نامہ بھی لکھتے ہو تو بخط غبار حیف
دلچسپ معلومات
۱۸۱۶ء
نامہ بھی لکھتے ہو تو بخط غبار حیف
رکھتے ہو مجھ سے اتنی کدورت ہزار حیف
بیش از نفس بتاں کے کرم نے وفا نہ کی
تھا محمل نگاہ بدوش شرار حیف
تھی میرے ہی جلانے کو اے آہ شعلہ ریز
گھر پر پڑا نہ غیر کے کوئی شرار حیف
گل چہرہ ہے کسو خفقانی مزاج کا
گھبرا رہی ہے بیم خزاں سے بہار حیف
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
مجبوریاں تلک ہوے اے اختیار حیف
جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اک بار جل گئے
اے ناتمامی نفس شعلہ بار حیف
ہیں میری مشت خاک سے اس کو کدورتیں
پائی جگہ بھی دل میں تو ہو کر غبار حیف
بنتا اسدؔ میں سرمۂ چشم رکاب یار
آیا نہ میری خاک پہ وہ شہ سوار حیف
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.