Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنی شاعری کے بارے میں

مصطفی زیدی

اپنی شاعری کے بارے میں

مصطفی زیدی

MORE BYمصطفی زیدی

    ’’بغیر انسپریشن شعرلکھنا ہمارے اوپر حرام ہے۔ مصرع موزوں کرنا، قافیہ ردیف میں رواں دواں ابیات نکال لینا بالکل آسان ہے۔ روز ایسے مصرعے اور شعرہوتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر PARODIES جو ذہن میں رہتی ہیں اور وہیں گم ہوجاتی ہیں۔ بعض شاعر ایسے ہیں جنہیں خدا نے توفیق دی ہے کہ غالبؔ اور سوداؔ کی بحروں میں پورے پورے دیوان انہوں نے چھپوارکھے ہیں۔ میرا شعر اگر کسی کی کہی ہوئی زمین میں ہے تو یہ اتفاقی بات ہے نہ کہ ارادی۔ میاں یہ خودستائی نہیں بلکہ اعتراف عجز ہے کہ دماغ بغیر محرکات کے شل پڑا رہتا ہے بلکہ یوں کہو کہ رنگ اور صورت اور ہیجان اور دھندلکے تو ذہن میں ہر وقت قائم رہتے ہیں لیکن ان سے تصویریں اور توسیں اس وقت بنتی ہیں جب سورج کی کوئی کرن ان پر پڑتی ہے۔

    اردو شاعری میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے وہ ہے PRECISION یعنی دیانتداری۔ جذبے کے لیے الفاظ تلاش کرنا، وہی الفاظ استعمال کرنا جو اس جذبے کی صحیح عکاسی کرتا ہے نہ کہ آس پاس کے لفظ۔ ہماری شاعری کے الفاظ دیکھو۔ کیا کیا رنگیلے، رسیلے اور لچکدار ہیں۔ قفس، شہر، ہم، آوارہ، سنگیت، خرمن، شفق، چاند، ستارہ، پلک، نوک، مژہ، اجنبی، رات، سناٹا، تنہائی وغیرہ وغیرہ۔ آج کل ہم سب بچوں کی طرح ان الفاظ کے گڈے گڑیوں کا بیاہ رچا رہے ہیں لیکن اس بیاہ کا نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ گڈا نامراد اور گڑیا بانجھ مرجاتی ہے۔

    میں سوچتا ہوں کہ جب مشاعرے میں میر صاحب یہ شعر پڑھتے ہوں گے،

    دوچار زندہ رہ گئے، دوچار مرگئے

    اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مرگئے

    تو کیا سماں ہوتا ہوگا۔ دلوں سے سناٹا گزرجاتا ہوگا۔ اہل محفل کے علاوہ رفتگاں کی روحیں بھی وجد کرتی ہوں گی، اور ہم لوگوں کا یہ حال ہے کہ ہم نے مرنے کی دھمکیاں دے دے کر لوگوں کو بور کردیا ہے۔ خودکشی کے نام پر تو اب کوئی محبوب راضی ہی نہیں ہوتا۔ جو نظم شروع کرو معلوم ہوتا ہے شاعر صاحب اداس ہیں یا تنہائی کی منظرکشی کر رہے ہیں، یا اگر کسی نے برا بھلا کہا، قوم اور ملک کی عزت کا طعنہ دیا تو تھوڑی بہت نعرے بازی کرلی۔ دوچار TYPICAL نظموں کے خاکے ملاحظہ ہوں،

    (۱)

    ابتدا شاعر تنہا ہے اور خیالات میں غرق ہے

    عروج شاعر تنہا ہے اور خیالات میں غرق ہے

    انتہا شاعر تنہا ہے اور خیالات میں غرق ہے

    (۲)

    ابتدا لڑکی رئیس زادی ہے اور شاعر مفلس ہے

    عروج لہٰذا اے لڑکی تو اپنا محل ٹھکراکر میری جھونپڑی میں کیسے آئے گی۔

    انتہا (الف) لہٰذا اے لڑکی تو اپنے گھر خوش رہ، میں اپنے گھر خوش ہوں۔

    (ب) لہٰذا میں ساری دنیا کو سنگ سار کردوں گا۔

    (ج) لہٰذا جب تک میں محل نہ بنالوں تو میرا انتظار کر۔

    (۳)

    ابتدا رات

    عروج آدھی رات

    انتہا لیکن سحر ضرور آئے گی۔

    دوسروں کو کیا کہیں، ہماری کئی نظمیں انہیں ڈھانچوں پر کسی ہوئی ہیں۔ یاروں کے ساتھ بیٹھے تو عاشقی کے چسکے کے ساتھ سنالیں، سیدھے سادھے شعر پرست مل گئے تو یہی نظمیں سیاسی اور آفاقی ہوگئیں۔

    اس لیے کیوں نہ ایمانداری سے کہا جائے کہ بھائی ہم نے محبت کی ہے اور اس طرح کی ہے یا اگر ہم آفاقی مسئلے پر سوچتے ہیں تو اس طرح سوچتے ہیں اس سے بعض لوگوں کو خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ ’’ادب عالیہ‘‘ کے لیے جو اپنے انفرادی، خول سے نکل کر بات کہنے کی ضرورت ہے، اس کا کیا ہوگا۔ تو بات یہ ہے کہ HYPOCRISY سے تو ادب عالیہ تخلیق ہوتا نہیں۔ اپنے دل کی بات کو اپنے ڈھنگ میں کہو، دل میں، بات میں اور ڈھنگ میں تہہ آور پہلو ہوا تو خود ہی ادب عالیہ بن جائے گاورنہ کیا فرق پڑتا ہے۔ یار ہماری نظموں کا یہ عالم ہے، جذبے کا یہ خلوص ہے کہ دوچار مقامات پر تم نہ صرف مخاطب کی شکل پہچان سکتے ہو بلکہ اس کا پوسٹل ایڈریس تک معلوم کرسکتے ہو۔

    لو ایک نظم سنو اور اس کی کہانی بوجھو۔

    دیوار

    تیرے کمرے کی یہ دیوار تو کچھ چیز نہیں

    دل کے آگے سے یہ دیوار ہٹے تو جائیں

    دل کی دیوار سے بڑھ کر کوئی دیوار نہیں

    ذہن کی دھار سی جیسے کوئی تلوار نہیں

    اپنے پندار سے آگے کوئی پندار نہیں

    بیچ سے اپنا یہ پندار ہٹے تو جانیں

    تو اُدھر ا پنے خیالات میں جلتی ہوگی

    میں ادھر اپنی جراحت میں پھنکا جاتا ہوں

    اس جراحت کے لیے کوئی مسیحا بھی نہیں

    تیرا آنچل بھی نہیں ہے، ترا سایہ بھی نہیں

    اس میں ماضی تو کہاں وعدۂ فرد ابھی نہیں

    دوش و فرد اکا یہ انبار ہٹے تو جائیں

    ہٹ چکے ہیں ترے ہونٹوں سے نہ ملنے کو حجاب

    اب تری روح کا انکار ہٹے تو جائیں

    *

    یہ نظم گویا کہی کہائی ہمیں ملی۔ ایک ایک لفظ واقعہ ہے۔ آخری شعر کا پہلا مصرع بھی اور آخری مصرع بھی۔

    اور آج تم ہوتے تو تمہیں شعر سنا سنا کے ہراساں کردیتے۔ یہی ’زمانے‘ ہمارے اوپر آتے ہیں۔ یہ انسپریشن ختم ہوا، اور ہم جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ پھر کوڑے مار مار کے شعر لکھواؤ تو نہیں لکھ سکتے۔ نہ جانے ان نظموں کی کوئی ادبی اہمیت بھی ہے یا نہیں۔ ہم اس سے غرض نہیں رکھتے۔ آگ میں رہتے ہیں اور انگاروں سے کھیلتے ہیں۔ ہماری دوزخ ہی ہماری جنت ہے۔

    (ابن انشا کے نام ایک خط کا اقتباس)

    مأخذ:

    سوغات،بنگلور (Pg. 298)

      • ناشر: غلام احمد

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے