aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈیڑھ بات اپنے افسانے پر

انتظار حسین

ڈیڑھ بات اپنے افسانے پر

انتظار حسین

MORE BYانتظار حسین

    میں پناہ مانگتا ہوں ہوں اپنے اس قاری سے، جس نے ’دن‘ پڑھا اور کہا کہ کہانی تشنہ ہے کہ تحسینہ اور ضمیر کا اختلاط تو ہوا ہی نہیں اور میں پناہ مانگتا ہوں اس قاری سے جس نے ’بستی‘ پڑھا، صابرہ کو دیکھا اور سوال اٹھایا کہ انتظار حسین کے یہاں عورت کیوں نظر نہیں آتی۔ عورت، جنسی تجربہ۔۔۔ بے شک یہ انسانی زندگی کی بڑی سچائیاں ہیں مگر میں افسوس کرتا ہوں اپنے نقادوں پر جن کے ہاتھوں میں آکر یہ سچائیاں کلیشے بن گئیں۔ نئی نفسیات کی کتابوں سے حفظ کیا ہوا سبق۔

    عورت یعنی چہ؟ محض جنسی جانور؟ پھر مرد کو بھی اسی خانے میں رکھئے۔ یہ کوئی الگ جانور تو نہیں ہے، اسی مادہ کا نر ہے۔ خیر میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا۔ مجھے اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ عورت اور مرد کے درمیان جو ایک پراسرار رشتہ چلا آتا ہے وہ کیا ہے، اس کی تکمیل تو جنسی تجربے ہی میں جاکر ہوتی ہے۔ مگر یہ کیا ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا اور پھر بھی اتنا کچھ ہو جاتا ہے اور وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے بھی کم ہوتی ہے، آدمی کے ساتھ کیا کچھ کر جاتی ہے۔ بس اسی کیا کچھ پر میری حیرت جاگتی ہے۔ میں نے کتنی کوشش کی ہے کہ یہ کیا کچھ میری گرفت میں آ جائے۔

    افسانے کے جس قاری نے عورت مرد کے رشتے کو تیسری چوتھی دہائی کے افسانے کے واسطے سے جانا ہے، اس کے لئے ’دن‘ ایک بے کیف تحریر ہونی چاہئے۔ یہاں کچھ بھی تونہیں ہوتا۔ اتنا بھی نہیں ہوتا کہ تحسینہ اور ضمیر ایک دوسرے سے ایک ڈیڑھ بات ہی کر لیں۔ حالانکہ ایک ہی صحن میں گھوم پھر رہے ہیں۔ کتنے قریب کتنی دور۔ کم از کم باہر کی سطح پر تو کچھ بھی نہیں ہوا ہے مگر اندر کتنا کچھ ہو گیا۔

    ایک باریک بین بی بی نے کیا خوب تاڑا۔ کہا کہ بستی میں صابرہ کوئی نیا کردار نہیں، یہ تو وہی تحسینہ ہے۔ ہاں بالکل۔ مجھے آئے دن نئی عورتیں تلاش کرنے کا لپکا نہیں۔ میرے لئے ایک عورت بہت ہے۔ تو تحسینہ بھی وہی ہے، صابرہ بھی وہی ہے، ’پتے‘ کی ناری بھی وہی ہے۔ پتے سے مجھے خیال آیا کہ اس افسانے میں وہ عورت بھی آتی ہے جو میرے نقادوں کے حساب سے عورت ہو سکتی ہے۔ یہ عورت مردوں کو رجھانے کے چالیس دانو جانتی ہے۔ میں اس عورت کو بیان کرنے لگا تھا، مگر بھکشو، جس کی خاطر اس عورت نے اپنا عورت پن دکھانا شروع کیا تھا، بیچ میں دم توڑ جاتا ہے۔ اس نے بھکشو کو اپنا کتنا کچھ دکھایا ہے مگر تتھاگت کی پرشانت صورت پرکاشِت ہوئی اور عورت پسپا ہو گئی۔

    مگر وہ عورت جو شراوستی کی گلی میں دم بھر کے لئے ڈیوڑھی پرآئی تھی اور جو عورتوں کے چالیس دانو میں سے کوئی دانو نہیں جانتی اور جس نے اپنا کچھ نہیں دکھایا بس پیر یا اچٹتی سی ایک نظر، ایک نگہ بظاہر نگاہ سے بھی کم۔ بھکشو اس مقام پر مارا گیا کہ شاکیہ منی بھی پھر اسے نہیں بچا سکے۔ شراوستی کی اس گلی سے دور کتنے زمانے تک نگر نگر جنگل جنگل مارا مارا پھرا۔ مگر پھر اس کے قدم اسے اسی گلی میں اسی ڈیوڑھی پر لے آئے۔ ساری ریاضت بھنگ ہو گئی۔ مگر ذاکر تو اپنی شراوستی میں واپس نہیں گیا تھا۔ پھر اس سے فرق کیا پڑا۔ وہ خود آ گئی اور کیسے عجب وقت میں آئی کہ باہر الگ بربادی ہو رہی تھی۔ اندر اس نے تباہی پھیلائی۔، دل ہمارا گو یا دلی شہر ہے۔

    تحسینہ، صابرہ، پتے کی ناری، جس کا کوئی نام نہیں ہے، وہی ایک عورت تحسینہ، پھر تحسینہ اور پھر تحسینہ، تحسینہ کو میں نے کہاں اور کب دیکھا۔ ’دن‘ لکھنے کے بعد دیکھا تھا، یا ’دن‘ لکھنے سے پہلے ان دنوں میں، جب میں بھکشو پاتر لئے شراوستی کی گلیوں میں گھومتا پھرتا تھا یا شاید خواب میں دیکھا۔ بہرحال یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ عورت پوری ادھوری کس راستے سے میرے تصور میں داخل ہوئی۔ واقعی زندگی اور واقعی لوگ بھی میرے لئے شجر ممنوعہ تو نہیں ہیں۔ مگر یوں نہیں کہ بےروک ٹوک میرے افسانے میں گھس آئیں۔ جسے میں نے دیکھا ہے وہ پھر مجھے خوا ب میں نظر آنا چاہئے۔ اس کے بعد ہی وہ میرے افسانے میں راہ پائےگا۔ ویسے یہ بھی میرے لئے ایک سوال ہے کہ واقعی زندگی زیادہ واقعی ہے یا میرے خواب زیادہ واقعی ہیں۔ شاید میرے خواب۔

    میں جب افسانہ سوچتا ہوں توخواب میں نہیں ہوتا، مگر کچھ ایسا جاگتا ہوا بھی نہیں ہوتا۔ ایک بات بتا دوں، رت جگے میں نے جتنے کرنے تھے، ناصر کاظمی کے ساتھ کر لئے، بہت کئے۔ لگتا تھا کہ رات کو سونا کفران نعمت ہے۔ اب مجھے رات کو جلدی نیند آ جاتی ہے۔ دوپہر کو قیلولہ بھی مقرر کرتا ہوں۔ جن دنوں افسانے کا تانا بانا پھیلاتا ہوں، ان دنوں نیند زیادہ آتی ہے۔ وقت بے وقت افسانہ سوچنا شروع کیا اور نیند آنے لگی۔ افسانے کا تانا بانا پھر بھی پھیلتا رہتا ہے۔ کتنی حسرت ہے کہ کبھی یہ کیفیت افسانے میں سرایت کر جائے۔ غالب کا میں ایسا شیدائی نہیں مگر اس کی ایک حسرت میری بھی حسرت ہے۔

    کوئی نہیں ہے اب ایسا جہان میں غالب

    کہ جاگنے کو ملا دیوے آکے خواب کے ساتھ

    کبھی ایسا معجزہ میرے افسانے میں ہو جائے تو کیسا ہو۔ لوری بن جائےگا؟ بن جانے دیجئے۔ مجھے اپنے افسانے کو پیام بیداری بنانے کا کون سا ایسا شوق ہے۔ جن لکھنے والوں نے اپنے لکھے ہوئے سے ملت کو، قوم کو، یا عوام کو جگانے کا کام لینا چاہا، ان میں ایسے بھی ہیں جن کا میں قائل ہوں، مگر ان پر مجھے رشک کبھی نہیں آیا۔ رشک تو مجھے میر پر آتا ہے۔ کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ اور کبھی کسی نے اس سے نہ پوچھا کہ مہتاب میں جو شکل نظرآئی وہ اپنی جگہ مگر عورت تمہاری شاعری میں کہاں ہے۔ وصل اس کا خدا نصیب کرے، جنسی تجربہ تمہاری غزل میں کہاں ہے اور کو مٹ منٹ میر جی تمہارا کیا ہے۔ ویسے میر ہماری ادبی روایت میں سب سے زیادہ کو مپٹڈ آدمی ہے،

    کچھ رنج دلی میر جوانی میں کھنچا تھا

    زردی نہیں جاتی مرے رخسار سے اب تک

    عمر ساری اسی رنج دلی کو بیان کرتے گزری۔ اسی میں دفتر لکھے گئے ہیں۔ کہیں میرا ناسمجھ نقاد بیچ میں نہ بول پڑے کہ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ میرے صاحب کے یہاں تجربے کا تنوع نہیں۔ ان کی غزل تکرار کا شکار تھی۔ تو نے خوب پہچانا میرے معصوم نقاد، میں اورمیر دونوں ہی اپنے آپ کو دہراتے بہت ہیں۔

    خیر تو میر صاحب تو بھلے وقتوں میں شعر کہہ کر چلے گئے۔ ایسے فضول سوالوں کا جواب دینے کے لئے مجھے چھوڑ گئے۔ ترقی پسند تحریک گزر گئی مگر مسلمانوں کو خراب کر گئی۔ کیا مسلمانی ہے کہ سوشلسٹوں کو ملحد جانتے ہیں مگر ان کے بخشے ہوئے تصور ادب کو آیت حدیث سمجھتے ہیں اور اب جب میں خیریت سے اپنی رجعت پسندی میں راسخ ہو گیا ہوں تو وہ اپنی ترقی پسندی کو مجھ پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ مجھ سے تعمیری اور مقصدی افسانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے افسانے میں پاکستان کا جغرافیہ مانگتے ہیں۔ میں انہیں تاریخ کی طرف بلاتا ہوں مگر تاریخ سے تو وہ خوف کھاتے ہیں۔ تقاضا یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء سے اُرے اُرے رہو، پرے مت جاؤ۔ مبادا پاکستان سے دور ہو جاؤ، لیجئے کہاں کی بات کہاں یاد آئی۔

    انور عظیم نے انٹرویو کرتے ہوئے مجھ سے میرے ابتدائی افسانوں کے بارے میں پوچھا۔ میں نے معذرت کی کہ ان افسانوں میں اظہار بہت ناپختہ ہے۔ اس سے اس عزیز نے یہ نتیجہ نکالا کہ میں پاکستان میں رہتے ہوئے مصلحت اسی میں دیکھتا ہوں کہ جن افسانوں میں چھوڑی ہوئی بستی کا بیان ہوا تھا، ان سے دامن چھڑالوں اور اس تجربے کو فراموش کر دوں۔ ادھر پاکستان میں بھی انور عظیم کی قماش کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ تم کن زمانوں اور زمینوں میں آوارہ پھرتے ہو۔ تمہارے افسانے میں صرف پاکستان کی زمین نظر آنی چاہئے۔ ہندوستانی انور عظیم برہم ہے کہ مجھے اسلام ہو گیا ہے۔ پاکستانی برانڈ والے انور عظیم چیں بہ جبیں ہیں کہ تمہارے اعصاب پہ تو ہندو دیومالا سوار ہے۔

    میں ان سب سبز سرخ ہندوستانی پاکستانی انور عظیموں سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کبھی یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ تخلیقی عمل کیا ہوتا ہے۔ میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔ مگر کیا کہنا چاہتا ہوں۔ یہ کیوں کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے اس مخلوق کو صرف سننا چاہئے۔ اس سے کچھ کہنا نہیں چاہئے۔ طے تومیں یہی کرتا ہوں مگر پھر کسی کمزور لمحہ میں بول پڑتا ہوں۔ مہاتمابدھ نے کچھوے کی جاتک میرے ہی لئے توکہی تھی۔ کچھوا جب قازوں کے سہارے بلندیوں میں پہنچ ہی گیا تھا تواسے کیا پڑی تھی کہ نیچے والوں کے شوروغل پر کان دھرے اورجواب دینے کی ٹھانے۔ پھر اسے نیچے گرنا ہی تھا۔

    بشررازِ دلی کہہ کر اور ادیب جواب دے کر ذلیل وخوار ہوتا ہے۔ ذلیل وخوار ہی ہونا ہے تو آدمی عشق کرکے ذلیل وخوار ہو۔ اس ذلت وخواری کے تو کوئی معنی بھی ہوتے ہیں۔ میں یہ باتیں سمجھتا تو ہوں، خاموشی کے آداب بھی کچھ کچھ جانتا ہوں مگر انہیں نبھا نہیں پاتا۔ خاموشی کے آداب میرے کردار بہتر سمجھتے ہیں، بہتر طور پر نباہتے ہیں۔ دور کیوں جاؤ، تحسینہ اور صابرہ ہی کو دیکھ لو۔ انہیں سے میں نے جانا کہ میں چھوٹا ہوں میرے کردار مجھ سے بڑے ہیں۔

    صابرہ کے کردار کے بارے میں میرے کتنے دوستوں نے مجھے پکڑا۔ یار تم نے اس کردار پر زیادہ توجہ صرف نہیں کی۔ اس کا بیان بہت تشنہ ہے اور ادھر اسے بیان کرتے ہوئے میرا یہ حال تھا کہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا کہ مبادا بیان میں میں کوئی فقرہ فالتو لکھا جائے۔ ایسے کردار بھی ہوتے ہیں جو مفصل بیان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایک فقرہ بھی زائد لکھا جائے تو کی کرائی محنت اکارت جا سکتی ہے۔ ہاں پتے میں کنچنی کو مزید بیان کیا جا سکتا تھا۔ آخر جب وہ مرد کو رجھانے کے چالیس دانو جانتی ہے تو مجھے بھی اس کے ساتھ کچھ انصاف کرنا چاہئے۔ پھر اس کے مفصل بیان میں کیا چیز مانع ہوئی؟ میرے اخلاقی تعصبات؟ ہرگز نہیں۔ اس باب میں میرے کوئی اخلاقی تعصبات نہیں ہیں۔ مجھے تو شکایت یہ ہے کہ ہماری پرانی داستانوں کو شائع کرنے والے ادارے اور مرتبین مقامات وصل کو بر بنائے کثافت، حذف کیوں کر دیتے ہیں۔ چلئے وہ کثافت ہی سہی مگر خود لطافت کثافت بغیر اپنا جلوہ نہیں دکھا پاتی۔

    اصل میں رکا یہ سوچ کر یہ کہانی اس کنچنی کی تو نہیں ہے۔ اس کا بیان اس کے ظرف کے حساب سے نہیں، کہانی کی ضرورت کے مطابق ہونا چاہئے۔ کہانی تو یہ شراوستی کی ناری کی ہے مگر اس کا بیان کتنا ہے۔ ایک جھلک شروع میں ایک جھلک آخر میں۔ بس ننگے پیر دکھائی دیتے ہیں اور کیسری ساری۔ باقی کہیں نظر تھمتی ہی نہیں۔ میرے کردار بھی عجب ہیں۔ گزرتی عورتوں کے سینے اور کمر اور کولہوں کو ذوق وشوق سے دیکھتے ہیں مگر جسے دیکھنا چاہتے ہیں اس میں کیا دیکھ لیتے ہیں کہ پھر جسم کی تفاصیل پر آتے ہی نہیں۔

    ایک بات ناصر کاظمی کی کہی ہوئی یاد آئی۔ اچھا لکھنے والا وہ ہے جو جانتا ہے کہ اسے کہاں جاکر تھم جانا ہے۔ صحیح کہا۔ یہیں سے لکھنے والے کے اچھے اور برے ہونے کا پتا چلتا ہے۔ برا لکھنے والا وہ ہے جو بات پوری ہونے کے بعد جاری رہتا ہے۔ لکھتے ہوئے سب سے زیادہ اسی خیال سے ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ نہ ہو کہ بات پوری ہو جائے اور بیان جاری رہے۔ سو مجھے پھیلانے سے زیادہ سمیٹنے کی فکر رہتی ہے۔ شاید اسی لئے میں ضخیم ناول نہیں لکھ سکتا۔

    تو بیان کے بارے میں تو میں ترد کرتا ہوں۔ لکھتے ہوئے اپنے آپ کو ٹوکتا جاتا ہوں کہ نادان اسراف ِبیجا سے بازآ۔ دولت ہاتھ کا میل ہوتی ہے، لفظ ہاتھ کا میل نہیں ہیں۔ اتنے خرچ کر جتنوں کی ضرورت ہے۔ ہاں فارم کے بارے میں میں نے کبھی تردد نہیں کیا۔ نہ افسانے کی فارم کے بارے میں، نہ ناول کی فارم کے بارے میں۔ میں نے ’بستی‘ لکھا ہے تو اغیار کہتے ہیں کہ یہ ناول کی فارم کے مطابق نہیں۔ صاحب میں لکھتا ہوں جوتے نہیں بناتا۔ جوتے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ پیر کے ناپ کے مطابق ہو۔ میں نے نہ افسانے لکھتے ہوئے کبھی یہ سوچا کہ یہ افسانے کی ناپ کے مطابق ہے نہ ناول لکھتے ہوئے یہ خیال رکھا۔

    ’بستی‘ ناول کی فارم کے مطابق ہے یا نہیں، اس پر مجھے اپنی افسانہ نگاری کا ابتدائی زمانہ یاد آیا۔ میرے مہربان ایک زمانے تک یہی کہتے رہے کہ یہ افسانے نہیں، خاکے ہیں۔ بس اس مسلسل اعتراض کے پیچھے مجھے رفتہ رفتہ احساس ہوا کہ میں اس طرح کا افسانہ نہیں لکھتا جس طرح کا افسانہ لکھ کر میرے بزرگ تیسری اور چوتھی دہائی میں دھومیں مچا چکے ہیں۔ ’بستی‘ کی دفعہ بھی یہی ہوا۔ صحیح ہے کہ مغرب کے انیسویں صدی کے ناولوں سے ناول کا جو تصور اردو میں پہنچا تھا اور جس طرح ہمارے وضع دار نقاد اور قارئین بیسویں صدی کے ناول سے بے خبر، اس ناول کے خیال میں مگن تھے، اس سے میں اپنی بیزاری کا اظہار اپنے مضامین میں جہاں تہاں کر چکا تھا، مگر ناول لکھتے وقت میں نے ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی کہ مجھے چالو ناول کی راہ سے بچ کر چلنا ہے۔ یہ توجب ’بستی‘ پر اعتراضات کی یورش ہوئی تب میں چونکا۔ ’بستی‘ کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور اطمینان کا سانس لیا کہ خدا کا شکر ہے کہ میں چالو ناول سے بال بال بچ گیا ہوں۔

    ویسے میں اپنے معترضین کے اعتراضات سے فائدہ اٹھاکر یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ میں نے ناول کی مروجہ فارم سے کوئی بہت بڑی بغاوت کر ڈالی ہے۔ میں اس فارم کو مسمار کرنے کی نیت ضرور رکھتا ہوں مگر اندھادھند پھاوڑا بھی چلانے کا قائل نہیں۔ توڑنے سے پہلے یہ بھی سوچ لینا چاہئے کہ بنانا کیا ہے۔ محض توڑنے سے ملبہ پیدا ہوتا ہے۔ نثری نظم کی وجہ سے پہلے ہی اپنے ادب میں ملبہ اکٹھا ہو گیا ہے۔ اس میں میں اضافہ کرتا تو کیا اچھا لگتا۔

    اتنی مجھے خبر ہے کہ بیسویں صدی میں آکر یورپ میں ایسے ناول نگار پیدا ہوئے جنہوں نے ناول کے روایتی سانچے کو ملیامیٹ کر دیا۔ ان کے ہاتھوں میں اس صدی میں ناول کی شکل ہی بدل گئی، تو اگر میری ناول کے روایتی سانچے سے نہیں نبھتی تو مجھے انہیں سے رجوع کرنا چاہئے درست۔ مگر مجھے ایک اور خیال خراب کر رہا ہے۔ وہ تو مغرب والے تھے۔ انہوں نے اب آکر نئے سرے سے انسانی زندگی کو اور کائنات کو جانا پہچانا، اس عرفان سے ناول کی نئی شکل ابھری مگر میں تو مشرق کی مخلوق ہوں۔ وہ زمانہ تو رہا نہیں جب مشرق والے مغرب کی ہر چیز کو آنکھیں بند کرکے قبول کر لیا کرتے تھے۔ اب وہاں سے استفادہ کرتے ہوئے یہ خیال رہتا ہے کہ ہمیں اپنی مشرقی روح کے سامنے بھی جواب دہ ہونا ہے اور میرا معاملہ یہ ہے کہ میری ایک بغل میں الف لیلیٰ ہے اور دوسری بغل میں کتھاسرت ساگر ہے۔ افسانہ لکھوں یا ناول مجھے اپنے فکشن کی ان دو بڑی طاقتوں کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔

    مأخذ:

    علامتوں کا زوال (Pg. 227)

    • مصنف: انتظار حسین
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے