Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

علامہ اقبال کا نظریہ خودی

طارق مرزا

علامہ اقبال کا نظریہ خودی

طارق مرزا

MORE BYطارق مرزا

    حکیم الامّت حضرت علامہ اقبال ؒکے فکر و فلسفے کا مرکزی نکتہ اور جوہر ِکلام اُن کانظریہِ خودی ہے۔ ان کی فکر اور فلسفے کے دیگر مباحث اس نظریے کے گرد گھومتے ہیں۔ ان کا فلسفہ حیات بھی یہی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے فلسفہ خودی کی تشریح اور توضیح آسان نہیں ہے۔ جس فکر اور فلسفے کو بیان کرنے اور اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے خود علامہ ؒنے کئی کتابیں لکھ ڈالیں، اسے چند سطور میں سمیٹنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم اس الہامی فلسفے کی وادیئ اسرار میں ایک دفعہ داخل ہو جائیں تو اس کے قلبی اثرات اور کیف و سرور سے نکلنا بھی محال ہے۔

    اگرچہ خودی کے لغوی معنی انانیت، خود پرستی، خود سری اور تکبّر کے ہیں مگر اقبال کا فلسفہ خودی ان تمام معانی سے مختلف ہے۔ جس طرح اقبال ؒکے ہاں عشق کے وہ معنی نہیں ہیں جو عام مستعمل ہیں۔ اقبالؒ کی خودی میں فخر و غرور کے بجائے اپنے آپ کی پہچان، اس پہچان کو قائم رکھنے اور اپنے بل پر اپنی حسیات کو استحکام دینے کا نام ہے۔ اقبالؒ نے اسے نہایت وسیع مفہوم کے ساتھ اعلیٰ ترین مقصدِ حیات بنا دیا ہے۔ اقبالؒ انسان کو مظاہر فطرت سے برسرِ پیکار رہنے اور خود کو اشرف المخلوقات منوانے کا سبق دیتے ہیں۔ خودی سے نہ صرف انسان بلکہ اس کے ارد گرد کے افراد اور معاشرہ سبھی ترقی کرتے ہیں۔ اور جہاں خودی مر جائے یہ تمام ڈھانچہ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔

    انسان اپنی سطح سے نیچے قعرِِ مذلّت میں آ گرتا ہے۔ اس کی انا اور خود داری ختم ہوتی ہے تو اس کے اندر کا انسان بھی مر جاتا ہے۔ اس کا شوق، اس کا جذبہ، اس کا ایمان، اس کی ہمت اور اس کی جدوجہد رُوبہ زوال ہو جاتی ہے۔

    خودی بنیادی طور پر انسان کی عظمت، سر بلندی اور خود انحصاری کا فلسفہ ہے۔ مقصدِ حیات اور حقیقتِ کائنات کو سمجھنے کا نام ہے۔ اپنے آپ کو جاننے، اپنے احساسِ ضعف پر قابو پانے اور اپنے اندر یقین و اعتماد پیدا کرنا خودی ہے۔ یہ انسان کو حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات ثابت کرنے کی راہ ہے۔ انسان کی ظاہری، باطنی، دُنیاوی، آخروی، انفرادی اور اجتماعی کامیابی کی کلید ہے۔

    مگر اس کی کھوج آسان نہیں ہے۔ خودی کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے اندر کی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچانے، اُنھیں گرمیِ شوق سے مزید آنچ دے اور اسے بروئے کار لائے۔ خودی کا مطالبہ ہے کہ دوسروں کے دستِ نگر نہ بنو۔ اپنے اوپر بھروسہ کرو اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی دنیا آپ پیدا کرو۔ انسان اگر اپنی باطنی قوتوں کا ادراک کر سکے تو حیران ہو کہ قدرت نے اس کے اندر کتنی صلاحیتیں اور جوہر عطا کر رکھے ہیں۔ جنھیں اکثر اوقات انسان کھوجتانہیں ہے۔ یوں یہ پیش بہا صلاحیتیں استعمال ہوئے بغیر دم توڑ دیتی ہیں۔ خودی ان صلاحیتوں، ان کمالاتِ انسانی کو سامنے لانے میں مدد دیتی ہے۔ فلسفہ خودی کے خالق حضرت علامہ اقبالؒ نے انسان کو اپنے اندر ڈُوبنے اور خودی کی تلاش کی راہ دکھلائی ہے۔:

    اپنے من میں ڈُوب کر پا جا سراغِ زندگی

    تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

    آسان الفاظ میں احساسِ غیرت مندی، خود داری، اپنی ذات اور ان کا پاس رکھنا اور حرکت و عمل سے اپنے وسائل خود پیدا کرنا خودی ہے۔

    خودی سے حیات جو بن دکھاتی ہے اور کائنات کا وجود تکمیل پاتا ہے۔ خودی کا اصل منبع بہرحال انسان ہی ہے۔ کائنات اور اس کے مظاہر انسان کی سمجھ بوجھ اور شعور سے جڑے ہیں، اس کی صلاحیتوں کی آزمائش، اس کی جستجو کا سامان ہیں۔بہ الفاظ دیگر انسان کو اپنی زندگی کا مقصد، کائنات سے اس کا تعلق اور خالق سے اس کا رشتہ کیا ہے، یہ سب کچھ جاننے کے لیے جس علم اور جستجو کی ضرورت ہے وہ عرفانِ ذات ہے۔ خود شناسی ہے۔ دُنیا میں آنے کا مقصد اور اس مقصد کی راہ پر چلنا خودی ہے۔

    اقبالؒ کے نزدیک خودی پا کر انسان اپنی منزل اور اس کے راستے پر چل سکتا ہے۔ اپنا نصب العین جان سکتا ہے اور یہ مقصد اسے غیر فانی بنا دیتا ہے۔ حیاتِ جاوداں عطا کر دیتا ہے۔ حتی کہ ظاہری موت بھی اسے ختم نہیں کر سکتی۔اقبال نے بتایا کہ خودی کا جوہر یکتا ہے۔ وہ کسی دوسری غرض میں مدغم نہیں ہو سکتا نہ کسی اور شکل میں نمایاں ہو سکتا ہے۔ ہاں خودی کی مناسب پرداخت نہ ہو تو وہ فنا ہو سکتی ہے۔

    ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر

    ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر

    اقبالؒ کے مطابق خودی اور مادی شے کے زمان و مکان یکساں نہیں ہوتے۔وہ مادی اشیا کو مجبورِ محض خیال کرتے ہیں جب کہ ان کے مطابق انسانی اختیار، ارادہ اور قوت عمل کی کوئی حد نہیں ہے۔اس لیے انسانی ذات کا پابند زمان و مکان سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔فرماتے ہیں: خدا میری جگہ محسوس کرنے ، فیصلہ کرنے اور چننے کا کام نہیں کر سکتا جب میرے سامنے دو لائحہ عمل کا انتخاب موجود ہو

    اقبالؒ کے نزدیک خودی انسان کا اثاثہ ہے۔ زندگی کا تحفظ ہے۔ استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی کا عمل دخل رہے گا۔ اس کی کامرانیاں، اس کی فرمان روائی، اس کی رِفعتیں اور اس کی وُسعتیں بے حد و بے حساب ہوں گی۔

    خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات

    خودی کیا ہے بیداریِ کائنات

    ازل اس کے پیچھے ابد سامنے

    نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے

    اقبال نے خودی کو لا الہ الا اللہ سے منسلک کر دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ خودی کی بنیاد توحید پر استوار ہے۔ ایمان اسے مضبوط بناتا ہے۔ ایک اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہ سمجھنا خودی کا راز ہے۔خودی کا ہتھیارہے۔ خودی کی مضبوطی، اس کی بقا اور اس کی کامیابی کا ضامن ہے۔

    خودی کا سرّ نہاں لا الہ الا اللہ

    خودی ہے تیغِ فساں لا الہ الا اللہ

    خودی کی مسلسل تربیت اور نگہداشت انسان کو مضبوط بنا کر راہ عمل پر لے جاتی ہے اور بے خودی اسے عمل سے غافل کر کے کاہلی، دوسروں پر انحصار کرنا اور دستِ سوال دراز کرنے کی جانب سے لے جاتی ہے۔ خودی حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن جذبہ ہے۔ یہ زندہ اور توانا ہو تو انسان استغنا کی اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کے فقر میں شہنشاہی کی سی شان پیدا ہو جاتی ہے اور کائنات اس کے تسخیرِ عمل تلے آجاتی ہے۔

    خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی

    نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہ فقیر

    اقبال کا فلسفہ خودی (بمع جزیات) انسان کو صحیح معنوں میں خلیفۃ اللہ کے منصب کا اہل بناتا ہے۔ اس قانون اور اصول کے ساتھ فرد اپنے ساتھ ملک اور معاشرے کو بھی خالصتاً حکم الٰہی کے تحت چلانے کی سعی کرتا ہے کیونکہ اس کی خودی اُسے نا انصافی اور غیر اللہ کے سامنے جھکنے سے باز رکھتی ہے۔فرد اور ملت کے درمیان جو رابطے اور اصول و ضوابط ہونے چاہیں، خودی ان راستوں پر عمل کر کے معاشرے کو بھی اَرفع مقام تک لے جاتی ہے۔ خودی انسان کو تنہائی اور گوشہ نشینی کی نہیں بلکہ معاشرے میں سر اٹھا کر جینے اور اجتماعی ذمہ داریاں اٹھانے کی ترغیب دیتی ہے

    فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

    موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

    اقبالؒ کی خودی وہ بلند ترین مرتبہ ہے جو اپنی ذات کی کثافتوں کو لطافتوں میں ڈھالنے کے اس مقام پر عطا ہوتا ہے جب بندے اور رب کی منشا ایک ہو جاتی ہے جب انسان اپنی تقدیر خود لکھنے کے قابل بن جاتا ہے۔ یہی اقبال کے فلسفہ خودی کی معراج ہے۔

    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

    خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

    اقبالؒ کے نزدیک ہر انسان کے اندر خفیہ اور خام صلاحیت پوشیدہ ہے۔ اس خام صلاحیت کو سمجھنے، اِسے توانا بنانے اور اِسے بروئے کار لانے سے انسان تکمیلِ ذات کی جانب بڑھتا ہے۔ یہ کشمکشِ حیات بھی ہے۔ مقصد حیات بھی ہے اور انسان کا اس دنیا میں امتحان بھی ہے۔ اس کشمکش میں وہی انسان بلندی کے زینے طے کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو پہچانے، اپنی نظر سب سے بلند رکھے اور اسی کے مطابق جدوجہد جاری رکھے۔اقبالؒ نے فرمایا:

    خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

    تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں

    انسان کا جو عمل عظمتِ انسانی اور تکمیلِ انسانی کا موجب ہو وہ خودی کا محافظ ہے۔ وہ نیک عمل ہے۔ مثبت راستہ ہے۔ اسی پیمانے سے دیگر کاروبارِ حیات کو ناپا جا سکتا ہے۔ خودی انسان کو مصروفِ عمل اور بے چین رکھتی ہے۔ انسان کے اندر ایک ہلچل اور بے قراری قائم رکھتی ہے۔ یہی بے قراری جوش و جذبے میں بدلتی ہے۔ تخلیق کے جوہر میں ڈھلتی ہے اور ترقی کے زینے طے کرتی ہے۔ وہ ترقی جو انسان اور معاشرہ دونوں کے لیے مفید اور کار آمد ہے۔انسان کا باطن اس کے ظاہری بدن سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور حیران کن ہے۔ بدن کی ترقی ایک سطح پر آکر رک جاتی ہے جبکہ انسان کی باطنی شخصیت کی نشوونما اور ترقی کے امکانات کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس کے بڑھنے کے لیے لامحدود خلا موجودہے۔ علامہ اقبال اس باطنی وجود کی نشوونما کے لامحدود ممکنات کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں۔

    ہر شاخ سے یہ نکتہ پیچیدہ ہے پیدا

    پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا

    ظلمت کدہ خاک پہ شاکر نہیں رہتا

    ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشو و نما کا

    اگر زمین کی ظلمتوں میں پڑے ایک بیج میں اپنی نشوونما کا اتنا جنون ہے کہ وہ زمین کا سینہ چیرتے ہوئے باہر نکلتا ہے اور فضا میں بلند ہوجاتا ہے تو انسانی ذات کے ارتقا کے امکانات اس سے کہیں زیادہ اور حیران کُن ہیں کیونکہ اس میں رُوحانی اور وجدانی طاقت موجود ہے۔

    جس طرح بیج زمین سے نکل کر پودا بنتا اور بلند ہوتا چلا جاتا ہے اسی طرح انسانی ذات بدن کے اندر رہتے ہوئے بالیدگی حاصل کرتی ہے۔ بدن کی نشوو نما اور ترقی محدود ہے لیکن انسانی ذات کی بلندی ِپرواز کی کوئی حد نہیں ہے۔

    اقبالؒ ہر اس نظریے، سوچ اور عمل کو خودی کے منافی سمجھتے ہیں جو انسان کو بے عملی، سست روی اور بغیر جدوجہد کے توکّل کرنا سکھاتا ہو۔ وہ قناعت اور صبر کو ان معنوں میں غلط سمجھتے ہیں کہ انسان ہاتھ پیر ہلائے بغیر پڑا رہے اور اپنی جائز خواہشات ورمقام کو صبر و شکر کے نام پر قربان کر دے۔

    خودی سے اس طلسمِ رنگِ بُو کو توڑ سکتے ہیں

    یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا

    جب حضرت انسان نے جنم لیا تو ربّ کریم نے خودی کو آرزو کی صورت انسان کے قلب میں رکھ دیا۔ آرزو نے جستجو کو جنم دیا۔ جستجو سوچ و فکر کے بیل بوٹوں سے ہوتی ہوئی خودی تک پہنچ گئی۔ خودی کے آتے ہی ایک شعلہ سا اپنے قلب میں محسوس کیا۔ اس شعلے کی حدّت نے اسے پہلے عرفانِ ذات اور پھر تسخیر کائنات کے سفر پر روانہ کر دیا جو تا ابد جاری رہے گا تا وقتیکہ اپنے رب کی طرف لوٹ نہیں جاتا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے