو جائیں۔ نہ کوئی حقہ کانفرنس ہو، نہ سگریٹ کانفرنس، نہ پائپ کانفرنس۔ چلمستان، سگرستان، پائستان وغیرہ بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ سب لوگ تمباکو کانفرنس کے نام متحد ہو جائیں اور میں ولایت جا کر برطانوی پارلیمنٹ کو اس بات پر آمادہ کروں گا کہ تمباکو کانفرنس کو آزاد کر دیا جائے اور ایک نیشنل گورمنٹ قائم کر دی جائے۔ میں جا کر مسٹر ایمر سے پوچھوں گا کہ مردم شماری کی رو سے حقہ نوشوں، سگریٹ نوشوں وغیرہ کی آبادی کیا ہے۔ اس کے لحاظ سے آپ لوگوں کو حقوق نمائندگی دیے جائیں گے۔ سب نے یہ کہا کہ ہم واپس جاکر کانفرنس کریں گے اور آپ کو فیصلے سے آگاہ کریں گے۔ یہ لوگ لاہور آکر کانفرنس ہی کر رہے تھے کہ سر سٹیفورڈ کرپس ولایت تشریف لے گئے۔

    مأخذ:

    آواز لق لق (Pg. 53)

    • مصنف: حاجی لق لق
      • ناشر: کتابستان نئ، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے