Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چشم و چراغ عالم اعظم گڑھ

حقانی القاسمی

چشم و چراغ عالم اعظم گڑھ

حقانی القاسمی

MORE BYحقانی القاسمی

    عظمتیں بھی ہجر ت کرتی رہتی ہیں ۔

    اس لئے اگر مغرب کا اندلس اجڑ گیا ، مشرق کا اعظم گڑھ آباد ہوگیا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ دلی نہ اجڑتی تو لکھنؤ آباد نہ ہوتا۔ڈ علوم و فنون، تہذیب و تمدن کو بھی نئے مکانوں ، نئے زمانوں ا ور نئے قدر دانوں کی تلاش رہتی ہے اور اسی تلاش کے نتیجے میں یہ اپنا مستقر بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی مغرب تو کبھی مشرق کبھی شمال کبھی جنوب ۔علوم و فنون کی محافظت نہ ہو تو مہاجرت مجبور ی بن جاتی ہے۔یہ ایک فطری عمل ہے۔ علوم و فنون کا ارتقائی سفر ٹھہر جائے تو کائنات ایک تاریک خلا میں تبدیل ہو جائے گی۔

    اعظم گڑھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا ہر قصبہ مانک مول ہے۔ اگر علم سونا ہے تو اعظم گڑھ یقینا سونا اگلنے والی زمین ہے جسے راجہ بکرما جیت سنگھ کے بیٹے راجہ اعظم خان نے 1665میں آباد کیاتھا۔ اسکی دلچسپ تفصیل حاجی شاہ افضال اللہ قادری نے اپنی کتاب’ تاریخ اعظم گڑھ‘ میں لکھی ہے:

    ’’شہنشاہ جہانگیر کے دور میں قصبہ مینہ نگر کے متصل موضع کھجوری کے معزز گوتم چھتری خاندان سے شری راجہ ابھیمن سنگھ نے آگرہ جا کر اسلام قبول کر لیا، دولت خاں اسلامی نام سے موسوم ہوئے اور اپنی خدادادقابلیت و صلاحیت سے کافی شہرت پائی، شہنشاہ جہانگیر نے راجہ ابھیمن سنگھ ( دولت خاں) کو سر کار جونپور و الہ آباد کا صوبہ دار مقرر کیا، تزک جہانگیری کی عبارت درج ذیل ہے:‘‘

    ’’دولت خاں فوجداری بہ صوبہ جونپور و صوبہ الہ آباد متعین یا فتہ بود، آمدہ ملازمت نمود منصب اوکہ ہزاری بود پانصد افزود شد۔‘‘

    دولت خاں کی حیثیت قبول اسلام کے قبل بھی نہایت شاندار پر شکوہ تھی، وہ دولت و ریاست کے لحاظ سے بھی ممتاز تھے، جونپور و الہ آباد کی گورنری کے بعد شہنشاہ جہانگیر نے ان کو اعظم گڑھ میں بائیس پر گنہ جات جاگیر میں دیے تھے، اب ان بائیس پرگنہ جات میں کچھ ضلع غازیپور ، بلیا اور فیض آباد کے ضلعوں میں شامل ہو گئے ہیں۔

    دولت خاں لا ولد فوت ہوئے، انھوں نے اپنی حیات ہی میں ساری ریاست اپنے بھتیجے راجہ ہر بنس سنگھ کو عطا کردی تھی، اعظم گڑھ کے شاہی پل( بڑا پل) سے پچھم ایس۔ ایس۔پی اعظم گڑھ کے بنگلہ سے دکھن جانب ان کی کوٹ یا چھائونی تھی، انہیں کے نام سے موضع ہر بنس پوروتپہ ہربنس پور آباد اور اب تک موجود مشہور ہے، راجہ ہر بنس سنگھ کے لڑکے راجہ بکر ما جیت سنگھ تھے، جنہوں نے اپنے حقیقی بھائی کو قتل کر دیا تھا، اس اقدام جرم کی پاداش میں اورنگ زیب کی فوج نے راجہ بکرما جیت سنگھ کو گرفتار کر کے دارالخلافہ دہلی پہنچایا، وہاں جا کر انھوں نے اسلام قبول کر لیا، بعد رہائی واپس ہوئے اور انھوں نے ایک مسلم خاتون سے شادی کر لی، ان کے بطن سے دو لڑکے پیدا ہوئے جن کا نام راجہ اعظم خاں، راجہ عظمت خاں تھا، اپنے قلعہ میں اقامت گزیں ہوئے، راجہ اعظم خاں نے 1665میں اس جگہ کا نام اپنے نام کی نسبت سے اعظم گڑھ رکھا اور بسایا، راجہ عظمت خاں نے اپنے نام کی نسبت سے موضع کو نڈر عظمت پور بسایا، دوسرا قصبہ عظمت گڑھ آباد کیا۔ (تاریخ اعظم گڑھ ص 35)

    عہد تیموریہ میں بسنے والا یہ وہ شہر ہے جس کے چھوٹے چھوٹے قصبات نے ایسے ایسے آفتاب و مہتاب کوجنم دیا ہے جنکی ضوفشانی پوری علمی کائنات میں ہے ۔مبدا فیاض کے الطاف و عنایات کی مظہر یہ وہ سر زمین ہے جس کی عظمتوں کے نقوش پوری علمی کائنات میں مر تسم ہیں ۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہاں کے چھوٹے چھوٹے قصبا ت سے آفاقی اور عالمگیر شہرت کی حامل شخصیتوں نے جنم لیا اور نظام افکار و اقدار پر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے۔

    چریا کوٹ ایک معمولی سا قصبہ رہا ہو گا۔ مگر وہاں سے قاضی عنایت رسول عباسی چریاکوٹی ، مولانا فاروق چریا کوٹی جیسی شخصیتوں کا تعلق ہے۔

    حضرت راجہ سید مبارک شاہ 965ھ)کے نام پر بسا ہوا مبارکپورچھوٹا قصبہ ہے جو پہلے قاسم آباد کہلاتا تھا۔ اس قدر زرخیز ہے کہ وہاں کی زمین سے مولانا عبدالرحمن مبارکپوری(صاحب تحفۃ الاحوذی) ، مولانا عبدالسلام مبارکپوری (تاریخ المنوال کے مصنف)، مولانا عبید اللہ مبارکپوری( مرعاۃ المفاتیح کے مصنف)، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری (سیرت پر سب سے اچھی تصنیف الرحیق المختوم کے مصنف)، اور قاضی اطہر مبارکپوری جیسے ذی علم آفاقی شہر ت یافتہ افراد نے جنم لیا، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جن کی عظمت کا اعتراف بلا لحاظ مسلک و ملت پوری علمی دنیا نہ کرتی ہو۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں ایسی بڑی بڑی شخصیتوں کی موجودگی اس کی عظمت پر مہرثبت کرنے کے لئے کافی ہے ۔[ اس قصبے پر رشک کرنے کے لئے قاضی اطہر مبارکپوری کی دیار پورب میں علم و علماء اور تذکرہ علماء مبارکپور کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔]

    بندول چھوٹا سا قصبہ ہے مگر اس نے ایک ایسی شخصیت کو جنم دیا جس کی فکر نے پور ے عالم اسلام میں انقلا ب بر پا کیا ہے ، وہ شخصیت شبلی نعمانی کی ہے جو اردو کے عناصر خمسہ میں سے ایک ہیں باقی چار سر سید ، ڈپٹی نذیر احمد ، مولانا حالی اور مولوی محمد حسین آزادہیں۔ دنیا انھیں مورخ ،سیرت نگار ، نقاد، اور مورخ کی حیثیت سے جانتی ہے۔جن کے بارے میں پروفیسر خورشید الاسلام نے لکھا تھا کہ شبلی پہلا یونانی ہے جس نے ہندوستا ن میں جنم لیا۔

    اسی طرح اعظم گڑھ کے اور بھی قصبات اور دیہات ہیں جہاں سے عظمتوں کو معتبر نام ملے ہیں۔ میجواں نے کیفی اعظمی جیسے ممتاز ترقی پسند اور معتبر شاعر کو جنم دیا تو پھریہا مفسر قرآن حمید الدین فراہی جیسی عظیم شخصیت کی زاد گاہ ہے۔یہیں کی تحصیل گھوسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سیتا کنڈ ہے ، زمانۂ بن باس میں رام چندرجی یہاں تشریف لائے تھے اور یہاںارجن و بھیم بھی آئے تھے۔(بحوالہ تاریخ اعظم گڑھ) اسی اعظم گڑھ میں سونر ہڑی بھی ہے جہاں سے آلہا اودل کا تعلق ہے جو بہار ،بنگال کے دیہاتوں میں بہت مشہور ہے۔ اعظم گڑھ کا ماہل بھی بہت معروف ہیں جو یہیں سے پروفیسر احتشام حسین جیسے نقاد اور شاہد ماہلی جیسے شاعر کا تعلق ۔ اسکے علاوہ اس کی شناخت وہ شخصیت بھی ہے جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں ان کانام حسن علی ماہلی ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے قائم کردہ فورٹ سینٹ جارج کالج مدراس میں شعبہ فارسی کے مدرس تھے۔ اور ان کے رفقا میں تراب علی نامی شمس الدین احمد ، محمد مہدی واصف اور مرزا عبدالباقی وفا جیسی شخصیتیں تھیں جن کے علمی کارنامے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ خاص طور پر محمد مہدی واصف 300کتابوں کے مصنف تھے جن کا سب سے بڑا کارنامہ انگریزی ، فارسی ہندوستانی لغت کی ترتیب اس کے علاوہ دلیل ساطع کے نام سے سنسکرت ہندی فارسی لغت تصنیف کی اور مناظراللغات کے نام سے فارسی اردو لغت مدون کیا۔ یہاں کی زمین کا ذرہ ذرہ آفتاب و مہتا ب ہے ۔ ہر طرف علم کی بہار ہے ۔اور اسی علم نے اس کے نصیب میں عظمت جاوداںلکھ دی ہے۔

    علوم وفنون کی مختلف شاخوں میں یہاں کے مکینوں نے بلند مقام حاصل کیا ہے۔ ہر شعبۂ حیات میں اسے سبقت حاصل ہے۔ مذہبیات ہو یا ادبیات ، نثر ہو یا شاعری، فکشن ہو یا تنقید، تاریخ ہو یا تہذیب ، اعظم گڑھ نے عظمتوں کی روشن عبارتیں تحریر کی ہیں۔ اقبال سہیل نے یہاں کے ہر ذرے کو نیر اعظم کہا تھا۔ اور غلط نہیں کہا تھا کہ یہاں ہر شخصیت کے دروں میں ایک آفتاب پنہاں ہے۔

    شاہ عبدالغنی پھولپوری خلیفۂ اجل مولانا اشر ف علی تھانوی، صاحب بہار شریعت مولانا شاہ امجد علی گھوسوی، مولانا ابواللیث ندوی( چاند پٹی) مولانا صدر الدین اصلاحی( سیدھا سلطان پور) ، مولانا امین احسن اصلاحی ( بمہور) ، مولانا عبدالسلام ندوی ( علائو الدین پٹی) ، سر شاہ سلیمان (مسلم یونیور سٹی علی گڑھ کے چھٹے وائس چانسلر ، ساکن ولید پور بھیرا، مولانا عبدالرحمن پرواز اصلاحی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، مولانا مجیب اللہ ندوی، بریگیڈ یئر عثمان ، پنڈت اجودھیا سنگھ ہر یودھ ،عالمی شہرت یافتہ سائنسداں پروفیسر شمیم جیراج پوری (مولانا اسلم جیراجپوری کے پوتے اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد کے پہلے وائس چانسلر) ان میں سے ہر شخصیت اپنی ذات میں انجمن ہے۔ انہیں جیسی شخصیات نے اعظم گڑھ کو چشم و چراغ عالم بنایا ہے۔ دارالمصنفین اعظم گڑھ ،جامعہ اشرفیہ مبارکپور، جامعۃ الفلاح بلریا گنج ، احیاء علوم مبارکپور اور مدرسۃ الاصلاح سرائے میر جیسے اداروں کی وجہ سے اسکی روشنی کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔

    راہل سانکرتاین

    اسی مٹی کے مہتاب راہل سانکرتیاین تھے جن کا وطن پنداہا اعظم گڑھ تھا۔جنہوں نے اپنے وطن ہی نہیں پوری دنیا میں اپنے دانش کے چراغ سے روشنی پھیلائی اور ایسے کارنامے انجام دیئے کہ دنیا نے انہیں ایک دانشور اور مفکر کی حیثیت سے تسلیم کیا۔ ادب ، سماج ا ور سیاست میں ایک ایسی لہر پیدا کی کہ دنیا عش عش کرنے لگی۔تقریبا وہ تیس زبانوں کے ماہر تھے۔مگر اردو زبان نے ان کی شخصیت کو ایک نئی جہت دی۔ اور ان کی متحرک شخصیت کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا ۔ اردو کے ہی ایک شعر نے ان کی دنیا بد ل دی۔ پر بھاکر ماچوے نے لکھا ہے کہ’’

    جب وہ اپنے آبائی گائوں کے مدرسے میں اردو سیکھ رہے تھے تو ’’ نوازندہ‘‘ کی ایک کہانی ’’ خود آرائی کا نتیجہ‘‘ میں ایک شعر ان کو بہت بھا گیا تھا اور وہ ان کے دل پر نقش ہو گیا تھا۔ اپنی خود نوشتہ سوانح میں انھوں نے اسے کئی بار دہرایا ہے:

    سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھرکہاں

    زندگانی گر کچھ رہی تو نوجوانی پھر کہاں

    او رشاید یہ اسی کا اثر تھا کہ ’’ ہمیشہ حرکت میں رہو‘‘ ایک جگہ مت رکو‘‘ ان کی زندگی کا اصول بن گیا۔ یہ شوق سفر و حرکت انھیںاندر ہی اندر اکساتا اور ترغیب دیتا رہا کہ گھر گرہستی کی آسودہ و مطمئن پھیکی زندگی سے دور رہیں چنانچہ وہ کبھی کہیں ایک مقام پر جم کر نہیں رہے، ہمیشہ حرکت میں رہے اور خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزار دی۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ ، ایک ملک سے دوسرے ملک ایک لسانی علاقے سے دوسرے لسانی علاقے ، انسانی تلاش کے ایک میدان سے دوسرے میدان میں پیہم چلا چل ۔ وہ کبھی کچھ جمع کر کے رکھنے کے قائل نہیں رہے ،تلاش علم ان کی کبھی نہ بجھنے والی پیاس تھی‘‘

    اردو کے اسی ایک شعر نے ان کے بحر کی موجوں میں اتنا اضطراب پیدا کیا کہ ان کے قدم کہیں ٹھہرے نہیں ،وہ جمنوتری گنگوتری تک پہنچے ،ہمالیہ کا درشن کیا، لداخ ، انورادھا پور، پولنا مرو ، کولمبو، لندن ، پیرس ، جرمنی، لاہسہ، چانگ، ساکیہ، ننام ، نیپال ، سنگاپور، ہانگ کانگ، شنگھائی، کوبے، ٹوکیو، کویاسان ، تہران ، اصفہان ، شیراز کے نہ صرف اسفار کئے بلکہ سفر نامے بھی لکھے ۔

    اسی سیاحت نے ان کی ذہنی رومیں تبدیلیا ں پیدا کیں اور نئے افکار سے ان کا ذہن آشنا ہوا۔ کھلی آنکھوں سے انھوں نے پوری دنیا کے تہذیبی ، لسانی اور فکری و علمی منظر نامے کو دیکھا جس سے ان کے قلب و نظر کو نئی وسعتیں ملیں ۔ اور عرفان وآگہی کا دائرہ وسیع ہوا ۔ سیاحتی تجربات نے ان کے افکار او ر اقدا رمیں تبدیلی بھی پیدا کی ۔ وہ ایسے اشخاص سے متاثر ہوئے جو سماجی مسلمات اور مذہبی مفروضات کے مخالف تھے۔ راہل، پنڈت رام اوتار شر ما سے بھی فکر ی طور پر متاثر ہوئے جو ویدوں کو نہیں مانتے تھے اور نہ ہی ان کا دیوی دیوتائوں پر یقین تھا۔ایک راسخ العقیدہ بر ہمن گھرانے میں پیدا ہونے والے راہل بھی انہی کی روش پر چل پڑے اور مختلف مذہبی نظریات اور عقائد کے تجربات کرتے ہوئے آخر میںمارکسسٹ ہو گئے۔ اور سوشلزم پر ان کا یقین پکا ہو گیا۔

    راہل سانکرتیاین عربی ، فارسی کے علاوہ تیس اور زبانیں بھی جانتے تھے۔ انھوں نے سب سے بڑا کارنامہ جو انجام دیا وہ یہ کہ سنسکرت میں تبتی زبان کا قاعدہ مرتب کیا۔ اور اس طرح عالمی سطح پر اپنی علمیت اور قابلیت کے جوہر دکھائے۔ پر بھاکر ماچوے نے لکھا ہے کہ :

    راہل نے سنسکرت میں تبتی زبان کا قاعدہ اور اس کی گرامر لکھ کر ایک بہت اہم کام انجام دیا کہ اس کی مدد سے دھرماکرتی ، سو باندھو اور دسنگا جیسے بدھسٹ منطق دانوں کے کارناموں کی ازسر نوترتیب و تد وین ہو سکی اور ان کو محفوظ رکھا جا سکا۔ شیر بالٹسکی بدھسٹ منطق کے عالم و ماہر روسی مصنف اپنی لینن یونی ور سٹی کی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ’’ خود ان کے علاوہ دنیا میں صرف ایک ہی شخص اور ہے جو اس موضوع پر مہارت رکھتا ہے اور وہ راہل سنکر تیاین تھے۔ ایک بدھسٹ اسکالر کی حیثیت سے سوویت روس نے ان کو لینن گراڈیونی ور سٹی میں پڑھانے کی دعوت دی اور اپنے آخری ایام زندگی میں انھوں نے سری لنکا و دیا لنکا ر یونیورسٹی میں بھی بدھ ازم اور فلاسفی پر لکچر ر دیے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان کی کسی یونیورسٹی نے دعوت دینا تو در کنار ، ان کو پڑھانے کی اجازت بھی نہیں دی اس لئے کہ ان کے پاس کوئی باقاعدہ ڈگری نہیں تھی، یہ ہماری تنگ نظر اکیڈمک بیورو کریسی کا کتنا بڑا المیہ ہے۔‘‘

    تنگ نظر اکیڈمیک بیورو کویسی نے کتنے جوہر قابل کو تباہ و برباد کیا، یہ الگ داستان ہے۔ یہاں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود دانش اپنے اعتراف کی راہ خود تلاش کر لیتی ہے جس کی نمایاں مثال راہل سنسکر تائین تھے۔

    ’گنگا سے اولگا‘ تک لکھنے والے راہل سچے انسان دوست تھے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔ سفرنامہ، تاریخ، فلسفہ ، لسانیات ، عمرانیات، سیاسیات، ان کی دلچسپی کے موضوعات تھے او ر ان موضوعا ت پر کتابیں بھی ہیں ۔ وہ ایک روشن ضمیر دانشور او ر مورخ تھے جنہوں نے اپنے پورے عہد کی سماجی ، سیاسی اور علمی تاریخ مرتب کر د ی ہے۔مدھیہ ایشیا کا اتہاس، رگ ویدک آریہ ، اکبر، بھارت کے انگریز ی راج کے سنستھاپک، رامائن اور مارکسواد، ان کی وہ کتابیں ہیں جن سے ہمارے عہد کو روشنی مل سکتی ہے۔

    انھوں نے اعظم گڑھ کی برا کتھا بھی لکھی ہے اور بدھا چاریہ ، دھما پد، ما جھما نکایا، درگا نکایا، اسلام دھرم کی روپ ریکھا جیسی کتابیں بھی لکھیں اور خاکے لکھے تو ڈاکٹر کے ایم اشرف، محمد شاہد، سید جمال الدین بخاری، مبارک ساگر، ڈاکٹر زیڈ اے احمد، محمود الظفر ، اور فضل الٰہی قربان کو فراموش نہیں کیا۔ کیدار ناتھ پانڈے پوری دنیاکا سفر کرتے کرتے راہل سانکرتیاین بن گئے۔ اسفار نے انھیںآفاقی وژن بھی عطا کیا اور عالمی بصیرت سے بہرہ ور کیا مگر ان کا اصرار مقامیت اور علاقائیت پر رہا۔یہ بہت نقطے کی بات ہے خاص طور پر آج کے تنقیدی ڈسکورس کے تعلق سے راہل کی یہ روش ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔ شاید پیراڈائم شفٹ کی راہ بھی دکھا رہی ہے۔ پر بھاکر ماچوے نے لکھا ہے:

    ’’ وہ ایسے آرٹ اور ادب کے سخت مخالف تھے جو صرف سنگ مر مر کے اونچے میناروں میں بند رہے اور صرف معززین اور شرفا کے لئے لکھا جائے۔ ایک موقعہ پر شاعری میں مقامی اور علاقائی رنگ پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے راہل لکھتے ہیں:

    ’’ ہندی ادب میں تنوع کی کمی ہے اس لئے ایسا لگتا ہے جیسے ہندی ادیب خواہ ان کا تعلق بہار کے میدانوں سے ہو یا پہاڑی علاقوں سے مار واڑ کے ریگستانوں سے ہو یا جبل پور کے وندھیا چل کے جنگلوں سے ، سب نے جیسے آپس میں سازش کر رکھی ہے کہ کوئی کبھی اپنی شاعری میں کسی مقامی منظر کو داخل نہیں ہو نے دیگا۔‘‘

    جس مٹی نے ایسے سپوت کوجنم دیاہوبھلا وہ مٹی کیوں نہ ناز کرے۔اعظم گڑھ کے ناز کرنے کو حوالوں کی کمی نہیں ہے۔

    کیفی اعظمی

    اعظم گڑھ کا ایک روشن حوالہ کیفی اعظمی بھی تھے جنہوں نے زندگی بھر انسانیت کے درد کو اپنے سینے میں محسوس کیا اور اس درد کی ترسیل کی۔ وہ ترقی پسند تحریک کے آخری سپہ سالار تھے۔ ان کی آنکھوں میں جو خواب تھے بہت مقدس تھے۔ وہ سچ مچ ایک عظیم انسان تھے اور اس انسانی تحریک سے جڑے ہوئے تھے جس نے بحر ظلمات میں اپنی روشنی فکر کے گھوڑے دوڑائے اور انسانی شعور اور احساس کو ایک ایسا وژن دیا جس میں انسانیت کی فلاح و بہبود مضمر تھی۔

    کیفی اعظمی نے اس ہندوستان میں 1929میں جنم لیا جو غلام تھا، جوانگریزوں کی قید میں تھا اور پھر اپنے انقلابی نغموں سے تحریک آزادی کی جد و جہد میں حصہ لیا۔ ملک آزاد ہوا تو ان کی آنکھوں میں ایک ہی سپنا تھا ، سوشلسٹ ہندوستان کا سپنا۔ یہ سپنا تو پورا نہیں ہوا مگر انھوں نے اس ہندوستان کو ضرور دیکھا جس نے ان کے پورے وجود کو دکھوں میں تحلیل کر دیا اور جب ملک کا سماجی، سیاسی جغرافیہ بدلا اور فرقہ واریت، فسطائیت ،مذہبی تشدد پسندی کی لہر پھیلنے لگی، ہندوستان جلنے لگا، ہر طرف خون کی ندیاں بہنے لگیں، بے گناہ مارے جانے لگے اور انسانیت کا قتل عام ہونے لگا تو کیفی اعظمی کے قلب سوزاں میں تیز انی سی لگی اور انھوںنے محسوس کیا کہ اب یہ ان کے خوابوں کا ہندوستان نہیں رہا۔ جس ہندوستان کی آزادی کے لئے انھوں نے آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ وہ ہندوستان تو عالمی نقشے سے غائب ہے۔ وہ کوئی اور ہندوستان ہے جو رام اور کرشن، نانک اور چشتی کی دھرتی میں مدغم ہو گیا ہے اور ہندستان کی مشترکہ تہذیب کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، جن آنکھوں نے یہاں بھگت سنگھ، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، پنڈت جواہر لال نہرو اور نہ جانے کیسے کیسے انقلابیوں کو دیکھا تھا۔ انہیں آنکھوں نے جب چھ دسمبر کو بابری مسجد کے انہدام کا منظر دیکھا تو ان کا پورا تخلیقی ذہنی وجود، اس سانحہ سے لرزہ بر اندام ہو گیا۔ انھوں نے رام جی کے ہندوستان کو مرتے اور نئے ہندوستان کو جنم لیتے ہوئے دیکھا تو وہ پکار اٹھے:

    رام بن باس سے لوٹ کے جب گھر میں آئے

    یاد جنگل بہت آیا جو نگر میں آئے

    رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہو گا

    چھ دسمبر کو سری رام نے سو چا ہو گا

    اتنے دیوانے میرے گھر میں کیسے آئے

    پائوں سر جو میں ابھی رام نے دھوئے بھی نہ تھے

    کہ نظرآئے وہاںخون کے گہرے دھبے

    پائوں دھوئے بنا سر جو کنارے سے اٹھے

    راجدھانی کی فضا آئی نہ راس مجھے

    چھ دسمبر کو ملا دوسرا بن باس مجھے

    امام الہندرام کے ہندوستان کی موت ، دراصل ہندوستان کی آتما کی موت تھی

    اور جس دھرتی کی آتما مر جاتی ہے اس دھرتی میں زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ۔ کیفی اعظمی کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ وہ ملک جسے اس کے سپوتوں نے اپنے خون سے سینچا اور سنواراتھا۔ اب وہی خونی ملک بن گیا ہے۔ وہ ہر طرف لہو کا منظر دیکھتے تھے او ر ان کی حساس آنکھیں لہو رونے لگتی تھیں۔ چاہے وہ لہو کسی بھی سطح پر بہتا ہو، ان کے لئے بہت ہی دردناک تھا۔ وہ مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کے آدمی تھے۔ ان کے دل میں انسانی محبتیں تھیں۔ اس لئے جہاں کہیں بھی منافرت کے منظر دیکھتے وہ اداس ہو جاتے اور کیفی اعظمی کے ذہن و احساس کی تختی پر یہ اشعار یوں ابھرتے:

    عزا میں بہتے تھے آنسو یہاں لہو تو نہیں

    یہ کوئی اور جگہ ہو گی لکھنؤ تو نہیں

    یہاں تو چلتی ہیں چھریاں زبان سے پہلے

    یہ میر انیس کی آتش کی گفتگو تو نہیں

    ٹپک رہا ہے جو زخموں سے دونوں فرقوں کے

    بغور دیکھو یہ اسلام کا لہو تو نہیں

    کیفی اعظمی کی شاعری میں انسانی درد مندی کے چراغ روشن ہیں اور یہ دردمندی فیضان ہے اس نظریئے سے وابستگی کا جس نے انسانی مساوات، معاشی برابری کا علم لہرایا۔ کیفی اعظمی مولوی بننے کے بجائے اس لئے مارکسی بن گئے کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے جبر و ستم کے مناظر دیکھے تھے، جا گیر داروں کے مظالم دیکھے تھے، سرمایہ داروںکی ستم رانی دیکھی تھی ۔ اس وقت ان کے لئے مارکسی نظریہ حیات ہی واحد ذریعہ نجات نظر آیا۔ اس لئے انھوں نے زندگی بھر اس تحریک کی ترجمانی کی جس نے مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کیلئے لڑائیاں لڑیں اور ان کی آنکھوں کو وہ سپنے دیئے جس سے وہ بہتر اور با عزت زندگی جی سکیں۔ کیفی اعظمی کی شاعری میں ان محنت کشوں کا درد بھی موجزن ہے۔ یہ ان کی انسانیت پسندی کا ایک روشن ثبوت ہے۔ سقوط ماسکو کے بعد جہاں بہت سے مارکسی اس درد سے دور ہو گئے وہیں کیفی اعظمی نے اپنے نظریئے پر استقامت کا ثبوت دیا۔ سیاسی زوال کو جن لوگوں نے نظریاتی موت سے تعبیر کیا، وہ آج اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ مارکسی ازم کا تصور ایسا تھا جو کبھی مرنے والا نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میںزندہ رہے گا اور کیفی اعظمی نے اس ایقان اور ایمان کے ساتھ آخر تک اس نظریئے کے ساتھ وفاداری نبھائی اور جب آخری وقت آیا تو ان کے بدن سے لپٹا ہوا سرخ پرچم بھی تھا۔ کیفی اعظمی کی شاعری منافرت کے سینوں کو چیر کر اس میں محبتوں کے بیچ بونے والی شاعری ہے۔ ان کی شاعری ہمیشہ زندہ رہنے والی شاعری ہے۔ کیونکہ اس شاعری میں مقد س خواب ہیں اور خواب ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

    کیفی اعظمی کا تعلق اس انقلابی قافلے سے رہا ہے، جس کی آنکھوں میں نئے انسان کے خواب ، نئے عہد کی بشارتیں تھیں۔ یہ شاید وہی قافلہ تھا جس نے یوسف بے کارواں کو’’ غیابتہ الجب ‘‘ سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ ’ہیومنزم‘ کیفی اعظمی کا شعر ی شناس نامہ ہے۔ اس تمام انسانی سلسلے سے ان

    کا ذہنی و فکری رشتہ جڑ اہے جس کا مبدا حضرت آدم ہیں تو منتہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور اہل بیت ہیں۔

    ایک دو بھی نہیں چھیس دیئے

    ایک ایک کر کے جلائے میں نے

    ایک دیا نام کا ایک جہتی کے

    روشنی اس کی جہاں تک پہنچی

    قوم کو لڑتے جھگڑتے دیکھا

    ماں کے آنچل میں ہیں جتنے پیوند

    سب کو ایک ساتھ ادھیڑ تے دیکھا

    دور سے بیوی نے جھلا کر کہا

    تیل مہنگا بھی ہے، ملتا بھی نہیں

    کیوں دیئے اتنے جلا رکھے ہیں

    اپنے گھر میں نہ جھروکہ نہ منڈیر

    طاق سپنوں کے سجارکھے ہیں

    آیا غصہ کا ایک ایسا جھونکا

    بجھ گئے سارئے دیئے

    ہاں مگر ایک دیا نام ہے جس کا امید

    جھلملاتا ہی چلا جاتاہے

    ان کے یہاں یہی رجائیت روشن تھی، انہیں احساس تھا کہ ہر رات کے نصیب میں سحر ہے اور یہ کہ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔

    معین احسن جذبی

    مبارک پور کے معین احسن جذبی( 21اگست 1912، 13فروری 2005) ایسے شاعر ہیں جن کے شعروں کی گونج ایوان اقتدار میں سنائی دیتی ہے۔ ان کے یہ چند شعر تو زبا ن زد خلائق ہیں اور ضرب الامثال کی حیثیت رکھتے ہیں:

    جب کشتی ثابت و سالم تھی ، ساحل کی تمنا کس کو تھی

    اب ایسی شکستہ کشتی کو ساحل کی تمنا کون کرے

    اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے

    کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں

    مرنے کی دعائیں کیوں مانگو ںجینے کی تمنا کون کرے

    یہ دنیا ہو یا وہ دنیا ، اب خواہش دنیا کون کرے

    فروزاں ، سخن مختصر اور کداز شب ان کے شعر ی مجموعے ہیں ۔ حالی کا سیاسی شعور ان کا تحقیقی مقالہ ہے ۔وہ آجکل نئی دہلی کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ اور مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں ریڈر بھی ۔ پہلے ملال تخلص تھا بعد میں جذبی ہوئے ۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے، بعد میں بیزار بھی ہوئے اور یہ ایک فطری رد عمل ہے۔

    کسی بھی نظر یاتی نظام سے وابستگی یا بر گشتگی عصری دنیا میں اب کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کیونکہ نظریے سے بر ہمی، بیزاری یا دل بستگی پیوستگی میں اپنی ذاتی پسند اور نا پسند بھی شامل ہوتی ہے اور ماحول فضا کابھی کچھ دخل ہوتا ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ محض کوئی بھی فکر یاتی نظام کسی بھی تخلیقی فن پارے کو دوام عطا نہیں کر سکتا۔ یا کوئی بھی نظریاتی نظام کسی تخلیقی فن پارے کے عروج یا تنزل، ارتقائ، و انحطاط کافیصلہ نہیں کر سکتا کہ جتنی بھی نظریاتی تحریکیں اور رجحانات ہیں، سب پر خود نزع کی کیفیت طاری ہے۔ نظریے، مرتے اور جنم لیتے رہتے ہیں مگر سچی تخلیق ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ کسی بھی تخلیق کی حرکیت ہی اسے حیات عطا کرتی ہے۔ معین احسن جذبی کا کسی نظریاتی تحریک سے انسلاک و اتصال ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ آج کی دنیا میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں رہا۔ اصل بات ان کے تخلیقی نظام، اس کے درو بست اور اس کے توازن اور تناسب کی ہے۔ جذبی اس لحاظ سے ایک اہم شاعر ہیں کہ ان کا فن یا آرٹ کسی نظریے کی بیساکھی کے سہارے بلند نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ان کی تخلیق کی بلند قامتی میں ان کے سوز دروں ، آتش نہانی اور خون جگر کا حصہ ہے۔ ان کا تخلیقی رنگ وا ٓہنگ الگ سے ہی پہچانا جاتاہے۔ انھوںنے زندگی کے رنگا رنگ تجربات اور بو قلموں مشاہدات کو اپنے احساس و اظہار کا پیر ہن عطا کیا ہے۔ صر ف یاس آگیں تخیل یا حزنیہ لے کسی شاعر کو ابدیت کی معراج نہیں عطا کرسکتی۔ اس لئے معین احسن جذبی کی شاعری میں صرف انہی چیزوں کے حوالے تلاش کرنا ایک کار بے مصرف ہی کہلائے گا۔ جذبی کی شعری انفرادیت کی تلاش کے لئے زیادہ پیچ و تاب کھانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ان کے شعری مجموعے ان کی انفرادیت کا اظہار نامہ ہیں۔

    ہر بڑا تخلیق کار نظریاتی، مکانی و زمانی محدودات و تعینات سے ماورا ہوتا ہے۔ جذبی بھی ایسے ہی شاعر ہیں جنہیں کسی خاص زمانی مکانی، نظریاتی حصار میں قید نہیں کیا جا سکتا کہ تخلیق اسیر ی نہیں، آزادی کا نام ہے۔ ترقی پسند آواں گا رد غزلیہ شاعری کے افق پر جذبی ایک مہ کامل اور ماہتاب درخشاں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جذبی نے جذبہ ، احساس ، اظہار ، تخیل، بیان کی سطح پر اپنی انفرادیت اور علیحدہ شناخت بر قرار رکھی ہے۔ وہ ہجوم بیکراں کا حصہ نہیں بنے ہیں۔ لیکن المیہ اور وقت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی اعلیٰ معیاری شاعری کے باوجود انہیں Underrattedکیا گیا۔ اور ان سے کم تر درجے کے شاعروں کو عظمتوں کے فلک الافلاک پر بٹھا دیا گیا۔ جب کہ ان کی شاعری میں ابدیت کی قوت موجود ہے اور ان کا شعری سر مایہ اجتماعی حوالے کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ ان کی شاعری ہمیشہ قدر و قیمت کی نقاہ سے دیکھی جائے گی اور ان کا تخلیقی استمرار بھی بر قرار رہے گا۔ ان کی شاعری کا حسن و انبساط کبھی کم نہیں ہو سکتا:

    یہ پھول وہ ہیں کہ شاید کبھی نہ مر جھائیں

    جذبی نے بالکل صحیح کہا ہے۔ ان کا نغمہ وقتی فغاں نہیںَ بلکہ ابدی نغمہ ہے جو ساز حیات پر ہمیشہ تھرکتار ہے گا۔ ان کی شاعری کے چمن میں جو پھول ہیں اس کی خوشبو ہمیشہ مشام جاں کو معطر کرتی رہے گی۔

    رحمت الٰہی برق اعظمی

    اعظم گڑھ کے ممتاز سخن وروں میں ان کا بھی شمار ہے ۔ انہوں نے مختلف اصناف سخن وطبع آزمائی کی۔ان کی شاعری پڑھتے ہوئے ممتاز ناقد محمد حسن عسکری کی وہ بات ذہن میں گونجنے لگتی ہے جو انہوں نے فراق گورکھپوری کے تعلق سے کہی تھی۔ کہ فراق کی شاعری کی خوبی یہ ہے کہ بھر پور سانس کی شاعری ہے ان کی شاعری کی سانسیں چھوٹی اور بڑی نہیں ہیں۔ اور عسکری صاحب نے بھی شاعری کے سانس کے اثرات کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سانس کا نظام درست نہ ہوتو شاعری اچھی نہیں ہو سکتی۔ برق اعظمی کی شاعری کی بھی وہ خوبی ہے کہ اس میں سانس یا سارس کی پروبلم نہیں ہے ۔انھوں نے تضمینیں بھی لکھی ہیں اور تاریخی قطعات بھی لکھے ہیں اور دونوں مشکل معرکیں ہیں وہ یقینی طورپر ان یک لسانی شاعروں سے مختلف ہیں جو چند بحور و اوزان تک ہی موقوف و محدود ہیں۔ مگر برق اعظمی کا دائرہ سخن صحرا کی طرح وسیع اور بسیط ہے ۔ ان کی تخلیقی شعلگی اور شعری آتش فشانی کا اندازہ مختلف اسالیب اور اصناف میں لکھی گئی شاعری سے ہوتا ہے۔ انھوں نے لکھنو اور دہلی دونوں دبستانوں سے استفادہ کیا ہے ۔ تنویر سخن ان کا مجموعہ کلام ہے جس میں انھوں نے عالم خواب و خیال میں عارف رومی اقبال اور غالب سے گفتگو کی ہے۔ حضرت عبدالرحمن جامی ، خواجہ عثمان ہارونی ، حضرت امیر خسرو، نصیر الدین چراغ دہلوی، اور فخر الدین عراقی،کی غزلوں پر جو تضمین انھوں نے لکھی ہیں وہ بہت کامیا ب ہیں اور اس بات کی دلیل برق اعظمی کا مطالعہ مختلف ادبیات کو محیط ہے۔ خواجہ عثمان ہارونی کی غزل پر ان کی تضمین کچھ یوں ہے۔

    میر سینہ رہے کب تک امین راز ہمرازاں

    سہی جاتی نہیں اب تو سخن چینیٔ غمازاں

    خبر لے اب طبیب حالت نا ساز نا سازاں

    بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جانبازاں

    بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم

    برق اعظمی ( 1911-1983) کے کلام میں جو سادگی ، شیرینی، سوز اور ساز ہے وہ انہیں زندہ رکھیں گے۔ شاعر مشک بار ہو ، مثل گل اور گلاب ہوتو اس کی خوشبو دور دور تک پھیلتی ہے۔

    اعجاز اعظمی

    نئے نکات اور جزیروں کی جستجو اعظم گڑھ کی سر شت میں شامل ہے۔ نئی رہگذر اور نئے امکان کی تلاش ہی انفرادیت کے نقوش مرتسم کرتی ہے۔ یا انبوہ میں اختصاص عطا کرتی ہے۔سخن کے بیچ اعجاز اعظمی کا معاملہ بھی یہی ہے کہ انھوںنے خود کو مروجہ لفظوں یا شبدوں کے حصار میں قید نہیں رکھا اورنہ ہی اپنی فکر کو کسی ازم سے زنجیر کیا ۔ وہ آزادہ روی کے ساتھ لفظ و خیال کے سلسلے جوڑتے گئے اور اس طر ح محسوسات کی ایک نئی دنیا خلق ہوتی گئی۔اور لسانی سطح پر تجربوں سے شاعری بھی ایک نئی لذت سے ہمکنار ہوئی۔ دوسری زبان کے لفظوں کے وصال سے نظم نکھر نکھر سی گئی اور قاری ایک نئے منطقے سے محظوظ بھی ہوا ۔ ایسی بہت سی نظمیں ہیںجن میں اعجاز اعظمی نے اپنی لسانی ہنر مندی سے نئی کیفیت پیدا کر دی ہے :

    راسا سائنگ (۱) کی دھن پر

    اک انّا ڈارا(۲) ڈانس کرے

    جیسے گائوں کی گوری چھپ کر

    پیتم سے رومانس کرے

    جنگل میں منگل کامنظر

    نو آبا د علاقوں میں

    نئی نئی سڑکوں پر ابھرے

    نئے نئے شاپنگ سنٹر

    نیو اکنامک پالیسی میں

    جنتا کا وشواس بڑھا

    نئی نئی آشائیں جا گیں

    نئی دشا کا باب کھلا

    روزی روٹی کے رستے کی

    سب بادھائیں دور ہوئیں

    قد م قدم دور ہوئیں

    قد م قدم منزل کی خوشبو

    سب کے من کو بھائے

    جو جاگے سو پائے بھائی

    جو سوئے پچھتائے

    یہی دعا ہے شاعر کی

    ان دو لفظوں کے دیپ جلیں

    دو شہروں کی بھٹکی روحیں

    پھر آپس میں گلے ملیں

    مدھر ملن کے لاگیں میلے

    اعظم گڑھ سے پورٹ ڈکسن تک

    من بھاون یادوں کے ریلے

    اعظم گڑھ سے پورٹ ڈکسن تک

    اعجاز اعظمی نے راسا سائنگ (ملائی لفظ جو احساس محبت کے معنی میں ہے) اورانّا ڈارا(بمعنی کنواری) جیسے نا مانوس لفظ سے قرب و انسیت کی کتنی اچھی فضا پیدا کی ہے۔ اس طرح کے لسانی تجربوں سے زبان کی وسعتوں میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ ہمارے احساسات اور جذبا ت کو بھی نئی تعبیر ملتی ہے۔ اعجاز اعظمی کے یہاں اجنبیت سے مانوسیت کا ماحول خلق کرنے کا شعری رویہ بہت سی نظموں میںملتا ہے۔ کنی پوٹا دنگ گا اور موت کا کھیل ایسی ہی نظمیں ہیں جن میںنامانوس لفظوں کے باوجود تر سیلیت کسی بھی سطح پر مجروح نہیں ہوئی ہے:

    کرو نینوں سے بات

    رکھو تن پر نہ ہاتھ

    کہے مدراسی نار

    کنی پوٹا دنگ گا

    (کنی پوٹا دنگ گا)

    میرے احساسات کے ٹینکر پر

    ہائیلی انفلیم ایبل (ا) کی تختی آویزاں ہے

    پھر بھی تم ادھر

    جلتے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑے

    پھینک رہے ہو

    کہیںیہ مذاق موت کا کھیل نہ بن جائے

    کہیں تمہیں بھی اپنے دامن کو

    بچانے کاموقع نہ مل پائے

    تو پھر کیا ہوگا

    لفظیات کی سطح پر تولید اور تجدد کا یہ عمل تو انہیں منفرد قرار دیتا ہی ہے موضوعات کی سطح پر بھی ان کے یہاں مشاہداتی اور تجرباتی تنوع ہے انھیں بھیڑ سے الگ کرنے کے لئے کافی ہے۔دوسرے ملک کے آسمانوں میں اپنی زمین کے شبد سورج اور فکر ستاروں کی تلاش بھی انھیں ایک نئی شناخت اور نقطۂ اتصال سے آشنا کرتی ہے۔ اور یہی شناخت کی وحدت انہیں اس تقسیم سے بچاتی ہے جو اکثر ذہنوں میں کلچر اور تہذیب کے تعلق سے بہت سے واہموں میں مبتلا کرتی ہے۔ اعجاز اعظمی نے شناخت کی اس مصنوعیت کومسترد کر کے اجنبی نقطوں میں قربت اور مماثلت تلاش کر لی ہے:

    اپنے کمراواں کے کھیتوں کی مہک

    ارضِ ڈکسن کے ہر اک دانے میں ہے

    اعجاز اعظمی کی نظموں سے ان کے حساس تخلیق وجود کا پیکر ابھرتا ہے۔ایک ایسا وجود جس کے دل میں سارے جہاں کے در د کی آگ سلگ رہی ہے۔ اور وہ دل اپنے کینوس پر اپنے عصر کے واردات واقعات ، اور سانحات کو نقش کر رہا ہے۔شاعر کی بیدار نگہی اسے عالمی گائوں سے جوڑ دیتی ہے۔اعجاز کی نظموں میں عصر ی واردات کی ایسی بہت سی تصویریں نمایاں ہیں جن میں ان کا ذہنی کرب بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ایک نظم کا یہ انقلابی اور احتجاجی لہجہ دیکھئے :

    یہ لبنان میں آج کیا ہو رہاہے

    جدھر دیکھئے صرف بم گر رہا ہے

    میں جل رہے ہیں مکاں جل رہے ہیں

    سیاست زدہ جسم و جاں جل رہے ہیں

    یہ مظلومیت کے نشاں جل رہے ہیں

    ہے فینٹم لڑاکو جہازوں کے ذریعہ

    کئی دن سے عربی محلوں پر یورش

    جو عربوں کے پٹرول سے چل رہے ہیں

    یہا ں شرقِ اوسط میں صد ہا برس سے

    یہ بازی گراں سامراجی درندے

    سدا کشت و خوں میں ملوث رہے ہیں

    وہی سامر اجی درندے جواب بھی

    صیہونیت کے لبادے پہن کر

    فلسطینیوں کو ذبح کر رہے ہیں

    نئے شرق اوسط کی تاریک راتوں

    کے بوجھل افق سے

    نہا یا ہوا خون میں سرخ سورج

    ابھرنے لگا ہے

    ابھر کر رہے گا

    شہیدوں کا خوں

    رنگ لا کر رہے گا

    عالمی سامراجی سیاست کی سفاکی کے ساتھ ساتھ انہیں سماجی اقدار کی زبونی اور زوال کا بھی احساس ہے۔ جس کی شکلیں سیکس فار سیل اور تہذیب ڈالر جیسی نظموں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

    کہیں چھلکتی ہے میکدوں میں

    کہیں سر عام ڈھل رہی ہے

    نئی گپھائوں میں……

    حرم سرائوں……

    نگار خانوں میں چشم و لب سے

    کشید ہو کر پگھل رہی ہے

    دبی دبی خواہشوں کے کوندے

    لپک رہے ہیں دل جواں میں

    حصول نان جویں کی چاہت

    رباب دل میں شرر فشاں ہے

    مہکتے گلزار جسم و جاں میں

    گداز و شیریں

    جوان و نغمہ نواز گوشے

    حدیث آدم سنا رہے ہیں

    ازل سے اب تک

    خدا کے بندے

    خد ا کی اس پاک سر زمیں پر

    گناہ آدم اگا رہے ہیں

    (سیکس فار سیل)

    یہ ڈالر کیا ہے؟

    میرا حال و مستقبل

    اسی ڈالر کی نسبت سے

    مری پہچان ہوتی ہے

    یہ نمبر دو کے دھندے کی کرامت ہے

    تقاضا ہے یہی تہذیب نو کا

    سابقہ قدر یں بدل ڈالو

    زمانہ جب بدلتا ہے

    تو قدریں بھی بدلتی ہیں

    سمجھ کر وقت کے تیور

    نئی تہذیب میں ڈھل جا

    اسی میں سر خروئی ہے

    یہی معیار ہستی ہے

    یہی تہذیب ڈالر ہے

    اعجاز اعظمی نے گویا کہ نظم اور غزل دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ مگر ان کے نظمیہ اظہار میں نئی دشائیں ملتی ہیں۔ جبکہ غزلیہ شاعری کلاسیکیت کی سمت میں سفر کرتی نظر آتی ہے۔ غز ل میں بھی انھوں نے کہیں کہیں ذولسانی تجرے کئے ہیں۔ جو ان کی لسانی مہارت کا ثبوت ہیں جیسے غزل کایہ شعر:

    کرتے ہو ڈس گریس مجھے کیوں گلی گلی

    دس ایٹی چیوڈ از ان فرینڈلی

    ان کی کئی غزلیں داخلی احساسات اور تجربات کی عکاسی کرتی ہیں۔غزل کے یہ چند شعر ان کے باطنی ارتعاشات کی خوبصورت ترجمانی

    کرتے ہیں۔

    برہ کی آگ میں میرا کنوارا پن سلگتا ہے

    کہ تجھ بن اے ساجن میرا جیون سلگتا ہے

    تمہار ی جب مدھر یادیں مجھے آکر ستاتی ہیں

    میر ی انگڑائیوں کی آنچ سے درپن سلگتا ہے

    اعجاز کی شاعری میں طنز کی نشتریت اور مزاح بھی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کو نئے تجربوں سے سجایا اور سنوارا ہے۔ ان کا مجموعہ کلام’’ اعجاز سخن‘‘ ان کی تخلیقی ہنر مندی کا مکمل اظہاریہ ہے۔ان کے لفظیاتی اور فکریاتی نظام پر گفتگو طوالت چاہتی ہے المختصر یہ کہ اعجاز اعظمی ہمارے عہد کے ان شاعروں میں ہیں جنہیں سنجیدگی سے پڑھا جائے تو سخن کے بہت سے نکتے اور تخلیقی فکر و اسلوب کے جوہر تابدار سامنے آئیں گے۔

    عزم سہر یاوی

    اعظم گڑھ کی زمین شہر سخن کا ایک کا اہم نام ابوالفیض عزم سہریاوی کا بھی ہے جن کے اشعار ندرت فکر اور جدت اظہار کی گواہی دیتے ہیں اور جنہوں نے خود کو مخصوص موضوعات میں مرتکز نہیں کیا ہے۔ان کے طائر خیال کی پرواز بھی بلند ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے سخن کو آسماں کیا ہے اور شبد ستاروں سے ایک خوبصورت کہکشاں سجائی ہے۔

    ان کی فکر کا ئنات سے رشتہ جوڑتے ہوئے ذہن پر بہت سی حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں بالخصوص وہ حقائق جو ذہن رسا سے ہی معرض وجود میں آتے ہیں۔ عزم سہریاوی نے حیات اور کائنات کے اسرار کو اظہار کا پیکر عطا کیاہے۔ ان کے یہاں زندگی اپنی مختلف شکلوں میں رونما ہوتی ہے۔ان کے چند اشعار سے ان کے فکری کینوس کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

    کبھی مندر میں پروہت،کبھی گرودوارے میں سنت

    ہم نے دیکھا ہے اسے روزاک ہر مٹ کی طرح

    اس پہ اے عزم بھروسہ بھی کریں تو کیسے

    رنگ ہر روز بدلتا ہے جو گرگٹ کی طرح

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    دیے جلائو ذرا روشنی تو ہونے دو

    کبھی یہ ختم غم زندگی تو ہونے دو

    اب ایک ساتھ ہی مل جل کے بیٹھ لیں ہم تم

    اس انجمن میں ذرا دل لگی تو ہونے دو

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    یہ بستی ہے نئے لوگوں کی شاید

    یہاں پہچانتا کوئی نہیں ہے

    مری باتوں کے قائل تو سبھی ہیں

    مگر اب مانتا کوئی نہیں ہے

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    وہ سنپولے ہیں زہر میں ڈوبے

    موقع ملتے ہی کاٹ لیتے ہیں

    ہم میں ایسے بھی لوگ ہیں کتنے

    غم جو اوروں کے بانٹ لیتے ہیں

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    یہ معاشرے کے وہ مشاہدے ہیں جو شاعری میںڈھل گئے ہیں۔ایسے ہی مشاہدوں سے تخلیق میں تنوع پیدا ہوتا ہے اور تازگی آتی ہے۔عزم کے یہاں موضوعی سطح پر ایسا ہی تنوع نظر آتا ہے۔ان کی شاعری میں طنز کی زیریں لہر ملتی ہے۔خاص طور پر عصری واردات اور وقوعات کے حوالے سے ان کے یہاں ایسے اشعار ملتے ہیں۔ان اشعار میں ان کے طنز کے نشتر کو ہر حساس دل محسوس کر سکتا ہے۔

    دین و ملت خاک سب نام و نسب

    فہم سے کچھ کام لے اے بے ادب

    ہے کسی شئے کو ثبات دائمی؟

    کام لے گا عقل سے تو اور کب

    ہو گئے اطفال نو سارے کے سارے بے ادب

    مسئلہ علم و ادب کا ملت بیضا ہے اب

    دین و مذہب کچھ نہیں نام و نسب سے فائدہ

    منفعل ہے آسمان دل زمیں ہے مضطرب

    عزم سہریاوی نے لسانی سطح پر بھی کچھ الگ تجربے کئے ہیں جو دوہے کی شکل میں سامنے آئے ہیں،یہ دوہے ان کی فکری جزالت اور لسانی لطافت کا خوبصورت نمونہ ہیں۔

    ہے مورکھ نادان تو سوکھے پیڑ سمان

    پات،پشپ جس پر نہیں پھل سے بھی اگیان

    پشپ بھانت ادھروں پر سائیں سجی رہے مسکان

    مانو شریسٹھ یہی ہے جس کا جیون دیپ سمان

    جدید معاشرے کی نفسیات اور تہذیبی تبدیلی سے آگاہ عزم سہریاوی معاشرے کے انتشار اور انارکی سے متفکر ہیں اسی لئے وہ معاشرے میں صالح قدروں کی بات کرتے ہیں اور ہر اس نظر اور نظریے کو مسترد کرتے ہیں جس سے معاشرے کی ساخت مجروح ہوتی ہے۔فسادات،نفرتیں ،دوریاں جس سے معاشرتی اکائی متاثر ہوتی ہے ان کے خلاف ،ان کی شاعری شمشیر برہنہ ہو جاتی ہے۔چند اشعار سے ان کی فکر مندی کے آثار نمایاں ہیں۔

    کوبہ کو سارے نگر میں مفلسی کا راج ہے

    روز و شب کیسے غریبوں کے بسر ہوتے رہے

    تھے سبھی مرعوب دہشت گردوں کے شہر میں

    ہر طرف ظلم و تشدد سر بہ سر ہوتے رہے

    رقص میں تھیں اپسرائیں لوگ تھے نوحہ کناں

    حاکم جابر کے سب زیر اثر ہوتے رہے

    قصر میں اغیار کے تھا رقص کا عالم ہنوز

    اور سارے شہر میں دنگے ادھر ہوتے رہے

    عزم سہریاوی کہنہ مشق شاعر ہیں اور ان کی شعری حسیت کی تشکیل میں اس مردم خیز خطے کا عمل دخل ہے جہاں سے جانے کتنے آفتاب و مہتاب نے جنم لیا،علامہ شبلی،علامہ فراہی اور علامہ اقبال سہیل کی سر زمیں اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے عزم سہریاوی کا یہ دوسرا مجموعہ ہے۔ اس سے قبل’ سحاب رحمت ‘کے نام سے حمد و نعت کا مجموعہ مقبول ہو چکا ہے۔’طلوع سحر‘ان کی غزلیات کا مجموعہ ہے،جس میں وہ اپنے غزلیہ آہنگ میں مختلف اور معتبر انداز میں سامنے آتے ہیں۔انہوں نے اپنے مجموعے کے حوالے سے جو کہا ہے اس میں شاید کچھ لوگوں کو تعلی نظر آئے،مگر ان کی شاعری کی سطریں ان کی صداقت کا ثبوت پیش ہیں۔وہ اشعار یہ ہیں:

    ملیں گے اور بھی مجموعۂ سخن لیکن

    کوئی بھی ان میں ’طلوع سحر‘ نہیں ہوگا

    تمام لفظ و معانی ہیں جس کے لعل و گہر

    کہ لفظ لفظ کوئی بے اثر نہیں ہوگا

    فکری اعتبار سے یہ اردو شاعری کی نئی سحر ہے کہ ہماری شاعری بہت دنوں تک رات کی قید میں رہی ہے۔

    اعظم گڑھ کی سر زمین میں ادبی تنقید کو بھی کئی معتبر نام دیے ہیں۔ جن کے بغیر اردو تنقید کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ شبلی تو تنقید کا ایک بڑا نام ہے ہی بعد میں خلیل الرحمن اعظمی، پروفیسر احتشام حسین جیسی شخصیتوں نے تنقیدی افق کو تابانی عطا کی اور اپنی تنقیدی نظریات سے اردو کے سرمایہ نقد میں گراں بہا اضافے کئے۔ پروفیسر خلیل الرحمن اعظمی کی کتاب اردو میں ترقی پسند تحریک ایک حوالہ جاتی حیثیت رکھتی ہے ۔ تومارکسی نقاد احتشام حسین کی کئی تنقیدی کتابیں ہیں جن میں وہ اپنے تنقیدی تشخص کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ تنقیدی جائزے ، روایت اور بغاوت ، ادب اور سماج، تنقید اور عملی تنقید ، ذوق ادب اور شعور، اردو دب کی تنقیدی تاریخ، یہ وہ کتابیں ہیں جن سے احتشام حسین کی سماجی تنقیدکے زاویے روشن ہوتے ہیں اور ان کی انفرادیت بھی واضح ہوتی ہے۔ انھوں نے ایک بہت اچھی بات لکھی ہے کہ قدیم ادب ہمارے لئے صرف ایک مقدس ترکے کی حیثیت سے قابل احترام نہیں ہے بلکہ اس میں فطرت اورسماج کی رجعت پسند طاقتوں پر قابو پانے کی جس جد وجہد کا مظاہر ہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ہوتا ہے اس سے انسانی شعور کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔

    منظر اعظمی بھی تنقید کا ایک بڑانام ہے۔ جن کی کتاب اردو ادب کے ارتقاء میں تحریکوںا و رجحانوں کا حصہ عصری دانش گاہوں میں ماخذ اور مرجع کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر افغان اللہ خان(خالص پور) بھی اردو کے اہم ناقد ہیں۔ کورکھپور یونیور سٹی کے صدر شعبہ اردو سے انھوں نے فراق کی شاعری پر بہت وقیع کام کیا ہے۔طراز ظہیری ( غدر کے چشم دیدہ حالات) بھی ایک اہم کارنامہ ہے۔

    اعظم گڑھ کی کچھ ایسی شخصیتیں بھی ہیںجنہوں نے دوسرے ملکوں کی زمین سخن کو آسماں کیا۔ ایسی شخصیتوں میں سبط حسن ، فہیم اعظمی، نجم الحسن رضوی، اور فضا اعظمی کے نام نمایاں ہیں۔

    سبط حسن

    سبط حسن 31جولائی 1916، 20اپریل 1986 ، اعظم گڑھ کے موضع انباری میں پیدا ہوئے تھے۔ جنہوں نے صحافت کی دنیا میں ایک الگ شناخت قائم کی اور ترقی پسند تحریک کے اہم ستون کی حیثیت سے انھوں نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ نا قابل فراموش ہیں ۔ مختلف اخبارات اور رسائل سے ان کی وابستگی رہی ۔ بمبئی کرانیکل ، نیشنل ہیرالڈ، نیا پرچم، نیا ادب، پائنیر لکھنؤ، پیوسلس وار، قومی جنگ سے وابستہ رہے۔ امروز اور پاکستان ٹائمز کے کالم نگار کی حیثیت سے عوامی سطح پر مقبول ہوئے ہیں۔ سبط حسن لیل و نہا کے ایدیٹر بھی رہے۔ وہ مکمل طور پر ترقی پسند انہ نظریات کے حامل تھے۔ ان کی کتابوں میں موسی سے مارکس تک بہت مشہور ہوئی۔ اسکے علاوہ ماضی کے مزار کو بے پناہ مقبولیت ملی۔ ان کے علاوہ شہر نگار اںپاکستان میں تہذیب کا ارتقائ،انقلاب ایران ، افکار تازہ، ادب اور روشن خیالی ، سخن در سخن ،ان کی اہم کتابیںہیں۔ سبط حسن کی حیثیت ایک دانشور صحافی کی حیثیت سے مسلم ہے۔ ان کی کتابوں سے جو روشنی کی کرنیں پھوٹی ہیں وہ تاریک زدہ معاشرے کوروشن کرنے کی قوت رکھتی ہیں۔

    فضا اعظمی

    فضا اعظمی ہندوستا ن سے ہجرت کر گئے مگر ان کا دل اعظم گڑھ کی فضائوں میں اٹکا رہا ، جسمانی ہجرت ذہنی ہجرت میں تبدیل نہ ہو سکی۔ اپنے وطن سے محبت کا احساس قائم رہا۔ انھوںنے تخلیقی سطح پر جو امتیازات نقش کئے ہیں۔ اسکا اعتراف سبھی کرتے ہیں۔ جو دل پہ گذری ہے، کرسی نامہ پاکستان ، مرثیہ مرگ ضمیر، تیری شباہت کے دائرے میں، آواز شکستگی ، خاک میں صورتیں، مثنوی زوا ل آدم، شاعر محبوب اور فلسفی، مثنوی عذاب و ثواب ان کی اہم تخلیقات ہیں۔ خاک میں صورتیں ان کی ایک طویل نظم ہے جو عورتوں پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ایک احتجاجیہ ہے۔ پروفیسر انور سدید نے لکھا ہے کہ ایسی پر اثر طغیانی نظم اردو ادب میں پہلے نہیں لکھی گئی ہے اور اب منظر عام پر آ گئی ہے تو حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ خود اس کی تلاوت کریں اور اسکولوں ، کالجوں میں اسکی باقاعدہ تدریس کا انتظام بھی کریں۔( بحوالہ شازیہ ناہید عامر، فضا اعظمی کی طویل نظم، خاک میں صورتیں، مشمولہ، عالم رنگ ادب کراچی،17-18)

    مگر ان سب میں سب سے زیادہ مشہور اور مقبول ان کی کتاب عذاب ہمسائیگی ہے۔ جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب برصغیر کے ماضی کے میٹا مورفوسس(Metamorphosis) کا تخلیقی اکتشاف ہے۔اس برصغیر کا، جو دوحصوں میں بٹ چکا ہے اور اپنے تہذیبی، تاریخی،فکری محور سے انحراف اور انقطاع کے عمل میں جنون کی حد تک منہمک ہے۔

    یہ مثنوی ایک ایسے تخلیق کار کے ذہنی اضطراب کا اظہار ہے جس نے استبعادی طریق کا ر(Paradoxical Technique)سے پوری صورتِ حال واضح کردی ہے۔یہ انتشار اور افتراق کے تعلق سے لکھی گئی یہ ایک ایسی مثنوی ہے جس میں برصغیر کے ڈائلماکو فنکارانہ ہنرمندی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

    فضااعظمی کا تعلق گوکہ پاکستان کی سرزمین سے ہے مگر ان کی اساس ہندوستان ہے۔ یہاں کی تاریخی،تہذیبی،ثقافتی روایت سے وہ نہ صرف آگا ہ ہیںبلکہ یہاں کی اساطیریت اور تاریخیت کے بھی رمزشناس ہیں۔انھیں ہندوستان کی وِشال سبھیتا،سنسکرتی اور تہذیبی وحدت واشتراک کا بھی پورا گیان ہے۔ انھوں نے اس ملک کے شناس نامے کو اس کے مکمل تہذیبی، تاریخی سیاق وسباق میں پیش کرتے ہوئے معاصر احوال اور سلسلہ واقعات کی تصویر دورنگوں سے بنائی ہے۔ منفی اور مثبت— ان دونوں رنگوں سے انھوں نے برصغیر کے موجودہ سماجی، سیاسی منظرنامے کو منقش کیاہے۔

    عذاب ہمسائیگی، ایک تخلیقی انتفاضہ بھی ہے کہ تخلیق کار نے جنگ اور مذہبی جنون کے انہدام اور امن کے استحکام کے لیے آواز بلند کی ہے۔ یہ پوئٹری برصغیر کےPharisaic Politicsکے خلاف ایک نہایت شدید حسّیاتی تخلیقی ردِّ عمل ہے۔ فضا اعظمی نے ماضی کو نقطۂ حوالہ بناکر برصغیر کی سچویشن کا اظہار کیاہے۔یہ ایک طرح سے Juxapositional Poetryہے جس میں Poetic Personaنے مختلف Tonesکا استعمال کیاہے اور جذبات کے اعتبار سے لفظیات اور لہجے کا انتخاب کیاہے:

    کرو تم یاد اس دن کوکہ جب اس کے نتیجے میں/جنونِ مذہبی کی ایک ایسی آگ بھڑکی تھی/کہ جس سے فرقہ وارانہ فسادوں کا/وہ خونیں سلسلہ جاری ہوا جس نے/ہزاروں مائوں بیٹوں کو،ہزاروں بھائی بہنوں کو/ہزاروں بے گنہ، معصوم لوگوں کو/تہِ شمشیرِ ظلم وبربریت قتل کرڈالا/مکانوں کو جلاڈالا/کہ جس نے مسجدوں، گرجاگھروں کو گردواروں کے تقدّس کو مٹاڈالا/انھیں مسمار کرڈالا/اور اس بھٹّی کے شعلوں نے جلا کر خاک کرڈالا/تمھارے دعویٔ جمہوریت کو/تمھارے دعویٔ سیکولرحکومت کو/تمھارے دعویٔ منشورِ اعلی کو/ اور دستور میں محفوظ بنیادی حقوقِ آدمیّت کو /تمھاری فکر کی، وحدت کو اورقومی تصوّر کو

    یہ شاعری ایک سوال نامہ بھی ہے جو اس انسانی عدالت میں پیش کیاگیاہے جس کی بنیاد پنج شیل، بقائے باہم اور جمہوریت پر رکھی گئی ہے اور جہاں کا معاشرہ کثیرالعناصر ہے۔ فضا اعظمی نے اس مثنوی کے ذریعے تضادات کے امتزاج کا تصور پیش کیاہے۔ اور اجتماع ضدین کو سالمیت اور کائنات کے استحکام اور مستقبل کی بقا کے لیے ضروری قرار دیاہے۔ فضا اعظمی کی یہ مثنوی ہندوہیومنزم کی ہسٹری سے نکات پیش کرتے ہوئے ہیومنزم اوررواداری سے انحراف کے منطقی انجام کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔ جو بابری مسجد کے انہدام یا گجرات کے فسادات کی شکل میں سامنے آیا۔ انھوں نے روشن حوالوں سے آج کے عہد کی تاریکی اورچیرہ دستی کو اپنی مثنوی کا موضوع بنایاہے۔

    ’عذاب ہمسائیگی‘ ہندوستان اور پاکستان کے رشتوں کے حوالے سے امن کی پہل بھی ہے اور دونوں متحارب اور متصادم ملکوں کومفاہمت کی دعوت دینے کی کوشش بھی:

    چلوآئو، بڑھائو ہاتھ تم اپنا/ہمارا ہاتھ حاضر ہے/بڑھو اک قدم،ہم دوقدم بڑھنے کو حاضر ہیں/نظر ہم سے ملائو، ہم گلے ملنے کو حاضر ہیں

    فضا اعظمی نے گوکہ اس مثنوی میں ہندوستان کو ہدف بنایاہے اور تہذیبی،تاریخی سیاق و سباق سے انحراف پر نکتہ چینی کی ہے مگر پاکستان کی پالیسیوں پر بھی نکتہ چینی کی ہے:

    ہمیں اقرار ہے، ہم میں بھی کچھ ایسے عناصر ہیں

    جنونِ برتری جن کی رگ وپے میں سرایت ہے

    جنونِ مذہبی اعصاب پر جن کے مسلّط ہے

    مگر ہم نے کبھی اپنی زمامِ سلطنت سونپی نہیں ان کو

    کبھی ہم نے انھیں حاوی نہیں ہونے دیا خود پر

    کبھی بھی انتخابی مرحلوں سے وہ نہیں اُبھرے

    کبھی بھی فوقیّت ان کو نہیں حاصل ہوئی ایوان و مجلس میں

    فضا اعظمی نے کسی ایک خاص ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک امن پسند انسان ہونے کی حیثیت سے اپنا مدعا دونوں ملکوں کے اربابِ سیاست اور اہلِ دانش وبینش کے درمیان رکھاہے۔یہ ایک انسانی اظہار (Human Utterence)ہے۔ یہ اُس ہیومن کلچر کی وکالت ہے جو کائنات کو مربوط اور منظم رکھتاہے۔یہ دو ملکوں کے غیرمصالحانہ اور جارحانہ رویّے کے خلاف ایک انسانی ضمیر کی آواز ہے۔

    ’عذابِ ہمسائیگی‘ فضا اعظمی کے جذباتی تموج اور فکری طغیان کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس میں امن کا ایک خواب نامہ ہے ۔اس مثنوی کا نام انھوں نے عذاب ہمسائیگی رکھاہے۔ خوابِ ہمسائیگی ہوتا تواس کی معنویت مختلف ہوتی کہ ہمسائیگی کے خواب، دکھ، درد، آنسو مشترک ہوتے ہیں۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ ہمارے خواب ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں، اب صرف عذاب ہی مشترک ہے۔

    فضا اعظمی نے اس کشمکش کو مثنوی کا مرکزی کردار بنایاہے جو دو ملکوں کے درمیان جاری ہے۔ یہ Conflictہی ان کی شاعری کا بنیادی او رمرکزی نقطہ ہے اور اسی کنفلکٹ کی وجہ سے برصغیر میں سیاسی بحران اور کرائسس ہے۔اعظمی صاحب نے برصغیر کو اسی بحران سے نجات دلانے کی تخلیقی سطح پر کوشش کی ہے۔ اب یہ اہلِ سیاست پر منحصر ہے کہ وہ ایک تخلیق کار کے ردعمل کو کس طور پر محسوس کرتے ہیںاور اس سے ان کے باطن میں ارتعاش پیدا ہوتا بھی ہے یا نہیں۔ دراصل اسی ارتعاش اور Vibrationکی کمی کی وجہ سے انسانی ذہنوں میں جنگ جاری رہتی ہے۔

    ہندوستان اور پاکستان کے مابین ایک تصوراتی جنگ ہے۔ حقیقی جنگ کا خاتمہ ہوبھی جائے توتصوراتی جنگ کا خاتمہ مشکل ہے۔ دونوں ملکوں کے امن پسندوں کو چاہیے کہ حقیقی جنگ کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے ذہنوں کے مابین جاری جنگ کے خاتمے پر زور دیں۔ اور میرا خیال ہے کہ فضا اعظمی نے اس مثنوی کے ذریعے اسی نظریاتی اور تصوراتی جنگ کے خاتمے اورامن کے قیام پر زور دیاہے۔

    فضا اعظمی کی یہ مثنوی اتنہا پسندانہ مذہبی جنون اور سیاسی جارحیت کے خلاف ایک غیرمصالحانہ شاعری (Intransigeant Poetry) ہے۔ امن کے لیے یہ غیرمفاہمانہ رویہ، اپنے اندر ایک مثبت پہلو رکھتاہے کہ جارحیت پسندوں کے خلاف غیرمصالحانہ اور قدرے جارحانہ رویہ اختیار کرنا بھی ایک طرح سے جہاد ہے۔ اسے ہی شاید اعلاء کلمۂ حق عند سلطان جائر کہا جاتاہے۔

    فضا اعظمی کی یہ مثنوی تمام تر شعری لوازمات (Poetic Paraphernalia) سے مزین ہے۔ اس میں رجزیہ آہنگ بھی ہے اور عنتری مرحبی لہجہ بھی۔ دیکھا جائے توصحیح معنوں میںفضا اعظمی کی مثنوی عذابِ ہمسائیگی بانگ ِدرا بھی ہے اور ضربِ کلیم بھی:

    تمہارا دل بھی گھائل ہے، ہمارا دل بھی زخمی ہے

    یہ ہم پر ہے اسے مرہم کریں یا پھر لہوکرلیں

    سرتسلیم بھی ہے، پنجہ رزم ودغا بھی ہے

    جو چاہو سر کو خم کرلیں جو چاہو دوبدو کرلیں

    ٭٭٭

    فہیم اعظمی

    فہیم اعظمی میں پاکستان کی مجلاتی صحافت میں نہ صرف اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں بلکہ صریر نامی رسالے کے ذریعہ ادب کے نئے مباحث کا آغاز کیا اور ادبی جمود کو توڑا۔ نئے تجربے کئے ۔ فکشن میں بھی ان کا تجربہ جنم کنڈلی جیسے ناول کی شکل میں سامنے آیا جسے ا ینٹی ناول قرار دیا گیا ۔ کیونکہ اس میں علامتی تجربے کئے گئے اور ناول کی عمومی روش کے خلاف ایک نیا ٹکنیکی تجربہ کیا گیا۔ فہیم اعظمی ایک ناقد کی حیثیت سے شناخت رکھتے ہیں۔ ان کا مولد چما نوا ںاعظم گڑھ ہے اور مدفن کراچی۔ نجم الحسن رضوی

    نجم الحسن رضوی انگریزی کے صحافی ہیںخلیج ٹائمز سے وابستہ مگر اردو فکشن میں بھی ان کا نام اعتبار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ چشم تماشا ، ہاتھ بیچنے والے ان کے مشہور افسانوی مجموعے ہیں۔انھوں نے فکشن کو عصری مسائل اور حالات سے جوڑ کر فکشن کی معنویت کو اور مستحکم کیاہے۔ ان کے افسانوی اسلوب اور مواد کے حوالے سے ناقدین کی رائے بہت اچھی ہے۔

    عصری صحافت میں بھی اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے افرا د کی کثرت ہے جنہوں صحافت کو نئے نشانات دیے اور اس کے مجموعی اسلوب اور انداز کو بھی تبدیل کیا ہے۔ایسے صحافیوں میں محفوظ الرحمن ، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان (ملی گزٹ انگریزی) کے نام نمایاں ہیں ۔

    محفوظ الرحمن

    ان کا شمار ان صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو صحافت کو وژن(Vision)اور وزن عطا کیا، جنہوں نے آخری سانس تک قلم کی آبرو او ر آن کو قائم رکھااو راپنی تحریروں سے اس معاشرے کو بیدار کیا جو برسو ں سے ’آدھی نیند‘ میں تھا ۔وہ ایک ایسی شخصیت تھے جن کا باطن بیدار تھا اور جنہوں نے ہمیشہ صحافتی اخلاقیات Codes and Canons of Journalism کا پاس رکھا ۔ان کی قناعت پسندی ،ایثار ، خلوص او رمہر ووفا کو دیکھتے ہوئے ایسا محسو س ہوتا ہے کہ جیسے وہ ہمارے عہد میں صحافت کے خیالی کردارہوں جو داستانوں، ناولوں اور افسانوں میں تو مل جاتے ہیں مگر حقیقی زندگی میں چراغ رخ زیبا لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پاتے۔ مادیت ،صارفیت اور بازاری معیشت کے اس دور میں مادی آسائش کی چھائوں کے بجائے قناعت کی کڑی دھوپ میں جو شخص کھڑا نظر آئے، وہ آدمی نہیں، فرشتہ ہو گا اور یقینا محفوظ الرحمن میں وہ ساری خوبیاں تھیں جو انہیں سب سے مختلف اور ممتاز بناتی ہیں۔ جلال الدین اسلم نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ ’’آج جب کہ شعبہ زندگی کو تاجرانہ سوچ نے پوری طرح مسخر کر رکھا ہے اور زرد صحافت لوگوں کی رگوں میں خون کی طرح رواں دواں ہے ،ایسے میں مشنری صحافت کا لرزہ براندام ہونا یقینا تعجب وحیرت کی بات نہیں ۔ایسے طوفان بلا خیز حالات میں بھی آبروئے صحافت محفوظ الرحمن نے جنھیں مرحوم کہتے اور لکھتے کلیجہ منہ کو آتا ہے کبھی بھی اور کسی حال میں بھی پیشہ صحافت کی حرمت وتقدس پر آنچ نہیںآنے دی اور نہ ہی کسی بڑی شخصیت کے سامنے اپنے قلم کو سرنگوں ہونے دیا ۔‘‘

    محفوظ الرحمن کی تحریروں سے ہمارے معاشرے میں ایک نیا تحرک اور ارتعاش پیدا ہوا اور ان کی معروضی اور غیر متعصبانہ طرز فکر سے ایک بڑا حلقہ متاثر ہوا۔ ان کی سیاسی تحریروں میں دانش و آگہی کی موجیں رواں تھیں۔جب کہ آج کے صحافی مطالعات اور تمرین ہائے بیانی کے باب میں نہات کوتاہ دست واقع ہو ئے ہیں ۔ معصو م مرادآبادی نے شاید اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

    ’’محفوظ الرحمن صاحب نے ایک ایسے وقت میں آنکھیں موندی ہیں جب وسیع تجربہ ،زبان دانی ،تحریر کے حسن اور تسلسل کے علاوہ مقصد سے وابستگی رکھنے والے صحافیوں کا اردو میں زبردست قحط پیدا ہوگیا ہے ۔آج اردو صحافت ذہن ،ضمیر اور زبان کے پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے اور ان موذی امراض کا علاج ڈھونڈنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔‘‘

    محفوظ الرحمن اردو صحافت کے قطب مینار تھے جو مسلم مجلس کے ترجمان روزنامہ ’قائد، لکھنؤ‘ اور جماعت اسلامی ہند کے اخبار ’دعوت، دہلی‘ کے چیف ایڈیٹر رہے، ہفت روزہ ’جمعہ‘ اور ’بادبانِ جدید‘ کے مدیر رہے، جن کی کئی کتابیں منظرعام پر آئیں، جن میں ’سرخ یلغار‘، ’کسان کا بیٹا سب کا دوست‘، ’معاہدہ عمرانی‘، ’بھٹو دوست یا دشمن‘ اور ’جدید سیاسی اصلاحات‘ اہم ہیں۔ انھوں نے پولینڈ کے سفارت خانہ میں بھی کام کیا اور سوویت انفارمیشن سینٹر کے اردو جریدہ ’سوویت جائزہ‘ سے وابستگی رہی اور مختلف اخبارات میں وہ کالم لکھتے رہے۔ روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ میں ہفتہ وار کالم لکھتے تھے جو نہایت مقبول تھا اور ان کی سیاسی بصیرت اور شعور کا جیتا جاگتا ثبوت بھی۔اعظم گڑھ کے موضع نوناری سے ان کا تعلق تھا۔ 4 جنوری 1938 کو ان کی پیدائش ہوئی اور 6 فروری 2010 کو دہلی میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی وفات سے اردو صحافت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا جس کا اعتراف پوری صحافتی برادری کو ہے۔

    محفوظ الرحمن کی بیشتر تحریریں ایسی ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے ذہن کے بند دریچے کھل جاتے ہیں اور سماجی اور سیاسی شعور کو بھی روشنی ملتی ہے۔ ایسی منتخب تحریروں میں ’یہ رونا دھونا، یہ سینہ کوبی کب تک‘، ’دریوزہ گری کے سوا اور راستے بھی ہیں‘، ’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں‘، ’یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں‘، ’مطالبات اور اپیلوں کا زنگ خوردہ آہنی حصار‘، ’سیاسی تنظیم ہی واحد راستہ ہے‘، ’مسلمانوں کی سیاسی جماعت: امکانات اور اندیشے‘، ’ضرورت نئے سیاسی تجربے کی‘، ’سول سروسز کے نتائج پر سینہ کوبی کب تک‘، ’دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ‘، ’یہ کالکھ چھوٹنے والی نہیں ہے‘، ’جوش کے بجائے ہوش سے کام لیجئے‘، ’گودھرا کے اسیران پوٹاکو انصاف کب ملے گا؟‘، ’خواتین کے لیے زریزرویشن تو مسلمانوں کے لیے کیوں نہیں؟‘، ’رنگ ناتھ مشرا کمیشن کا اچوک نسخہ‘، ’مذہب کی آزادی پر چور دروازے سے حملہ‘، ’دوسری شادی کے لیے اسلام کا سہارا‘، ’ذات پات، اسلام اور مسلم سماج‘، ’سارے دہشت گرد مسلمان نہیں ہیں‘، ’بول کہ سچ اب تک زندہ ہے‘، ’اپنے گریبان میں بھی جھانکئے‘، ’مسکراتی، گنگناتی صبح آپ کی منتظرہے‘، ’اب مسجدوں کے مینار بھی چبھنے لگے‘ اور آخری تحریر‘امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کی منفی شبیہ‘ جو ’راشٹریہ سہارا‘ 5فروری 2010 کے شمارے میں ان کی وفات سے صرف ایک دن قبل شائع ہوئی، اہم ہیں، یہ تمام مضامین ان کی ذہنی معروضیت کی شہادت دیتے ہیں۔

    مرحوم محفوظ الرحمن کا صحافتی اسلوب نہایت عمدہ تھا۔ اس تعلق سے محمد عارف اقبال مدیر اردو بک ریویو، نئی دہلی نے بہت اچھی بات لکھی ہے کہ ’’ان کی تحریروں میں عامیانہ صحافتی رنگ ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی ہر تحریر میں فکر و دانش کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ وہ لفظ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے۔ لہٰذا بعد کی تحریروں میں ان کی زبان ذرا سہل ہوگئی تھی کیونکہ نئی نسل کی دشواریوں کو وہ بخوبی محسوس کرتے تھے۔‘‘ ایک اقتباس سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے ’’تحفظات ذہنی کے تیرۂ و تار اندھیروں میں سچائی کے چمکتے دمکتے موتی تلاش کرنے والے حوصلہ مند لوگوں کو اکثر و بیشتر اغیار سے کہیں زیادہ اپنوں کے سنگ ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بنی بنائی لیک سے ہٹ کر چلنے، بنے بنائے پیمانوں سے الگ ہٹ کر نئے پیمانے تراشنے یا تلاش کرنے کی سزا انھیں بیشتر حالات میں ان کے پاؤں کے نیچے کی سخت زمین کھینچ کردی جاتی ہے۔ انھیں بے دست و پا بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے تاکہ انھیں دیکھ کر دوسرے عبرت حاصل کریں۔ لیکن سچائی ہے کہ اپنے آپ کو منوا کر ہی رہتی ہے۔ کل بھی یہی ہورہا ہے اور کل بھی یہی کچھ ہوگا۔ نہ سچ کو پابند زنجیر کیا جاسکے گا، نہ سچائی کی راہ میں کوئی ایسی دیوار کھڑی کی جاسکے گی جو ناقابل عبور ہو۔‘‘

    محفوظ الرحمن ایک بلند اور باکردار صحافی تھے۔ آج جب کہ ہر شعبۂ حیات میں بونوں کو بلندی عطا کرنے کی روش اور رسم چل پڑی ہے، تو ایسے میں محفوظ الرحمن جیسے بلند قامت صحافی کی اہمیت اور عظمت دلوں پر اور نقش ہوجاتی ہے کہ انھوںنے واقعتا اپنی خاکساری اور کسرنفسی سے اردو صحافت کو بلندی عطا کی جبکہ آج باستثنائے چند بیشتر صحافی میگلومینیا (خبطِ عظمت) کے مریض ہیں۔ اظہرندوی مرحوم نے ان کی قلندری کے تعلق سے صحیح لکھا ہے کہ ’’محفوظ صاحب قلندرانہ مزاج رکھتے تھے اور انھوںنے کبھی مال و دولت یا جاہ و منصب کے حصول کی کوشش نہیں کی۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ان کے سامنے جتنے مواقع آئے اتنے شاید ہی اردو کے کسی صحافی کے سامنے آئے ہوں اور کوئی دوسرا ہوتا تو ان مواقع سے فائدہ اٹھاکر کروڑوں روپے کماسکتا تھا لیکن ان کی قلندری نے کبھی اس طرف تاکنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی اور پوری زندگی بڑی حد تک فاقہ مستی ہی میں گزار دی۔‘‘

    ڈاکٹر ظفرالاسلام خان

    ان کا شمار ان دانشوروںاور صحافیوں میں ہوتا ہے جو مسلمانوں کے مسائل پر نہایت سنجیدگی اور معروضیت کے ساتھ سوچتے ہیں۔ یہ عربی ، انگریزی اور اردو کی بہت سے کتابوں کے مصنف اور مترجم بھی ہیں ۔ عربی کے مقتدر مجلات میں ان کے مضامین اہتمام سے چھپتے ہیں۔ ان کا اخبار ملی گزٹ انگریزی میں شاید پہلا اخبار ہے جو عالم اسلام بالخصوص ہندوستانی اقلیت کے مسائل کے لئے وقف ہے۔ جنوری 2000میں اس پندرہ روزہ انگریزی اخبار کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی مو ثر آواز اور ترجمان میں تبدیل ہو گیا۔ اس کے لکھنے والوں میں ہندوستان کے وہ مشاہیر شامل ہیں جن کی سوچ نہات مثبت ہے اور جو مسائل کے تمام زاویوں پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔یہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کا واحد انگریزی اخبار ہے جسے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ جیسے معارف کے مدیر شاہ معین الدین احمد ندوی کے خوابوں کو تعبیر مل گئی ہو۔ لا شعوری طور پر شا یدیہ ان کے آرزو کی تکمیل ہے۔ انھوں نے دارالمصنفین اعظم گڑھ کے علمی رسالے معار ف کے شدرات میں لکھا تھا کہ :

    ’’آج دنیا میں سب بڑی قوت پریس کی ہے اس کے بغیر کوئی آواز موثر نہیں ہو سکتی اور ہندوستان کے مسلمانوں کا کوئی انگریزی اخبا ر نہیں ہے۔ اردو کے اخبارا ت کی کوئی آواز نہیں ۔ ان کی آواز ہندوستا ن کے بڑے طبقے تک نہیں پہنچتی ۔ بیرونی دنیا کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے جو سب سے زیادہ ضروری اور موثر چیز ہے۔ ‘‘انھوں نے 1952میں جمیعۃ علماء ہند کی طرف سے نکلنے والے پندرہ روزہ انگریزی اخبار Messageکا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ہندوستا ن کے 4کروڑ مسلمانوں کے لئے ایک انگریزی اخبار کا چلانا کیا مشکل ہے۔ وہ اپنی شکایتوں کے لئے زبانی شو رو غوغا تو بہت کرتے ہیں مگر ان کے ازالے کی صحیح تدبیر اختیار نہیں کرتے۔ اگر وہ صرف اتنا کریں کہ پیسہ خرچ کر کے انگریزی کے زہریلے فرقہ پرست اخبارات کی گالیاں سننے کے بجائے Messageکے خریدار بن جائیں تو کسی اور امداد کے بغیر وہ آسانی سے روزآنہ بن سکتا ہے۔ ‘‘

    ڈاکٹر ظفر الاسلام نے ایک بڑا اچھا کام کیا جو ملی گزٹ نکال کر مسلمانوں کی بے زبانی کو زبا ن عطا کی۔ ملی گزٹ کا آن لائن ایڈیشن ہے جس سے اسکا دائرہ ہندوستان سے باہر تک پھیلاہواہے۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں مولانا م وحید الدین خان کے فرزند ہیں ۔ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے علاوہ انھوں نے ازہر یونیور سٹی مصر سے بھی فیض حاصل کیا ہے انھوں نے مانسچسٹڑ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے۔ وہ اس وقت سیاسی تنظیم سے بھی وابستہ ہیں مگران کی بنیادی پہنچان ایک دانشور اور صحافی کے طور پر ہے۔

    اعظم گڑھ نے جہاں قدیم علوم و فنون کا تحفظ کیا اور اپنے تہذیبی ورثے اور روایت سے اپنا رشتہ مستحکم رکھا ۔ وہیں یہ سر زمین نئے نظریات کی تولید اور تخلیق میں بھی بہت آگے رہی ہے۔ بہت سے مسلمات کو یہاں کے ذہین دانشوروں نے مسترد کیا ہے اور اپنی تحقیق اور تفحص سے نئے نظریات قائم کئے ہیں۔ تحریم ربا کا مسئلہ ہو یا رجم کا یہاں کے بعض دانشوروں نے اپنے نظریات سے ایک بڑے طبقے کو مشتعل بھی کیا ہے مگر نئے زاویوں کی جستجو اور تحقیق و تفتیش میں غیر مقلدانہ طرز عمل میں اعظم گڑھ کو امتیاز عطا کیاہے۔ ایسی شخصیات میں علامہ اقبال سہیل اور مولانا وحید الدین خان کے نام لئے جا سکتے ہیں جن کی تصنیفات ، بہت سے نزاعات کا محور بنیں ۔

    مولانا اقبال حمد سہیل

    اقبال سہیل کا شمار اعظم گڑھ کی ان شخصیتوں میں ہوتا ہے جن سے اس سر زمین کو ایک نئی پہچان ملی۔ وہ متنوع شخصیت کے حامل تھے۔ شعر و ادب کے علاوہ دیگر مسائل و موضوعات پر بھی ان کی گہر ی نظر تھی۔ انھوں نے ایک نہایت متنازعہ فیہ کتاب لکھی تھی جو 1936میں ’’ حقیقت الربا‘‘ کے نام سے علی گڑھ سے شائع ہوئی تھی۔ مولانا شبلی نعمانی اور علامہ حمید الدین فراہی کے شاگرد رشید اور مشہور شاعر ’مجاہد آزادی قانون داں کی اس کتاب کا دو سرا ایڈیشن ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کی تحقیق و تخریج کے ساتھ 1999میں شائع ہوا ہے اور اس کتاب کا عربی اور انگریزی میں تر جمہ بھی شائع ہو چکا ہے۔

    یہ کتاب مسئلہ سود پر ہے اور بقول مولانا طفیل احمد مصنف ’’ مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘ مسئلہ سود پر سب سے جامع اور مکمل کتا ب ہے۔ اس کتاب میں مصنف کا بنیادی نقطہ نظر یہ ہے کہ ’’ ادلہ اربعہ‘‘ سے ربا کے مفہوم کچھ اس طرح کھو گیا ہے کہ ربا کی حت اور حرمت پر بحث کا ایک لا متناہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ مولانا اقبال سہیل نے اسی مسئلہ کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے مسلمانوں کے معاشی منظر نامہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ فقہاء نے ربا کو بیع مرا ملت (Barter)اور بیع صرف (Exchange) سے خلط ملط کر دیا ہے ۔ جب کہ اس کا تعلق صرف بیع سلف (نسیہ) یعنی ادھار سے ہے۔ مصنف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ربا شرعی اور سود مروجہ باہم مترادف نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر اسلامی ہند میں سود کو ربا کا مترادف خیال کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام سودی کا روبار کو خواہ ان کی نوعیت کچھ بھی ہو، اہل اسلام عموما حرام سمجھتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ ’’ ربا‘‘ کی کوئی تحدید و تشریح نہیں کی گئی ہے۔ فقہاء نے اپنے اپنے طور پر اس کی تعریف بیان کی ہے اور اس کے مختلف اقسام پر بحث بھی کی ہے مگر فقہاء بھی کسی واضح مفہوم تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔

    مولانا نے ربا کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ۔

    ’’ لغتاً ربا کے معنی زیادتی یا اضافہ کے ہیں لیکن یہ مسلم ہے کہ مطلق زیادتی یا اضافہ وہ ربا نہیں ہے جو شر عا حرام ہے چنانچہ قرآن کریم کی وہ آیات جو حرمت ربا کی نسبت نا زل ہوئی ہیں ان میں ہر جگہ لفظ ربا ’’الربوا‘‘ یعنی الف لام کے ساتھ مستحمل ہوا ہے اور یہ بھی مسلم ہے کہ الف لام استغراق کا نہیں ہے ورنہ اضافہ مالی کی ہر صورت مثلاً نفع تجارت بھی حرام ہوتی اس لئے الف الا م عہد ذہنی ہے اور کوئی خاص قسم کا اضافہ مراد ہے جو شرعا حرام کیا گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ خاص قسم کیا ہے؟ کلام الٰہی میں کہیں بھی اس خاص قسم کے اضافہ کی صراحت یا لفظ ربا کی تعریف بہ الفاظ صریح و ارد نہیں ہے۔

    مولانا نے حسب نصوص شرعیہ ربا کی منطقی تعریف کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ دور حاضر کے کن معاملات پر لفظ ربا کا اطلاق ہو سکتا ہے اور یہ بھی بتا یا ہے کہ شریعت نے حرمت ربا کو کن شرائط کے ساتھ مشروط کیا ہے اور ہندوستان میں شرائط پائے جاتے ہیں یا نہیں ؟

    ربا کی تمام جزئیات کاجائزہ لیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ حرمت ربا کا حکم دارالاسلام سے مشروط ہے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضور کے 23سالہ عہد رسالت میں یہ حکم سب سے آخر میں اس وقت نازل ہوا جب کہ مکہ فتح ہو چکا تھا اور اسلام کی حکومت عرب میں با لا ستقلال قائم ہو چکی تھی اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ربا کی حرمت دارالاسلام سے مشروط ہے۔

    مولانا وحید الدین خاں

    Dynamism of Expression(اظہار کی حرکیت) مولانا وحید الدین خاں کی وہ خوبی ہے جو انہیں عہد حاضر کے اسلامی دانشوروں اور مفکر وں سے ممتاز کرتی ہے۔ گلوبلائزیشن جس طرزاظہار اور احساس کا تقاضا کرتا ہے اس کی تکمیل مولانا وحید الدین خاں کی تحریروں سے ہوتی ہے۔ انھوں نے عصری اسلوب میں اسلامی تعلیمات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ علم و دانش کی ایک نئی کائنات ذہنوں میں روشن ہو جاتی ہے۔ایسوپ کی طرح ان کے جملے مختصر اور معنی خیز ہوتے ہیں جس میں آگہی کا دریا موجیں مارتا رہتا ہے۔ فکر ی سطح پر ان کے یہاں جو معروضیت،منطقیت اورحقیقت پسندی ملتی ہے وہ بہت کم تحریروں میں نظر آتی ہے ۔ انھوں نے فکری تشدد اور نظری جارحیت سے گریز کر کے افہام وتفہیم کی روش اختیار کی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے قائین کا حلقہ بہت وسیع ہے خاص طور پر اسلامی تعلیمات پر طنز و تشینع کرنے والے بھی ان کی تحریروں کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔ ان کی کسی تحریر میں نہ مذہبی نرگسیت ہے اور نہ ادعائیت اور نہ ہی اس طرح کی فکری شدت پسندی جس کی وجہ سے اسلام سے منحرف دانشوروں اور اسلام مخالف مصنفوں کو اسلامی فاشزم کی اصطلاح وضع کرنی پڑتی ہے۔ ان کی تحریروں میںتفقہ ، تدبر اور تفکر کے عناصر ہیں، انھوں نے ایسی تحریروں سے مکمل طور پر اجتناب کیا ہے جو انسانی ذہن ضمیر، اور روح کو مضمحلیا بیمار کردیتی ہیں۔ مولانا وحیدا لدین خاں نے اس محبوس اور محصور ذہنیت (Ghetto mentality)کے خلاف بھی مجاہدہ کیا ہے جو عالمی سطح پر مسلمانوں کی شناخت بنا دی گئی ہے۔ مولانا کا دائرہ فکر بہت وسیع ہے۔ انگریزی عربی جیسی زبانوں پر درک کامل حاصل ہے اس لئے ان کی سوچ کا منہج عام علماء سے مختلف ہے اور اس قدر مختلف کہ بہت سے علماء ان کی زد افروزی سے خائف نظر آتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آج اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لئے جس اسلوب فکر اور طرز اظہار کی ضرورت ہے، وہ مولانا وحید الدین خاں کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ ان کا علمی اسلوب قاری کو متاثر کرتا ہے۔

    انھوں نے روایتی اسلوب سے الگ نیا اسلوب وضع کیا ہے ۔ ان کی منطق یہ ہے کہ قدیم روایتی اسلوب جدید سائنسی ذہن کو ایڈریس کرنے میں نا کام رہا ہے ۔ مولانا وحید الدین خان بعد سائنسی دور(Post Scientific era)کے مطالبات اور چیلنجیز سے آگاہ تھے اسی لئے انہوں نے اسلامی تعلیمات کو عصری اسلوب میں پیش کیا۔ انگریزی ،عربی میں ان کی سیکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ تذکیرالقران ان کی ایک اہم کتاب ہے۔ مولانا وحیدالدین خان بہت دنوں تک الجمیعۃ کے مدیر رہے۔ اور پھر ماہنامہ الرسالہ نکالا جواب تک شائع ہو رہا ہے ۔ ان کا تعلق اعظم گڑھ کے موضع بدہریا سے ہے۔ انہیں نے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے فیض حاصل کیا ۔ اس کے بعد گریجویشن کیا۔

    نئی نسل نے بھی اعظم گڑھ کے تہذ یبی ورثے کی توسیع اور تخلیقی تسلسل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جو افراد تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی سطح پر متحرک ہیں۔ان میں الیا س الاعظمی ، احمد علی برقی اعظمی، انوار الوفا اعظمی، جگدمبا دوبے، سعید اختر اعظمی، نیاز جیراجپوری، سرفراز نواز، سالم سلیم اورمعروف مصور شاہد اعظمی وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ اور بھی نام ہوں گے مگر ان کی جستجو محال ہے کہ نہ تو ایسی کوئی ڈائرکٹری ہے اور نہ ہی ہر کے بایوڈاٹا پر نگاہ رکھنا آسان ہے۔ یوں بھی اب ناموں سے ضلعی نسبتیں معدوم ہونے لگی ہیں۔ اس لئے یہ کام تو واقعتا دقت طلب ہے ۔مگر اب بھی کچھ ایسے افراد ہیں جن کے لاحقہ سے وطن کا پتہ مل جاتا ہے۔ سعید اختر اعظمی بھی ایسا ہی ایک نام ہے جو بہت سے ذہنوں میں ادبی ذوق و شوق اور لگن کی وجہ سے نقش ہے۔ تبصراتی مضامین سے سعید اختر نے ہندوستان گیر سطح پر اپنی پہچان بنا لی ہے۔اردو بک ریویو نئی دہلی میں ان کے تبصرے اب قارئین کے ذہن کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔نہایت محنتی متجسس اور ادب کے معاملات میں مضطرب سعید اختر اعظمی کی معلومات فزا مضامین کی کتا ب ’’تلاش‘‘ شائع ہو چکی ہے۔جو بقول ڈاکٹر فیروز دہلوی اپنی نوعیت کے اعتبار سے انسائیکلو پیڈیائی نوشتے ہیں جن سے بچے ہی نہیں بڑے بھی بھر پور استفادہ کر سکتے ہیں۔ انداز بیان دلچسپ ہے۔ ان مضامین میں موضوع سے متعلق معلومات کے ساتھ ساتھ کچھ باتیں ایسی بھی شامل کی گئی ہیں جن کا متن کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہے مگر وہ معلومات عامہ کا ایک حصہ ہیں۔(اردو بک ریویو، اپریل ، مئی 2010)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے