Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دلی کے چٹخارے

شاہد احمد دہلوی

دلی کے چٹخارے

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

    شاہ جہاں بادشاہ نے آگرہ کی مچ مچاتی گرمی سے بچنے کے لئے دلی کو حکومت کا صدر مقام بنانے کے لئے پسند کیا اور جمنا کے کنارے قلعہ معلیٰ کی نیو پڑی۔ یہاں ہو کا عالم تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جمنا کے کنارے کنارے ہلالی شکل میں شہر آباد ہونا شروع ہو گیا۔ ہزاروں مزدور قلعہ کی تعمیر میں لگ گئے۔ ان کے بال بچے، کنبے، قبیلے والے سب مل ملا کر لاکھ ڈیڑھ لاکھ آدمی تو ہوں گے۔ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے سودا سلف بیچنے والے بھی آ گئے۔ گھاس پھونس کی جھونپڑیاں اور کچے مکانوں کی آبادی میں خاصی چہل پہل رہنے لگی۔ لال قلعہ کے پہلو میں دریا گنج کے رخ متوسلین شاہی اور امیر امرا کے محلات، ڈیوڑھیاں اور حویلیاں بننی شروع ہو گئی۔ ادھر قلعہ کے سامنے پہاڑی پر جامع مسجد ابھرنی شروع ہوئی۔ شہر کے بازاروں کے نقشے بنے، جہاں اب پریڈ کا میدان ہے، یہاں اردو بازار، خانم کا بازار اور خاص بازار تھا۔ چاندنی چوک یہی تھا اور قلعہ کے چوک پر ختم ہوتا تھا۔ جابجا نہروں اور باغوں سے شہر کو سجایا گیا تھا۔ جب قلعہ کی تعمیر مکمل ہوئی اور بادشاہ نے اس میں نزول اجلال فرمایا تو شاہ جہاں آباد سج سجا کر دلہن بنا۔

    پہلا دربار ہوا تو بادشاہ نے خزانے کا منہ کھول دیا۔ مغل شہنشاہوں کی بے انتہا دولت پانی کی طرح بہنے لگی اور رعایا فارغ البال اور مالا مال ہو گئی۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق بازاروں میں دنیا زمانے کی چیزیں موجود۔ اس کے علاوہ فرمان ہوا کہ روز مرہ سودا گلی گلی اور کوچے کوچے پھیری والے آواز لگا کر بیچیں، چنانچہ دلی میں یہی دستور چلا آتا تھا کہ گھر بیٹھے ایک پیسے سے لے کر ہزار روپے کی چیز پھیری والوں سے بازار کے بھاؤ خرید لو۔

    اصل میں پردہ نشین خواتین کی آسائش بادشاہ کو منظور تھی کہ جس کا جی چاہے اپنی ڈیوڑھی پر ضرورت کی چیز لے لے۔ دلی کی عورتیں بیٹی کا پورا جہیز گھر بیٹھے خرید کر جمع کر لیا کرتی تھیں۔ گھر سے قدم نکالنا برا سمجھا جاتا تھا، جس گھر میں ان کا ڈولا آتا تھا، اس گھر سے ان کی کھاٹ ہی نکلتی تھی۔ کنجڑے، قصائی، کمیرے، ٹھٹیرے، قلعی گر، بڑھئی، کھٹ بنے، بزاز، منیہار، فصل کا میوہ اور رُت کا پھل بیچنے والے، حد یہ کہ پھول والے تک بڑی دلکش آواز لگاتے تھے اور گلی گلی سودا بیچتے پھرتے تھے۔ ان کی آوازیں پھر کبھی آپ کو سنائیں گے، اس وقت تو صرف ایک آواز سن لیجئے۔

    ’’ریشم کے جال میں ہلایا ہے، نکتیاں بنا قدرت کا اودا بنا جلیبا کھا لو۔‘‘ ایک تو بول دلکش، اس پر ترنم غضب۔ جی ادبدا کر یہی چاہتا ہے کہ سودے والا خالی نہ جانے پائے۔ گنڈے دمڑی کی اوقات ہی کیا؟ جھٹ آواز دی، ’’اے بھئی جلیبے والے، یہاں آنا۔‘‘

    ’’اچھا بوا‘‘ کہہ کر وہ ڈیوڑھی پر آ گیا۔ ’’ہاں بوا، کیا حکم ہے؟‘‘

    ’’اے بھئی حکم اللہ کا۔ دھیلے کا جلیبا دے جاؤ۔‘‘

    پھیری والا دھیلے کے ڈھیر سارے شہتوت دے گیا۔ اچھے زمانے، سستے سمے، پیسے میں چار سودے آتے تھے۔ دلی کے دل والے سدا کے چٹورے ہیں۔ شاید اس زبان کے چٹخارے کے ذمہ دار یہی چٹ پٹے پھیری والے ہیں جن کی سریلی آوازیں دل کو کھینچتی ہیں۔ شاید ہی کوئی سودے والا ہو جو کسی شوم کے گھر سے خالی جاتا ہو۔ دھیلی پاؤلا ہر گلی سے مل جاتا ہے۔ باہر والے دلی والوں کے یہ طور طریقے دیکھتے تو ان کی آنکھیں پھٹتیں۔ شاہی ۱۸۵۷ء کے ساتھ ختم ہوئی مگر دلی والوں کی زبان کا چٹخارہ اور شاہ خرچیاں پھر بھی نہ گئیں۔

    زبان کے چٹخارے کا ذکر آیا ہے تو اس شہر والوں کے ایک اسی پہلو کو لے لیجئے۔ دلی والوں کو اچھا کھانا اور طرح طرح کے کھانوں کا شوق تھا۔ یہ شوق انہیں ورثے میں ملا تھا۔ اگلے دلی والوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو بادشاہ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ وابستہ نہ ہو۔ بادشاہ کی دولت میں سے حصہ رسد سب کو پہونچتا تھا۔ مہنگائی نام کو نہ تھی۔ روپے پیسے کی طرف سے فراغت، بے فکری سے کماتے تھے اور بے فکری سے اڑاتے تھے اور باتوں کی طرح کھانے پینے میں بھی قلعہ والوں کی تقلید کی جاتی تھی۔ ہر قسم کے کھانے رکابدار اور باورچیوں سے تیار کرائے جاتے تھے۔ ہفت ہزاری سے لے کر ٹکے کی اوقات والے تک، ہر ایک کو خود بھی اپنے ہاتھ کا کمال دکھانے کا شوق تھا۔ آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ نے کئی کھانے ایجاد کئے جن میں سے مرچوں کا دلیہ آج بھی دلی والوں کے گھروں میں پکایا جاتا ہے۔ غریبوں میں اب بھی کسی کسی کے ہاں طاہری ایسی پکتی ہے کہ بریانی اس کے آگے ہیچ ہے۔ کبھی ان کے ہاں مونگ پلاؤ یا یخنی پلاؤ کھانے کا اتفاق ہو تو انگلیاں ہی چاٹتے رہ جائیے۔ ماش کی دال ایسی مزے دار کہ کوئی اور لگاون اس سے لگا نہیں کھاتے۔

    گھروں کے علاوہ بعض بازار کے دکانداروں نے کسی ایک چیز میں ایسا نام پایا کہ آج تک ان کی مثال دی جاتی ہے، مثلاً گھنٹے والا حلوائی، چڑیا والا کبابی، سر کی والوں کا کھیروالا، پائے والوں کے چچا کبابی، قابل عطار کے کوچے کا حلوہ سوہن والا، شاہ گنج کا نواب قلفی والا، فراش خانے کا شابو بھٹیارا، لال کنویں کا حاجی نانبائی اور چاندنی چوک کا گنجا نہاری والا۔ یہ وہ نام ہیں جو دلی میں زبان زد عام تھے، ورنہ شاید ہی کوئی محلہ ایسا ہو جس میں ان سب سودے بیچنے والوں کی دکانیں نہ ہوں۔ مشہور دکانداروں کے ہاں سودا سلف صاف ستھرا، نفیس اور ذائقہ دار ہوتا ہے۔ پشت ہا پشت سے ان کے ہاں یہی کام ہوتا چلا آتا ہے۔ ان کے خاندانی نسخے ان کے سینوں میں محفوظ رہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہر کاروبار کی طرح ان کے بھی چند بھید ہوتے ہیں۔ عوام کے اس نظریے نے اتنی شدت اختیار کی کہ طرح طرح کی روایتیں اور افواہیں شہر میں پھیل گئی تھیں۔

    چچا کبابی گولے کے کباب ایسے بناتے تھے کہ سارا شہر ان پر ٹوٹا پڑتا تھا۔ پائے والوں کے رخ جامع مسجد کی سیڑھیوں کے پہلو میں ان کاٹھیا تھا۔ چچا کے دادا کے کباب بادشاہ کے دسترخوان پر جایا کرتے تھے۔ شہر میں مشہور تھا کہ چچا کے دادا جیسے کباب نہ تو کسی بنائے اور نہ آئندہ بنائے گا۔ ان میں کچھ ایسا سلون پن پایا جاتا تھا کہ کھانے والا ہونٹ چاٹتا رہ جاتا تھا۔ ہم نے اکثر بڑے بوڑھوں سے پوچھا کہ آخر ان کبابوں میں اور ان کبابوں میں فرق کیا ہے؟ وہ کہتے، ’’میاں بس چپکے ہو جاؤ۔ کچھ کہنے کا مقام نہیں ہے۔‘‘

    ’’آخر کچھ تو بتائے۔‘‘

    ’’میاں سمجھے بھی یہ سلون پن کا ہے کا ہوتا تھا؟‘‘

    ’’نمک کا ہوتا ہوگا۔‘‘

    ’’اونھ۔ اماں آدمی کا گوشت کھلاتا تھا، آدمی کا۔‘‘

    ’’آدمی کا گوشت؟‘‘

    ’’اور نہیں تو کیا۔ جب وہ پکڑا گیا اور اس کے گھر کی تلاشی ہوئی ہے تو سیکڑوں کھوپڑیاں تہہ خانے میں نکلیں۔‘‘

    ’’آپ نے خود دیکھا تھا؟‘‘

    ’’خود تو نہیں دیکھا، البتہ کان گنہگار ہیں۔‘‘

    ’’روزانہ آدمی غائب ہوتے رہیں اور کوئی انہیں تلاش نہ کرے۔‘‘

    ’’کیا پتہ چل سکتا ہے؟ آدمیوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔‘‘

    ’’مگر کھوپڑیاں آخر تہہ خانے میں کیوں بھر رکھی تھیں؟‘‘

    ’’اوہو بھئی مجھے کیا معلوم؟‘‘

    ’’مگر۔‘‘

    ’’اگر مگر کچھ نہیں۔ تمہاری تو عادت ہی حجت کرنے کی ہے۔‘‘

    ناراض ہو کر چلے گئے۔ لاحول و لا قوۃ۔ بھلا یہ بھی کوئی سمجھ میں آنے والی بات ہے؟ افواہوں کی دیوی بڑی بھیانک ہوتی ہے جو اپنی ہزاروں خاموش لٹکی ہوئی زبانوں سے ہوا میں بِس گھولتی رہتی ہے۔

    اصل میں اجزائے ترکیبی کے صحیح اور خاص تناسب کی وجہ سے ایک مخصوص ذائقہ پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر تاؤ بھاؤ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ بھلا کھیر ایسی کونسی انوکھی چیز ہے؟ گھر گھر پکتی ہے مگر سر کی والوں کی دکان کے پیالوں میں کچھ اور ہی مزہ ہوتا تھا۔ وہی دودھ، چاول اور شکر کا آمیزہ ہے، مگر تناسب اور تاؤ بھی تو ہے، یہ معلوم ہوتا تھا کہ دولت کی چاٹ کھا رہے ہیں۔

    شابو بھٹیارے کے ہاں کا شوربہ مشہور تھا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ، ’’ہمارے ہاں بادشاہی وقت کا شوربہ ہے۔‘‘

    ’’ارے بھئی بادشاہی وقت کا؟ یہ کیسے؟‘‘

    ’’اجی حضت یہ ایسے کہ ہم شوربے میں سے روزانہ ایک پیالہ بچا لیتے ہیں اور اگلے دن کے شوربے میں ملا دیتے ہیں۔ یہ دستور ہمارے ہاں سات پیڑھی سے چلا آ رہا ہے۔ یوں ہمارا شوربہ شاہی زمانے سے چلا آتا ہے۔‘‘

    حاجی نانبائی کے ہاں یوں تو شادی بیاہ کے لئے خمیری، کلچے اور شیر مال تیار کئے جاتے اور ایسے ملائم کہ ہونٹوں سے توڑ لو، ان کا ہنر دیکھنا ہو تو فرمائش کر کے پکوا لیجئے۔ روٹیوں کے نام ہی سن لیجئے، روغنی روٹی، بری روٹی، قیمہ بھری روٹی، بیسنی روٹی، گاؤدیدہ، گاؤ زبان، باقر خانی، شیرمال، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، غوثی روٹی، نان منبہ، نان گلزار، نان قماش، تافتان، روَے کے پراٹھے، میدے کے پراٹھے، گول، چوکور، تکونے۔ غرض روٹی کی کوئی شکل اور ترکیب ایسی نہیں جوان کے تندور میں تیار نہ ہو سکتی ہو۔

    حاجی نان بائی کا ذکر آیا تو یادش بخیر میاں گنجے نہاری والے یاد آ گئے۔ اصل میں نہاری والے نان بائی ہی ہوتے ہیں، بھٹیارے نہیں ہوتے۔ نہاری تو جاڑوں میں کھائی جاتی ہے۔ گرمیوں اور برسات میں نہیں کھائی جاتی۔ خالی دنوں میں نہاری والے اپنا تندور گرم کرتے ہیں اور روٹی پکانے پر ان کی گزر اوقات ہوتی ہے۔ ۴۷ء میں دلی اجڑنے سے پہلے تقریباً ہر محلے میں ایک نہاری والا موجود تھا۔ لیکن اب سے ۴۰۔ ۵۰ سال پہلے صرف چار نہاری والے مشہور تھے۔ انھوں نے شہر کے چاروں کھونٹ داب رکھے تھے۔ گنجے کی دکان چاندنی چوک میں نیل کے کٹرے کے پاس تھی اور شہر میں اس کی نہاری سب سے مشہور تھی۔

    دلی سے باہر اکثر لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ نہاری کیا ہوتی ہے۔ بعض شہروں میں یہ لفظ کچھ اور معنوں میں مستعمل ہے، مثلاً چوپایوں کو، خصوصاً گھوڑوں کو تقویت دینے کے لئے ایک گھولوا پلایا جاتا ہے جسے نہاری کہتے ہیں۔ بعض جگہ پایوں کو نہاری کہا جاتا ہے۔ دلی میں یہ ایک خاص قسم کا سالن ہوتا تھا جو بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا تھا اور بازاروں میں فروخت ہوتا تھا۔ اس کے پکانے کا ایک خاص طریقہ ہے اور اس کے پکانے والے بھی خاص ہوتے ہیں۔ نہاری کو آج سےنہیں ۱۸۵۷ء کے پہلے سے دلی کے مسلمانوں میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یوں تو گھر میں بھی اور باہر بھی سیکڑوں قسم کے قورمے پکتے ہیں مگر نہاری ایک مخصوص قسم کا قورمہ ہے جس کا پکانا سوائے نہاری والوں کے اور کسی کو نہیں آتا۔

    اس کی پُخت و پز کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے ساری رات پکایا جاتا ہے اور پکنے کی حالت میں ہمہ وقت اس کا تاؤ مساوی رکھا جاتا ہے۔ اس کام کے لئے بڑی مشق و مہارت کی ضرورت ہے۔ تیسرے پہر سے اس کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ دکان کی دہلیز کے پاس زمین میں گڑھا کھود کر ایک گہرا چولہا یا بھٹی بنائی جاتی ہے اور اس میں ایک بڑی سی دیگ اس طرح اتار کر جمادی جاتی ہے کہ صرف اس کا گلا باہر نکلا رہ جاتا ہے۔ چولہے کی کھڑکی باہر کے رخ کھلتی ہے۔ اس میں سے ایندھن ڈالا جاتا ہے جو دیگ کے نیچے پہونچ جاتا ہے۔ آگ جلانے کے بعد جیسے قورمے کا مسالا بھونا جاتا ہے۔ گھی میں پیاز داغ کرنے کے بعد دھنیا، مرچیں، لہسن، ادرک اور نمک ڈال کر نہاری کا مسالا بھونا جاتا ہے۔ جب مسالے میں جالی پڑ جاتی ہے تو گوشت کے پارچے، خصوصاً ادلے ڈال کر انھیں بھونا جاتا ہے۔ اس کے بعد اندازے سے پانی ڈال کر دیگ کا منھ بند کر دیا جاتا ہے۔

    پکانے والے کو جب آدھ گلے گوشت کا اندازہ ہو جاتا ہے تو دیگ کا منہ کھول کر اس میں پچیس تیس بھیجے اور اتنی ہی نلیاں یعنی گودے دار ہڈیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ شوربے کو لبدھڑا بنانے کے لئے آلن ڈالا جاتا ہے۔ پانی میں آٹا گھول کر آلن بنایا جاتا ہے۔ یہ دیگ ساری رات پکتی رہتی ہے اور اس کا تاؤ دھیما رکھا جاتا ہے۔ بارہ چودہ گھنٹے پکنے کے بعد جب علی الصبح دیگ پر سے کونڈا ہٹایا جاتا ہے تو دور دور تک اس کی اشتہاء انگیز خوشبو پھیل جاتی ہے۔ سب سے پہلے دیگ میں سے بھیجے اور نلیاں نکال کر الگ لگن میں رکھ لی جاتی ہیں۔ پھر گاہکوں کا بھگتان شروع ہوتا ہے۔ یہ کھانا چونکہ دن کے شروع ہوتے ہی کھایا جاتا ہے، اس لئے اس کا نام نہار کی رعایت سے نہاری پڑ گیا۔

    ہاں تو ذکر تھا گنجے نہاری والے کا۔ دلی والوں کے علاوہ قرب و جوار سے بھی لوگ ان کی نہاری کھانے آیا کرتے تھے، خصوصاً علی گڑھ کالج کے لڑکے اتوار کو دھاوا بولا کرتے تھے۔ اسی سلسلے میں ہمیں بھی چند بار گنجے صاحب کی نہاری سے لطف اندوز ہونےکا موقع ملا۔ ان کی دکان گجردم کھلتی تھی اور کھلنے سے پہلے گاہک موجود ہوتے تھے۔ کسی کے ہاتھ میں پتیلی، کوئی بادیہ، کوئی ناشتہ دان سنبھالے سردی میں سکڑتا، سوں سوں کرتا ٹہل لگا رہا ہے۔ نپی تلی ایک دیگ پکتی اور ہاتھوں ہاتھ بک جاتی۔ ذرا دیر سے پہونچے تو میاں گنجے نے معذرت کے لہجے میں کہا، ’’میاں اب خیر سے کل لیجئے گا اور ذرا سویرے آئیےگا۔‘‘

    نہاری کے مسالوں کا وزن اور پکانے کا طریقہ اوروں کو بھی معلوم ہے مگر وہ ہاتھ اور نگاہ جو استاد گنجے کو میسر تھی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ اکثر لوگ خود ان سے دریافت بھی کرتے تھے کہ ’’آخر استاد کیا بات ہے کہ دوسروں کے ہاتھ نہاری میں یہ لذت نہیں ہوتی؟‘‘ وہ ہنس کر کہہ دیا کرتے تھے کہ ’’میاں بزرگوں کی جوتیوں کا صدقہ اور حضرت سلطان جی کا فیض ہے، ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا۔‘‘

    استاد گنجے کے کردار پر روشنی ڈالنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ ان کا سراپا بھی بیان کر دیا جائے۔ ’’گنجے‘‘ کے نام سے خواہ مخواہ ذہن میں ایک کراہت سی پیدا ہوتی ہے۔ نفیس مزاج اور نازک خیال لوگ تو گنجے کے ہاتھ کا پانی پینا بھی گوارہ نہیں کر سکتے۔ لیکن استاد کو سرے سے گنج کی بیماری تھی ہی نہیں۔ اصل میں ان کی چندیا کے بال جھڑ گئے تھے اور ٹانٹ صاف ہو کر تامڑا نکل آیا تھا، جس کے تین طرف چار انگل چوڑی بالوں کی ایک جھالر سی تھی۔

    دلی کے چلبلی طبیعت والے بھلا کب چوکنے والے تھے۔ گنجے کی پھبتی ان پر کسی اور یہ کچھ ایسی جمی کہ چپک کر رہ گئی۔ گندمی رنگ کا گول چہرہ، خشخشی ڈاڑھی، بڑی بڑی چمکدار مگر حلیم آنکھیں، باوجود نہاری فروشی کے ان کا لباس ہمیشہ صاف ستھرا رہتا تھا۔ لٹھے کا شرعی پاجامہ، نیچا کرتہ، کرتے پر بہت صوفیانہ چھینٹ کی نیم آستین، سر پر صافہ۔ کسرتی اور بھرابھرا بدن، کوئی دیکھے تو سمجھے کہ بڑے خرانٹ ہیں۔ بات بات پر کاٹنے کو دوڑتے ہوں گے، مگر ان کی طبیعت اس کے بالکل برعکس تھی۔ بالعموم نامی دکاندار بڑے بدمزاج اور غصیل ہوتے ہیں، جیسے چچا کبابی کہ بڑے ہتھ چھٹ تھے اور مارپیٹ تک سے نہیں چوکتے تھے۔ استاد گنجے بڑے خلیق اور رکھ رکھاؤ کے آدمی تھے۔ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ انہیں تاؤ آیا ہو یا کبھی ان کے منہ سے کوئی ناشائستہ کلمہ نکلا ہو۔ ہر گاہک سے چاہے وہ آنے دو آنے کا ہو، چاہے روپے دو روپے کا، بڑی نرمی سے بات کرتے اور مستقل گاہکوں کو تو اپنا مہمان سمجھتے تھے۔

    استاد گنجے کے کردار میں سب سے نمایاں چیز ان کا علم اور انکسار تھا۔ حضرت نظام الدین اولیا سے جنھیں دلی والے سلطان جی کہتے ہیں، استاد گنجے کو بڑی عقیدت تھی اور یہ سلطان جی ہی کا روحانی تصرف تھا کہ استاد کا دل گداز ہو گیا تھا۔ وہ اپنی ساری کمائی غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی امداد کرنے میں صرف کر دیا کرتے تھے۔

    سلطان جی کی سترہویں میں اپنی دکان بڑے اہتمام سے لے جاتے تھے اور سارے دنوں میں جمعرات کے جمعرات درگاہ میں حاضری پابندی سے ہوتی تھی۔ روپے پیسے سے خوش تھے مگر دلی سے سلطان جی کی درگاہ پیدل جایا کرتے تھے۔ ہر موسم کے لحاظ سے محتاجوں کو کپڑا تقسیم کرتے تھے۔ ہر مہینے گیارہویں کی تیاری ان کے ہاں بڑی دھوم سے ہوتی۔ دن بھر لنگر جاری رہتا۔ جمعرات کو ان کی دکان پر فقیروں کی لنگتار رہتی اور سب کو پیسہ ٹکا ملتا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ دکانداری شروع کرنے سے پہلے اللہ نام کا حصہ نکالا کرتے۔ اگر کوئی محتاج موجود ہوا تو پہلے اسے کھلایا ورنہ نکال کر الگ رکھ دیا۔ پھر دیگ میں سے بھیجے اور نلیاں نکال کر طباق میں رکھیں، تار اور رونق کو ایک بڑے بادیے میں الگ نکال لیا۔ اس کے بعد دکانداری شروع ہوئی۔

    دکان میں بیسیوں پتیلیاں، دیگچے اور برتن رکھے ہیں۔ کسی میں دو روپے، کسی میں روپیہ، کسی میں بارہ آنے، کسی میں آٹھ آنے پڑے ہیں۔ شوقین اور قدر دان رات کو ہی اپنے اپنے برتن دے گئے ہیں کہ صبح کو مایوس نہ ہونا پڑے۔ سب سے پہلے انہی برتنوں کی طرف استاد کی توجہ ہوتی ہے۔ بڑی تیزی اور پھرتی سے ہاتھ چلاتے ہیں، ادھر گاہکوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہیں۔ ان کی آرائش کا بھی انہیں خیال ہے۔ گاہک بھی جانتے ہیں کہ جن کے برتن پہلے آ گئے ہیں، انہیں نہاری پہلے ملے گی۔ کسی باہر والے نے، جو یہاں کے قاعدے قرینے نہیں جانتا، جلدی مچائی تو استاد نے رسان سےکہا، ’’ابھی دیتا ہوں۔ جو پہلے آیا ہے اسے اگر پہلے نہ دوں گا تو شکایت ہوگی۔‘‘

    برتنوں کی لین ڈوری ختم ہوئی تو گاہکوں کا بھگتان شروع ہوا۔ دو روپے سے دو پیسے تک کے خریدار موجود اور سب کو حصہ رسد ملتا ہے۔ تین گھنٹے میں ڈیڑھ دو سو گاہکوں کو نہاری دی اور دیگ سخی کے دل کی طرح صاف ہو گئی۔ اب جو کوئی آتا ہے تو بڑی انکساری سے کہتے ہیں، ’’میاں معافی چاہتا ہوں۔ میاں اب کل دوں گا، اللہ نے چاہا تو اللہ خیر رکھے، کل کھائیے گا۔‘‘ سبحان اللہ، کیا اخلاق تھا اور کیسی وضعداری تھی۔ آگ اور مرچوں کا کام اور اس قدر ٹھنڈے اور میٹھے! دوسروں کو دیکھئے گالی گلوج، دھکا مکی اور لپاڈگی کی نوبت رہتی ہے۔

    استاد گنجے کے ہاں دو قسم کے گاہک آتے تھے۔ ایک وہ جو خرید کر لے جاتے تھے اور دوسرے وہ جو وہیں بیٹھ کر کھاتے تھے۔ وہیں بیٹھ کر کھانے والوں کے لئے دکان کے اوپر کمرے میں نشست کا انتظام تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا صاف ستھرا کمرہ تھا جس میں چٹائیاں بچھی رہتی تھی۔ اس کمرے میں ایک ایک دو دو آدمی بھی کھاتے تھے اور دس دس بارہ بارہ کی ٹولیاں بھی۔ استاد سے جتنا جتنا اور جو جو سودا کہا جائے اتنا ہی دیتے تھے، اپنی طرف سے اس میں کمی بیشی نہیں کرتے تھے۔ مستقل گاہکوں کا بہت لحاظ کرتے تھے۔ بڑے مزاج شناس تھے اور ان کی یاد داشت بھی غضب کی تھی۔ صورت دیکھتے ہی کہتے، ’’فرمائیے حکیم صاحب، کیا حکم ہے، حکیم صاحب قبلہ تو خیریت سے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں ڈپٹی صاحب، ارشاد؟ بڑے ڈپٹی صاحب کے دیدار تو روزانہ شام کو ہو جاتے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں میاں، آپ فرمائیے؟ وکیل صاحب سےمیرا سلام عرض کیجئےگا۔‘‘

    استاد گنجے کی نہاری دلی کے سب شرفا کے ہاں جاتی تھی۔ ان کی سات پشتیں اسی دلی میں گزری تھیں۔ سارا شہر ان کو جانتا تھا اور یہ بھی دلی کی دائی بنے ہوئے تھے۔ شہر آبادی اور شہر آبادی بعد کے سارے خاندان اور ان کے رودار افراد انھیں ازبر تھے۔ کبھی موج میں ہوتے تو مزے مزے کی باتیں بھی کر لیتے۔ ’’جی چاہتا ہے کہ ڈپٹی صاحب کو ایک دن تحفہ نہاری کھلاؤں۔ اللہ نے چاہا تو اب کے وہ نہاری کھلاؤں گا کہ چلے کے جاڑوں میں پسینہ آ جائے۔‘‘

    ’’ہاں میاں تو آپ کے لئے کیا بھیجوں؟‘‘

    ’’استاد، چھ آدمیوں کے لئے نہاری کمرے پر۔‘‘

    بس اس سے زیادہ آپ کو کہنے کی اور ان کو سننے کی ضرورت نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ آپ کی نہاری کا کیا لوازمہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے ساتھی بھی آپ کے ہم مذاق ہی ہوں گے۔ فی کس پاؤ بھر نہاری کے اندازہ سے انھوں نے نہاری ایک بڑے سے بادئیے میں نکالی۔ گھی آدھ پاؤ فی کس کے حساب سے داغ کرنے انگیٹھی پر رکھ دیا۔ اتنے گھی تیار ہو، انھوں نے چھ بھیجے توڑ صاف صوف کر نہاری میں ڈال دیئے اور بارہ نلیاں بھی اس میں جھاڑ دیں۔ اوپر سے کڑکڑاتا گھی ڈال تانبے کی رکابی سے ڈھک دیا۔ لڑکے کو آواز دے کر پہلے غوریاں اور چمچہ اوپر بھیجا۔ لڑکے نے اوپر پہونچ کر کھونٹی پر سے کھجور کا بڑا سا گول دستر خوان بیچ میں بچھا دیا اور اس پر غوریاں چن دیں۔ پھر لپک کر نیچے آیا اور نہاری کا بادیہ احتیاط سے اوپر پہونچا دیا۔

    پھر آفتابہ اور سلفچی لے کر ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔ اتنے وہ ہاتھ دھلائے دوسرا لڑکا تھئی کی تھئی خمیریاں اور ایک رکابی میں گرم مسالہ، ادرک کی ہوائیاں، ہری مرچیں اور کھٹا رکھ گیا۔ سب دستر خوان پر ہو بیٹھے تو وہی لڑکا دہر دہر جلتی انگیٹھی ایک سینی میں ان کے پاس رکھ گیا۔ لڑکا روٹی سینک سینک کر دیتا جاتا ہے۔ دوستوں کے قہقہے چہچے ہوتے جاتے ہیں۔ گھی نے نہاری کی لذت بڑھانے کے علاوہ مرچوں کا دف بھی مار دیا ہے۔ نہاری ذرا ٹھنڈی ہوئی اور غوری انگیٹھی پر رکھی گئی۔

    لیجئے، استاد نے آپ کے دوستوں کے لئے ایک خاص تحفہ بھیجا ہے۔ تنور میں سے گرم گرم روٹیاں نکال کر گھی میں ڈال دیں اور روٹیاں گھی پی کر ایسی خستہ اور ملایم ہو گئی ہیں جیسے روئی کے گالے۔ واہ واہ! کیا مزاج دانی اور ادا شناسی ہے! جبھی تو آج تک گنجے نہاری والے کو دلی والے یاد کرتے ہیں۔

    یہ تو خیر امیروں کے چونچلے ہیں۔ اصل میں نہاری غریب غربا کا من بھاتا کھا جا ہے۔ دستکار، مزدور اور کاریگر صبح صبح کام پر جانے سے پہلے چار پیسےمیں اپنا پیٹ بھر لیتے تھے۔ دو پیسے کی نہاری اور دو پیسے کی دو روٹیاں ان کے دن بھر کے سہارے کو کافی ہوتیں۔ گھر میں علی الصبح چار پیسے میں بھلا کیا تیار ہو سکتا ہے؟

    سستے اور بابرکت سمے تھے۔ ایک کماتا دس کھاتے تھے۔ اب دس کماتے ہیں اور ایک کو نہیں کھلا سکتے۔ وہ وقت نہیں رہے۔ میاں گنجے نہاری والے بھی گزری ہوئی بہاروں کی ایک چٹ پٹی داستان بن کر رہ گئے۔

    سدا رہے نام اللہ کا۔

    مأخذ:

    دلی جو ایک شہر تھا (Pg. 28)

    • مصنف: شاہد احمد دہلوی
      • ناشر: فیاض رفعت
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے