- کتاب فہرست 188048
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں55
ادب اطفال2070
ڈرامہ1025 تعلیم377 مضامين و خاكه1518 قصہ / داستان1720 صحت107 تاریخ3560طنز و مزاح747 صحافت215 زبان و ادب1972 خطوط812
طرز زندگی24 طب1031 تحریکات300 ناول5018 سیاسی370 مذہبیات4873 تحقیق و تنقید7317افسانہ3047 خاکے/ قلمی چہرے293 سماجی مسائل118 تصوف2278نصابی کتاب567 ترجمہ4566خواتین کی تحریریں6352-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1492
- دوہا53
- رزمیہ106
- شرح209
- گیت63
- غزل1321
- ہائیکو12
- حمد53
- مزاحیہ37
- انتخاب1653
- کہہ مکرنی7
- کلیات713
- ماہیہ21
- مجموعہ5321
- مرثیہ400
- مثنوی881
- مسدس60
- نعت598
- نظم1312
- دیگر78
- پہیلی16
- قصیدہ200
- قوالی18
- قطعہ71
- رباعی306
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت28
شاہد احمد دہلوی کا تعارف
شاہد احمد دہلوی 22مئی1906ء کو دلّی میں پیدا ہوئے۔ یہ مولودی نذیراحمد کے پوتے اور مولوی بشیرالدین کے بیٹے تھے۔ ان کے والد ریاست حیدرآباد میں ملازم تھے۔ لہٰذا ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی لیکن اس کے بعد وہ علیگڑھ آئے اور دلّی منتقل ہوگئے۔ عربک اسکول سے انہوں نے دسویں درجے کا امتحان پاس کیا، پھر لاہور چلے گئے۔ جہاں کے فورمین کرسچن کالج میں داخلہ لیا۔ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔ ایف ای سی کے بعد میڈیکل میں داخلہ بھی لیا۔ لیکن مردوں کے پوسٹ مارٹم جیسے مناظر سے سخت گھبرائے اور بالآخر ڈاکٹر بننے کا ارادہ ترک کردیا۔ اس کے بعد اسٹیفن کالج سے انگریزی لے کر آنرس کیا۔ لیکن دہلی یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے ہوئے۔ موسیقی سے بھی ان کا گہرا تعلق تھا۔ تعلیم کے مکمل ہوجانے کے بعد 1930ء میں ماہنامہ ’’ساقی‘‘ جاری کیا اور اسی نام سے ایک بک ڈپو بھی قائم کیا۔ ان کا رسالہ بہت مقبول ہوا۔ لیکن پاکستان کی تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے گئے۔ پہلے لاہور پھر کراچی منتقل ہوگئے۔ وہیں سے انہوں نے پھر اپنا رسالہ جاری کیا۔ رسالے کی زندگی کے لئے مستقل تگ و دو کرتے رہے لیکن حالات ہمیشہ ناخوشگوار رہے۔ ریڈیو پر بعض مضامین لکھے جہاں کہیں سے بھی آمدنی ہوتی رسالے پر خرچ ہوجاتی پھر وہ پاکستان رائٹرس گلڈ 1959ء کی تاسیس میں لگ گئے۔
شاہد احمد دہلوی ایک ذی علم آدمی کا نام ہے۔ ان کی تصنیفات و تالیفات کی تعداد پچاس کے قریب ہے ان میں کئی کتابیں خاصی مشہور ہیں۔ مثلاً ’’دلّی کا بپتا‘‘، ’’گنجینہ گوہر‘‘، ’’اور فائسٹ‘‘۔ زندگی بھر محنت کرتے رہے اور شعروادب کی ترویج واشاعت میں نمایاں کام انجام دیا۔
شاہد احمد دہلوی زبان پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔ خصوصاً ٹکسالی زبان پر۔ شاید اس معاملے میں ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ انہیں اس کا احساس بھی تھا۔ مسلسل محنت اور شب بیداری کی وجہ سے ان کی صحت خراب رہنے لگی اور آخرش دل کے دورے کی وجہ سے 27مئی 1967ء کو جاں بحق ہوگئے۔
شاہد احمد دہلوی دراصل نذیر احمد اور بشیرالدین احمد کی روایتوں کے امین رہے تھے۔ ان کے والد نے ’’واقعات دارالحکومت دہلی‘‘ لکھ کر جس طرح شہرت حاصل کی تھی وہ سبھی جانتے ہیں۔ ایسی وراثت کو شاہد احمد دہلوی نے صاف و شفاف دھلی دھلائی زبان میں قائم رکھا اور اپنے رسالے کے بعض خصوصی شماروں سے اردو ادب کی ترویج کرتے رہے۔ ان کا منفرد اسلوب اور ٹکسالی زبان کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔موضوعات
اتھارٹی کنٹرول :لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : n85184838
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں55
ادب اطفال2070
-
