اخترالایمان کا خرابہ
انسانی زندگی کی تمام تر جہتوں کو نظر میں رکھنا، انگیز کرنا اور پھر تخلیقیت سے ہم آمیز کرکے صفحۂ قرطاس پر اتارنا ایک مشکل کام ہے۔ اخترالایمان نے یہ کام پوری تخلیقی ہنرمندی کے ساتھ کیا ہے۔ انھوں نے اپنے مجموعۂ کلام ’سروساماں‘ (1983) کے پیش لفظ میں لکھا تھا:
’’گزران کا ایک لفظ میرے ذہن میں ہے جو میں سمجھتا ہوں پوری زندگی کی اساس ہے۔ یہ گزران کوئی سوچا سمجھا ہوا فعل نہیں، ایک افتاد ہے جیسی پڑتی ہے، جھیلتا اوٹتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو گزران کو معنی پہنانے کی کوشش ہی فلسفہ، ادب و شعر ہے۔‘‘ (کلیات اخترالایمان، ایجوکیشنل دہلی 6، 2006، ص 37)
جب ہم اخترالایمان کی نظمیں پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی وہ ’گزران‘ ہی ہے جس کے لمحوں کو شاعر نے الفاظ کے پیکر میں مجسم کیا ہے۔ گزران کوئی ٹھوس شے نہیں بلکہ غیرمرئی لمحات سے مرکب ہے اور اخترالایمان نے زمان و مکاں کو ہی منظوم کیا ہے۔برندابن کی گوپی اور شفقی اور قیصر سے لے کر رامیؔ اور حبیبہ تک ایک دبی دبی حسرت اور یاسیت سے معمور تمناؤں کا جال سا پھیلا ہوا ہے۔ لڑکپن اور جوانی کے ایام کو اخترالایمان نے پلٹ پلٹ کر دیکھا ہے اور یادوں کے ہجوم میں خود کو ڈبویا اور سرشار کیا ہے:
تم مرے ذہن میں یوں آتی ہو جیسے خوشبو/ گیت جھرنوں کے، صبا، دور کھنکتی چھاگل
بے خبر بہتی ہوئی ندیا، امنڈتی بدری/ سات رنگوں کی دھنک آنکھوں میں پھیلا کاجل
تم مری طفلی کا دیکھا ہوا اِک خواب سا ہو(نظم: برندابن کی گوپی)
——
اس دیار میں شاید/ قیصر اب نہیں رہتی/ وہ بڑی بڑی آنکھیں/ اب نہ دیکھ پاؤں گا
ملک کا یہ بٹوارہ/ لے گیا کہاں اس کو(نظم: ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر)
——
رنگوں کا چشمہ سا پھوٹا ماضی کے اندھے غاروں سے
سرگوشی کے گھنگھرو کھنکے گرد و پیش کے دیواروں سے
یاد کے بوجھل پردے اٹھّے، کانوں میں جانی پہچانی
لوچ بھری آوازیں آئیں، جیسے کوئی ایک کہانی (نظم: شفقی)
——
بھیڑ ہے بچوں کی چھوٹی سی گلی میں دیکھو/ ایک نے گیند جو پھینکی تو لگی آکے مجھے
میں نے جاپکڑا اسے، دیکھی ہوئی صورت تھی/ کس کا ہے، میں نے کسی سے پوچھا؟
یہ حبیبہ کا ہے، رمضانی قصائی بولا/ بھولی صورت پہ ہنسی آگئی اس کی مجھ کو
(نظم: بازآمد- ایک منتاج؛: بنتِ لمحات)
——
حیات نام ہے یادوں کا، تلخ اور شیریں/ بھلا کسی نے کبھی رنگ و بوکو پکڑا ہے
شفق کو قید میں رکھا، صبا کو بند کیا/ ہر ایک لمحہ گریزاں ہے، جیسے دشمن ہے
نہ تم ملو گی نہ میں، ہم بھی دونوں لمحے ہیں/ وہ لمحے جا کے جو واپس کبھی نہیں آئے
(نظم: بنت لمحات: بنت لمحات)
——
یہی شاخ تم جس کے نیچے کسی کے لیے چشم نم ہو، یہاں اب سے کچھ سال پہلے
مجھے ایک چھوٹی سی بچی ملی تھی، جسے میں نے آغوش میں لے کے پوچھا تھا، بیٹی
یہاں کیوں کھڑی رو رہی ہو، مجھے اپنے بوسیدہ آنچل میں پھولوں کے گہنے دکھا کر
وہ کہنے لگی میرا ساتھی، اُدھر اس نے انگلی اٹھا کر بتایا، اُدھر اس طرف ہی
(جدھر اونچے محلوں کے گنبد، ملوں کی سیہ چمنیاں آسماں کی طرف سر اٹھائے کھڑی ہیں)
یہ کہہ کر گیا ہے کہ میں سونے چاندی کے گہنے ترے واسطے لینے جاتا ہوں رامیؔ
(نظم: عہد وفا، تاریک سیّارہ)
اخترالایمان نظموں میں، آپ نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ کس کس طرح زمان و مکاں کو اپنی تخلیقی ہنرمندی سے پیش کرتے ہیں۔ ان کی نظموں میں جو معشوق ہے وہ محض ایک جگنو کی چمک سے زیادہ نہیں، البتہ اس معشوق سے شاعر کا جو ربط خاص ہے اور اس میں جو شدت ہے، اس کے ارتعاشات دور تک محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ اب ذرا آگے بڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اخترالایمان نے اپنا جو تخلیقی خرابہ تعمیر کیا ہے اس کے لیے انھوں نے مواد اپنے معاشرے اور اس کے افراد کے شب وروز ہی سے فراہم کیا ہے۔ معاشرتی اور اخلاقی قدروں میں عملی طور پر جو ناہمواری اور تضاد کی صورت نظر آتی ہے، اسی نے اخترالایمان کی تخلیقیت کو مہمیز کیا ہے۔
اپنے مجموعے ’آب جو‘ کے پیش لفظ میں وہ لکھتے ہیں:
’’میری شاعری یہ سوچ کر پڑھیے کہ یہ شاعری مشین میں نہیں ڈھلی۔ ایک ایسے انسانی ذہن کی تخلیق ہے جو دن رات بدلتی ہوئی سیاسی، معاشی اور اخلاقی قدروں سے دوچار ہوتا ہے جو اُس معاشرے اور سماج میں زندہ ہے جسے آئیڈیل نہیں کہا جاسکتا۔ جہاں عملی زندگی اور اخلاقی قدروں میں ٹکراؤ ہے تضاد ہے۔‘‘ (پیش لفظ: آب جو)
معاشرے میں جو تنزل ہے اسی کو اخترالایمان نے شدید طور پر نہایت ہی سنجیدہ لہجے میں پیش کیا ہے۔ ایسے معاشرے میں انسان کس قدر ٹوٹتا جاتا ہے اور اس کے ذہن میں جو کرب اور روح میں جو اضطراب پیدا ہوتا ہے، اس سے وہ کتنا متاثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اخترالایمان کی نظموں سے لگایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا بھی کہ آج کا شاعر ٹوٹا ہوا آدمی ہے اور میری شاعری اسی ٹوٹے ہوئے آدمی کی شاعری ہے۔ (نیا آہنگ 1977: پیش لفظ)
اس کے ذیل میں انھو ںنے خود ہی اپنی نظمیں آثار قدیمہ، میں تمھاری ایک تخلیق، میں ایک سیارہ، راہ فرار اور میرا دوست ابوالہول پیش کی ہیں۔ نظم ’میں تمھاری ایک تخلیق‘ سے یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
میں تو پروردہ ہوں ایسی تہذیب کا/ جس میں کہتے ہیں کچھ اور کرتے ہیں کچھ
شرپسندوں کی آماجگاہ
امن کی قمریاں جس میں کرتب دکھانے میں مصروف ہیں/ میں ربر کا بنا ایسا ببوا ہوں جو
دیکھتا، سنتا، محسوس کرتا ہے سب/ پیٹ میں جس کے سب زہر ہی زہر ہے
پیٹ میرا کبھی گر دباؤ گے تم/ جس قدر زہر ہے
سب الٹ دوں گا تم سب کے چہروں پہ میں
(نظم: میں تمھاری ایک تخلیق: نیا آہنگ، 1977)
اب جبکہ شرپسندوں سے تعمیر شدہ معاشرے کی بات ہورہی ہے یا ایسی تہذیب جس میں انسان کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے، تو یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس تہذیبی زندگی کے مختلف رنگوں کو اخترالایمان نے اپنی شاعری میں کس طرح پیش کیا ہے۔ اپنی دو مشہور نظموں ’مسجد‘ اور ’پرانی فصیل‘ میں پوری قوت سے اس تہذیبی تنزل کو پیش کیا ہے۔ اس میں طنز کی کاٹ بھی آپ محسوس کرسکتے ہیں۔ ٹوٹی اور بوسیدہ سی ایک فصیل ہے، جو اپنے سینے کے اسرار کھول رہی ہے۔ اس نظم میں سولہ (16) بند ہیں۔ اس کی شورہ آلود زمین، یہاں کی تیرہ بختی، ہوس رانی اور رنگینیوں کے عکس، خوش آمد اور بے ضمیری کے نقوش یہ سب کچھ اس نظم میں دیکھے جاسکتے ہیں اور یہی ہے خام مواد جس سے اخترالایمان کا تخلیقی خرابہ تعمیر پاتا ہے۔ یہ بند ملاحظہ کیجیے:
خراب و شورہ آلودہ زمیں خاموش رہتی ہے/ یہاں جھینگر نہ جانے کس زباں میں گیت گاتے ہیں
یہاں چوہے متاعِ زندگی سے سرخ رو ہوکر/ مہذب بستیوں میں جا کے اکثر لوٹ آتے ہیں
——
وہاں سہمی ہوئی ٹھٹھری ہوئی راتوں نے دیکھے ہیں/ دریدہ پیرہن، عصمت نگوں سر، بال آوارہ
گریباں چاک، سینہ وا، بدن لرزاں، نظر تیرہ/ خمِ ابرو میں درماندہ جوانی محوِنظّارہ
——
کہیں روتے بھِنکتے پھر رہے ہیں، ہر طرف ہر سو/ غلاظت آشنا، جھلسے ہوئے انسان کے پلِّے
یہ وہ ہیں جو نہ ہوتے کوکھ پھٹ جاتی مشیت کی/ تمناؤں میں ان کی رات دن کھینچے گئے چلّے
(نظم: پرانی فصیل: گرداب 1943)
آخر کے دو بند کے حوالے سے خلیل الرحمن اعظمی کا موقف کچھ یوں ہے:
’’اس انتشار اور بحران میں شاعر نے بعض ایسے ہولناک مناظر دیکھے ہیں جو انتہائی کرب انگیز ہیں۔ کسے خبر تھی کہ اخترالایمان نے اپنی نظم میں جن حقیقتوں سے پردہ اٹھایا تھا وہ اس نظم کی تخلیق کے کچھ ہی دنوں بعد یعنی 1947 اپنی مکمل عریانی کے ساتھ شاہراہ عام پر ایک ایسے تماشے کے روپ میں نظر آئیں گی جنھیں انسانی تاریخ صدیوں تک یاد رکھے گی۔‘‘
(بحوالہ : زاویۂ نگاہ، ص 41، قومی کونسل برائے فروغ انسانی وسائل، نئی دہلی 2008)
مذکورہ بالا نظم 1943 کے مجموعے میں ہے جسے خلیل صاحب نے تقسیم ہند کے وقت کے خونیں مناظر سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ انسانی اقدار کی شکست و ریخت اور تہذیبی بحران کے مناظر ہر زمانے میں رہے ہیں۔ بہرحال، اس نظم میںا خترالایمان نے اپنے تشنّج آمیز احساس کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ شاعر کا شدید غصہ اس مصرعے میں دیکھا جاسکتا ہے: غلاظت آشنا جھُلسے ہوئے انسان کے پلّے۔
’پرانی فصیل‘ کی طرح نظم ’مسجد‘ بھی تہذیبی بحران کو پیش کرتی ہے۔ اس میں وقت کے تصور نے بھی عقیدے اور تہذیب کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ جس طرح ’پرانی فصیل‘ محض بطورنشان کے ہے ’مسجد‘ بھی محض ایک مذہبی نشان بن کے رہ گئی ہے۔ یہاں ’مسجد‘ ایک قوم کی مٹتی ہوئی نشانی اور ماند پڑتی ہوئی شناخت کو پیش کرتی ہے۔ ’وقت‘ کا کردار اس نظم میں ایک ایسے جابر بلکہ آج کی اصطلاح میں کہیں تو ایک سنامی کا ہے جو اس ’مسجد‘ کے وجود کو بہا لے جانا چاہتی ہے۔
نظم کی فضا بندی کے لیے اخترالایمان نے ڈکشن کا انتخاب و استعمال بھی بہت مناسب کیا ہے۔ برگد، خاموش و ملول، تاریک کفن، شکستہ سا کلس، چنڈول، گرد آلود چراغ، بوڑھا گدھا اور اس کا اونگھنا، چاند کی پھیکی ہنسی، نگارِ دلِ یزداں کا جنازہ، مَیلا سا دیا، رعشہ زدہ ہاتھ وغیرہ۔ چوں کہ یہ مسجد اب آباد نہیں بلکہ ایک خرابے (Wasteland) میں مبدل ہوچکی ہے اور خرابے کے لیے نحوست، اضمحلال، یاس اور افسردگی کا ماحول تشکیل دینا ضروری ہے، اس لیے شاعر نے یہ اہتمام کیا ہے۔ یہ بند دیکھیے:
ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس/ پاس بہتی ہوئی ندّی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی/ گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے
——
ایک بوڑھا گدھا دیوار کے سائے میں کبھی/ اونگھ لیتا ہے ذرا بیٹھ کے جاتے جاتے
یا مسافر کوئی آجاتا ہے، وہ بھی ڈر کر/ ایک لمحے کو ٹھہر جاتا ہے آتے آتے
——
فرش جاروب کشی کیا ہے سمجھتا ہی نہیں/ کالعدم ہوگیا تسبیح کے دانوں کا نظام
طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک باقی/ اب مصلیٰ ہے نہ منبر، نہ مؤذن، نہ امام
——
ایک مَیلا سا، اکیلا سا، فسردہ سا دیا/ روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کرتا ہے
تم جلاتے ہو، کبھی آکے بجھاتے بھی نہیں/ ایک جلتا ہے مگر ایک بجھا کرتا ہے
یہاں وقت کی سُنامی اچانک نہیں آئی ہے بلکہ اخترالایمان نے ایک ارتقا پذیر انہدام کی صورت پیدا کی ہے۔ یہ رعشہ زدہ ہاتھ اُس آخری شخص کا ہے جو گاہے گاہے مسجد میں دیا روشن کرنے آجاتا ہے۔ اب مسجد کی دیکھ ریکھ کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ گویا اب مسجد کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ خلیل الرحمن اعظمی کے بقول اس نظم میں ندی وقت کی علامت ہے جو نقش گرِ حادثات ہے اور جو ہر اُس شے کو فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے جس کی ضرورت باقی نہ ہو۔ (زاویۂ نگاہ، ص 39)۔ یہاں یہ بھی غورطلب ہے کہ آخر کے بند میں اخترالایمان نے موج کو Personify کیا ہے اور یہ موج ایک ویلن کی طرح چیخ پڑتی ہے:
تیز ندّی کی ہر اک موج تلاطم بردوش/ چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کے قیود/ اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی
اس طرح اخترالایمان نے وقت کے جبر کو پُرقوت انداز میں پیش کیا ہے۔ بنت لمحات کا لمحۂ گریزاں ہو یا بازآمد کا رمضانی قصائی، ’یادیں‘ میںا ٓبادخرابے کے بننے بگڑنے کا عمل ہو یا ’موت‘ میں ہونے والا دھماکا یا دستک یا پھر نظم ’کہاں تک‘ میں گردش شام و سحر یا ’آخر شب‘ میں قافِ ماضی کے نمناک غار، انتظار کی بل کھاتی شاہراہ عظیم یا پھر ’یہ دور‘ میں سروِچمن اور بنت بہار اور اسی طرح ’پکار‘ میں دن کے ڈھلنے اور شام کی اداسی— گویا اخترالایمان اپنے تخلیقی عمل کے لمحوں میں کبھی وقت کے حصار سے باہر نہیں ہوسکے۔ بلکہ مجھے یہ بھی کہنے میں تامل نہیں کہ وقت ان کی سائیکی کا ناگزیر حصہ ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ دنیا کی تمام اشیا پر وقت کا ہی تسلط ہے۔ اخترالایمان کے وجود پر یہ وقت بچپن، لڑکپن جوانی اور اس کے بعد تک حاوی رہا ہے۔ انسانی زندگی میں یہ وقت ازل سے دنیا اور پھر ابد تک یعنی ایک مدور سفر ہے، جو وقت کے پہیے کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ اسی پہیے کے ساتھ اخترالایمان کا تخلیقی سفر بھی جاری رہا ہے۔
اخترالایمان کی شاعری میں جو کھردراپن ہے وہ زندگی اور زمین کے کرب سے پیدا ہوا ہے۔ جو کرب زمین کا ہے وہی اخترالایمان کا ہے۔ زمین بھی دکھوں کو جھیلتی ہے۔ اخترالایمان خود کو ان دکھوں سے قریب پاتے ہیں۔ اپنے مجموعے ’زمین زمین‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
’’دراصل زمین کا دردمترادف ہے اس کرب کے جو بحیثیت ایک فرد کے میرے اندر پیدا ہوتا رہتا ہے اور بحیثیت ایک شہری کے میرے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
اسی زمین پر انسانی معاشرہ قائم ہے۔ لہٰذا اس معاشرے کے نیک اور شریف لوگوں کے ساتھ ساتھ اخترالایمان کی نظر بدکردار یعنی لچّے لفنگے پر بھی ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی نے شاید اسی لیے لکھا ہے کہ:
’’نظیر اکبرآبادی کی طرح اخترالایمان کا زاویۂ نظربھی ’سوہے وہ بھی آدمی‘ قسم کا ہے جس میںا خلاقی رواداری، حسّی مادیت اور وسعت فکر کے عناصر دور سے چمکتے نظر آتے ہیں۔‘‘
(بحوالہ اردو ادب، اخترالایمان نمبر، اکتوبر 2015، تا مارچ 2016، ص 406)
یہیں پر یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس زمین کو ’خرابہ‘ بنانے میں حیوانوں سے زیادہ انسانوں کا رول رہا ہے۔ اخترالایمان کے یہاں جو مقامیت اور ارضیت کے نقوش ہیں وہ انھیں اپنے معاصرین میں نمایاں مقام عطا کرتے ہیں۔ انفرادی شعور کو اجتماعی شعور کا حصہ بنانے میں اخترالایمان نے اہم رول ادا کیا ہے۔ انسانی معاشرے میں رشتوں کی جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے، غیرضروری طور پر جو ہلچل، ہجوم اور آپادھاپی نظر آتی ہے، اس سے اکتا کر اخترالایمان کہتے ہیں:
اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں/ جو مجھے راہ چلتے کو پہچان لے
اور آواز دے ’او بے او سرپھرے‘/ دونوں اک دوسرے سے لپٹ کر وہیں
گرد و پیش اور ماحول کو بھول کر/ گالیاں دیں، ہنسیں،ہاتھا پائی کریں
پاس کے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر/ گھنٹوں اک دوسرے کی سنیں اور کہیں
اور اس نیک روحوں کے بازار میں/میری یہ قیمتی بے بہا زندگی
ایک دن کے لیے اپنا رخ موڑ لے
(نظم: تبدیلی، تاریک سیّارہ)
اس نظم میں شہر کی چکاچوند اور مصروف زندگی پر ایک کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ ’او بے او سر پھرے‘ جیسے فقرے نے اس نظم کے آرٹ میں بے تکلفی کا رنگ بھر دیا ہے۔ شہر کو نیک روحوں کا بازار کہنا بھی ہجو ملیح (Irony) ہے۔ غور کیجیے کہ اخترالایمان نے جدید نظم کی زمین پر کیسے کیسے کردار ابھارے ہیں۔ زمین پر ہونے والی سفلہ پروری اور آتش فشانی کو اخترالایمان کی آگہی نے اپنے باطن میں اتار لیا تھا اور اسی لیے ان کے لہجے اور متن دونوں پر آشوب آگہی کا عکس نظر آتا ہے۔ نظم ’راہ فرار‘ دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ مخاطَب کو کس کس طرح سے راہ فرار کی صورت دکھائی جارہی ہے۔ اِدھر سے نہ جاؤ کہ اِدھر ایک بوڑھا، چہروں پر ایسی بھبھوت مل دیتا ہے کہ سب جھرّیاں پھٹ پڑتی ہیں، اُسے پیر فرتوت بھی کہا گیا ہے۔ اِدھر سے بھی نہ جاؤ کہ اِدھر ایک شخص جوانوں کو روک کر وہی باتیں کرتا ہے جو یونان میں سقراط کرتا تھا، شاید اُسے بھی زہر پینا پڑے۔ اِدھر بھی نہ جاؤ کہ اِدھر روشنی میں پکڑے جاؤ گے بہتر ہے کہ شاہانِ دہلی کے ذریعے بنائے گئے تہہ خانے میں چھپ جائیں آفتوں اور ہنگاموں سے بچنے کی یہی تدبیر ہوسکتی ہے۔ پھر کہا کہ ادھر سے نہ جاؤ کہ شاہ نادر آج کوئی نہیں، لیکن وہی قتل عام آج بھی ہے۔ پھر آگے چل کر گانجا، بھنگ، افیون پینے اور امردپرستی کی باتیں کرتا ہے، تقسیم ہند کے وقت کے فسادات کی یاد دلاتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ کوئی ایسی راہ فرار نکالو کہ ہم زندگی کے جہنم کو جنت سمجھ لیں۔
یہ ہے اخترالایمان کا خرابہ۔ یہ ہے مقامی اور ارضی تہذیب کے نقوش جہاں شاعر کے انفرادی شعور میں انسانی معاشرے کا عمل تنفس جاری و ساری ہے۔ مذکورہ نظم کے کچھ حصے دیکھیے:
اِدھر سے نہ جاؤ/ اِدھر راہ میں ایک بوڑھا کھڑا ہے/ جو پیشانیوں اور چہروں
پہ ایسی بھبھوت ایک مل دے گا سب جھرّیاں پھٹ پڑیں گی
——
اِدھر سے نہ جاؤ/ ادھر شاہ نادر نہیں آج کوئی بھی لیکن/ وہی قتل عام آج بھی ہورہا ہے
چلو سامنے کے اندھیرے میں گھس کر/ اتر جائیں تہہ خانے کی خامشی میں
یہ سب کھڑکیاں بند کردیں
کوئی چیخنے، بین کرنے کی آواز ہم تک نہ آئے
——
فسادات دیکھے تھے تقسیم کے وقت تم نے
ہوا میں اچھلتے ہوئے ڈنٹھلوں کی طرح شیرخواروں کو دیکھا تھا کٹتے
اور پستان بُریدہ جواں لڑکیاں تم نے دیکھی تھیں کیا بین کرتے؟/ فراموشگاری کا احسان مانو
یہ سب کل کی باتیں ہیں، بوسیدہ باتیں/ جنھیں بھول جانا ہے بہتر
فراموشگاری بھی/ اک نعمتِ بے بہا ہے
(نظم: راہ فرار: نیا آہنگ)
پہلے بھی اخترالایمان کے حوالے سے یہ کہا گیا کہ ان کے نزدیک گزران کو معنی پہنانے کی کوشش ہی، فلسفہ، ادب و شعر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں انسانی زندگی کے گزران کی کہانیاں عود کر آتی رہتی ہیں۔ ان کہانیوں میں چند ایک رومانی اور نشاط آمیز بھی ہیں لیکن زیادہ تر کہانیاں زندگی اور معاشرے کے کرب اور دکھوں کو پیش کرنے والی ہیں۔ جدید نظم نگاروںمیں اخترالایمان نے اپنا تخلیقی سفر آزادانہ طے کیا ہے، جس طرح کہ راشد اور میراجی نے طے کیا تھا۔ راشد اور میراجی کو تو پھر بھی حلقۂ ارباب ذوق کے بینر تلے رکھ دیا گیا بلکہ امتداد زمانہ کے بعدحلقے کی شناخت کا ضامن یہی دو نام قرار پائے۔ اخترالایمان نہ ترقی پسندی کے فریم ورک میںا ٓسکے اور نہ حلقۂ ارباب ذوق میں سما سکے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں انسانی معاشرے میں ’رویائے صادقہ‘ (مجموعہ ’زمین زمین‘ میں اسی عنوان سے ایک نظم بھی ہے) کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب بھی اخترالایمان اپنے تخلیقی خرابے میں اپنی زنبیل میں رویائے صادقہ لیے مسکرا رہے ہیں: ’خواب لے لو خواب!‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.