- کتاب فہرست 185989
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1981
طرز زندگی22 طب923 تحریکات299 ناول4795 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1460
- دوہا48
- رزمیہ108
- شرح200
- گیت60
- غزل1185
- ہائیکو12
- حمد46
- مزاحیہ36
- انتخاب1597
- کہہ مکرنی6
- کلیات691
- ماہیہ19
- مجموعہ5045
- مرثیہ384
- مثنوی838
- مسدس58
- نعت561
- نظم1246
- دیگر76
- پہیلی16
- قصیدہ189
- قوالی18
- قطعہ63
- رباعی296
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت26
شاہد احمد دہلوی کے مضامین
اردو زبان کا مسئلہ
برادر مکرم طفیل صاحب۔ سلام مسنون تازہ ’’نقوش‘‘ میں آپ کا اداریہ ’’طلوع‘‘ پڑھا۔ آپ نے اس میں اردو کے ایک نہایت اہم مسئلے کو چھیڑا ہے۔ یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اتنا ہی نازک بھی ہے۔ خصوصاً میرے لئے کہ میرے بیان سے بعض آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا اندیشہ ہے۔
دلی کا آخری تاجدار
مرزا غالب نے کہا ہے، شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی ہوا۔ آخری وقت کچھ اس طرح کا دھواں اٹھا کہ ساری محفل سیاہ پوش ہو گئی۔ یوں تو اورنگ زیب کے بعد ہی اس عظیم الشان مغلیہ سلطنت میں انحطاط کے آثار پیدا ہو چکے
دلی کے چٹخارے
شاہ جہاں بادشاہ نے آگرہ کی مچ مچاتی گرمی سے بچنے کے لئے دلی کو حکومت کا صدر مقام بنانے کے لئے پسند کیا اور جمنا کے کنارے قلعہ معلیٰ کی نیو پڑی۔ یہاں ہو کا عالم تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جمنا کے کنارے کنارے ہلالی شکل میں شہر آباد ہونا شروع ہو گیا۔ ہزاروں
بھانڈ اور طوائفیں
شاہی اور شہر آبادی کا تو ذکر ہی کیا، اب سے چالیس پچاس سال پہلے تک دلی میں ایک سے ایک منچلا رئیس تھا۔ ریاست تو خیر باپ دادا کے ساتھ ۱۸۵۷ء میں ختم ہو گئی تھی مگر فرنگی سرکار سے جو گزارا انہیں ملتا تھا، اس میں بھی ان کے ٹھاٹ باٹ دیکھنے کے لائق تھے۔ انہیں
شام کی چہل پہل
جامع مسجد کے جنوبی رخ کی سیڑھیوں پر کوئی بازار نہیں تھا۔ اکثر فقیر اور کنگلے ان پر پڑے رہتے تھے۔ ایک مجذوب ہیں مادر زاد ننگے، نابینا ہیں، حافظ جی کہلاتے ہیں۔ خاک میں لوٹتے رہتے ہیں۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا حافظ جی کو ایک ساہی دیکھا۔ انھیں دلی والے بڑا
شاہ جہانی دیگ کی کھرچن
اب سے چالیس پینتالیس سال پہلے تک دلی میں شاہجہانی دیگ کی کھرچن باقی تھی۔ بڑے وضع دار لوگ تھے یہ دلی والے۔ جب تک جیتے رہے ان کی وضع میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ہر شخص اپنی جگہ پر ایک نمونہ تھا، ایک نگینہ تھا دلی کی انگوٹھی میں جڑا ہوا۔ انہیں دیکھ کر آنکھوں
ہمارے ساز
موسیقی کے تین عناصر ہیں۔ گانا، بجانا اور ناچنا۔ یہ سب ذرائع ہیں اظہارِ جذبات کے۔ فنکار کسی جذبے کی تصویر بناتا ہے یا خود تصویر بن جاتا ہے اور سننے والے یا دیکھنے والے کے دل میں بھی وہی جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔ کمالِ فن یہی ہے کہ فنکار دوسروں کو بھی اسی
دلی والوں کے شوق
دلی والوں کو اپنی جان بنائے رکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اس شوق کو پورا کرنے کے لئے ورزش کیا کرتے تھے اور ورزشی کھیلوں میں شریک ہوتے تھے۔ ہر گھر میں بگ ڈڑ اور مگدروں کی جوڑی ضرور ہوتے تھے۔ بعض لوگ بگ ڈڑ کا کام گما انٹیوں سے لیتے تھے۔ دیسی ورزش سے سینے چوڑے
قطب صاحب کی سیر
عجب بےفکرے تھے یہ دلی والے بھی۔ اپنی جان کو کوئی غم نہ لگاتے تھے۔ کہتے تھے، ’’فکر جان کا روگ ہوتا ہے۔ ہم غم کیوں پالیں؟ پالیں ہمارے دشمن، بیری۔ شکر خورے کو شکر اور موذی کو ٹکر۔ میاں اسی لئے تو کماتے دھماتے ہیں کہ آنند کے تار بجائیں۔ ان کی بھلی چلائی
دلی کے دل والے
’’دلی کی دل والی، منھ چکنا پیٹ خالی۔‘‘ یہ جو مثل مشہور ہےتو اس میں بہت کچھ صداقت بھی ہے۔ روپے پیسے والوں کا تو ذکر ہی کیا؟ انھیں تو ہمہ نعمت چٹکی بجاتے میں مہیا ہو جاتی ہے۔ دلی کے غریبوں کا یہ حوصلہ تھا کہ نہوتی میں دھڑلَے سے خرچ کرتے، کل کی فکر انہیں
پھول والوں کی سیر
امریوں میں پورا دن گزار کر جب آغا نواب مہرولی میں اپنے بالا خانے پر پہونچے تو سب تھک کر چور ہو رہے تھے۔ بڑے تو خیر بیٹھے سیر دیکھا کئے مگر بچوں نے کچھ کم ادھم مچائی تھی؟ جب رات کا کھانا کھا کر لیٹے تو ایسے گھوڑے بیچ کر سوئے کہ بس صبح کی خبر لائے۔ قطب
چٹورپن
دلی والے بڑے چٹورے مشہور تھے۔ انہیں زبان کے چٹخاروں نے مار رکھا تھا۔ کچھ مردوں ہی پر موقوف نہیں، عورتیں بھی دن بھر چرتی رہتی تھیں اور کچھ نہیں تو پان کی جگالی ہی ہوتی رہتی تھی۔ بنگلہ پان تو غریب غربا بھی نہیں کھاتے تھے۔ جب دیسی پان افراط سے ملتا تو موٹے
ساقی کا پہلا اداریہ (۱۹۳۰ء)
بنامِ شاہد نازک خیالاں عزیزِ خاطر آشفتہ حالاں اردو کو بہت پرانی زبان ہونے کا دعویٰ نہیں، مگر اس تھوڑی سی عمر میں اس نے اتنا عروج حاصل کیا اور اس قدر مقبول ہوئی کہ اس کی مثال السنۂ عالم میں نہیں ملتی۔ اس کا اقبال و رواج فی الحقیقت قابل رشک ہے۔ ہمارے
دلی کے حوصلہ مند غریب
میاں شبو اور ان کے دوست جب چچا کے ٹھئے سے چلے تو شبو بولے، ’’میاں یہ بڈھا بڑا وضع دار ہے۔ تم اس کے میلے کپڑوں اور مفلسی کو نہ دیکھو۔ اس نے اپنی ضد کے پیچھے لاکھ کا گھر خاک کر رکھا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی جگہ ٹھیا لگانے کی ہے؟ ادھر تو رستہ ہی نہیں چلتا۔
join rekhta family!
-
ادب اطفال1981
-