پلا تو ساقیا یوں ہی مسلسل کاسۂ_گل سے
پلا تو ساقیا یوں ہی مسلسل کاسۂ گل سے
کہ عشق آساں لگا لیکن پڑا پالا مسائل سے
قسم نافے کی کھولے گر صبا اس زلف مشکیں کو
لہو ٹپکے نہ کیسے خم گرفتہ سینکڑوں دل سے
کہاں کا عیش کیسی صحبت جاناں کہ ہر لمحہ
جرس آواز دیتا ہے کہ باندھ اسباب محمل سے
مصلیٰ رنگ دے مے سے اگر پیر مغاں کہہ دے
کہ سالک بے خبر ہوتا نہیں آداب منزل سے
یہ کالی رات یہ گرداب یہ موجوں کی طغیانی
ہمارا درد کیا جانیں جنہیں راحت ہے ساحل سے
سبب رسوائیوں کا بن گئی اپنی ہی بیتابی
چھپا رہتا کہاں تک راز دل کا اہل محفل سے
حضوری چاہیے تو غیب میں رہتا ہے کیوں حافظؔ
اگر وہ تجھ کو مل جائے تو دنیا چھوڑ دے دل سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.