Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فہمیدہ ریاض: انحراف کی آواز

کوثر مظہری

فہمیدہ ریاض: انحراف کی آواز

کوثر مظہری

MORE BYکوثر مظہری

    اردو شعر و ادب کی تاریخ میں بہت کم ایسی خواتین پیدا ہوئی ہیں جنھوں نے اپنے لہجوں کی چھاپ چھوڑی اور اپنے توانا افکار سے معاشرے کو چونکایا۔ یوں بھی پہلے اردو شعر و ادب میں خواتین ڈری سہمی ہی داخل ہوا کرتی تھیں۔ آج کل صورتِ حال ویسی نہیں جیسی پچاس برس پہلے تھے۔ سماجی اُمور اور زندگی کے نشیب و فراز کو دیکھنا سمجھنا اور اُن پر تبصرے کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ فہمیدہ ریاض کی شخصیت کی پہچان سماجی برائیوں اور اونچ نیچ پر ان کے تبصرے اور مرد غالب معاشرے کے خلاف اُن کی شاعری میں پیش کردہ خیالات سے ہوتی ہے۔

    فہمیدہ ریاض پاکستان بننے اور اُس کے بعد کے حالات پر سختی سے نکتہ چینی کرتی ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد کی آمرانہ حکومت پر وہ سخت تبصرہ کرتی ہیں۔ وہ محض ہوا میں باتیں نہیں کرتیں بلکہ آمرانہ اور فاشی طاقتوں کے ارتقا پذیر ہونے کے اسباب اور نفسیاتی جڑوں کی تلاش بھی کرتی ہیں۔ آزادی اور غلامی کے صحیح تصور کو پیش کرنے میں وہ انسانی ذہنوں کا نفسیاتی مطالعہ بھی پیش کرتی ہیں۔ آزادی کے بعد پاکستان کے حوالے سے وہ ایک فن کار کی حیثیت سے ایک سوال قایم کرتی ہیں۔ اپنی کتاب ’’ادھورا آدمی‘‘ میں لکھتی ہیں:

    ’’آزادی کا یہ پہلا قدم اٹھانے کے بعد دیکھیے کہ اس کی کیا حالت ہے۔ کیا وہ اپنے کارنامے پر نازاں و مسرور رقص کررہا ہے۔ نہیں، بلکہ یکایک وہ اپنے آپ کو برہنہ پاتا ہے۔ وہ شرم اور ندامت سے بے حال ہے۔ زار و قطار رو رہا ہے اور خدا کے حضور سجدہ ریز گڑگڑا کے اپنے گناہ کی معافی مانگ رہا ہے۔ وہ عفو کا طالب ہے۔ توبہ کررہا ہے۔ سجدۂ ندامت میں پیشانی رگڑ رہا ہے۔‘‘

    (ادھورا آدمی: فہمیدہ ریاض، ص: ۳۴)

    فہمیدہ ریاض کا تجزیاتی انداز ہمیں ان کے موقف کو تسلیم کرلینے پر مجبور کردیتا ہے۔ وہ جنرل ایوب خاں اور مارشل لاء کا ذکر طنزیہ انداز میں کرتی ہیں۔ پاکستان کے عام لوگوں کو بھی وہ آڑے ہاتھوں لیتی ہیں جو اپنے جمہوری اختیارات کے چھن جانے کے بعد بھی بہت خوش و خرم نظر آتے ہیں۔ عوام کی نظر میں ایوب خاں فرشتۂ رحمت بن کر قوم کو بچانے آئے تھے۔ فہمیدہ اسی کتاب میں لکھتی ہیں:

    ’’قومی نفسیات کی یہ حالت تھی کہ ایوب خاں کا جسم یعنی ان کا لمبا چوڑا، بھاری بھرکم اور سرخ و سفید ہونا بھی اُن کے برتر انسان ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ پنڈت نہرو کے انتقال کے بعد جب لال بہادر شاستری ہندوستان کے پرائم منسٹر بنے تو ان کا دبلا پتلا اور منحنی جسم اکثر ایوب خاں کے جُثہ کے مقابلے میں طنز کا نشانہ بنتا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بنگال میں فوجی کارروائی کے زمانے میں بنگالیوں کا سانولا اور دبلا پتلا ہونا ان کے کمتر ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ گویا ان کی جسمانی ساخت اس بات کا جواز تھی کہ انھیں کچل دیا جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں انسانیت کا آدرشی سماجی شعور ہم سے بالیدہ تر ہے کہ وہاں دُبلا پتلا بدن اور چھوٹا قد، شاستری کے وزیراعظم بننے میں مانع نہیں ہوا۔‘‘

    (ایضاً، ص ۶۴)

    فہمیدہ ریاض جس طرح کھل کر سماجی اور سیاسی حالات کو اپنی سوچ اور اپنے احساس کا حصہ بناتی ہیں، اس طرح دوسری خواتین ادیب ہی کیا بلکہ مرد ادیب بھی کم ہی توجہ کراتے ہیں۔ انھیں اس بات کی شکایت بھی ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’ادھورا آدمی‘‘ میں لکھتی ہیں:

    ’’اردو کا ادیب اپنے طبقے پر تنقید کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے غم و غصے یا احتجاج کا نشانہ بعض لسانی یا مذہبی فرقے بنتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنے طبقے کے ساتھ یکجاں سمجھتا ہے اورکیوں کہ وہ اپنے طبقے کی خامیوں سے چشم پوشی کا تہیہ کرچکا ہے اس لیے خود اپنی ذات میں جھانکنے سے بھی گریز کرتا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص ۹۵)

    وہ کہتی ہیں کہ:

    ’’ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں نہ صرف سماجی شعور کا فقدان نظر آتا ہے بلکہ داخلی نفسیات کی گتھیاں بھی سلجھتی ہوئی نہیں ملتیں۔ پاکستان کے اردو ادب میں انسانی قدروں کے فقدان سے ہمیں اس زبان کو ذریعۂ اظہار بنانے والے طبقے کی اندرونی تھکن اور پژمردگی کا اندازہ ہوسکتا ہے جس کے باعث یہ طبقہ درحقیقت انسانی اقدار پر یقین کھوبیٹھا ہے اور کسی بھی موجودہ بڑی طاقت کو اٹل اور ناقابل تسخیر تصور کرتا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص ۹۶)

    آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ فہمیدہ ریاض دوسری شاعرات کی طرح محض شعر و ادب سے دل چسپی نہیں رکھتیں بلکہ وہ پورے معاشرے میں ہورہی تبدیلیوں اور سیاسی اتھل پتھل سے بھی پوری طرح واقف نظرآتی ہیں۔ یہ بھی کہ وہ کسی مسئلے پر محض Sweeping Remarks نہیں دیتیں بلکہ پوری توجہ اور گہرائی سے اس مسئلے پر غور و فکر کرنے اور اس کے مالہٗ وما علیہ (Pros & Cons) کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے موقف کا اظہار کرتی ہیں۔

    پاکستان کی اردو شاعری میں زہرہ نگاہ، فہمیدہ ریاض اور کشورناہید کی آوازوں کی انفرادیت دور سے پہچانی جاتی ہے۔ ادا جعفری کے بعد کی پیڑھی میں یہ تینوں شاعرات بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے بعد پروین شاکر کی خالص نسوانی آواز نے بہت جلد اردو شاعری میں اپنی جگہ بنا لی تھی مگر یہ آواز شعلۂ مستعجل کی طرح بہت جلد خاموش ہوگئی۔ افسوس!

    فہمیدہ ریاض کی نثر اور شاعری دونوں میں احتجاج اور انحراف کی لَے واضح طور پر نظر آتی ہے۔ یوں تو ہر فن کار اپنے معاشرے میں ہونے والی برائیوں کو آئینہ دکھاتا ہے۔ کسی کا لہجہ ذرا دھیما ہوتا ہے کسی کا اونچا، لیکن فہمیدہ کی شاعری میں بنی بنائی ڈگر سے انحراف ملتا ہے۔ مردوں کے رویے سے اُن کا اکثر فکری تصادم دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ اکثر اپنا احتجاج درج کراتی چلتی ہیں۔ زندگی کے اتارچڑھاؤ میں ہر آدمی کو نئے نئے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔

    احتجاج اور انحراف کی حقیقت کیا ہے اور اس کا رشتہ ایک فن کار یا ایک شاعر سے کیا ہوسکتا ہے، فہمیدہ ریاض کی زبانی سنئے۔ وہ اپنی کتاب ’میری نظمیں‘ (۱۹۸۱ئ) کے ’پیش لفظ‘ میں لکھتی ہیں:

    ’’ادیب، شاعر، فلسفی اور آرٹسٹ بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہوتے ہیں۔ مگر اُن کا زندگی بسر کرنے کا طریقہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔ وہ ایک جوش و خروش سے احتجاج کی صدا بلند کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے کبھی احتجاج کا نعرہ نہ لگایا ہو وہ کبھی یہ نہیں جان سکتے کہ یہ کیسی جگر خراش صدا ہوتی ہے۔‘‘(پیش لفظ، میری نظمیں: فہمیدہ ریاض، ۱۹۸۱ئ)

    انحراف اور احتجاج کو فہمیدہ ریاض محض خارجی طور پر پیش نہیں کرتیں بلکہ وہ باضابطہ اپنے شعور سے احتجاج کے فلسفے کو ہم آہنگ کرنے کے بعد ہی نثر لکھتی ہیں یا شاعری کرتی ہیں۔ دیکھیے ایک نظم کا ٹکڑا:

    میں جو ناگن کی طرح خاک پہ بل کھاتی ہوں

    سر پٹکتی ہوئی پتھر پہ جبیں گھستی ہوئی

    اپنے اُگلے ہوئے زہراب تو خود پیتی ہوں

    میں تو سمجھی تھی یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں

    پر کہیں دور کوئی حشر بپا ہو جیسے

    (پچھلے پہر)

    فہمیدہ ریاض کا احتجاج ان کے باطن سے پھوٹتا ہے۔ ’’باکرہ نظم‘‘ کا یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجیے:

    اس کی اُبلی ہوئی آنکھوں میں ابھی تک ہے چمک

    اور سیہ بال ہیں بھیگے ہوئے خوں سے اب تک

    تیرا فرمان یہ تھا اس پہ کوئی داغ نہ ہو

    سو یہ بے عیب اچھوتا بھی تھا اَن دیکھا بھی

    بے کراں ریگ میں سب گرم لہو جذب ہوا

    دیکھ چادر یہ مری ثبت ہے اس کا دھبہ/ اے خداوند کبیر

    اے جبّار! متکبر و جلیل!

    ہاں ترے نام پڑھے اور کیا ذبح اسے

    اب کوئی پارۂ ابر آئے، کہیں سایہ ہو

    اے خداوند عظیم

    بادتسکیں! کہ نفس آگ بنا جاتا ہے

    قطرۂ آب! کہ جاں لب پہ چلی آئی ہے

    معاشرے میں جو کجی ہے، وہ مردوں کی سوچ سے پیدا ہوئی ہے۔ فہمیدہ ریاض اسی سوچ کے خلاف ہیں۔ اگر مرد عورت کو اپنی جاگیر سمجھنے لگے تو دونوں کے درمیان جو رشتہ ہوگا وہ کبھی پائیدار نہیں ہوسکتا۔ پاکیزہ محبت اور عشق کے جذبے کو پروان چڑھانے کے لیے بھی اس سوچ کو چھوڑ کر عورت کے خالص جذبۂ محبت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فہمیدہ ریاض کی نظم ’’بدن دریدہ‘‘ میں اسی جذبۂ خالص کی یافت کی کہانی ہے۔ عورت کے مقید ہونے کو وہ جبر تصور کرتی ہیں۔ ہجر کو زندگی کے قریب کردینا فہمیدہ ریاض کا کمال ہے۔ ’’میگھ دوت‘‘ اور ’’بدن دریدہ‘‘ کے مطالعے سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔ عشق کا آزادانہ اظہار جس معاشرے میں جرم ہو، اس معاشرے کے خلاف فہمیدہ احتجاج و انحراف کا رویہ قایم کرتی ہیں۔

    ’’میگھ دوت‘‘ کے یہ مصرعے دیکھیے:

    میں کہ بنتِ ہجر ہوں/ مجھ میں ایسی آگ ہے

    میں کہ میرے واسطے/ وصل بھی فراق ہے

    اسی طرح نظم ’’بدن دریدہ‘‘ کے یہ مصرعے دیکھیے:

    سرسرانے دو ذرا رات کے اس ریشم کو

    اس میں ملفوف کسی عہد کی اک لاش بھی ہے

    کب کی وہ کشمکش ذہن و زباں ختم ہوئی

    اک تڑپ باقی تھی سو دشمن جاں ختم ہوئی

    اب تو وہ میری تھکاوٹ بھی مجھے چھوڑ چکی

    وہ دریدہ بدنی جان کو بھی توڑ چکی

    سماج اورمعاشرے میں جو اتار چڑھاؤ آتا ہے یا عورتوں پر جو ظلم و جبر روا رکھا جاتا ہے، اس سے فہمیدہ ریاض کو شدید اختلاف ہے۔ ساتھ ہی وہ عورتوں کو چادر اور چہاردیواری میں بند کردینے کے خلاف بھی احتجاج کرتی ہیں۔ ان کی بیشتر نظموں میں اس کا عکس واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اِسی نوع کی ایک نظم ’’چادر اور چاردیواری‘‘ بھی ہے۔

    فہمیدہ کی نظموں میں جس بے باک اور بے خوف عورت کی تصویر ابھرتی ہے وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ عورت کو اپنے عورت پن پر فخر کرنا چاہیے۔ اس کی نسائیت اور جسم کی ساخت میں سرشاری اور قوت نمو ہے۔ اس کی اہمیت سے چشم پوشی کرنا فہمیدہ ریاض کے نزدیک کسی طرح مناسب نہیں۔ عورت کا شکست خوردہ ہونا انھیں کسی طرح پسند نہیں۔ عورت انحراف اور احتجاج کا خواب دیکھ سکتی ہے بلکہ عملی طور پر وہ اس تحریک میں شرکت بھی کرسکتی ہے۔

    فہمیدہ کی نظم ’ساحل کی ایک شام‘ جس میں ایک گمنام چھوٹا سا بچہ سمندر کے ساحل پر دکھائی دیتا ہے۔ فہمیدہ نے اس بچے میں نفرت اور احتجاج کے شرارے دیکھے ہیں۔ نظم کا یہ ٹکڑا دیکھیے:

    زائیدۂ بحر ایک /ساحل پہ سرنگوں کھڑا ہے/ اتنا گمنام اتنا تنہا

    بے خانماں سایہ ایک بچہ/ جس کا کوئی گھر کہیں نہیں ہے

    جس کی وارث زمیں نہیں ہے/ ساحل کے سنگ دل ہوا میں

    کیسا زہراب بہہ رہا ہے/ یہ اُس زہراب کو پیے گا

    اس تنہا زندگی اور زہراب پینے کے بعد اس بچے میں جو شعلۂ احتجاج پیدا ہوگا، اس کی تصویر بھی ملاحظہ کیجیے:

    اس کے سوکھے ہوئے لبوں پر/ لہروں کے نمک کا ذائقہ ہے

    بس ریت لپٹ سکی ہے اس سے/ بس لمس ہوا کا جانتا ہے

    وہ تم سے میری ہم کناری/ بجھتی آنکھوں سے دیکھتا ہے/ جاناں میرا ہاتھ ہاتھ میں لو

    ہے اُس کے لبوں پہ آنے والی/ جینے سے زیادہ تلخ گالی/ گالی جو راکھ بن گئی ہے

    اس راکھ میں اگر کوئی شرر ہے/ شاید شعلہ بھڑک ہی اٹھے

    فہمیدہ ریاض کا کمال یہ ہے کہ اپنے احتجاج کی پیش کش میں اتنی Loud نہیں ہوتیں کہ ادبیت و شعریت مجروح ہوجائے۔ انسانی زندگی اور معاشرے کو وہ ہمیشہ ایک گوشت پوست کی بیباک عورت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ عورت کو معاشرہ اُس کے پورے وجود اور احساس کے ساتھ قبول کرے۔ لیکن جب وہ دیکھتی ہیں کہ عورت کو یہ مرد معاشرہ محض سامان تفریح سمجھتا ہے تو ان کے اندر انحراف کی لو تیز ہوجاتی ہے۔ وہ دل کے رشتوں کو معاشرے کے بنے بنائے اصولوں سے ماورا تصور کرتی ہیں۔

    ان کی ایک چھوٹی سی نظم ہے ’’میرے اور تمھارے بیچ‘‘، اس کا تاثر آپ بھی محسوس کیجیے:

    میرے اور تمھارے بیچ/ اس نیلی چادر کے سوا کچھ بھی نہیں

    پھر یہ اکیلا کہرا میرے دل پر کیسے اُتر رہا ہے/ یہ گہرا سناٹا کیا ہے

    ہر لمحہ کیوں سمٹ رہا ہے/ جو کچھ میرے دل میں ہے وہ رسموں کے رشتوں سے ماورا ہے

    رسموں کا یہ رشتہ دیواروں سے ہم کو جھانک رہا ہے

    گہرا سانس نہیں لے سکتی/ میں بے چین ہوئی جاتی ہوں

    فہمیدہ ریاض نے اپنی شاعری میں نسوانی کیف و سرور کی شمعیں روشن کی ہیں۔ حدیث دل کے سچے اظہار کا سلیقہ ان کی شاعری کی پہچان ہے۔ احساس کی نزاکتوں اور نسوانی جذبات کی لطافتوں کو الفاظ کے پیکر میں ڈھالنے پر انھیں ملکہ حاصل ہے۔ ’پتھر کی زبان‘ ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا جو ۱۹۶۷ء میں منظرعام پر آیا۔ اس عہد میں اردو قارئین کے لیے اس کی قرأت ایک تجربے سے کم نہ تھی۔ لیکن اس مجموعے میں ایک طرح کا کچا پن تھا جس سے یہ بھی اندازہ ہوتا تھا کہ ان کے جذبات میں ایک طرح کی ہلچل تھی جو اس عمر میں عام طور پر ہوا کرتی ہے۔

    بعد کی شاعری میں محبت کے جذبوں کو فہمیدہ ریاض نے سرشاری اور شعور و ادراک کے ساتھ پیش کیا۔ ایک طرح کی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ عشق و محبت، عورت اور مرد کے رشتوں کو ایک نئی زبان عطا کی۔ یہ سمجھیے کہ فہمیدہ ریاض نے عورت کے بالمقابل کسی تصوراتی محبوب کو پیش نہیں کیا ہے۔ مرد شاعر جب محبوب کو پیش کرتا ہے تو اس کے جنس پر ہمیشہ ایک سوالیہ نشان قایم ہوتا ہے۔ فہمیدہ ریاض نے اس التباس کو ختم ہی کردیا ہے۔ اُن کی شاعری میں سانس لینے والا محبوب جیتا جاگتا مرد ہے جو ایک فطری کردار کے طور پر اُبھرتا ہے۔

    ایک نظم ’’آج شب‘‘ کا یہ آخری ٹکڑا ملاحظہ کیجیے:

    آج میں لیٹوں گی تیرے بازوؤں میں

    یہ اجازت دے کہ دل کی بات کہہ دوں

    یہ اجازت دے کہ میں خود کو کروں تیرے حوالے

    اپنا بوجھا توڑتا ہے جان میری/ میری بیداری کا پیچیدہ شکنجہ

    ذہن پر ہردم کسا جاتا ہے/ آجا

    (میری نظمیں : ص ۸۹)

    ایسی ہی تابندہ اور عشقیہ رموز کی عطر آگیں دھڑکنیں ان کی نظم ’’ابد‘‘ میں سنائی دیتی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    یہ کیسی لذّت سے جسم شل ہورہا ہے میرا

    یہ کیا مزا ہے کہ جس سے ہے عضو عضو بوجھل

    یہ کیف کیا ہے کہ سانس رک رک کے آرہا ہے

    یہ میری آنکھوں میں کیسے شہوت بھرے اندھیرے اتر رہے ہیں

    لہو کے گنبد میں کوئی در ہے کہ وا ہوا ہے

    یہ چھوٹتی نبض، رکتی دھڑکن، یہ ہچکیاں سی

    اس نظم کا آخری حصہ لمحۂ سرشاری اور سرورِ وصل کو مزید کھولتا ہے:

    گلاب و کافور کی لَپَٹ تیز ہوگئی ہے

    یہ آبنوسی بدن یہ بازو کشادہ سینہ

    مرے لہو میں سمٹتا سیّال ایک نکتے پہ آگیا ہے

    مری نسیں آنے والے لمحے کے دھیان سے کھنچ کے رہ گئی ہیں

    بس اب تو سر کا دو رُخ پہ چادر/ دیے بجھا دو

    فہمیدہ ریاض کے فلسفۂ عشق میں جسم کی شرکت لازمی ہے۔ محض جھوٹی اخلاقی فلسفہ طرازی سے اردو شاعری کو ظاہری طور پر تصوف کا لباس دینا ایک طرح کی ریاکاری ہے، کذب ہے، عورت اور مرد کی رفاقت میں جسم کا روپوش ہوجانا ایک مابعدالطبعیاتی عمل ہے، فہمیدہ ریاض جس کو ہمیشہ رد کرتی آئی ہیں۔ جسم و جاں کے فاصلے مٹا دینے کو ہی وہ اصل عشق اور سچی ابدی محبت تصور کرتی ہیں۔ انسانی فطرت کو اورانسانی سائیکی کو وہ اپنی نظموں میں کھل کر پیش کرتی ہیں۔ ایک نظم ’’زبانوں کا بوسہ‘‘ سنیے:

    زبانوں کے رس میں یہ کیسی مہک ہے

    یہ بوسہ کہ جس سے محبت کی صہبا کی اڑتی ہے خوشبو

    یہ بدمست خوشبو جو گہرا، غنودہ نشہ لارہی ہے

    یہ کیسا نشہ ہے

    نظم ارتقاپذیرہوتی ہوئی اس رنگ پر آتی ہے:

    یہ بھیگا ہوا گرم و تاریک بوسہ

    اماؤس کی کالی برستی ہوئی رات جیسے امڈتی چلی آرہی ہو

    کہیں کوئی ساعت ازل سے رمیدہ

    مری روح کے دشت میں اڑرہی تھی

    وہ ساعت قریں تر چلی آرہی ہے

    مجھے ایسا لگتا ہے/ تاریکیوں کے/ لرزتے ہوئے پُل کو

    میں پار کرتی چلی جارہی ہوں/ یہ پُل ختم ہونے کو ہے

    اور اب/ اُس کے آگے/ کہیں روشنی ہے(’بدن دریدہ‘ سے)

    فہمیدہ اپنی نظموں میں نسوانی جذبات کے تقدس کو محفوظ کرنا چاہتی ہیں۔ نسائی اظہار کے نقطۂ نظر سے فہمیدہ ریاض کے علاوہ پاکستان میں سارا شگفتہ، کشورناہید، پروین شاکر، شاہدہ حسن، تنویر انجم کے نام اہم ہیں۔ فہمیدہ ریاض نے جہاں عورت کے سچے جذبات اور جسمانی سرشاری کی بات کی ہے وہیں عورت کے بہت ہی مقدس روپ ماں کو بھی پیش کیا ہے۔ ماں بننے کے تجربے کو بڑی خوبصورتی سے انھوں نے اپنی نظم ’لاؤ، ہاتھ اپنا لاؤ ذرا‘ میںسمونے کی کوشش کی ہے۔ اس تجربے کی پیشکش سردار جعفری کی مشہور نظم ’نئی دنیا کو سلام‘ کی ہیروئن مریمؔ کی زبانی بھی ہوئی ہے۔

    آئیے اس تقدس آمیز نسائی احساس کو ان مصرعوں میں دیکھیں جو فہمیدہ ریاض کی تانیثی حسیت کو منور کرتے ہیں۔ نظم شروع ہوتی ہے:

    لاؤ ہاتھ اپنا لاؤ ذرا

    چھو کے میرا بدن

    اپنے بچے کے دل کا دھڑکنا سنو

    ناف کے اُس طرف/ اس کی جنبش کو محسوس کرتے ہو تم؟

    بس یہیں چھوڑدو/ تھوڑی دیر اور اس ہاتھ کو میرے ٹھنڈے بدن پر یہیں چھوڑدو

    میرے عیسیٰ! مرے درد کے چارہ گر/ میرا ہر موئے تن

    اس ہتھیلی سے تسکین پانے لگا

    آگے چل کر نظم میں عورت کے جذبۂ خالص کو یوں پیش کیا گیا ہے:

    تم نے جانے مجھے کیا سے کیا کردیا

    میرے اندر اندھیرے کا آسیب تھا/ یاکراں تاکراں ایک انمٹ خلا

    یوں ہی پھرتی تھی میں/ زیست کے ذائقے کو ترستی تھی میں

    دل میں آنسو بھرے، سب پہ ہنستی ہوئی

    تم نے اندر مرا اس طرح بھردیا/ پھوٹتی ہے مرے جسم سے روشنی

    اس نظم سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مرد مرکزی معاشرے میں احتجاج تو کرتی ہیں لیکن وہ مرد کی بالادستی اور اس کی عظمت کا اقرار بھی کرتی ہیں۔ عورت کی زندگی میں سب سے بڑی خواہش اس کے ماں بننے کی ہوتی ہے۔ زندگی ماں بننے سے پہلے بے ذائقہ ہوتی ہے۔ عورت مشرق کی ہو یا کہ مغرب کی، اس احساس کی اہمیت سب کے لیے ایک سی ہے۔ فہمیدہ ریاض کو عورت کے اس کلیدی اور مرکزی احساس کا ادراک ہے۔ اس لیے ان کی تخلیقی بصیرت میں کسی طرح کی ریاکاری کے بجائے ایک طرح کا خلوص نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی اس نوع کی نظموں میں ایک طرح کی فطری معصومیت بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

    فہمیدہ ریاض کی شاعری میں ایک جدید مشرقی عورت کے نقوش ابھرتے ہیں۔ زندگی کی سچائیوں کو خلوص کے ساتھ پیش کرنے میں انھیں کسی طرح کی رکاوٹ قطعی نہیں ہوتی۔ میرے ہاتھ، باکرہ، میرے اور تمھارے بیچ، ابر بہار، بدن دریدہ، اقلیما، زنِ ناپاک، پتھر کی زبان جیسی نظموں کے مطالعے سے فہمیدہ ریاض کی تخلیقی بصیرت اور دانشورانہ فضیلت دونوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف شاعری نہیں کررہی ہیں بلکہ اپنے عہد میں ’’طبقۂ نسواں‘‘ کا رزم نامہ تحریر کررہی ہیں۔ اسے زمانے اور تاریخ کا جبر بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان کے پہلے مجموعہ کلام ’’پتھر کی زبان‘‘ میں گرچہ ایک نئی لڑکی کی شریر امنگوں کی تصویر زیادہ واضح طور پر ابھرتی ہے لیکن وہاں بھی تانیثی نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔

    فہمیدہ ریاض شاعرات میں اپنی ایک مستحکم پہچان رکھتی ہیں۔ ان کی نثری تحریروں میں ناول ’’گوداوری‘‘ پڑھیں یا ’’ادھورا آدمی‘‘، ہر جگہ ان کی آواز کی لَے منفردنظر آتی ہے۔ وہ اس دنیا کو ایک رزم گاہ تصور کرتی ہیں۔ وہ ہر طرح کے کرب اور مصیبت کو خوش مزاجی مگر احتجاج کے ساتھ قبول کرتی ہیں۔ بنتی بگڑتی اخلاقی قدروں کو وہ بعینہٖ قبول کرنے میں تردد محسوس کرتی ہیں۔ کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ معاشرے نے کچھ ضروری اور کچھ غیرضروری اخلاقی قوانین خود وضع کرلیے ہیں، لہٰذا احتجاج اور انحراف کا رویہ ایک فن کار کے لیے ضروری ہوجاتا ہے۔

    فہمیدہ ریاض کی تانیثی فکر اور نسائی لہجے میں انحراف کی ایک چمک دیکھیے اور ہمیں اجازت دیجیے:

    سراب ہوں میں تیری پیاس کیا بجھاؤں گی

    اس اشتیاق سے تشنہ زباں قریب نہ لا

    (آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس ، دہلی سے فیچر کی شکل میں ۲۰۰۶ء میں نشر ہوا)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے