aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دلی کے دل والے

شاہد احمد دہلوی

دلی کے دل والے

شاہد احمد دہلوی

MORE BYشاہد احمد دہلوی

    ’’دلی کی دل والی، منھ چکنا پیٹ خالی۔‘‘ یہ جو مثل مشہور ہےتو اس میں بہت کچھ صداقت بھی ہے۔ روپے پیسے والوں کا تو ذکر ہی کیا؟ انھیں تو ہمہ نعمت چٹکی بجاتے میں مہیا ہو جاتی ہے۔ دلی کے غریبوں کا یہ حوصلہ تھا کہ نہوتی میں دھڑلَے سے خرچ کرتے، کل کی فکر انہیں مطلق نہ ہوتی تھی۔ کوڑی کفن کو لگا نہیں رکھتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جس نے دیا ہے تن کو وہی دےگا کفن کو۔ عجب دل والے اور بےفکرے تھے۔ لنگوٹی میں پھاگ کھیلتے تھے۔ تن کو نہیں لتہ، پان کھائیں البتہ۔ ذرا سی بات کے پیچھے لاکھ کا گھر خاک کر دیتے۔ گھر پھونک تماشہ دیکھنا انھیں خوب آتا تھا مگر ان کی کمائی میں برکت بھی ایسی تھی کہ پھر لہر بہر ہو جاتی۔

    اماں بھٹیارے کی بھی کوئی اوقات ہے؟ بیٹی کی چھٹی میں سونے چاندی کی کھچڑی بھیجی تھی۔ چاندی کے چاول اور سونے کی دال۔ پہاڑ گنج کے ایک سادہ کار نے بیٹے کے بیاہ میں چاندی کی چتی ہوئی طشتریاں تقسیم کیں جن میں ایک ایک سونے کا پھول جڑا ہوا تھا۔ ان طشتریوں میں پاؤ پاؤ بھر کھوئے کے پیڑے، اوپر سے ایک ریشمی رومال بندھا ہوا۔ اسی برات میں بیٹی والوں نے میناکاری کی بیضوی ڈبیوں میں بُن دھنیا بانٹا تھا۔ سوئی والوں کے سقوں میں ایک شادی ہوئی تو ہزار کی پوری برادری کو دہرا کھانا کھلایا گیا۔ پھر بھنگیوں میں گھر گھر حصے بھیجے گئے۔ دو قسم کا سالن، میٹھے گھیئے کا اور قورمہ۔ شیرمال اور خمیری روٹی، بڑی بڑی لاکھی رکابیوں میں بریانی اور زردہ۔ ایک ایک جوڑ فیرنی کا۔ ایک گھر میں اگر دس بیاہے ہیں تو دسوں کے دس حصے۔ انھیں دیکھ کر شہر آبادی کے تورے یاد آتے تھے۔ ہم نے تو تورے دیکھے نہیں، ہاں بڑی بوڑھیوں سے ان کا ذکر ضرور سنا ہے کہ ایک تو رہ کم از کم بیس آدمیوں کے ئے کافی ہوتا تھا۔

    سقے، کنجڑے، نائی، قصائی، کمیرے، ٹھیڑے، قلعی گر، بٹیے، کندلہ کش، ورق کوب، سادہ کار، نیاریے، غرض سارے کرخندار اور دستکار اسی دریا دلی سے روپیہ خرچ کرتے تھے۔ اور تو اور ایک دفعہ ایک برات دیکھی۔ روشنی کے جھاڑ بے شمار، ان کے پیچھے انگریزی بینڈ باجہ، اس کے پیچھے نفیری کا ایک طائفہ، اس کے بعد ایک طوائف مع سفردار، برات چند قدم چلتی اور رک جاتی۔ طوائف مبارکبادی کے دو بول گاتی، گت بھرتی، تھئی تھئی ناچتی، بیل لیتی، سلام کرتی اور برات آگے بڑھ جاتی۔ گہنا پہنے ہوئے نقرے پر ننہا سا دولہا سوار۔

    دولہا کے پیچھے دولہا کے ابا، زری کی چھوٹی باڑھ کی گول ٹوپی سر پر، زربفت کی اچکن اور سفید ساٹن کا آڑا پاجامہ پہنے اسی گھوڑے پر سوار۔ دولہا کے گھوڑے کے پیچھے پالکی جس پر چمکتے دوپٹے پڑے ہوئے۔ آخر میں مسہری اور جہیز کی لنگتار، کھانچیوں میں چمچماتے ہوئے برتن رکھے ہوئے۔ ہر دس قدم پر روشنی کا ایک ہنڈا۔ پالکی اور دولہا پر سے مٹھیاں بھر بھر کے ریزگاری کی بکھیر ہوتی جاتی ہے۔ کنگلے لوٹتے جاتے ہیں، ایک کے اوپر ایک گداگد گر رہا ہے۔ یہ کسی کی برات نہیں چڑھ رہی۔ گڈے گڈیا کا بیاہ ہے۔ اس میں شادی بیاہ کی ساری رسمیں پوری کی جائیں گی۔ لاڈ پیار اور مان تان اولاد کا اتنا تو ہو۔

    وہ دیکھئے، مٹیا محل کی طرف سے ایک برات آتی دکھائی دے رہی ہے۔ نفیری کی تانیں اڑ رہی ہیں۔ گھوڑے پر ایک صاحب مرغ زریں بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے آگے ایک بچہ ہے تین چار سال کا۔ سر پر سہرا بندھا ہے۔ بدن میں بدھی ہے۔ اماں یہ کیسی برات ہے؟ اجی حضت، یہ برات نہیں ہے، بچہ گھوڑی چڑھا ہے۔ اس کی ختنہ ہوئی تھی۔ اچھے ہونے کی خوشی منائی جا رہی ہے۔ ختنہ کودلی والے ’’مسلمانیاں‘‘ کہتے ہیں۔ صاحب زادے کی مسلمانیاں ہوئی ہیں۔ مسجد کو سلام کرنے جا رہے ہیں۔ یہ صاحب جو بچے کو گھوڑے پر لئے بیٹھے ہیں، ابا ہیں، پیچھے ڈولیوں میں اماں ہیں اور رشتے کنبے کی عورتیں ہیں۔ یہ طاق بھریں گی اور چاندی کےچراغ جلائیں گی۔ لو بھئی سنتوں سے ادا ہوئے، بھلا خوشی کیوں نہ منائیں، قرض دام بھی اللہ اتروا دےگا۔

    چوہا بل میں سماتا نہیں دم سے باندھے چھاج! دلی کے غریبوں کے کھنڈلوں میں آدمیوں کے رہنے کے لئے بھی جگہ کم ہوتی تھی، کجا یہ کہ ان میں جانور بھی پالے جائیں؟ مگر شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں دو چار جانور نہ پلے ہوئے ہوں۔ ہر گھر میں کبوتروں کے دس پانچ جوڑے ہوتے تھے۔ کبوتر بہت بے ضرر اور بھولا جانور ہے۔ اسی لئے اسے معصوم سمجھا جاتا ہے اور بعض لوگ تو اسے سید سمجھتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس گھر میں کبوتر ہوتے ہیں، اس گھر میں بیماری نہیں آتی۔ گھٹے ہوئے گھروں میں ہوا کا گزر کہاں؟ کبوتروں کے اڑتے رہنے سے ہوا صاف ہوتی رہتی ہے۔ کبوتروں کا شوق اور کبوتروں کی مانگ بڑھی تو کبوتر بازوں نے نئی نئی نسلیں تیار کر لیں۔ چوک کی سیڑھیوں پر بائیں طرف ہر قسم کے کبوتروں کے ڈھیروں کھانچے اور پنجرے بھرے رہتے تھے۔ جو نسل آپ پسند فرمائیں مول تول کر کے لے لیں۔ بیسیوں قسم کے کبوتر ہوتے تھے، اب تو ان کے پورے سے نام بھی یاد نہیں رہے۔ چند نام یہ ہیں،

    لال بند، جنگلا، سفیدا، پلکہ، تفتہ، کلپوٹیہ، کمبریا، تبولیہ، زرد پوٹیہ، لال بند کھیرا، سبز کھیرا، لال جوگیا، لال دیڑ، سبز ڈیڑ، کالا ڈیڑ، انجیریادیڑ، امیری، زمیری، طاؤس، چوئے چندن، کالا مکھی، سبز مکھی، اودھا مکھی، سفید لقا، سیاہ لقا، سبز لقا، یاہو سفید، یاہو چوٹی دار، بھانتا، لوٹن، نثاور اہررنگ کا، خال، لال، کالا، سبز، عنابی، کاسنی، بھورا، پٹیہ ہر رنگ کا، تابڑے، چتیلے، نقاب پوش، گلوئے لکھئی، گلوئے ہر رنگ کے، شیرازی گولے، گرہ باز، کابلی۔

    ان میں سے بیشتر خوشنمائی کے لئے رکھے جاتے تھے اور چند اڑانے کے لئے۔ اڑنے والوں کی اڑانوں میں فرق ہوتا تھا۔ بعض ایسے ہوتے تھے جن کی ٹکڑیاں بنائی جاتی تھیں اور پورے جھلڑ کو ایسا سدھایا جاتا تھا کہ پرا بناکر دور دور ہو آتے اور کسی اور ٹکڑی میں بھی گھل مل جاتے، مگر ایسے گردان ہو جاتے کہ ایکوں ایک اپنی چھتری پر واپس آ جاتا۔ اگر ان میں سے کوئی بھٹک کر دوسری ٹکڑی کے ساتھ چلا جاتا تو دوسری ٹکڑی والا اسے چپکے سے پکڑ لیتا۔ پہلی ٹکڑی والا اسے اپنی ہار سمجھتا اور ضرورت سمجھتا تو منہ مانگے دام دے کر دوسری ٹکڑی والے سے واپس لے آتا۔ ورنہ بھٹک جانے والے کبوتر کو اس لائق نہ سمجھا جاتا کہ اسے دوبارہ ٹکڑی میں شامل کیا جائے۔ جھوٹے کا اعتبار ہی کیا؟

    بعض کبوتر ایسے ہوتے ہیں جو دیر تک اڑ سکتے ہیں۔ کبوتر باز انہیں طرح طرح کی غذائیں کھلا کر تیار کرتے ہیں۔ پھر آپس میں شرطیں لگ جاتی ہیں کہ صبح کو ایک ساتھ کبوتر اڑائے جائیں، جس کا کبوتر پہلے اتر آیا وہ ہارا۔ یہ کبوتر سارے سارے دن آسمان کا تارا بنے اڑتے رہتے اور دونوں وقت ملتے اترتے۔

    ایک زمانے میں نامہ بر کبوتر بھی ہوتے تھے۔ ہمارے زمانے میں یہ کبوتر دلی میں نہیں تھے، البتہ جاپان کے ایک اخبار کے دفتر میں ان کا پنجرہ نظر آیا تھا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ خبر رساں کبوتر ہیں۔ بعض رپورٹر اپنے ساتھ ان میں سے دو چار کبوتر لے جاتے ہیں اور جب کسی واقعہ کی اطلاع فوراً دینی ہوتی ہے تو ایک پرزہ لکھ کر کبوتر کے پاؤں میں باندھ دیتے ہیں۔ کبوتر اڑکر سیدھا اپنے اخبار کے دفتر پہنچ جاتا ہے۔ ٹیلیفون کے زمانے میں بھی جاپان میں خبر رساں کبوتروں سے کام لیا جاتا ہے۔ سنا ہے کہ کوئی شاہی کبوتر باز تھے۔ جب بادشاہ جمعہ کی نماز کو قلعۂ معلی سے مولا بخش ہاتھی پر سوار ہوکر برآمد ہوتے تو شاہی کبوتر باز کبوتروں کی ٹکڑی کو اس خوبی سےاڑاتا کہ بادشاہ کے سر پر ان کا سایہ رہتا۔

    خلیل خاں کا بھی قصہ مشہور ہے کہ فاختہ اڑاتے تھے۔ فاختہ کو ایک بہت کم عقل پرندہ سمجھا گیا ہے، اس لئے کہ اگر اسے اڑایا جائے تو پھر فاختہ اڑتی ہی چلی جاتی ہے، واپس نہیں آتی، مگر اگلے وقتوں میں کوئی صاحب خلیل خاں نامی تھے جنھوں نے فاختاؤں کو بھی کبوتروں کی ٹکڑی کی طرح اڑا کر دکھا دیا۔ یہ تو ہم نے بھی دیکھا ہے کہ ایک صاحب سبک سے ٹھیلے پر ایک پنجرہ پدڑیوں کالے کر نکلا کرتے تھے۔ جہاں چاہتے پنجرہ کھول کر پدڑیوں کو اڑا دیتے اور جب چاہتے انہیں واپس بلا لیتے۔ یہ پدڑی وہی حقیر سی چڑیا ہے جس کے بارے میں کہاوت مشہور ہے کہ ’’کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ؟‘‘ یا ایک مثل اور ہے کہ ’’باپ نے نہ ماری پدڑی بیٹا تیر انداز۔‘‘

    بئے کے بارے میں جو مشہور ہے کہ اسے چھلّا دکھا کر چھلّا کنویں میں اچھال دیجئے۔ وہ اس چھلے کو پانی تک پہونچنے سے پہلے نکال لاتا ہے، یہ کوئی روایت نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے اور ہم نے یہ ماجرا اکثر دیکھا ہے۔ بعض لوگوں نے بئے کو ایسا سدھایا تھا کہ اس کی چونچ میں ایک الائچی دے دی اور اشارہ کر دیا۔ بیا اڑ کر اس کے منہ میں الائچی دے آتا تھا جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہو۔ فال نکالنے والے جوپٹریوں پر پنجرے لئے اور بہت سارے لفافے لگائے بیٹھے رہتے ہیں ان کے پنجرے میں بھی بیا ہی ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کام کے لئے طوطے کو بھی سدھا لیا ہے۔ طوطے تو تقریباً ہر گھر میں پالے جاتے تھے۔ ٹوئیاں سے لے کر پہاڑی طوطے تک سب کو کچھ نہ کچھ بولنا سکھا دیا جاتا تھا۔ ’’مٹھو بیٹے۔ نبی جی بھیجو۔ حق اللہ پاک ذات اللہ‘‘ تو ہر طوطا کہنے لگتا تھا۔ کا کتوا بھی صاف صاف بولنے لگتا تھا اور سیٹی تو بڑے زور میں دیتا تھا۔

    بلبل صرف لڑانے کےلئے پالے جاتے تھے۔ ان کی لڑائی بڑی خوبصورت ہوتی ہے۔ لڑانے کے لئے کٹیرے بھی پالے جاتے تھے۔ انہیں گل دم بھی کہتے تھے۔ بٹیر تھیلیوں میں بند رہتے تھے۔ بٹیر بازوں کو جب بھی فرصت ملتی بٹیر کو مٹھی میں لے لیتے اور پان کی پیک سے اس کا سر رنگتے رہتے۔ شرطیں بدکے بٹیروں پر پالیاں جمائی جاتیں۔ جب آرپار کشتی دیکھنی ہوتی یعنی ایسی جس میں دو میں سے ایک زندہ رہ جائے تو بٹیروں کے پنجوں میں چھوٹے چھوٹے چاقو کے پھل باندھ دیے جاتے۔ چونچیں ملتیں اور لاتیں چلتیں، یہاں تک کہ ایک لات ایسی پڑتی کہ دوسرے کا پوٹا پھٹ جاتا۔ اس پر بھی زخمی بٹیر لڑے جاتا تھا تا آنکہ بے دم ہوکے گر جاتا۔

    لڑائی تو مرغوں کی ہوتی تھی اور مرغوں میں بھی اصیل مرغ کی۔ یہ عجیب بے ہنگم مرغ ہوتے تھے۔ بڑے قدآور، گنجے آدمی کی طرح بے بال وپر۔ کلغی غائب، لمبی لمبی ٹانگیں، ان کی لات اتنی زور دار ہوتی تھی کہ کسی اچھے خاصے آدمی کے پڑ جائے تو ہڈی ٹوٹ جائے۔ کانڑے مرزا کو اکثر دیکھا کہ مرغ بغل میں دبائے چلے جا رہے ہیں۔ لوگ کہتے تھے کہ مرزا کے باپ بھی بڑے مرغ باز تھے۔ کانڑے مرزا چند مہینے کے تھے کہ ان کی اماں انہیں کھٹولی پر لٹا کر کسی کام سے دالان میں چلی گئیں۔ کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ ایک دم سے بچے کے بلبلا کر رونے کی آواز سنائی دی۔ جلدی جلدی آکر جو دیکھا تو دیکھا کہ بچے کا چہرہ لہو لہان ہو رہا ہے اور ایک آنکھ غائب ہے۔ پاس ہی مرزا صاحب کا اصیل مرغ کھڑا دوسری آنکھ پر تاک لگا رہا ہے۔ ان کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ’’ہے ہے میرا بچہ‘‘ کہہ کر بچے کو سینے سے لگا لیا اور سر پر برقعہ ڈال ننگے پاؤں ہی محلے کے جراح کی دکان پر جا پہونچیں۔ مرغ نے ایک ڈھیلا پورا نکال کر نگل لیا تھا۔ وہ تو اللہ نے بڑی خیرکی جو دوسری آنکھ بچ گئی۔ مرزا صاحب کی بیوی ذرا چوک جاتیں تو دوسرا ڈھیلا بھی گیا تھا۔ اب تو مرزا کانڑے ہوکر جی گئے جو اندھے ہو جاتے تو کیا ہوتا؟

    اگن یا ہزار داستان پالنے کا بھی دلی والوں کو بہت شوق تھا۔ ان کے پنجروں پر بستنیاں چڑھی رہتیں۔ جب اگن چہکتا تو گھنٹوں اس کی چہکار سنی جاتی۔ ہزاروں بولیاں بولتا تھا، اسی لئے ہزار داستان کہلاتا تھا۔ چوک پر اگن بکنے آتے تھے۔ ان کے پنجروں پر کیکری کٹاؤ کے غلاف چڑھے ہوتے تھے۔ شوقین مزاج لوگ بڑی بڑی قیمتیں دے کر خرید لے جاتے تھے۔

    کلکتہ کی کالی مینا جو بنگالے کی مینا اور آغا مینا بھی کہلاتی تھی، طوطے سے زیادہ صاف بولتی تھی اور زیادہ باتیں سیکھ جاتی تھی۔ اس کا بولنا بڑا بھلا لگتا تھا۔ چھوٹے بچے جب پیاری پیاری باتیں کرنے لگتے تو دلی کی عورتیں انہیں پیار سے ’’میری آغا مینا‘‘ کہہ کر ان کا منہ چوم لیتی تھیں۔

    لال اور چیتاں بھی اکثر گھروں میں ہوتی تھیں۔ ان کی چہکار ایک خاص وضع کی ہوتی تھی۔ دلی والے کہتے تھے کہ یہ صمٌّ بکمٌ تلاوت کرتے رہتے ہیں اور اس سے گھر میں برکت رہتی ہے۔

    دستکاروں میں سے اکثر کو تیتر پالنے کا شوق ہوتا تھا۔ دو جڑواں پنجرے ہوتے تھے۔ ایک میں نر اور دوسرے میں مادہ۔ صبح شام انہیں دیمک چگانے اور ہوا کھلانے شہر سے کہیں باہر لے جاتے تو باری باری سے انھیں کھولتے۔ دونوں کو ایک ساتھ نہیں کھولتے تھے۔ ایک کے بولنے پر دوسرا بھاگا چلا آتا تھا۔ یہ بھورے تیترے ہوتے تھے۔ کالا تیتر دیکھنےمیں بھی بڑا خوبصورت ہوتا تھا۔ اس کی چہکار گورے تیتر سے مختلف ہوتی تھی۔ اس کی لگی بندھی آواز کو لوگوں نے طرح طرح کے معنی پہنا لئے تھے۔

    دودھ بیچنے والے کہتے، یہ کہتا ہے، ’’شیر دارم شکرک۔‘‘

    بنیا کہتا ہے، ’’نون تیل ادرک۔‘‘

    ہندو کہتے، یہ کہتا ہے، ’سیتا، رام دسترتھ۔‘‘

    بھورے تیتر کے بارے میں بھی روایت مشہور تھی کہ کہتا ہے، ’’پدرم سلطان بود۔‘‘ دوسرا اس کے جواب میں کہتا ہے، ’’تُراچہ؟ تُراچہ، تُراچہ؟‘‘ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ سب اپنے اپنے مطلب کی سوچتے ہیں۔ چلو میاں کرخندار اپنی سنجوگی اٹھاؤ اور گھر کی راہ لو۔

    شکاری پرندے پالنے کا بھی دلی والوں کو شوق تھا۔ بہری اور شکرے کو چمڑے کا دستانہ پہنا کر کلائی پر بٹھا لیا جاتا تھا۔ شکرے کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھی رہتی تھی۔ جب شکار کرنا ہوتا تو ٹوپی آنکھوں پر سے اتار دی جاتی اور شکار کی سمت میں اسے اڑا دیا جاتا۔ پلک جھپکتے میں شکرا اپنے شکار کو دبوچ کر بیٹھ جاتا تھا۔ شہ باز کو ایسا سدھایا جاتا کہ خرگوش کو پکڑ لیتا تھا۔ شاہی زمانے میں سنا ہے کہ ایسے بھی شکاری پرندے ہوتے تھے جو جھپٹ کر ہرن کی آنکھیں پھوڑ ڈالتے تھے۔ ہرن اندھا ہوکر چوکڑی بھول جاتا اور شکاری دوڑ کر اسے پکڑ لیتے۔

    دلی والوں کو چوپایوں میں سے بھیڑے اور دُنبے پالنے کا بہت شوق تھا۔ دودھ پیتا بچہ لے کر پالتے تھے۔ روزانہ اسے کھلانا پلانا، نہلانا دھلانا، صبح شام اسے پھرانا، چارے میں جئی اور بونٹ کے پودے ستلی سے باندھ کر دیوار میں لٹکا دیے جاتے۔ دانا ضرور کھلاتے تھے، چاہے خود کھانے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں مگر جانور کو ضرور کھلاتے۔ بکرے اور بھیڑے کو خصی کروا دیتے تھے۔ اس سے جانور کا قد بھی نکل آتا تھا اور جسم میں چربی بھی بڑھنے لگتی تھی۔ دُنبے تو اس قدر فربہ ہو جاتے اور ان کی چکتیاں اتنی بھاری ہو جاتیں کہ اس بوجھ کو لے کر چلنا ان کے لئے ناممکن ہو جاتا، لہٰذا ہلکی پھلکی دو پہیوں کی چھوٹی چھوٹی گاڑیاں بنوائی جاتیں جن پر ان کی چکتیاں رکھ دی جاتیں، تب کہیں ان کی پھرائی ممکن ہوتی۔

    ان کی ادن ذرا بڑھی اور کٹوائی گئی۔ جب یہ جانور جوان ہوتے تو دیکھنےدکھانے کے لائق ہوتے۔ چکنے ایسے کہ مکھی بیٹھے تو پھسل جائے۔ چھانٹ کر سفید رنگ کے لئے جاتے تھے۔ ان پر مہندی سے گل بوٹے بنائے جاتے۔ ان کے گلوں میں رنگ برنگے موٹے موٹے منکوں کی مالائیں اور پیتل کی گھنٹیوں کے ہار پہنائے جاتے۔ کئی سو روپے ایک ایک جانور پر لگ جاتے۔ یہ جانور بیچنے یا نفع کمانے کے لئے نہیں، بقرعید اور شادی بیاہ کے لئے پالے جاتے تھے۔

    بکری یا گائے بھینس پالنے کا رواج دلی والوں میں نہیں تھا۔ دودھ دہی سستا اور اعلیٰ درجے کا بازاروں میں مل جاتا تھا، لہٰذا ان جانوروں کا پالنا علت سمجھا جاتا تھا۔ ہر محلے کے قریب گھوسی بستے تھے۔ اپنے سامنے ان سے دودھ نکلوا لیا جاتا۔ دودھ ایسا گاڑھا ہوتا تھا کہ اس میں سیک کھڑی کر لو۔

    دلی کے مہتر مینڈھے پالتے تھے اور انہیں دلی والوں ہی کی طرح تیار کرتے۔ بعض دفعہ یہ تیار ہو کر اس قدر خوفناک ہو جاتے تھے کہ ایک آدمی کے بس کے نہیں رہتے تھے۔ گلے کے پٹے میں دو طرفہ باگ ڈور ڈال کر دو آدمی لے کر انھیں نکلتے تھے۔ یہ جانور لڑانے کے لئے پالے جاتے تھے۔ بڑی بڑی شرطیں لگائی جاتی تھیں اور ان کی ٹکریں دیکھ کر دل لرز جاتا تھا۔

    دلی کے دستکاروں کو گھوڑا اور رہڑی رکھنے کا شوق تھا۔ بعض پیشوں میں اس کی ضرورت بھی ہوتی تھی۔ مثلاً قصائیوں کو کمیلے سے راسیں لانے کے لئے مگر زیادہ تر رہڑیاں محض نمود کے لئے رکھی جاتی تھیں۔ رہڑی ایک کھلا ہوا اونچا سا دو پہیہ ہوتا تھا۔ بیٹھنے کی ہموار مستطیل جگہ کے چاروں طرف بالشت بھر اونچا جنگلا لگا ہوتا تھا۔ اس میں چار چھ آدمی بیٹھ سکتے تھے۔ دن بھر کے کام دھام سے فارغ ہونے کے بعد گھر آئے، نہائے دھوئے، اجلے کپڑے پہنے اور یار دوستوں کو ساتھ لے کر کسی طرف سیر سپاٹے کو نکل گئے۔ نظام الدین، اوکھلا، قطب صاحب کی سڑک اچھی تھی اور اس پر بھیڑ بھڑکا بھی نہیں ہوتا تھا۔

    دلی دروازے سے نکلنے کے بعد کوشش یہی ہوتی تھی کہ ہم سب سے آگے نکل جائیں، کوئی اور ہم سے آگے اپنی رہڑی نہ نکالنے پائے۔ چنانچہ ان منچلوں میں دوڑیں لگ جاتیں، راسیں ڈھیلی چھوڑ دی جاتیں اور گھوڑے ہوا سے باتیں کرنے لگتے۔ جب کوئی رہڑی برابر سے ہوکر آگے نکلنے لگتی توجیتنے والے خوشی سے ’’پیری ہے بے پیری‘‘ کے نعرے لگاتے اور منہ سے ہاتھ لگاکر عجیب عجیب آوازیں نکالتے۔ جو پھسڈی رہ جاتا وہ کھسیانا ہو کر اپنے گھوڑے کی کھال ادھیڑنے لگتا مگر وہ بیچارہ اپنی بساط سے زیادہ آخر کیسے بھاگے؟ لہٰذا مالک بھی ’’تھوبے‘‘ کہہ کر راسیں کھینچ لیتا۔ زندہ دل لوگ ایسی شکست سے بد دل نہیں ہوتے، یار زندہ، صحبت باقی، پھر سہی۔

    مأخذ:

    دلی جو ایک شہر تھا (Pg. 39)

    • مصنف: شاہد احمد دہلوی
      • ناشر: فیاض رفعت
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے