aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

داستانوں کی ماہیئت

ممتاز حسین

داستانوں کی ماہیئت

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

    جامع مسجد دہلی کے ’’دروازہ شمالی کی طرف ۳۹سیڑھیا ں ہیں۔ اگرچہ اس طرف بھی کبابی بیٹھے ہیں اور سودے والے اپنی دکانیں لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن بڑا تماشا اس طرف مداریوں اور قصہ خوانوں کا ہوتا ہے۔ تیسرے پہر ایک قصہ خواں مونڈھا بچھائے ہوئے بیٹھتا ہے اور داستان امیر حمزہ کہتا ہے۔ کسی طرف قصہ حاتم طائی اور کہیں بوستان خیال ہوتی ہے اور صدہا آدمی اس کے سننے کو جمع ہوتے ہیں۔‘‘ (آثارالصنادید۔ سرسید احمد خان)

    دلی والوں کو قصہ کہنے اور سننے کا یہ چسکا کچھ سرسید ہی کے زمانے میں نہ تھا، بلکہ محمد شاہی عہد میں بھی ان کا یہی عالم تھا۔ خواجہ بدرالدین امان دہلوی بوستان خیال کے مترجم حدایق الانضار کے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’اتفاقاً جہاں میر محمدتقی خیال (مصنف بوستان خیال) فروکش تھا، قریب مکان کے ایک نشست گاہ میں چند اشخاص جمع ہوتے تھے اور ایک قصہ گوان کے روبرو امیر حمزہ کا جوتمام جہان میں مشہورہے، بیان کیا کرتا تھا۔‘‘ 

    قصہ گوئی کی یہ عادت دنیا کی ہرتہذیب اور ہر ملک میں پائی جاتی ہے۔ جہاں ارسطو نے آدمی کو سیاسی حیوان اور حیوان ناطق ایسے نام دیے، وہاں اسے ایک نام قصہ گو کا بھی دینا چاہئے۔ گویا قصہ کہنے پر وہ مختار ہی نہیں بلکہ مجبور بھی ہے۔ وہ اپنی نفسیات کے دفینے اور اپنے مستقبل کے خواب کو انہی قصوں کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ خواہ وہ قصے دیوی دیوتا، جن وپری، وحوش و طیور کے ہوں یا اشجاع پاستاں اور ہمارے آپ کے ایسے چلتے پھرتے انسانوں کے۔ یہ سارے اقسام قصص کے اس ایک مظہر کی مختلف صورتیں ہیں کہ جن نعمتوں سے ہمیں زندگی میں محروم کیا جاتا ہے، ہم ان کے حصول کی آرزو اپنے خوابوں کی دنیا میں کرتے ہیں۔ باتیں ساری عالم کی ہی ہوتی ہیں، صرف ان کا اعادہ عالم خواب میں کیا جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ قصہ گو جس قدر بے خود و بے ہوش اور خواب میں ڈوبا ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ وحدت زماں یا قومی تاریخ کی وحدت کا احساس رکھتا ہے۔

    لیکن چوں کہ قصہ صرف قومی یا انفرادی نفسیات ہی کی ایک تاریخ نہیں ہے بلکہ انسانی تجربات کے نچوڑ، تصور حیات و کائنات کی ترسیل کا بھی ایک ذریعہ ہے اس لئے یہ عالم بے داری کی بھی ایک شے ہے۔ وہ ایک مخصوص عہد کے ایک مخصوص معاشرے کے شعور کا بھی مظہر ہوتا ہے۔ اس شعور کی نوعیت اور اس کی سطح کیا ہے؟ مظاہر فطرت کو دیوی دیوتاؤں کے روپ میں پیش کیا گیا ہے یا ان سے جدا کرکے ان کے اسباب وحل پرغور کیا گیا ہے۔ یہ باتیں تاریخی اور اضافی ہیں۔ اس سے اس بات پر حرف نہیں آتاکہ آدمی فطرتاً قصہ گو واقع ہوا ہے۔ وہ حقیقت کو خواہ وہ عالم خواب کی ہو یا عالم بے داری کی، زندگی کی ہو یا بعد زندگی کی، ٹھوس اور محسوس صورتوں میں متصور کرنے کا عادی رہا ہے، عادی ہے اور غالباً رہےگا۔

    قصہ گوئی زندگی سے فرار اختیار کرنے کا نہیں بلکہ زندگی سے دست و گریباں رہنے کا ایک مقصدی مشغلہ ہے۔ ہم زندگی میں جن طاقتوں سے ہار جاتے ہیں انہیں خواب میں یا ان قصوں میں مفتوح کرنے کی آرزو کرتے ہیں۔ ہم جن چیزوں کی آرزو میں مرتے ہیں، ان کی تحصیل کا خواب انہی کہانیوں میں دیکھتے ہیں، لیکن ان کہانیوں کا یہ صرف ایک پہلو ہے، اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ زندگی کے سفر میں جو نشیب وفراز، امتدادسن و سال کے آتے ہیں، ان سے مساعدت اور مطابقت پیدا کرنے کی تعلیم اور بقدر حوصلہ مبدا و معاد کو سمجھنے اورسمجھانے کا کام بھی ہم ان کہانیوں کے ذریعے لیتے آئے ہیں۔ زندگی کی اس عظیم خدمت کو جو ہم ان کہانیوں سے لیتے آئے ہیں کیوں کر فرار اورعیش کوشی سے منسوب کیاجا سکتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ قصہ کہنے کے لئے فراغت درکار ہے اور اس کے سننے کے لئے شاید اس سے زیادہ فراغت چاہئے اور یہ فراغت اسی وقت ملتی ہے جب کہ معاشی خوش حالی ہوتی ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد ہی تفریح ہے، جیسا کہ مرزا غالب نے ازراہ تفنن طبع کہا ہے، ’’داستان گوئی من جملہ فنون سخن ہے۔ سچ ہے دل بہلانے کا اچھا فن ہے۔‘‘ 

    تفریح تو اس کا صرف ایک پہلو ہے، جیسا کہ کسی بھی مقصد کی تعمیل میں پایا جاتا ہے، بشرطیکہ وہ مقصد بہ حسن تمام پورا ہو۔ مقصد اور ادائے مقصد کا اتحا د ہی کسی عمل کو فنکارانہ عمل میں تبدیل کرتا ہے، حسن ان دونوں کے اتحاِ کامل سے نمو پاتا ہے۔ نہ کہ وہ پہلے سے کہیں موجود رہتا ہے۔ تبھی تو ہمارے شعرادست قاتل کی اداکاری کی بھی داد دیتے رہے ہیں۔ ع نظر لگے نہ کہیں ان کے دست بازو کو۔ پھر بھی وہی فرماتے ہیں کہ یہ دل بہلانے کا اچھا فن ہے۔ شاید اس لئے کہ ہمارا یہ فن ان کے زمانے میں زندگی کے مقاصد سے اپنا رشتہ توڑ رہا تھا۔ لیکن ہم ان کی یہ بات اس دور کی داستان کے بارے میں کیوں کرسچ مانیں، جب کہ ہمارے فن اور ہماری زندگی کے مقاصد کے درمیان ایک گہرا رشتہ تھا۔ میں نے قصہ چہار درویش کو اسی نقطہ نظر اور اسی زمانے کے پس منظر میں دیکھا ہے، لیکن اس سے اس حقیقت پر پردہ نہیں پڑتا ہے کہ غالب کے زمانے سے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جب سے سرسید احمدخاں نے سوپر نیچرل کو نیچرل کے میدان سے خارج کر دیا، داستان گوئی جس میں سوپر نیچر کا ذکر لازمی طور سے ہوتا، ہمارے لئے صرف دل بہلانے کا ایک فن رہ گیا تھا اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے لئے ہم معذرت خواہ ہوں۔

    زندگی کے ارتقائی تغیرات میں نہ صرف زندگی کے مقاصد بدلتے رہتے ہیں بلکہ حصول مقاصد کے ذرائع بھی بدلتے رہتے ہیں۔ سرسید کے نیچری عہد میں داستانوں نے ناول اور مختصر کہانیوں کے لئے جگہ خالی کی، جن میں اب ہم نیچرل دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن اس سے داستانوں سے لطف اندوز ہونے کی ہماری صلاحیت کم نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کے برعکس کچھ زیادہ بڑھ رہی ہے۔ کیونکہ اب ہم ان داستانوں کی جذباتی اور داخلی گرفت سے آزاد ہو گئے ہیں۔ آج ان کا تجزیہ ہم خارجی انداز سے کرنے پر زیادہ قادر ہیں اور جس طرح کہ ایک بالغ آدمی اپنے بچپن کے تجربوں کے اعادے سے محظوظ اور مستفید دونوں ہی ہوتا ہے، اسی طرح اس عہد کا بالغ آدمی بھی، ان داستانوں کے مطالعے سے محظوظ اور مستفید دونوں ہی ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے طریق فکر کی بدلتی ہوئی صورت کو دیکھ کر ازمنہ قدیم کے طریق فکر کو سمجھنے پر زیادہ سے زیادہ قادر ہو سکتا ہے اور اس طرح انسانی نفسیات کے مطالعے میں زیادہ گہرائی اور بصیرت حاصل کر سکتا ہے۔

    ہماری داستانوں کا خاندان اپنی ابتدائی منزلوں میں اساطیری ادب یا دیومالاؤں ہی سے ملتا ہے۔ لیکن اسلامی داستانیں دیومالائی ادب سے مختلف بھی ہیں۔ دیومالائی ادب میں دیوی دیوتاؤں کی کہانی ہے اور اسلامی داستانوں میں مشیت ایزدی کی کہانی ہے۔ یہ فرق دونوں کے درمیان بہت بڑا ہے لیکن اس کی اہمیت آپ اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب کہ آپ ان کی مماثلت اور مغائرت، دونوں ہی کو جانیں۔ چونکہ ان دونوں میں تقدم دیومالاؤں ہی کو حاصل ہے، اس لئے ان کی تاریخی جدائی کو ظاہر کرنے کے لئے، پہلے دیومالائی ادب ہی کی ماہیئت کو لے رہا ہوں۔

    انسان اپنے شعور کی ابتدائی منزلوں میں فطرت کو یاد ہر کو اپنے ہی پر قیاس کیا کرتا تھا۔ وہ فطرت کو غیرذات تصور نہیں کرتا تھا۔ اس لئے اس زمانے میں انسان کا ادراک فطرت بھی من وتو کے رشتے کایا داخلی تھا نہ کہ خارجی، جس میں فطرت کو اپنی ذات کے بالمقابل غیرذات تصور کیا جاتا ہے۔ وہ فطرت کو اپنی خصوصیات اور اپنی ذات کو فطرت کی خصوصیات کے آئینے میں دیکھتا۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ وہ فطرت کے ہر مظہر کو شخصیت یا انسانی صفات سے متصف کرتا۔ چاند، سورج، خاک وباد، آگ پانی، ان میں سے ہر ایک کو دیوی دیوتا قرار دیتا جو انسانوں کی طرح زندگی گزارتے اور جو حادثات کہ ان کی حرکت سے وجود میں آتے، وہ انہیں کسی غیرشخصی اور مجرد اصول کا پابند یا نتیجہ نہ ٹھہراتا، بلکہ ان کی شخصیت یا قوت ارادی کا نتیجہ سمجھتا۔

     اس طرح اس کی نظر میں ہرحادثہ اپنی جگہ پر منفر دہوتا۔ وہ نہ صرف منفرد شخصیت سے سرزد ہوتا بلکہ اپنی جگہ پر بھی منفرد ہوتا، کیوں کہ اس کا تعلق کسی سلسلہ اسباب سے نہ ہوتا۔ وہ حادثہ کیفیاتی خصوصیات کا حامل ہوتا نہ کہ کمیاتی خصوصیات کا۔ اس کے اسی طریق فکر کو دیومالائی شاعرانہ۔ (MYTO POETIC) طریق فکر کہا جاتا ہے۔ وہ ہرواقعہ کو کسی دو شخصیتوں کی کشمکش یاٹکراؤ کا نتیجہ سمجھتا نہ کہ کسی غیر شخصی اور مجرد اصول کے سلسلہ عمل کا نتیجہ۔ چانچہ یہی سبب ہے کہ دیومالائی ادب میں مظاہر فطرت کا کوئی خارجی تجزیہ پیش نہ کیا جاتا کہ اسے دور حاضر کی سائنسی تحقیقات کی روشنی میں پرکھا جا سکے۔ وہاں توصرف شاعری اور ڈراما ہے جس میں نفسیاتی حقائق ہیں، نہ کہ طبعیاتی سائنس، لیکن ایسا وہ خود نہیں سوچتا۔ وہ اپنے اسی گیان پر جس میں تخیل کی بے پناہ قوت شامل ہوتی، حقیقت کا اعتبار کرتا اور اس کا ادراک کبھی عالم خواب میں کرتا تو کبھی غشی یا بے خودی کے عالم میں دیوتاؤں سے محو گفتگو ہوکر۔

     آج شاید آپ اس کے گیان دھیان اور عالم خواب کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہ دیں اور یہ کہہ کر ٹال دیں کہ یہ سب خواب و خیال کی باتیں ہیں لیکن اس وقت کے انسانوں کے لئے عالم خواب بھی اتنا ہی حقیقی تھا جتنا کہ عالم بے داری۔ زندگی اتنی ہی حقیقی تھی جتنی کہ موت کے بعد کی زندگی اور فوق الفطرت دنیا اتنی ہی جان دار اور حقیقی تھی جتنی کہ فطری دنیا اور بعض اقوام کے دیومالاؤں میں تو دیوتاؤں کی زندگی انسانوں کی زندگی سے زیادہ اہم دکھلائی گئی ہے۔ کیونکہ دیوتال افانی تھے اور انسان فانی۔ پھر بھی چونکہ ان دیوتاؤں کا تصور مادی ہے اس لئے ان کے اعمال اور افعال میں حیات انسانی کا ہی رس اور نچوڑ ہے اور وہ کہانی ہماری آپ کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ انہی کہانیوں میں ایسے انسان بھی ابھرتے ہیں جو لافانی دیوتاؤں کی کلائیاں موڑ کر خود امر بن جاتے ہیں۔ مزدک اور پرامیتھیئس انہی انسانوں میں سے ہیں۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جہاں انسانوں میں خیروشر دونوں کی طاقتیں چھپی ہوئی ہیں، وہاں ان دیوتاؤں میں بھی خیروشر دونوں کی طاقتیں ملتی ہیں۔ چنانچہ جب ان کا معرکہ ہوتا ہے تو خیر وشرکی طاقتوں کابٹوارہ ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے نہ کہ دیوتا ایک طرف اور انسان ایک طرف ہوتے ہیں اور خیروشر کی اس کشمکش میں وہ اپنی نفسیات کی ایسی ایسی پیچیدگیوں کو بےنقاب کرتے ہیں کہ فرائیڈ کے کلینک کی رپورٹ اس کے سامنے بازیچہ اطفال نظرآتی ہے۔ اس طرح یہ دیومالائی ادب میں اس وقت کے انسانوں کے بہت سے نفسیاتی اور روحانی تقاضوں کا مداوا پیش کرتا۔ وہ اگر ایک طرف مقاومت زمانہ یا امتداد سن وسال کی نیرنگیوں کے مقابلے میں انہیں نفسیاتی اعتبار سے مسلح کرتا یا فطرت کی مخالفت قوتوں کوان کے لئے خواب وخیال کی دنیا میں سرنگوں کرتا تو دوسری طرف رسم ورواج کی بندشوں اور فطری میلانات کے درمیان جو کشمکش پیدا ہوتی، اس کا استخراج اظہار جذبہ سے کرتا۔

     لیکن انسان تابہ کے ادراک حقیقت کے باب میں من وتو کے اس داخلی رشتے میں اسیر رہتا، اسے خارجی ادراکِ حقیقت کی طرف تو بڑھنا ہی تھا۔ اس سمت میں جہاں تک ادب کا تعلق ہے، بنی اسرائیل نے سب سے پہلے پہلا قدم اٹھایا اور اس بت کو ڈھایا جو دیوی اور دیوتا کا تھا۔ ہرچند کہ اس سے دست آذر کوصدمہ پہنچا۔ انہوں نے مظاہر فطرت کو شخصیت کے صفات سے آزاد کیا اور ایک مجرد قوت اور طاقت کے احکام و فرمان کا نفا ذکیا۔ عالم تشبیہ سے عالم تنزیہ کے طرف آنے کایہ عمل خارجی ادراک حقیقت کے لئے ضروری تھا۔ لیکن جہاں یہ عمل ادراک حقیقت کی ترقی کے لئے ایک انقلابی عمل تھا، و ہاں شعروشاعری اور فنون لطیفہ کے حق میں مہلک بھی تھا۔ کیوں کہ شعر وشاعری، داستان گوئی اور فنون لطیفہ، ان میں سے ہر ایک کی بنیاد حسی تصویر یا معنی کو پابند حواس کرنے پر ہے، جہاں ہوش وخرد کو دعوت چشم وگوش ہے۔

     اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قوم بنی اسرائیل سمبالک آرٹ سے ہٹ کر الیگاریکل آرٹ یاتمثیل ذوالمعنیین کی طرف آگئی۔ توریت کے امثال (PARABLES) کی بنیاد یہی ہے جو خرافہ سے مختلف ہے۔ لیکن یہ فرق جزوی ہے نہ کہ کلی۔ عجائبات یعنی عالم ارواح اور خواب کا جتنا ذکر کہ بنی اسرائیل کے قصوں میں ہے، وہ کچھ بابل ومصر کے دیومالاؤں سے کم نہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے دیوی اور دیوتاؤں کی کہانیوں کومشیت ایزدی کی کہانیوں میں تبدیل کر دیا ہے اور چونکہ مشیت ایزدی کی تعمیل کے لئے ان کی قوم برگزیدہ اور منتخب تھی، اس لئے ان کے قصوں میں مظاہر کائنات کی تاریخ نے انسانی تاریخ کی جگہ لے لی۔ اس بار امانت کے اٹھانے سے اگر ایک طرف ان کے قصوں میں افراد واشخاص کی انفرادیت چمکی، ان کا سماجی عمل ظاہر ہوا تو دوسری طرف دیومالاؤں کا مابعدالطبعیاتی عنصر بھی گھٹ گیا۔ کیوں کہ مشیت ایزدی کی کہانی میں احکام کی تعمیل اہم ہے نہ کہ مظاہر فطرت کی تاویل۔

     اس مغائرت کے باوجود دونوں میں ایک قدرمشترک بھی ہے۔ قانون سببیت (LAW OF CASULITY) کی تلاش نہ تو دیومالاؤں میں ہے اور نہ اسرائیلی قصوں میں، جو کچھ کہ پہلے دیومالاؤں میں مصدر شخصیت سے سرزد ہوتا، اب وہ معجزات ِفرمان الہی سے سرزد ہونے لگا۔ اسلامی داستانیں انہیں اسرائیلی قصوں اور امثال کی روایات پر مبنی ہیں، وہی نقش سلیمانی، وہی طلسم سامری، وہی عالم خواب، عالم ارواح اور وہی مابعدالطبیعیات ہے، لیکن دور حاضر کے ذہن سے ان داستانوں کی ذہنی فضا کا جو آج ٹکراؤ ہے، وہ کچھ اس سبب سے نہیں ہے کہ اس میں عالم خواب کی یا فوق الفطرت باتیں ہیں، کیونکہ ہماری داستانوں کے جن وپری بالکل انسانوں جیسے ہیں، ان کی کہانی اور سرگزشت ہماری اپنی کہانی اور سرگزشت ہے۔

    اور اگر ہم کو لیرج کے الفاظ میں عدم یقین کو تھوڑی دیر کے لئے معطل کر دیں، جیسا کہ آرٹ کی دنیا میں ضروری ہے تو ان سے محظوظ ہونا مشکل نہیں ہے، بلکہ اس سبب سے ہے کہ اب معجزات کی جگہ عالم اسباب نے لے لی ہے۔ زمان ومکان کے تصورات بدل گئے ہیں اور اعتقادات کی جگہ معقولات کو فروغ ہوا ہے۔ میں اس ذہنی تصادم کو شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں اور اسے کسی صورت سے بھی نظر انداز کرنے کے لئے تیار نہیں، لیکن یہ ہماری بھول ہوگی اگرہم ادب سے سائنس یا معقولات کا کام لیں۔ ادب سائنس سے آزاد نہیں ہے لیکن وہ سائنس کا بدل بھی نہیں ہے۔ ادب کچھ تو انسان کی بدلتی ہوئی نفسیات کی ایک کہانی ہے اور کچھ ان انسانی اقدار کی تبلیغ کا ایک آلہ کار ہے جس سے کہ انسان اپنی انسانیت کو پانے یا تکمیل خودی کی کوشش کرتا رہا ہے۔

     اس میں شبہ نہیں کہ زندگی کے بدلتے ہوئے رشتے ہماری جذباتی زندگی کے پیٹرن کو بھی متاثر کرتے ہیں اور اس تغیر میں کسی اٹل حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مشکل ہے۔ پھر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح ایک سمندر پیہم طوفانوں کی زد میں رہنے کے باوجود اپنے ہی ظرف میں رہ جاتا ہے، اسی طرح انسانی زندگی بھی ہر قسم کے تغیرات اور ارتقا سے دوچار ہونے کے باوصف زندگی ہی رہ جاتی ہے۔ جہاں ہماری ایک سماجی اور تاریخی عمر ہے، وہاں ہماری ایک عمر طبعی بھی ہے جس کے موسم فطرت کے موسم کی طرح بہ تکرار آتے رہتے ہیں۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپا، زندگی کے یہ موسم کب بدلتے ہیں، ان موسموں سے گزرنے کے سامان بدلتے ہیں نہ کہ موسم بذات خود۔ اسی طرح شیشہ دل کی مے بدلتی رہتی ہے لیکن اس کی موج کب بدلتی ہے، جذبات کے مدورجز، بیم ورجا کی متلون کیفیتوں کو لئے ہوئے پیہم اٹھتے ہی رہتے ہیں۔

     معلوم نہیں اس جوار بھاٹے کا سبب کیا ہے؟ اس کا مرکز ثقل کہاں اور کیوں ہے۔ یہ کچھ معلوم اور کچھ نامعلوم ہے۔ اس پرقابو پانے کایہ عمل نہیں کہ فطرت کو دبایا جائے، بلکہ یہ ہے کہ اس کا زیادہ سے زیادہ شعور حاصل کیا جائے۔ کیونکہ جس طرح روشنی تیرگی کی وحشت کو دور کرتی ہے اسی طرح شعور بھی دل وحشت زدہ کی تیرگی کو دور کرتا ہے۔

    اگلے وقتوں میں جبکہ شعور کی روشنی زیادہ تیز نہ تھی، جذبات کے ہچکولے سے سکون، استخراجِ جذبہ سے حاصل کیا جاتا۔ یونانی ٹریجڈی اس کی بہترین صورت تھی۔ لیکن اب وہ کام ادب میں خواہ جذبات سے سکون حاصل کرنے کا ہو یا جذبات پر قابو پانے کا، ایک دوسری تکنیک سے لیا جا رہا ہے۔ آج جذبات کو شعور کی روشنی میں دیکھا اور جانچا جا رہا ہے۔ لیکن ادب کا یہ صرف ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو ماضی اور مستقبل کے خواب دیکھنے اور دکھلانے کا بھی ہے۔ چونکہ مستقبل نادیدہ اور ماضی دیدہ ہوتا اس لئے اگلے وقتوں میں مستقبل کا خواب ہمیشہ ماضی ہی کے آئینے میں دکھلایا گیا ہے، آنے والی بہشت ارضی کو کبھی باغ ارم سے تو کبھی شداد کے باغ سے منسوب کیا گیا ہے۔

    یارب بہ جہانیاں دل خرم دہ
    در دعوئے جنت آشتی باہم دہ

    شداد پسر نداشت باغش ازتست
    آں مسکن آدم بہ بنی آدم دہ
    غالب

    ماضی کا یہ خواب پیچھے کی طرف لوٹنے کا نہیں بلکہ آگے بڑھنے کا ایک حقیقت شناس بہانہ تھا۔ اس کی حقیقت شناسی اس میں مضمر ہے کہ کبھی کبھی انسان تیزروی میں اپنی حقیقت کو فراموش بھی کر دیتا ہے۔ وہ تمام تر آئیڈیلسٹ ہو جاتا ہے۔ اس وقت ادب انسان کی نفسیات کے ماضی کا آئینہ لئے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور شاہراہ حیات کے تیزرو مسافر کی راہ روک کر یہ کہتا ہے کہ اک نگاہ واپسیں کے صدقے اس حقیقت کو بھی دیکھ کہ تو پابند میل گوشت پوست بھی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ تو اپنی تیزروی میں اسے بھول جائے اور تیرا آدرش آشنائے حقیقت رہ کر شرمندہ تعبیر رہے۔

    خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ماضی کے اساطیر کو مزخر فات نہیں بلکہ انسانی نفسیات اور اس کے ہوش وخرد کی ایک داستان سمجھتے ہیں۔ ہم قوم قبیلوں میں بٹنے سے پہلے انسان ہیں اور بحیثیت انسان ایک دل اور ایک دماغ رکھتے ہیں۔ دنیا کا سارا ادب خواہ وہ اساطیر ی ہو یا غیر اساطیری، ہمارا اپنا ورثہ ہے۔ ہماری اپنی تاریخ ہے۔ آج ایک گل ِگامش کی حکایت نے بنی اسرائیل کی حکایتوں پر سے کتنے پردے اٹھائے ہیں۔ اسی سے ہم نے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اور چشمہ حیواں کا سراغ پایا ہے۔ جس قدر زیادہ ماضی کے مطالعہ میں وسعت اور گہرائی پیدا ہوتی جا رہی ہے، اسی قدر زیادہ انسان اپنی برادری میں ایک ہوتا جا رہا ہے۔ ایک جگہ کا قصہ دوسری جگہ کے قصے سے ماخوذ نظر آتا ہے۔ پھر یہ تو دیکھئے، ان کے طریق فہم اور ان کی قصہ گوئی کی تکنیک میں کس قدر یکسانیت ہے۔

    ہیرواپنی دنیائے سودوزیاں سے نکل کر عجائبات کی دنیا کی سیر کرتا ہے۔ اس سیر میں مہیب اور محیرالعقول طاقتوں کا مقابلہ کرتا ہے اوران پر فتح پاتا ہے۔ گویا وہ ان کی طاقتوں میں در آتا ہے اور اس طرح نئی طاقتوں سے لیس ہوکر پھر اپنی اسی دنیائے سودوزیاں میں لوٹتا ہے تاکہ اس نئی قوت کے شعور اور مال غنیمت کو اپنی برادری کے سب انسانوں میں بانٹ سکے۔ 1

    اس سفر میں کئی باروہ مثل ماہ کنعاں، چاہ میں ڈوبتا یا زندان سلیماں میں گرفتار ہوتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سولی پر چڑھ جاتا ہے لیکن ہر بار کسی نہ کسی تائید غیبی سے ابھرتا ہے اور اپنے گوہر مقصود کو پاتا ہے۔ وہ اپنے کسی مردم زاد کی محبت میں جن وبشر دونوں کی رقابت مول لیتا ہے۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اس سفر سے کامران نہ لوٹے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ داستان کا اختتام کبھی ٹریجڈی پر نہیں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ داستان پوری زندگی پر محیط ہوتی ہے۔ وہ نظام فطرت کو اضداد کے مجادلے سے صرف پاش پاش ہی نہیں کرتی ہے بلکہ اس کی تکوین بھی کرتی ہے۔ ثانیا ًیہ کہ چوں کہ داستانوں میں حقیقت کو داخلی اعتبار سے منقلب دکھلایا جاتا ہے، اس لئے یہاں بگڑی بھی بن جاتی ہے۔ زندگی برقرار ہے امید پر نہ کہ مایوسی پر۔ داستاں گو اس سررشتہ امید کو حزن و یاس کے چاک گریباں سے باہر نکلتا ہے۔ ’’چناں نماند و چنیں نیز ہم نخواہد ماند۔‘‘ یہ ہے اس کا نغمہ سرمدی۔

    قصہ چہار درویش بھی ایک ایسی ہی مختصر داستان ہے جس کا ہیرو مزدک اور پرامیتھیئس نہیں، حمزہ اور عمرو عیارنہیں، بلکہ درویش ہے، اس کا سفر روحانی ہے۔ وہ مقامات عشق سے گزرتا ہے اور کبھی اس سفر میں اس قدر بے نیاز نفس ہو جاتاہے کہ شہزادہ نیم روز کے دکھ میں اپنے عشق کو بھلا دیتا ہے۔ ہم اس داستان کے مختلف قصوں پر روشنی آگے کے صفحات میں ڈالیں گے۔ جب کہ ہم اس داستان کے ماخذ پر رشنی ڈال چکے ہوں گے۔ آخر کو داستان جو ٹھہری، کیونکہ نہ ذرا قصے کو طول دے کر آپ کے جذبہ شوق کو اور زیادہ ملتہب کیا جائے۔


    حاشیے
    (۱) اس تکنیک کے تفصیلی مطالعہ کے لئے CAMBELE کی کتاب A HERO WITH THOUSANC FACES کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ 

    مأخذ:

    نقد حرف (Pg. 253)

    • مصنف: ممتاز حسین
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1985

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے