Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادیب اور آزادیٔ رائے

ممتاز حسین

ادیب اور آزادیٔ رائے

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

    آزادی رائے، خواہ وہ کسی ادیب کی ہو یا عام آدمی کی، انسان کی اس آزادی کا ایک داخلی پہلو ہے جو اپنے کو تہذیب و تمدن کی مختلف برکتوں کی صورت میں ظاہر کرتی رہتی ہے۔ جنگلی پھلوں یا بیخ و بن پر گزارہ کرنے کے بجائے اپنے لئے غذا زمین سے اگانا، اسے محفوظ کرنا اور پھر آگ سے پکاکر کھانا، پیدل چلنے کے بجائے گھوڑے، گاڑی، موٹر اور ہوائی جہاز سے سفر کرنا، گرمی، سردی اور بارش کے شدائد سے تکلیف اٹھانے اور تباہ و برباد ہونے کے بجائے آرام دہ گھروں میں رہنا، پل اور بند تعمیر کرنا، بیماریوں اور وباؤں میں بے چوں و چرا جاں بحق ہو جانے کے بجائے اپنے استحقاق زیست پر ڈٹے رہنا اور تندرستی کے ساتھ جینا، یہ اور ایسے ہزاروں لاکھوں کام جن کی بدولت آج ہم ایک آرام دہ اور متمدن زندگی گزار رہے ہیں، انسان کی اس آزادی کے مختلف مظاہر ہیں جو اس نے اپنے علم وعمل سے خلق کی ہے۔

    کیوں کر۔۔۔؟ فطرت کے قانون سے گریز کرکے، اپنی اندھی قوت ارادی کو بروئےکار لاکر نہیں بلکہ فطرت کی اطاعت میں فطرت کو مسخر کرکے۔ انسان اور فطرت کے درمیان ایک جدلیاتی عمل بے شک ہے لیکن اس کی صحیح صورت کو سمجھنا ضروری ہے۔ انسان فطرت کی مخالفت اس کے ایک جزو کی حیثیت سے کرتا ہے نہ کہ اس سے خارج میں۔ منافات انسان کے علم اور جہل کے درمیان ہے، انسان جہل سے مجبور اور علم وعمل کی قوت سے آزاد ہے۔ اور آج تو انسان کی آزادی اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ وہ اس زمین کا بھی جسے ہمارے شعرا دارالمحن کہتے آئے ہیں، قیدی نہ رہا۔ کیا کچھ نہیں زمین قوت لگاتی ہے کہ اس کے حصار زمان و مکان سے وہ نکلنے نہ پائے اور پھر آسمان سے بھی کچھ کم کوشش اسے پرواز سے مانع رکھنے میں نہیں کی جاتی ہے۔ کہیں آتشیں گرداب کا دام بچھایا جاتا ہے تو کہیں شہاب ثاقب کے تیر برسائے جاتے ہیں، لیکن یہ جادوگر انسان، جو کہنے ہی کو مشت خاک ہے، ورنہ خلاصہ کائنات ہے، ان سارے مزاحم پر قابو پاتا ہوا کہیں چاند پر خیمہ زن ہے تو کہیں سوئے زہرہ رواں دواں ہے۔

    کون ہے آج ایسا جو اسے انسان کی آزادی کا کرشمہ نہیں بتائےگا لیکن وہ لوگ جو اس زمین کو، جو مہتاب کی سطح پر سے چرخ چہارم پر نظر آتی ہے، حضرت آدم علیہ السلام کا قید خانہ قرار دیتے ہیں اور جو ابلیس کو آدم زاد سے بڑا موجد قرار دیتے ہیں۔ آدمی کے ان سارے کارناموں کا سہرا شیطان کے سر مڑھتے ہیں۔ بڑا خوش قمت ہے شیطان جس کے ایسے مداحین ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ آدمی کا شیطان آدمی ہے۔ کیسے مزے کی بات ہے کہ ایک طرف تو وہ ان ساری چیزوں کو شیطان کا کارنامہ بتاتے ہیں لیکن اس کی ایجادات کو استعمال کرنے سے پرہیز نہیں کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں ہوائی جہاز، موٹرکار، ریڈیم تھراپی اور قوت باہ کے انجکشن سے پرہیز نہیں ہے بلکہ اس علم سے پرہیز ہے، جو ان چیزوں کے بنانے میں کارفرما ہے۔ شیطان کی ایجاد مسعود، لیکن اس کا علم مردود ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ ان چیزوں کو خریدتے ہیں، خود بناتے نہیں ہیں۔ لیکن اگر نصیب دشمناں، یہ ساری چیزیں ہمیں اپنے ملک ہی میں بنانی پڑ جائیں، تو کیا اس وقت بھی شیطان کا علم جو بڑا وسیع ہے، مردود رہےگا اور اگر جواب یہ ہے کہ نہیں، تو پھر اس خیال کی کیا اہمیت ہے کہ آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد۔۔۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ انسان کی ساری آزادیاں، آزاد ی افکار کی مرہون منت ہیں۔ علم سے انسان آزاد ہے نہ کہ چھوچھکے اچھل کو دیا اندھی قوت ارادی سے۔

    انسانی روح صرف اسی وقت مقید نہیں رہتی جب کہ وہ حصار زمان ومکان میں ہو یا وہ فطرت کے جبر میں گرفتار ہو، بلکہ اس وقت بھی مقید رہتی ہے جبکہ وہ اسیر وہم و گمان ہوتی ہے، اپنی فکر کا کوئی حلقہ کھینچ کر بیٹھ جاتی ہے، کسی خیال کی مورت کو پوجنے لگتی ہے یا عقل اور تجربے کے باہمی مراسلے سے بے نیاز ہوکر کسی جذبے یا جنون میں گرفتار ہو جاتی ہے یا پھر اس وقت جب کہ وہ اپنے جو ہر انسانیت سے دست بردار ہوکر کسی جابر کے اس فرمان کو تسلیم کر لیتی ہے کہ تو اپنی فکر میں اپنے انتخاب رائے اور اس کے اظہار میں آزاد نہیں ہے۔ عمل کی آزادی فکر کی آزادی سے ہے اور فکر کی آزادی عمل کی آزادی سے ہے۔ انسان کی آزادی کے یہ دونوں پہلو آپس میں اس طرح متحد ہیں کہ نہ تو انہیں ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکتا ہے اورنہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہوکر انسان کی آزادی کی کوئی راہ کھول سکتے ہیں۔ جب کبھی کسی گلیلیو کو کسی رائے کے اظہار سے روکا جاتا ہے توہ بندش صرف اس کی آزادی رائے پر نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک سلسلہ ایجادات، ایک جہان نو کی تعمیر ہوتی ہے۔

    اب میں اس موضوع کے ایک دوسرے پہلو کو لے رہا ہوں۔ آزادی رائے ہر فرد بشر کا حق ہے، نہ کہ صرف ادیبوں کا کیونکہ پوری انسانیت ناطق و عاقل ہے۔ پھر اس حق کے تصرف میں ادیب کی تخصیص کیوں؟ کیا اس لئے کہ وہ عام انسانوں سے زیادہ حساس، ذی شعور، دانا اور بینا ہوتا ہے؟ مجھے اس کی یہ فضیلت تسلیم ہے بشرطیکہ وہ آدمی پہلے ہو اور ادیب بعد میں اور اس کا ادب تادیبی نہ ہو بلکہ غم گسار ہو۔ لیکن اس فضیلت کے باعث نہ تو اس کا استحقاق آزادی رائے پرعام انسانوں کے استحقاق کے مقابلے میں بڑھ جاتا ہے اور نہ عوام کا استحقاق اس کے استحقاق کے مقابلے میں کم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس دونوں ہی مساوی حیثیت سے اس کے مستحق ہوتے ہیں اور اس کانہایت دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ادیب کی آزادی رائے مشروط ہوتی ہے عوام کی آزادی رائے پر، کیوں کہ ادیب کسی فن پارے میں اپنی رائے کا اظہار برائے آزادی نہیں کرتا، بلکہ اس لئے کرتا ہے کہ وہ جس رائے کو ابلاغ کے لئے منتخب کرتا ہے، اسے وہ بہ حیثیت ایک عالم گیر اصول یا ایک آفاقی سچائی کی حیثیت سے پیش کرتا ہے اور اس امر کامتمنی ہوتا ہے کہ جس رائے کو اس نے آزادی سے منتخب کیا وہ دوسروں کی بھی ویسی ہی آزادانہ منتخب رائے بن سکے۔

    اب اس نظریے کے سماجی مضمرات پر غور کیجئے۔ آزادانہ حیثیت سے منتخب کی ہوئی کسی رائے کو معرض اظہار میں لانے کاعمل اس امر کا مدعی ہے کہ دوسروں کی آزادی رائے کی بھی حمایت کی جائے۔ کیونکہ اس عالمگیر آزادی کے بغیر نہ تو وہ رائے دوسروں کی آزادانہ منتخب رائے بن سکتی ہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی ادیب یہ کہے کہ آزادی رائے کی جیسی ضرورت کہ اس کو ہے، ویسی ضرورت عوام کو نہیں ہے، تو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ ادیب نہیں بلکہ ایک اچھا خاصا فلسٹین ہے۔ (تنگ نظر ہے۔)

    لیکن یہ بات ایسے ادیبوں سے تعلق رکھتی ہے جو ادیب بننے سے پہلے آدمی بننے کی کوشش کرتے ہیں اور جن کا فن بذات خود آدم گری ہے اور جو اپنے فن اور اپنی شخصیت کو عوام کی زندگی سے پیوستہ رکھتے ہیں نہ کہ ان سے جن کے لئے ادب خیال کی سوداگری کے لئے ایک ٹکنیک ہے اور جو اپنی اس ٹکنیک سے آزادی رائے کی کسادبازاری میں بھی فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ مزید اس سے متعلق اس وقت کہوں گا جب آزادی کے مفہوم کو متعین کر چکا ہوں گا۔

    آزادی، حریت، سوفرنام، آہورا، مروک، لبرٹی، فریڈم یہ سارے الفاظ جو مختلف زبانوں کے ہیں لیکن ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ اتنے خوش آہنگ ہیں کہ سنتے ہی سیدھے روح میں اتر جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کی مدح وثنا میں جتنا کچھ بھی کہا جائے اور لکھا جائے وہ کم ہے کہ کروچے کے الفاظ میں آزادی ہی جو ہر انسانیت اور آزادی ہی انسانی تاریخ کی جدوجہد کا خلاصہ ہے، لیکن اگر اس کی ترقی وتحفظ مقصود ہے تو اس کے لئے مدح خوانی کافی نہیں ہے بلکہ جدوجہد چاہئے لیکن اسے ٹھوس تاریخی حیثیت سے سمجھنے کی ضرورت بھی ہے۔

    اس سلسلے میں سب سے پہلے میں اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتا ہوں کہ آزادی ایک عطیہ فطرت ہے۔ آزادی انسان کی سماجی زندگی کا ایک عطیہ ہے نہ کہ کوئی ایسا عطیہ فطرت ہے جسے وہ حیاتیاتی حیثیت سے وراثتاً پاتا ہے، چنانچہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ آزادی انسان کافطری یا پیدائشی حق ہے تو اس کا مفہوم اس سے زیادہ نہیں ہوتا ہے کہ چوں کہ انسان ایک سماجی فرد ہے، وہ اس آزادی کوسماجی زندگی سے بطور ایک روایت کے وراثتاً پاتا ہے اور چونکہ آزادی انسان کی مشترکہ کوشش یا سماجی علم وعمل کا نتیجہ ہے، اس لئے اس روایت کوسماج سے وراثتاً حاصل کرنے میں ہر شخص کا مساوی حق ہوتا ہے۔ آزادی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی بچہ بطن مادر سے لے کر آتا ہے۔ فطرت اس میں آزادی حاصل کرنے کی صلاحیت بے شک پیدا کرتی ہے، لیکن وہ اس صلاحیت کو حقیقت کا روپ سماجی روایت کی مدد سے دیتا ہے، جسے وہ سیکھتا، حاصل کرتا اور پھر آگے بڑھتا ہے۔

    چنانچہ جب کوئی قوم آزادی کی برکتوں سے محروم ہو جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری اس کے حال پر ہی نہیں بلکہ اس کے ماضی پر بھی عائد ہوتی ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اگر کسی قوم کی زندگی میں آزادی کی روایت یا آزادی کی جدوجہد کی روایت کمزور ہے تو وہ قوم آزاد ی حاصل نہیں کر سکتی ہے۔ کیونکہ روایت کوئی پراسرار شے نہیں ہے بلکہ پیدا کی جاتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اس وقت قوم پرشعور اور علم وعمل کا بوجھ کئی گنا بڑھ جاتا ہے اوراسے عظیم قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

    اس وضاحت کے بعد اب میں اس کے تاریخی ارتقا کی ہیئت پر روشنی ڈالنا چاہوں گا۔ انسان کی آزادی کی ابتدا اس وقت سے ہوتی ہے جبکہ اس نے کسی مقصد کے حصول کے لئے پتھر یا لکڑی کے کسی ٹکڑے کو بطور اوزار یا آلے کے استعمال کیا۔ چنانچہ انگلستان کے مشہور مفکر وہایٹ ہیڈ کایہ کہنا کہ آزادی اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کا نام ہے، بالکل صحیح ہے۔ انسان کی پہلی اور بنیادی آزادی عمل کی آزادی ہے۔ کسی مقصد کو حاصل کرنے یا کسی شے کو تخلیق کرنے کا عمل۔ لیکن ابتداءً انسان کی یہ آزادی ایک طویل زمانے تک بڑی محدود تھی، اس میں وسعت اس وقت پیدا ہوئی جب کہ اس نے اپنے مسلسل مشاہدے، تجربے اور عقل کے ملے جلے عمل سے قوانین فطرت کا علم حاصل کرکے اس کا کوئی ذہین استعمال اپنے حصول مقصد میں کیا ہے۔

    ٹکنالوجی اور علم فطرت، یہی دو چیزیں انسان کوفطرت کے جبر سے آزاد کرانے میں مددگار رہی ہیں۔ لیکن جب سے کہ انسان قدیم دور غلامی سے اپنی اس قوت کو قوموں کو مفتوح کرنے اور انسانوں کو غلام بناکر کھنے میں صرف کرنے لگا، خواہ اس کا منشا پیداواری عمل کے لئے حصول محنت کا ہی کیوں نہ رہا ہو، اس نے اپنے معاشرے میں ایک ایسے تضاد کو جنم دیا جس سے نہ صرف سماجی نانصافی بلکہ وہ سیاسی ظلم بھی وجود میں آیا جو نظام بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے محکوموں اور غریبوں کی قوت ارادی اور آزادی انتخاب کے دبانے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر ایک طرف مقدر پرستی اور ترک دنیا کامنفی فلسفہ اس وقت جنم لیتا ہے جب کہ عوام کی قوت ارادی اور آزادی انتخاب کو مسلسل دبانے کی صورت میں ان کو آزادی عمل سے محروم کر دیا جاتا ہے تو دوسری طرف یہی سیاسی ظلم، یہی دستور زبان بندی، بغاوت کے رومانی فسلفوں کو بھی جنم دیتا ہے، جس کی بنیاد اندھی قوت ارادی یا جذبے اور جنون کی پرستش پر ہوتی ہے، یا کسی مسیحاطلبی یا رونمائی معجزہ کی امید پر ہوتی ہے۔

    لیکن حصول آزادی کے یہ دونوں راستے گمراہ کن ہیں۔ پہلا راستہ تو خیر بالکل منفی ہے، دوسرا راستہ بھی ناکامیاب رہتا ہے۔ کیونکہ جس طرح کہ انسان خارجی فطرت کو منقلب اس کے قوانین کے علم سے کرتا ہے نہ کہ تنہا اپنی قوت ارادی سے، اس طرح سماجی ناانصافیوں اور سیاسی ظلم کو بھی انسان اپنی قوت ارادی سے نہیں بلکہ سماجی ارتقا کے قوانین کا علم حاصل کرکے کرتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بتانا غالبا ًبے جا نہ ہوگا کہ قوت ارادی کی آزادی اس سے زیادہ نہیں ہے کہ کسی شے کے بارے میں فیصلہ اس شے کے مکمل علم کے ساتھ کرنا چاہئے۔ قوت ارادی کے ساتھ ساتھ معروض کامکمل علم حصول مقصد کے لئے ضروری ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ حصول آزادی خارجی حالات کے مزاحم کو نظر انداز کرنے اور داخلیت کی آزادی پر بےتکان بھروسا کرنے میں نہیں ہے بلکہ خارجی حالات کا مکمل علم حاصل کرکے اپنی داخلیت کو بروئےکار لانے میں ہے۔

    اب تک ہم نے آزادی رائے کے جن پہلوؤں پر غور کیاہے، وہ یہ ہیں، آزادی رائے انسان کی آزادی عمل کا داخلی پہلو ہے اور یہ دونوں پہلو آپس میں متحد ہیں۔ آزادی رائے سے آزادی عمل اور آزادی عمل سے آزادی رائے ہے اور آزادی عمل اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کا نام ہے۔ ادیب کی آزادی رائے عوام کی آزاد ی رائے یا سارے انسانوں کی آزادی رائے پر مشروط ہے کیونکہ آزادی سماجی زندگی کا ایک روایتی ورثہ ہے نہ کہ طبعی زندگی کا کوئی پیدائشی عطیہ۔ انسان آزادی حاصل کرنے کی ممکنہ ذہنی صلاحیت بے شک فطرت ہی سے پاتا ہے لیکن چونکہ وہ اپنی اس ممکنہ صلاحیت کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا سماجی عمل، سماجی ذہن کے تعاون سے کرتا ہے، اس لئے آزادی اور آزادی رائے، دونوں ہی ہر فرد بشر کا حصہ ہیں اوریہ حق کسی بھی فردبشر کو نہیں پہنچتا ہے کہ وہ دوسروں کی آزادی رائے کو بالادستی کے کسی نظام یابندوق یا سرمایہ یا اشتہار کی قوت سے دبائے۔

    اب میں آزادی رائے کوادب کے رشتے سے جانچوں گا۔ اس سلسلے میں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ادب بنیادی حیثیت سے حقیقت کا ایک تخئیلی روپ ہے، کس حد تک اس کو عقل کے معیار سے جانچنا چاہئے؟ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس حد تک ایک باشعور ادیب پر عام انسانوں کے مقابلے میں اظہار رائے کی آزاد ی حاصل کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ جہاں تک کہ پہلے سوال کا تعلق ہے کہ وہ بظاہر موضوع سے خارج میں ہے، لیکن میں نے اس کو اس لئے اٹھایا ہے کہ ادیب ہمیشہ مثبت رائے پیش نہیں کرتا۔ وہ کبھی کبھی بلکہ بیشتر منفی رائے پیش کرتا ہے، اس کی نظر کمزوریوں پر زیادہ اور خوبیوں پر کم پڑتی ہے۔ پھریہ کہ وہ کسی عیب کو نمایاں کرنے کے لئے حقیقت کو توڑ مروڑ بھی دیتا ہے یا اسے مبالغے کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ ان ساری صورتوں میں اس کی رائے کو صرف معقولات کے تصورات سے جانچنا نہیں چاہئے بلکہ چشم تخیل کو بھی راہ دینی چاہئے اور اگر وہ زیادہ تلخ و ترش ہے تو اس کو برداشت کرنا چاہئے۔

    دوسرا سوال اس لئے اٹھایا ہے کہ ہر بڑا ادیب اور ہر بڑا مفکر اپنی غیر معمولی بصیرت رکھنے کے باعث اپنے زمانے کی تاریخی حدود سے بہت آگے سوچتا ہے، وہ کبھی کبھی کوئی ایسی بات کہہ اٹھتا ہے جس سے صدیوں کا بنا بنایا نقشہ بگڑ جاتا ہے۔ اس کی پاداش میں اسے پرامیتٹھس کی طرح چٹانوں سے باندھا جا سکتا ہے۔۔۔ برونو (BRONO) کی طرح اس کو پھانسی دی جا سکتی ہے لیکن اس سے خیال فنا نہیں ہوتا ہے۔ جو راز کہ ایک بار فطرت کے بطن سے ہویدا ہو جاتا ہے، وہ نشوونما پاکر رہتا ہے۔ اور یہ انہی انسانوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ جو انسانیت کے پہلے ہزارہا سال تک چیونٹی کی طرح رینگتی رہی ہے، وہ آج چوکڑی بھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

    ان حالات کے پیش نظر ادیب اور آزادی رائے کے رشتے کی صحیح پوزیشن میرے نزدیک یہ ہے کہ ادیب آزادی رائے کا صرف طالب ہی نہیں بلکہ خالق بھی ہوتا ہے۔ وہ آزادی کی بھیک نہیں مانگتا ہے کہ بلکہ آزادی حاصل کرتا ہے اور اس کی دولت سارے لوگوں میں تقسیم کرتا ہے اور جس طرح کہ انسان کے آزادی عمل کی کوئی حد نہیں ہے، اسی طرح اس کی آزادی فکر کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔ کیوں کہ آزادی کسی بھی تخلیق یا تخلیقی عمل کی اولین شرط ہے اور انسان اپنی نوع بہ نوع تخلیقات ہی سے زندہ ہے۔ وہ اپنے تخلیقی عمل سے اپنی تخلیق نوپیہم کرتا رہتا ہے۔

    ویڈیو
    This video is playing from YouTube

    Videos
    This video is playing from YouTube

    ممتاز حسین

    ممتاز حسین

    مأخذ:

    نقد حرف (Pg. 140)

    • مصنف: ممتاز حسین
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1985

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے