فیض: گل رنگ تِمثال کا شاعر
فیضؔ کی شاعری جذبات اور احساسات کو پیکر عطا کرتی ہے۔ نظموں اور غزلوں میں فیض کے یہاں فکر و فلسفے کی رنگ آمیزی سے زیادہ احساس اور جذبے کے لطیف پیکر نظر آتے ہیں۔ انھوں نے روایت کو نیا پیرہن عطا کیا یا یوں کہیں کہ روایت کے پیرہن میں معاشرے کی کشمکش، انسانی جدوجہد اور سیاسی و سماجی رویو ںکو نئے انداز میں پیش کیا۔ یہ دو شعر ملاحظہ کیجیے:
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
دست صیاد بھی عاجز ہے کفِ گلچیں بھی
بوئے گُل ٹھہری نہ بُلُبل کی زباں ٹھہری ہے
فیض کی شاعری کے جہاں اور بہت سے گوشے ہوسکتے ہیں وہیں ان کے یہاں ’رنگ‘ کی بھی بڑی اہمیت رہی ہے۔ غالب طور پر انھوں نے ’سرخی‘ اور اس کے مماثل کی اشیاء کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ پھول، گل، لالہ، ارغواں، مئے، شراب، ہونٹ، عارض وغیرہ کی سرخی یا پھر آتش گل جیسی ترکیب سے انھوں نے اپنی شاعری میں ایک لہکتا اور جھمکتا ہوا جہان آباد کیا ہے۔ یہ سب جہات، ’گل رنگ تمثال‘ کے ذیل میں آتی ہیں۔ رنگ کے حوالے سے ’دست صبا‘ کا یہ شعر دیکھیے:
رنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمھارے بام پر آنے کا نام
محبوب کے رنگِ پیرہن اور زلف کی خوشبو سے ایک عاشق کے لیے موسم بہار کی تشکیل ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہ پھول کا رنگ اور خوشبو دونوں محبوب میں موجود ہیں۔ زلف کی خوشبو اور پیرہن کے رنگ نے موسم گل کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ اردو شاعری میں پیرہن کو دوسرے شاعروں نے بھی برتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اس کی اقسام اور اس کی صفات کو میراجی نے اپنی نظموں میں پیش کیا ہے۔ فیض نے یہاں رنگ پیرہن پھول کی رنگت کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح یہ ایک شعر دیکھیے جس میں فیض نے محبوب کے ہونٹ کی مختلف الجہات صفات کا ذکر کیا ہے:
وہ ہونٹ فیض سے جن کے بہارِ لالہ فروش
بہشت و کوثر و تسنیم و سلسبیل بدوش
(ایک رہگزار پر: نقشِ فریادی)
ایک نظم کے چند مصرعے دیکھیے:
خمار خواب سے لبریز احمریں آنکھیں
سفید رُخ پہ پریشان عنبریں آنکھیں
…………………………
ضیائِ مَہ میں دمکتا ہے رنگِ پیراہن
ادائے عِجز سے آنچل اڑا رہی ہے نسیم
(تہِ نجوم: نقشِ فریادی)
بہار، جو لالہ فروش ہے یا یہ کہ بہار میں جو رنگینی ہے وہ محبوب کے ہونٹوں کا فیض ہے۔ خواب کے خمار سے آنکھیں احمریں یعنی سرخ ہیں۔ ضیائِ مہ یعنی چاندنی جب محبوب کے پیرہن پر پڑتی ہے تو وہ اور بھی چمکنے دمکنے لگتا ہے۔ آخر کا مصرع کہ ع ادائے عجز سے آنچل اڑا رہی ہے نسیم۔
نسیم بھی محبوب کا آنچل اڑانے میں عاجزی سے کام لے رہی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سب محبوب کے احترام کے سبب ہے یعنی نسیم کو بھی محبوب کی رنگینی، خوبی اور شوخی کا پاس ہے۔ آنچل کو محبوب کے دوسرے متعلقات کے ساتھ فیض نے اور بھی اُبھارا ہے:
اُن کا آنچل ہے کہ رخسار کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں
(موضوعِ سخن: نقشِ فریادی)
چلمن کے پیچھے آنچل، محبوب کا رخسار یا پیراہن ہے جس کے سبب چلمن بھی رنگین ہوگئی ہے۔ یہاں شاعر نے ’کچھ تو ہے‘ سے معرفہ کے بجائے نکرہ کی صورتِ حال پیدا کردی ہے، جسے ہم شاعری کی زبان میں تجاہل عارفانہ کہتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ پہلے تو تین غیرمجرد اشیاء یعنی آنچل، رخسار اور پیرہن کا ذکر کیا، بعد ازاں تجاہل کا راستہ اپنایا۔ اب یہ قاری اور اس کے زاویۂ قرأت پر منحصر کرتا ہے کہ وہ چلمن کے رنگین ہونے کے لیے بطور سبب کے، مذکورہ اشیا میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔
حسرت نے یہی مضمون اس طرح پیش کیا تھا جو فیض کے شعر کا پس منظربنتا ہے:
اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خودبخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
فیض کے یہ چند شعر دیکھیں:
شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی
یہ جو نکلا ہے لیے مشعلِ رخسار، ہے کون
اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے
طرح طرح کی طلب، تیرے رنگ لب سے ہے
گُلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
یہ اشعار ’زنداں نامہ‘ سے ہیں۔ شام کا گلنار ہونا کسی کی مشعلِ رخسار کے سبب ہے۔ مشعل رخسار کی ترکیب عارضِ محبوب کی سرخی اور اس کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ دوسرے شعر میں شرر اور پھول کو رنگِ لب کے مساوی رکھا گیا ہے۔ محبوب کے لبوں کی سرخی، شرر اور پھول کی سرخی کے مشابہ ہے۔ تیسرے شعر میں گلوں میں رنگ بھرے جانے اور بادبہاری کا دارومدار محبوب کے گلشن میں آنے پر ہے۔ فیض نے پھولوں کے کھلنے اور بادبہار کے چلنے کو کاروبار گلشن تصور کیا ہے۔ حسن کی مختلف جہات میں سے ایک جہت ’رنگ‘ بھی ہے۔ رنگ میں بھی اردو شاعروں نے سرخی اور سرخی مائل رنگ کو محبوب کے لب و عارض کے قریب سمجھا ہے جس میں تخیل سے زیادہ حقیقت کا گزر ہے۔ ترقی پسند مصنّفین کے حوالے سے کلیم الدین احمد نے لکھا ہے:
’’تصورات میں جدت نہ سہی کم ازکم طرز ادا میں حسن تکمیل اور انفرادی رنگ آمیزی تو ہو۔ لیکن ترقی پسند ادب میں طرز ادا بھی ناقص ہے۔‘‘
(اردو تنقید پر ایک نظر، ص157)
بے شک ترقی پسندوں میں سے بیشتر نے کلاسکی اور روایتی شاعری کے موضوعات کو پیش کیا۔ لیکن ان میں سے جن شاعروں نے طرز ادا میں انفرادی رنگ پیدا کیا ان میں فیض کا رنگ سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ کلیم الدین احمد کی بات بالکل درست ہے لیکن اس کا اطلاق فیض کی شاعری پر بالکلیہ نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنا انفرادی اسلوب پیدا کرلیا ہے۔ فیض کا یہی تو کمال ہے کہ تمام تر کلاسیکی اور روایتی الفاظ و تراکیب کو نیا پس منظر عطا کیا اور سماجی معنویت یا ترقی پسند تحریک کے منشور کو انھوں نے اپنی شاعری پر کبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔ جہاں تک ’’رنگ‘‘ یا اس سے لفظی و معنوی انسلاک کا تعلق ہے، فیض نے اپنی نظموں اور غزلوں دونوں میں اس کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ آئیے چند اشعار اور دیکھتے ہیں:
مے خانہ سلامت ہے تو ہم سرخیٔ مے سے
تزئینِ در و بامِ حرم کرتے رہیں گے
باقی ہے لہو دل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگِ لب و رخسارِ صنم کرتے رہیں گے
(لوح و قلم: دست صبا)
——
اِس بام سے نکلے گا ترے حسن کا خورشید
اُس کُنج سے پھوٹے گی کرن رنگ حنا کی
اِس در سے بہے گا تری رفتار کا سیماب
اُس راہ پہ پھولے گی شفق تیری قبا کی
(دوعشق: دست صبا)
مذکورہ بالااشعار میں سرخیٔ مے سے تزئین در و بام کرنا، دل کے لہو سے محبوب کے لب و رخسار کو رنگین کرنا، محبوب کے رنگ حنا کا پھوٹنا، محبوب کی قبا سے شفق کا پھوٹنا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فیض نے شعوری طور پر رنگوں کو شعری پیکر کا حصہ بنایا ہے۔ یہ درست ہے کہ شاعری میں شعور کا عمل دخل ہوتا ہے لیکن اگر شعور کی کارفرمائی اہتمام کے ساتھ بیٹھ کر ہوتی تو شعری پیکر میں درار پڑجاتی، بلکہ اسے یوں کہہ لیں کہ جس طرح کپڑے کا کچا رنگ ہلکی دھوپ اور ہوا میں پھٹ جاتا ہے، ماند پڑجاتا ہے، ٹھیک اسی طرح رنگوں کے استعمال کی شعوری یا عمداً کاوش ازکار رفتہ یا محض ظاہری نمود کی صورت بن کر رہ جاتی ہے۔ مگر فیض کی شاعری میں جو ’سرخی‘ ہے اس کا جدا کیا جانا گوشت سے ناخن کے جدا ہونے جیسا عمل ہے۔ جتنے بڑے فنکار ہوئے ہیں ان کے یہاں پیکرتراشی کے عمل میں استحکام اور ہنرمندی کا جوہر نظر آتا ہے۔ بصری اور لمسی پیکروں سے حسّی پیکروں تک کے سفر میں ایک خاص تخلیقی ہنرمندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی خارجی شے کی بصری تصویر (Visual Image) محض خارجی تاثر پیدا نہیں کرتی بلکہ یہ موضوعی یعنی Subjective ہوکر ہمارے باطن کا حصہ بن جاتی ہے۔ اگر ایسا تاثر پیدا نہیں ہوتا تو یہ پیکر تراشی محض ایک ذہنی ورزش ہوتی ہے۔
فیض سے پہلے ہماری کلاسک شاعری میں میر و مصحفی یا غالب و اقبال، حسرت و فراق سبھوں نے پھول اور لالے یا اس نوع کے دوسرے رنگوں کو احساس جمال کی تصویرکشی کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ اشعار دیکھیے:
لو دیتا ہے کیا کیا یہ چراغ تہِ داماں
ملبوس سے رنگینیٔ تن کھیل رہی ہے
فراق
یوں ہے ڈلک بدن کی اس پیرہن کی تہہ میں
سرخی یہ ان کی جھلکے جیسے بدن کی تہہ میں
مصحفی
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
میر
اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بہ خود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام
حسرتؔ
پھول، مے گلفام، سرخیٔ بدن، بدن کی ڈلک، جسم یار کی خوبی، یہ کچھ ایسے شعری تلازمے ہیں جو محبوب اور اس کے عضویاتی تلازمے (Bodily Associations) سے ہم آمیز ہوکر مختلف رنگوں کے پیکر تراشتے ہیں۔ فیض نے جو پیکر تراشے ہیں ان میں بیشتر مرئی اور بصری پیکر ہیں۔ فیض نے اس پیکرتراشی اور مصوری سے انسانی جذبات اور احساسات کو چھوا ہے۔ بلکہ سرخیٔ مے سے تزئین در و بام کرنے کا حوصلہ بھی عطا کیا ہے۔
اردو شاعری میں آپ جدھر بھی نظر اٹھائیں (کسی بھی ازم یا تحریک سے ماورا ہوکر) سرخیٔ مے، لہو کی سرخی، شفق، گلال، مئے ارغواں، عارض گلگوں، رنگ چمن، رنگ پیرہن، آتش گل، آتش سیال (بمعنی شراب) وغیرہ اور ان جیسے دوسرے بہت سے تلازمے مل جائیں گے جو تمثال آفرینی کو فروغ بخشتے ہیں۔ یہ اشعار دیکھیے:
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
مجروح
ریل کے زور شور سے سارا مکاں لرز گیا
اوس الگ نہ ہوسکی کھلتے ہوئے گلاب سے
ظفراقبال
مرجھا گیا جو دل میں اجالے کا سرخ پھول
تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے
شکیب جلالی
میں دیکھتا تھا شفق کی طرف مگر تتلی
پروں پہ رکھ کے عجب رنگ زار لے آئی
بانی
اپنے اپنے زمانے کے حالات اور تیور، تناظر اور لوازمات کو سامنے رکھ کر شاعری کی جاتی ہے۔ مذکورہ بالا شعروں میں جو رنگ تمثال ہے اور ان میں جو افتراق (Binaries) ہے اسے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ پھر یہ کہ ہر شاعر کا اپنا شعری و فکری وجدان ہوتا ہے۔ فیض کا شعری وجدان اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں ماضی کی طرف مراجعت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ فیض کی تخلیقی عظمت و انفرادیت کا سبب بھی یہی ہے۔ اچھا ہوگا اگر فیض کے کچھ اور اشعار زیربحث آجائیں جن سے ’تمثال رنگ‘ کی جہتوں کا پتہ چلتا ہے:
1۔
جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو
فروغ نور ہو جس سے فضائے رنگیں میں
خزاں کے جَور و ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو
بہار نے جسے خون جگر سے پالا ہو
وہ ایک پھول سماتا ہے چشم گلچیں میں
(حسن اور موت: نقش فریادی)
2۔
ضیاء مہ میں دمکتا ہے رنگ پیراہن
ادائے عجز سے آنچل اڑا رہی ہے نسیم
(تہ نجوم: نقش فریادی)
3۔
سرخ ہونٹوں پر تبسم کی ضیائیں جس طرح
یاسمن کے پھول ڈوبے ہوں مے گلنار میں
(تین منظر: نقش فریادی)
4۔
چشم مے گوں ذرا ادھر کردے
دست قدرت کو بے اثر کردے
(غزل: نقش فریادی)
5۔
خیال و شعر کی دنیا میں جان تھی جن سے
فضائے فکر و عمل ارغوان تھی جن سے
6۔
مچل رہا ہے رگ زندگی میں خون بہار
الجھ رہے ہیں پرانے غموں سے روح کے تار
(میرے ندیم: نقش فریادی)
7۔
اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب
(نوحہ: نقش فریادی)
8۔
پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی کشید
گراں ہے اب کے مئے لالہ فام کہتے ہیں
(غزل: دست صبا)
9۔
تازہ ہیں ابھی یاد میں اے ساقیٔ گلفام
وہ عکسِ رخِ یار سے لہکے ہوئے ایام
(دوعشق: دست صبا)
10۔
ہر ایک صبح ملاتی ہے بار بار نظر
ترے دہن سے ہر اک لالہ و گلاب کا رنگ
(زنداں نامہ سے)
11۔
دامنِ درد کو گلزار بنا رکھا ہے
آؤ اک دن دلِ پُرخوں کا ہنر تو دیکھو
(غزل: زنداں نامہ)
شعرنمبر 2 میں یہ بتایا جارہا ہے کہ چاند کی روشنی میں محبوب کے پیرہن کا رنگ دمک رہا ہے اور نسیم اس کے آنچل کو نہایت ہی احترام اور عاجزی کے ساتھ اڑا رہی ہے۔ اس میں ’ادائے عجز‘ کے سبب شعری اور تخلیقی عظمت فزوں ہوگئی ہے یعنی یہ کہ محبوب کے آنچل کو چھونے میں ہوا بھی عجز و انکسار سے کام لے رہی ہے۔ شعر نمبر ۳ میں یہ پیکر ابھرتا ہے کہ محبوب کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ ہے اُسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سرخ شراب میں یاسمن کے پھول ڈوبے ہوئے ہیں۔ تبسم سے جو روشنی بکھری ہے وہ ایک اضافی چیز ہے، دراصل محبوب کے ہونٹوں کی سرخی کو مے گلنار کے مماثل قرار دینا تھا۔ حالاں کہ ہونٹوں پر مسکراہٹ کے سبب تبسم میں بھی ہونٹوں کی سرخی رل مل گئی ہے۔
شعرنمبر7 میں عاشق یہ کہہ رہا ہے کہ اے مرے محبوب تم جب رخصت ہوئے تو تمھارے غموں کا ایک دمکتا ہوا گلاب میرے حصے میں آیا۔ یہاں غم جدائی کی شدت کا بیان ہے۔ محبوب کے عارض کا پیکر مثل گلاب ہے یا یہ کہ اس کی یادیں دل پر زخم کے پھول کھلا رہے ہیں۔ یہاں مجروح سلطانپوری کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
جاؤ تم اپنے بام کی خاطر ساری لوئیں شمعوں کی کتر لو
زخم کے مہر و ماہ سلامت جشن چراغاں تم سے زیادہ
مجروح کے یہاں زخم مہر و ماہ کی طرح ہے جب کہ فیض کے یہاں غموں کا ایک خوں رنگ گلاب ہے۔ خون جیسے رنگ والا گلاب وہی زخم ہے جو شدت غم کے سبب ابھرا ہے۔
فیض نے شدت غم اور درد کو جگہ جگہ گلاب اور گلزار بنانے کی بات کی ہے۔ اوپر مذکور اشعار میں شعر نمبر۱۱ میں بھی انھوں نے دامن درد کو گلزار بنانے کی بات کی ہے اور پھر محبوب کو دعوت دی جارہی ہے کہ کسی دن آکر دل پُرخوں کا ہنر بھی دیکھ جاؤ۔ یعنی عاشق کے دل پُرخوں کا اثر ہے کہ اس درد کا دامن گلزار کی طرح کھل رہا ہے۔ ایسی لالہ کاری اور پیکرتراشی فیض کے تخلیقی فن کا اعجاز ہے۔
ایسے پیکروں کی مختلف جہات اور توضیحات ہوسکتی ہیں۔ ایسے شعروں میں ہم فلسفے اور وجدان (Intuition) کی تلاش نہیں کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ شاعری میں وجدان کا بہت کچھ عمل دخل ہوتا ہے۔
فیض کی خوبی یہی ہے کہ منفی اثر اور کیفیت پیدا کرنے والے اعمال یا اشیا میں بھی وہ ایک مثبت جہت تلاش کرلیتے ہیں۔ جیسے ابھی جس شعر کا ذکر ہوا اُسی طرح شعر نمبر۸ میں وہ کہتے ہیں کہ اس بار شراب کی کمی ہے لہٰذا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میں نے اپنے خون دل کی کشید مفت عام کردی ہے۔ اس میں سیاسی افادی پہلو بھی پوشیدہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر شعوری کوشش نہ کریں تو ایک سیدھے سچے انسان کی جاں نثاری اور جاں سپاری کا پیکر اُبھرتا ہے۔ اس دور جدید میں جو انتشار اور افراتفری ہے، آج جس طرح انسانوں کا لہو بہتا ہے بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں کا لہو جس قدر سستا ہوگیا ہے، اس تناظر میں بھی یہ شعر کہا جاسکتا ہے۔ یعنی یہ کہ انسانی خون کی بہ نسبت شراب مہنگی ہے۔ دکان پر شراب مفت نہیں ملتی لیکن سڑکوں پر انسانوں کا لہو مفت میں ضرور بہتا ہے۔ فیض کی تخلیقی ہنرمندی یہی ہے کہ وہ سیاسی بحران کو بھی احساس جمال اور کیف و نشاط سے ہم آہنگ کرکے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دوسرے ترقی پسند شاعروں کی بہ نسبت ان کا شعری اظہار ہمیں زیادہ اپیل کرتا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے:
’’فیض کے کمال فن کا ایک سامنے کا پہلو یہ ہے کہ وہ انقلابی فکر کو جمالیاتی احساس سے اور جمالیاتی احساس کو انقلابی فکر سے الگ نہیں ہونے دیتے بلکہ اپنے تخلیقی لمس سے دونوں کو ہم آمیز کرکے ایک ایسی شعری لذت اور کیفیت خلق کرتے ہیں جو مخصوص جمالیاتی شان رکھتی ہے۔‘‘
(ادبی تنقید اور اسلوبیات 2001، ص182)
یعنی یہ کہ اگر فیض کو میر کے اس شعر:
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
کی تفسیر و تعبیر بھی کرنی ہوگی تو وہ کوشش کریں گے کہ شعوری طور پر ذہن انسانی کو دھچکا لگنے سے بچا لیا جائے اور مضمون کی ترسیل بھی ہوجائے۔ اگر چاہیں تو اس تصور کے ڈانڈے افلاطون کے اس تصور فن سے ملائے جاسکتے ہیں جس میں اس نے کہا تھا کہ منفی جذبات مثلاً غصہ، رنج و غم، خوف و ہراس، حسد وغیرہ کے آزادانہ اظہار سے بھی مسرت حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کے بقول ہومر نے غصہ کے بیباک اظہار کی مسرت کا ذکر کیا ہے۔ افلاطون نے گرچہ ہمیشہ افادی فن کی تعریف کی جیسے فن طب، فن زراعت، فن تعمیر وغیرہ لیکن شاعری کے افادی پہلو کو جس سے انسانی اقدار کو ارفع کیا جاسکے، وہ مناسب اور درست سمجھتا تھا۔
جہاں تک فیض کے شعری امتیاز کی بات ہے، تو اس ضمن میں یہ بات ان کی تخلیقات (اکّا دکّا کو چھوڑ کر) کی روشنی میں کہی جاسکتی ہے کہ انسانی ذہن و ادراک کو متاثر کرتی ہیں، ادراک سے ماورا ہوکر پھسل نہیں جاتیں۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ الفاظ و تراکیب کے برتنے پر قدرت ہو اور یہ شعور بھی ہو کہ بھونڈی بھونڈی علامتوں یا دورازکار استعاروں سے ترسیل معانی کی راہیں مسدود نہ ہوجائیں۔ شاعری میں اسباب و علل کی حیثیت و اہمیت وہ نہیں ہوتی جو سائنس میں ہوتی ہے۔ فیض اس بات سے پوری طرح واقف تھے۔ شاعری ایک فن لطیف ہے، اس بات سے واقف ہونا ایک بات ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا دوسری بات۔ فیض اس حقیقت سے واقف بھی تھے اور اس پر عمل پیرا بھی رہے۔ Ransom اپنے ایک مضمون 'Poetry : a note on ontology' میں لکھتا ہے:
Science gratifies a rational or practical impulse and exhibits the minimum of perception. Art gratifies a Perceptual impulse and exhibits the reason.
دکھ اور غم کے شرار (یہ بھی سرخ ہوتے ہیں) کو گلزار بنایا جانا اور اسی الم آلود جائے وقوع کو سحر کا روشن افق قرار دینا فیض کی شاعری میں ایک بلند پیکرسازی کا عمل بن کر ابھرتا ہے:
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں / سحرکا روشن افق یہیں ہے
یہیں پہ غم کے شرار کھل کر / شفق کا گلزار بن گئے ہیں
نظم ملاقات (زنداں نامہ) کے تیسرے حصے سے یہ مصرعے لیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پورا ’زنداں نامہ‘ جیل ہی کی تخلیقات کا ثمرہ ہے۔ یہ 1953 کی نظم ہے۔ فیض نے صرف 1947 کی آزادی کا خواب نہیں دیکھا تھا بلکہ انسان کی اصل ذہنی آزادی کے وہ خواہاں تھے۔ انھوں نے ۴۷ء کی آزادی کے بعد کی افراتفری، جبر و قہر اور شب و ستم کے سائے تلے ہجرت اور انسانی خون کی گرم بازاری سے پیدا ہونے والی اپنی الم ناک اور نفرت آمیز فکر کو شعری پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ غم کا شرار ہو یا شفق کا گلزار، عارض گلگوں ہو یا رنگ پیراہن، آتش گل ہو کہ مے ارغواں، نور سحر ہو یا تہہ کمند صبا کی مست خرامی— گویا فیض نے جو بھی پیکر خلق کیا ہے، اس کا محرک انسانی اقدار کی پامالی یا خودانسانیت کی اسیری رہا ہے۔ کبھی کبھی اس میں صبح اور نورسحر کی بشارت بھی دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کی شدت احساس اور ان کے جذبات و احساسات کی چھٹپٹاہٹ غزل کے اس ایک شعر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ غزل جناح اسپتال، کراچی، جولائی 53ء میں کہی گئی تھی۔ شعر ہے:
آخر شب کے ہم سفر فیض نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئی
ایسا جیسے شاعر تنہا ہکّا بکّا کسی سنسان جگہ یا موڑ پر کھڑا ہوا اپنے ساتھیوں کو دیکھ رہا ہے اور یہ وقتِ آخرِ شب ہے، یعنی یہ کہ صبح ہونے ہی والی تھی کہ ہم سفر بچھڑ گئے یا منتشر ہوگئے اور صَبا جو پیام صبح لے کر آرہی تھی وہ بھی کہیں راستے میں رہ گئی یا کسی نے اُسے روک لیا اور آخرکار ایسے میں ’صبح‘ جو شاعر کی منزل تھی وہ خاموشی سے دبے پاؤں کسی دوسری طرف چلی گئی۔ فیض نے اس ایک شعر میں خود کو معدوم راوی رکھ کر آزادی کی قندیل لے کر چلنے والے قافلے کا حصہ بنایا ہے۔ صبا بھی ایک کردار ہے اور صبح بھی۔ یہاں تک ’شب‘ بھی کردار رہی ہے۔ رات (شب) سیاہی کی علامت ہے اور دوسرے مصرعے میں صبح (نور اور روشنی) آزادی یا ظلمت کے بعد کا سورج ہے— فیض کے معنیاتی نظام کی تشکیل میں ان کے فکری و فنی شعور کا بڑا عمل دخل ہے۔ انھوں نے سبک اور رواں اسلوب میں کریہہ اور ظلمت بھرے دور کی تاریخ کو نظم کرنے کی کوشش کی ہے۔ جو لوگ فیض کے دور اور ان کے فکری نظام سے واقف نہیں، انھیں ان کی شاعری میں محض رومانی حظ کا احساس ہوگا۔ ان کے تمام تر بصری اور حسّی پیکروں میں شعوری طور پر اپنے دور کی کشمکش اور انسانی جبر اور اس سے باہر آنے کی کوشش نظر آتی ہے۔ فیض کی ذہنی سطح پست نہیں، بلند تھی۔ انھوں نے فلسفہ طرازی کے بجائے انسانی اقدار کی عکاسی کی ہے۔ قدروں کی شکست و ریخت اور ان کی بقا کے نغمے گائے ہیں۔ نغمے اس لیے کہ ان کی شاعری میں بادصرصر کے بجائے صبا کی مست خرامی نظر آتی ہے۔ ادق اور ثقیل الفاظ کی کرختگی کی جگہ رواں لفظوں کی سبک گامی ملتی ہے۔ ایسا فیض نے شعوری طور پر کیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ جس عہد میں رہ کر جن مسائل کو پیش کررہے ہیں، ان کی کڑواہٹ کم کرنے کے لیے یہی اسلوب یعنی کلاسکی رچاؤ میں ڈوبی ہوئی شاعری ہی مناسب ہوگی۔ ان کی شاعری محض تخیلات (Imagination) یا پھر وہم یا فریب نظر (Hallucination) کی شاعری نہیں ہے۔ جن لوگوں نے انہی مسائل و موضوعات پر اسی عہد میں شاعری کی اور نعرے بازی اور کرخت لہجے یا انقلابی تیور کو اپنایا، آج ان کی شاعری کا حشر ہم آپ دیکھ سکتے ہیں۔ شاعری اور زبان کبھی بھی انجماد کا شکار نہیں ہوتی۔ اس کے مختلف روپ ہوتے ہیں، مختلف جہتیں ہوتی ہیں۔ مشہور ماہر لسانیات R. N. Srivastava نے لکھا ہے:
The domain of poetry is as varied as our life is; it is as complex and intricate as the situations of our living are; and it is as elastically pluralistic as our cultural matrix is. As poetry is realised in and through language and language is as creative as human mind is, it is natural to expect that language of poetry is as flexible as the domains of poetry.
(Essay: language of Poetry, Poetical Language and Poetic Language, From the book: Stylistics by R. N. Srivastava, Kalinga Pub. Delhi 1994, p:58)
شاعری ہماری زندگی کی طرح بوقلموں ہوتی ہے اور ہماری طرززندگی کی طرح ہی پیچیدہ ہوتی ہے۔ ساتھ ہی اس میں لچیلاپن ہمارے تہذیبی و تکثیری تناظر کی طرح ہوتا ہے۔ دراصل زبان ہی سے شاعری کی شناخت ہوتی ہے اور زبان انسانی ذہن ہی کی طرح تخلیقی شان رکھتی ہے۔ لہٰذا شاعری کے تناظر کی طرح شعری زبان کے لچیلے پن ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ اوپر کے انگریزی اقتباس کا یہ ترجمہ ہے۔ یہ Imagery یا تمثال علامت کی طرح Pseudo-subject نہیں۔ اس میں چوں کہ مشاہدے کو تخلیقی آنچ کے سہارے پیش کیا جاتا ہے اس لیے اس میں ایک طرح کی سیالیت ہوتی ہے جس کے سبب معانی و مفاہیم کی ترسیل میں مشکل نہیں ہوتی۔ فیض نے جن تمثالوں کی تشکیل کی ہے ان میں لچیلاپن کے ساتھ ساتھ تہذیبی و تاریخی تناظرات کی پوری معنویت نظرآتی ہے۔ ان کے شعری اور فکری نظام کی گرہ کشائی کے لیے گل رنگ تمثالوں کی حیثیت کلیدی ہے۔ یعنی یہ کہ عہدجدید میں فیض کے ان Refrential Images کی مزید چھان پھٹک کی جاسکتی ہے۔ یہ محض Conventional Images نہیں ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.