aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادب کی الف، ب، ت

انتظار حسین

ادب کی الف، ب، ت

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    میری نانی اماں نے تو خیر مغلوں کا سکہ بھی دیکھا تھا مگر میں نے بچپن میں بس دو سکے دیکھے۔ ملکہ کی اکنی جو بہت گھس گئی تھی اور جارج پنجم کا روشن اور ابھری مورت والا پیسا۔ اب یہ دونوں سکے ٹکسال باہر ہیں۔ حالانکہ عظیم انسان کی اصطلاح اب بھی چالو ہے۔ اصطلاحیں استعارے اور تصورات سکے ہوتے ہیں۔ اپنے وقت میں خوب چلتے ہیں۔ وقت کا سکہ بدلتا ہے توان کی بھی قیمت گر جاتی ہے۔ مگر وضع دار لکھنے والے اپنے لفظ، استعارے، ترکیبیں اور تصورات پتھر پہ بجاکے نہیں دیکھتے اور انہیں چالو سمجھ کر آخر دم تک استعمال کرتے رہتے ہیں۔

    ملکہ کے وقت کے تین گھسے ہوئے سکے،

    (۱) جوشؔ ملیح آبادی کی عقلی شاعری۔

    (۲) نیازؔ فتح پوری اور نئی پود کی دہریت۔

    (۳) انسان دوستی۔

    چند استعارے جنہیں پھپھوندی لگ چکی ہے۔ سحر، اندھیرا، رہزن، رہبر۔ کلاسیکی شاعری کے وہ استعارے جو نئے ترقی پسند شاعروں کے ہاتھوں معنی کھو بیٹھے، دارورسن، زنداں، قفس، منصور۔ غدر سے پہلے کے لفظ، لہجے اور ترکیبیں جن کے کنارے گھس چکے ہیں، معاذ اللہ، ارے تو بہ، لہوکے چراغ، پرچم، گہرا سناٹا، خلا، سسکیاں، آکاش، سماج، دھندلکا، حریری ملبوس، غم جاناں، غم دوراں، عظیم ادب، آفاقیت، ابدی اقدار، انفرادیت، رچاؤ، سوزوگداز۔

    اردو تنقید کی زنگ آلود ضرب الامثال،

    (۱) ادب نام ہے تنقید حیات کا۔

    (۲) ادب اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

    (۳) ادب شخصیت کا اظہار ہے۔

    (۴) ادب پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔

    (۵) ہر ادب اپنے ماحول کا ترجمان ہوتا ہے۔

    (۶) ادب روایت کے شعور سے پیدا ہوتا ہے۔

    گھسی ہوئی دونیاں چونیاں، رمبو، بادیلئر، ٹی ایس ایلیٹ، غالب، گورکی، موپساں۔

    ٭

    ہر دور ادب پیدا کرنے کے اپنے نسخے ساتھ لے کر آتا ہے۔ نئی شاعری پیدا کرنے کا نسخہ مندرجہ ذیل میں سے کسی کو عنوان بناکر نظم کر ڈالئے، کلرک، ریڈیو اناؤنسر، نرس، طوائف، کوئی قدیم شاہی عمارت، رقاصہ، عالمی امن، بھوک۔

    نئی شاعری بنانے کا نیا نسخہ، یونانی دیومالا سے کوئی کردار چنئے۔ اسے مفرس اردو میں جکڑ دیجئے۔ اوپر سے تھوڑا سا یونگ چھڑک دیجئے و نیز مندرجہ ذیل موضوعات پر طبع آزمائی کیجئے، ایٹمی جنگ کا خطرہ۔

    نئی غزل وضع کرنے کا ٹوٹکا یہ ہے کہ نئی اشیا کے نام شعر میں استعمال کیجئے۔ جیسے، کرسی، سائیکل، ٹیلیفون، ریل گاڑی، سگنل۔

    ٭

    اردو ادب کے حق میں دو چیزیں سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوئیں۔ انسان دوستی اور کھدر کا کرتا۔ آدمی کی پوری ذات محبت کے واسطے سے بروئےکار آتی ہے نہ کہ دوستی کے حوالے سے اور جن کی نفرت عمیق نہیں ہوتی ان کی محبت بھی عمیق نہیں ہوتی۔ رہا کھدر کے کرتے کا معاملہ تو وہ جو گیا ہو یا نیلا، انتہا اس کی پاکستان میں بہر صورت موٹرکار ہے۔ وہ دور جاگیرداری گزر گیا جب سعادت حسن منٹو ململ کا سفید کرتا پہن کر تانگے میں مال پر نکلا کرتے تھے۔ اب لاہور کی مال پر تانگا ممنوع ہے اورنئی قدروں نے موٹرکار کی صورت اختیار کر لی ہے۔

    ادب اور موٹرکار دو الگ الگ قدریں ہیں۔ ادب شعر اور افسانہ گھسیٹ دینے کا نام نہیں ہے۔ ادب ایک ذہنی رویہ ہے، جینے کا ایک طور ہے، موٹر کار جینے کا ایک دوسرا اسلوب ہے۔ ادب اور موٹرکار کو یکجا نہیں کیا جا سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ موٹر تیز چلتی ہے اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جب سواری تیز چلتی ہے تو ادب کی گاڑی رک جاتی ہے۔ مثلاً جب سے پاکستان کے ادیبوں نے رائٹرز گلڈ کے توسط سے ہوائی جہاز میں سفر کرنا شروع کیا ہے، انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے اور ابن انشاؔ نے جتنے عرصے میں پورے یورپ کا دورہ کیا، اتنے عرصے میں میں صرف ایک افسانہ لکھ سکا۔

    مولانا محمد حسین آزادؔ جب لاہور کے اکبری دروازے سے گورنمنٹ کالج کی طرف چلتے تھے توان کا گھوڑا بہت سست چلتا تھا مگر ان کی نثر سرپٹ دوڑتی ہے۔ فیض احمد فیضؔ کی کار بہت تیز چلتی ہے۔ البتہ مصرع پوئیاں چلتا ہے۔

    ٭

    چار آدمیوں کی صحبت ادیب کے تخلیقی کام میں کھنڈت ڈالتی ہے، لڑاکا بیوی، باتونی انٹلکچول، لائق معلم، ادب کی سرپرستی کرنے والا افسر۔

    ٭

    یہ امر طے شدہ ہے کہ عبد العزیز خالد نے نظمیں اردو ہی میں لکھی ہیں۔ جعفر طاہر کے کنیٹو میں ایک ٹیکنیکل عیب پایا جاتا ہے وہ یہ کہ اسے شروع کیجئے تو وہ بالآخر ختم ہو جاتا ہے۔

    ٭

    رنگِ میر میں لکھنے کے طریقے تین ہیں۔ اول یہ کہ چھوٹی بحر میں یا خراماں خراماں بحر فعل فعل میں شعر لکھئے۔ تخلص کے ساتھ جی یا صاحب کا لاحقہ لگایئے۔ دوم یہ کہ میر کے کسی ایک شعرکے مضمون کو الٹ کر روایت میں اضافہ کر دیجئے۔ مثلاً اگر میر کے شعر میں سفر کا انجام آبلہ پر ہو تو آپ بے اندیشہ پیروی میر سفر کا آغاز آبلہ سے بتایئے۔ باقی رہا تیسرا طریقہ تو وہ فراق صاحب سے پوچھئے۔

    ٭

    طرز غالب میں ریختہ یوں لکھئے،

    (۱) فارسی ترکیبیں اور اضافتیں بے محابا استعمال کیجئے۔

    (۲) تفلسف شعار کیجئے۔

    (۳) تیسرا طریقہ میرزا یگانہ اپنے ساتھ لے گئے۔

    ٭

    انٹلکچول بننے کے طریقے بہت اور فر میں کثیر ہیں مگر انہیں نظرانداز کرتا ہوں کہ رسالہ لمبا نہ ہو جائے۔ اجمالاً چند طریقے درج ذیل ہیں،

    (۱) روش عام سے علاحدگی یعنی سگریٹ پینے والوں میں پائپ پیجئے، پائپ پینے والوں کی صحبت میں بگلے کے سگریٹ کا رنج کھینچئے، نیز چائے میں دودھ اور چینی سے اجتناب برتیئے اور کافی بلیک پیجئے۔

    (۲) مختلف النوع علوم کی کتابیں بغل میں رکھئے کہ پاؤں بھاری ہو جائے۔

    (۳) کسی غیرملکی کتب خانے کا کارڈ جیب میں رکھئے۔

    (۴) نئے I SMSسے رابطہ پیدا کیجئے اور MYTH کی جستجو میں غلطاں رہئے۔

    (۵) پانچواں طریقہ قرۃ العین حیدر سے پوچھ کر بتاؤں گا۔

    کلچرڈ بننے کے آزمودہ نسخے،

    (۱) تجرید ی مصوری، کلاسیکی موسیقی، مغربی، سمفنیزونیز تعمیرات سے شغف رکھئے۔

    (۲) مصوری کی نمائشوں، میوزک کانفرنسوں اور امریکہ سے آئے ہوئے طائفوں کے اعزاز میں ہونے والی تقریبوں میں شرکت کیجئے۔

    (۳) اسلام کے بارے میں ٹوائن بی کا حوالہ یاد رکھئے۔

    (۴) پاکستانی کلچر پر بحث مقرر کیجئے۔ گندھارا آرٹ، ٹیکسلا اور موہن جود اڑو کے بارے میں جاننا لازم نہیں مگر حوالہ دینا نہ بھولئے۔

    (۵) یونیسکو اور اعجاز حسین بٹالوی سے INTOUCH رہئے۔

    مأخذ:

    علامتوں کا زوال (Pg. 75)

    • مصنف: انتظار حسین
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے