Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آسٹریلیا کا دیہی طرزِ حیات

طارق مرزا

آسٹریلیا کا دیہی طرزِ حیات

طارق مرزا

MORE BYطارق مرزا

    میں جب بھی شہر کی گہما گہمی سے اُکتاتا ہوں تو آسٹریلیا کے کسی دیہی علاقے کا رُخ کرتا ہوں ۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قصبات بلکہ گاؤں میں بھی ہوٹل دستیاب ہیں ۔ جدید سہولتوں کے باوجود گاؤں کی زندگی اب بھی زیادہ نہیں بدلی۔ بلکہ صدیوں پرانی طرز پر قائم ہے ۔ وسیع رقبے پر بنے سادہ سے مکانات ، کشادہ سڑکیں ،درختوں اور سبزے کی بہتات، صاف سُتھری آب و ہوا اور حدّ نظر تک پھیلے کھیت اور کھلیان فطرت سے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ تنہائی اور سکوت درکار ہو تو فارم ہاؤس بھی کرائے پر مل جاتے ہیں ۔

    چند ماہ قبل ہمیں ایسے ہی ماحول کی طلب محسوس ہوئی تو ہم نے نیو ساؤتھ ویلز اور کوئنز لینڈ کے درمیان واقع شہر ٹاری کے مضافات میں ایک فارم ہاؤس چند دنوں کے لیے بُک کرا لیا ۔ راہ کے خوشگوار مناظر دیکھتے، سبزے اور درختوں کے بیچ ہموار سڑک پر چلتے اور بھیڑوں ، گائیوں اور گھوڑوں کے فارمز کا مشاہدہ کرتے پانچ گھنٹے کے بعد ہم اس فارم کی طرف مڑنے والی سڑک کے سامنے جا پہنچے ۔ فارم ہاؤس کی طرف جانے والی یہ دو کلومیٹر سڑک کچی تھی مگر اس پر چھوٹے چھوٹے پتھروں کا فرش بچھا ہوا تھا۔ جس پر گاڑی چلنے سے کڑکڑاہٹ کی آواز آتی تھی ۔ سڑک کے دونوں اطراف گھنے ، اُونچے اور قدیم درخت ایستادہ تھے جن کی خستہ ڈالیاں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں ۔ ہم فارم ہاؤس کے سامنے پہنچے تو دور دور تک جنگلوں میں گھرے، آبادیوں سے دور اس اکلوتے گھر کو دیکھ کر یوں لگا جیسے جنگل میں بہار آگئی ہے ۔ کیونکہ گھر کے چاروں اطراف بڑے درختوں کے بجائے بے شمار چھوٹے اور پھول دار پودے رنگ بکھیر رہے تھے۔ ان میں پھلوں سے لدے لیمن، مالٹے،سٹرابری اور سیب کے درخت بھی شامل تھے۔ مرکزی دروازے کے پاس لگی انگور کی بیل گھر کی دیوار پر پھیلی تھی ۔ جب کہ عقب میں کافی دور تک گھاس کا میدان تھا جہاں بکریاں ، گائیں اور گھوڑے چر رہے تھے ۔ گھر کے ارد گر آ ہنی تاروں کی باڑ تھی اور سامنے دھکیل کر کھلنے والا گیٹ تھا ۔

    گیٹ کھول کرہم گاڑی اندر لے گئے اور ایک شیڈ کے نیچے پارک کر دی ۔ گھر کے باہر نمبر کے علاوہ کچھ نہیں لکھا تھا اس لیے مجھے کچھ شک تھا کہ یہی ہمارا مطلوبہ فارم ہاؤس ہے ۔ یہ شک رفع کرنے کے لیے وہاں کوئی فرد موجود نہیں تھا ۔ میں نے فارم کی مالکن کو فون کر کے بتایا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں ۔ اس نے فون پر ہی خوش آمدید کہا اور بتایا ’’ چابی مرکزی دروازے کے سامنے دیوار پر چسپاں ایک بکس کے اندر ہے اور باکس کھولنے کے لیے کوڈ نمبر یہ ہے ۔ گھر کے اندر آپ کو ہر شے تیار اور صاف ستھری ملے گی‘‘

    ہم اس خاتون کی ہدایت کے مطابق دروازہ کھول کر اندر گئے تو واقعی پورا گھر سجا دھجا اور صاف ستھرا تھا ۔ بستر کی چادریں ، تکیے ، تولیے ، فریج، ٹی وی، چولہے ، برتن ، کیتلی ، ٹوسٹر، لائبریری ، ویڈیو ، برآمدے میں بار بی کیو چولہا اور دیگر سب چیزیں موجود اور صاف ستھری تھیں ۔

    ہم چاردن وہاں رہے اس دوران کوئی شخص وہاں نہیں آیا ۔ آخری دن کرایہ بھی وہیں رکھ کر آئے ۔ دراصل ہم نے یہ فارم ہاءوس صرف تین دن کے لیے لیا تھا ۔ تیسری رات میرا ایک دوست بھی اپنی بیگم کے ساتھ وہاں آگیا ۔ حالانکہ وہاں دیکھنے والا کوئی نہیں تھا پھر بھی میں نے فون کر کے مالکن کو بتایا ’’ آپ کو مطلع کرنا تھا کہ ہمارے دو مہمان آئے ہیں ۔ دوسرے یہ پوچھنا تھا کہ کیا ہم ایک رات مزید یہاں رُک سکتے ہیں۔

    میں توقع کر رہا تھا کہ وہ اضافی افراد کا اضافی کرایہ طلب کرے گی ۔ کیونکہ گھر میں جتنے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اتنا بجلی اور پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے ۔ مگر اس نے یہ جواب دے کر ہمیں حیران کر دیا ’’ مہمانوں کا کوئی مسئلہ نہیں ،ہاں آپ ایک رات مزید رُک سکتے ہیں کیونکہ کل کوئی اور مہمان نہیں آرہا ۔ اس اضافی رات کا کرایہ دینے کی بھی ضرورت نہیں’’

    یہ جواب میرے لیے انتہائی غیر متوقع تھا ۔ کافی دیر تک یقین نہیں آیا کہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جنہیں لالچ چھو کر بھی نہیں گزرتی ۔ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ فارم ہاؤس کی مالک خاتون ایک ریستوران میں اور اس کا میاں کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں ۔ یہ بات اس نے خود مجھے فون پر بتائی تھی ۔ فارم ہاؤس کا خرچ نکال کر انہیں اس سے معمولی آمدنی ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود انہیں لالچ اور حرص نہیں تھی ۔

    اس فارم میں درجن بھر گائیں ، اتنی ہی بکریاں اور دو گھوڑے تھے ۔ فارم کے مکین کی حیثیت سے آپ کو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ وہ پچیس ایکڑ میں پھیلے اس فارم میں خود ہی چرتے پھرتے ہیں ۔ دھوپ اور بارش سے پناہ لینی ہو تو درختوں کے جھنڈ تلے چلے جاتے ہیں ۔ فارم میں تین چھوٹے چھوٹے تالاب ہیں جہاں بارش کا پانی جمع رہتا ہے۔ وہیں سے یہ اپنی پیاس بجھاتے ہیں ۔ ہاں مہمان اپنے شوق کی خاطر انہیں چارہ ڈالنا چائیں تو فارم ہاؤس کے عقب میں ایک شیڈ میں گائے، گھوڑے اور بکریوں کے لیے الگ الگ چارہ موجود ہے ۔ چارہ لے کر باڑ کے پاس جائیں تو گھوڑے اور گائیں جمع ہو جاتے ہیں آپ باڑ کے اوپر سے انہیں گھاس ڈال سکتے ہیں ۔ بکریوں کا الگ باڑہ ہے۔ وہاں پرانا سا شیڈ بھی ہے جہاں وہ سردی اور بارش میں پناہ لیتی ہیں ۔ فارم ہاؤس میں بجلی کی سپلائی ہے مگر اس کے ساتھ شمسی توانائی بھی استعمال ہوتی ہے ۔ آسٹریلیا میں شمسی توانائی کا استعمال عام ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ فارم ہاؤس میں استعمال ہونے والا تمام پانی بارش سے جمع کیا ہوا ہے ۔ گھر سے ملحق دو بڑے بڑے پلاسٹک کے ٹینک ہیں جہاں چھت سے بارش کاپانی جمع ہوتا ہے ۔ یہی پانی نہانے دھونے ، کھانے پینے ہر مقصدکے لیے استعمال ہوتاہے ۔

    میں سوچتا تھا کہ آسٹریلیا اور ہندوستان پاکستان کے موسموں میں بہت مماثلت ہے بارشیں اور دھوپ دونوں جگہوں کی مشترکہ خصوصیات ہیں ۔ بلکہ پاکستان میں دھوپ زیادہ پڑتی ہے ۔ وہاں ایسے شمسی پلانٹ آسانی سے اور ارزاں داموں لگ سکتے ہیں ۔ علاوہ ازیں بارش کا پانی جمع کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ تیسری بات یہ کہ ہمارے دیہاتوں میں بھی ایسے تالاب بنائے جا سکتے ہیں جیسے اس فارم میں بنے ہیں ۔ جب بارش نہ تو یہ پانی مویشیوں اور فصلوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے ۔ ان میں سے کوئی کام بھی مشکل اور مہنگا نہیں ہے ۔ نہ جانے اس طرف کسی کی توجّہ کیوں نہیں ہے ۔

    اس علاقے میں شہد کے بہت سے فارم ہیں ۔ علاوہ ازیں سیب، ناشپاتی ، سٹرابری، انگور اور دیگر پھلوں کے باغات ہیں ۔ ہم اس علاقے میں ڈرائیونگ کرتے تو کئی گھروں کے آگے شہد اور ان پھلوں کی فروخت کا بورڈ رکھانظر آتا ۔ ایک جگہ گاڑی روک کر ہم اندر گئے ۔ وہاں برآمدے میں میز پر خالص شہد کی بوتلیں اور پھلوں کی ٹوکریاں رکھی تھیں ۔ ا ن پر قیمت درج تھی اور ایک طرف کھلا بکس رکھا تھا، جہاں سے بڑا نوٹ ہونے کی صورت میں آپ اپناچینج بھی لے سکتے ہیں ۔ وہاں نہ کوئی شخص تھا اور نہ کوئی کیمرا ۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی شخص چوری یا بے ایمانی کرے ۔

    گاؤں کے یہ لوگ سادہ اور فطری زندگی گزارتے ہیں ۔ ان کے پاس مال و دولت نہیں ہوتی مگر وہ قناعت کی دولت سے مالامال ہیں ۔ پرانے گھروں ، چھوٹی گاڑیوں اور قدرے غربت کے باوجود بڑے شہروں سے دور رہ کر اپنے طرزِ حیات سے خوش ہیں ۔ یہاں آبادی اور ذرائع روزگار دونوں کم ہیں۔ کیونکہ اس علاقے کی سطح مرتفع پر فصلیں نہیں اُگتیں صرف مویشی بانی، باغبانی اور دیگر چھوٹے چھوٹے مشاغل ہیں جن کی محدود آمدنی ہے مگر وہ صبر شکر کے ساتھ اس سے گزارا کر لیتے ہیں ۔

    ایسے علاقے میں قیام کی صورت میں ہ میں اشیائے خوردونوش کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے ۔ کیونکہ یہاں ریستوران کم اور حلال کھانا نایاب ہے ۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ اشیائے خوردو نوش اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں ۔ اسی علاقے کے ایک دور دراز گاؤں کی سیر کے دوران ہمیں اشتہا محسوس ہوئی تو وہاں نظر آنے والے واحد کیفے کے اندر چلے گئے ۔ سہ پہر کے اس وقت وہاں کوئی اور گاہک نہیں تھا ۔ کیفے کی مالکن اُدھیڑ عمر آسٹریلین خاتون سے ہم نے دستیاب کھانوں کے بارے میں دریافت کیا تو ہمارے مطلب کی کوئی حلال شے موجود نہیں تھی ۔ ہمیں مایوس دیکھ کر یہ خاتون بھی پریشان ہو گئی۔ حالانکہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا ۔ میں نے پوچھا ‘‘ آپ کے پاس ڈبل روٹی اورانڈے ہیں؟’’

    اس نے فوراً اثبات میں جواب دیا ۔ ہمارے کہنے پر اس نے ڈبل روٹی، انڈے، پنیر، مکھن، ٹماٹر اور پیاز نکالے ۔ ہم سب نے مل جل کر پیاز ، ٹماٹر اور انڈوں کا آملیٹ بنایا ،ٹوسٹ گرم کیا ، مکھن لگایا اور مزے سے تازہ اور گرم کھانا کھایا جو اس علاقے کی نسبت سے غنیمت تھا ۔ خاتون ہمیں خوش اور مطمئن دیکھ کر بہت خوش تھی ۔ ہم نے نماز ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اس مہمان نوازخاتون کو پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔ ہم نے سمجھایا کہ ہمیں صاف جگہ اور صاف کپڑا درکار ہے ۔ جب سمجھ آیا تو اس نے فوراً جگہ صاف کی ، صاف ستھری چادر بچھائی اور خود دروازے سے باہر چلی گئی ۔ نماز کے بعد ہم نے اس مہربان خاتون کا شکریہ ادا کیا تو نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ شاید یہ اس کی زندگی کا انوکھا تجربہ تھا ۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی اس خاتون نے مسلمانوں کے بارے میں نہ جانے کیا کچھ سن رکھا تھا۔ آج پہلی مرتبہ سامنا ہوا تو وہ ششدر رہ گئی ۔ ہمارے لیے بھی یہ ‘پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے’ والامعاملہ تھا ۔

    یہ دُنیا تو ہے ہی حیرت کدہ ! یہاں ایسی حیرتیں اکثر ملتی رہتی ہیں ۔ واپسی کے سفر میں ، میں سوچ رہا تھا کہ قوموں کی سر بلندی کے لیے وسائل کی نہیں حسنِ اخلاق اور بلند کردار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اطمینان و مسرت کے لیے روپے پیسے کی نہیں قناعت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس خطے میں سکون اور اطمینان کی یہی وجوہات ہیں ۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے