میں ایک زندہ انسان ہوں، اس لیے میرے نزدیک کسی انسان کی شخصیت کا اندازہ کرنے کے لیے صرف ایک معیار ہے۔ یہ دیکھنا کہ اس میں زندگی کرنے کی کتنی صلاحیت ہے اور زندگی کے لیے اس میں کتنا جذبہ ہے!
اگر اس اعتبار سے اصغرؔ کو دیکھاجائے تو اس کو کسی شخصیت کا مالک نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ اس میں زندگی کی کوئی امنگ، کوئی جوش، کوئی ولولہ اورکوئی جذبہ نہ تھا۔ اس نے ایک زندہ انسان کی طرح کبھی زندگی کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ وہ زندگی سے، حواسِ خمسہ کی زندگی سے، اس زندگی سے جو جسم کی گرمی، اور خون کی روانی سے عبارت ہے، بیگانۂ محض تھا۔ زندگی کے بارے میں اس کا شعر ہے،
سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے، کچھ اصل ہے کچھ طرز ادا ہے
زندگی کی بوقلموں نیرنگیوں، دلچسپیوں، امیدوں، امنگوں اور رومانوں سے اسے کوئی واسطہ ہی نہ تھا۔ وہ گویا ایک تماشائی تھا جو تماشہ دیکھنے آیا اور تماشہ دیکھ کر چلا گیا، نہ خود تماشہ میں کوئی حصہ لیا نہ اس تماشا گاہِ ہستی کا جزو بن سکا۔ ایک فقیر تھا کہ ’’اپنی کھال میں مست‘‘ آیا اور اسی طرح چلا گیا۔ آخر عمر میں تو وہ ’’ہستی‘‘ کو ’’خواب‘‘ سے بھی کم درجہ کی کوئی چیز سمجھنے لگا تھا۔ کہتا ہے،
اے کاش میں حقیقتِ ہستی نہ جانتا
اب لطفِ خواب بھی نہیں احساسِ خواب میں
زندگی اس کے لیے ایک ’’دھوکا‘‘ تھی۔ وہ تصویر سے زیادہ مصور میں منہمک ہوگیا تھا۔
جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے
پردہ پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے
اصغرؔ کے اشعار میں کہیں بھی زندگی کی گرمی، تپش اور چمک نظر نہیں آتی۔ وہ روحانیت سے مملو ہیں اور روحانیت ہی کی طرح ’’سرد‘‘ بھی ہیں، مگر اس کے باوجود ان میں ایک سماوی شان اور خوبصورتی پائی جاتی ہے۔ ہمالیہ کی برف آلود سربفلک چوٹیو ں کی خوبصورتی کی مانند، جب سورج کی شعاعیں ان پر طرح طرح کی رنگ آمیزیاں کرتی ہیں۔ اس خوبصورتی کا اندازہ سطح زمین پر کھڑے ہوکر نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ناظر کو خو دبھی اونچا اٹھنا پڑتا ہے۔ اس بلندی پر انسانی تعلقات، جسم کی گرمی اور خوبصورتی اور زندگی کی گوناگوں کیفیات کا کہیں پتہ نہیں ملتا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت ٹھٹھر کر خود اپنے اندر سکڑ گئی تھی کیونکہ اس کو وہ بالیدگی اور نشوونما نصیب نہیں ہوئی جو ایک زندہ انسان کو ملنی چاہیے۔
اب یہ خدا جانے یا فرائڈ(۱) کہ کن محرومیوں، کن ناآسودہ تمناؤں نے اسے اس خارجی زندگی سے بیزار کرکے ’’اندرونی زندگی‘‘ بسر کرنے پر مجبور کیا۔ میرے خیال میں وہ اس سرور اور ’’سوز و سازِ زندگی‘‘ (Joy of Life) سے لطف اندوز ہونے کا اہل نہ تھا جو ایک Extrovert محسوس کرسکتا ہے۔ اس کے خون میں سورج کی شعاعوں سے گرمی اور روانی پیدا نہ ہوسکتی تھی۔ نفس کی آمد و شد اس کے لیے ایک نشاط انگیز تجربہ نہ تھا۔ مناظر قدرت سے وہ خارجی احساسات کی مدد سے لذت گیر نہ ہوسکتا تھا۔ انسانی محفلوں کی ہماہمی اور داروگیر، مرد و عورت کے تعلقات باہمی حسنِ انسانی اور خواہشاتِ جنس اس میں وہ جذبہ پیدا نہ کرسکتے تھے جو ایک ’’عام شخصیت رکھنے والے‘‘ انسان میں پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح حسن کو اپنا بنالینے کی خواہش، اس پر قبضہ کرلینے کے خیال، رشک اور رقابت کے جذبوں سے بھی وہ ناآشنا ہی رہا۔ کہہ نہیں سکتے کہ یہ ’’سردی‘‘ یا ’’سردمہری‘‘ اس کی زندگی کے کسی خاص واقعات کی بناپر پیدا ہوئی یا فطری تھی۔
(۱) آسٹریا کا مشہور ماہر نفسیات جو چند سال ہوئے مرا ہے۔
اگر اصغرؔ کبھی زندگی سے اور دنیا میں رہنے والوں کی طرح لطف اندوز ہواہوتا تو ناممکن تھا کہ اس کے کلام میں کہیں نہ کہیں غیرشعوری انداز ہی میں ان تجربات کی کوئی جھلک نظر نہ آتی۔ اس کا کلام زندگی سے یکسر خالی ہے، اسی طرح جیسے وہ خود ’’زندگی‘‘ سے خالی تھا۔ ملاحظہ کیجیے،
اصغرِ افسردہ ہے محروم موجِ زندگی
تو نوائے روح پرور بن کے کس محفل میں ہے؟
یہاں اس حقیقت کو نظرانداز نہ کرنا چاہیے کہ اصغرؔ صوفی منش تھا اور قاضی عبدالغنیؔ منگلوری مرحوم سے ارادتِ خصوصی رکھتا تھا۔ (مگر تصوف کی طرف بھی تو انسان اسی وقت مائل ہوتا ہے جب وہ زندگی میں دلچسپی لینا چھوڑ دے، اور انسان زندگی میں دلچسپی لینا اسی وقت چھوڑتا ہے جب اسے زندگی سے کوئی زبردست روحانی صدمہ پہنچے اور کوئی زبردست مایوسی ہو۔)
بہ ظاہر وہ ایک خوش اطوار، نفاست پسند، خلیق اور متواضع انسان تھا جس کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر بھی کوئی اکتا نہ سکتا تھا۔ اس کی وہ تصویر جو ’’سرود زندگی‘‘ میں شامل ہے اس کی ظاہری شکل و صورت کو اچھی طرح پیش کرتی ہے۔ اس کی گزشتہ زندگی کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا وہ لوگ جانتے ہوں گے جنہیں اس سے ملنے کا کبھی اتفاق بھی نہیں ہوا۔
میں اصغرؔ سے ملنے سے پہلے اس کا کلام پڑھ چکا تھا۔ اس کے اشعار زندگی سے اتنے زیادہ بعید اور واقعیت سے اتنے زیادہ مبرا نظر آتے تھے کہ مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ اصغرؔ سے مل کر کچھ اندازہ کیا جائے کہ آخر اس تحریکِ شعری کا باعث کیا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہ آئی تھی کہ بغیر کسی دنیاوی تجربہ کے انسان روح کی ان بلندیوں تک کیسے پہنچ سکتا ہے جن کا پتہ اس کے اشعار میں ملتا ہے، چنانچہ ایک دوست کی وساطت سے تعارف ہوا اور اس کے بعد مراسم بہت بڑھ گئے۔ مگر چونکہ مجھے طبعاً دوسروں کی زندگی کے رازوں کی جستجو کرنے سے بڑی نفرت ہے اس لیے میں نے کبھی براہِ راست اصغرؔ سے کوئی استفسار اس کی گزشتہ زندگی کے بارے میں نہیں کیا اور خاموشی سے اس کے اقوال و افعال سے نتائج اخذ کرنا زیادہ بہتر سمجھا۔
میرے ایک اور دوست (جنہیں جمالیات اور نفسیات دونوں میں شغف ہے) کو بھی یہ فکر تھی کہ کسی طرح اصغرؔ سے اس کی گزشتہ زندگی کے حالات، ذہنی کاوشیں، تجربات و غیرہ معلوم کریں تاکہ اس کی شاعری کا ’’پس منظر‘‘ سمجھ میں آسکے۔ چنانچہ انہوں نے ایک دن یہ سوال کر ہی لیا مگر اصغرؔ نے قسمیں کھا کھاکر یقین دلایا کہ اس کی زندگی میں ’’جنسیات‘‘ کو کبھی دخل نہیں رہا۔ اور میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں کہ اصغرؔ کے اس بیان کو سچ نہ مانا جائے۔
اصغرؔ ایک نفسیاتی معمہ تھا۔ وہ ایک ’’زاہدِ مرتاض‘‘ اور ’’آرٹسٹ‘‘ دونوں کا ایک عجیب مجموعہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ فطرتاً دنیا کے لوگوں سے جذباتی تعلق (Emotional contact) پیدا کرنے اور ان میں جذباتی دلچسپی لینے سے معذور تھا۔ بہت سے لوگ پیدا ہوتے ہیں، لوگوں میں مل جل کر رہتے ہیں اورمرجاتے ہیں مگر اپنے ’’روحانی کفن‘‘ سے باہر کبھی نہیں نکلتے، اور اصغرؔ بھی ان ہی لوگوں میں سے تھا۔ خود اعتراف کرتا ہے،
یہ راز ہے میری زندگی کا
پہنے ہوئے ہوں کفن خودی کا
ایسے آدمی دنیا میں رہتے ہیں مگر ’’بیگانوں‘‘ کی طرح، کیونکہ ان کی ’’خودی‘‘ لوگوں سے زیادہ خلا ملا گوارا نہیں کرسکتی۔ وہ خود اپنی روح کی گہرائیوں میں گم ہوکر بھی ایک پرکیف (Ecstatic) حالت اپنے اوپر طاری کرسکتے ہیں۔ انہیں ہر لحظہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ اگر کہیں وہ لوگوں میں جذب ہونے لگے تو ان کی ’’خودی‘‘ کاخاتمہ ہوجائے گا۔ اس لیے وہ دنیا میں لوگوں سے مجبوراً ملتے تو ضرور ہیں مگر ’’دامن بچائے ہوئے‘‘ ہجوم میں گھر کر بھی وہ ’’تنہا‘‘ ہی رہتے ہیں۔ وہ اپنی ’’خودی‘‘ کی اس درجہ حفاظت کرتے ہیں یا خود اپنے آپ میں اتنے کھوئے رہتے ہیں کہ ان کے ملنے والوں کو بھی ان سے آگاہی نہیں ہوتی۔
اصغرؔ سے جو کلام یاد گار ہے وہ صرف دو مختصر مجموعوں ’’نشاطِ روح‘‘ اور ’’سرودِزندگی‘‘ پر مشتمل ہے، اور یہ اس کی اخیر عمر کا کلام ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا پہلا کلام کیا ہوا اور وہ کیسا تھا؟
قراین بتاتے ہیں کہ اس نے شاعری بہت دیر میں شروع کی۔ میرے خیال میں شعر کہنے سے پہلے وہ عرصہ تک شدتِ احساس کی مشق کرتا اور حسرتوں کی پرورش کرتا رہا۔ چنانچہ خود کہتا ہے،
نہ پوچھو مجھ پہ کیا گزری ہے میری مشقِ حسرت سے
قفس کے سامنے رکھا رہا ہے آشیاں برسوں
اس کے پہلے مجموعۂ کلام کا نام ’’نشاطِ روح‘‘ واقعی بہت موزوں ہے، کیونکہ اس کے اشعار روح کے نشاط انگیز اور نشاط افزا تجربات کاآئینہ ہیں، مگر جب مرنے سے تقریباً ایک سال پہلے اصغرؔ نے اپنا دوسرا مجموعۂ کلام شائع کیا اور اس کا نام ’’سرودِزندگی‘‘ رکھا تو مجھے اس سے اختلاف تھا۔ (گو میں نے اس وقت اپنی رائے ظاہر نہ کی تھی کیونکہ ان دنوں اصغرؔ پر فالج گراہوا تھا اور ان سے کسی قسم کی بحث کرنا مناسب نہ تھا۔)
اصغرؔ تو زندگی سے بالکل ہی ناواقف تھا، ایک ایسی روح تھا جو اس دنیا میں بھٹک آئی تھی او ریہاں اپنے لیے جگہ نہ پاکر خود اپنے ہی اندر پناہ گزیں ہوگئی تھی۔ پھر اس کا کلام ’’سرودِ زندگی‘‘ کیونکر کہا جاسکتا ہے؟ ہاں، جو لوگ اصغرؔ کی طرح روحانی زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لیے وہ یہ درجہ رکھ سکتا ہے، مگر عام زندگی سے اسے کوئی سروکار نہیں۔
اصغرؔ کا خیال آتے ہی مجھے بے ساختہ ایتھل مین (Ethel Mennen) کے ناول “Ragged Banners” کا ہیرو “Anthony Star ridge” یاد آجاتا ہے، جس کو زندگی نے قبول نہ کیا اور جو زندگی کو قبول نہ کرسکا او رجو اس دنیا اور زندگی سے مایوس ہوکر “Ninthonn Lights” کی طرف چلتے چلتے آخر کار ان ہی میں جذب ہوگیا۔
اصغرؔ بھی ان ہی ’’شمالی روشنیوں‘‘ کا پروانہ ہے۔ دنیا میں اس کے لیے کوئی دلچسپی نہیں، اس لیے وہ بھی اسی نور، اسی شعلہ آسمانی کی جستجو کرتا ہے اور تمام قیودِ جسمانی سے بے تعلق رہتا ہے۔ چند فارسی اشعار میں یہ حقیقت صاف جھلکتی نظر آتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے،
بہ شب ہائے سیاہے چند آہے کردہ ام پیدا
بہ ہر سیارۂ صدر سم دراہے کردہ ام پیدا
جمالِ لالۂ و گل راہزاراں رنگہا بخشم
زفیضِ جلوۂ حسن ات نگاہے کردہ ام پیدا
تو در قیدِ جہاں پابستہ و صد شکوہ سنجی ہا
من از ہر ذرّہ سازے کردہ راہے کردہ ام پیدا
غبار از وامنِ خود بارہا افشاندہ ام اصغرؔ
بہ ہنگامِ جنوں صد مہر و ماہے