Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تعویذ

MORE BYشفیق الرحمان

    چار بجے شیطان چائے پینے آئے۔ جب ہم پی کر باہر نکلے تو دفعتاً انہیں محسوس ہوا کہ چائے ٹھنڈی تھی، چنانچہ ہم ان کے ہوسٹل گئے۔ وہاں کھولتی ہوئی چائے پی گئی، لیکن وہ مطمئن نہ ہوئے۔ منہ بنا کر بولے کہ یہ چائے بھی نامکمل رہی، کیونکہ اس کے ساتھ لوازمات نہیں تھے۔ طے ہوا کہ کسی کیفے میں جاکر باقاعدہ چائے پی جائے۔

    مصیبت یہ ہے کہ شیطان کو ہر وقت چہاس لگی رہتی ہے اور وہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں دن میں دومرتبہ قیامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک تو جب علی الصبح نو دس بجے اٹھتے ہیں تو ان کے سامنے دنیا اندھیر ہوتی ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ,

    منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید۔۔۔

    لیکن چائے کی چند پیالیوں کے بعد انہیں یکایک پتہ چلتا ہے کہ۔۔۔ ع ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔۔۔ یہی تماشا چار بجے چائے کے وقت ہوتا ہے۔ ساڑھے تین بجے زندگی سے بیزار ہوتے ہیں اور ساڑھے چار بجے ان جیسا مسخرہ ملنا محال ہے۔ اگر وہ چائے کی دریافت سے پہلے اس دنیا میں ہوتے تو خدا جانے ان کا کیا حال ہوتا۔

    ہم سائیکلوں پر ٹہلتے ٹہلتے کیفے میں پہنچے جہاں ہمیں اکثر بڈی (BUDDY) ملا کرتا تھا۔ اندر جاکر دیکھا تو سب کچھ سنسان پڑا تھا، فقط ایک کونے میں ایک خفیف و نزار نوجوان بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ ہم اس کے قریب جا بیٹھے۔ ہماری طرف اس کی پشت تھی۔ سسکیوں کی آواز نے ہمیں چونکا دیا، وہ سبڑ سبڑ رو رہا تھا۔ چہرے سے پھیلتے ہوئے آنسو سینڈوچز، کیک کے ٹکڑوں اور چائے کی پیالی میں ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ غور سے دیکھتے ہیں تو یہ امجد تھا۔ امجد ہمارا پرانا دوست تھا جو مدت سے لاپتہ تھا۔ ہم اس کی میز پر جا بیٹھے۔ بسور بسور کر اس نے علیک سلیک کی اور پھر رونے میں مصروف ہوگیا۔ شیطان بولے، مولانا! اگر آپ سینڈوچز یا چائے کے سلسلے میں رو رہے ہیں تو بہتر یہی ہوگا کہ کم از کم یہاں سب کے سامنے نہ روئیں۔ چونکہ جس شخص نے یہ چیزیں تیار کی ہیں وہ سامنے کھڑا دیکھ رہا ہے اور وہ بیحد حساس و جذباتی ہے۔ اسے شدید اذیت پہنچے گی۔ لیکن امجد بدستور مصروف رہا۔

    شیطان نے پوچھا، ’’خان بہادر صاحب کا کیا حال ہے؟‘‘

    ’’کون سے خان بہادر صاحب کا؟‘‘ امجد نے برا منہ بنایا۔

    ’’کوئی سے خان بہادر صاحب کا۔‘‘

    ’’اوہ!‘‘

    ہم نے بہتیری کوشش کی کہ اس نالائق سے باتیں کریں، لیکن کچھ نہ بنا۔ اتنے میں بڈی آگیا۔ ہم نے لگاتار روتے ہوئے امجد کا تعارف لگاتار ہنستے ہوئے بڈی سے کرایا۔ اب بڑی سنجیدگی سے وجہ پوچھی گئی اور امجد نے بتایا کہ اس کی صحت روزبروز گرتی جا رہی ہے، بلکہ بالکل ہی گر گئی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے کبھی تارے ناچتے ہیں اور کبھی اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ وہ اپنے آخری امتحان میں مدت سے فیل ہو رہا ہے۔ لگاتار فیل ہو رہا ہے۔ اگر محنت کرے اور پرچے اچھے ہوجائیں تب بھی فیل ہو جاتا ہے اور اگر پرچے خراب ہو جائیں تب بھی۔ اس کی قسمت ہمیشہ اسے دھوکہ دیتی ہے۔ وہ کسی پر عاشق بھی ہے۔ محبوب نے پہلے تو سب کچھ کہہ سن لیا اور بعد میں بڑے مزے سے اسے ڈبل کراس کر دیا۔

    آج کل محبوب بالکل خاموش ہے۔ اس کے ہاں آنا جانا بھی مدت سے بند ہے۔ کیونکہ ان کے ہاں ایک بے حد بھاری بھرکم اور خونخوار کتا کہیں سے منگایا گیا ہے جو امجد کو بالکل پسند نہیں کرتا، بلکہ اس سے خفا رہتا ہے۔ محبوب کے ہاں ایک اور صاحب کی آمد و رفت بھی شروع ہوگئی ہے جو شاید رقیب رو سیاہ بننے والے ہیں۔ محبوب کے ابا امجد کو یونہی سا بیکار لڑکا سمجھتے ہیں اور انہوں نے شادی سے انکار کر دیا ہے، کیونکہ امجد کچھ نہیں کماتا۔۔۔ شیطان اور مقصود گھوڑے کی طرح شہزادہ ہے۔ لیکن سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس کا کسی چیز کو دل ہی نہیں کرتا۔ بالکل جی نہیں چاہتا۔ یہاں تک کہ چائے سامنے رکھی ہے اور پینے کو جی نہیں چاہتا۔

    گفتگو کے موضوع بدلتے رہے اور ہم نے امجد سے لے کر امجد تک گفتگو کی۔ شیطان بولے، ’’بھئی تمہاری مصیبتیں تو اتنی ہیں کہ ایک GUARDIAN ANGEL تمہارا کام نہیں کر سکتا۔ تمہارے لیے تو فرشتوں کا سینڈیکیٹ بیٹھے گا۔‘‘ بڈی نے کہا، ’’تم آج سے ورزش شروع کر دو۔ ہلکی پھلکی اور مقوی غذا کھاؤ۔ علی الصبح اٹھ کر لمبے لمبے سانس لیا کرو۔ قوتِ ارادی پیدا کرو، خوب محنت کرکے امتحان پاس کر لو، ملازمت ضرور مل جائے گی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ادھر امجد نے اور زیادہ رونا شروع کر دیا۔ اب تو وہ باقاعدہ بھوں بھوں رو رہا تھا۔ آخر طے ہوا کہ امجد کی سچ مچ مدد کی جائے اور کل پھر یہیں ملاقات ہو۔ اگلے روز ہم سب وہیں ملے۔ اتفاق سے کالج کی چند لڑکیاں بھی وہاں بیٹھی تھیں۔ ایسے موقعوں پر میں ہمیشہ یوں ظاہر کیا کرتا ہوں جیسے میں شیطان کے ساتھ نہیں ہوں، کیونکہ ہمارے کالج کی لڑکیاں شیطان کو پسند نہیں کرتیں۔ جتنی دیر وہ ہماری طرف دیکھتی رہیں میں کسی اور طرف دیکھتا رہا۔ ان کے جانے پر گفتگو شروع ہوئی۔

    ’’امجد! تم موسیقی پر فدا ہو جاؤ۔‘‘ شیطان بولے، ’’یہ پیازی ساری والی لڑکی بڑا اچھا ستار بجاتی ہے۔ تمہیں کوئی ساز بجانا آتا ہے۔‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’کون سا؟‘‘

    ’’گراموفون۔‘‘

    ’’تب تم موسیقی کو پسند نہیں کروگے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ جب تم آخری مرتبہ اس لڑکی سے ملے تو کیا باتیں ہوئیں تھیں؟‘‘

    ’’میں نے اسے شادی کے لیے کہا تھا۔۔۔ اور یہ کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ نہ کچھ کما سکتا ہوں۔ نہ کسی قابل ہوں۔ نہ کچھ کر سکتا ہوں اور نہ کچھ کرسکوں گا۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’پھر اس نے کچھ بھی نہیں کہا اور آج تک خاموش ہے۔‘‘

    ’’تمہارے ہونے والے خسر اچھے خاصے قبر رسیدہ بزرگ ہیں۔ میں انہیں بالکل پسند نہیں کرتا۔ لیکن لڑکی بہت اچھی ہے۔ جتنے تم شکل و صورت میں بخشے ہوئے ہو اتنی ہی وہ حسین ہے۔ تمہیں احساس کمتری ہوجائے گا۔ بھلا کبھی تمہاری خط و کتابت بھی ہوئی تھی؟‘‘

    ’’ہوئی تھی!‘‘ کہہ کر امجد نے خطوط کا پلندہ میز پر رکھ دیا۔ شیطان نے جلدی سے خطوط کو سونگھا اور بولے، ’’جلدی ہے اس لیے ساری باتیں تو کبھی فرصت میں پڑھیں گے، البتہ میں خطوط کو ترتیب وار رکھ کر صرف القاب پڑھ کر سناتا ہوں۔‘‘ ترتیب وار القاب یہ تھے، ’’ جناب امجد صاحب۔۔۔ امجد صاحب۔۔۔ امجد۔۔۔ پیارے امجد۔۔۔ میرے امجد۔۔۔ امجد ڈارلنگ۔۔۔ امجد ڈارلنگ۔۔۔۔ میرے امجد۔۔۔ پیارے امجد۔۔۔ امجد۔۔۔ امجد صاحب۔۔۔ جناب امجد صاحب۔‘‘

    ادھر امجد نے پھر رونا شروع کر دیا۔ شیطان بولے، ’’میں رات بھر سوچتا رہا ہوں کہ تمہارے لیے کیا کیا جائے۔ یہاں سے بہت دور جنگلوں میں ایک پہنچے ہوئے بزرگ رہتے ہیں۔ ان تک میری رسائی ہو سکتی ہے۔ اچھا تعویذ گنڈوں پر کس کس کا اعتقاد ہے؟‘‘ سوائے بڈی کے ہم سب معتقد تھے۔ بڈی نے پوچھا، ’’تعویذ گنڈے کیا ہوتے ہیں؟‘‘

    ’’کیا امریکہ میں تعویز وغیرہ نہیں ہوتے؟‘‘

    ’’نہیں تو۔‘‘

    جب بڈی کو سب کچھ بتایا گیا تو وہ بولا، ’’ہمارے ہاں GOOD LUCK کے لیے شگون ہوتے ہیں۔ مثلاً سیاہ بلی کا دیکھنا یا سڑک پر گھوڑے کی نعل مل جانا۔۔۔ یہ تعویذ وغیرہ نہیں ہوتے۔۔۔ لیکن مجھے شگونوں پر اعتقاد نہیں۔ کیونکہ ایک مرتبہ میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ نجومی نے مجھے بتایا کہ اگر مجھے اگلے اتوار کو غروب آفتاب سے پہلے سڑک پر گھوڑے کی نعل مل گئی تو بہت اچھا شگون ہوگا اور غالباً اس لڑکی سے میری شادی ہو جائے گی۔ اگلے اتوار کو میں نے منہ اندھیرے اٹھ کر سڑکیں ناپنا شروع کردیں۔ دوپہر ہوئی۔ سہ پہر آیا۔ گھوڑے کی نعل تو کیا کسی گدھے کی نعل بھی نہ ملی۔ آخر میں نے اصطبلوں کا رخ کیا۔ وہاں بھی ناکامی ہوئی۔

    شام ہونے پر میں بہت گھبرایا۔ ہمارے پڑوس میں ایک گھوڑا رہتا تھا۔ میں نے چند اوزار اٹھائے، اپنے بھائی کو ساتھ لیا۔ اور چپکے سے اس گھوڑے کو باندھ بوندھ کر رکھ دیا۔ گھوڑا ہرگز رضامند نہیں تھا، لیکن ہم نے زبردستی اس کی نعل اتار لی۔ باہر نکل کر جو دیکھا تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ اگلے روز میں نے اس لڑکی سے شادی کے لیے کہہ دیا اور اس نے کسی اور سے شادی کرلی۔ تب سے گھوڑے کی نعل سے میرا اعتقاد اٹھ گیا۔ کیا لغویت ہے۔ اگر گھوڑے کی نعل اتنی ہی مبارک چیز ہے تو گھوڑوں کو بیحد خوش نصیب ہونا چاہیے۔‘‘

    ’’لیکن تمہارا واسطہ مشرق کے عاملوں سے نہیں پڑا۔ یہاں تو ایسے ایسے عمل کیے جاتے ہیں کہ سن کر یقین نہیں آتا۔ شکلیں بدل جاتی ہیں۔ تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا بدل جاتی ہے۔‘‘

    ’’اچھا؟‘‘

    ’’ہاں، تم نے پیروں، فقیروں اور سنیاسیوں کے متعلق نہیں پڑھا؟‘‘

    ’’میں نے فلموں میں دیکھا ہے کہ ہندوستان میں بڑی بڑی پراسرار باتیں ہوتی ہیں۔ یہاں کے فقیر کچھ پڑھ کر ایک رسے پر پھونک دیتے ہیں۔ رسہ سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ رسے پر چڑھ جاتے ہیں۔ رات کو وہ میخوں کے بستر پر سوتے ہیں!‘‘

    ’’یقیناً! تم خود دیکھ لوگے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ امجد کے لیے ان بزرگ سے تعویذ حاصل کروں۔ اگرچہ یہ بہت مشکل کام ہے۔ اول تو وہ بزرگ کسی کو تعویذ دیتے ہی نہیں۔ اگر کبھی خوش ہوکر دیتے ہیں تو صرف سال میں ایک آدھ مرتبہ۔ لیکن میں اپنی ساری کوششیں صرف کر دوں گا۔ ان کا تعویذ جادو سے کم اثر نہیں رکھتا۔ ناممکن سے ناممکن باتیں ممکن ہو جاتی ہیں۔ اگر مل گیا تو امجد کی تقدیر بدل جائے گی۔ اور امجد! تمہیں میری ہدایات پر عمل کرنا ہوگا۔ اب تمہارے لیے صرف دو باتیں رہ گئی ہیں۔ یا تو میری ہدایات پر عمل کرو اور یا۔۔۔ پھر ان پر عمل کرو۔‘‘

    شیطان نے ایک لمبی چوڑی فہرست بنائی۔۔۔ امجد دودن بھوکا رہے گا، صرف اسے بکری کا دودھ اور چھوہارے ملیں گے۔ وہ کسی سے بات نہیں کرے گا۔ دوسرے روز شام کو حجامت کرائے گا، پھر سفید لباس پہن کر عطر لگا کر رات بھر ایک وظیفہ پڑھے گا۔ اگلے روز تالاب میں کھڑا ہوکر دعا مانگے گا اور سورج کی پہلی شعاع کے ساتھ اس کے بازو پر تعویذ باندھ دیا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ امجد نے فقط ایک اعتراض کیا۔ وہ یہ کہ وہ سرپر استرا ہرگز نہیں پھروائے گا، البتہ قینچی سے حجامت کرا لے گا۔

    شیطان ایک ہفتے تک غائب رہے۔ پھر یکایک تعویذ لے کر نازل ہوئے۔ پہلے تو ان بزرگ کے متعلق سنائیں کہ انہوں نے اپنی ساری عمر جنگلوں میں گزاری ہے۔ بہت کم کھاتے ہیں۔ بولتے تو بالکل نہیں۔ کوئی شخص ان کے پاس تک نہیں پھٹک سکتا۔ ان کے کمالات معجزوں سے کم نہیں۔ ان سے تعویذ حاصل کرنا بالکل ناممکن ہے، لیکن شیطان اپنی خوش قسمتی اور محض اتفاق سے کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم ان کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے۔ شیطان نے رومال کھول کر ہمیں تعویذ کی زیارت کرائی۔ تعویذ موم جامے میں لپٹا ہوا تھا اور اس سے عنبر کی ہلکی ہلکی مہک آرہی تھی۔ میں نے اور امجد نے اسے بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا۔ بڈی نے بھی ہماری تقلید کی۔ امجد دوروز شیطان کے ساتھ رہا۔ تیسرے روز اس کے داہنے بازو پر تعویذ باندھا گیا۔ شیطان ایک فاتحانہ انداز میں بولے، ’’لو بھیا امجد! سمجھ لو کہ آج تمہاری قسمت جاگ اٹھی۔ اب اس مقدس طاقت کے کرشمے دیکھو۔‘‘

    ہم نے چند روز بعد امجد کو دیکھا۔ بسورتے ہوئے چہرے پر اب مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ لباس بھی پہلے سے بہتر تھا۔ آہستہ آہستہ تعویذ کی برکت سے تبدیلیاں آنی شروع ہوگئیں۔ اب ہر کام کے لیے امجد کا جی کرنے لگا۔ وہ چست ہوگیا تھا۔ اب یا تو وہ نہایت شوخ ٹائی لگاتا اور یا رنگین سکارف پہنتا۔ ہمیشہ اس کے کوٹ کے کاج میں ایک مسکراتا ہوا پھول اٹکا ہوتا۔ امجد کے امتحان میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔ میں اور شیطان اس کے ہاں گئے۔ اس کی دو تین من پختہ کتابوں کو دیکھا۔ شیطان کہنے لگے کہ کتابیں بہت زیادہ ہیں اور وقت بہت تھوڑا ہے۔ میرے خیال میں کچھ ہم پڑھتے ہیں، کچھ تم پڑھو۔ باقی کتابیں بڈی پڑھے گا۔ امجد نے کہا۔ مذاق مت کرو، کوئی اور تدبیر بتاؤ۔

    شیطان نے مشورہ دیا کہ کتابوں کے خلاصے، نوٹ اور ایسی ویسی چیزیں امتحان میں ساتھ لے جاؤ اور خوب دل کھول کر نقل کرو۔ امجد نہ مانا۔ شیطان بولے، ارے میاں! ایسا تعویذ بازو پر باندھا ہے کہ نقل تو نقل اگر کوئی سنگین ترین جرم کر آؤ تب بھی پتہ نہ چلے۔ اس کا سایہ ہمیشہ تمہارے سر پر رہے گا۔ غرضیکہ امجد کی خوب ہمت بندھائی گئی اور اس نے امتحان میں خوب نقل کی۔ لہٰذا پرچے نہایت اچھے ہوئے۔ نتیجہ نکلا تو امجد اول آیا۔ اب تعویذ پر ریشمی غلاف چڑھایا گیا۔ بڈی نے تعویذ کو کئی مرتبہ چوما۔ میرا جی بری طرح چاہ رہا تھا کہ ایک ایسا ہی تعویذ مجھے بھی مل جائے۔

    اب سوال ملازمت کا تھا۔ ایک جگہ درخواست تو دے دی گئی، لیکن امید کسی کو بھی نہ تھی۔ کچھ دنوں بعد بورڈ کے سامنے انٹرویو تھا۔ بورڈ کے صدر نزدیک ہی رہتے تھے۔ شیطان نے امجد کو مشورہ دیا کہ اگر تم صدر صاحب کے سامنے کئی مرتبہ جاؤ تو تعویذ کی برکت سے وہ اس قدر متاثر ہوں گے کہ فوراً منتخب کرلیں گے۔ امجد نے اگلے روز سے ان کا تعاقب شروع کر دیا۔ ان کے گھر گیا۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ ملازمت کے سلسلے میں کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ جو کچھ ہوگا انٹرویو کے وقت سنا دیا جائے گا۔ امجد منہ لٹکائے واپس آیا۔ شیطان نے ڈانٹا کہ پھر یہ تعویذ کس واسطے باندھے پھر رہے ہو۔ پیچھا مت چھوڑو ان کا۔ اگلے روز امجد پھر ان کی کوٹھی پر جا کھڑا ہوا۔ دس بجے وہ دفتر گئے یہ ساتھ ساتھ گیا۔ چار بجے واپس آئے، یہ ساتھ واپس آیا۔ کلب گئے، رات کو پکچر گئے۔ امجد سائے کی طرح ساتھ رہا۔ اگلے روز وہ شاپنگ کے لیے گئے۔ امجد بھی شاپنگ کے لیے گیا۔ وہ سٹیشن پر کسی سے ملنے گئے، امجد بھی گیا۔

    غرضیکہ بازار، ڈاک خانہ، کیفے، سینما، باغ، جہاں بھی وہ جاتے یہ ساتھ رہتا۔ یہاں تکہ کہ وہ پچاس ساٹھ میل دور ایک جگہ گئے۔ امجد بھی پچاس ساٹھ میل دور اسی جگہ گیا۔ انہوں نے بہتیرا کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ انٹرویو میں تمہارا ضرور خیال رکھوں گا۔ لیکن شیطان کی ہدایت کے مطابق امجد بولا کہ وعدہ نہیں ابھی لے لیجیے۔ انہوں نے اسے دھمکایا چمکایا بھی، لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ کہنے لگا کہ میں ساری عمر اسی طرح آپ کے ساتھ ساتھ رہوں گا۔ آخر وہ اس قدر تنگ آئے کہ انہوں نے امجد کو منتخب کرلیا۔ اس کامیابی پر ایک زبردست دعوت ہوئی۔ تعویذ پر اب پیتل کا خول چڑھایا گیا اور ہر وقت اسے معطر رکھا جاتا تھا۔ شیطان کی معرفت ان بزرگ کے لیے کچھ نذرانہ بھی بھیجا گیا جسے انہوں نے بمشکل قبول کیا۔ میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ میں بھی ایک تعویذ اپنے لیے بنواؤں گا۔ بڈی نے بھی شیطان سے یہی خواہش ظاہر کی۔

    اب اس لڑکی کی باری آئی۔ سب سے پہلے تو وہاں رسائی کا سوال تھا۔ ان کا نیا کتا نہایت ہی ہیبت ناک اور آدم خور قسم کا تھا۔ اسے دیکھ کر ہی امجد کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی تھی۔ بڈی نے مشورہ دیا کہ کچھ کھلاپلا دیا جائے جس سے وہ انا للہ ہو جائے۔ لیکن وہ کتا کچھ ایسا بورژواذہنیت کا واقع ہوا تھا کہ ایسی ویسی چیزوں کو سونگھتا تک نہیں تھا۔ شیطان نے ایک موٹاسا ڈنڈا امجد کو دیا اور کہا کہ اسے ہاتھ میں لے کرجاؤ اور مار مار کر کتے کا بھرتہ بنادو۔ امجد کانپ اٹھا۔ گڑگڑاکر بولا۔ خدا کا واسطہ، میں یہ ہرگز نہیں کرسکتا۔ شیطان نے تعویذ چھو کر کہا، جانتے بھی ہو یہ کیا چیز ہے تمہارے بازو پر؟ یہ تعویذ ہمیشہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ خواہ تم شیروں سے دل لگی کرتے پھرو، بال تک بیکا نہ ہوگا۔ کافی لمبی بحث کے بعد امجد مانا۔ اگلے روز علی الصبح امجد ہاتھ میں ڈنڈا لے کر ان کے ہاں گیا۔ کتا باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا۔ امجد نے کتے کی ایسی مرمت کی کہ طبیعت صاف کردی۔ اسی دن سے امجد اور کتا بڑے گہرے دوست بن گئے۔ امجد کو دیکھ کر وہ نہ صرف دم ہلاتا بلکہ باقاعدہ مزاج پرسی کرکے ساتھ ساتھ چلتا۔

    وہ صاحب جو گھر آیا کرتے تھے ان کے لے بھی یہی نسخہ پیش کیا گیا۔ لیکن بڈی نہ مانا، بولا کہ کتے اور انسان میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ پہلے انہیں دھمکایا چمکایا جائے۔ وہ صاحب قد میں امجد سے دگنے تھے۔ امجد پہلے تو بہت ڈرا۔ لیکن جب شیطان نے ڈانٹ کر کہا کہ اس طرح وہ اپنی نہیں بلکہ تعویذ کی توہین کر رہا ہے، اور اسے کوئی چھو تک نہیں سکتا، تو امجد ان صاحب سے ملا اور انہیں صاف صاف بتا دیا کہ خبردار جو آئندہ اس گھر میں قدم رکھا۔ انہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ میاں تم ہو کون؟ یہ بولا کہ میں کوئی بھی ہوں، لیکن یہ واضح رہے کہ میں نے آپ جیسے بہت سوں کو سیدھا کیا ہے۔ بس خیریت اسی میں ہے کہ آئندہ آپ اس گھر کا رخ نہ کریں۔ امجد نے کچھ اس طرح گفتگو کی کہ وہ صاحب واقعی سہم گئے۔ امجد نے چلتے وقت کہا کہ میرا ارادہ تو کچھ اور تھا، لیکن فی الحال صرف انتباہ کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ آپ سمجھ دار ہیں تو سمجھ جائیں گے۔ اس دن کے بعد وہ صاحب ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

    امجد لڑکی سے ملا۔ خدا جانے کیا باتیں ہوئیں، لیکن سنیچر کو ان دونوں کو میٹنی پر دیکھا گیا۔ لڑکی واقعی نہایت پیاری تھی۔ امجد اس کے سامنے بالکل حکم کا غلام معلوم ہو رہا تھا۔ لیکن خوب اکڑ اکڑ کر چل رہا تھا۔ بڈی تو اب تعویذ پر باقاعدہ ایمان لے آیا تھا۔ بولا کہ میں یہ سب کچھ لکھ کر امریکہ کے سب سے مشہور سائنس کے رسالے میں بھیجوں گا۔ میں نے اس قدر زود اثر اور کارآمد عمل آج تک نہیں دیکھا۔ یہ کسی جادو سے کم نہیں۔ معجزے ابھی ختم نہیں ہوئے۔ مشرق واقعی نہایت پراسرار جگہ ہے۔ تعویذ پر چاندی کا خول چڑھایا گیا۔ ہردوسرے تیسرے ہم سب اسے چومتے اور آنکھوں سے لگاتے۔ اب امجد کی تمام مشکلیں حل ہوچکی تھیں، صرف اس کی شادی باقی تھی۔ لیکن یہ مشکل سب سے کڑی تھی، کیونکہ اس کے ہونے والے خسر واقعی نہایت گرم خشک انسان تھے۔ امجد نے کئی مرتبہ پیغام بھجوایا، لیکن ہرمرتبہ پیغام واپس لوٹا دیا گیا۔

    شیطان نے امجد کو یقین دلایا کہ اس تعویذ کے سامنے وہ بزرگ تو کیا ان کے فرشتے بھی سرجھکائیں گے۔ تم آج ہی ان سے ملو اور بغیر کسی تمہید کے ان سے سب کچھ کہہ ڈالو۔ امجد نے یہی کیا۔ بزرگ نے ملاقات کی وجہ پوچھی۔ امجد نے صاف صاف کہہ دیا کہ قبلہ میں آپ کا آنریری فرزند بننا چاہتا ہوں اور آپ کی دختر نیک اختر سے عقد کا خواہش مند ہوں۔ اس مرتبہ آپ ہرگز انکار نہیں کر سکتے۔ اگر آپ بحث کرنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ۔ پہلے آپ کو میرے شہزادے پن پر اعتراض تھا، سو اب یہ خاکسار باقاعدہ ملازم ہے۔ اگرچہ تنخواہ صرف ڈھائی سو روپے ماہوار ہے، لیکن اوپر کی آمدنی کافی ہے۔

    مانا کہ یہ بہت زیادہ نہیں، لیکن گستاخی معاف جب آپ کی شادی ہوئی تھی تب آپ کیا کماتے تھے اور تب آپ کے خیالات کیا تھے؟ خصوصاً اپنے خسر صاحب کے متعلق۔ یقیناً آپ بالکل میری طرح ہوں گے، اور پھر شروع شروع میں ڈھائی سو روپے اتنی بری تنخواہ نہیں جب کہ اوپر کی آمدنی بھی شامل ہو۔ شاید آپ یہ فرمائیں گے کہ آپ اپنے رشتہ داروں سے اس سلسلے میں دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ سو یہ بالکل غلط ہے۔ میں نے اپنے کسی رشتہ دار سے نہیں پوچھا اور پھر رشتہ دار بالکل الٹے سیدھے مشورے دیں گے۔ یہ ایک ذاتی معاملہ ہے۔ اس میں کسی اور کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔ آج آپ کو ہاں کرنی ہوگی۔ اسی طرح امجد نے وہ داہنے اور بائیں ہاتھ دیے کہ ان بزرگ کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور ہاں کرنی ہی پڑی۔

    اسی شام کو ایک بھاری جشن منعقد ہوا۔ تعویذ پر سونے کا خول چڑھایا گیا۔ شیطان کی معرفت ان پہنچے ہوئے بزرگ کو نذرانہ بھیجا گیا۔ میں نے اور بڈی نے شیطان کی بڑی منتیں کیں کہ کسی طرح ایک ایک تعویذ ہمارے لیے بھی لا دو، تاکہ ہمارے بھی دن پھر جائیں۔ شیطان نے وعدہ کیا کہ وہ کوشش کریں گے۔ ہم تقریباً ہر روز تعویذ کو آنکھوں سے اور دل سے لگاتے۔

    میں اور بڈی کیفے میں بیٹھے امجد اور مسز امجد کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم بڑے مسرور تھے کیونکہ شام کو شیطان نے تعویذ لانے کا وعدہ کیا تھا۔ ہم دونوں دل ہی دل میں اپنے مستقبل کے متعلق پروگرام بنا رہے تھے کہ امجد اور مسز امجد پہنچے۔ آج امجد ایک ایسا دلیر، نڈر اور بے پرواہ نوجوان نظر آرہا تھا جس کی آنکھوں میں چمک تھی، جس کے دل میں امنگیں تھیں اور جس نے ایک بہت اچھا سوٹ پہن رکھا تھا۔ باتوں باتوں میں اس شام کا بھی ذکر ہوا جب امجد کو ہم نے اسی جگہ روتے پیٹتے دیکھا تھا، مسز امجد کے فراق میں۔ صرف چند مہینوں میں کیا سے کیا ہو گیا۔ صرف ایک مقدس عمل کی بدولت۔ اس تعویذ کی برکت سے جو امجد کے بازو پر بندھا ہوا تھا۔ شیطان نے بھی دوستی کا حق ادا کر دیا تھا۔ نہ جانے کن کن مصیبتوں کے بعد یہ تعویذ دستیاب ہوا ہوگا۔ اگر آج امجد کے پاس یہ تعویذ نہ ہوتا تو غالباً وہ پھر یہیں بیٹھا سینڈوچز اور کیک کے ٹکڑوں پر آنسو بکھیر رہا ہوتا۔ اور اب ہمیں بھی ایسے تعویذ ملیں گے، ہمیں اپنے اوپر رشک آنے لگا۔ باربار ہم دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے، شیطان کے انتظار میں۔

    بڈی نے تعویذ کی زیارت کرنی چاہی۔ امجد نے نہایت حفاظت سے تعویذ اتارا اور بڈی کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ بڈی نے اسے چوما، آنکھوں سے لگایا اور پوچھا، ’’بھلا تعویذوں میں کیا لکھا ہوتا ہے؟‘‘ ہم نے کہا کہ عبارت ہوتی ہے۔ بڈی سمجھ نہ سکا۔ اسے بتایا گیا کہ مقدس الفاظ ہوتے ہیں اور ایک خاص ترتیب سے لکھے جاتے ہیں۔ اس نے پوچھاکہ بھلا اس تعویذ میں کون سے الفاظ ہیں؟ ہم نے لاعلمی ظاہر کی۔ بڈی کہنے لگا کیوں نہ اسے کھول کر دیکھیں۔ امجد بولا، ہرگز نہیں، اس طرح بے ادبی ہوتی ہے۔ میں نے بھی کہا کہ گناہ ہوگا۔ لیکن بڈی نہ مانا۔ بولا، مجھے بڑا اشتیاق ہے۔ سارا گناہ میرے ذمے رہا۔ میں نہایت ادب سے اسے کھولوں گا اور الفاظ دیکھ کر بالکل اسی طرح بند کردوں گا، پھر تم اسے بازو پر باندھ لینا۔

    میں بھی سوچنے لگا کہ بھلا دیکھیں تو سہی وہ کون سے الفاظ ہیں جنہوں نے جادو کی طرح اثر دکھایا۔ میں نے بھی بڈی کا ساتھ دیا۔ امجد کہنے لگا کہ کھولنے سے تعویذ کی تاثیر جاتی رہے گی۔ بڈی بولا۔ بھئی سچ پوچھو تو اب اس تعویذ نے اپنا کام کر دیا ہے، اب تمہیں کسی مزید تاثیر کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے مسز امجد سے پوچھا۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ آخر امجد بھی مان گیا۔ اس شرط پر کہ اگر کوئی گناہ ہوا تو بڈی کے سر پر ہوگا۔

    بڈی نے بڑی حفاظت سے خول کھولا اور تعویذ نکالا۔ پھر آہستہ آہستہ موم جامہ کھولنے لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے پہنچے ہوئے بزرگوں کے نورانی چہرے، فقیروں کے مزار، سبز غلاف، پھولوں کے ہار، جلتے ہوئے چراغ، مزاروں کے گنبد اور خانقاہیں پھرنے لگیں۔ جیسے عنبر اور لوبان کی خوشبو سے سب کچھ مہک اٹھا اور پاکیزہ روحیں ہمارے گرد منڈلانے لگیں۔ فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دینے لگی۔ ماحول کچھ ایسا مقدس سا ہوگیا تھا کہ میرا دل دھڑکنے لگا۔ ہونٹ خشک ہوگئے۔ بڈی نے تعویذ کا کاغذ کھولا اور پڑھنے لگا۔ میں رہ نہ سکا۔ بڑی بے صبری سے کاغد چھین لیا۔ کاغذ پر شیطان کی مخصوص طرز تحریر میں یہ مصرعہ لکھا تھا۔۔۔

    ’’آیا کرو اِدھر بھی مری جاں کبھی کبھی۔‘‘

    مأخذ:

    (Pg. 97)

    • مصنف: شفیق الرحمان
      • ناشر: اسد اللہ غالب

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے