Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادبی تاریخ اور اس کی تعلیم

خلیل الرحمن اعظمی

ادبی تاریخ اور اس کی تعلیم

خلیل الرحمن اعظمی

MORE BYخلیل الرحمن اعظمی

    اردو ادب کے سنجیدہ طلبہ اور معلمین کے درمیان غالباً اب اس بارے میں زیادہ اختلاف نہیں رہا کہ کسی ادبی کارنامے کی تحسین و قدرشناسی اور تجزیے و محاکمے کا عمل اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ہمارے پاس تاریخی شعور نہ ہو، مگر تاریخی شعور کا صحیح مفہوم کیا ہے، اس کے بارے میں ہمارا ذہن عام طور پرصاف نہیں ہوتا۔ اس لیے ادبی تاریخ لکھنے اور ادب کی تاریخ کو بطور ایک مضمون کے پڑھانے کے سلسلے میں مختلف لوگوں نے اپنے اپنے طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔

    کچھ لوگوں کے ذہن میں ادبی تاریخ کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اردو زبان کے روز پیدائش سے لے کر اب تک جتنے بھی چھوٹے یا بڑے لکھنے والے پیدا ہوئے اور انہوں نے نظم یا نثر کی کسی صنف میں کسی نوع کی کوئی تحریر اپنی یادگار چھوڑی، ان سب کا احاطہ تاریخی یا زمانی ترتیب کے ساتھ کیا جائے اوراگرممکن ہو تو ان لکھنے والوں کے سن ولادت و وفات اور ان کے حالات زندگی سے متعلق ضروری معلومات فراہم کر دی جائیں تاکہ اس طورپرہماری زبان کی وسعت، ہمہ گیری اور اس کی کل پیداوار کا صحیح اندازہ ہو سکے اور ان لوگوں کا اعتراف بھی جنہوں نے اپنے خون جگر سے اس زبان کی آبیاری کی ہے یا اس کے سرمایے میں کسی نہ کسی نہج سے اضافہ کیا ہے۔ یہ جذبہ خود اپنی جگہ پر قابل قدر اور مستحسن ہے اور اس طرح کا کام جن لوگوں نے کیا ہے ان کی ریاضت اور جگرکاوی کی داد دینی چاہئے۔

    چنانچہ پچھلے بیس پچیس برسوں میں اردو کے اہل قلم نے اس سلسلے میں بیش قیمت مواد فراہم کیا ہے۔ ’’دکن میں اردو‘‘ کے نام سے نصیر الدین ہاشمی مرحوم نے جو کتاب اب سے بہت پہلے لکھی تھی، اس کے مختلف ایڈیشن دیکھنے کا جن لوگوں کو اتفاق ہوا ہے، وہ اس بات کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس میں برابر نئی معلومات کا اضافہ ہوتا رہا ہے اور آخری ایڈیشن خاصا ضخیم ہو گیا ہے۔ اس رجحان نے ا ٓگے چل کر پنجاب میں اردو، سندھ میں اردو، بنگال میں اردو، اڑیسہ میں اردو، میسور میں اردو، بھوپال میں اردو، بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا، تذکرہ شعرائے رام پور اور تذکرہ شعرائے جے پور جیسی کتابوں کو جنم دیا۔ پھراسی سے ملتی جلتی کچھ اور چیزیں وجود میں آئیں جیسے یوروپین شعرائے اردو، ہندو شعرائے اردو، اردو ادب میں ہندوؤں کی خدمات، تذکرہ شاعرات اردو، اردو ادب میں خواتین کا حصہ وغیرہ۔

    اس کے بعد اصناف اور تحریکات سے متعلق چھان بین کی گئی۔ غزل، مثنوی، قصیدہ، رباعی، ریختی، مرثیہ، واسوخت، داستان، ناول، افسانہ، ڈرامہ، انشائیہ، ادب لطیف، مکتوب نگاری، صحافت، بچوں کا ادب، فورٹ ولیم کالج، دہلی کالج، لکھنؤ کا دبستان شاعری، دہلی کا دبستان شاعری، علی گڑھ تحریک، جدید اردو شاعری، رومانوی تحریک، اردو ادب جنگ عظیم کے بعد، ترقی پسند ادب، نیا ادب، اردو ادب آزادی کے بعد، غرض اردو زبان و ادب کے تقریباً ہر پہلو سے متعلق ہمارے پاس معلومات کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس طرح کا سارا کام اپنی جگہ پر مفید ہونے کے باوجود تاریخ ادب کا بدل نہیں قرار دیا جا سکتا، گو کہ تاریخ ادب کی ترتیب و تدوین اور اس کی تعلیم و تدریس کے سلسلے میں اس سے بہت مدد مل سکتی ہے۔

    در اصل ادب کا تاریخی شعور ادب کے حصے بخرے کرنے یا اس سے متعلق تفصیلات جمع کرنے سے نہیں حاصل ہو سکتا کیونکہ اس طور پر ہم ادب کو اجزا میں دیکھتے ہیں۔ ادب کو بحیثیت کل اس کی نامیاتی حرکت اور اس کے ارتقائی تسلسل کو دریافت کرنے اور اس کے تغیرات و انقلابات کے پیچیدہ عمل کا تجزیہ کرنے کے لیے ادبی بصیرت اور تنقیدی شعور کی زیادہ ضرورت ہے، محض تحقیقی کاوش کافی نہیں، اگرچہ تحقیقی کاوش خام مواد فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔

    خالص تحقیقی نقطہ نظر اختیار کر لینے میں قباحت یہ ہے کہ ہم ادب یا ادبی تحقیقات کو کسی دائرے یا خانے میں مقید کر دیتے ہیں اور اس کا رشتہ پورے ادب سے منقطع کر کے اپنی تلاش و جستجو کا آغاز کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے ادبی معیار یا تنقیدی نقطہ نظر نہیں ہوتا یا اسے ہم نظر انداز کر کے اپنے دائرے یا خانے ہی کومعیار مان لیتے ہیں۔ مثال کے طورپر اگر کوئی لکھنے والا ’’اردو ادب اور جنگ آزادی‘‘، ’’اردو شاعری میں وطنیت‘‘ یا ’’اردو ادب میں ہندوستانی عناصر‘‘ قسم کے عنوان قائم کرکے اپنا کام شروع کرے تو وہ اس کی تکمیل کے لیے ’’جنگ آزادی‘‘، ’’وطنیت‘‘ یا ’’ہندوستانی عناصر‘‘ کو بنیادی اور مقدم چیز مان لے گا اوراسے ہراس تحریر میں دیکھنا چاہے گا جو ادب یا شاعری سے ملتی جلتی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اسے اپنے مقصد کے لیے غالب، اقبال یا کوئی اوراہم شاعر وادیب زیادہ کارآمد نہ ثابت ہو اور سیکڑوں ادبا، شعرا اس کے لیے اہمیت اختیار کر جائیں جو یا تو تیسرے اور چوتھے درجے کے لکھنے والے یاسرے سے تخلیقی فنکار نہ تھے۔

    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ادب کے تاریخی مطالعے کا طریقہ یہ ہے کہ ماضی کے ادب کا تجزیہ کرنے اور اس پر رائے دینے کے لیے ہم اپنے زمانے کے ادبی معیار اور اقدار کو تھوڑی دیر کے لیے فراموش کر دیں اور ادیب کو خود اس کے زمانے میں رکھ کر دیکھیں اور اس زمانے کی یا خود اس ادیب کی اقدار کو پیمانہ بنائیں۔ جہاں تک ادیب کو خود اس کے زمانے میں رکھ کردیکھنے کا سوال ہے، وہاں تک تو ہمیں اتفاق ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس سلسلے میں ان عوامل و محرکات کا پتا چلایا جائے جوکسی ادبی کارنامے کو وجود میں لانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یعنی اس دور کے تاریخی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی و ثقافتی اقدار، سماجی، اخلاقی اصول و قوانین، نظام تعلیم و تربیت، علوم و افکار کا سرمایہ اور ادبی و لسانی روایات وغیرہ لیکن اس بات کا خطرہ بھی ہے کہ ہم کہیں میکانکی سہل پسندی کے شکارنہ ہو جائیں کیونکہ کوئی زمانہ یا کوئی دورایسا نہیں ہوتا جس کی قطعی حد بندی کی جا سکے اور اسے ماضی یا مستقبل سے علاحدہ کرکے ایک مکمل وجود قرار دیا جا سکے۔ ہرحال اپنے ماضی سے منسلک ہوتا ہے اور اسی کی کوکھ میں مستقبل کی پرورش ہوتی رہتی ہے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ زندگی، زمانہ اور ماحول کے دائرے میں کسی عہد کے محض کچھ خارجی یا عمومی حالات ہی نہیں ہوتے، ادیب کا اپنا انفرادی ماحول، اس کی ذاتی افتاد طبع اور شخصی مزاج، اس کے تجربات زندگی اور خارجی حالات سے اس کی اثرپذیری کی نوعیت اپنے بعض معاصرین کے مقابلے میں مختلف ہو سکتی ہے۔ ایک ہی زمانے میں بعض ادیبوں کی شخصیت، سماجی و ادبی اقدار اور اسالیب و اظہار کے مروجہ سانچوں سے اثرقبول کرنے کے معاملے میں انفعالی ہو سکتی ہے اور بعض دوسرے ادیب انہیں جامد اور انحطاط پذیر سمجھ کو قبول کرنے سے انکار کر سکتے ہیں۔ ان کی فعال شخصیت ان اقدار کو اپنے طور پر دریافت کرنے کا حوصلہ کر سکتی ہے جو ابھی زمانے کے بطن میں پوشیدہ ہوتی ہیں اور جن کی نمود کے لیے عام ذہنوں کو ابھی اور انتظار کرنا پڑتا ہے۔

    اسی طرح ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ بعض ادیبوں کی تخلیقات محض اپنے زمانے کے کچھ تقاضوں کی پیداوارہوتی ہیں اور اسی زمانے میں مقید و محصور ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ان کی تازگی اور تاثیر کچھ وقت گزرنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور آگے چل کر ان کی اہمیت محض تاریخی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کے برخلاف کچھ ادبی تخلیقات ایسی ہوتی ہیں جن کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور وہ ہرزمانے میں زندہ رہتی ہیں۔ ان میں عصری، قومی یا تہذیبی خصوصیات کے ساتھ کچھ عمومی اور آفاقی یا دائمی عناصر بھی ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی ادیب کی تحریروں کے کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جو دیرپا ہوتے ہیں اور کچھ حصے محض تاریخی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

    تاریخ ادب کے مطالعے میں اگرہم خود اپنا کوئی تنقیدی نقطہ نظر نہ رکھیں گے اور اپنی ادبی بصیرت کو کام میں نہ لائیں گے تو ہم ان دونوں عناصر کوالگ الگ نہ کرسکیں گے اور ہمارا مطالعہ محض تشریحی و توضیحی ہو کر رہ جائے گا یا ہم اس عمل میں مبتلا ہوسکتے ہیں جسے رینے ویلک نے تاریخیت (Hitoricism) سے تعبیر کیا ہے، جس کے نتیجے میں ہم ہر قسم کے ادبی رجحانات اور ہرطرح کی ادبی تحریروں کے لیے تاریخی جواز اور تاویل پیش کرنے کی کوشش کریں گے اور زندہ اورمردہ روایت کا ہمیں ادراک نہ ہوسکے گا جو ادبی تاریخ کے مطالعے کا بنیادی مقصد ہے۔

    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم تاریخ ادب کا مطالعہ کرتے وقت اپنے ذہن میں یہ بات رکھیں کہ اس کے ذریعے ہمیں اپنی معلومات میں اضافہ نہیں کرنا ہے، نہ ہر دور کے زیادہ سے زیادہ ادیبوں اور شاعرو ں کے نام، ان کے سن پیدائش و وفات یا ان کی تصنیفات کی مکمل فہرست یاد کرنا ہے بلکہ اس مطالعے کے ذریعے ہمیں ادبی ذوق کی تربیت کرنی ہے اور ادب کا صحیح اورمتوازن تنقیدی شعور پیدا کرنا ہے۔ ماضی کے ادب کو آج کے ادب کے رشتے میں دیکھ کر ادب کی نامیاتی وحدت، اس کا ارتقائی تسلسل، اس کی حرکیت اور اس کے امکانات کا صحیح ادراک کرنا ہے تاکہ ہم خود اپنے زمانے کی روح سے شناسائی حاصل کر سکیں۔

    ادب کا تاریخی اور تنقیدی شعور ہمیں یہ بتا سکتا ہے کہ مرحوم شاعروں اور ادیبوں نے جو وراثت چھوڑی ہے، اس کا کتنا حصہ ایسا ہے جو زندہ حقیقت اور زندہ روایت کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو ادیب اس نکتے کو نہیں سمجھ پاتے وہ زمانہ حال میں رہتے ہوئے بھی زمانہ ماضی کا ادب پیدا کرتے ہیں، جسے ہم روایتی ادب کہتے ہیں۔ یہ لوگ ادب، زندگی اور زمانے کا متحرک تصور نہ رکھنے کے سبب زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہوتے ہیں اور بقول فراق،

    جوخود مردہ ہیں وہ مردوں کے وارث بن نہیں سکتے۔

    تاریخ ادب کا مطالعہ اگر اس سلسلے میں ہمارے شعور کو جلا دیتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ادبیات کی تعلیم کے سلسلے میں اس مضمون کی بے حد اہمت ہے، ورنہ تشریحی، توضیحی یا معلوماتی ہونے کی صورت میں اسے پڑھانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ طلبا کو کتابوں کی ایک فہرست دینی ہی کافی ہوگی۔

    تاریخ ادب کی تعلیم کے سلسلے میں ہم نے جس طریق کار کو اپنانے کا مطالبہ کیا ہے، اس سے اس مضمون کے پڑھنے اور پڑھانے میں بہت سی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی اور یہ شعبہ خشک اورغیردلچسپ ہونے کے بجائے طالب علموں کے لیے بامزہ اور اور نسبتاً زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتاہے۔ ایک توطالب علم کویہ اندازہ ہوجائے گا کہ اس پرچے کو تیارکرنے کے لیے بہت زیادہ باتیں یادکرنے، بہت سے اعداد وشمار اکٹھا کرنے اور اپنے ذہن کوغیرضروری معلومات سے بوجھل بنانے کی ضرورت نہ ہوگی اور نہ اس کے لیے نوٹس اور یادداشتوں کے پلندے کے پلندے تیار کرنے ہوں گے بلکہ بعض مسائل کو صحیح طور پر سمجھ لینا ہے اورسمجھ کر ادب کی مجموعی تفہیم میں اس سے مدد لینا ہے۔

    دوسری طرف اساتذہ کو کتابوں کے اس ذخیرے کا حرف حرف پڑھنے کی ضرورت نہ پڑے گی جن کی تعداد گھٹاتے گھٹاتے بھی پچاس سے کم نہ ہوگی اور جن کے صفحات کی مجموعی تعداد اندازاً دس ہزار ہو سکتی ہے۔ البتہ اب اساتذہ پرایک نئی ذمہ داری یہ عائد ہوگی کہ وہ محض معلم و مدرس بن کرنہ رہیں۔ محض معلم و مدرس سے میری مراد ان لوگوں سے ہے جو اپنی دلچسپیاں نصابی کتابوں تک محدود رکھتے ہیں اور ادب سے ان کا تعلق صرف ان کے پیشے کی نسبت سے ہوتا ہے۔ یہ لوگ نصاب کے علاوہ دوسری کتابیں اسی صورت میں پڑھتے ہیں جب وہ ان کے لیے امدادی کتب کا کام دے سکیں۔

    تاریخ ادب کی صحیح تعلیم ادب کے طلبہ اورمعلمین دونوں میں یہ احساس پیدا کرسکتی ہے کہ ہمیں وسیع ترمعنوں میں ادب اور ادبی تخلیقات سے شغف رکھنے کی ضرورت ہے اور ادب کا اچھا ذوق اس وقت تک نہیں پیدا ہوسکتا جب تک ہم اپنے زمانے کے ادب اور ادبی تحریکات سے زندہ قسم کی دلچسپی نہ لیں۔ زمانہ حال کے ادب سے اپنا رشتہ استوار کیے بغیر ہم ماضی کے ادب سے بھی صحت مند طورپرلطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ نصابی کتابوں کی معنویت بھی اسی وقت ہم پر آشکار ہو سکتی ہے، جب ہم ان کتابوں سے بھی دلچسپی لیں گے جو ابھی نصاب میں داخل نہیں ہوئی ہیں۔

    ہم نے ادب کی کلیت اور اس کی وحدت و تسلسل پر جو اتنا زور دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ادبی تاریخ پڑھاتے وقت ہم اپنے ادب کو ادوار میں تقسیم نہ کرسکیں۔ ادوار کی تقسیم در اصل اپنی سہولت کے لیے کی جاتی ہے، البتہ ان کا جامد اورمیکانکی تصورغلط ہے۔ ہم کسی خاص دور کا تعین اس دور کے تاریخی حالات اوراقدار و تصورات کی نوعیت سے کریں گے۔ اس دور کی ادبی روایات و اسالیب اور بعض غالب رجحانات کو مدنظر رکھ کر اس کے مشترک اور متضاد و متصادم عناصر کا تجزیہ کریں گے لیکن اسے کل سے الگ کرکے یا پورے ادب کے دھارے سے کاٹ کر نہ دیکھیں گے۔ مثال کے طورپر ہم چاہیں تو اردو ادب کو مندرجہ ذیل ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

    پہلا دورجسے قدیم اردو کا دور کہنا چاہئے، اس کا آغاز اردو نظم و نثر کے نمونوں سے ہوگا اور ہم اسے ولی پر ختم کر سکتے ہیں۔ اردو زبان و ادب کا یہ تشکیلی دور ہے، اس لیے اس کے تجزیے کا آغاز اردو زبان کی پیدائش سے ہوگا۔ جدید علم اللسان کی رو سے ہم ہندوستانی بولیوں کے سلسلے اور رشتے کو سمجھ کر اس کی ابتدا کا تاریخی تجزیہ کریں گے۔ اس دور میں ہم شمالی ہند، دکن، گجرات، پنجاب اور دوسرے علاقوں کے ادبی نمونوں کی خصوصیت واضح کر کے اس کے امتیازات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ دکن کی ادبی مرکزیت کے تاریخی اسباب پر روشنی ڈالیں گے۔ اس سلسلے میں ایک سوال اور اٹھا ہے جس پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔

    پروفیسر اختر اورینوی اور ڈاکٹر سہیل بخاری نے اپنے بعض مضامین میں اس بات پر زور دیا ہے کہ جب ہندی بھی اردو کی طرح کھڑی بولی کا ایک روپ ہے اوراس زبان کے مؤرخ و نقاد اپنی ادبی تاریخ کے تشکیلی دور میں ان شعرا کو بھی جگہ دیتے ہیں جو در اصل اودھی، برج بھاشا، بھوجپوری یا راجستھانی کے شاعر ہیں تو کیوں نہ ہم بھی کبیر، خان خاناں، میرابائی، سور داس اور نانک وغیرہ کے کلام کے کچھ حصے کو جو اردو سے قریب ہے، اپنے یہاں جگہ دیں اور اسے قدیم اردو کے ذیل میں لائیں۔ کیونکہ ان حضرات کے نزدیک یہ کلام دکنی کی نسبت ہمارے لیے زیادہ قابل اوراردو کے اسلوب سے قریب تر ہے۔

    دوسرا دورعہد محمد شاہ سے ۱۸۵۷ء تک رکھا جا سکتا ہے۔ اس دور میں بھی ہم نظم و نثر کو ساتھ ساتھ لے کر چلیں گے۔ دہلی میں ایہام گوئی کی تحریک، پھرتازہ گوئی کا میلان اور میر و سودا کا زمانہ، دہلی کا انتشار اور دہلوی شعرا کی مختلف مراکز کی طرف ہجرت، لکھنؤ کا ماحول اور اس کا اثر اردو نظم و نثر پر، لکھنؤ کی ادبی روایات کا اثر دہلوی شعرا پر، انیسویں صدی کے نصف اول میں مغربی اثرات کی نمود اور اس سلسلے میں فورٹ ولیم کالج اور دہلی کے نثری کارناموں کی خصوصیات۔

    تیسرا دور ۱۸۵۷ سے ۱۹۱۴ تک رکھا جا سکتا ہے۔ اس دورمیں نئی اور پرانی تہذیب کی کشمکش اور اس کے اثرات اردو ادب پر، اصلاحی تحریکات، انجمن پنجاب اور علی گڑھ تحریکات، احیائی میلانات، بہ یک وقت جاگیردارانہ اقدار کا اثر اور نئی تعلیم کے اثر سے قومیت کا تصور۔

    اس صورت سے چوتھا دور ۱۹۱۴ سے ۱۹۳۵ تک اور پانچواں دور ۱۹۵۳ سے ۱۹۴۷ تک قائم کیا جا سکتا ہے۔ آخر میں ان رجحانات کا بہت مختصر طور پر تجزیہ ہو سکتا ہے جو آزادی کے بعد سامنے آئے ہیں۔

    مختلف ادوار پر لکچر تیار کرتے وقت ہم اس عہد کے سیاسی و تمدنی تاریخ اور اس دور کے عقائد و تصورات سے متعلق کتابوں کا مطالعہ ضرور کریں اور اس تحقیقی مواد کو بھی حسب ضرورت اپنے استعمال میں لائیں جو ادھر ادھر بکھرا پڑا ہے لیکن اسے ایسا پس منظر نہ بنائیں جس کا اس دور کی ادبی تخلیقات سے ربط محض فرضی یا قیاسی ہو جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے۔ اس پس منظر سے اثرپذیری کی نوعیت ایک ہی دور میں مختلف ادیبوں کے یہاں مختلف نوعیت کی ہو تو اس کا واضح کرنا بھی ضروری ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ رجحانات کا تجزیہ کرنے کے لیے انہیں شاعروں اور ادیبوں کو اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا جائے جو ان رجحانات کے اہم نمائندے ہوں۔ مردم شماری اور فہرست سازی کی ضرورت نہیں ہے، گویا ادبی تاریخ کے مطالعے میں تاریخ، تخلیق اور تنقید کا ایسا تناسب ہونا چاہئے جو ہمیں صحیح نتائج تک پہنچنے میں مدد دے۔

    تاریخ ادب کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم مختلف ادوار کی ادبی پیداوار کوتاریخی دستاویز سمجھ کرنہ پڑھیں، گو کہ ایک مؤرخ یا محقق کے لیے یہ عمل بھی اپنی جگہ پرمفید ہے اوراس سے کسی دور سے متعلق بیش قیمت حقائق کا انکشاف ہوسکتا ہے لیکن ادبی تاریخ کے مطالعے میں ادب کوبنیادی حیثیت حاصل ہونی چاہئےاور تاریخ کو ثانوی۔ اسی طرح اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ہم ادب کی تاریخ پڑھا رہے ہیں نہ کہ زبان کی۔ زبان کی تاریخ یا اردو کا لسانیاتی ارتقا اپنی جگہ پر خود ایک علم ہے اوراپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے۔

    لسانیات بطور ایک مضمون کے اب ہمارے نصاب کا لازمی جزو بن گیا ہے، اس لیے اس پہلو کے ساتھ پورا انصاف لسانیات کا استاد ہی کر سکتا ہے۔ البتہ حسب ضرورت ہم لسانیات کے علم سے ادبی تاریخ میں بھی کام لیں گے۔ خاص طور پر تشکیلی دور کے تجزیے میں بعض ان مقامات پر جب نئے تاریخی، تہذیبی یا تعلیمی اثرات سے اسالیب میں نمایاں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔

    آخر میں اس بات کی مزید یاددہانی کی ضرورت ہے کہ ہم ادبی تاریخ کو ’اردو سروے کمیٹی کی رپورٹ‘ کے قسم کی چیز نہ بننے دیں تو اچھا ہے۔ ویسے اس کام کی اپنی اہمیت اور افادیت مسلم ہے اور ہماری یہ زبردست خواہش ہے کہ اردو زبان کے تمام چھوٹے بڑے، معروف اور غیرمعروف لکھنے والوں کا ایک مکمل اور مستند تذکرہ یا سوانحی لغت تیار کیا جائے اور ایک ’’قاموس الکتب‘‘ کی اشاعت بھی عمل میں آئے جس میں اردو زبان کی ہرکتاب سے متعلق وضاحتی نوٹ ہو۔ اس طرح کی کتابیں حوالے کے لیے بے حد کارآمد ہوں گی۔ مگر ادبی تاریخ کی تعلیم سے اسے خلط ملط نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔ اس صورت میں ہمارا کام بھی آسان ہو جائے گا اور یہ مطالعہ طلبہ اور معلمین دونوں کی ذہنی تربیت اورادبی بصیرت میں اضافے کا موجب ہوگا۔

    مأخذ:

    مضامین نو (Pg. 157)

    • مصنف: خلیل الرحمن اعظمی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے