Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shahid Ahmed Dehlvi's Photo'

شاہد احمد دہلوی

1906 - 1966 | کراچی, پاکستان

صاحب طرز ادیب، رسالہ ساقی کے مدیر،مترجم ، ماہر موسیقی، ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیرالدین احمد کے فرزند تھے۔

صاحب طرز ادیب، رسالہ ساقی کے مدیر،مترجم ، ماہر موسیقی، ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیرالدین احمد کے فرزند تھے۔

شاہد احمد دہلوی کا تعارف

تخلص : 'شاہد احمد دہلوی'

اصلی نام : شاہد احمد

پیدائش : 22 May 1906 | دلی

وفات : 27 May 1966 | کراچی, سندھ

LCCN :n85184838

شاہد احمد دہلوی 22مئی1906ء کو دلّی میں پیدا ہوئے۔ یہ مولودی نذیراحمد کے پوتے اور مولوی بشیرالدین کے بیٹے تھے۔  ان کے والد ریاست حیدرآباد میں ملازم تھے۔ لہٰذا ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی لیکن اس کے بعد وہ علیگڑھ آئے اور دلّی منتقل ہوگئے۔ عربک اسکول سے انہوں نے دسویں درجے کا امتحان پاس کیا، پھر لاہور چلے گئے۔ جہاں کے فورمین کرسچن کالج میں داخلہ لیا۔ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔ ایف ای سی کے بعد میڈیکل میں داخلہ بھی لیا۔ لیکن مردوں کے پوسٹ مارٹم جیسے مناظر سے سخت گھبرائے اور بالآخر ڈاکٹر بننے کا ارادہ ترک کردیا۔ اس کے بعد اسٹیفن کالج سے انگریزی لے کر آنرس کیا۔ لیکن دہلی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے ہوئے۔ موسیقی سے بھی ان کا گہرا تعلق تھا۔ تعلیم کے مکمل ہوجانے کے بعد 1930ء میں ماہنامہ ’’ساقی‘‘ جاری کیا اور اسی نام سے ایک بک ڈپو بھی قائم کیا۔ ان کا رسالہ بہت مقبول ہوا۔ لیکن پاکستان کی تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے۔ پہلے لاہور پھر کراچی منتقل ہوگئے۔ وہیں سے انہوں نے پھر اپنا رسالہ جاری کیا۔ رسالے کی زندگی کے لئے مستقل تگ و دو کرتے رہے لیکن حالات ہمیشہ ناخوشگوار رہے۔ ریڈیو پر بعض مضامین لکھے جہاں کہیں سے بھی آمدنی ہوتی رسالے پر خرچ ہوجاتی پھر وہ پاکستان رائٹرس گلڈ 1959ء کی تاسیس میں لگ گئے۔

شاہد احمد دہلوی ایک ذی علم آدمی کا نام ہے۔ ان کی تصنیفات و تالیفات کی تعداد پچاس کے قریب ہے ان میں کئی کتابیں خاصی مشہور ہیں۔ مثلاً ’’دلّی کا بپتا‘‘، ’’گنجینہ گوہر‘‘، ’’اور فائسٹ‘‘۔ زندگی بھر محنت کرتے رہے اور شعروادب کی ترویج واشاعت میں نمایاں کام انجام دیا۔

شاہد احمد دہلوی زبان پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔ خصوصاً ٹکسالی زبان پر۔ شاید اس معاملے میں ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ انہیں اس کا احساس بھی تھا۔ مسلسل محنت اور شب بیداری کی وجہ سے ان کی صحت خراب رہنے لگی اور آخرش دل کے دورے کی وجہ سے 27مئی 1967ء کو جاں بحق ہوگئے۔

شاہد احمد دہلوی دراصل نذیر احمد اور بشیرالدین احمد کی روایتوں کے امین رہے تھے۔ ان کے والد نے ’’واقعات دارالحکومت دہلی‘‘ لکھ  کر جس طرح شہرت حاصل کی تھی وہ سبھی جانتے ہیں۔ ایسی وراثت کو شاہد احمد دہلوی نے صاف و شفاف دھلی دھلائی زبان میں قائم رکھا اور اپنے رسالے کے بعض خصوصی شماروں سے اردو ادب کی ترویج کرتے رہے۔ ان کا منفرد اسلوب اور ٹکسالی زبان کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے