ادب، تہذیب اور سماج
کوئی بھی ادب سماج سے الگ ہوکر تخلیق نہیں ہوتا۔ ادب اور معاشرے میں ایک گہرا رشتہ ہوتا ہے De Bonald. نے اٹھارہویں صدی میں کہا تھا:
Literature is the expression of society
اس کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ادب سے معاشرے اور ثقافت کو ایک سمت و رفتار ملتی ہے۔ تعقل، فنی اوصاف، ذوق و شوق، اقدار و معیار، حقائق سے متعلق مفروضے، تجربی عقائد، زبان اور بولی اور اسلوب فن وغیرہ ایسے اہم عناصر ہیں جو ادب کی تخلیق میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ سماج کے Norms محض عارضی تحریکات سے نہیں بنتے بگڑتے۔ سید عبدالباری اپنی تصنیف ’’لکھنؤ کے شعر و ادب کا معاشرتی و ثقافتی پس منظر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’عہد وسطی کا ادب ہو یا شاہی دور کی تخلیقات، رومانی عہد کے شہ پارے ہوں یا عہد جدید کی کاوشیں، ہمیں ہر جگہ معاشرہ کی مروجہ اقدار کی واضح جھلک ادب میں ملتی ہے۔‘‘ (ص: ۲۸)
ادیب یا شاعر جو کچھ بھی سوچتا ہے اور اپنے دائرہ فکر میں جو محل بھی تیار کرتا ہے اس میں معاشرہ کے تہذیبی و معاشرتی عناصر کی کارفرمائی لازمی طور پر ہوتی ہے۔ مثلاً جس دور میں لکھنؤ کی فضا پر تعیش اور جنسی رجحان غالب تھا، فکر کا معیار اس درجہ پست ہوگیا تھا کہ ابتذال اور سوقیانہ پن شاعروں اور ادیبوں کا طرّۂ امتیاز بن گئے۔ اسی بنیاد پر اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہر دور کا ادب اپنے دور کے سماج کی سچی تصویر پیش کرتا ہے۔ فرد، سماج اور شعر و ادب کے رشتے کو ڈاکٹر سید عبدالباری نے اس طرح پیش کیا ہے۔
اس دائرے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معاشرے میں تہذیبی سفر فرد سے شروع ہوتا ہے۔ انسان پہلے طبعی ماحول اور تجربات سے گزرتا ہے جو اس کے ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ سماج کی زبان اور بولی سیکھتا ہے اور حقیقتوں سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔ اس عمل میں اس کے دل و دماغ پر اقدار کی چھاپ پڑتی ہے۔ اب اس کا ذہن فنون لطیفہ کی طرف مائل ہوتا ہے۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ فنون لطیفہ کی ترقی یافتہ شاخ ’’ادب‘‘ کو اپنا کر وہ اپنا تخلیقی سفر شروع کرتا ہے۔ اس تخلیقی سفر کے لیے اسے اپنے گرد و پیش سے مواد حاصل ہوجاتا ہے۔ حقیقتوں سے فرار حاصل کرکے کسی سچے ادب پارہ کی تخلیق نہیں ہوسکتی۔ علامہ اقبال کے بقول ؎
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شیٔ کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا؟
کسی ادب پارے کے مطالعہ سے کسی عہد کی ذہنی و عقلی رفتار سفر کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ اس میں معاشرے کی قدریں موجزن ہوتی ہیں۔ اگر ہم اشو گھوش کے مشہور کاویہ ’’بدھ چرت‘‘ کا مطالعہ کریں تو گوتم بدھ کی زندگی اور اس عہد کی تہذیبی و معاشرتی قدریں بھی ابھر کر سامنے آجاتی ہیں۔ اسی طرح ’’سوتر النکار‘‘ میں برہمنوں اور جینوں کے مذہبی فلسفہ کی تردید کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف رسم خط، صنعتی فنون اور اس عہد کی مصوری کی طرف بھی واضح اشارے ملتے ہیں۔ اسی طرح کالی داس کی دوکاویہ طرز کی تصانیف ’’کمار سمبھو‘‘ اور ’’رگھو ونش‘‘ اہمیت کی حامل ہیں۔ ’’کمار سمبھو‘‘ میں یہ بتایا گیا ہے کہ شِو اور ہمالہ کی بیٹی پاروتی کا بیاہ کس طرح ہوا۔ ’’رگھوونش‘‘ میں رام چندرجی کے خاندان کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ اس عہد کے تمام تر تہذیبی و ثقافتی عناصر جگہ جگہ ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔ ساتھ ہی ویدوں اور پرانوں کے قصے اور اس وقت کے طرز معاشرت کا عکس بھی ملتا ہے۔ کالی داس کی اہم تصنیف ’’میگھ دوت‘‘ (۱۱۲ رباعیات) کے مطالعہ سے اس عہد کے دیوی دیوتاؤں کی عظمت و عقیدت اور غلام اور آقا کے مابین جذبہ اطاعت و عدالت کی تصویر ملتی ہے۔ اسی عہد قدیم کے شاعر راجہ بھرتری ہری کی تخلیقات کے مطالعہ سے شیو پوجا اور اس دور (۷ویں صدی عیسوی) کے تہذیبی، معاشرتی اور مذہبی پہلوؤں پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ داستانوں اور قدیم ادب پارو ںکے مطالعے سے سیر و تفریح کا شوق، تہواروں کی کثرت، طوائفوں کو گھر میں رکھنا، رقص و سرود کی محفلیں منعقد کرنا، عورتوں اور مردوں کا یکساں طور پر بن ٹھن کر زیورات اور ہاروں سے سج سجا کر گھر سے باہر نکلنا، غرض یہ کہ اس عہد کی تمدنی روایتیں ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ دس کمار چرت اور کتھا سرت ساگر کا مطالعہ کریں تو اس عہد کی تہذیبی زندگی کے ساتھ ساتھ مصوری، سنگ تراشی، نقاشی اور فنون لطیفہ کی دوسری شاخوں سے بھی آگاہی ہوتی ہے اور ایسا اس لیے ہے کہ فرد، سماج اور ادب میں رشتہ ہے جو ناگزیر طور پر کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ بقول مجنوں گورکھپوری:
’’ادب کوئی جوگی یا راہب نہیں ہوتا اور ادب ترک یا تپسیا کی پیداوار نہیں ہے۔ ادیب بھی اسی طرح ایک مخصوص ہیئت اجتماعی، ایک خاص نظام تمدن کا پروردہ ہوتا ہے جس طرح کہ دوسرا فرد، ادیب بھی براہ راست ہماری معاشی اور سماجی زندگی سے اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح ہمارے دوسرے حرکات و سکنات۔‘‘ (ادب اور زندگی، ص:۴۸)
رچرڈ ہوگرٹ کا قول بھی نقل کرنا یہاں بیجا نہ ہوگا۔ پروفیسر محمد حسن نے اسے اپنی کتاب ’’ادبی سماجیات‘‘ میں نقل کیا ہے:
Without the full literary witness the student of society will be blind to the fullness of the society.
یعنی یہ کہ سماج کا طالب علم (فرد) علم سماج کی تکمیل کے لیے ادبی گواہ (ادب پارے) کا کسی قدر محتاج ضرور ہے۔ کسی بھی عہد کے سماج کو سمجھنے کے لیے اگر اس عہد کے ادب پاروں کا سہارا لیا جائے تو کافی مدد مل سکتی ہے۔ ہومرؔ کے رزم نامے ’’الیڈ‘‘ اور ’’اوڈیسی‘‘ میں جس طرح رزمیائی تہذیب جھلکتی ہے اسی طرح کی چیز مہابھارت اور رامائن (بالمیکی) میں بھی ملتی ہے۔ اس کے بعد Feudal age آیا جس کا اثر ہندوستان میں تقریباً ۱۸۵۷ء تک باقی رہا۔ اس جاگیر دارانہ نظام کی جھلکیاں دانتے ؔکی ڈوائن کامیڈی، چاسرؔ کی حکایات کینٹر بری (Canterbury Tales)، فردوسی کی تصنیف شاہنامہ، جائسیؔ کی پدماوت وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں مشترکہ تہذیب کو فروغ حاصل ہوا۔ داراشکوہ جو ہندو فلسفہ اور تصوف کا معتقد تھا، نے اپنشدوں، بھگوت گیتا اور یوگ وششٹ کا ترجمہ کرایا۔ اس نے خود بھی ہندو اور اسلامی تصوف کا تقابلی مطالعہ کرکے ’’مجمع البحرین‘‘ کے نام سے ایک کتاب تالیف کی۔ اس عہد میں ہندو مسلم دونوں کے طرز معاشرت، وضع و لباس، خورد و نوش کے طریقے تقریباً ایک سے تھے۔ جب انگریزوں کا تسلط ہندوستان پر ہوا تو مغربی تہذیب مشرقی تہذیب کو متاثر کرنے لگی۔ ظاہر ہے اس عہد کے ادب میں نئی تہذیبی زندگی نظر آنے لگی۔
کسی عہد کی تہذیب ادب کو کس درجہ متاثر کرتی ہے اس کا اندازہ لکھنؤ کی زوال آمادہ معاشرت سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہزار افتاد کے باوجود لکھنؤ کے عشرت کدے میں جلوہ طرازیاں اور طوائف نوازی عام رہی۔ یہ حسن پرستی اور طوائف پروری اس تہذیب کا حصہ بن گئی۔ ڈاکٹر اعجاز حسین لکھتے ہیں:
’’چوں کہ لکھنؤ میں حسن و جنس سے دلچسپی لینا اہم جز و معاشرت ہوگیا تھا اس لیے نفس پروری کے سارے سامان معاشرہ کو عزیز تھے۔ چنانچہ عورت کی ذات سب سے قریب ہوگئی تھی۔ اس کی ذات سے مختلف جذبات آسودہ ہوتے تھے۔ وہ پر فن تھی اور فنکار بھی۔ اس سے جسم و روح دونوں کی تشنگی دور ہوسکتی تھی۔ اس لیے لوگوں کی دلچسپیاں سمٹ کر ایک ذات سے وابستہ ہوگئی تھیں۔‘‘
(ص: ۳۰۵)
لکھنؤ کے شعراء کی نظر بھی خارجی حسن اور لوازات حسن پر ٹکی رہی۔ آتش کا یہ شعر دیکھئے ؎
رہا کرتا ہے نظم شعر کا سودا مرے سر میں
عروس فکر ان روزوں لدی رہتی ہے زیور میں
اس عہد میں ہی دہلی کے شعرا اپنے شعروں میں انتشار اور غم و الم کو پیش کررہے تھے جب کہ لکھنؤی شعرا شاہان اودھ کی عام تعیش پسندی اور تہذیبی بساط کو موضوع شعر بنائے ہوئے تھے۔ شعرا نے محبوب اور طوائفوں کے زیورات، سج دھج اور چال ڈھال کو اپنے فن کا حصہ بنایا۔ جرأت کو ملاحظہ کیجئے ؎
انکھڑیاں جادو ہیں، پلکیں برچھیاں، بھالا نگاہ
بانکی چتون ہائے تیری دل کو کیا کیا بھائے ہے
رہتے ہیں یاقوت سے بن پان کھائے سرخ ہونٹ
اور چمک دانتوں کی موتی کی لڑی دکھلائے ہے
شاعری کے علاوہ مرزا ہادی رسوا کے ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ اور سرشار کے ’’فسانہ آزاد‘‘ کو دیکھ لیجئے جو اسی تہذیب و ثقافت کی پیداوار ہیں۔ تو کیا یہ بات واضح طور پر سامنے نہیں آتی کہ ادب سماج کا آئینہ ہے؟ آخر دہلوی شعرا یا نثار ایسا ادب پارہ کیوں تخلیق نہیں کرپارہے تھے جیسا لکھنؤ والے کررہے تھے؟ ظاہر ہے دہلی پر افتاد پڑی تھی۔ خستہ حالی، معاشی اور فکری بحران نے شاعروں اور ادیبوں کو بہت حد تک مایوس کردیا تھا۔
سرسید احمد خان اور ان کے رفقا کار اسی انتشار کا صحیح علاج تلاش کررہے تھے۔ اس تحریک نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو متاثر کیا۔ اردو شعر و ادب میں بھی نیا موڑ آیا۔ دیانند سرسوتی کی تنظیم (۱۸۷۵ئ) آریہ سماج ہو یا کلکتہ میں قائم کردہ رام کرشن مشن (۱۸۹۷ئ) ہو، سب کا مقصد یہی تھا کہ انسانی مفلوج شعورکو تقویت بخشی جائے۔ معاشرے میں جو اخلاقی، اقتصادی اور مذہبی بحران ہے اس کی اصلاح کی جائے۔ ہندو اور مسلم دونوں فرقوں کے رہنماؤں نے اس کے لیے کوششیں کیں۔
شری ویویکانند نے رام کرشن کو اور بھی فروغ دیا۔ ۱۸۹۳ء میں جب وہ شکاگو عالمی مذاہب کے اجتماع میں گئے تو انہوں نے عالم گیر اخوت پر تقریر کی۔ ادھر سرسید، حالی، اکبر، شبلی وغیرہ نے اپنے افکار کو سماجی اور ادبی زندگی کی تعمیر میں خرچ کیا۔ لہٰذا جب ادب کے مطالعہ کی بات آتی ہے تو سماج اور سماجی زندگی خودبخود سامنے آجاتی ہے۔ تہذیبی اور معاشرتی زندگی ادب کو بے حد متاثر کرتی ہے۔ کوئی ادب خلا میں تو تخلیق نہیں پاتا بلکہ ادب کے لیے آغوش مادر سماج ہی ہے۔ جس طرح کا سماج ہوگا، ادب بھی اسی کے مطابق تخلیق پائے گا۔ یہاں یہ بات بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ صرف ادب ہی سماج سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ ادب بھی سماج کو متاثر کرتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی ادب Social Control کا اہم جز بن جاتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ادب، سماج اور فرد تینوں کا ایک دوسرے سے اہم رشتہ ہے۔ بلکہ تینوں ایک دوسرے کے لیے جز لاینفک کی حیثیت رکھتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.