Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نہاری ہاؤس

عامر صدیقی

نہاری ہاؤس

عامر صدیقی

MORE BYعامر صدیقی

    انورکی اس نہاری ہاؤس میں اکثر آنے کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ یہاں پورے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ لذیذاور منفرد ذائقے والی نہاری ملتی تھی۔بلکہ یہاں آنے کی ایک وجہ اسکے کام کے حوالے سے بھی تعلق رکھتی تھی۔ وہ افرادی قوت فراہم کرتا تھا۔اور اس مد میں کمیشن پاتا تھا۔اور یہ ہوٹل تو اس کے بڑے کلائنٹ میں شمار ہوتا تھا۔

    بڑھتے ہجوم کے باوجود اسے سیٹھ کے کاؤنٹر کے پاس والی ہی میز مل گئی۔کافی دیر تک جب کوئی آرڈر لینے نہیں آیا تو اس نے سیٹھ کو آواز لگائی۔

    ’’اورسیٹھ، سناؤ کیا حال چال ہیں، دھندہ کیسا چل رہا ہے۔مجھے اتنی دیر ہوگئی کوئی آرڈر لینے ہی نہیں آیا۔ ذرا ایک اسپیشل نہاری تومنگوادو۔‘‘

    ’’ ارے واہ انور،ایکدم بڑھیا۔تم سناؤ کیا چل رہا ہے۔ معافی ،دیر لگ رہی ہے تمہیں، ادھر چھوکروں کا ذرا مسئلہ ہے۔ کمی چل رہی ہے۔سالے ٹکتے ہی نہیں۔‘‘

    ’’ارے کیا سیٹھ وہ جو پچھلے ہفتے آٹھ پہاڑی لڑکے دیئے تھے ۔ انکا کیا ہوا نظر نہیں آرہے۔اور لوچا ووچا کچھ نہیں، یہ آج کل کے لڑکے حرام خور ہوگئے ہیں۔ کھاناجانتے ہیں پر کام نہیں ہوتا ان سے۔خیر میرے ہوتے تمہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت۔بولو کتنے لڑکے بھیجوں۔ لڑکوں کی تازہ تازہ کھیپ آئی ہے۔‘‘

    ’’دس پندرہ تو بھیج ہی دو، ہوٹل کا رش تو تم دیکھ ہی رہے ہو ۔گراہکی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔‘‘

    ’’دس پندرہ؟‘‘ وہ ششدررہ گیا۔زیادہ لوگوں کا مطلب ، زیادہ کمیشن ۔ہال کی جانب اسکی نظریں غیر ارادی طور پر اٹھ گئیں، ہال معمول کے مقابلے میں دگنا بھرا تھا اور اس میں مزید اضافہ ہورہاتھا۔ ’’سیٹھ کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔‘‘اس نے دل ہی دل میں سوچا۔اور بھاری کمیشن کا سوچ کر مسکرااٹھا۔

    ’’ہاں، اتنے تو میں مانگتا ہی ہوں۔اور ہاں پہاڑی چھوکرے ہی لانا۔‘‘

    ’’پر سیٹھ، وہ توپھر بھاگ جا۔۔۔‘‘اس کے جملہ ادھورا رہ گیا۔سیٹھ اسکی بات کاٹتے ہوئے بولا۔

    ’’بولانا،اب سے ا دھرپہاڑی چھوکرے ہی چلیں گے اور ہاں پہلے کے طرح ہی ہٹے کٹے اور قد آور ہوں۔اورہاں،انکے بھاگنے کی مجھے پرواہ نہیں ، تم ہونا۔‘‘

    اس نے اثبات میں اپنی گردن ہلائی ، اور اپنی نہاری کی طرف متوجہ ہو گیا۔گرم گرم نہاری سے اشتہا انگیز خوشبو اٹھ رہی تھی۔ اس نے لوازمات ڈالتے ہوئے ،بے قراری سے پہلا نوالہ لیا۔

    ’’واہ سیٹھ۔تمہاری نہاری تو دن بدن لاجواب ہوتی جارہی ہے۔اب تو گوشت کی بوٹی بھی پہلے سے بڑی دینے لگے ہو،ایک دم رسدار، چربیلی،اور نرم۔‘‘

    اس نے نہاری کی تعریف کرتے ہوئے سیٹھ کی جانب دیکھا۔ پر وہ چاروں جانب سے ادائیگی کرتے گاہکوں سے گھرا تھا۔اس کی نظریں دفعتاًہال کی جانب اٹھ گئیں ، ہال میں اب تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔اور ہوٹل کے باہر،اپنی باری کا انتظار کرتے گاہکوں کی طویل قطار دور تک چلی گئی تھی۔

    سید تحسین گیلانی اور مصنف کے شکریہ کے ساتھ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے