Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

باقر مہدی سے چند آدھی ادھوری ملاقاتیں

سلام بن رزاق

باقر مہدی سے چند آدھی ادھوری ملاقاتیں

سلام بن رزاق

MORE BYسلام بن رزاق

    باقر صاحب سے میرے مراسم کیسے تھے؟ کتنے تھے؟ اور کیوں تھے؟ تھے بھی یا نہیں؟

    یہ سب سوالات تشنہ ہیں۔ اگر میں ان کے جوابات دینے کی کوشش کروں تو شاید جوابات بھی تشنہ ہی رہیں گے۔

    میری ناقص رائے میں دو افراد کے درمیان تعلقات کبھی یکساں نہیں رہتے۔ وقت کے ساتھ ان کے مابین مختلف جذبوں کی لہریں ڈوبتی ابھرتی رہتی ہیں۔ محبت کی تہہ میں کہیں ہلکی سی نفرت بھی بکل مارے بیٹھی رہتی ہے اور کبھی نفرت کے پردے میں محبت کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہوتا ہے۔ ورنہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ برسہا برس کی دوستی کسی معمولی سی بات پر فوراً دشمنی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی ایک چھوٹا سا واقعہ برسوں کی دشمنی کو دوستی کے روپ میں بدل دیتا ہے۔ زندگی مجموعۂ اسرار ہے اور تمام انسانی رشتے اسی کے محور پر گردش کرتے ہیں۔ باقر مہدی نے زندگی کی اسی بو قلمونی کو اپنے مشہور شعر میں اس طرح پیش کیا ہے،

    مجھے دشمن سے اپنے عشق سا ہے

    میں تنہا آدمی کی دوستی ہوں

    جنھوں نے باقر صاحب کو قریب سے دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ شعر ان کی شخصیت کی پہچان بن گیا تھا۔ مشہور مزاح نگار جناب یوسف ناظم کے خاکے کا یہ بلیغ جملہ ان کی شخصیت پر کس قدر صادق آتا ہے۔

    ’’اگرسب لوگ پانی کی تلاش میں دریا کی طرف جا رہے ہوں اور صرف ایک شخص ریگستان کی سمت جا رہا ہو تو وہ تنہا شخص سوائے باقر مہدی کے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔‘‘ اتفاق سے باقر مہدی نے خود بھی اس سے ملتی جلتی بات اپنے ایک شعر میں کہی ہے،

    دو چار تھے جو توڑ کے صحرا نکل گئے

    اک قافلہ سا دشت روایات ہی میں تھا

    باقر صاحب سے ان کی بیگم خیرالنسا مہدی اور ان کے دوست غنی بھائی کے سوا کسی کے بھی تعلقات متوازن نہیں رہے۔ ٹائمزآف انڈیا کے اپنے ایک انٹریو میں باقر مہدی نے کہا تھا کہ میرے واحد دوست غنی بھائی ہیں۔ ویسے ان کے مداحوں میں معروف کمٹیڈ شاعر یعقوب راہی کا نام سر فہرست ہے۔ جو نہ صرف ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں بلکہ آخری لمحوں تک ان کی خبر گیری بھی کرتے رہے۔ میرے مراسم بھی دوسروں کی طرح ان سے ناہموار ہی رہے۔ کبھی اکثر ملے کبھی برسوں نہیں ملے۔ اس مختصر سے مضمون میں انھیں آدھی ادھوری ملاقاتوں کے دھندلے نقوش کو تازہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    ان سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی تھی۔ تاریخ اور دن اب یاد نہیں، لیکن اتنا یاد ہے کہ یہ ملاقات مکتبہ جامعہ (بمبئی) کے دفتر میں ہوئی تھی۔ غالباً یہ ۶۸۔ ۱۹۶۷ء کی بات ہے۔ مکتبہ جامعہ کے منیجر شاہد علی خاں صاحب نے انجمن ترقی اردو (ہند) پنویل شاخ کے سکریٹری کی حیثیت سے میرا تعارف کرایا تھا۔ ظاہر ہے باقر صاحب کو انجمن ترقی اردو (ہند) سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی۔ انھوں نے کوئی توجّہ نہیں دی۔ صرف مصافحہ کر کے رہ گئے۔ میں ان دنوں بھنڈی بازار میں ایک ٹیوشن کرتا تھا۔ آتے جاتے کبھی مکتبہ جامعہ میں بھی جھانک لیتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں سنیچر کی شام کو شاعروں اور ادیبوں کا اچھا خاصا جمگھٹا رہتا تھا۔ باقر مہدی، ندا فاضلی، شباب مالیر کوٹلوی، فضیل جعفری، یوسف ناظم مجمود چھاپرا، تصدیق سہاروی، زکریا شریف، انور خاں، مرزا عزیز جاویدوغیرہ مستقل شرکا میں تھے۔ کبھی کبھی سردار جعفری، ظ انصاری اختر الایمان، جاں نثار اختر محافظ حیدر وغیرہ کی جھلک بھی دکھائی دے جاتی تھی۔

    میں بھی گاہے گاہے سنیچر کی اس محفل میں شریک ہونے لگا۔ اس وقت افسانہ نگاروں میں کرشن چندر اور شاعروں میں سردار جعفری میرے آئیڈیل تھے۔ ترقی پسند تحریک کی چمک دمک ماند پڑنے لگی تھی اور ادب میں جدیدت کا بول بالا تھا میں نیا نیا پنویل سے بمبئی میں وارد ہوا تھا۔ پنویل بمبئی سے ملحق ایک قصبہ ہے۔ وہاں کوئی ادبی ماحول نہیں تھا۔ میں نہ ترقی پسندی سے ٹھیک طرح واقف تھانہ جدیدیت سے لہذا مکتبہ جامعہ کی بیٹھکوں میں ہونے والی باتیں اور بحیثیں میرے لیے خاصی حیرت افزا ہوا کرتی تھیں۔ میں دیکھتا تھا کہ وہاں ہونے والے مباحث میں باقر مہدی پیش پیش رہتے تھے۔ گفتگو میں وہ اردو اور انگریزی ادب کے حوالوں کی ایسی جھڑی لگا دیتے کہ مقابل کو پسپا ہوتے ہی بنتی۔ اس پر مستزاد ان کے بے مہابا قہقہے۔ ایک بار انھوں نے مجھ سے پوچھ لیا، ’’کہاں کہاں چھپتے ہو؟‘‘ میں نے شاعر، شمع اور بلٹز کا نام لیا تو منہ پھیر لیا۔ مجھے سخت ندامت ہوئی۔

    مکتبہ پر زیادہ تر ’’شب خون‘‘، ’’آہنگ‘‘، ’’تحریک‘‘ اور ’’کتاب‘‘ میں چھپنے والی تخلیقات پر بحثیں ہوتی تھیں۔ ان پرچوں میں جو افسانے چھپ رہے تھے خاص طور پر ’’شب خون‘‘ میں وہ خالص جدید رنگ میں ڈوبے ہوتے تھے۔ سریندر پرکاش کے دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم، ژپی ژاں، تلقارس، بلراج مینرا کی کمپوزیشن سیریز، انور سجاد کی گائے، سنڈریلا، کونپل جیسے تجریدی افسانوں کا چرچا زیادہ تھا۔ نئے لکھنے والوں میں قمر احسن، شوکت حیات اور حمید سہر وردی کا ذکر ہونے لگا تھا۔ بمبئی کے افسانہ نگاروں میں انور خاں اور انور قمر کا نام نمایاں تھا۔ انور خاں اپنا مشہور تجریدی افسانہ ’’کووّں سے ڈھکا آسمان‘‘ لکھ چکے تھے اور مکتبہ جامعہ کے شرکا میں نوجوان افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ میں اردو کے ساتھ ساتھ ہندی میں بھی لکھ رہا تھا۔ ہندی میں جدیدیت کی لہر اپنا کوئی خاص اثر چھوڑے بغیر معدوم ہورہی تھی۔ وہاں تجریدی، علامتی اور استعاراتی کہانیوں کی جگہ، سمانتر کہانی نے لے لی تھی۔ ’’ساریکا‘‘ سمانتر کہانی کا ترجمان تھا۔ ’’نئی کہانیاں‘‘ ، ’’کہانی‘‘، ’’کہانی کار‘‘، ’’دھرم یگ‘‘ اور ’’گیانودے‘‘ جیسے ادبی پرچے کوئی لیبل لگائے بغیر خوبصورت کہانیاں شائع کر رہے تھے۔ میری کہانیاں مذکورہ رسائل میں تو اتر سے چھپ رہی تھیں۔ شاید اسی لیے میرے افسانوں پر تجریدیت کا اثر اتنا گہرا نہیں تھا، جتنا میرے معاصرین پر تھا۔ میرے افسانے باقر صاحب کی نظر میں شاید اس لیے بھی زیادہ معتبر نہیں تھے کہ وہ اس زمانے کے جدید افسانوں کی طرح علامت، استعارہ، تجریدیت اور ابہام کے زیوروں سے آراستہ نہیں تھے۔ انھی دنوں مکتبہ جامعہ کی سنیچری محفل کے شرکا نے باقر مہدی اور فضیل جعفری کی ادارت میں ’’اظہار‘‘ نام سے ایک رسالہ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ ہر شخص نے اپنی استعداد کے مطابق چندہ دیا۔ اظہار کی تیاری کے دوران حسبِ توقع باقر صاحب اور فضیل صاحب میں اختلاف ہوگیا۔ فضیل صاحب نے پہلے شمارے کے بعد ہی ’’اظہار‘‘ سے علاحدگی اختیار کرلی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت کم مدّت میں ’’اظہار‘‘ نے ادبی صحافت میں اپنی ایک پہچان بنائی تھی مگر اپنی صحت کی خرابی اور مالی مشکلات کے سبب باقر صاحب نے پانچ شمارے نکالنے کے بعد ’’اظہار‘‘ بند کردیا۔

    1975میں ایمرجنسی نافذ ہوئی۔ میں باقاعدگی سے مکتبہ جانے لگا تھا۔ وہاں باقر صاحب سے تقریباً ہر سنیچر کو ملاقات ہوجاتی تھی۔ اب باقر صاحب سے قدرے بے تکلفی بھی ہوگئی تھی۔ مکتبہ سے اٹھنے کے بعد اکثر شام کو مجگاؤں میں انھی کے مکان پر بیٹھک ہوتی تھی۔ کبھی ابراہیم نذیر (اظہار کے کاتب) کبھی ن الف ناظر یا نشاط انور ساتھ ہوتے تھے۔ پانچ پانچ روپئے چندہ کر کے، دیسی دارو کی بوتل منگوالی جاتی اور شغل مے کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ تازہ صورت حال کے علاوہ باقر صاحب ایمرجنسی کے دوران ہونے والی گرفتاریوں، پولیس کی زیادتیوں اور سنسر شب کا ذکر کرتے اور ایمرجنسی کے خلاف سخت غم و غصے کا اظہار کرتے۔ اسی زمانے میں باقر صاحب کی ایک غزل اردو بلٹر میں چھپی تھی۔ جس کا مطلع تھا،

    موسم داردرسن آ پہنچا

    پھر وہی دور کہن آ پہنچا

    اگرچہ غزل میں ایمرجنسی کے خلاف کچھ نہیں تھا مگر موسم داردرسن والے استعارے کے سبب باقر صاحب اس اندیشے میں مبتلا ہوگئے کہ شاید اس غزل کے بہانے پولیس ان سے باز پرس کرسکتی ہے۔ ہمیں بھی کچھ کچھ اعتبار سا آنے لگا۔ حتیٰ کہ ایمرجنسی ختم ہوگئی اور کوئی باز پرس نہیں ہوئی۔ باقر صاحب ایمرجنسی کے خلاف باتیں تو کرتے تھے مگر اندر سے خوف زدہ بھی رہتے تھے۔ انھوں نے خود ایک جگہ اعتراف کیا ہے۔ ’’میں سیاسی طور پر 'activist' بننا چاہتا تھا مگر نہیں بن سکا۔‘‘

    وہ 'activist' نہیں تھے مگر ان کے اندر 'activist' بننے کی تڑپ ضرور تھی۔ ہوسکتا ہے یہ خوف اسی کا نتیجہ رہا ہو۔ ان کا یہ شعر بھی غالباً اسی جذبے کی طرف اشارہ کرتا ہے،

    ہم یولی سیس بن کے بہت جی چکے مگر

    یارو! حسینؓ بن کے بھی مر جانا چاہیے

    ایمرجنسی کے زمانے میں بیس نکاتی پروگرام سرکاری پالیسی کا ایک اہم ایجنڈا تھا۔ ذرائع ابلاغ اس پروگرام کی تشہیر کا ذریعہ تھے۔ ان دنوں میں ریڈیو کے لیے ڈرامے اور فیچر لکھا کرتا تھا۔ باقر صاحب کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریڈیو پر لکھنا سرکاری پالیسی کی حمایت کرنے کے مترادف ہے۔ جب کہ میرے ڈراموں اور فیچروں میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔ بہر حال میں ریڈیو کے لیے لکھتا رہا کیوں کہ وہ میری ضرورت تھی۔ آخر ایمرجنسی ختم ہوئی۔ کبھی نہ کبھی تو اسے ختم ہونا تھا۔ جوں ہی ایمرجنسی ختم ہوئی، پورے ملک کے طول و عرض میں ایمرجنسی کے خلاف جلسے جلوسوں کا جیسے سیلاب سا آگیا۔

    باقر صاحب نے بھی ’’اظہار گروپ‘‘ کے زیر اہتمام داؤد بھائی فضل بھائی ہال میں ایمرجنسی کے خلاف جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ جلسے کی تیاری میں، میں بھی ساتھ تھا لیکن جب جلسے میں پڑھنے اور بولنے والوں کی فہرست بنی تو اس میں میرا نام نہیں تھا۔ باقر صاحب نے میرا نام اس لیے شامل نہیں کیا کیوں کہ میں ایمرجنسی کے دوران ریڈیو پر لکھتا تھا۔ مجھے جلسے میں نہ پڑھوانے کا اتنا ملال نہیں تھا جتنا اس بات کا کہ محض ریڈیو پر لکھنے کی پاداش میں مجھے قابل تعزیر قرار دے دیا گیا۔ میں جلسے میں شریک نہیں ہوا۔ بعد میں، میں نے روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں ’’کاغذی سورما‘‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ لکھا۔

    چوٹ سیدھی تھی۔ باقر صاحب کو خفا ہونا ہی تھا وہ خفا ہوگئے۔ چار چھ مہینوں تک مجھ سے بات نہیں کی۔ سنیچر کو مکتبہ جامعہ پر مجھے دیکھتے ہی منہ پھیر لیتے تھے۔ ایک دن حیدرآباد کے ایک افسانہ نگار رشید انور آئے ہوئے تھے۔ شام کو دونوں ’شغل‘ کے لیے کریم لالہ کے اڈے پر جارہے تھے۔ جاتے جاتے باقر صاحب اچانک میری طرف مڑے اور بولے۔ ’’تم نہیں چلوگے؟‘‘ میں تو گویا منتظر ہی تھا۔ فوراً ان کے ساتھ ہولیا۔ ان کی خفگی دور ہوچکی تھی۔ یہ عجیب بات تھی کہ وہ میرے افسانے پسند نہیں کرتے تھے مگر ان کے گھر کے دروازے میرے لیے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ جیسا کہ ان کی عادت تھی، اکثر وہ ملنے والوں کو رخصت کرتے ہوئے کہا کرتے تھے ’’اب آپ سے ملاقات فلاں سال، یا فلاں مہینے میں ہوگی۔‘‘ مجھ سے بھی کہتے تھے۔ میں مسکرا کر جواب دیتا تھا، ’’ٹھیک ہے۔ مگر میری یادداشت ناقص ہے۔ بھول جاؤں تو معاف کردیجئے گا۔‘‘

    ان سے ملتے ہوئے ہر بار ایک نئے تجربے کا سا احساس ہوتا تھا کیوں کہ ان کے تیز و طرار فقروں کی بوچھار اور بلند بانگ قہقہوں کی یلغار میں عجیب تھرل ہوتا تھا۔ جیسے آپ کسی ماہر شمشیر زن کے مقابل کھڑے ہوں ہر گھڑی چوکس اور مستعد۔

    ’’آجکل‘‘ میں میرا ایک افسانہ ’’انجام کار‘‘ چھپا جس کا پس منظر ممبئی کی ایک جھوپڑا بستی قصائی واڑہ سے متعلق تھا۔ ان دنوں میں اسی محلے میں رہتا تھا۔ ہندی میں جب یہ افسانہ چھپا تو مجھے کئی توصیفی خطوط ملے مگر اردو میں کسی نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ حسب معمول باقر صاحب کو بھی افسانہ پسند نہیں آیا۔ بلکہ انھوں نے اس پر کئی طرح کے اعتراضات کیے۔ 1985 کے افسانہ سیمینار میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اسی افسانے کا سیر حاصل تجزیہ پیش کیا جو نیا اردو افسانہ کے انتخاب میں شامل ہے۔ اس کے بعد تو اس افسانے کے بارے میں باقر صاحب کی رائے مزید خراب ہوگئی۔ باقر صاحب شہرت اور مقبولیت کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں۔ جو تخلیق جتنی مقبول ہوتی، باقر صاحب کی نظروں میں وہ اتنی ہی غیر معتبر قرار پاتی۔ سریندر پرکاش کا مشہور افسانہ ’’بجوکا‘‘ شائع ہوا تو چاروں طرف اس کا چرچا ہونے لگا۔ ایک ریڈیو ٹاک میں باقر صاحب کو ’’بجوکا‘‘ کا تجزیہ پیش کرنا تھا۔ باقر صاحب نے افسانے کے ایسے لتّے لیے کہ سریندر پرکاش عرصے تک خفا رہے۔

    باقر صاحب کے مزاج کی خوبیاں اور خامیاں رفتہ رفتہ مجھ پر آشکار ہونے لگی تھیں۔ باقر صاحب نے احتشام صاحب کے انتقال پر ایک مضمون نما خاکہ لکھا۔‘‘ ایک جواں برگد کی موت‘‘ مضمون بہت اچھا تھا۔ انھوں نے اس میں احتشام صاحب سے بمبئی میں اپنی ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ اس ملاقات میں کسی کتاب کے موضوع پر دونوں میں تکرار ہوجاتی ہے، بعد میں بیدی صاحب سچویشن کو سنبھال لیتے ہیں۔ احتشام صاحب کے چلے جانے کے بعد باقر صاحب نے بیدی صاحب سے پوچھا،

    ’’آپ کی احتشام صاحب کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘

    بیدی صاحب نے کہا، ’’نہایت ثقہ آدمی ہیں مگر عالم۔۔۔‘‘

    باقر صاحب بولے۔۔۔ سرور صاحب بھی ایسے ہی ہیں۔ اصل میں سب اپنی اپنی شیروانیوں میں بند ہیں۔‘‘

    بیدی صاحب نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا، ’’اور میں اپنی داڑھی میں۔۔۔ اور میاں باقر! تم کب تک ننگی دوپہر میں زندہ رہوگے؟‘‘

    بیدی صاحب کے آخری جملے کی بلاغت سے میرے ذہن میں ایک جھما کا ساہوا۔‘‘ ننگی دوپہر‘‘ کے استعارے نے باقر صاحب کی شخصیت کے کئی گوشے روشن کردیے۔ میں نے ان کی شخصیت کو مرکز میں رکھ کر ایک افسانہ لکھا ’’ننگی دوپہر کا سپاہی۔‘‘ یہ افسانہ ’’شب خون‘‘ چھپا تھا۔ یہ میرا پہلا تجریدی افسانہ تھا۔ اس میں ایک جگہ افسانے کا مرکزی کردار کہتا ہے۔‘‘ ’’ہاں میں نے علم کو شراب کی طرح پیا ہے اور کتابوں کو کاکروچ کی طرح چاٹا ہے۔‘‘ میں اس افسانے پر باقر صاحب کی رائے جاننا چاہتا تھا۔ اگرچہ میں جانتا تھا جو وہ کہیں گے جواب میں، تاہم میں نے ایک دن ڈرتے جھجکتے پوچھ ہی لیا،

    ’’باقر صاحب! تازہ ’’شب خون‘‘ میں میرا افسانہ چھپاہے۔۔۔‘‘

    میرا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی انھوں نے کہا،

    ’’ہاں پڑھا ہے۔ مجھے پسند نہیں آیا۔۔۔ مگر تم کتابوں کے اس قدر دشمن کیوں ہو؟‘‘

    میں ہنس دیا۔ مجھے اطمینان ہوگیا کہ افسانے کی ترسیل ہوچکی ہے۔

    1977 میں میرے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ننگی دوپہر کا سپاہی‘‘ چھپ گیا۔ اگرچہ میں کتاب پر جلسہ کروانے کے حق میں نہیں تھا۔ مگر اظہار گروپ کے کنوینر محمود چھاپرا کے اصرار پر ہامی بھر دی۔ جلسہ محمود چھاپرا کے مکان پر ہوا۔

    جلسے میں باقر مہدی، سریندر پرکاش، فضیل جعفری، عزیز قیسی کے علاوہ انور خاں حفیظ آتش، مشتاق مومن، جاوید ناصر وغیرہ بھی موجود تھے۔ جلسے کی صدرات کے لیے سریندر پرکاش کا نام تجویز ہوا۔ جلسے کی تفصیل تو اب یاد نہیں مگر باقر صاحب کی تقریر کی دو ایک باتیں یاد ہیں۔ تقریر کا آغاز ہی اس جملے سے ہوا۔

    ’’سلام کو چاہیے کہ اس کتاب کو بھول جائے۔‘‘ پھر کئی افسانوں کا پوسٹ مارٹم کرتے رہے۔ آخر میں ’’انجام کار‘‘ کے تعلق سے اپنا موقف دوہرایا، ’’اس کہانی کا مرکزی کردار دارو کے اڈّے پر سرینڈر ہوجاتا ہے جس سے افسانہ کمزور ہوگیا ہے۔‘‘

    سریندرپرکاش نے اپنی صدارتی تقریر میں اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا، ’’سلام کے افسانے کا ہیرو اہک عام آدمی ہے۔ وہ ہم اور آپ بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ کسی اسٹنٹ فلم کا ہیرو نہیں ہے کہ دارو کے اڈّے پر جاکر سب کی ایسی تیسی کردے۔ سلام کے افسانے کا انجام بالکل فطری ہے۔ مجھے افسانہ پسند ہے۔‘‘

    مجھے یاد ہے اس کے سال دو سال بعد ایک دن اچانک باقر صاحب ابراہیم نذیر کے ساتھ قصائی واڑا میرے گھر آئے۔ انہیں دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد جب ہم واپس ہونے لگے تو باہر گندگی کے ڈھیر، بج بجاتی گٹروں اور بہتی نالیوں کو دیکھ کر باقر صاحب ناک پر رومال رکھتے ہوئے بولے۔

    ’’دادا رے دادا۔۔۔ ترقی پسندوں کو سائیبر یا بھیجنے کی بجائے یہاں بھیجنا چاہیے۔‘‘ ابراہیم نذیر نے برجستہ یاد دلایا، ’’باقر صاحب! ’’انجام کار‘‘جیسا افسانہ یہاں رہ کر ہی لکھا جاسکتا تھا۔‘‘ باقر صاحب ایک لمبی ’ہوں‘ کے ساتھ خاموش ہوگئے تھے۔

    1980کے آس پاس مکتبہ جامعہ کے منیچر شاہد بھائی (شاہد علی خاں) جنرل مینجر بنا کر دلّی بھیج دیے گئے۔ باقر صاحب اپنا مجگاؤں والا مکان فروخت کرکے کارٹر روڈ باندرہ میں منتقل ہوگئے۔ دھیرے دھیرے مکتبہ جامعہ کی سنیچری محفلوں کی رونق کم ہوتی گئی۔ باقر صاحب سے بھی اب ملاقاتیں کم کم ہونے لگیں۔ وہ اب مکتبہ جامعہ نہیں آتے تھے، ملنے والے خود کبھی کبھی ان کے گھر باندرہ چلے جاتے تھے۔ ان کی صحت بھی اب ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ باقر صاحب کی ایک اور تقریر یاد آرہی ہے۔

    1988 میں میرے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’معبر‘‘ شائع ہوا۔ انور خاں کے ساتھ دیگر احباب نے مل کر عبدالاحد ساز کے مکان پر ایک نشست کا انعقاد کیا۔ انور خاں نے پتا نہیں کس طرح باقر صاحب کو صدرات کے لیے راضی کر لیا۔ باقر صاحب کی رضا مندی پر مجھے خوشی سے زیادہ حیرت ہوئی۔ لیکن جلسے میں ان کی صدارتی تقریر سننے کے بعد نہ خوشی باقی رہی نہ حیرت۔ بلکہ سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال تھا۔ کیا تقریر ایسی بھی ہوسکتی ہے؟ جلسے کے آغاز میں ہی انھوں نے اعلان کردیا کہ طبعیت کی ناسازی کے سبب وہ اپنی صدارتی تقریر پہلے ہی کردینا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کتاب ہاتھ میں لے کر تقریر شروع کی۔ عجیب و غریب تقریر تھی۔ وہ کتاب کے اوراق الٹتے ہوئے ہر افسانے پر ایک آدھ فقر اچست کرکے آگے بڑھ جاتے۔

    ’’ندی۔۔۔ تمثیل ناکام ہے۔۔۔‘‘

    ’’درمیانی صنف کے سورما۔۔۔ استعارہ بن نہیں پایا۔‘‘

    دست بریدہ لوگ۔۔۔ کمزور ہے۔‘‘

    ’’کام دھینو۔۔۔ پچاس فیصدی اچھا ہے۔‘‘

    ’’معبر۔۔۔ چالیس فیصدی۔‘‘

    ’’خصّی۔۔۔ تیس فیصدی۔‘‘

    آخری ریمارک۔۔۔ ’’سلام بن رزاق کا یہ مجموعہ ان کے پہلے مجموعے سے زیادہ کمزور ہے۔

    ’’اچھا اب مجھے اجازت دیجیے۔ میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

    اور اٹھ کر چلے گئے۔ بعد میں یوسف ناظم صاحب کی صدارت میں جلسہ جاری رہا۔

    انور خاں، انور قمر، مشتاق مومن، آتما رام، عنایت اختر، سعید راہی اور اسلم خاں وغیرہ نے اپنے تاثرات پیش کیے۔ باقر صاحب کی تقریر پر سامعین میں سے بعض نے اعتراضات کیے مگر باقر صاحب تقریر کر کے جا چکے تھے۔

    مجھے ان کی تقریر پر کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ میرے افسانوں کے بارے میں وہ اس قسم کی رائے پہلے بھی دیتے رہے تھے۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات اور پھر بمبئی بم دھماکوں کے دوران بمبئی میں عجیب نفسا نفسی کا عالم تھا۔ ادبی محفلیں موقوف ہوچکی تھیں۔ احباب کا آپس میں ملنا ملانا بھی کم ہوگیا تھا۔ البتہ فون پر ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرلیتے تھے۔ اس دوران میں نے فون پر دو ایک بار باقر صاحب اور خیری آپا کی خیریت دریافت کی تھی۔ بم دھماکے کو چار پانچ مہینے گزر چکے تھے۔ ممبئی کے حالات دھیرے دھیرے معمول پر آرہے تھے۔ ایک دن اچانک باقر صاحب کا فون آیا۔ ان کا شعری انتخاب ’’سیاہ ؍سیاہ‘‘ چھپ گیا تھا۔ مجھے دینا چاہتے تھے۔ ویسے بھی ان سے ملے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تھا۔ میں شام کو گھر پہنچ گیا۔ انتظار ہی کر رہے تھے۔ بہت اچھے موڈ میں تھے۔ بہت دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ پرانی باتیں یاد کر کے قہقہے لگا رہے تھے۔ بابری مسجد کے انہدام، فسادات اور اس کے بعد بم دھماکے کو لے کر بہت ڈسٹرب تھے۔ ’’سیاہ؍ سیاہ‘‘ کا ایک نسخہ دستخط کرکے دیا۔

    میں نے کہا۔۔۔ ’’میں اس پر تبصرہ کروں گا۔‘‘

    بولے۔۔۔ ’’بالکل نہیں۔۔۔‘‘

    میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا، ’’اگر آپ منع کرتے ہیں تو نہیں کروں گا۔‘‘

    شام ہونے لگی تھی۔ میں نے اجازت چاہی۔ کہنے لگے۔ ’’مجھے ڈاکٹر نے منع کیا ہے مگر تم دو ایک پیگ لے سکتے ہو‘‘ میں نے منع کرنا چاہا۔ مگر وہ نہیں مانے۔ بلکہ خیری آپا سے کہا،

    ’’خیری! سلام کھانا کھا کر جائیں گے۔‘‘

    میں نے ان کے ساتھ بیسیوں بار شراب پی ہے اور کھانا کھایا ہے۔ مگر اس روز ان کے اس شفقت آمیز رویے نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔

    اگرچہ یہ سچ ہے کہ وہ ایک ناہموار شخصیت کے مالک تھے۔ وہ کب کس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے، کوئی نہیں کہہ سکتا تھا۔ بہت معمولی سی بات سے خوش ہوجاتے تھے اور اس سے بھی زیادہ معمولی بات پر خفا ہوتے تھے۔ ان کی شخصیت اجتماع ضدین کا نادر نمونہ تھی۔ ایمرجنسی کے زمانے میں اپنے دیرینہ دوست قاضی سلیم کو اس لیے گھر سے نکال دیا تھا کہ وہ کانگریس کے حامی تھے۔ قاضی سلیم ان دنوں مہاراشٹر اسمبلی میں ایم ایل سی تھے۔ ممبئی میں جن تین چار لوگوں سے ان کے مراسم ٹھیک ٹھاک تھے، ان میں الیاس شوقی کا نام بھی شامل ہے۔ الیاس شوقی نے ان کی دو تین کتابیں بھی چھاپی ہیں۔ ایک دن باقر صاحب کو پتا چلا کہ الیاس شوقی کے آٹھ بچے ہیں تو بہت خفا ہوئے۔ ’’دادارے دادا! اتنے بچے۔‘‘ اور انھیں اپنے گھر آنے سے منع کردیا۔ (باقر صاحب لاولد تھے ایک غیر معتبر خبر یہ بھی تھی کہ باقر صاحب اور خیری آپا میں شروع ہی سے اولاد پیدا نہ کرنے کا خاموش معائدہ ہوگیا تھا۔ و اﷲ عالم۔۔۔)

    انور خاں ایک عرصے تک ان سے بے حد قریب رہے ہیں مگر ایک دن ان پر اس لیے خفا ہوگئے کہ انھوں نے ایران میں قائم ہونے والی اسلامی طرز حکومت کی تعریف کردی تھی۔ بولے ’’تم ایک بنیاد پرست حکومت کی تعریف کرتے ہو۔ تم میں اور تمہاری بہن میں بس یہی فرق ہے کہ وہ برقعہ پہنتی ہے اور تم برقعہ نہیں پہنتے۔‘‘

    انور خاں کو باقر صاحب سے ایسے سخت ریمارک کی توقع نہیں تھی۔ وہ ایک عرصے تک ان سے ملنے نہیں گئے۔

    یعقوب راہی ان کے قریب ترین لوگوں میں سے ہیں۔ ایک مدت سے باقر صاحب نے لوگوں سے ملنا جلنا ترک کردیا تھا۔ مگر یعقوب راہی ان سے برابر ملتے رہتے تھے۔ ایک بار کسی بات پر بحث کے دوران ان سے کہہ دیا۔ ’’تم ہر ہفتہ مجھ سے ملتے ہو۔ مگر تم مطالعہ نہیں کرتے۔ آئندہ کوئی نئی کتاب پڑھنے کے بعد ہی مجھ سے ملنا۔‘‘

    بادی النظر میں ان سارے واقعات سے بدسلوکی بلکہ سفا کی جھلکتی نظر آتی ہے مگر شاید پس پردہ نیّت ’اصلاح‘ کی بھی ہوسکتی ہے۔ چونکہ دو ٹوک گفتگو ان کے مزاج کا خاصہ تھا لہذا وہ پھوڑے پر مرہم رکھنے کی بجائے سیدھے نشتر لگاتے تھے۔

    مرحوم ظ انصاری نے ان کے بارے میں کیسی پتے کی بات کہی ہے،

    ’’جب بھی۔۔۔ قلم سے کوئی اچھی اور اوریجنل بات نکلتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ باقر کو دکھاؤں۔ کیوں کہ وہ سان ہیں جس پر چڑھائے بغیر چاقو کی دھار چلی جاتی ہے۔‘‘

    آج میں بھی اپنے افسانوں کے تعلق سے ان کی انتہاپسندی پر غور کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میرے افسانوں میں اگر خوبی کی کوئی بات پیدا ہوسکی ہے تو ممکن ہے اس کی وجہ یہی ہو کہ میرے افسانے ہمیشہ ان کی سان پر چڑھے رہتے تھے۔

    اگرچہ میں نے ان سے کبھی اصلاح نہیں لی مگر ان کی تنقید کا تازیانہ کھا کر میراا شہپ قلم شاید زیادہ چوکس ہوجاتا تھا اور لاشعوری طور پر میں خود احتسابی کے عمل سے دو چار ہوتا تھا۔

    ایک عرصے سے ان کی صحت خراب چل رہی تھی۔ کئی بیماریوں نے گھیر رکھا تھا۔ موت سے تین سال پہلے ان کی قوت گویائی چلی گئی۔ یہ بہت بڑا سانحہ تھا۔ سال بھر پہلے میں یعقوب راہی کے ساتھ ملنے گیا۔ تپاک سے ملے۔ مگر دیکھ کر دل پر چوٹ لگی۔ بہت کمزور ہوگئے تھے۔ بال اڑ چکے تھے۔ دانت ٹوٹ گئے تھے۔ گالوں کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ گردن کی نسیں تک دکھائی دے رہی تھیں۔ ایک گدلے بش شرٹ اور میلی تہمد میں سکڑ سمٹ کر مٹھی بھر رہ گئے تھے۔ بیماری نے انھیں دیمک کی طرح چاٹ لیا تھا۔ مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ صورت حال یہ تھی کہ بات نہیں کر سکتے تھے۔ صرف اشاروں میں بچوں کی طرح غوں غاں کی آواز نکال کر مافی الضمیر سمجھانے کی کوشش کرتے، نہیں سمجھا پاتے تو ٹوٹی پھوٹی تحریر میں پرزے پر لکھ دیتے۔ یہ خیال ہی کس قدر مضطرب کردینے والا تھا کہ وہ شخص جو کبھی اچھے اچھوں کی بولتی بند کر دیتا تھا، آج خود بولنے سے قاصر ہے۔ یادداشت اب بھی قابل رشک تھی۔ انھیں پرانی سے پرانی بات یاد تھی۔ انھوں نے غذا تقریباً ترک کردی تھی، چوں کہ دانت بالکل نہیں تھے اس لیے دونوں وقت ہوٹل سے ’اڈلی‘ منگا کر کھا لیتے تھے۔ کمزوری بڑھتی جا رہی تھی۔ دوا لینا ایک عرصہ ہوا بند کردیا تھا۔

    خیری آپا کی حالت اور بھی ناگفتہ بہ تھی۔ اگر اتفاق سے باہر کہیں نظر آ جاتیں تو پہچاننا مشکل ہوتا۔ گھر کی چھت کھمبوں پر ٹکی تھی اور چھت سے جالے لٹک رہے تھے۔ گھر کا سامان کباڑ کی طرح بکھرا پڑا تھا۔ الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں مگر ان پر دھول جمنے لگی تھی۔ اس کے بعد بھی دو ایک بار ان کی عیادت کے لیے جانے کا اتفاق ہوا۔ آخری ملاقات انتقال سے ایک مہینہ پہلے ہوئی تھی۔ اس قدر لاغر ہوگئے تھے کہ بیڈروم سے ڈراینگ روم میں سہارا دے کر لانا پڑا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا ہڈیوں پر صرف چمڑا مڑھا ہوا ہے۔ آخر چوبیس ستمبر 2006 کو صبح ساڑھے چھ بجے یعقوب راہی کا فون آیا کہ ’’باقر صاحب نہیں رہے۔‘‘ رحمت آباد (مجگاؤں) کے قبرستان میں ان کی مٹھی بھر ہڈیوں کو دفن کر دیا گیا۔ میت میں وہی گنتی کے چند احباب تھے جن سے ان کے تعلقات بنتے بگڑتے رہتے تھے۔

    انھوں نے ایک بار کہا تھا، ’’میری شاعری کو تجرباتی اور تنقید کو Reactionary کہہ کر بھلایا جاسکتا ہے۔ مگر میری شخصیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

    علامہ اقبال کی مشہور نظم جبریل و ابلیس میں ابلیس کہتا ہے،

    ’’میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح‘‘ باقر صاحب کو بھی ابلیس کی یہی صفت پسند تھی۔ اپنے بارے میں خود کہتے ہیں،

    بس میرا ذکر آتے ہی محفل اجڑ گئی

    شیطاں کے بعد دوسری شہرت ملی مجھے

    وہ ذہنوں میں خوشبو بن کر نہیں دلوں میں خلش بن کر زندہ رہنا چاہتے تھے اور وہ اپنے اس ارادے میں پوری طرح کامیاب رہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے