لغت
لفظوں کے معنی دیکھنے کے لیے سرچ باکس میں ٹائپ کیجیے
آج کا لفظ
اسباب
- asbaab
- अस्बाब
معنی
سازو سامان، چیز بست
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
تشریح
اس سے پہلے کہ خدائے سخن میر کے اس شعر کی تشریح بیان کی جائے، اس شعر میں استعمال شدہ کچھ الفاظ کے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلا لفظ آفاق ہے جو اُفق کی جمع ہے جس کے معنی horizons کے ہیں۔ دوسرا لفظ اسباب ہے جس کے معنی سازو سامان یا ضرورت کا سامان یا ضرورت کی اشیاء یا belongings کے ہیں۔ تیسرا لفظ جو اس شعر میں استعمال ہوا ہے سفری ہے جس کے معنی راہی یا مسافر یا گزرنے والا ہے۔ اب سب سے پہلے جس تناظر میں آفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کو سمجھ لینا چاہیے۔ وہ یہ کرۂ ارض ہے، یعنی یہ دنیا ہے جہاں انسان رہتا ہے، بستا ہے، اپنی زندگی بسر کرتا ہے، اپنی زندگی کے ساز و سامان اکٹھا کرتا ہے اور زندگی کے ساز و سامان کے لیے دوڑ دھوپ، تگ و دو کرتا ہے۔ انسان کی طبیعت کچھ اس طرح کی ہے کہ وہ اس دنیا سے منسلک ہو کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے اور ساری جدوجہد اس دنیا کے حصول کے لیے اور اسی دنیا کی محنت کے لیے صرف کر دیتا ہے۔ میر نے اس عارضی زندگی اور عارضی دنیا سے انسان کے تہی داماں رخصت ہو جانے کا ایسا منظر کھینچا ہے کہ جس کی مثال مشکل سے ہی نظر آتی ہے ۔
انسان اس دنیا کی زندگی میں کھپتا ہے، مرتا ہے، صعوبتیں جھیلتا ہے، مشکلات اٹھاتا ہے اور اسی دنیا کی زندگی میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کر دیتا ہے اور اسے اس کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ اس کی منزل کہیں اور ہے ، اس کو کہیں اور جانا ہے، وہ کسی اور دنیا کا مسافر ہے، اس جہان میں ایک عارضی سا اس کا قیام ہے۔ وہ جتنی بھی دولت کما لے، مال حاصل کر لے، اسباب اکٹھا کر لے، آخر کار سب ایک معینہ مدت کے بعد اس سے چھوٹ جانے والے ہیں اور اس کا سارا مال و متاع اسی دنیا تک رہ جانے والا ہے اس کے ساتھ نہیں جانے والا ہے اس کو تو خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔
H.W.Longfellow
" A Plsalm of Life "
میں فرماتے ہیں ۔
Art is long , and Time is fleeting
And our hearts, though stout and brave ,
Still , like muffled drums are beating
Funeral marches to the graves "
یعنی انسان لمحہ لمحہ اپنی موت سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور اس نے اس دنیا میں جو زندگی گزاری ہے یا جو مال کمایا ہے جو پیسہ، جو دولت اکھٹا کیا ہے وہ سب اس کی موت کے بعد بے سود ہے۔ اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے جانا ہے اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ یہ مال اس کے کام آنا ہے نہ ساتھ جانا ہے۔ نہ دولت اس کے ساتھ جانی ہے نہ اس کے ساتھ اس کی کمائی ہوئی کوئی دنیاوی شے اس کے ساتھ جانی ہے۔ میر نے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے مسافر کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جو دنیا کی اس سچائی کو بیان کرتا ہے۔
سہیل آزاد
تشریح
اس سے پہلے کہ خدائے سخن میر کے اس شعر کی تشریح بیان کی جائے، اس شعر میں استعمال شدہ کچھ الفاظ کے معنی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلا لفظ آفاق ہے جو اُفق کی جمع ہے جس کے معنی horizons کے ہیں۔ دوسرا لفظ اسباب ہے جس کے معنی سازو سامان یا ضرورت کا سامان یا ضرورت کی اشیاء یا belongings کے ہیں۔ تیسرا لفظ جو اس شعر میں استعمال ہوا ہے سفری ہے جس کے معنی راہی یا مسافر یا گزرنے والا ہے۔ اب سب سے پہلے جس تناظر میں آفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کو سمجھ لینا چاہیے۔ وہ یہ کرۂ ارض ہے، یعنی یہ دنیا ہے جہاں انسان رہتا ہے، بستا ہے، اپنی زندگی بسر کرتا ہے، اپنی زندگی کے ساز و سامان اکٹھا کرتا ہے اور زندگی کے ساز و سامان کے لیے دوڑ دھوپ، تگ و دو کرتا ہے۔ انسان کی طبیعت کچھ اس طرح کی ہے کہ وہ اس دنیا سے منسلک ہو کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے اور ساری جدوجہد اس دنیا کے حصول کے لیے اور اسی دنیا کی محنت کے لیے صرف کر دیتا ہے۔ میر نے اس عارضی زندگی اور عارضی دنیا سے انسان کے تہی داماں رخصت ہو جانے کا ایسا منظر کھینچا ہے کہ جس کی مثال مشکل سے ہی نظر آتی ہے ۔
انسان اس دنیا کی زندگی میں کھپتا ہے، مرتا ہے، صعوبتیں جھیلتا ہے، مشکلات اٹھاتا ہے اور اسی دنیا کی زندگی میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کر دیتا ہے اور اسے اس کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ اس کی منزل کہیں اور ہے ، اس کو کہیں اور جانا ہے، وہ کسی اور دنیا کا مسافر ہے، اس جہان میں ایک عارضی سا اس کا قیام ہے۔ وہ جتنی بھی دولت کما لے، مال حاصل کر لے، اسباب اکٹھا کر لے، آخر کار سب ایک معینہ مدت کے بعد اس سے چھوٹ جانے والے ہیں اور اس کا سارا مال و متاع اسی دنیا تک رہ جانے والا ہے اس کے ساتھ نہیں جانے والا ہے اس کو تو خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔
H.W.Longfellow
" A Plsalm of Life "
میں فرماتے ہیں ۔
Art is long , and Time is fleeting
And our hearts, though stout and brave ,
Still , like muffled drums are beating
Funeral marches to the graves "
یعنی انسان لمحہ لمحہ اپنی موت سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور اس نے اس دنیا میں جو زندگی گزاری ہے یا جو مال کمایا ہے جو پیسہ، جو دولت اکھٹا کیا ہے وہ سب اس کی موت کے بعد بے سود ہے۔ اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے جانا ہے اس کو خالی ہاتھ اس دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ یہ مال اس کے کام آنا ہے نہ ساتھ جانا ہے۔ نہ دولت اس کے ساتھ جانی ہے نہ اس کے ساتھ اس کی کمائی ہوئی کوئی دنیاوی شے اس کے ساتھ جانی ہے۔ میر نے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے مسافر کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جو دنیا کی اس سچائی کو بیان کرتا ہے۔
سہیل آزاد
"جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا" میر تقی میر کی غزل سے