Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اصغر گونڈوی کی شخصیت اور شاعری

مظہر عزیز

اصغر گونڈوی کی شخصیت اور شاعری

مظہر عزیز

MORE BYمظہر عزیز

    میں ایک زندہ انسان ہوں، اس لیے میرے نزدیک کسی انسان کی شخصیت کا اندازہ کرنے کے لیے صرف ایک معیار ہے۔ یہ دیکھنا کہ اس میں زندگی کرنے کی کتنی صلاحیت ہے اور زندگی کے لیے اس میں کتنا جذبہ ہے!

    اگر اس اعتبار سے اصغرؔ کو دیکھاجائے تو اس کو کسی شخصیت کا مالک نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ اس میں زندگی کی کوئی امنگ، کوئی جوش، کوئی ولولہ اورکوئی جذبہ نہ تھا۔ اس نے ایک زندہ انسان کی طرح کبھی زندگی کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ وہ زندگی سے، حواسِ خمسہ کی زندگی سے، اس زندگی سے جو جسم کی گرمی، اور خون کی روانی سے عبارت ہے، بیگانۂ محض تھا۔ زندگی کے بارے میں اس کا شعر ہے،

    سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی

    کچھ خواب ہے، کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے

    زندگی کی بوقلموں نیرنگیوں، دلچسپیوں، امیدوں، امنگوں اور رومانوں سے اسے کوئی واسطہ ہی نہ تھا۔ وہ گویا ایک تماشائی تھا جو تماشہ دیکھنے آیا اور تماشہ دیکھ کر چلا گیا، نہ خود تماشہ میں کوئی حصہ لیا نہ اس تماشا گاہِ ہستی کا جزو بن سکا۔ ایک فقیر تھا کہ ’’اپنی کھال میں مست‘‘ آیا اور اسی طرح چلا گیا۔ آخر عمر میں تو وہ ’’ہستی‘‘ کو ’’خواب‘‘ سے بھی کم درجہ کی کوئی چیز سمجھنے لگا تھا۔ کہتا ہے،

    اے کاش میں حقیقتِ ہستی نہ جانتا

    اب لطفِ خواب بھی نہیں احساسِ خواب میں

    زندگی اس کے لیے ایک ’’دھوکا‘‘ تھی۔ وہ تصویر سے زیادہ مصور میں منہمک ہوگیا تھا۔

    جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے

    پردہ پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے

    اصغرؔ کے اشعار میں کہیں بھی زندگی کی گرمی، تپش اور چمک نظر نہیں آتی۔ وہ روحانیت سے مملو ہیں اور روحانیت ہی کی طرح ’’سرد‘‘ بھی ہیں، مگر اس کے باوجود ان میں ایک سماوی شان اور خوبصورتی پائی جاتی ہے۔ ہمالیہ کی برف آلود سربفلک چوٹیو ں کی خوبصورتی کی مانند، جب سورج کی شعاعیں ان پر طرح طرح کی رنگ آمیزیاں کرتی ہیں۔ اس خوبصورتی کا اندازہ سطح زمین پر کھڑے ہوکر نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ناظر کو خو دبھی اونچا اٹھنا پڑتا ہے۔ اس بلندی پر انسانی تعلقات، جسم کی گرمی اور خوبصورتی اور زندگی کی گوناگوں کیفیات کا کہیں پتہ نہیں ملتا۔

    ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت ٹھٹھر کر خود اپنے اندر سکڑ گئی تھی کیونکہ اس کو وہ بالیدگی اور نشوونما نصیب نہیں ہوئی جو ایک زندہ انسان کو ملنی چاہیے۔

    اب یہ خدا جانے یا فرائڈ(۱) کہ کن محرومیوں، کن ناآسودہ تمناؤں نے اسے اس خارجی زندگی سے بیزار کرکے ’’اندرونی زندگی‘‘ بسر کرنے پر مجبور کیا۔ میرے خیال میں وہ اس سرور اور ’’سوز و سازِ زندگی‘‘ (Joy of Life) سے لطف اندوز ہونے کا اہل نہ تھا جو ایک Extrovert محسوس کرسکتا ہے۔ اس کے خون میں سورج کی شعاعوں سے گرمی اور روانی پیدا نہ ہوسکتی تھی۔ نفس کی آمد و شد اس کے لیے ایک نشاط انگیز تجربہ نہ تھا۔ مناظر قدرت سے وہ خارجی احساسات کی مدد سے لذت گیر نہ ہوسکتا تھا۔ انسانی محفلوں کی ہماہمی اور داروگیر، مرد و عورت کے تعلقات باہمی حسنِ انسانی اور خواہشاتِ جنس اس میں وہ جذبہ پیدا نہ کرسکتے تھے جو ایک ’’عام شخصیت رکھنے والے‘‘ انسان میں پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح حسن کو اپنا بنالینے کی خواہش، اس پر قبضہ کرلینے کے خیال، رشک اور رقابت کے جذبوں سے بھی وہ ناآشنا ہی رہا۔ کہہ نہیں سکتے کہ یہ ’’سردی‘‘ یا ’’سردمہری‘‘ اس کی زندگی کے کسی خاص واقعات کی بناپر پیدا ہوئی یا فطری تھی۔

    (۱) آسٹریا کا مشہور ماہر نفسیات جو چند سال ہوئے مرا ہے۔

    اگر اصغرؔ کبھی زندگی سے اور دنیا میں رہنے والوں کی طرح لطف اندوز ہواہوتا تو ناممکن تھا کہ اس کے کلام میں کہیں نہ کہیں غیرشعوری انداز ہی میں ان تجربات کی کوئی جھلک نظر نہ آتی۔ اس کا کلام زندگی سے یکسر خالی ہے، اسی طرح جیسے وہ خود ’’زندگی‘‘ سے خالی تھا۔ ملاحظہ کیجیے،

    اصغرِ افسردہ ہے محروم موجِ زندگی

    تو نوائے روح پرور بن کے کس محفل میں ہے؟

    یہاں اس حقیقت کو نظرانداز نہ کرنا چاہیے کہ اصغرؔ صوفی منش تھا اور قاضی عبدالغنیؔ منگلوری مرحوم سے ارادتِ خصوصی رکھتا تھا۔ (مگر تصوف کی طرف بھی تو انسان اسی وقت مائل ہوتا ہے جب وہ زندگی میں دلچسپی لینا چھوڑ دے، اور انسان زندگی میں دلچسپی لینا اسی وقت چھوڑتا ہے جب اسے زندگی سے کوئی زبردست روحانی صدمہ پہنچے اور کوئی زبردست مایوسی ہو۔)

    بہ ظاہر وہ ایک خوش اطوار، نفاست پسند، خلیق اور متواضع انسان تھا جس کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر بھی کوئی اکتا نہ سکتا تھا۔ اس کی وہ تصویر جو ’’سرود زندگی‘‘ میں شامل ہے اس کی ظاہری شکل و صورت کو اچھی طرح پیش کرتی ہے۔ اس کی گزشتہ زندگی کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا وہ لوگ جانتے ہوں گے جنہیں اس سے ملنے کا کبھی اتفاق بھی نہیں ہوا۔

    میں اصغرؔ سے ملنے سے پہلے اس کا کلام پڑھ چکا تھا۔ اس کے اشعار زندگی سے اتنے زیادہ بعید اور واقعیت سے اتنے زیادہ مبرا نظر آتے تھے کہ مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ اصغرؔ سے مل کر کچھ اندازہ کیا جائے کہ آخر اس تحریکِ شعری کا باعث کیا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہ آئی تھی کہ بغیر کسی دنیاوی تجربہ کے انسان روح کی ان بلندیوں تک کیسے پہنچ سکتا ہے جن کا پتہ اس کے اشعار میں ملتا ہے، چنانچہ ایک دوست کی وساطت سے تعارف ہوا اور اس کے بعد مراسم بہت بڑھ گئے۔ مگر چونکہ مجھے طبعاً دوسروں کی زندگی کے رازوں کی جستجو کرنے سے بڑی نفرت ہے اس لیے میں نے کبھی براہِ راست اصغرؔ سے کوئی استفسار اس کی گزشتہ زندگی کے بارے میں نہیں کیا اور خاموشی سے اس کے اقوال و افعال سے نتائج اخذ کرنا زیادہ بہتر سمجھا۔

    میرے ایک اور دوست (جنہیں جمالیات اور نفسیات دونوں میں شغف ہے) کو بھی یہ فکر تھی کہ کسی طرح اصغرؔ سے اس کی گزشتہ زندگی کے حالات، ذہنی کاوشیں، تجربات و غیرہ معلوم کریں تاکہ اس کی شاعری کا ’’پس منظر‘‘ سمجھ میں آسکے۔ چنانچہ انہوں نے ایک دن یہ سوال کر ہی لیا مگر اصغرؔ نے قسمیں کھا کھاکر یقین دلایا کہ اس کی زندگی میں ’’جنسیات‘‘ کو کبھی دخل نہیں رہا۔ اور میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں کہ اصغرؔ کے اس بیان کو سچ نہ مانا جائے۔

    اصغرؔ ایک نفسیاتی معمہ تھا۔ وہ ایک ’’زاہدِ مرتاض‘‘ اور ’’آرٹسٹ‘‘ دونوں کا ایک عجیب مجموعہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ فطرتاً دنیا کے لوگوں سے جذباتی تعلق (Emotional contact) پیدا کرنے اور ان میں جذباتی دلچسپی لینے سے معذور تھا۔ بہت سے لوگ پیدا ہوتے ہیں، لوگوں میں مل جل کر رہتے ہیں اورمرجاتے ہیں مگر اپنے ’’روحانی کفن‘‘ سے باہر کبھی نہیں نکلتے، اور اصغرؔ بھی ان ہی لوگوں میں سے تھا۔ خود اعتراف کرتا ہے،

    یہ راز ہے میری زندگی کا

    پہنے ہوئے ہوں کفن خودی کا

    ایسے آدمی دنیا میں رہتے ہیں مگر ’’بیگانوں‘‘ کی طرح، کیونکہ ان کی ’’خودی‘‘ لوگوں سے زیادہ خلا ملا گوارا نہیں کرسکتی۔ وہ خود اپنی روح کی گہرائیوں میں گم ہوکر بھی ایک پرکیف (Ecstatic) حالت اپنے اوپر طاری کرسکتے ہیں۔ انہیں ہر لحظہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ اگر کہیں وہ لوگوں میں جذب ہونے لگے تو ان کی ’’خودی‘‘ کاخاتمہ ہوجائے گا۔ اس لیے وہ دنیا میں لوگوں سے مجبوراً ملتے تو ضرور ہیں مگر ’’دامن بچائے ہوئے‘‘ ہجوم میں گھر کر بھی وہ ’’تنہا‘‘ ہی رہتے ہیں۔ وہ اپنی ’’خودی‘‘ کی اس درجہ حفاظت کرتے ہیں یا خود اپنے آپ میں اتنے کھوئے رہتے ہیں کہ ان کے ملنے والوں کو بھی ان سے آگاہی نہیں ہوتی۔

    اصغرؔ سے جو کلام یاد گار ہے وہ صرف دو مختصر مجموعوں ’’نشاطِ روح‘‘ اور ’’سرودِزندگی‘‘ پر مشتمل ہے، اور یہ اس کی اخیر عمر کا کلام ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا پہلا کلام کیا ہوا اور وہ کیسا تھا؟

    قراین بتاتے ہیں کہ اس نے شاعری بہت دیر میں شروع کی۔ میرے خیال میں شعر کہنے سے پہلے وہ عرصہ تک شدتِ احساس کی مشق کرتا اور حسرتوں کی پرورش کرتا رہا۔ چنانچہ خود کہتا ہے،

    نہ پوچھو مجھ پہ کیا گزری ہے میری مشقِ حسرت سے

    قفس کے سامنے رکھا رہا ہے آشیاں برسوں

    اس کے پہلے مجموعۂ کلام کا نام ’’نشاطِ روح‘‘ واقعی بہت موزوں ہے، کیونکہ اس کے اشعار روح کے نشاط انگیز اور نشاط افزا تجربات کاآئینہ ہیں، مگر جب مرنے سے تقریباً ایک سال پہلے اصغرؔ نے اپنا دوسرا مجموعۂ کلام شائع کیا اور اس کا نام ’’سرودِزندگی‘‘ رکھا تو مجھے اس سے اختلاف تھا۔ (گو میں نے اس وقت اپنی رائے ظاہر نہ کی تھی کیونکہ ان دنوں اصغرؔ پر فالج گراہوا تھا اور ان سے کسی قسم کی بحث کرنا مناسب نہ تھا۔)

    اصغرؔ تو زندگی سے بالکل ہی ناواقف تھا، ایک ایسی روح تھا جو اس دنیا میں بھٹک آئی تھی او ریہاں اپنے لیے جگہ نہ پاکر خود اپنے ہی اندر پناہ گزیں ہوگئی تھی۔ پھر اس کا کلام ’’سرودِ زندگی‘‘ کیونکر کہا جاسکتا ہے؟ ہاں، جو لوگ اصغرؔ کی طرح روحانی زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لیے وہ یہ درجہ رکھ سکتا ہے، مگر عام زندگی سے اسے کوئی سروکار نہیں۔

    اصغرؔ کا خیال آتے ہی مجھے بے ساختہ ایتھل مین (Ethel Mennen) کے ناول “Ragged Banners” کا ہیرو “Anthony Star ridge” یاد آجاتا ہے، جس کو زندگی نے قبول نہ کیا اور جو زندگی کو قبول نہ کرسکا او رجو اس دنیا اور زندگی سے مایوس ہوکر “Ninthonn Lights” کی طرف چلتے چلتے آخر کار ان ہی میں جذب ہوگیا۔

    اصغرؔ بھی ان ہی ’’شمالی روشنیوں‘‘ کا پروانہ ہے۔ دنیا میں اس کے لیے کوئی دلچسپی نہیں، اس لیے وہ بھی اسی نور، اسی شعلہ آسمانی کی جستجو کرتا ہے اور تمام قیودِ جسمانی سے بے تعلق رہتا ہے۔ چند فارسی اشعار میں یہ حقیقت صاف جھلکتی نظر آتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے،

    بہ شب ہائے سیاہے چند آہے کردہ ام پیدا

    بہ ہر سیارۂ صدر سم دراہے کردہ ام پیدا

    جمالِ لالۂ و گل راہزاراں رنگہا بخشم

    زفیضِ جلوۂ حسن ات نگاہے کردہ ام پیدا

    تو در قیدِ جہاں پابستہ و صد شکوہ سنجی ہا

    من از ہر ذرّہ سازے کردہ راہے کردہ ام پیدا

    غبار از وامنِ خود بارہا افشاندہ ام اصغرؔ

    بہ ہنگامِ جنوں صد مہر و ماہے کردہ ام پیدا

    زندگی کی ’’شب ہائے سیاہ‘‘ میں سوائے ’’سیاروں‘‘ سے رسم و راہ رکنے کے وہ اور کر ہی کیا سکتا تھا؟ اس سے پہلے بھی اردو شعراء نے زندگی سے تنگ آکر نکل بھاگنے کی خواہش کی ہے مگرانہیں کوئی راہِ فرار نظر نہ آئی۔ ذوقؔ کا شعر ہے،

    احاطہ سے فلک کے ہم تو کب کے

    نکل جاتے، مگر رستہ نہ پایا

    مگر اصغرؔ نے ہر ذرّہ سے ساز کرکے اپنے لیے راہ پیدا کرلی تھی۔ کہتاہے،

    بندشوں سے اور بھی ذوقِ رہائی بڑھ گیا

    اب قفس بھی ہم اسیروں کو پرِ پرواز ہے

    چونکہ زندگی اسے قبول نہ کرسکی، اس لیے اسے بھی اس دنیا کی حاجت نہیں،

    مرا بس است کہ رنگینی نظر دارم

    بگیر عالمِ خود، عالمِ وگردارم!

    اور اس ’’عالمِ گرد‘‘ میں وہ اس درجہ منہمک ہے اور اس کی رنگینیوں میں اتنا زیادہ کھویا ہوا ہے کہ اسے اور کسی بات کا ہوش ہی نہیں، حتی کہ اپنا بھی پتہ نہیں۔ کہتا ہے،

    سماگئے مری نظروں میں، چھاگئے دل پر

    خیال کرتا ہوں ان کو، کہ دیکھتا ہوں میں

    نہ کوئی نام ہے میرا نہ کوئی صورت ہے

    کچھ اس طرح ہمہ تن دید ہوگیا ہوں میں

    نہ کامیاب ہوا میں نہ رہ گیا محروم

    بڑا غضب ہے کہ منزل پہ کھوگیا ہوں میں

    جہاں بھی ہے کہ نہیں، جسم و جاں بھی ہیں کہ نہیں؟

    وہ دیکھتا ہے مجھے، اس کو دیکھتا ہوں میں

    ترا جمال ہے، تیرا خیال ہے، تو ہے

    مجھے یہ فرصت کاوش کہاں کہ ’’کیا ہوں میں؟‘‘

    *

    اور اس ’’کھوئے ہوئے‘‘ شخص کے کلام میں لوگ زبان اور محاورے کی غلطیاں نکالتے تھے، اس پر آوازیں کستے تھے، محض اس وجہ سے کہ وہ ان سب سے مختلف تھا۔

    دنیا والوں کو یہ گوارا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص ان سے کسی طرح مختلف ہو اور اپنے ’’اصلی روپ‘‘ میں ظاہر ہو۔ تہذیب انسانی ’’انفرادیت‘‘ کا گلا گھونٹنے کو تیار رہتی ہے۔ جہاں کوئی پٹی ہوئی، فرسودہ راہ کو چھوڑ کر اپنی راہ پر چلا اور ان تہذیب و تمدن کے علمبرداروں نے شور مچانا شروع کیا کہ ’’لینا، لینا، جانے نے پائے!‘‘

    اس ہمدردی کے فقدان اور ناقدری کے احساس کا اور بھی اثر ہوا کہ اصغر خود اپنے ہی اندر سکڑتا گیا اور اپنے گردوپیش سے غافل ہوتا گیا۔ شکایتاً کہتا ہے،

    نوائے راز کا سینے میں خون ہوتا ہے

    ستم ہے لفظ پرستوں میں گھر گیا ہوں میں

    اس کے معیارِ زندگی دنیا والوں کے معیاروں سے مختلف تھے،

    ابھرنا ہو جہاں، جی چاہتا ہے ڈوب مرنے کو

    جہاں اٹھتی ہوں موجیں، ہم وہاں ساحل سمجھتے ہیں

    اسی سے دل، اسی سے زندگی دل سمجھتے ہیں

    مگر حاصل سے بڑھ کر سعی بے حاصل سمجھتے ہیں

    نہ ہوگا ہستی بے مدعا کا راز داں برسوں

    وہ زاہد جو رہا سرگشتہ سود و زیاں برسوں

    اس کی شاعری میں وہ عملی جوش اور ولولہ نہیں جو اس دنیا میں زندگی بسر کرنے والوں کا خاصہ ہے۔ جو کچھ جوش و خروش ہے وہ ’’خود اس کے اندر‘‘ رونما ہوتا ہے اور خارجی طور پر کوئی مظاہرہ اس اندرونی ہیجان کا نہیں ہوتا۔ اس کی زندگی کی صحیح تصویر ان اشعار میں نظر آتی ہے،

    ذوقِ سرمستی کو محوروئے جاناں کردیا

    کفر کو اس طرح چمکایا کہ ایماں کردیا

    تو نے یہ اعجاز کیا اے سوز پنہاں کردیا؟

    اس طرح پھونکا کہ آخر جسم کوجاں کردیا

    یہ واقعہ ہے کہ اصغرؔ نے اپنے ’’سوزپنہاں‘‘ اور ’’شدت احساس‘‘ کی مدد سے ’’جسم‘‘ کو واقعی ’’جاں‘‘ بنادیا تھا۔ وہ محبوب کی صفات اور اوصاف بیان کرنے کے لیے تشبیہات تک غیرشخصی اور غیرجسمانی استعمال کرتاہے۔ ملاحظہ کیجیے،

    کیا مرے حال پہ سچ مچ انہیں غم تھا، قاصد؟

    تو نے دیکھا تھا ستارہ سرِ مژگاں کوئی؟

    یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑگئی

    یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنادیا

    روشنی ہو جگنو کی جیسے شبنمستان میں

    وہ نقاب کا عالم تیرے مسکرانے سے

    لالۂ و گل پہ جو ہے قطرۂ شبنم کی بہار

    رخ رنگیں پہ جو آئے تو حیا ہوجائے

    نظر اس حسن پر ٹھہرے تو آخر کس طرح ٹھہرے کبھی جو پھول بن جائے کبھی رخسار ہوجائے

    اس عارضِ رنگیں پر عالم وہ نگاہوں کا

    معلوم یہ ہوتا ہے پھولوں میں صبا آئی

    آپ ہی بتائیے، کہیں بھی ان تشبیہات میں زندگی کی گرمی محسوس ہوتی ہے۔ میرے عزیز دوست روشؔ صدیقی نے اصغرؔ کاکلام سن کر ایک مرتبہ کہا تھا، ’’اس شحص نے تغزل کومعصوم بنادیا ہے۔‘‘ اور اس قول کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حسن و عشق کا تذکرہ ہی اصغرؔ کی شاعری کی جان اور مخصوص موضوع ہے مگر اس لطافت اور معصومیت کے ساتھ ہوتا ہے کہ جواب نہیں۔ اصغرؔ کا ایک شعر ہے،

    چمن میں چھیڑتی ہے کس مزے سے لالۂ و گل کو

    مگر بادِ صبا کی پاک دامنی نہیں جاتی

    شاید خود اس نے بھی بادِ صبا ہی سے ’’چھیڑ چھاڑ‘‘ کا یہ طریقہ سیکھاتھا۔ اس کے خیال میں عشقِ آپ اپنا صلہ اور مقصودہے،

    خاک کردیں تپش عشق سے ساری ہستی

    پھر اسی خاک کو خاکِ درِ جاناں کردیں

    اس کے کلام میں خستگی، فتادگی، ناکامی اور محرومی کی جو تصاویر پیش کی گئی ہیں، وہ بے مثل ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حالتیں کتنی شورش انگیز اور شعریت سے مملو ہوتی ہیں، نرم رفتار دریا کتنا زیادہ عمیق ہوتا ہے، سکون میں کیسا حشر بپا رہتاہے اور ’’خاموشیوں‘‘ میں کتنی ’’گویائیاں‘‘ پنہاں اور کتنی ’’خوں گشتہ آرزوئیں‘‘ نہاں ہوتی ہیں،

    سب رنگ و لطافت ہے افتاد گی غم میں

    میں خاک ہوں اور مجھ میں سب رازِ گلستاں ہے

    مزہ الم میں ہے، کچھ لطف خستگی میں ہے

    غرض کہ نشو و نما روح کی اسی میں ہے

    سارا حصولِ عشق کی ناکامیوں میں ہے

    جو عمر رائگاں ہے وہی رائگاں نہیں

    انتہا کیف کی افتادگی و پستی ہے

    مجھ سے کہتا تھا یہی دُردِ تہ جام ابھی

    ایک ایک تنکے پر سوشکستگی طاری

    برق بھی لرزتی ہے میرے آشیانے سے

    ہے خستگی کے دم سے رعنائی تخیل

    میری بہارِ رنگیں پرور دۂ خزاں ہے

    رازِ فتادگی نہ پوچھ، لذتِ خستگی نہ پوچھ

    یاں تو ہزار جبرئیل چھپ گئے گردِ راہ میں

    کوئی سرگشتۂ راہِ طریقت اس کو کیا جانے

    یہاں افتادگی کو حاصل منزل سمجھتے ہیں

    لذت درد و ختگی، دولتِ دامن تہی

    توڑ کے سارے حوصلے، اب یہ مجھے صلہ دیا

    دیکھیے اس کی ناآسودہ تمناؤں نے کیا شکل اختیار کی ہے،

    سنا ہے حشر میں شانِ کرم بیتاب نکلے گی

    لگا رکھا ہے سینے سے متاعِ ذوقِ عصیاں کو

    نہ ہوا دل کو اگر ذوقِ عبادت، نہ سہی

    اب اسے صرفِ رہِ لذتِ عصیاں کردیں

    اس حسنِ کاروبار کو مستوں سے پوچھیے

    جس کو فریب ہوش نے عصیاں بنادیا

    فن کار (Artist) کی حیثیت سے اصغرؔ کا سب سے بڑا کارنامہ میرے نزدیک یہ ہے کہ اس نے بغیر کسی خارجی محرک کے اپنی روح کی تاریک گہرائیوں میں گم ہوکر محض شدتِ احساس کی مدد سے وہ جواہر پارے برآمد کیے جن کی چمک سے نہ صرف اس کی روح منور ہوگئی بلکہ دوسروں کو بھی اپنی روح کے اندر پہنچنے کا راستہ نظر آنے لگا۔ خود کہتا ہے،

    اصغرِؔ خاکسار وہ ذرہ خودشناس ہے

    حشر سا کردیا بپا جس نے جہانِ راز میں

    کچھ چیدہ اشعار سنیے،

    جمالِ یار کی زینت بڑھادی رنگ و صورت سے

    قیامت ہے قیامت میرا پابندِ نظر ہونا

    کچھ تو کہو یہ کیا ہوا، تم بھی تھے ساتھ ساتھ کیا

    غم میں یہ کیا سرور تھا، درد نے کیوں مزا دیا؟

    زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا

    رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا

    ہر حال میں بس پیشِ نظر ہے وہی صورت

    میں نے کبھی روئے شب ہجراں نہیں دیکھا

    ڈوبا ہوا سکوت میں ہے جوشِ آرزو

    اب تو یہی زبان مرے مدعا کی ہے

    مستانہ کر رہا ہوں رہِ عاشقی کو طے

    کچھ ابتدا کی ہے نہ خبر انتہا کی ہے

    یہ بھی فریب سے ہیں کچھ دردِ عاشقی کے

    ہم مر کے کیا کریں گے کیا کرلیا ہے جی کے

    شرح و بیانِ غم ہے اک مطلبِ مقید

    خاموش ہوں، کہ معنی صدہا ہیں خامشی کے

    خاک پروانہ کی برباد نہ کر بادِ صبا

    یہی ممکن ہے کہ کل تک مرا افسانہ بنے

    بہت لطیف اشارے تھے چشم ساقی کے

    نہ میں ہوا کبھی بے خود نہ ہوشیار ہوا

    گم کردیاہے دید نے یوں سربسر مجھے

    ملتی ہے اب انہی سے کچھ اپنی خبر مجھے

    کیا دردِ ہجر اور یہ کیا لذتِ وصال

    اس سے بھی کچھ بلند ملی ہے نظر مجھے

    شیشے میں موجِ مے کو یہ کیا دیکھتے ہیں آپ

    اس میں جواب ہے اسی برقِ نگاہ کا

    اس جلوۂ بے کیف سے محروم ہی رکھا

    کمبخت کبھی ہوش کبھی بے خبری نے

    نہ مدعا کوئی میرا، نہ کچھ ہراس مجھے

    کہ عاشقی ہے فقط بیدلی و بے جگری

    ہے آرزو کہ آئے قیامت ہزار بار

    فتنہ طرازیِ قد رعنا لیے ہوئے

    رگ رگ میں اور کچھ نہ رہا جز خیالِ دوست

    اس شوخ کو ہوں آج سراپا لیے ہوئے

    جانِ بلبل کا خزاں میں نہیں پرساں کوئی

    اب چمن میں نہ رہا شعلہ عریاں کوئی

    بے محابا ہو اگر حسن تو وہ بات کہاں

    چھپ کے جس شان سے ہوتا ہے نمایاں کوئی

    پردۂ لالۂ و گل بھی ہے بلا کا خوں ریز

    اب زیادہ نہ کرے حسن کو رسوا کوئی

    دل میں اک بوند لہو کی نہیں، رونا کیسا؟

    اب ٹپکتا نہیں آنکھوں سے گلستاں کوئی

    کہہ کے کچھ لالۂ و گل رکھ لیا پردہ میں نے

    مجھ سے دیکھا نہ گیا حسن کا رسوا ہونا

    سارے عالم میں ہے بے تابی و شورش برپا

    ہائے اس شوخ کا ہم شکل تمنا ہونا

    پردۂ حرماں میں آخر کون ہے اس کے سوا

    اے خوشادر دے کہ نزدیکی بھی ہے دوری بھی ہے

    حسرتِ ناکام میوی کام سے غافل نہیں

    اک طریقِ جستجو یہ دردِ مہجوری بھی ہے

    ہے تلون سے ترے جلوۂ نیرنگِ حیات

    میں تو مرجاؤں جو امید وفا ہوجائے

    علم و حکمت کی تمنا ہے نہ کونین کا غم

    میرے شیشے میں ہے باقی مئے گلفام ابھی

    ذرّہ ذرّہ علم و حکمت کا ہے سب دیکھا ہوا

    یہ غنیمت ہے درمیخانہ اب تک باز ہے

    صحن حرم نہیں ہے، یہ کوئے بتاں نہیں

    اب کچھ نہ پوچھیے کہ کہاں ہوں کہاں نہیں

    مدت ہوئی کہ چشم تحیر کو ہے سکوت

    اب جنبشِ نظر میں کوئی داستاں نہیں

    فطرت سنا رہی ہے ازل سے اسی طرح

    لیکن ہنوز ختم مری داستاں نہیں

    دیکھوں ہجوم غم میں نہ لے کس طرح خبر

    یہ اس کا امتحاں ہے مرا امتحاں نہیں

    وہی تھا حال میرا جو بیاں میں آنہ سکتا تھا

    جسے کرتا رہا افشا سکوتِ راز داں برسوں

    وہاں کیا ہے، نگاہِ ناز کی ہلکی سی جنبش ہے

    مزے لے لے کے اب تڑپا کریں اربابِ جان برسوں

    محبت ابتدا سے تھی مجھے گلہائے رنگیں سے

    رہا ہوں آشیاں میں لے کے برقِ آشیاں برسوں

    سوبار ترا دامن ہاتھوں میں مرے آیا

    جب آنکھ کھلی دیکھنا اپنا ہی گریباں ہے

    اک شورشِ بے حاصل، اک آتشِ بے پروا

    آفت کدۂ دل میں اب کفر نہ ایماں ہے

    خیرگی نظر کے ساتھ ہوش کا بھی پتہ نہیں

    اور بھی دور ہوگئے آکے ترے حضور میں

    اشک اب نہیں تھمتے، دل پہ اب نہیں قابو

    خود کو آزما بیٹھے مجھ کو آزمانے سے

    بے خودی کاعالم ہے، محو جبہ سائی ہوں

    اب نہ سر سے مطلب ہے اور نہ آستانے سے

    کامیابِ شوق کی ناکامیوں کو دیکھیے

    حرفِ مطلب محو ہے جوشِ دعا کے سامنے

    اب مجھے خود بھی نہیں ہوتا ہے کوئی امتیاز

    مٹ گیا ہوں اس طرح اس نقشِ پا کے سامنے

    ہو کے رازِ عشق افشا، بن گیا اک راز اور

    سب زباں پر آچکا ہے سب ابھی تک دل میں ہے

    حجاب اس کاظہور ایسا ظہور اس کا حجاب ایسا

    ستم ہے خواب میں خورشید کا یوں جلوہ گر ہونا

    یہاں میں ہوں نہ ساقی ہے نہ ساغر ہے نہ صہبا ہے

    یہ میخانہ ہے، اس میں معصیت ہے باخبر ہونا

    رقصِ مستی دیکھتے، جوشِ تمنا دیکھتے

    سامنے لاکر تجھے، اپنا تماشا دیکھتے

    کچھ سمجھ کر ہم نے رکھا ہے حجابِ دہر کو

    تور کر شیشے کو پھر کیا رنگِ صہبا دیکھتے

    صد زمان و صد مکان و ایں جہان و آں جہاں

    تم نہ آجاتے تو ہم وحشت میں کیا کیا دیکھتے

    ترے ہی در پہ مٹ جانا لکھا ہے میری قسمت میں

    ازل میں یا ابد میں، میں کہیں ہوتا، نہیں ہوتا

    نگاہیں دیکتی ہیں، روح قالب میں تڑپتی ہے

    مرا کیا حال ہوتا تو اگر پردہ نشیں ہوتا

    ترے قربان ساقی، اب یہ کیا حالت سے مستوں کی

    کبھی عالم تو ہوتا ہے کبھی عالم نہیں ہوتا

    وہ سامنے ہیں، نظامِ حواس برہم ہے

    نہ آرزو میں سکت ہے نہ عشق میں دم ہے

    زمیں سے تابہ فلک کچھ عجیب عالم ہے

    یہ جذبِ مہر ہے یا آرزوئے شبنم ہے؟

    روائے لالہ و گل، پردۂ مہ و انجم

    جہاں جہاں وہ چھپے ہیں عجیب عالم ہے

    کسی طرح بھی تری یاد اب نہیں جاتی

    یہ کیا ہے روز مسرت ہے یا شبِ غم ہے

    کہاں زمان و مکاں، پھر کہاں یہ ارض و سما

    جہاں تم آئے یہ ساری بساط برہم ہے

    اب تو خود شاق ہے یہ ہستی بے جا مجھ کو

    پھونک دے پھونک دے اے برقِ تماشا مجھ کو

    لالۂ و گل کا جگر خون ہوا جاتا ہے

    سب سمجھتے ہیں جو ناکامِ تمنا مجھ کو

    تیرا جلوہ، ترا انداز، ترا ذوقِ نمود

    اب یہ دنیا نظر آتی ہے دنیا مجھ کو

    بوئے گل بن کے، کبھی نغمہ رنگیں بن کے

    ڈھونڈ لیتا ہے ترا حسنِ خود آرا مجھ کو

    ایک میرا ہی فسانہ زازل تابہ ابد

    یوں نہ کرتا تھا مرے سامنے رسوا مجھ کو

    ہمہ تن ہستی خوابیدہ مری جاگ اٹھی

    ہر بن موسے مرے اس نے پکارا مجھ کو

    اس طرح بھی کوئی سرگشتہ و برباد نہ ہو

    اک فسانہ ہوں جو کچھ یاد ہو کچھ یاد نہ ہو

    حسن کو وسعتیں جو دیں، عشق کو حوصلہ دیا

    جو نے ملے نہ مٹ سکے وہ مجھے مدعا دیا

    اب نہ یہ میری ذات ہے اب نہ یہ کائنات ہے

    میں نے نوائے عشق کو ساز سے یوں ملادیا

    ’’کہاں خرد ہے؟ کہاں ہے نظامِ کار اس کا؟‘‘

    یہ پوچھتی ہے تری نرگس خمار آلود

    اصغرؔ نے خود اپنی جو تشریح کی ہے اس سے بہتر شاید ہی کوئی پیش کرسکے۔ کہتا ہے،

    وہ اُن کا اک بہارِ ناز بن کر جلوہ گر ہونا

    مرا وہ رُوح بننا، رُوح بن کر اک نظر ہونا

    واقعی اصغرؔ بذاتِ خود ایک نظر، بلکہ یوں کہیے کہ ’’طرزِ نظر‘‘ ہو کر رہ گیا اور اس طرزِ نظر اور مذاقِ سوزِ پنہاں کی اس پرآشوب اور الم زدہ دنیا کو سخت ضرورت تھی۔

    اس کے عقیدے کے مطابق ’’حسن‘‘ کوئی خارجی چیز نہیں بلکہ خود ناظر کے اندر ہوتا ہے اور اس کی اپنی ہی شخصیت کا پھیلاؤ (Extension) ہوتا ہے۔ اصغرؔ پہلا شاعر ہے جس نے اردو شاعری میں ’’حسنِ ذہنی و باطنی‘‘ (Intellectual Beauty) کو ایک ممتاز درجہ عطا کیا اور حسن و عشق کی جمالیاتی تغیر پیش کی۔ اس نے ’’جمالیات‘‘ میں بھی ’’خودی‘‘ کی اہمیت جتلائی اور ’’حسن‘‘ کو ’’عشق کا پرتو‘‘ قرار دیا۔ ظالم حد کردیتا ہے۔ حسنِ مطلق کو بھی اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔

    غضب ہوا کہ گریباں ہے چاک ہونے کو

    تمہارے حسن کی ہوتی ہے آج پردہ دری

    نہ جائیے مری بگڑی ہوئی اداؤں پر

    کہ عاشقی میں مری حسن کی ہے جلوہ گری

    جو شوخیوں سے لیا ہے جمالِ بے تابی

    تو جوشِ حسن سے پائی ادائے جامہ دری

    لیے ہیں زلف سے آشفتگی کے سب انداز

    نگاہِ مست سے پہنچا ہے حسن بے خبری

    داستاں ان کی اداؤں کی ہے رنگیں، لیکن

    اس میں کچھ خونِ تمنا بھی ہے شامل میرا

    ہاں وادی ایمن کے معلوم ہیں سب قصے

    موسیٰ نے فقط اپنا اک ذوقِ نظر دیکھا

    ہر ادائے حسن آئینہ میں آتی ہے نظر

    یعنی خود کو دیکھتے ہیں مجھ کو حیراں دیکھ کر

    پھرگئی آنکھوں کے آگے وہ ادائے برقِ حسن

    چیخ اٹھے سب مرا چاک گریباں دیکھ کر

    کارفرما ہے فقط حسن کا نیرنگِ کمال

    چاہے وہ شمع بنے چاہے وہ پروانہ بنے

    ادائے عشق کی تصویر کھنچ گئی پوری

    وفورِ جوش سے یوں حسن بے قرار ہوا

    اپنے انداز پہ ہو شاہدِ فطرت بے خود

    رکھ دے آئینہ اگر دیدۂ حیراں کوئی

    ایسا بھی ایک جلوہ تھا اس میں چھپا ہوا

    اس رخ پہ دیکھتا ہوں اب اپنی نظر کو میں

    نہیں معلوم کتنے جلوہ ہائے حسن پنہاں ہوں

    کوئی پہنچا نہیں گہرائیوں میں اشکِ پیہم کی

    شعاعِ مہر خود بیتاب ہے جذبِ محبت سے

    حقیقت ورنہ سب معلوم ہے پروازِ شبنم کی

    اک شعلہ، اور شمع سے بڑھ کر، ہے رقص میں

    تم پھاڑ کر تو سینہ پروانہ دیکھتے

    وہیں سے عشق نے بھی شورشیں اڑائی ہیں

    جہاں سے تونے لیے خندہ ہائے زیرلبی

    حسن کے فتنے اٹھے میرے مذاقِ شوق سے

    جس سے میں بے چین ہوں وہ خود مری آواز ہے

    بجھ گئی کل جو سر بزم وہی شمع نہ تھی

    شمع تو آج بھی سینے میں ہے پروانوں کے

    دید کیا، نظارہ کیا، اس کی تجلی گاہ میں

    وہ بھی موجِ حسن تھی جس کو نظر سمجھا تھا میں

    باقی نہ تابِ ضبط رہی شیخ و شاب میں

    ان کی جھلک بھی تھی مری چشم پُرآب میں

    اِک نگارِ اشکِ خوں میں پنہاں ہے

    حسن کی نمائش ہے عشق کے بہانے سے

    اشکِ پیہم کو سمجھ لیتے ہیں اربابِ نظر

    حسن تیرا مرے چہرے سے جھلکتا دیکھیں

    مزے آگئے ہیں عشوہ ہائے حسنِ رنگیں کے

    تڑپتے ہیں ابھی تک رقصِ بسمل دیکھنے والے

    عکس کس چیز کا آئینہ حیرت میں نہیں

    تیری صورت میں ہے کی جو مری صورت میں نہیں

    اصغرؔ کاکلام پڑھیے توآپ کو خود اپنے اندر کی موسیقی سنائی دے گی جو دنیا اور زندگی کے بے معنی شور و شغب میں آپ کبھی نہیں سن سکتے۔ اس سے آپ کی روحانی و اماندگی دور ہوجائے گی۔

    اس کی شاعری کو نفسیات کی اصطلاح میں اگر ’’ارتفاعِ حسی‘‘ (Sublimation) کانتیجہ بھی مان لیا جائے، تب بھی وہ ارفع (sublime) ہے اور صحیح معنوں میں نشاطِ روح ہے۔ روح کے جن مقامات عالی سے وہ ہمیں آشنا کرگیا ہے وہ اردو شاعری کے لیے مایۂ ناز ہیں۔ جن کیفیات اور وارداتِ قلبی کواس نے ادا کیا ہے کسی اور نے نہیں کیا۔ صوفیانہ شاعری کی اردو میں کمی نہیں۔ (مولوی صاحبان اور شارحین کاخدا بھلا کرے) ہر شعر میں مجاز اور حقیقت دونوں کو ٹھونس کر دکھایا جاتا ہے۔ مگر اصغرؔ کی شاعری اور عجیب و غریب زندگی میں جو ہم آہنگی تھی یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ گو زندگی میں لوگ اسے نہ پاسکے، مگر وہ آج بھی اپنے اشعار میں اپنی انفرادی خصوصیات کے ساتھ نمایاں ہے،

    اصغرؔ سے ملے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا

    اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے

    *

    ۳۰/نومبر ۳۶ء کی صبح کا واقعہ ہے۔ میں اتفاق سے صرف دو دن کے لیے دہلی سے الٰہ آباد گیا ہوا تھا کہ اچانک اصغرؔ کے انتقال کی خبر ملی۔ میں فوراً ان کے مکان پرپہنچا مگر باہر ہی سے لوٹ آیا۔ نہ آخری دیدارِ میت ہی کی ہمت پڑی نہ جنازہ کے ہمراہ قبرستان تک جانے کی، کیونکہ میں یہ گوارا نہ کرسکا کہ اپنے آپ کو یہ یقین دلادوں کہ اصغرؔ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ زندگی میں بھی میں نے اصغرؔ کو بارہا ’’کھویا ہوا‘‘ پایا تھا۔ اس لیے صرف یہ خیال دل میں لے کرمیں واپس چلاآیا کہ اب وہ ’’موت‘‘ کے بہانے سے کہیں روپوش ہوگیا ہے۔ اس کو مرے ہوئے ایک عرصہ ہوا مگر مجھے اس کی موت کا اب بھی یقین نہیں۔ میرے نزدیک اصغرؔ مرانہیں کیونکہ اس کا کلام موجود ہے، اور اس میں خود اسی کے قول کے مطابق وہ ’’کچھ کچھ نمایاں‘‘ ہے، اتنا زیادہ جتنا وہ زندگی میں نہ تھا۔

    میں اب بھی اکثر حیرت آمیز لہجہ میں اسی کاشعر پڑھا کرتا ہوں،

    خدا جانے کہاں ہے اصغرِؔ دیوانہ برسوں سے

    کہ اس کو ڈھونڈتے ہیں کعبۂ و بت خانہ برسوں سے

    *

    نوٹ: اس مضمون کا کچھ حصہ آل انڈیا ریڈیو، دلی سے نشر ہوچکا ہے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے