Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میر بیمار ہوئے

فکر تونسوی

میر بیمار ہوئے

فکر تونسوی

MORE BYفکر تونسوی

    میں بے حد پریشان بلکہ شرمندہ تھا۔

    شرمندگی کا باعث میرا نصیب تھا کہ مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی۔ جب بھی کوئی بیماری آتی وہ نزلہ زکام میں بدل جاتی۔ زیادہ سے زیادہ سر کا درد، پیٹ کا درد یا کوئی پھوڑا ابھرتا اور مجھے جُل دے کر نو دو گیارہ ہو جاتا۔ احباب اور رشتے دار زیر ناف قسم کا طعنہ دیا کرتے کہ ان غیر ضروری بیماریوں پر کوئی آپ سےکیا ہمدردی کرے۔ میری بیوی تو کنکھیوں سےکئی بار اشارے بھی کرچکی تھی کہ میں آپ کی خاطر مر مٹنے کے لیے تیار ہوں لیکن اس مرمٹنے کی کوئی ٹھوس بنیاد بھی تو پیدا کیجیے۔

    اور نہ جانے میرے کس پیارکی دعا قبول ہوئی کہ ایک دن میں صبح کو شیو کرکے اٹھا تو میری ایک لغزشِ پا نے پکارا۔ ’’لینا کہ چلا میں!‘‘ میری بیوی جوشاید اسی نادر لمحے کے انتظار میں ادھیڑ ہوگئی تھی، فوراً ڈاکٹر کو بلا لائی۔ ڈاکٹر نے کہا ’’یہ لغزشِ پا نہیں ہے، سیریس بیماری ہے!‘‘

    بیوی کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔ ’’ہائے اللہ! یہ سریس بیماری ان کی بجائے مجھے لگ جائے۔‘‘

    ڈاکٹر نے رولنگ دیا۔ ’’یہ فیصلہ ہسپتال میں جاکر ہوگا کہ بیماری کس جسم کے لیے موزوں ہے، یہ متنازعہ مسئلہ ہے۔‘‘

    اتنے میں میرے بہت سے احباب اور رشتے دار جمع ہوگئے تھے۔ انھو ں نے ڈاکٹر سے ’’ونس مور‘‘ کہا اور باری تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ آخر میں تھرڈ ریٹ بیماریوں کے چنگل سے نکل آیا اور اب راہِ راست پر چل پڑا ہوں۔ ان کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو بھر گئے۔ انھوں نے تالیاں بجائیں کئی ایک فرطِ انبساط سے رقص کرنے لگے۔ میری بیوی نے جذبات سے کانپتے لفظوں میں اعلان کیا کہ وہ میرے غسل صحت پر یتیموں کو کھانا کھلائے گی۔ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے سرگوشی میں ایک دوست کو بتایا کہ نروس بریک ڈاؤن کی بیماری ہے۔ ہوسکتاہے، کئی سال لگ جائیں۔

    کئی سال؟ مجھے یتیموں کا مستقبل خطرے میں نظر آیا۔

    اسپتال کے پیڈ پر لیٹتے ہی مجھے بے حد اطمینان ہوا۔ نہ پریشانی باقی رہی تھی نہ شرمندگی ہی۔ بلکہ فخر سے پھولا نہ سماتا تھا کہ اب اس سیریس بیماری کی بدولت کئی لوگوں کو ابلائیج کرسکوں گا۔ میرے احباب خلوص اور ہمدردی کا فراخ دلانہ استعمال کرسکیں گے۔ رشتے داروں کو ٹھنڈی آہیں بھرنے اور آنسو تھر تھرانے کا موقع نصیب ہوگا۔ میری ایک جنبشِ لب پر وہ اپنی گردنیں کٹوانے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ میری آنکھ کا ایک ہلکا سا اشارہ ان کی زنگ آلود روح کے سبھی بند دروازے کھول دے گا۔ میرے بدن میں ایک چھوٹی سی ٹیس اٹھے گی تو احباب مرغ بسمل کی طرح اسپتال کے سڑک پر تڑپتے ہوئے نظر آئیں گے۔ میری بیوی ہر پرسانِ حال کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہہ سکے گی،

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو

    ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

    غرض میں اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا تھا کہ زندگی میں کسی کے کام تو آیا۔ دوسروں کی خوشنودی کے چند لمحے بھی میسر آجائیں تو وہ سُنبل و ریحاں اور لعل و یاقوت وغیرہ سے کم نہیں ہوتے ورنہ اس سے پہلے تو زندگی جیسے بے برگ و گیاہ ریگستان میں گزر رہی تھی۔ نہ کسی کے آنسو، نہ تبسم، نہ جذبات سے چور چور ہونٹ، نہ کسی کی ہمدردی، نہ کسی کا خلوص، نہ کسی کا امتحان، نہ کوئی ممتحن۔

    اسپتال میں جاتے ہی سب سے پہلے تو میرے ایک منسٹر دوست نے میرے ریگستان میں ایک پھول کھلا دیا۔ یعنی ایک دوست کے ٹیلیفون پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے کہہ دیا کہ اس مریض کو فوراً ایک بیڈ عطا کیا جائے۔ اسپتال میں بیڈ میسر آنے کا مطلب ہوتا ہے جیسے کسی بے روزگار کو اپائنٹمنٹ لیٹر مل جائے۔ میرے ایک پروفیسر دوست نے میری ہوا باندھتے ہوئے کہا ’’جی! بیڈ کیوں نہ ملتا۔ ان کی رسائی تو منسٹروں تک ہے۔‘‘ مجھے منسٹروں کی اس پستی پر رحم کھانا چاہیے تھا لیکن منسٹر کی خوشی مجھے بیڈ میں مل جانے میں مضمر تھی۔ اس لیے میں اس پستی کو شہد کا گھونٹ سمجھ کر پی گیا۔

    بیڈ مل جانے کے بعد میں تین چار دن تک یہ دیکھتا رہا کہ احباب اور رشتےدار نہایت سرگرم ہوگئے ہیں۔ چاروں طرف بھاگے بھاگے پھرتے ہیں۔ وہ لمحہ بہ لمحہ اپنی دوڑ دھوپ کی رپورٹ لے آتے اور میرے حلق میں انڈیل دیتے۔ کوئی بتاتا اسپتال کا ہارٹ اسپیشلسٹ میرے کالج کا ساتھی ہے اور مجھ سے میتھمیٹکس کی گائڈ بک لے جایا کرتا تھا۔ کوئی انکشاف کرتا، بلڈ بنک کے انچارج سے میں نے کہہ دیا ہے کہ آپ کی خوش نصیبی ہے۔ آپ کے اسپتال میں ایک عظیم مریض داخل ہوا ہے۔ یہ انچارج میری خالہ کا چوتھا بیٹا ہے۔ اگرچہ خالہ نے اسے جائداد سے عاق کردیا ہے لیکن اسکی لو میرج سے پہلے کے سبھی لو لیٹر میں نے ہی قلم بند کرکے دیے تھے۔ ایک دوست نے تین اخباروں میں میری فوٹو اور بیماری کی خبر بے حد ولولہ انگیز انداز میں شائع کرواکے مسرت حاصل کی جیسے اس نے مجھے مرنے کے بعد جنت کی سیٹ دلوادی ہو۔ چار پانچ دوستوں نے کافی ہاؤس میں ایک ریزولیوشن پاس کروادیا کہ خدانخواستہ اگر فکر تونسوی کی موت واقع ہوگئی تو پورے کافی ہاؤس کے ممبران نہ صرف باجماعت شمشان بھومی تک جائیں گے بلکہ پسماندگان کے لیے چندہ بھی اکٹھا کریں گے۔

    یہ جان توڑ سرگرمیاں دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے سارا ہندوستان میری بیماری کی خاطر زندہ ہےورنہ درگور ہوگیا ہوتا! ہر روز کئی ڈاکٹر باری باری آتے اور مجھے لیبارٹری سمجھ کر تجربے شروع کردیتے۔ جیسے یہ ڈاکٹر نہ ہوں، اسکول کے طالب علم ہوں اور میں ایک کاپی ہوں جس پر وہ ہوم ورک کر رہے ہوں۔ پہلے تو میں سمجھا کہ وہ میرے مرض سے خوش ہونے کی وجہ سے سرگرم ہیں لیکن ایک بار میں نے ان کی خوشی سے بور ہوکر ایک ڈاکٹر سے پوچھا ’’جناب! کیا آپ کومریض سے محبت ہے یا مرض سے؟‘‘

    وہ بولا ’’مرض سے! کیونکہ ہم مریض پر ریسرچ کرکے مرض تک پہنچتے ہیں۔ آپ پر ریسرچ کرنےسے بنی نوع انسان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘

    ’’اور اگر میں نہ آتا تو بنی نوع انسان کا کیا بنتا؟‘‘

    اس کے جواب میں ڈاکٹر نے اپنے اسسٹنٹ کو حکم دیا۔ ’’اس مریض کی بی۔سی۔جی بھی کرائی جائے۔ دماغ میں توقع سے زیادہ خلل معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    لیکن میں جانتا تھا کہ میرے دماغ کے خلل کا سبب میری بے پناہ مسرت ہے، جو مریض بن کر مجھے حاصل ہو رہی ہے۔ میں یہ سوچ کر جھوم اٹھا کہ اسپتال میں مجھے بے حد رومانٹک ماحول ملے گا۔ میں نےسن رکھا تھا کہ کئی آرٹسٹ لوگ اسپتال میں جاکر ناول تک لکھتے ہیں اور بیماری کو ادبِ عالیہ میں اضافہ کا باعث بناتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک نرسوں سے پیار بھی کرنے لگتے ہیں بلکہ کئی نرسیں تونوکری پر لات ماردیتی ہیں اور ناول نگار کی روح کے نرم گوشے میں دلہن بن کر گھس جاتی ہیں۔

    دوسرے دن جب میں چھم سے کسی نرس کی آمد کی انتظار میں آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ کسی نے میرا کندھا جھنجھوڑا۔ یہ واقعی نرس تھی (میرے متوقع ناول کی متوقع ہیروئن۔) میں نے آنکھ کھول کر دیکھا نرس خوبصورت نہ تھی، خوبصورت دنیا کے جسم پر ایک چیتھڑا تھی! اس نے پہلے مجھے سونگھا پھر ماحول کو سونگھا اور جیسے اسے احساس ہواکہ ماحول نامکمل ہے۔ اس لیے اس نے میرے بیڈ کے سرہانے ایک مَیلے سے گتے پر میڈیکل چارٹ لٹکاکر ماحول کو مکمل کردیا۔

    اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس نے میری قبر پر دِیا جلا دیا ہو۔

    میری بیماری اچھلتی کودتی، چھلانگیں لگاتی ہوئی جب کئی ہفتے عبور کرگئی تو مجھے شک ہونے لگا کہ ڈاکٹر حضرات کو خدمتِ خلق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی حالت اس عورت سے بہتر نہیں ہے جو شوہر کے لیے کھانا تیار کرتی ہے۔ شام کو سبزی وغیرہ لاتی ہے اور صبح دودھ کے ڈپو کی لمبی قطار میں دو بوتلیں لانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتی ہے۔ عام اصطلاع میں اسے گرہست کی خدمت کہا جاتا ہے لیکن گرہستن سے پوچھا جائے تو وہ اسے اکتا دینے والی روٹین کا نام دیتی ہے۔

    میرا خیال تھا اور افسوس ناک حد تک غلط خیال تھا کہ ڈاکٹر جب مریض کی خدمت کرتے ہیں تو اسے انسانیت کا عروج سمجھتے ہیں۔ لیکن جب میں نے ذرا قریب ہوکر دیکھا تو یوں محسوس ہوا کہ وہ انسانیت سے اکتا چکے ہیں۔ وہ جب مریض کا بلڈپریشر دیکھتے ہیں یا اس کے ہارٹ، جگر اور پھیپھڑے کی رپورٹ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں یوس محسوس ہوتا ہے جیسے آلوچھیل رہے ہوں یا سبزی میں نمک مرچ مسالے کا تناسب پیدا کر رہے ہوں۔ ڈاکٹر سچ مچ ایک انار ہوتے ہیں جس کے ایک سو نہیں ہزاروں بیمار ہوتے ہیں، ہر بیمار سمجھتا ہے یہ انار میرے ہی کھانے کے لیے ہے اور ڈاکٹر کی بے بسی یہ ہے کہ وہ کسی مریض سےیہ بھی نہیں کہہ سکتا ’’دوست! انار کے متعلق تم جو بھی نقطۂ نگاہ بنالو، میں دخل نہ دوں گا لیکن ظالم! مجھے پانچ منٹ کی تنہائی تو عطا کردو تاکہ میں خدمتِ خلق سے بلند ہوکر ایک سگریٹ پی سکوں۔‘‘

    ایک دن میں نے ایک ڈاکٹر سے پوچھ لیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کے اندر خدمتِ خلق کاجذبہ کیوں مرگیا؟‘‘

    وہ جیسے دو دونی چار کا پہاڑا پڑھتے ہوئے بولا۔ ’’وہ تو اسی دن مرگیا تھا جب میں نے اس اسپتال میں نوکری کےلیے برسوں اپنے گھٹنے اور ماتھا رگڑا۔ ایک نہایت ہی بھونڈے، غیرانسانی شکل کے ڈپٹی منسٹر کو وقت کا جہانگیر اور یوسف کہا تھا۔ انسانیت تو اس سماج کے لیے اچھوت کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘

    یہ سُن کر مجھے شک ہوا کہ میرے جذبے اچھوت ہیں۔ ڈاکٹر میرے جذبوں کو ہاتھ لگانا نہیں چاہتا۔ وہ صرف اسپتال کے مردہ قاعدے قانون کے چوکھٹے میں گھومے جا رہا ہے۔ اس چوکھٹے کے باہر کی دنیا اچھوتوں کی دنیا ہے۔ اس چوکھٹے میں انسانیت داخل نہیں ہوسکتی۔ ڈاکٹر اس چوکھٹے سے باہر آکر اچھوتوں کو چھونا نہیں چاہتا۔ جو مریض اسپتال میں اس خیال سے داخل ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اس کا انتظار کر رہا ہے اور لپک کر مریض کے جسم میں خدمتِ خلق کاانجکشن دے دے گا اور ناچ اٹھے گا۔ ایسے مریض کو چاہیے کہ وہ اچھوت ہی رہے تو اچھا ہے۔ ڈاکٹر کے لیے سب مریض برابر ہیں، سب بور ہیں، سب اچھوت ہیں۔

    بھونڈے ڈپٹی منسٹر نے ڈاکٹر سے انسانیت چھین لی۔ اب تو وہ کسی لیڈی ڈاکٹر سے بھی پیار کرنے سے پہلے دیکھ لیتا ہےکہ اس کی تنخواہ کتنی ہے؟

    احباب اور رشتے داروں تک میرے وارڈ اور بیڈ نمبر کی باقاعدہ اطلاع پہنچادی گئی تھی۔ ایک دوست نے خلوص کی بلندیوں پر کھڑے ہوکر مشورہ دیا کہ بیڈ نمبر اخباروں میں چھپوا دیا جائے۔ چھپ جانے کے بعد وہ اپنے فرضِ منصبی سے چھٹکارا پاگئے اور کبھی اسپتال میں نہ آئے۔ باقاعدہ اطلاع کے باوجود (سُنا ہے) یار دوست ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے۔ ’’بھائی! فکر صاحب کا بیڈ نمبر کون سا ہے؟‘‘

    شروع شروع میں خلوص کے ماروں کی آمد زوروں پر رہی۔ ان کی آمد پر میرا دل بلیوں اچھلتا اور میں پھول جاتا کہ میں بیمار ہوں۔ ہر ملاقاتی یہ جھوٹ بول کر بہت خوش ہوتا ’’جی آپ تو بالکل بھلے چنگے ہیں ورنہ ایسے اعصابی امراض میں تو انسان ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے۔‘‘

    جوں جوں وہ میرا دل بڑھاتے، میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا چلا جاتا۔ لیکن پھر بھی میرا جی چاہتا میری ہڈیوں کی مزید تعداد نمایاں ہوتی چلی جائے تاکہ میں پرسانِ حال کی محبت کے لذیذ جام لنڈھاتا رہوں۔ لیکن معلوم ہوتاتھا کہ میری اس سازشی پلاننگ کا علم احباب اور رشتے داروں کو ہوگیا ہے آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ ایک دن نظروں سے بالکل اوجھل ہوگئی اور میرے بیڈ کے پاس صرف چند شیشیاں، ایک میڈیکل چارٹ اور ایک بیوی رہ گئی۔ شاید پرسانِ حال نے میرے مرض کی بو سونگھ لی کہ یہ مرص طول شبِ فراق کی مانند بڑھ گیا ہے اور زندگی صرف مرض کے گرد تو نہیں گھومتی۔ کئی اور اہم کام بھی ہیں۔ مثلاً پتنگ اڑانا ہے، بلیک مارکٹنگ ہے، لڑکیوں سے چھیڑ کرنی ہے، پڑوسیوں سے لڑائی جھگڑا کرناہے۔ غرض سیکڑوں ضروری کام ہیں۔ فکر تونوسی کا مرض زندگی کا ایک حقیر ساحصہ ہے۔ ایک گھٹیا سی روٹین ہے۔ ہُنھ! سیکڑوں مریض ہر روز صبح اسپتال کی او۔پی۔ڈی کی کھڑکی کے سامنے کیُو بناکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بھلا بیمار ہونا بھی انسان کی کوئی بنیادی ضرورت ہے۔

    اور یوں آہستہ آہستہ میں غیردلچسپ ہوگیا۔ ہمدردی اور خلوص کا سیلاب ایک دم تیزی سے شام کے سورج کی طرح ڈوب گیا۔ یہاں تک کہ ڈوبتی شعاعوں کی سرخی بھی نظروں سے اوجھل ہوگئی اور میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ مرض کو عادت نہ بنانا چاہیے۔ اتنی بڑی کائنات ہے اور ایک انسان اس میں ایک بے حد مدھم ہوتا ہوا نقطہ ہے جس سے کوئی لفظ نہیں بنتا، کوئی لکیرنہیں بنتی۔ اس نقطے پر انسانیت اور محبت اور خلوص وغیرہ وغیرہ چیزوں کی بنیاد رکھناخالی خولی جذباتی پن ہے۔

    بمبئی سے ایک افسانہ نگار دوست نے خط لکھا ’’تم بڑے خوش قسمت ہو کہ دہلی میں بیمار پڑے ہو اور (سُنا ہے) تمھارے پرسانِ حال تمھاری اس بیماری کو غنیمت سمجھ کو جوق درجوق تمھیں پوچھنے کے لیے بھی آتے رہتے ہیں لیکن میری بدبختی! کہ میں بمبئی میں بیمار ہوں۔ جہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں کہ کس حال میں ہے؟ یہاں کا ہر فرد اپنے بدن کی مختصر سی دنیا کے باہر دیکھ ہی نہیں سکتا! میں سمجھتا تھا ان کے پاس جذبات کی کمی ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے، فرصت کی کمی ہے۔ جتنے وقت میں وہ مجھے پوچھنےکے لیے آئیں، اتنے وقت میں وہ اپنے مالک مکان سے تو تو میں میں کرسکتے ہیں جو میری بیماری کی خاطر ملتوی نہیں کی جاسکتی۔ چھ ماہ سے اپنے گھر میں پڑا ہوا اور کسی پرسان حال کو ترس آگیا ہو کل کسی نے میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو میں بے حد جذباتی ہوگیا کہ آخر کسی پرسان حال کے دل میں خلوص جاگا میں اٹنشن ہوگیا اور مریضوں کی طرح ہائے ہائے کرنے لگا۔ نووارِد نے پوچھا۔ ’’صاحب کیا بات ہے۔ آپ تو کچھ بیمار معلوم ہوتے ہیں۔ کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کرائیے۔ جلدی تندرست ہوجائیے۔ کیونکہ ہندوستانی ادب کو ابھی آپ سے بہت امیدیں ہیں۔ میں آج بائی دی وے آپ کے گھر میں ایک ضروری ٹیلیفون کرنے آیا تھا۔ اجازت ہو تو کرلوں؟‘‘

    بمبئی کے اس دوست کے خط سے مجھے آبدیدہ ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن میرے پاس تھیٹر کے ایک پروڈیوسر دوست بیٹھے تھے اس لیے میں نے جذباتی ہونا مناسب نہ سمجھا۔ کیونکہ وہ کہہ رہے تھے ’’فکر صاحب! آپ تو بیماری سے چمٹ ہی گئے ہیں۔ میں پوچھنے آیا تھا کہ وہ ڈرامہ جس کے ابھی تین منظر قلم بند کرنا باقی ہیں، ان کا کیا بنےگا؟ ڈرامے کا مکمل ہونا تو بے حد ضروری ہے۔‘‘

    ’’جناب من! ڈرامے سے زیادہ میری بیماری ضروری ہے۔ میں تو غسلِ صحت کے بعد ہی وہ سین لکھ سکوں گا۔‘‘ میں نےکہا۔

    آپ جلد از جلد تندرست ہوجائیے۔ ہمارا بڑا نقصان ہو رہاہے۔ یہ لیجیے، آپ کے لیےآلوبخارا لایا ہوں۔ کھائیے اور سوچیے کہ کیا دورانِ مرض آپ ڈرامہ مکمل نہیں کرسکتے؟‘‘

    دنیا ستم گر نہیں ہے بلکہ اس کی مجبوری ہے کیونکہ اسے مرض سے زیادہ اپنے ڈرامے سے محبت ہے اور محبت کے بغیر وہ سانس نہیں لے سکتی۔

    ایک نزدیکی رشتے دار (کم از کم وہ بدستور مجھے رشتے دار کہتے تھے) بہت سنجیدہ غم اپنی پلکوں پر تھرتھراتے ہوئے میرے بیڈ کے پاس آئے، میڈیکل چارٹ اٹھاکر آنکھوں سے لگایا اور بولے ’’خدا چاہے گا تو آپ بہت جلدی صحت یاب ہوجائیں گے۔‘‘

    میں نے عرض کیا۔ ’’آپ کو اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘

    وہ روہانسے ہوکر بولے۔ ’’آپ بیماری میں بھی مذاق سے باز نہیں آتے۔ آپ کی بھتیجی کے بیاہ کا مسئلہ تھا۔ آپ کی بیماری کے باعث اٹکا ہوا ہے۔ تاریخ مقرر کرنا ہے، لڑکے والے بہت پریشان کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں، کل جُگ ہے، کسی کی نیت بدلتے دیر نہیں لگتی۔‘‘

    میں نے ان سے ہمدردی کرتے ہوئےکہا۔ ’’غلطی میری تھی کہ کل جُگ میں بیمار ہوا۔ آپ بیاہ کردیجیے، میری بیماری پر بھروسہ مت کیجیے۔‘‘

    چند دن بعد معلوم ہوا، انھوں نے بیاہ کردیا ہے۔ میری آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ نکل سکا۔ جسے میں ان کے دعوتی کارڈ پر گراسکتا۔ البتہ میں نے ایک دانشمندانہ قدم ضرور اٹھایا کہ اسپتال کے قواعد توڑ کر گھر آگیا۔ پرسانِ حال پر بھروسہ کرکے بیمار رہتے چلاجانا مجھے غیرضروری معلوم ہوا۔

    گھر آکر ایک اور قریبی رشتے دار کا پیغام ملا کہ میرا بڑا لڑکا جوئے میں گرفتار ہوگیا تھا۔ اس پریشانی میں آپ کو پوچھنےکے لیے حاضر نہ ہوسکا۔ ایک دس سالہ پرانے دوست کو کاغذ کی ایک چِٹ لکھ کر بھجوائی کہ میں تمھارے ہجر میں تڑپ رہا ہوں، اسپتال میں نہیں آئے تو گھر پر ہی آجاؤ! اس نے اسی چٹ کی پشت پر جواب دیا۔ ’’اب تم نے مجھے شرمندہ کرنے کی ٹھانی ہے اس لیے میں تمھیں شکل نہیں دکھا سکتا۔ میں تمھیں نارمل حالت ہی میں دیکھ سکتا ہوں۔ بیمار حالت میں تمھیں دیکھنا میری قوتِ برداشت سے باہر ہے۔‘‘

    ایک اور دوست سے کافی ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔ ہنس کر بولے ’’میں نے سنا تو ضرور تھا کہ تم بیمار ہو، لیکن میں نے سوچا مذاق کرنا تمھاری عادت ہے۔ شاید تم نے بیماری سے بھی مذاق کیا ہوگا۔ اب کیسے ہو؟‘‘

    اس کے بعد ہر رشتے دار اور دوست کے گھر جاکر اطلاع دے آیا کہ میں اب بھی بیمار ہوں۔ اس لیے موقع غنیمت ہے، آکر میری پرسشِ حال کرجاؤ۔ ایک صاحب الٹے مجھ سے شکایت کرنے لگے۔ ’’واہ فکر صاحب! آپ نےبھی کمال کردیا! میں اسپتال میں آپ کی صورتِ حال پوچھنے کے پہنچا تو معلوم ہوا، آپ ڈسچارج ہوکر گھر چلے گئے۔ آخر اتنی بھی کیا جلدی تھی؟‘‘ ایک دوسرے رشتے دار کو دوسری شکایت تھی۔ کہ میں اسپتال میں دو گھنٹے تک ہڈیاں جوڑنے والے وارڈ میں آپ کو ڈھونڈتا پھرا، لیکن ناکام لوٹ آیا۔ کم از کم یہ بتانا تو آپ کا فرض تھا کہ آپ کی ہڈی نہیں ٹوٹی بلکہ اعصابی نظام ٹوٹا ہے۔

    میں نے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آئندہ موقع ملا تو ہڈی ہی تڑواؤں گا اور اسپتال سے باہر آکر میں نے محسوس کیا کہ دنیا ویسی کی ویسی ہی ہے، کسی کو کسی سے دلچسپی نہیں۔ ہر آدمی ایک دوسرے کے ساتھ قہقہے لگانے میں مصروف ہے۔ ان کی محفل میں کون آیا، کون مرگیا، کس کی ہڈی ٹوٹ گئی، کس کی آنکھ پھوٹ گئی، کون دیوالیہ ہوگیا، کس کی لاٹری نکل آئی؟ ان تمام تبدیلیوں سے بے نیاز اس دنیا کا ہر آدمی اپنے ہی چند سانسوں میں مگن ہے اور مجھے بھی اپنی ان محفلوں میں انھوں نےیوں کھپا لیا جیسے میں کبھی بیمار نہ ہوا تھا اور جیسے کہ میں ان کی خاطر بیمار نہیں ہوا تھا بلکہ اپنے بدن کی آزمائش کرنے کے لیے بیمار ہوا تھا۔

    البتہ پرسانِ حال اب بھی شاید خلوص و محبت کے مارے مجھ سےمیری صحت کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں اور اس بات پر بہت افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ میں نہایت غلط دوائیں لیتا رہا۔وہ مجھے مشورہ دیتے ہیں مختلف نسخے بتاتے ہیں کہ میں ان پر عمل کروں تو بالکل تندرست ہوجاؤں گا۔ بلکہ ایک دوست تو مجھے اپنے گھر لے گئے اور میرے ہاتھ میں دوا کی ایک شیشی تھماتے ہوئے بولے۔ ’’اسے استعمال کیجیے۔ تیربہدف ہے!‘‘

    ’’آپ نے ڈاکٹری کا یہ فن کہاں سے سیکھا؟‘‘ میں نےان سے پوچھا۔

    وہ گردن پھلاکر بولے۔ ’’اجی میرے والد صاحب عطّار تھے!‘‘ اور میں گردن جھکاکر گنگنانے لگا۔

    میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

    اسی عطّار کے لونڈے سےدوا لیتے ہیں

    مأخذ:

    آزادی کے بعد دہلی میں اردو طنز و مزاح (Pg. 37)

      • ناشر: اردو اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1990

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے