Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادب میں نظریے کا استعمال

مجتبی حسین

ادب میں نظریے کا استعمال

مجتبی حسین

MORE BYمجتبی حسین

    ادب اور نظریے کے ایک ساتھ ذکر ہی سے ہمارے ذہن میں ادب برائے ادب، ادب برائے زندگی اور دوسرے مختلف مباحث کا تصور پیدا ہونے لگتا ہے۔ حالانکہ ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحثوں میں الجھنے کے اب مشکل ہی سے کوئی معنی رہ گئے ہیں۔ ’’ادب برائے ادب‘‘ کی جمالیاتی ضد مدت ہوئی زمانے کے سردوگرم کے ہاتھوں ختم ہوچکی۔ ادب میں ’’شدھی‘‘ کی یہ تحریک زندگی سے گریز کی وجہ سے بے سہارا رہ گئی اور ۱۴ء کی جنگِ عظیم سے بہت پہلے ہی ناکام ہو کر دم توڑچکی۔ یہ ضروری ہے کہ اس کا نام لیوا اب دوسرے پیرایوں سے اس کے مردہ قالب میں جان ڈالنے کی وقتاً فوقتاً کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ’’ادب برائے زندگی‘‘ کی بحث معاشرتی مطالبات اور ان کے تضاد اور نزاع کی بدولت البتہ آج بھی بہت سے ایسے مسائل کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہے جن کا تعلق ادب اور معاشرے دونوں کی زندگی سے ہے۔ ادب اور زندگی کے تعلق سے اب صرف انہیں لوگوں کو انکار ہے جو زندگی اور ادب دونوں سے بے خبر رہنے پر مصر ہیں۔ ادب اور زندگی کا ربط گہرا ہے۔ دائمی ہے۔ اتنا تو غالباًسب مانتے ہیں مگر اب اس بحث کارخ دوسری طرف مڑگیا ہے۔ ادب اور زندگی کے تعلق کو تسلیم کرنے کے بعد بہت سے سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ زندگی کی معاشرتی نوعیت کیا ہے؟ اس معاشرے میں افراد کی اہمیت کیا ہے؟ آیا اس معاشرے کی اساس طبقاتی نزاع اور تضاد پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں جماعتی مفاد میں تصادم ہے یا یہ معاشرہ اپنے جماعتی مفاد کے تصادم کو نظرانداز کرکے ایک ایسی ’’روحانی کشمکش‘‘، ’’قوتِ حیات‘‘ یا ’’قوتِ جنسیہ‘‘ کے ماتحت آگے بڑھ رہا ہے یا آگے بڑھنے پر مجبور ہے جس کا تعلق ہماری مادی زندگی سے نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ ادب اس معاشرے سے براہِ راست متاثر ہوتا ہے یا اس پر کبھی کبھی معاشرے کادھندلا ساعکس پڑجاتا ہے۔ ادیب پر کسی قسم کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا وہ’’آزادیٔ مطلق‘‘ کا استحقاق رکھتا ہے۔ وہ کسی مخصوص طبقے کا نمائندہ ہوتا ہے یا پوری ہیئت اجتماعی کا۔ ادب کا جمالیاتی پہلو معاشرتی ہے یا غیرمعاشرتی۔ یہ انسانی جدوجہد اور تاریخی شعور کے ساتھ نوپذیر ہوا ہے یا ایک ازلی اور ابدی ’’تجلی‘‘ سے جلا پاتا ہے۔ اور خود ادب کی تخلیق معاشرتی ہے یا غیرمعاشرتی ہے؟ یہ اور اس قسم کے بہت سے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں اور ان کی بناپر ’’ادب برائے زندگی‘‘ کی بحث کو واضح کرنے کی غرض سے الجھایا بھی جاسکتا ہے۔ یہی نہیں یہ بحث اس صورت میں یہاں تک پہنچتی ہے کہ ادیب میں نظریات کی گنجائش ہے کہ نہیں۔ اگر زندگی ہمیں کوئی ’’سمت‘‘ دیتی ہے تو نظریات بھی منطقی طور پر لازماً پیدا ہوں گے۔ اس کے برعکس اگر ابھی یہ طے نہیں ہوسکا کہ زندگی اپنی تفصیل میں کن عناصر سے وقوع پذیرہوئی ہے، معاشرہ واقعی کوئی مربوط قوت ہے اور تاریخ طبقاتی نزاع کو لے کر ارتقائی منازل طے کرتی رہی ہے یا اس کے دوسرے اسباب و علل ہیں؟ یہ ایک غیرمادی باشعور یا اندھی قوت کی کرشمہ سازی ہے؟ اور ایسی ناطَے شدہ صورت میں کسی نظریے کی گنجائش کہاں ہے؟ لہٰذا ادب میں نظریے، نظریے کی رٹ زندگی کو سستے طور پر قبول کرلینے کی و جہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’نظریے والا ادب بے روح ہوتا ہے۔ اس میں سہلی پسندی ہوتی ہے۔ صحافت زدگی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ خود زندگی سے گریز ہوتا ہے۔ یہ اور اس قسم کے بہت سے سوالات اور الزامات اس گروہ کی طرف سے اب بھی اٹھائے جاتے ہیں جو زندگی سے گریز کرتاہے اور ان لوگوں پر عاید کیے جاتے ہیں جو ادبی مسائل، ادبی مطالبات، زندگی کے حسن، اس کی گہرائی اور اس کی گیرائی کو واضح اور نمایاں کرنے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں۔ جنہوں نے زندگی کو ایک حسن سمجھ کر قبول کیا ہے اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا یہ حسن مفادپرستی کے ہاتھوں اپنی تابانی کھوتا رہا ہے۔ ’’ادب برائے ادب‘‘ کے میدان میں شکست خوردگی کے بعد بعض نام نہاد ادیب اب زندگی اور ادب کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ ’’ادب برائے ادب‘‘ کی تحریک کے بانیوں میں کم از کم ادب کو سنوارنے، بلندکرنے، سمجھنے اور سمجھانے کا ایک جذبہ تو پایا جاتا تھا۔ ان کی تحریروں میں دیانت داری تھی مگر ان کے مریدوں میں ’’دیانت داری‘‘ کا تو سوال ہی بے سود ہے۔ ان میں جھوٹی سچی ادبی حسن کاری بھی مفقود ہے۔

    ادب اور نظریے کی بحث کا تعلق اصل میں ادب سے اتنا نہیں ہے جتنا زندگی کے بارے میں مختلف فلسفیانہ تاویلوں اور تعبیروں سے ہے۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ زندگی کا سر رشتہ مادی مظاہر میں تلاش کیا جاسکتاہے تب تو نظریات کی گنجائش ہے ورنہ اگر زندگی کی کوئی جہت اور غرض وغایت نہیں ہے تو نظریات کا وجود ہی بے معنی ہوجاتا ہے۔ ادب میں نظریات کا رکھنا۔ ان کا استعمال تو بعد کی چیز ہے۔

    فلسفیانہ حیثیت سے اس مسئلے کی (جزویات سے قطع نظر) دوہی نوعیتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ زندگی گونگے کا خواب ہے۔ اس کی غرض وغایت۔ ’’عرض اور جوہر‘‘ سے ہم ناواقف نہیں۔ لہٰذا زندگی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ دوسری یہ کہ زندگی کا ایک مادی وجود ہے۔ اس مادی وجود سے رومانی فلسفہ نے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ اگرچہ اس نے اسے ’’حُدوث اور قدِم‘‘ کی بحث میں الجھا دیا ہے۔ اس زندگی کا سب سے زبردست مظہر ہمارا معاشرہ ہے۔ جس میں ہم ایک مقصد کے ماتحت جدوجہد کرتے ہیں۔ جس کے اصول اور آئین وضع کرتے ہیں۔

    پہلی نوعیت کاتعلق کلبیت cynicism اور ایک حد تک تشکیک scepticism سے ہے۔ ’’کلبیت‘‘ زندگی کے تمام متعلقات اور محرکات کو حقارت اور بے نیازی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ یہاں معاشرہ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے تو افراد کا ہے۔ اور یہ افراد بھی اپنی اپنی جگہ ’’فرعون بے سروساماں‘‘ بنے بیٹھے ہیں جنہیں کسی چیز سے نہ سروکار ہے، نہ دلچسپی ہے۔ کیسا دکھ کہاں کاسکھ۔ سب لغو ہے۔ کسی چیز کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اسی قسم کی طرز زندگی آگے بڑھ کر نراج Anarchy اور عدمیت Nihilism سے مل جاتی ہے۔ مگر کلبیت کاتعلق اس قدیم دور سے ہے۔ جب زندگی کو ترتیب دینے اور اس کی ترجمانی (Interpret) کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ اس لحاظ سے ہم اس رویے (attitude) کو یکسر ’’حمق‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ یہ بہرنوع زندگی کو سمجھانے کی ایک کوشش تھی جو جلد ہی ختم ہوگئی۔ اسی رویے نے کم و بیش ’’تشکیک‘‘ کو جنم دیا۔ مشککین کے گروہ نے زیادہ فلسفیانہ تنظیم کے ساتھ مسائلِ حیات کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے مادی اور غیر مادی، خارجی اور داخلی حقائق اور کوائف کے ربط اور ان کی وضاحت میں ایک قدم آگے بڑھایا۔ مشککین کا کہنا یہ ہے کہ ہمارے حواس صرف اس قدر بتاسکتے ہیں کہ کوئی شے اس طرح معلوم ہوتی ہے یا دکھائی دیتی ہے۔ مگر وہ شے اصل میں ہے کیا؟ یہ ہم نہیں جانتے۔ ظاہر ہے ہمیں وقوف ہے۔ باطن کے بارے میں ہمیں کوئی واقفیت نہیں ہے۔ گھاس ہمیں ہری معلوم ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ گھاس خود ہری ہے۔ اسی فلسفے نے اس زمانے میں بہت اثر کر اور مجہول ہوکر نفسیات میں تصوریت کی توہم پرستی کو رواج دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس دور میں تشکیک صم تک پہنچنے کی ایک سعی تھی۔ آج حیاتیات Biology، طبعیات Physics معاشی علوم کی موجودگی میں خارجی اشیا کے وجود سے انکار مضحکہ خیز ہے۔ ’’تصوریت‘‘ ایک بیمار اور مجہول ذہن کی علامت کے سوااور کچھ نہیں ہے، ہرچند کہیں کہ مے نہیں ہے۔ کی نفسیاتی یا فلسفیانہ تاویل اب ایک فرد کی داخلی زندگی کی تسکین کے لیے بھی بے کار ہے۔

    بہرصورت قدیم مشککین نے کسی شے کی ماہیئت کی جستجو میں علم اور ادراک کے یقینی پہلو سے گریز کیا تھا۔ کارمیڈیز کے قول کے مطابق ہم اپنے علم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں فلاں قسم کے تصورات یا احساسات پیدا ہوئے ہیں اور بس۔ ان کی اصل حقیقت کیا ہے ہم اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ بے یقینی ذہنی اور مادی زندگی کا ربط تلاش نہ کرسکی۔ اور کوئی ایسا حل نہیں پیش کرسکی جس کے ذریعے ہم اپنی زندگی میں کوئی قدم کسی مقصد کے ماتحت اٹھاسکیں۔ جب کوئی چیز طے ہی نہیں ہے تو پھر کسی کام کو سرانجام دینے سے کیا حاصل۔ اگر منزل کا تعین ہی نہیں ہے تو سفر سے کیا فائدہ۔ راستے کا بھی تعین ٹھیک سے نہیں ہے۔ معلوم نہیں منزل ہے کہ نہیں۔ راستہ ہے بھی کہ نہیں؟ ہمارے روز مرہ کے مسائل اس فلسفہ کے ماتحت صرف ایک ذہنی ردعمل ہوکر رہ جاتے تھے۔ یہی وہ دقت تھی جو آگے چل کر اٹھارویں صدی میں کانٹ کو پیش آئی۔ ’’علم‘‘ Knowledge اور وجدان Intention کی بحث کے سلسلے میں آخر کار اسے ’’ضمیر کے حکم آخر‘‘ Categorical interaction سے مدد لینا پڑا۔ پھر بھی یہ مسئلہ الجھا ہی رہا۔ ایک طرف تو خارجی اشیاء کا وجود تقریباً طے ہوجاتا ہے۔ تقریباً اس لیے کہ ان اشیاء کی ماہیت کا ادراک ہمیں نہیں ہے۔ دوسری طرف ایک ’’داخلی ادراک‘‘ اور ہے جو ان خارجی اشیا ءکا پرتو نہیں ہے۔ ’’بلکہ وجود ہے‘‘ ۔ اب دقت یہ آپڑتی ہے کہ ان کے مابین ربط کیونکر قائم کیا جائے۔ دنیا کا کاروبار کیونکر چلے۔ عملی زندگی اور داخلی زندگی کا میل کیونکر قائم کیا جائے۔ کیونکہ یہ دونوں ادراکات خارجی اور داخلی۔ جنہیں کانٹ مکان Space اور زمان Time کے ادراکات میں تقسیم کردیتا ہے۔ ایک دوسرے سے اپنی نوعیت اور ماہیت کی بناپر بالکل مختلف نہیں۔ ان دونوں کا وجود بغیر کسی واسطے کے ہے پھرانہیں ربط کیونکر دیا جائے اور بغیر اس کے کام چلتا نظر نہیں آتا۔ اسی لیے کانٹ نے وجدان خالص سے مدد لی ہے جو ان دونوں پر حاوی ہے اور ان دونوں کو کسی نہ کسی طرح جوڑ کر کائنات کو بامعنی بنانے کی کوشش کی ہے۔ کانٹ زمان و مکان دونوں کے مجموعی ادراک کو روح کی اصلی خصوصیت بتاتا ہے۔ پھر بھی یہ وجدانِ اعلیٰ۔ یا ادراکِ خالص وقوف اور علم Knowledge کا حقیقی منبع نہیں ہوسکتا اس لیے کہ خارجی اشیاء کا ادراک ناممکن ہے۔ دوبالکل علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔ ایک داخلی وجدان۔ اور دوسری خارجی اشیاء۔ اس کا احساس خود کانٹ کو بھی تھا۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ صرف زمان ومکان کا ادراک ناکافی ہے۔ واقفیت اور علم اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک خارجی مظاہر کا رشتہ نہ تلاش کیا جائے اور ان کو خیالات سے ربط دینے کی کوشش نہ کی جائے مگر اس طرح خود کانٹ کے فلسفہ تشکیک میں تضاد پیدا ہوجاتا ہے اور ایک پراسرار شئے مطلق (Thing in itself) کاوجود سامنے آتا ہے جو کانٹ کی عقلیت اور وجدان دونوں کو ختم کردیتی ہے۔

    بہرصورت اس فلسفۂ تشکیک کا خلاصہ یہ ہوا کہ یہ ممکن ہے کہ ہم کسی شے کی خصوصیات کا صحیح اندازہ لگائیں مگر اس شے کو بذاتِہ کسی ذہنی یا حسی طور پر معلوم کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس جگہ ہیگل نے جو مسکت جواب دیا ہے وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے۔ اگر ہم کسی شے کی تمام خصوصیات سے واقف ہوجاتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس شئے سے بذاتہ واقف ہوگئے۔ اب سوائے اس کے اور کوئی بات معلوم کرنے کی باقی نہیں رہ جاتی کہ شئے مذکورہ جس کی خصوصیات سے ہم واقف ہوچکے ہیں ہمارے بغیر بھی اپنا وجود رکھتی ہے۔ ان تمام پہلوؤں کی طرف اب انسان کی نظر جانے لگی۔ اس کے سامنے پہلی بار صحیح معنوں میں ایک واضح اور باشعور مقصدِ حیات آیا۔ اب وہ افسانویت اور ماورائیت کے دھندلکوں سے نکل کر سائنس اور معاشی علوم و فنون کی روشنی میں آگے بڑھنے لگا۔ اس کا اور اس کی دنیا کا وجود اب مسلم (Established) ہوچکا تھا۔ کلبیتؔ، تشکیکؔ اور اس قسم کے دوسرے فلسفوں کی گنجائش اب نہیں رہ گئی تھی۔ اب سائنس کی ترقیات اور دریافتوں اور دیگر سماجی علوم کے فروغ کازمانہ آچکا تھا۔

    یہ تو ہوئی ’’زندگی اور نظریے‘‘ کی بحث کی پہلی نوعیت جس کے بارے میں انیسویں ہی صدی نے اپناآخری حکم سناکر تمام توہمات، فرسودہ روایات، مابعد الطبیعاتی رموز اور نکات اور غیرمادی تعبیرات کو مسترد کردیا تھا۔ اب زندگی کو سنجیدگی سے قبول کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ اور اس کے لیے کسی نہ کسی نطریے کی ضرورت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج بھی چند زوال پسند لکھنے والے اپنے داخلی ہیجانات اور جنسی الجھنوں کو ایک نیم روحانی اور نیم فلسفیانہ انداز میں پیش کرنے پر مصر ہیں۔ مثلاً وجودیت پرست (existentialist) جن کا انسان سائنس تاریخ اور جملہ انسانی علوم و فنون سے بے بہرہ ہے۔ وہ بس اس دنیا میں کسی نہ کسی طرح آگیا ہے۔ اب آگیا ہے تو جائے کہاں۔ بڑی مجبوری ہے۔ یہ بھی مجبوری ہے کہ وہ شعور حاصل کرلیتا ہے۔ پھر تو مجبوریوں کاایک لمبا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ بے چارہ انتخاب کے لیے مجبور ہے۔ انتخاب میں جو حیض بیض اور دکھ ہے اسے سہنے پر مجبور ہے۔ امید و بیم کے درمیان رہنے پر مجبور ہے۔ تیاگ اور بے تعلقی پر مجبور ہے۔ حد یہ ہے کہ مایوس ہونے پر مجبور ہے۔ اس فلسفے میں انسان نہیں بدلتا۔ مواقع بدل جاتے ہیں۔ But men is always the same facing is situation which is always changing.

    یہ سارترے صاحب کا فرمان ہے۔ جو تمام انسانی ترقیوں۔ معلومات اور مطالبات کی تضحیک ہے۔ بہرنوع اس قسم کی تاویلیں اب دل بہلاوے کی طور پر رہ گئی ہیں جن کا کام چند ایسے لوگوں کو متاثر کرنا ہے جن کا کوئی کام نہیں رہ گیا ہے۔

    ’’ادب اور نظریے‘‘ کی بحث کی دوسری نوعیت یہ ہے کہ دنیا کا ایک حقیقی وجود ہے۔ انسان یہاں سوچتا سمجھتا ہے اور اپنے مقاصد اور مصالح کے ماتحت عمل کرتا ہے۔ مذہبی تحریک ہو یا غیرمذہبی تحریک۔ رومانی فلسفہ ہو یا عقلی اپنے اختلافات کے باوجود انسانی زندگی کو فضول، مضحکہ خیز اور بے ربط و بے عنوان نہیں سمجھتا۔ افراد کی معاشرتی زندگی۔ تہذیب اور تمدن کی برکتوں کا قائل ہے۔ ایسی صورت میں زندگی گزارنے کے کسی نہ کسی نظریے کاتعین ناگزیر ہوجاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مختلف تحریکات اور فلسفوں کے نظریات ٹکراتے ہوں۔ اس بحث کے یہاں اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بحث زندگی کے بارے میں نظریہ رکھنے یا نہ رکھنے کی تھی۔ اور یہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ نظریہ ’’نہ رکھنے‘‘ والے فلسفے اب مفلوج اور بے بنیاد ہوچکے ہیں۔ دوسرے فلسفے زندگی کے بارے میں ہمیشہ سے ایک مخصوص نظریہ رکھتے چلے آئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے نظریات ردکیے جاچکے ہیں۔ بہت سے اب تک مخصوص حالات اور نظامِ معاشرہ کی وجہ سے گِھسٹ رہے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو اپنی بقاء کے لیے آخری اور فیصلہ کن جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہاں ان تمام مباحث سے ہمیں سروکار نہیں ہے۔ ہمیں تو یہ دیکھنا تھا کہ زندگی کے بارے میں آج سے نہیں صدیوں پہلے نظریات وضع ہوتے چلے آئے ہیں۔ یہ نظریات ہر دور میں اپنے اپنے نظام معاشرہ کے ماتحت۔ اخلاقیات، سیاست۔ تاریخ اور ادب کو متاثر کرتے رہے ہیں۔! اتنا سمجھ لینے کے بعد یہ بھید نہیں کھلتا کہ ’’ادب اور نظریے‘‘ کا ذکر چھیڑتے ہی کچھ لکھنے والے چونک کیوں پڑتے ہیں۔ اور مشکوک نظروں سے کیوں دیکھنے لگتے ہیں۔ آخر وہ کون سی آگ ہے جو ان الفاظ پر بھڑک اٹھتی ہے۔ اس قسم کے حضرات کو معاً یہ شک گزرتا ہے کہ اب آئی سیاست کی بات! ایک زمانہ تھا کہ چنانچہ جب ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا تو ہم اس شئے مطلق Thing in itself سے کلی طور پر واقف ہوگئے۔

    اس فلسفہ تشکیک کی خامیوں اور تناقص سے قطع نظر ہمیں یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس نے زمان و مکان کے ربط اور خارجی اشیاء اور ان کے ذہنی ادراک او رعلم کے سلسلے میں بڑی کاوش اور سنجیدگی سے غور و خوض کیا ہے۔ زندگی کے حقائق کی تلاش و جستجو میں بڑی سرگرمی دکھائی ہے۔ کانٹ کے زمانے میں طبعیات اور حیاتیات اپنے ابتدائی مدارج میں تھیں اور خارجی اشیاء کی ماہیت دریافت نہ ہوسکی تھی۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ کانٹؔ نے ’’تاریخِ قدرت اور آسمانی نظریہ‘‘ (General Natural History and Theory of heaven) لکھ کر پہلی بار پورے نظامِ شمسی کی حرکت اور ان کے بتدریج وجود اور ارتقا سے خود سائنس کو آگاہ کیا۔ اور اس طرح کائنات کے یک بیک وجود میں آجانے کے غیر حرکی نظریہ پر کاری ضرب لگائی۔

    کلبیت کاوجود پہلے ہی ختم ہوچکا تھا۔ اب حیاتیات۔ طبیعات۔ علم کیمیا اور دوسرے سماجی علوم و فنون اور انسانی تاریخ کے ارتقا اور شعور کے بعد فلسفۂ تشکیک بھی ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔ اب کائنات کی غیرمادی اور غیر عقلی تعبیر کا سوال نہیں رہ گیا تھا۔ اب کائنات کے ارتقائی منازل کو زیادہ سے زیادہ تفصیل کے ساتھ دریافت کرنے کی مہم جاری تھی۔ تاکہ ایک کڑی سے دوسری کڑی مل سکے۔ زندگی کے منبع اور مخرج اور اس کی ساری ارتقائی تاریخ ہمارے سامنے آچکی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی معاشیات نے ہمیں ہر دور کے تاریخی مطالبات اور انسانی جدوجہد سے آگاہ کردیا ہے۔ اب کائنات ایک تغیر پذیر، بامعنی اور بامقصد صورت میں ہمارے سامنے آچکی ہے۔ ظن اور قیاس کا دخل اب نہیں ہے۔ برگساںؔ کی طرح اب کسی قوتِ حیات clam vital کا واسطہ دلانے سے آدمی خود کو جبر اور داخلیت میں اسیر نہیں کرسکتا۔ جولین ہکسلے (Julian Huxley) کے بقول اس قسم کی تاویلات اپنے جہل کا اعتراف کرتے ہیں۔ However these are in reality not explanation at all but more confessions of ignorance.

    مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کائنات کے تمام راز آشکار ہوگئے ہیں۔ یا انسانی زندگی کے دکھ درد کا حل قواعد اور ضوابط کی شکل میں پیش کردیا گیا ہے۔ اب کسی تاریخی۔ سماجی اور سائینٹفک تجسس اور تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تمام بحث کا مقصد یہ ہے کہ انیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے انسانی محنت اور شعور، تجربات اور تحقیق اور سماجی مطالبات نے توہمات اور قیاساتِ ماورائی اور غیرمادی فکر و نظر کی جگہ زندگی کو ایک سائنٹفک مزاج دیا۔ خارجی مظاہر کی حقیقت اور ان کے وجود سے آشنا کرایا۔ یہ بتایا کہ دنیا ایک ارتقائی مرحلے سے گزری ہے اور گزرتی رہے گی۔ ڈارونؔ کے نظریۂ ارتقا نے آدمی کو ’’زمین‘‘ دی جس پر وہ صدیوں سے چلتا پھرتا رہا ہے۔ اور جس کے حقیقی یا غیرحقیقی ہونے کی بحث میں وہ مبتلا رہا۔ اس کی معلومات اب اس منزل پر پہنچ گئیں جہاں وہ واقعی اس زمین سے اپنے وجود کو منسلک کرپایا۔ انیسویں صدی میں تاریخِ معاشیات اور فلسفہ کی دنیا میں بھی انقلاب آیا۔ وہ فلسفہ جسے ہیگلؔ نے ’’سر کے بل کھرا کردیا تھا۔‘‘ مارکسؔ نے پھر اسے ’’اپنے پیروں پر کھڑا کردیا‘‘ اور انسانی تاریخ کو محض چند افراد کے کارنامے اور عقائد پر منطبق کرنے کے بجائے نئی وسعتیں اور امکانات دیے۔ انسانی محنت اور اس کی عظمت سے تاریخ کی مردہ روح کو زندگی اور حرکت دی۔ اقتصادیات اور سماجی زندگی کے تمام مظاہر کے گہرے ربط کو واضح کیا۔ ایک مخصوص معاشرے کو اقتصادی ضروریات کس طرح تشکیل دیتی ہیں۔ کس طرح مختلف طبقات اپنے مفاد کے پیش نظر آپس میں برسرپیکار رہتے ہیں۔ اور کس طرح اس معاشرے کی کہنگی اور طبقاتی نزاع سے ایک نیا معاشرہ جنم لیتا ہے۔

    جنس کو ادب کے لیے بعض اخلاقی حکیموں کے ’’شجرِ ممنوعہ‘‘ قرار دے دیا تھا۔ آج ’’آزادیٔ مطلق‘‘ کے علمبرداروں اور فرد کی ’’داخلی روحانیت‘‘ کو ’’محسوس‘‘ کرنے والے صوفیوں نے ’’سیاست‘‘ کو ادب کے لیے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیاہے۔ ایسے ہی مجہول لکھنے والوں کے جواب میں ’’گوٹ فرایڈ کلر‘‘ Gottfried Keller نے کیا خوب کہا تھا۔ ہر چیز سیاست ہے (Every Thing is politics) ۔ جس کے معنی صرف یہ تھے کہ سیاست ہماری زندگی کے عمل اور ردعمل۔ قوانین اور آئین، نظریے اور عقائد کا مجموعی خاکہ پیش کرتی ہے۔ سیاست کے نام پر وہ وہی لوگ چونکتے ہیں۔ وہی لوگ ڈرتے ہیں جو خود کسی ایسے طبقے کی سیاست سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ جو خوف اور ہراس کے ساتھ اپنی موت کاانتظار کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’سیاست‘‘ کے لفظ سے وہ خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ورنہ یوں خفا اور ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔

    ادب اور نظریے کی بحث آج کی نہیں ہے بہت پرانی ہے۔ مگر پہلے اس سلسلے میں ’’سیاست‘‘ کا لفظ درمیان میں نہیں آتا تھا۔ جمالیات فلسفہ۔ ذوق و وجدان۔ اسالیب۔ ادبی بلندی اور پستی کے سوالات اٹھتے تھے۔ مگر اب اس بحث کے ساتھ ہی سیاسی تصورات کیوں ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ہمیں چاہئے کہ منہ بنانے اور ’’ادبی پاکیزگی‘‘ کا واسطہ دلانے کے بجائے انسانی تاریخ کے ارتقا پر غور کریں۔ ادب نے سماج کے ساتھ شعور کی منزلیں طے کی ہیں۔ دیومالا اور خرافاتی دور سے لے کر آج تک ہماری زندگی کن تغیرات سے گزری ہے اور کن تغیرات سے دوچار ہوئی، اس پر اگر ہم غور کریں تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ طبقاتی نزاع اور تضاد نے ہمیں ایک ایسی جگہ پہنچادیا ہے جہاں مسائل حیات واضح تر ہوچکے ہیں۔ پہلے مختلف علوم و فنون اتنے شعوری طور پرمعاشرے سے قریب نہیں ہوئے تھے جتنے آج ہیں۔ پہلے وہ شعوری کم اور غیرشعوری طور پر زیادہ زندگی کے ترجمان تھے۔ آج بھی ان کی اصولی حیثیت علیحدہ ہے۔ مگر اب وہ شعوری طور پر معاشرے سے وابستہ ہوتے جاتے ہیں۔ نئے حقائق اور معارف نے زندگی کے ہر شعبے کا ربط ایک دوسرے میں تلاش کرلیا ہے۔ اب یہ شعبے ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کے باوصف ایک دوسرے سے متعلق بھی ہیں۔ ایک دوسرے پر برابر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ سماجی زندگی جن عناصر سے تشکیل پاتی ہے۔ جیسے اقتصادیات، سیاست، فلسفہ، جنسیات، حیاتیات، تہذیبی اور تمدنی تحریکات۔ ان سب کا آپس میں ربط نہ صرف دریافت ہوسکا ہے بلکہ ہم اسے قبول کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ ان سب کا مجموعی اثر ہماری زندگی پر پڑتا ہے۔ اور ہم مجرد طور پر ان عناصر میں سے کسی ایک کو اپنی خوشحالی یا زبوں حالی۔ جذبات اور نظریات کی تعمیر کا باعث نہیں بتاسکتے۔ ہماری جہالت کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ اچھی تعلیم نہیں ملتی۔ اور اچھی تعلیم نہ ملنے کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ اچھے معلم نہیں ہیں۔ اچھے معلم نہ ملنے کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ تنخواہ کم ملتی ہے۔ تنخواہ کم ملنے کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ ملک تباہ حال ہے؟ غرض کہ یوں تجزیہ کرتے چلے جائیے اور آخر کار اس کی تان ہمارے سیاسی نظام یا معاشرتی نظام پرٹوٹتی ہے۔! یہی وجہ ہے کہ آج زندگی کاکوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کا کوئی حل علیحدہ سے پیش کیا جاسکے۔ سیاست ہماری زندگی کا اہم ترین جزو ہوگئی ہے۔ اس سیاست کے معنی چند افراد کی لوٹ کھسوٹ نہیں ہے۔ بلکہ پورے ہیئتِ اجتماعی کااپنے مفاد کے لیے ایک بہتر نظامِ زندگی تجویز کرنے کا حق جہاں ان کاعلم و فن۔ ادب و تہذیب پھل پھول سکے۔ جہاں ان کے تصورات اور جذبات برسراقتدارطبقے کی ہوس زرکا شکار ہوکر نہ رہ جائیں۔

    ادب نے انسانی محنت کے ساتھ آنکھیں کھولیں۔ اس کاجمالیاتی شعور انسانی محنت اور اس محنت کی تعمیری جدوجہد کے ساتھ پروان چڑھتا گیا ہے۔ آج انسانی محنت اپنے پورے جلال و جمال کے ساتھ ایک ایسے طبقے کے سامنے کھڑی ہوئی ہے جو اسے خریدنے اورخرید کر منڈیوں میں بیچنے کی ہر ممکن چال چل رہا ہے۔ ادب اس تاریخی موڑ پرپہنچ کر اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔ اس کی ذمہ داریاں پہلے کے مقابلے میں ہزار گنا بڑھ گئی ہیں۔ آج تنگ نظری اس کی موت ہے اور وسیع النظری اس کی زندگی کاواحد ذریعہ۔ اسے جملہ مسائل کو اپنانا ہوگا۔ اسی لیے اب صرف فرد اس کی توجہ کا مستحق نہیں ہے۔ پوری ہیئتِ اجتماعی اس سے آس لگائے ہوئے ہے۔ غالباً یہی سبب ہے کہ آج ادب اورنظریے کی بات چھڑتے ہی سیاسی مسائل (جن کا تعلق ہماری پوری معاشرت سے ہے) کاتصور ابھرنے لگتا ہے۔۔۔ اور یہی وجہ ہے کہ مفاد پرست طبقے کے نقیب سیاست کے نام پر کف در دہاں ہوجاتے ہیں۔ یہ نہ صرف ا یک اعصابی کمزوری کی نشانی ہے بلکہ ایک نوع کا سماجی جرم بھی ہے۔! بہرصورت اگر زندگی میں نظریات کی گنجائش ہے۔ تو ادب میں بھی نظریات کی گنجائش ہمیشہ رہے گی۔ یہ نظریات کس قسم کے ہیں۔؟ انسانیت کی فلاح و بہبود میں کام آسکتے ہیں یا نہیں یہ دوسری بحث ہے۔

    اب اس کے بعد یہ مسئلہ یا مرحلہ سامنے آتا ہے کہ نظریے ادب میں کس طرح آتے ہیں۔ ان کااستعمال کیونکر ہوتا ہے یا کیا جاسکتا ہے۔ یہاں بھی ’’ہیئت پرست‘‘ اور ’’انسانیت دشمن‘‘ ۔ ’’ادیب‘‘ ۔ یہ الزام عاید کرتے ہیں کہ ادب پر نظریہ عاید کرنے سے ادب ’’پروپیگنڈا نواز‘‘ صحافتی، ہنگامی، سطحی، بے رنگ، بے کیف، پست اور لچر ہوجاتا ہے۔ یہ ایک اعلان نامہ یا پندنامہ ہوکر رہ جاتا ہے۔۔۔ مدرس اور ادیب کے فرائض جداجدا نہیں۔ نظریے کاادب کسی اخلاقی۔ سیاسی یا معاشرتی منشور کی طرح ہوجاتا ہے۔ جس میں انسانی جذبات، احساسات، افکار اور کوائف کی گہرائی اور دلکشی مفقود ہوتی ہے۔ ادب ایک رٹا ہوا سبق ہوجاتا ہے۔

    یہ وہی ذہنیت ہے جو پہلے ’’ادب برائے ادب‘‘ کو کلیجے سے لگائے رہی۔ بعد میں جبراً و قہراً۔ غالباً اپنی ’’کم علمی‘‘ چھپانے کی غرض سے ادب برائے زندگی کو مشروط طور پر قبول کرنے پر تیار ہوئی۔۔۔ اب اس کے حملے کا رخ اس طرف ہوگیا ہے تاکہ نظریہ رکھنے کے باوجود ادیب کم از کم ادب میں اپنے نظریات کے اظہار یا ان کے استعمال سے پرہیز کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی ذہنیت کے ’’ادیب‘‘ نہ پہلے زندگی کے مقصد و معنی کے قائل تھے نہ آج ہیں۔ ایک ’’ادبی دھوکا‘‘ دینے کے لیے ایسے ادیب زندگی اور ادب اور نظریات کو قبول کرلیتے ہیں۔ مگر جب ان کے تحریری ثبوت کا وقت آتا ہے تو یہ نہ صرف ’’ادب‘‘ کو نظریوں سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی یہی ترغیب دیتے ہیں۔

    ادب میں نطریے کے معنی کسی اعلان نامے یا پروپیگنڈا کے نہیں ہوتے۔ حالانکہ ادب ایک صورت میں اعلان نامہ اور پروپیگنڈا بھی ہوتا ہے۔ ادب یقیناً یہ بتاتا ہے کہ ہم کس سے محبت کریں کس سے نفرت کریں۔ لیکن اس کی سطح اور اس کا اسلوب دوسرا ہوتا ہے۔ یعنی ادبی ہوتا ہے۔

    نظریے اور اعلان نامے یا پند نامے کو مترادف سمجھ لینا (خواہ وہ ادب میں ہوں یا کہیں اور ہوں) جلد بازی اور ’’غیرضروری چالاکی‘‘ ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ (اس غلط فہمی پھیلانے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے) شعور کا اظہار جب بھی ہوگا وہ ایک نہ ایک نظریے کے ماتحت ہوگا۔ اس طرح ہر نظریہ کسی نہ کسی شعور کے ماتحت ہوگا۔ ان دونوں کے تعلقات کو اچھی طرح سمجھا نہیں گیا ہے۔

    نظریے کی بحث اصل میں شعور کی بحث ہے۔ انسانی زندگی مسلسل تجربات، سماجی تغیرات، تاریخی رجحانات، تہذیب اور تمدن کے ارتقا، سائنس اور مختلف علوم نے ہمیں ایک شعور دیا ہے۔ یہ شعور ہماری ہر جہتی ترقی کے ساتھ زیادہ صاف، نمایاں، وسیع اور اجتماعی ہوتاگیا۔ اس شعور کو آپ پرکھ، اندازِ نظر، نیک و بد، خیر و شر کی تمیز، انسانی ترقیات اور فتوحات کا احساس اور ادراک جو چاہے کہہ لیجیے۔ یہ شعور زندگی کی قدروں سے پیدا ہوتا ہے۔ اور بعد میں زندگی کی قدروں کو پیدا کرتا ہے۔ انہیں تبدیل کرتا ہے۔ آگے بڑھاتا ہے۔ یہ شعور انسانی سماج میں زندہ رہتا ہے، اور اس سے ہٹ کر مردہ ہوجاتا ہے۔ اسی شعور کو سمجھانے اور پہچاننے کے لیے اور اس کی تعریف کرنے کے لیے ہم نظریے کا نام دیتے ہیں۔ تاکہ بات دوسروں تک پہنچانے میں اور اس کی توضیح کرنے میں آسانی ہوجائے۔ خالی خولی نظریے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے جب تک شعور کارفرما نہ ہوگا یہ بالکل ایسا ہی ہوجائے گا جیسے ایک آدمی کے ہم صرف نام سے واقف ہوں اور اس کے افکار و جذبات سے واقف نہ ہوں۔

    ادب یا کسی اور شعبے میں نظریے کے معنی شعور کے سوا اور کچھ نہیں ہوتے۔ اس لیے جب ’’نظریہ‘‘ کا لفظ آئے تو اس پر پریشان یا پشیمان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ بغیر اس لفظ کے ہم کسی شئے یا کسی عمل کی سمت اس کی خصوصیات اور اس کی نوعیت نہیں متعین کرسکتے۔ چنانچہ کوئی بھی ادب ہو۔ کسی زمانے کا ادب ہو اپنے نظریات ہی کی وجہ سے متعین ہوسکتا ہے۔ اس کی روایات، اس کے رجحانات۔ اس کی پستی یا بلندی کا اندازہ نظریات کے بغیر ناممکن ہے۔ ہر زمانے کا ادب شعوری یا غیرشعوری طور پر اپنے نظریات کے ماتحت وجود میں آتا رہا ہے۔ اور ان نظریات کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں کرتا رہا ہے۔ جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا گیا۔ ادب بھی زیادہ باشعور ہوتا گیا۔ دوسرے لفظوں میں نظریات کا اظہار نمایاں طور پر ہونے لگا۔

    اب سوال یہ ہے کہ ادب میں نظریے کا استعمال یا اظہار کس طور پر ہوتا رہا ہے اور ہوگا یا ہوسکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ادب میں نظریے کا استعمال کبھی پندنامے۔ یا سیاسی، سماجی اور اخلاقی منشور کی صورت میں نہیں ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ اچھا ادب باشعور ہوتا ہے اور تلقین نہیں کرتا۔ وہ انسانی زندگی کے پیچ و خم اور جذبات اور افکار سے ہمیں ہم آہنگ کرتا ہے۔ وہ انسانی دکھ سکھ آرزوؤں اور امنگوں، کامیابیوں اور ناکامیوں، عزائم اور حوصلوں کی جیتی جاگتی تصویر ہوتا ہے۔ ایسا ادب معاشرے کی جو فضا پیش کرتا ہے وہ ہمارے لیے اجنبی اورنامانوس نہیں ہوتی۔ ہم اس معاشرے کی فضا میں سانس لینے لگتے ہیں۔ اس میں چلنے پھرنے والے افراد کی طرح غم اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اچھی چیز کو قبول کرتے ہیں۔ بری چیز کو رد کرتے ہیں۔ ادب کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ ہمیں ایسے عالم میں لے جاتا ہے جہاں ہم بغیر کسی دوسرے شخص کی ہدایت، تلقین اور نصیحت کے معاشرے کے تمام حسن و قبح کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک مخصوص معاشرے کے پورے خدوخال آجاتے ہیں۔ اور ہمیں یہ طے کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ اس کے خدوخال کہاں تک بے ڈھنگے ہیں۔ یہی وہ نظریہ ہے جو ادب رکھتا ہے۔ اور قاری کو بھی اس میں شریک کرلیتا ہے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ باشعور ادیب کے لیے نظریہ نعرہ بازی کا کام نہیں دیتا۔ نظریہ اس کے احساس، جذبات، جمالیاتی حس اور سماجی ادراک میں گھل مل جاتا ہے۔ ایک زندہ اور متحرک صداقت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہی صداقت ایک شاعرانہ اور ادبی صداقت کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ نظریہ ایک دیدۂ بینا بن جاتا ہے۔ جو زندگی کے حقائق کے چہرے سے نقاب الٹتا رہتا ہے۔ جب تک نظریہ ادیب کی شخصیت نہیں بن جاتا (ادیب کی یہ شخصیت ایک مخصوص معاشرے کی پروردہ ہوتی ہے) ادب میں توانائی اور حسن نہیں بیدار ہوتا۔

    اس سلسلے میں ایک اور امر وضاحت طلب ہے۔ ادب میں بعض اوقات نظریہ کا اظہار براہِ راست بھی ہوتا ہے۔ یہ اظہار ہمارے ادبی ذوق کومجروح کرنے کے بجائے تقویت پہنچاتا ہے۔ مگراس اظہار کے لیے ادیب کو ایسی فضا پہلے ہی سے تیار کرنی پڑتی ہے تاکہ ہم نظریے کے استقبال کو تیارہوجائیں۔ ادیب رفتہ رفتہ ایک ایسا ماحول تیار کرتا ہے جہاں نظریہ کا اظہار لازمی ہوجاتا ہے۔ یہ اچانک ہم پرپھٹ نہیں پڑتا۔ بلکہ اس کے لیے ہم پہلے ہی سے گوش برآواز رہتے ہیں۔ شاعری میں اس نظریے کااظہار عموماً بڑی بے تکلفی، چابکدستی اور زندگی بخش طور پر ہوتا ہے۔ ہر دور کی شاعری خواہ اس کا موضوع کچھ بھی رہا ہو علی الاعلان اپنے نظریے کا اظہارکرتی رہی ہے۔ ’’حسنِ لیلیٰ عکسِ رخسارِ من است‘‘ سے لے کر ’’آندھیاں آنے کو ہیں اے بادشاہی کے چراغ‘‘ تک اس اظہار سے کام لیاگیا ہے۔ ہارڈی کے ناول ten اور امراؤ جان ادا دونوں کے اختتامیہ میں نظریے کااعلان موجود ہے۔ وہ ذہنیت بڑی عبرت ناک ہے جو ’’میں محبت کے گیت گاتاہوں‘‘ کو ادب سمجھتی ہے۔ اور ’’میں ا نسانی عظمت کے گیت گاتا ہوں‘‘ کو نعرہ بازی سمجھتی ہے۔ یہ دراصل مردہ جاگیرداری اور مجہول سرمایہ داری کی پروردہ ذہنیت ہے جو حالات کے تقاضوں سے آنکھ بند کیے داخلیت کے حجرے میں بیٹھی ہے۔ اسے یہ نہیں معلوم کہ زمانے کے تغیر کے ساتھ زندگی کے بعض رخ دھندلے پڑجاتے، بعض زیادہ چمک اٹھتے ہیں اور انہیں کے ساتھ ادب کی نظرِ انتخاب بھی بدلتی رہتی ہے۔ ادب کی توجہ کا مرکز کچھ ایسے موضوعات بھی بن جاتے ہیں جو اس سے پہلے معاشرے کے بطن میں پوشیدہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب سماجی اور سیاسی حالات کا جائزہ اور تجزیہ ادب میں آتا ہے تو اکثر زوال پرست لکھنے والے اسے ہنگامی اور صحافتی کہہ کر اپنی پسپائی اور کہولت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

    نظریات کے اظہار کی بحث میں ادب کی مختلف اصناف کے امکانات اور گنجائشوں کی بحث بھی سامنے آتی ہے، ادب کی بعض صنفوں میں نظریات کے اظہار کا امکان کم ہوتا ہے۔ بعض میں زیادہ۔ بعض میں براہِ راست بھی اظہار ہوسکتا ہے بعض میں درپردہ۔

    ادب تین بڑی بڑی صنفوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ شعری ادب۔ تنقیدی ادب اور افسانوی ادب۔

    (۱) شاعری میں نظریات کا اظہار نمایاں طور پر ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ محبوب سے محبت، رقیب سے نفرت، ریاکاری کی مذمت، صدق و خلوص کی تعریف۔ مناظر سے دل بستگی۔ زمانے کے جبر و تعدی کی شکایت۔ ایک بہتر اور پرسکون زندگی کی تمنا۔ ان تمام حالات اور خواہشات۔ پسند اور ناپسند کااظہار شاعری میں ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ ہومرؔ۔ ڈانٹےؔ۔ شیکسپیئرؔ۔ گوئٹے سب نے اپنے ماحول اور کرداروں کے ذریعے اپنے عقاید، نظریات، محسوسات، پسند ناپسند اور مختلف رجحانات کااظہارکیا ہے۔ ’’حماسہ‘‘ کی رجزخوانیوں میں بھی اپنے حسب نسب کے اظہار سے لے کر ذاتی خواہشات اور ان کی تکمیل اور حصول کی مختلف راہوں کا تذکرہ ہے۔ فردوسیؔ اور انیسؔ کے تمام کردار اپنے عقاید اور نظریات کا اظہار پورے شاعرانہ جلال و جمال کے ساتھ کرتے ہیں۔ حافظؔ کے اس شعر میں بھی،

    دولت آنست کہ بے خونِ دل آید بکنار

    ورنہ باسعیٔ امل باغِ جناں ایں ہمہ نیست

    ایک نظریہ کا اظہار ہے۔ اور اقبالؔ کے اس شعر میں بھی ’’نظریہ‘‘ کارفرما ہے،

    درطلب کوش دمدہ دامنِ امید زدست

    دولتے ہست کہ یابی سررا ہے گاہے

    غرض کہ شاعری میں نظریات کا اظہار ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ مگر یہ اظہار غیرشاعرانہ طور پر نہیں ہوا ہے۔ اس میں ا لفاظ کے جادو اور خیالات کے حسن کا امتزاج ہوتا ہے۔ اس لیے کہ شاعرانہ حس زندگی کے مختلف النوع مطالبات اور ان کے تصادم سے بیدار ہوتی ہے۔ یہ ہزاروں لاکھوں انسانوں کے دلوں کی آواز ہوتی ہے۔ غزل ہو، نظم ہو، قصیدہ ہو، رباعی ہو، کوئی بھی صنف ہو کم و بیش اپنے دور کے خیالات اور رجحانات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

    (۲) تنقیدی ادب تو نظریوں کا ادب ہوتا ہی ہے۔ اس کا کام ہی تجزیہ اور تنقید کرنا ہے۔ ناقد اپنی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے اظہار کو کسی طرح نہیں چھپا سکتا۔ یہ ضرور ہے کہ پسند اور ناپسند کا معاملہ ذاتی نہیں ہوتا۔ اس میں تعصبات کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ پھر بھی ناقد کو اپنے معیارِ نقد کے اظہار سے مفر نہیں ہے۔ تنقید خواہ تاثراتی اسکول Impressionist School کی ہو یا سائینٹفک اور تجزیاتی۔ اپنے اصول اور آئین، رجحانات اور معیار، پسند اور ناپسند کے اظہار کے لیے مجبور ہے۔ ورنہ تنقید کا مطلب ہی خبط ہوجاتا ہے۔

    (۳) افسانوی ادب Fiction یہ ایک ایسی صنف ہے جہاں نظریات کا استعمال سب سے کم اور سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس صنفِ ادب میں اگر نظریات اور عقاید کا اظہار براہِ راست ہوگیا۔ کردار یا خود مصنف نے انہیں اگل دیا تو نہ صرف سارا ادبی حسن زائل ہوجاتا ہے بلکہ ان نظریات اور عقاید سے نفرت پیدا ہوجانے کا امکان بھی رہتا ہے۔ ایک طرف تو یہ خدشہ ہوتا ہے۔ دوسرے افسانوی ادب سے زیادہ اور کسی صنف میں مشکل ہی سے نظریات سے سابقہ پڑتا ہے۔ جتنی گنجائش، جتنا امکان اس صنف میں نظریات کے اظہار کا ہے اتنا دوسری صنفوں میں کم ہے۔ اس صنفِ ادب کا براہِ راست زندگی سے تعلق ہوتا ہے۔ یہ بڑے یا چھوٹے پیمانے پر انسانی جذبات اور شعور، افکار اور نظریات، اعمال اور اقوال، خواہشات اور آرزوؤں، نفرت اورمحبت، طبقاتی کشمکش اور مفاد کے تصادم، رسم و رواج، تہذیب و تمدن کو پیش کرتی ہے۔ یہ معاشرہ کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے۔ یہ زندگی سے قریب ترین صنف ہے۔ اسی لیے اس میں افراد اور معاشرے دونوں کے رجحانات کا پرتو پوری تابانی سے پڑتا رہتا ہے۔

    نظریات کے مخالفین اپنے اعتراضات کے جواز میں اس صنف کاحوالہ بڑی شدومد سے دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں نظریات کے اظہار سے یہ ادب، یہ صنف بے جان ہوجاتی ہے۔ ادیب کو اس میدان میں قطعاً غیرجانبدار رہنا چاہیے۔ اور واقعات کو بے کم و کاست پیش کردیناچاہیے۔ ورنہ افسانہ، ڈراما یا ناول انسانوں کے عقاید۔ جذبات اور حالات کی داستان کے بجائے خود ادیب کی داستان بن جاتی ہے۔ اور اس کی ساری کشش اور جاذبیت خاک میں مل جاتی ہے۔ لیکن معترضین دانستہ یا نادانستہ طور پر بھول جاتے ہیں کہ باشعور ادیب اس معاملے میں اپنی راہ خود متعین کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسانی زندگی کے خدوخال کس طرح ابھارے جاتے ہیں۔ ادیب کی غیرجانبداری ایک توہم پرستی Myth ہے۔ افسانوی ادب کا یہ مسئلہ ٹکنیک اور ہیئت سے متعلق ہے۔ ادیب وہ کون سا طریقِ کار اختیار کرے کہ معاشرت کا ہر پہلو سامنے آجائے۔ اور اس طرح سامنے آئے کہ پڑھنے والا یہ دیکھ سکے کہ کون سا پہلو کمزور ہے اور کون سا مضبوط۔ کس حد تک عفونت اور غلاظت ہے اور کس حد تک لطافت اور پاکیزگی۔ اور ان تمام چیزوں کا سبب کیا ہے۔ یہ سوالات نظریات کے نہیں ہیں بلکہ اس کے اسلوبِ بیان کے ہیں۔ حقیقت نگاری Realism اور اصلیت نگاری Naturalism میں سے کسی ایک کے انتخاب کا سوال نہیں ہے۔ اصلیت نگاری Naturalism نے بہت سے ادیبوں کو غیر جانبداری کے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ادیب سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ رومانیت، جذباتیت، مبالغہ آرائی اور لفاظی سے بچ رہا ہے۔ حالانکہ اس طرح وہ ایک بے روح اور بے کیف واقعہ نگار بن کر رہ جاتا ہے۔ اسی فریب نے زولاؔ Zola اور فلوبیئر Floubert ایسے پختہ فن کاروں کو بعض اوقات واقعہ نگاری کی معمولی سطح سے ابھرنے نہیں دیا۔ ادیب یہاں صرف ایک دور کا تماشائی بن جاتا ہے جسے سماجی زندگی کے جوش و خروش، طوفانوں اور ہنگاموں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ انتہائی کاوش کے ساتھ ایک ایک تفصیل پیش کردیتا ہے۔ تمام جزئیات بیان کردیتا ہے مگر اس میں روح نہیں پھونک سکتا۔ وہ کیمرے کی طرح تصویر کشی ہی پر اکتفاکرلیتا ہے۔ اس کے آگے وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ وہ اندھا، بہرا اور گونگا ہے۔ صرف اس کی آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ ایسا افسانوی ادب مشکل ہی سے کوئی ایسا کردار پیش کرسکا ہے جو اپنے دور کی کشمکش کا مظہر بن سکے۔ بالزکؔ۔ اسٹنڈھل۔ ڈکنسؔ۔ ٹالسٹائےؔ کے مقابلے میں اس قسم کے ادیب اپنے کرداروں کو جیتا جاگتا اور متحرک نہ بناسکے۔ ان کے کردارمعمولی سطح سے ابھر نہ سکے۔ ان میں اتنی توانائی نہ پیدا ہوسکی کہ وہ سماجی کیفیات اور رجحانات کا احاطہ کرسکیں۔ وہ اپنے دور کے نمائندہ Type نہ بن سکے۔ جہاں کہیں یہ کردار اپنے دورکے نمائندہ بنے ہیں وہ اصلیت نگاری Naturalism کے بل پر نہیں بلکہ حقیقت نگاری کی بنا پر جو لاکھ دبانے پر بھی پھوٹ نکلی ہے۔

    حقیقت نگاری اس کے برعکس معاشرت کے تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھتی ہے۔ انہیں ایک مربوط اور منظم شکل میں پیش کرتی ہے۔ ہر کردار کی ایک اپنی ذاتی زندگی ہوتی ہے۔ دوسری جماعتی۔ طبقات ایک دوسرے سے ٹکراتے رہتے ہیں۔ مختلف عمل اور ردعمل کی صورت میں سماجی زندگی نمو پاتی رہتی ہے۔ حقیقت نگاری اسی ’’کل‘‘ کو پیش کرتی ہے۔ ادیب یہاں ایک خاموش تماشائی نہیں ہوتا ہے وہ زمانے کے سرد و گرم میں شریک رہتا ہے۔ تمام سماجی اور اقتصادی طوفان اس کے سر سے گزرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو لڑتے ہوئے، جھگڑتے ہوئے، قتل و غارت کرتے ہوئے۔ چوری کرتے ہوئے، ڈاکہ ڈالتے ہوئے۔ حق و صداقت کے لیے جنگ کرتے ہوئے۔ سولی پر لٹتے ہوئے۔ محبت اور نفرت کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ یہی نہیں، وہ اس سے آگے بھی دیکھتا ہے۔ اس کے پیش نظر اس سماجی عمل کے تمام محرکات بھی ہوتے ہیں۔ تب کہیں جاکر وہ پوری تصویر دے سکتا ہے۔ اس تصویر میں زندگی کا رنگ ہوتا ہے۔ یہ تصویر منہ سے بولتی ہے۔ ادیب یہاں اپنے پورے شعور کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ جونیک و بد میں تمیز کرسکتا ہے۔ اور اس نیکی اور بدی کو وہ بڑی سفاکی اور بے رحمی سے نمایاں کرتا ہے۔ خواہ اس سے اس کے عقائد اور نظریات کو صدمہ ہی پہنچے۔ ادیب کی یہ منزل زندگی کی منزل ہوتی ہے۔ وہ زندگی کی طرح وسیع، بیدار، ہمہ گیر اور متحرک ہوتا ہے۔ وہ انسانیت کو لے کرآگے بڑھتا ہے۔ اس کے انسان اصلی انسان ہوتے ہیں۔ نقلی نہیں ہوتے۔

    انسانوی ادب میں نظریے انفرادی نہیں ہوتے۔ پوری ہیئت اجتماعی کے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان میں قوت اور جان ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ دیانت دار ادیب کے ذاتی نظریے کبھی کبھی حقائق سے ٹکراکر چور ہوجاتے ہیں۔ اور وہ ایک اجتماعی نقطہ نظر پیش کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بالزکؔ اور ٹالسٹائی کی مثالیں اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ زندگی نے ان کے ہاتھوں سے قلم چھین لیا ہے۔ اور وہی لکھوایا ہے جس کا مطالبہ زندگی خود کرتی تھی۔ ان ادیبوں کی بڑائی کا راز یہی ہے۔

    افسانوی ادب میں نظریے کرداروں کے منہ میں رکھ نہیں دیے جاتے۔ بلکہ ماحول اور مواقع کا تقاضا کرداروں کومجبور کرتاہے کہ وہ اپنے افکار اور نظریات کا اظہار کریں۔ کوئی نظریہ زبردستی کسی کردار کی زبان سے کہلوایانہیں جاتا۔ یہ مصنف کی کمزوری ہوتی ہے۔ اچھا ادیب اس سماج اور سماجی ذہنیت کو پیش کرتا ہے جس کے ماتحت کردار وجود میں آتے ہیں اور اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔۔۔

    ادیب کا سماجی تجزیہ ایک شعور، ایک نظریے کے ماتحت ہوتا ہے۔ اس کاتعلق کسی نہ کسی طبقے سے ضرور ہوتا ہے۔ وہ بے تعلق ہوکر نہیں جی سکتا۔ یہی طبقاتی تعلق اس کے شعور کو ایک راہ پر ڈال دیتا ہے۔ اس کا مطالعہ اور مشاہدہ شعوری اور سماجی ہوتا ہے۔ یہی اس کا نظریہ ہوتا ہے۔ اسی کے ماتحت اس کا افسانہ۔ ڈراما یا ناول تخلیق ہوتا ہے۔ اس کا تخلیقی نقطہ نظر یا شعور اس کے کرداروں کو متعین کرتا ہے۔ جن سے ان کے خالق کے نظریات کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ غرض کہ افسانوی ادب میں نظریے کا استعمال شعوری یا غیرشعوری طور پر انہیں معنوں میں ہوتا آیا ہے مگر نظریوں کے استعمال کے سلسلے میں بڑی دیانت داری، بڑی احتیاط اور سلیقے، علم اور مطالعہ اور سماجی شعور کی ضرورت ہے۔!

    نظریوں کی مخالفت میں کبھی کبھی سائنس کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس کا اپنی کوئی نقطہ نظر نہیں ہے۔ اسے نیک و بد خیر و شر سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ ایک بے تعلقی اور بے نیازی کے ساتھ تجربات کرتی رہتی ہے۔ نوع انسانی کے لیے کوئی تجربہ مضر ہوگا یا مفید، سائنس کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ سائنس کو اسی رنگ میں پیش کرنے والے حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی بھی سائنس دان صرف کھیل کرنے کی غرض سے تجربہ گاہ میں نہیں جاتا۔ جو شے اسے وہاں لے جاتی ہے وہ زندگی کی پوشیدہ قوتوں کو دریافت کرنے کا جذبہ ہے۔ زندگی کی حرارت ہی اسے ایجادات اور انکشافات پر مجبور کرتی ہے۔ غیرانسانی جذبہ سائنس کو صرف بہمیت کی طرف لے جاتا ہے۔ شاؔ Shaw نے بعض سائنسدانوں پر اس لیے حملہ کیا ہے کہ وہ بے دریغ صرف اپنے تجربے اور تجسس کو تسکین دینے کے لیے ہزاروں جانوروں کو تختۂ مشق بناچکے ہیں۔ مگر سائنس کے بے تعلقی کا یہ دور ختم ہوچکا ہے۔ اب اجتماعی نقطۂ نظر کے فروغ اور اہمیت کے ساتھ ساتھ سائنس بھی ایک سماجی عمل بن گئی ہے۔ اس میں ایک مقصد ایک آدرش کے حصول کاجذبہ آگیا ہے۔ اب وہ صرف ایک تجربہ نہیں ہے بلکہ انسانی آسائشوں کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ ایک نقطۂ نظر ہے۔ جو ہمیں تاریکی میں مشعل دکھاتا رہتا ہے۔

    بہرحال اس تمام بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انسانی زندگی کا ایک اعلیٰ اور ارفع مقصد ہے۔ اس کی محنت کی ایک ’’سمت‘‘ ہے۔ اس محنت نے ہمیں شعور عطا کیا ہے۔ یہ شعور تاریخ انسانی کے ارتقا کے پہلو بہ پہلو واضح اور تیز تر ہوتا جاتا ہے۔ اسی شعور سے ادب پیدا ہوتا ہے۔ اور ادب اسی شعور کو دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ اسی کا دوسرا نام نظریہ ہے۔ اب نظریہ کا نام لے کر ادیب کو گمراہ کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ ادب اور ادیب دونوں کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ اس شعور کو اپنے معاشرے میں حاصل کرے۔ اپنے نظریے کو صداقت کی کسوٹی پر کسے۔ یہ کسوٹی سماجی مطالبات کی ہے۔ اپنے نظریے کا استعمال زندگی آمیز اور زندگی بخش پیرائے میں کرے۔ تاکہ ادب بے دست و پا نہ رہے، اس میں جذبہ اور شعور پیدا ہوسکے۔

    مأخذ:

    Adab E Lateef Jild 34 Shumara 3 June 1952-SVK (Pg. 7)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1952

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے