Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یارم یتیم

فاطمہ عمران

یارم یتیم

فاطمہ عمران

MORE BYفاطمہ عمران

    اب کی بار جو یارم سے ملاقات ہوئی تو حسب معمول انکی صورت دیکھ کر ہمیں ہول اٹھنے لگا۔ایک تو خدا کی دین ایسی منحوس صورت اور اس پر یارم کا کیفیتِ غم کا خول چڑھانے کی اپنی سی ناکام کوشش۔ بہرحال تعلقِ دوستی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان سے چار و ناچار پوچھنا ہی پڑا خیریت تو ہے نا ؟

    یارم بھی آواز میں درد بھر کر بولے بس یار تیرا دوست یتیم ہو گیا ہے

    کیا؟ ؟؟ خالو جان گزر گئے؟ مگر کب؟ اتنی جلدی؟

    ابھی پرسوں ہی تو پرچون والے کو گالیاں دے ریے تھے۔ اور اس سے تھوڑا پہلے ہی درزی کی دکان پر آئی اس عورت سے فری ہونے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ ارے ابھی تو کتنے ادھار باقی تھے خالو جان کے سر۔ ؟ باقاعدہ 'بین نما' کرتے ہوئے ہم نے کہا تو یارم ذرا چڑ کر بولے افوہ! ابا کو کیا ہونا ۔ تم فکر مت کرو۔ بقول اماں ۔۔ابا انکی جان لیے بغیر نہیں ٹلیں گے ۔اور اماں کا خود ابا سے پہلے گزرنے کا کوئی ارادہ نہیں کہ مبادا انکے آنکھیں موندتے ہی میت پر سوت لا کر بٹھا دیں

    (ویسے بڑوں سے تو سننے میں آیا تھا کہ یارم کے ابا کو بھری جوانی میں بھی بمشکل ہی خالہ کا ہاتھ نصیب ہوا تھا۔۔ وہ بھی گالوں پر۔ ۔ اسکے بعد یارم کے نانا مرحوم نے یہ سوچ کرانکی اماں کا بیاہ ابا سے کر دیا کہ بیٹی کا ہاتھ کسی غیر محرم کو نہ چھوئے لہذا نکاح پڑھوانے کے بعد فعل جائز قرار دلوا کر ہی دم دیا انہوں نے)

    خیر سب باتیں ایک طرف رکھ کر یارم سے پھر پوچھا

    جب خالو جان حیات ہیں تو پھر آپ کاہے کے یتیم؟

    تبھی انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنا تخلص یتیم چنا ہے۔ لہذا اب وہ یارم یتیم ہو گئے ہیں۔ اور انہیں اسی نام سے لکھا اور بلایا جائے۔

    یارم پر دل ہی دل میں لعنت بھیجتے ہوئے ہم نے عرض کیا مگر کتنا عجیب لگے گا نا !

    اول تو تخلص جیسی دم ادباء و شعرا نامی بندروں کو لگی ہوتی ہے۔ اور آپ کا ادب سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں اور دوئم آپ کو تو اردو کے حروف تہجی بھی صحیح سے نہیں آتے۔مطلب کوئی واسطہ ہو بھی نہیں سکتا ۔

    مگر انہوں نے گویا بم پھوڑا ارے جانے دیجیے۔ آپ کیا جانیں کہ کتنا بڑا شاعر آپ کو شرف ملاقات بخش رہا ہے.شکر منائیے کہ ابھی تک آپ ہمارے دوست ہوتے ہیں۔ ورنہ بڑے لوگ کہاں آپ جیسے ایرے غیروں کو منہ لگاتے ؟

    شاعر صاحب آپ خود ہی سوچیے نا! یہ تخلص لگا کر تو آپ کے بےیارومددگار شعر مزید یتیم ہو جائیں گے۔۔ ہم نے انہیں روکنے کی اپنی سی کوشش کرنا چاہی مگر وہ تھے کہ ابرو اٹھا کر شان بے نیازی سے بولے۔۔عرض ہے!!!

    حسینہ مت گِر غیروں کی بانہوں میں

    پگلی آ جا اس یتیم کی پناہوں میں

    اور اس شعر کے بعد یارم نے چہرے پر سستی فلموں والے جذبات ابھارے تو بے اختیار ہم کہہ اٹھے

    لاحول واللہ یارم اتنا واہیات شعر آپ ہی کہہ سکتے ہیں۔کچھ اردو پر رحم کیجیے۔مگر انہوں نے یکسر نظر انداز کرتے ہوئے فورا سے بیشتر دوسرا شعر عرض کیا

    ان دشمنوں کو سڑنے دو۔۔

    مجھ چکور کو چاہیے چاند

    ہیں ؟ یہ کیسا شعر ہے؟ نہ نغمگی، نہ تال میل نہ وزن؟

    ہم ممناتے ہی رہ گئے اور وہ مزید شانِ بےنیازی سے گویا ہوئے نغمگی اور تال میل ویسے بھی میراثیوں کا کام ہے اور تم جیسے جاہل کو کیا معلوم نہیں کہ شعر میں چاند ڈالا ہے اور چاند پر کشش ثقل کم ہونے کیوجہ سے زیادہ وزن نہیں ہوتا۔

    اب ہم بھلا مزید کیا کہتے ؟ لہذا بس یہی پوچھ لیا کہ یہ ڈھونگ کس لیے؟ تبھی پتہ چلا کہ یارم نے یہ سارا کھیل حسینہ کیلیے رچایا تھا جسے یارم نے اردو پڑھانے کے لیے نجانے کیسے رجھا، پھنسا اور منا لیا تھا۔

    اب ہم تو دل ہی دل میں دعا کر رہے تھے کہ خدا ہی حسینہ اور اردو پر رحم فرمائے۔ یارم کو بھی پندونصائح کے ڈھیر تلے دبا کر الوداع کیا کہ حسینہ سے کیسے پیش ْآنا ہے۔ اور کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کرنی۔مزید برآں انکے دماغ میں اچھی طرح یہ بات ڈال دی کہ باعزت معاشرے کے بے عزت شہری کو پتہ ہونا چاہیے کہ آداب معاشرت بھی کوئی چیز ہے۔ لہذا محتاط رہیں۔ وہ بھی الوداع ہونے تک بُز اخفش کیطرح سر ہلاتے رہے۔

    ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

    چار دن بعد یارم سے ملاقات ہوئی تو انکا منہ اترا سا لگا۔ ہم نے استفسار کیا اور سنائیے یارم؟ علم کی روشنی سے حسینہ کو کتنا مستفید کر چکے آپ ؟

    جل بھن کر گویا ہوئے خدا نے ان حسینوں کو بھی عجیب ہی دماغ دیا یے۔ خواہ مخواہ ہی ناراض ہو گئیں

    ہیں؟ وہ کیوں؟ حیرت سے ہم نے پوچھا تو بولے

    دور دور ہو کر بیٹھ رہی تھیں تو میں نے ان سے کہا کہ بے فکر رہیں اور تسلی سے میرے پاس بیٹھ جائیں کہ میں اپنے دوست سے آدابِ مباشرت سیکھ کر آیا ہوں ۔

    لاحول ولا قوة یارم م م م م م ۔ ۔ ۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے