Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عمیق حنفی کی طویل نظمیہ شاعری

کوثر مظہری

عمیق حنفی کی طویل نظمیہ شاعری

کوثر مظہری

MORE BYکوثر مظہری

    اردو میں طویل نظم نگاری کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے۔ اس کا رشتہ بھی محمد حسین آزاد کی نظمیہ شاعری کی تحریک سے جوڑا اور مانا جاسکتا ہے، جب خود محمد حسین آزاد نے انجمن پنجاب کی ادبی نشستوں میں ۱۱۵ اشعار پر مشتمل اپنی نظم ’شب قدر‘ اور ۱۴۴ اشعار پر مشتمل نظم ’زمستاں‘ سنائی تھی۔ حالی نے بھی ’برکھا رت‘ اور ’نشاط امید‘ جیسی نظمیں کہیں۔ لیکن ان کی شہرت دراصل ’مسدس مد و جزر اسلام‘ سے ہوئی جو ایک خوبصورت مرصع طویل نظم ہے۔ اسی قافلے میں اسماعیل میرٹھی اور شبلی بھی تھے۔ اسماعیل میرٹھی کی نظم نگاری تو آزاد کی تحریک سے پہلے سے چل رہی تھی بلکہ ان کی نظموں کا مجموعہ ’’ریزہ جواہر‘‘ (۱۸۸۰ئ) میں شائع ہوچکا تھا۔ ان کی ایک طویل نظم ’آثار سلف‘ ہے جو مثمن کے فورم میں کہی گئی ہے اور جو ۷۰ بندوں پر مشتمل ہے۔ شبلی نعمانی نے بھی کئی طویل نظمیں کہیں جن میں ’صبح امید‘ کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ کلیم الدین احمد نے زبان و اسلوب کے لحاظ سے اسے حالی کی ’مدو جزر اسلام‘ پر فوقیت دی ہے جو کسی طرح بھی بے جواز ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ مسدس حالی کی مقبولیت و شہرت کس طرح ثابت اور مستحکم رہی ہے۔ شبلی کی اس نظم کا تو بہت سوں کو نام بھی معلوم نہ ہوگا۔ اس میں شک نہیں کہ شبلی کا سیاسی شعور حالی سے زیادہ بالیدہ تھا جس کا عکس ان کی بیشتر نظموں اور نثری تحریروں میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن بہ حیثیت شاعر حالی کو شبلی پر فوقیت حاصل ہے۔ اس عہد کے بعد اردو نظم کے حوالے سے ہماری نظر علامہ اقبال کی طرف جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں احترام آدم اور انسانی تہذیب کے اصل عناصر کو پیش کیا۔ انھوں نے کئی طویل نظمیں کہیں۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی بانگ درا کی نظم ’تصویر درد‘ کی صورت میں نظر آتی ہے۔ دراصل یہ بیج ہے جس کے سبب شکوہ، جواب شکوہ، شمع اور شاعر، خضر راہ، طلوع اسلام اور پھر بانگ درا، کے بعد ’بال جبریل‘ کی کئی نظمیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ اس میں مسجد قرطبہ، ساقی نامہ، پیر و مرید وغیرہ اہم ہیں۔ اس کے بعد معاملہ یہیں رک جاتا ہے۔ ضربِ کلیم میں بہت ہی چھوٹی چھوٹی نظمیں ہیں۔ البتہ ایک طویل نظم ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ ہے جس کے بیس حصے ہیں اور جو بارہ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ ارمغان کی نظموں میں ’ابلیس کی مجلس شوریٰ اور ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کی بیاض ہیں۔ موخرالذکر نظم کے ۱۹ حصے ہیں اور جو گیارہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اقبال کی اردو میں طویل نظمیں یہی ہیں۔ ان میں بھی وسعت اور طوالت کے لحاظ سے اگر دیکھیں تو یہ نظمیں بحث کا موضوع بن سکتی ہیں۔ فارسی میں البتہ اقبال نے زیادہ طویل طویل نظمیں کہی ہیں۔ اقبال کے فکری کینوس، موضوعات اور ڈکشن کے حوالے سے گفتگو کا یہاں موقع نہیں۔

    جمیل مظہری نے نظم نگاری میں اپنا مقام بنایا۔ خلیل الرحمن اعظمی کے انتخاب ’نئی نظم کا سفر‘ میں جمیل مظہری شامل نہیں ہیں۔ انھوں نے طویل نظمیں بھی کہی ہیں۔ فریاد، جواب فریاد جو مسدس کی ہیئت میں ہے بھرپورنظمیہ متون کو مستحکم کرتی ہے۔ فریاد (۱۹۵۵،۶۰ بند)، (جواب فریاد ۱۹۷۷، بند ۴۸) خاصے کی چیز ہے۔ اس کے علاوہ مثنوی کی ہیئت میں ’آب و سراب‘ بھی ایک خوبصورت اور مؤثر نظم ہے۔

    فراق گورکھپوری نے بھی طویل نظمیں کہی ہیں۔ ان میں آدھی رات، پرچھائیاں اور ہنڈولہ نئی حِسّی پیکریت اور حیات و کائنات کے مابین زمینی و فکری رشتہ قائم کرنے کے سبب معنی آفریں ہیں۔ ان نظموں میں جو پُراسراریت ہے وہ ابہام سے پاک اور اثرانگیزی کے عناصر سے بھرپور ہے۔

    ترقی پسند تحریک اور حلقۂ ارباب ذوق سے وابستہ کئی شاعروں میں طویل نظم نگاری سے وابستہ ہونے کا مضبوط رشتہ نظرآتا ہے۔ مجاز کی نظم ’آوارہ‘، علی جواد زیدی کی ’ہولی‘، یوسف ظفر کی ’وادیٔ نیل‘، ضیا جالندھری کی ’جادۂ جاوداں‘، اخترالایمان کی ’پرانی فصیل‘ اور ’ایک لڑکا‘، میراجی کی ’جاتری‘، ن م راشد کی ’دریچے کے قریب‘، سردار جعفری کی ’اودھ کی خاک حسیں‘، ’پتھر کی دیوار‘، فیض کی ’شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں‘، کیفی کی ’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ (دوسرا اجلاس)، کمال احمد صدیقی کی ویرانہ، جاں نثار اختر کی ’خاموش آواز‘ اور ’امن نامہ‘ وغیرہ نظموں میں طویل نظم نگاری کی پوری توانائی اور اس کے امکانات پوشیدہ نظر آتے ہیں۔ ان کے علاوہ نظم نگاروں میں مجید امجد، منیب الرحمن، مختار صدیقی، پرویز شاہدی، شاد عارفی، مخدوم، ساحر، کیفی وغیرہ نے اچھی نظمیں کہی ہیں۔ ساحر کی طویل نظم ’پرچھائیاں‘ مقبول عام ہوچکی ہیں۔ اس پورے دور میں سردار جعفری کی نظم ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ اور ن م راشد کی ’’حسن کوزہ گر‘‘ ۱ تا ۴ کی اہمیت کئی لحاظ سے زیادہ ہے۔ ان دونوں نظموں نے طویل نظم نگاری کی تاریخ کو فروغ بخشا اور اس روایت کو مستحکم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس کے بعد والی پیڑھی میں وزیر آغا، کمار پاشی، افتخار جالب، منیر نیازی، عمیق حنفی، سلیم احمد، باقر مہدی، حرقاضی سلیم، اخترپیامی، مت الاکرام، زبیر رضوی، فہمیدہ ریاض وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں جنھوں نے طویل نظمیں کہیں۔

    عمیق حنفی کی طویل نظم نگاری کے حوالے سے یہاں گفتگو ہوگی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب جدیدیت اپنے شباب پر تھی۔ یہ ۱۹۵۵ء سے لے کر ۷۰-۱۹۶۵ء کا زمانہ ہے۔ زمانہ نئی کروٹیں لے رہا تھا۔ معاشرے میں سیاسی سماجی اور تہذیبی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ ہر عہد کا شاعر و ادیب اپنے عہد کی الم ناکیوں اور نشاط و کرب کو لفظوں کا پیکر عطا کرتا ہے۔ لہٰذا اس عہد میں بھی وہی صورت حال پیدا ہورہی تھی۔

    عمیق حنفی کے شعری مجموعے ’’شب گشت‘‘ (۱۹۶۹ئ) میں چار طویل نظمیںہیں: سند باد، شہرزاد، شب گشت، کیوپڈیا۔ بعد کے مجموعے ’’شجر صدا‘‘ (۱۹۷۵ئ) میں سیارگاں،صوت الناقوس، ویت نام، سبز آگ یعنی چار طویل نظمیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ صلصلۃ الجرس اور سرگجا ان کی مشہور طویل نظمیں ہیں۔ یہاں تمام طویل نظموں کے تجزیے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے چند ایک کے تجزیے پیش کیے جائیں گے۔

    ’سند باد‘ ایک ایسا مسافر یا سیلانی ہے جو پوری دنیا کی سیر کرتا ہے۔ ا س سفر حیات میں اس کی آنکھیں سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اور معاشی تبدیلیوں کو دیکھتی ہیں۔ اس نظم میں عمیق حنفی نے سندباد کو زندگی اور اپنے عہد کی تبدیلیوں کا گواہ بنایا ہے۔تخلیقی شعور کی مدد سے عمیق حنفی نے حقیقی اور تجریدی احساسات اور جذبات کی عکاسی کی ہے۔ اس نظم کے کئی حصے ہیں اور ہر حصے کا ایک عنوان ہے اور ہر ایک حصے کے سرنامے پر کوئی شعر اردو فارسی یا عربی کا یا کوئی قول یا قرآنی آیت یا سنسکرت کا مقولہ پیش کیا گیا ہے۔ ایک حصے کے پہلے فرائڈ کا نظریہ حیات بھی لکھا گیا ہے۔ نظم کا پہلا حصہ یوں شروع ہوتا ہے جس کا عنوان ’’میں اور بوڑھا سمندر‘‘ ہے:

    میں سیلانی سندباد/اپنی اور پرائی دُھن میں/ ساگر تٹ پر گھوم رہا تھا

    میں نے دیکھا/ بھوری ریت/ اجلا جھاگ

    اس کے بعد سمندر جو وقت کا استعارہ ہے سندباد کی پیٹھ پر سوار ہوجاتا ہے جسے ڈھونا اس کی پریشانی کا باعث ہوجاتا ہے۔ وہ اسے کسی طرح چھوڑ کر آگے گزر جاتا ہے۔ اس کے بعد وقت بدلتا ہے اور امتداد زمانہ کے بعد اس سمندر کی اپنی شناخت گم ہوجاتی ہے۔ عمیق حنفی کی تخلیقی توجیہ دیکھیے:

    تھوڑی دور پہنچ کر جب میں پلٹا/ میں نے دیکھا

    نیلے مٹ میلے ساگر میں لاکھوں صدیوں کا پانی

    بدرَو، نالے، پرنالے، نہریں، دریا/ بھوری ریت/ اجلا جھاگ

    کالاکہرا/ ڈوب رہا تھا

    سند باد دراصل شاعر کا داخلی وژن ہے۔ اس کردار کے اندر شاعر نے اپنی زندگی کے تجربات اور اپنے زمانے کی تلخیاں اور مٹ میلی انسانی تہذیب کو سمونے کی پوری کوشش کی ہے۔ خود نظم میں کھنڈروں اور ملبوں کا، گرد اور مکڑیوں کا یا پھر گورگونوں (یونانی دیومالا کی تین ساحلی ڈائنیں) وغیرہ کا ذکروقت کی نحوست کو ظاہر کرتا ہے:

    میں کہاں آگیا؟ کس جگہ آگیا/ ہر طرف کھنڈروں کا ہے ملبہ لگا

    طاق پر کچھ نہیں تخت پر کچھ نہیں/ زیر محراب و گنبد فقط گرد ہے

    مکڑیاں منبروں پر ہیں گرم عمل/ بُن رہی ہیں کئی لَس لَسے وعظ و پند

    ریشمی الجھنوں سے سجائی ہیں طاق/ دیوداسی کا رقص عقیدت کہاں

    اور شعلہ بکف روم کی کنواریاں/ ہیں جو پیڑ کی مورت کے ٹکڑوں میں گُم

    گورگونوں نے تخت خدا لے لیا

    عمیق حنفی کی سائیکی میں جو قدیم تہذیبی معصومیت اور ایک سچے انسان کا ٹھیٹھ پن ہے، اس نے سندباد کی شکل اختیار کرلی ہے۔ سندباد کے اندرون میں کائنات سمٹ آئی ہے۔ مسطح زمینِ دل، اوبڑکھابڑ پتھریلی زمین میں مبدّل ہوگئی ہے۔ لیکن اس میں جو شفافیت ہے اس میں ہمیں اپنی زندگی اور اپنے زمانے کی تمام تر ستم ظریفیاں دھلی دھلائی اُجلی اُجلی سی نظر آتی ہیں۔ جذبے اور فکر کو انھوں نے جس طرح سے تخلیقی ہم آہنگی بخشی ہے اس کا کھُلا ثبوت ان کی طویل نظمیں پیش کرتی ہیں۔ ’سند باد‘ میں مشین زادوں کی بستی، مصلوب روشنیاں، موت کی وادی، وسواس کی آنکھیں، بکتر بند لمحۂ مسرت، مسیحا کی دوکان، ماندگی کا وقفہ اور افریقہ کی طرف تخلیقی آنکھیں گھومتی نظر آتی ہیں۔ مصلوب روشنیوں کا یہ حصہ زمانے کی ترقی کے منفی پہلوؤں پر قہقہہ لگاتا ہے:

    وقت کی برق کی رَو بہت تیز ہے/ فیوزوائر نہیں اس کے اور دل کے بیچ

    آج بے روک ہے برق کا سلسلہ/ خوف ہے پھونک ڈالے نہ یہ جسم و جاں

    زندگی سہل تو ہے مگر ممتنع

    اسی طرح یہ حصہ ہم عصر زندگی کی تہذیبی و تمدنی گھٹن کو بے نقاب کرتا ہے:

    آج آزادی کے اس پھیلاؤ میں اتنی گھٹن/ گنبد و مینار، میزان و علم، لوح و قلم

    نقشۂ عالم پہ یہ پیلے ہرے گل رنگ بُت/ ماسکو، لندن، جنیوا، پیرس اور واشنگٹن

    کیوں مجھے دوڑا رہے ہیں روز و شب شام و سحر

    ——

    تخت و کُرسی، منبر و مسند پہ جو ہیں جلوہ گر/ تجربہ گاہوں، دفاتر، منڈیوں کے راہ بر

    منزل مقصود ان کی اور میں محو سفر/ منزلیں بھی سب انھیں کی اور انھیں کی رہ گزر

    اور میں گرم سفر

    اس پوری نظم میں شہرآشوبیت کی کیفیت جاگزیں ہے۔ یہ سندباد باہر کی دنیا کو دکھاتا تو ہے لیکن دراصل یہ سندباد شاعر کے اندرون میں اترنے کے لیے آمادۂ سفر ہے۔ سفر کی واماندگی اور ٹھہرٹھہر کے شکست خوردہ چہروں کو دیکھنا اور کائنات اور معاشرے پر چھائی ہوئی یاس وحرماں نصیبی کے نقوش کو پڑھنا دراصل یہ شاعر کے اندر سندباد کے سفر سے ممکن ہوسکا ہے۔ اس نظم کی تفہیم میں اقبال کا یہ شعر جو اس کے ایک حصے کا سرنامہ بھی ہے، کافی مددگار ہے کہ :

    عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں

    کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل

    ’’شہرزاد‘‘ عمیق حنفی کی ایک مشہور نظم ہے۔ انھوں نے داستانی کرداروں کا انتخاب کرکے اپنی نظموں کو ماضی کی طرف مراجعت پر مجبور کردیا ہے۔ شہرزاد کو عمیق حنفی نے ایک فنکار سے ہم رشتہ قرار دیا ہے۔ شہرزاد ہر شب ایک نیا قصہ سنایا کرتی تھی:

    ہر شب نئی کہانی گڑھنا

    اور سویرے سورج سے ہر ایک کتھا کا انت چھپانا

    وحشی کان میں اگلی رات کے انتظار کا بیج بونا

    قصہ گو کے جیتے رہنے کی بس شرط یہی تھی

    شہرزاد سے ایک شاعر یا فن کار کا تعلق کیسے ہوسکتا ہے، ملاحظہ کیجیے:

    میرے فن سے بھی ایسی ہی شرط بند ھی ہے

    اس کو دنیا بھر کے دکھ سکھ کو/ گیان دھیان کو

    خود اپنے احساس پہ سہنا پڑتا ہے/ اپنا قصہ بنا کر دنیا کا قصہ کہنا پڑتا ہے

    طویل نظم میں کئی بحروں اور مختلف مضامین کو برتنا اور پھر ترتیب و تسلسل کے لیے الگ الگ حصے کو الگ الگ ناموں سے موسوم کرنا، ایک مشکل کام ہے۔ کبھی کبھی اس وجہ سے بھی مرکزی خیال تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے۔ عمیق حنفی نے بجاطور پر لکھا ہے کہ:

    ’’طویل نظم کی وحدت کاسوال بھی اکثر ناقدوں کو پریشان کرتا ہے۔ بالخصوص اس وقت جب نظم مختلف البحور حرکات پر مشتمل ہو۔ ایک ہی موضوع، قصے واقعے یا خیال یا مسئلے کی توسیع، ارتقا اور استدلالی طوالت میں جو وحدت ہے اسے بہ یک نظر پہچاننا مشکل ہے۔ یہ گتھی اس وقت اور الجھ جاتی ہے جب شاعر منطقی طریق کو نفسیاتی طریق سے ملا دیتا ہے۔‘‘

    (شعر چیزے دیگراست: عمیق حنفی، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی، ص ۱۳۱)

    شہرزاد گویا الگ الگ عنوان سے ہر شب کہانی سنا رہی ہے۔ یہاں بھی عمیق حنفی نے ٹوٹتی بکھرتی ہوئی تہذیب اور زندگی کے کڑوے کسیلے ذائقے کو لفظوں کے پیکر میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ جنگل کٹ رہے ہیں، شہر کی توسیع ہورہی ہے۔ تخریب میں تعمیر کا پہلو مضمر ہے۔ اس پر عمیق حنفی نے تخلیقی نظر ڈالی ہے۔ نظم کے اس حصے میں طنز کی کاٹ محسوس کی جاسکتی ہے:

    جنگل کاٹ رہے ہیں لوگ/ پھیل رہی ہے شہر کی حد

    ویرانوں میں گھر اُگتے ہیں/ بڑھتی ہے تخریب کی زد/ ہوتی ہے تعمیر نئی

    ——

    ویرانے میں بستی ہے/ بستی میں ویرانی ہے/ بھیگی ہوئی سی مٹی ہے/ سوکھا ہوا سا پانی ہے

    بننے میں ہے بگاڑ چھپا/ یہ گتھی سلجھانی ہے

    اس کے بعد کے منظر میں ’’دروازۂ خاور کھلا‘‘ کے عنوان سے سورج طلوع ہونے کے بعد مؤذن کی اذان، گرجوں کے گجر اور مندروں کے شنکھ کی صداؤں کے بعد کی زندگی اور پھر اس کے مختلف رنگ روپ نظم کے اس حصے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ کارخانوں سے دھوئیں کا نکلنا،ریڈیو پر پرانے گیتوں کا بجنا، اس کے بعد بھیڑ کا جمع ہونا، ہوٹلوں پر، پانی کے نلوں پر، پاخانوں پر کوچہ و بازار میں گویا ہر طرف بھیڑہی بھیڑ۔

    نظم اور آگے بڑھتی ہے تو ’نشاط کار کے تحت مسجد کے بوڑھے ملّا کی تقریر کے بعد ہوٹل میں بیٹھے بے فکر نوجوانوں کی گفتگو اور ان کی سوچ کو پیش کرتی ہے:

    زندہ دل بے فکر نوجوان/ ہوٹل کی ایک میز کو گھیرے

    پیالوں کے ہونٹوں پر بوسے دے دے کر/ گرم گرم باتیں کرتے ہیں

    آج ہمیں جو دھوپ ملی ہے/ سورج سے اس وقت چلی تھی

    جب اکبر کا راج یہاں تھا/ ہا ہا ہی ہی ہو ہو ہا ہا

    کچھ سنتے ہو، فلاں ایکٹریس فلاں ایکٹر کے کمرے سے

    ہونٹوں کا لپ اسٹک پونچھتی/ ساڑی کا پلّو تھامے تنہا نکلی

    ہاہا ہی ہی ہا ہا ہی ہی

    یہ شعری آہنگ اوبڑکھابڑ ہے۔ اس میں شعری لطافت کے بجائے ایک طرح کا کھردرا لہجہ ملتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عمیق حنفی نے چیزوں پر علامتوں یا استعاروں کی موٹی پرتیں نہیں چڑھائی ہیں۔ زندگی میں جو بھی کھردراہٹ اور درشتگی ہے، اس کی پیش کش میں عمیق حنفی کم و بیش وہی طرزِ اظہار اختیار کرتے ہیں جو موضوع کا تقاضا ہوتا ہے۔ انھوں نے حیات انسانی کے نشیب و فراز کو اور جبر و اختیار کو بغیر کسی نظم و ضبط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جب زندگی میں نظم و ضبط کے بجائے انتشار اور یاس کے سائے ہوں تو پھر شاعری میں علامت نگاری اور استعارہ سازی کی فرصت اوریکسوئی بھلا کسے اور کیسے نصیب ہوسکتی ہے؟

    پروفیسر شمیم حنفی نے ان کی شاعری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے یہ لکھا ہے اور بہت صحیح لکھا ہے:

    ’’ان کے شعری کردار کی درشتگی، کھردراپن اور توانائی احساس کی تحلیل یا تزکیے کے نسبتاً دھیمے پُرسکوں اور آہستہ ردعمل کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ وہ رمز سے زیادہ انکشاف کے، اشارے سے زیادہ تفصیل کے اور حِس سے زیادہ ادراک کے شاعر ہیں۔‘‘ (ہم سفروں کے درمیاں: شمیم حنفی، ص ۱۲۱، ۲۰۰۵، انجمن ترقی اردو، دہلی)

    شمیم صاحب کے اس اقتباس میں آخری حصہ یعنی حِس سے زیادہ ادراک کے شاعر ہونے پر ذرا مجھے تامل ہے کہ حِس یا حسّیت یا احساس ادراک کا دروازہ ہے۔ اگر یہ دروازہ بند ہے تو اندر چاہے قوت مدرکہ کا پہاڑہی کیوں نہ ہو، شاعر یا فن کار کچھ نہیں کرسکتا۔ خود شمیم صاحب نے اسی مضمون میں آگے چل کر ص: ۱۲۷ پر یہ لکھا بھی ہے کہ اُن کا چبھتا ہوا شدید احساس فکر کی سطح کو ہمیشہ کریدتا ہوا نئی زمینوں کی جستجو کرتا ہے۔ اس جملہ معترضہ کے باوجود عمیق حنفی کی شاعری کے حوالے سے شمیم صاحب نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس میں ایک طرح کی منطقی صداقت ہے۔ لیکن عمیق حنفی کی شاعری میں ایک حوالہ گہرے تخلیقی تجربے اور فلسفۂ حیات کی پیچیدہ پیش کش کا بھی ہے۔ لیکن یہاں عمیق حنفی کی شاعری کے اس پہلو پر بات کرنا مقصود نہیں۔ سردست ان کی طویل نظموں سے بحث ہے۔ عمیق حنفی نے دراصل اپنی شاعری ہی کو شہرزاد سے موسوم کیا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو انھوں نے یہاں شاعری کی تجسیم کی ہے۔ یوں تو ہر شاعر کی شاعری ہی کہانی سناتی ہے لیکن اس کا احساس شاید پہلی بار اور پوری طرح عمیق حنفی کو ہوا، اور اسی لیے انھوں نے اسی عنوان سے نظم کہی۔

    اس نظم کا آخری حصہ ’’حرف آشنا‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں شاعر نے اپنی شہرزاد یعنی شاعری کو مخاطب کیا ہے۔ تنہائی اجنبیت اور احساس کے درد کا ایک طرح سے نوحہ پیش کیا ہے۔ اس نظم کا اختتام ان مصرعوں پر ہوتا ہے:

    تجربوں میں ترے اس قدر جان ہو

    تیری آواز پر اس قدر دھیان ہو

    شہریاروں کو ہو داستاں کی لگن

    صبح سے شام کی چاپ پر کان ہو

    اے مری شاعری، شہرزادِ سخن

    نظم ’شب گشت‘ (۱۹۶۵ئ) میں عمیق حنفی نے رات کی تاریکی اور تنہائی کو موضوع بنایا ہے۔ اس میں خوف، وحشت، آسیب، خاموشی جیسے لوازمات بھی شامل ہیں۔ رات کو اس نظم کا کردار ادھر اُدھر سکون کی تلاش میں بھٹکتا ہے۔ گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے، پھر لوٹ آتا ہے۔ اس کے دوسرے حصے کا یہ ٹکڑا دیکھیے:

    میں اکیلا درمیان بام و در گردش میں ہوں

    گم شدہ سائے کو اپنی ہم نشینی کے لیے

    ڈھونڈتا پھرتا ہوں اس گہری اندھیری رات میں

    رات اک مہجور کی زلفوں میں الجھی اور کالی اور لانبی رات

    ایسی خاموشی کہ اپنی چاپ سے بھی ڈر لگے

    ایسی تنہائی کہ خود پر اجنبی کا ہو گماں

    ایسی تاریکی کہ زخموں کے چراغوں سے بھی اٹھتا ہے دھواں

    ——

    اس اندھیری رات میں/ بن گیا ہوں آپ اپنے گھرمیں اک آسیب میں

    آپ ہی اپنے سے اکثر ڈر لگا

    اس حصے کو پڑھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ شاعر کے اندر ایک طرح کا انجانا خوف ہے۔ یہ خوف دراصل اس کے اندرون میں ہے۔ اس کی سائیکی کا حصہ ہے۔ اس کا تنہائی اور تاریکی سے خوف زدہ ہونا صرف اس کا نہیں بلکہ اس عہد کا مقدر ہے۔

    عمیق حنفی کی طویل نظموں میں جو خوف اور دہشت، اضطراب اور یاسیت ہے اس کی توثیق کے لیے محمود ہاشمی کا موقف معاون ہوسکتا ہے۔ ’’شجرصدا‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ’’عمیق حنفی کے اس قسم کے بیانات کہیں اس دشت اور خوف کا اظہار تو نہیں جو تحفظ ذات اور تہذیبی تنہائی کے احساسات سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘

    (انبوہِ زوال پرستاں:محمود ہاشمی، ص۲۰۰، ۲۰۰۸ئ)

    ایک ایسی تنہائی کہ آپ اپنے سائے کو ہم نشینی کے لیے تلاش کرتے پھریں، ایک المیہ کردار خلق کرتا ہے۔ لیکن منطقی اعتبار سے دیکھیں تو گہری اندھیری رات میں سایہ تو گم ہوہی جاتا ہے۔ سایہ تبھی بنتا ہے جب روشنی ہوتی ہے۔ دراصل یہ سایہ اس کا ہم زاد ہوسکتا ہے۔ اس کا دوست، اس کی محبوبہ، اس کا بھائی، کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ یا محض بطور محاورے کے استعمال کیا گیا ہو کہ مصیبت اور پریشانی میں اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔

    تنہائی اور خوف کا مارا یہ کردار اپنی میز پر اپنا قلم اور چھت میں اپنی پتھرائی ہوئی آنکھیں چپکا کر اور بید کے مونڈھے پر اپنے بدن کی لاش چھوڑ کر بہت دور نکل جاتا ہے جہاں ریڈیو، ریل بس وغیرہ کی آوازیں یا شور نہیں :

    اس قدر دور جہاں کوئی بھی ہنگامہ نہیں

    سانس لیتا ہوں لرز اٹھتا ہوں، ڈر جاتا ہوں

    دل کی آواز پہ آندھی کا گماں ہوتا ہے

    بھیڑ میں رہ کے جو تنہائی کا احساس ہوا کرتا تھا

    ویسا احساس اکیلے میں کہاں ہوتا ہے

    آخر یہ کردار پھر اسی شور اور ہنگامے کے ماحول میں واپس آجاتا ہے اور نئی تہذیبی بساط پر عریاں لڑکیوں اور چند اوباش قسم کے لڑکوں کی نگاہوں کو اپنی قوت تخلیق سے حیطۂ تحریر میںلے آتا ہے۔ نظم کے پانچویں حصے میں یہ شب گشت کردار دائرہ در دائرہ بناتا ہے۔ یہ دائرہ بنانے کا عمل دراصل استعاراتی اظہار ہے ایک ایسے سفر کا جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ پوری زندگی آدمی کسی امید کے سہارے زندگی گزارتا ہے۔ انسانی زندگی کا یہ مدور سفر جاری ہے۔ عمیق حنفی نے اسے دائرہ کھینچتے رہنے کے عمل سے تعبیر کیا ہے۔ انسان کے اندر ایک مضطرب اور بے چین روح ہے، جسے شاعر نے کُتا کہا ہے، یہ کُتّا غالباً خواہش بے جا کا استعارہ بھی ہے:

    میں ہوں اک کوچہ نورد آوارہ گرد

    دائرے میری غلامی دائرے میری نجات

    دائرہ ہی موت میری دائرہ بعد الممات

    دائرہ در دائرہ شغل حیات

    ڈھونڈتا پھرتا ہوں وہ زنجیر جس میں

    میرے اندر بھونکتا کتّا بندھے

    آپ اپنے آس پاس/ دائرے میں کھینچتا ہوں

    دائرے کھینچتا ہوا سفر انسانی تہذیب کا المیہ بھی ہے جسے شاعر نے کُریدنے کی کوشش کی ہے۔ انسان کس قدر مشینی اور ہجوم روزگار کا شکار ہوچکا ہے۔ اس احساس کو بھی شاعر نے نظم کے حصہ نمبر۹ میں پیش کیا ہے:

    صبح میری بھیڑ کے گلّے کی صبح/ شام میری بھیڑ کے ریوڑ کی شام

    فورسڈ لیبر کیمپ میرا دن/ اک تھکی ماندی، غشی سی نیند، میری رات

    ایک کیلنڈر کا پنّا میرا سن

    ——

    رول نمبر، ہاؤس نمبر، فائل نمبر میرا نام

    کاغذوں کا پیٹ بھرنا میرا کام

    سینکڑوں آقاؤں کے قدموں میں ہے میرا مقام/ میں غلام

    اس سے قطع نظر کہ اس حصے پر نثریت غالب ہے، شاعر یہ دکھانا چاہتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے حوالے سے کس درجہ خود اپنا غیرہوچکا ہے۔ یعنی اس کی زندگی کا کوئی لمحہ اس کا اپنا نہیں۔ اس غیریت، اس اجنبیت، اس خود ترحمی اور آدمی کے قعر مذلت میں گرنے کا جرأت مندانہ اظہار کم ہی ہوپاتا ہے۔ اس نظم میں انسانی معاشرے کے اکتا دینے والے جبر اور انسانی بے چارگی کو پیش کیا گیا ہے۔ عمیق حنفی نے اس میں کئی ہیئتوں کو بروئے کار لاکر نظم کا ایک Texture تیار کیا ہے جس سے ایک طرح کا نظمیہ کھردراپن پیدا ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی پوری نظم میں کئی حصے پابند اور غزل کی ہیئت میں بھی ہیں۔

    جس دور میں عمیق حنفی شاعری کررہے تھے، اس میں بیشتر شعراء کے یہاں خوف، موت، احساس تنہائی، رشتوں کی شکست و ریخت، بے مروّتی، جنسی بے راہ روی اور اجنبیت جیسے موضوعات اہم اور Common تھے۔ حامدی کاشمیری لکھتے ہیں:

    ’’ہمارے شاعروں کے یہاں تنہائی اور بے چارگی کا احساس مصنوعی نہیں بلکہ اصلی ہے اور جوں جوں میکانکی تہذیب فروغ پائے گی، انسانی تعلقات ٹوٹ جائیں گے اور انسان کی اجنبیت اور تنہائی بڑھے گی۔‘‘

    (جدید اردو نظم اور یورپی اثرات، حامدی کاشمیری، ۱۹۶۸ئ، ص ۴۰۸)

    آج کا عہد میکانکی تہذیب کا عہد ہے۔ عمیق حنفی کی نظموں میں اسی میکانکی اور مشینی زندگی اور انسانی تہذیبی سوتے کے خشک ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ ایک طرح کا ذہنی انتشار ہے جس کا برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا شکار ہے۔

    ’’شب گشت‘‘ مجموعے میں ’’کیوپڈیا‘‘ کے علاوہ آخر میں چند ثقافتی نظمیں شامل ہیں جیسے کھجراہو، لتامنگیشکر، بھیروی، توڑی، للت، میگھ وغیرہ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر ہندوستانی تہذیبی و ثقافتی روح کو سمجھنے کی صلاحیت تھی۔ وہ فنون لطیفہ کے عوامل و عناصر سے پوری طرح باخبر تھے۔ آئیے اب اُن کی دو تین اور طویل نظموں پر گفتگو کرتے ہیں جو ان کے مجموعے ’’شجرصدا‘‘ میں شامل ہیں۔ یوں تو اس میں چار طویل نظمیں ہیں: سیارگاں، صوت الناقوس، ویت نام، سبز آگ۔ یہاں ’صوت الناقوس‘ اور ’سیارگاں‘ پر روشنی ڈالی جائے گی۔

    ’ویت نام‘ کو طویل نظم کہتے ہوئے تامل ہوتا ہے کہ اس میں موضوع بڑا ہے لیکن نظم کا Texture اور اس کا کینوس اتنا بڑا نہیں کہ اسے طویل نظموں کے زمرے میں رکھا جاسکے۔ ایسی طویل نظموں کی کمی نہیں لیکن عمیق حنفی نے اسے اسی زمرے میں رکھا ہے سو ہم بھی تسلیم کرلیتے ہیں۔

    ’صوت الناقوس‘ ایک خوبصورت طویل نظم ہے۔ حالاں کہ اس کی بھی ظاہری طوالت کچھ ایسی نہیں لیکن پھر بھی اس کی تہہ در تہہ معنویت کے سبب داخلی طوالت کم نہیں۔ نظم سے پہلے حضرت علی ابن ابی طالب کا ایک قول ہے کہ تم امیدوں کے دور میں ہو جس کے پیچھے موت کا ہنگام ہے۔ نظم کے اختتام پر ناقوس کی وضاحت کی ہے کہ ناقوس وہ جذبۂ الٰہی ہے جو بندے کو خواب غفلت سے بیدار کرے (بحوالہ اصطلاحات صوفیہ از فریداحمد صمدی)۔ صوت الناقوس کی وضاحت قواعدالعروض از غلام حسنین قدر بلگرامی کے حوالے سے کی گئی ہے کہ یہ بحرمتدارک کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ نظم کے چار حصے ہیں۔ پہلے حصے میں فاعلن، دوسرے میں فعولن، تیسرے میں مفعولُ اور چوتھے میں دوبارہ فاعلن کو برتا گیا ہے۔ نظم صبح کے منظر کو پیش کرتی ہوئی شروع ہوتی ہے جس میں ایک طرح کی یاسیت چھائی ہوئی ہے۔ مؤذن کی آواز اور مندر کی گھنٹیاں سب خاموش، وہ سمندر جس کی آواز کا شور شب گیر تھا، اب ذہن کے ساحلوں پر سر پٹکتا پھرتا ہے۔ جنتری کے اوراق جونک اور حروف لال چیونٹیاں ہیں، زائچے بکھر گئے ہیں۔ ایک ایسی فضا بندی ہے جہاں انتشار اور یاس خوردگی کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ سطریں دیکھیں :

    ارغنوں گھنٹیاں شنکھ خاموش

    اور مؤذن زباں در گلو/ سائرن/ بھیڑ کے کان پر تیز انکش رکھے

    آہن و زر کے ارباب کے مندروں کی طرف لے چلے

    ——

    ریت پر/مرغ قبلہ نما مُشتِ پر/ جنتری کے ورق/ جونک دیمک حروف

    چیونٹیاں لال کالے عدد/منتشر زائچے/ اور گھڑیوں کی ٹوٹی ہوئی سوئیاں

    یہ سب کچھ عمیق حنفی کے باطن میں ہورہا ہے۔ کائنات اندر اتر آئی ہے۔ خارجی اشیا محض قارئین کے لیے شاعر کی ذات تک پہنچنے کا وسیلہ بنتی ہیں۔ ڈاکٹر ندیم احمد نے عمیق حنفی کے حوالے سے بہت صحیح لکھا ہے:

    ’’عمیق حنفی کا موضوعاتی کینوس وسیع ہونے کے باوجود ان کا آغاز بھی ذات ہے اور اختتام بھی ذات۔ لیکن ان دونوں قطبین کے درمیان کائنات ایک وسیع تر تناظر کے طور پرموجزن ہے۔‘‘ (تعبیر و تفہیم، ڈاکٹر ندیم احمد، ۲۰۰۳: ص۱۱۲)

    کوئی بھی نظم ذات شاعر سے الگ نہیں ہوتی۔ بالخصوص وہ شاعر جس کی Sensibility میں شدت ہوتی ہے۔ اصل تخلیقی کارنامہ ہے ذات اور کائنات کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنا۔ نظم کہاں سے کیسے شروع کی جائے گی اور کہاں پر کیسے ختم ہوگی، شاعر اس عمل یا امر سے بے خبر ہوتا ہے، اگر کسی شاعر کو پتہ ہوتا ہو تو شاید وہ تخلیقی فن کار سے زیادہ بینک کا کلرک ہوگا جسے معلوم ہوتا ہے کہ کس کھاتے میں کیا لکھنا ہے۔ شاعری ٹھوس پن اور Concreteness کو کیفیت اور سیال میں بدلنے کا عمل ہوتا ہے۔ یہاں اس ’’صوت الناقوس‘‘ میں عمیق حنفی نے باطن کے زوال اور فکری اضطراب کو کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار سُنی جانے اور نہ سُنی جانے والی آوازوں کے ساتھ ملا کر ایک نیا تناظر خلق کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر اس نظم کے کردار کی حیرت پر مشینیں سوالی ہیں کہ دراصل تو اُس صبح کا عادی ہے جو صدیوں سے چلی آرہی ہے لیکن اگر آج کی صبح ویسی نہیں تو اس میں انسانوں کا ہاتھ ہے:

    درختوں کو کس نے گرایا/ ستوں تار برقی کے کس نے لگائے

    زمیں دوز دھاتوں کو کس نے جگایا

    چمکتے ہوئے سانولے راستے فرش صحرا پہ کس نے بچھائے

    نئی تہذیب کے متشکل ہونے میں پرانی چیزوں کے ختم ہوجانے یا اُن پر پردہ پڑ جانے کے پورے آثار ہوتے ہیں۔ پوری نظم میں شاعر کے ’میں‘ اور مندر کی گھنٹیوں کے علاوہ مرغ سحر، سورج،سمندر، ریت، سائرن، چیونٹیاں، گھڑیاں، مشینیں،الفاظ و آواز، اُبلتا ہوا پانی، آگ کے علاوہ اور بھی کئی مجرّد اور غیرمجرّد اشیائے کائنات شامل ہیں۔ اصل میں اندروں میں چل رہی آندھی اور باہر کے اضطراب اور ایک طرح کی تبدیلی کو عمیق حنفی نے صوت الناقوس کا حصہ بنایا ہے۔ ایک طرح کا عذاب ہے جو زندگی کی صورت میں آدمی کا مقدر بن گیا ہے۔ سب کچھ جیسے گڈمڈ سا ہوکر رہ گیا ہے۔ اس احساس اور زندگی کی بے معنویت کو اس حصے میں محسوس کیا جاسکتا ہے:

    یہ میں ہوں

    کہ اپنے ہی لاشے کو گردن میں ڈھولک کی مانند لٹکائے پیٹے چلا جارہاہوں

    مرادل اس آوازکی گونج سے اوبتا جارہا ہے

    مری انگلیاں سرد ڈھولک بجاتے بجاتے اکڑ سی گئی ہیں

    نسیں کھنچ رہی ہیں/ رگیں ٹوٹتی جارہی ہیں/ جبیں پر شکن درشکن الجھنوں کا سمندر

    دلائل کے طوفان میں خواب کی کشتیوں کو ڈبوتا چلا جارہا ہے

    عمیق حنفی کی شاعری میں واردات اور تجربات مکاشفہ کی صورت میںآتے ہیں۔ زندگی اور کائنات کے کھُلے اظہار کے ساتھ ساتھ انھوں نے علامتی اور استعاراتی طرزِ اظہار بھی اپنایا ہے۔ نظم پڑھتے ہوئے کہیں موضوع کی پیش کش میں نامربوط بیانیہ بھی نظر آتا ہے مگر دراصل اس میں ایک طرح کا داخلی ارتباط تو ہوتا ہی ہے، ورنہ طویل نظم کا ارتکاز فکری مجروح ہونے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ چیزوں کو ان کے نام سے پکارنا اور پھر ان کے مفاہیم کُلی کو قارئین تک پہنچانا طویل نظم میں ایک چیلنج ہوتا ہے۔ زمانی و مکانی تصورات کو اشیائے کائنات سے جوڑ کر ایک نامیاتی کُل یعنی Organic whole میں بدلنا ایک مشکل کام ہے۔ ان کی طویل نظموں کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ سفر پر ہیں۔ انھوں نے صرف ایک نظم ’سند باد‘ کے عنوان سے لکھی لیکن ان کی تمام طویل نظموں پر ’سندباد‘ ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ میرے خیال سے ایسا اس لیے ہے کہ ان کی تخلیقیت (Creativity) ان کی سوچ کو ہر لمحہ متحرک رکھتی ہے۔ شعور ذات اور شعور کائنات نے ان کی اس تخلیقیت کو تابناک بنا دیا ہے۔ اس تحرک میں باطن کا Tension اور اضطراب بھی شامل ہے۔ خارجیت اور داخلیت کو باہم ضم کرنا تخلیقیت کا کمال ہوتا ہے۔ عمیق حنفی نے اپنی شاعری میں ہمیشہ یہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ (سمینار، دہلی اردو اکادمی، ۲۰۰۸)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے