پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال
دلچسپ معلومات
۱۸۵۲ء
پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال
پھر مہ و خرشید کا دفتر کھلا
خامے سے پائی طبیعت نے مدد
بادباں بھی اٹھتے ہی لنگر کھلا
مدح سے ممدوح کی دیکھی شکوہ
یاں عرض سے رتبۂ جوہر کھلا
مہر کانپا چرخ چکر کھا گیا
بادشہ کا رایت لشکر کھلا
بادشہ کا نام لیتا ہے خطیب
اب علو پایۂ منبر کھلا
سکۂ شہ کا ہوا ہے روشناس
اب عیار آبروے زر کھلا
شاہ کے آگے دھرا ہے آئنہ
اب مآل سعی اسکندر کھلا
ملک کے وارث کو دیکھا خلق نے
اب فریب طغرل و سنجر کھلا
ہوسکے کیا مدح ہاں اک نام ہے
دفتر مدح جہاں داور کھلا
فکر اچھی پر ستایش ناتمام
عجز اعجاز ستایش گر کھلا
جانتا ہوں ہے خط لوح ازل
تم پہ اے خاقان نام آور کھلا
تم کرو صاحب قرانی جب تلک
ہے طلسم روز و شب کا در کھلا
مأخذ:
Deewan-e-Ghalib (Pg. 419)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.