Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فاروقی کے تبصرے

خلیل الرحمن اعظمی

فاروقی کے تبصرے

خلیل الرحمن اعظمی

MORE BYخلیل الرحمن اعظمی

    پچھلے تین چار برسوں میں ہمارے یہاں جن نوجوان لکھنے والوں نے اپنی تحریروں سے ادبی حلقوں کو خاص طور پر اپنی طرف متوجہ کیا ہے ان میں شمس الرحمٰن فاروقی کا نام اب بہت نمایاں ہو چلا ہے۔ یوں تو انہوں نے متعدد ادبی مباحث پر مضامین و مقالات لکھ کر اپنی غیرمعمولی ذہانت اور تنقیدی صلاحیت کا ثبوت دیا ہے مگر ان کی جن تحریروں نے پڑھنے والوں کو سب سے زیادہ چونکایا ہے وہ ان کے تبصرے ہیں جو اردو کی بعض اہم کتابوں پر الہ آباد سے شائع ہونے والے جریدہ ’’شب خون‘‘ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان تبصروں میں جس قسم کی بے خوفی اور دیانت داری کو روا رکھا گیا ہے اور ہر قسم کی مروت اور مصلحت سے بلند ہوکر جس بے لاگ اور معروضی انداز میں زیر بحث مصنفین کے حسن و قبح پر اظہار خیال کی کوشش کی گئی ہے، اس کے ابھی ہم زیادہ عادی نہیں ہیں، اس لیے ان تبصروں کی اشاعت سے تبصرہ نگار کو وہ نیک نامی حاصل نہ ہو سکی جس کی تمنا ہر لکھنے والے کو ہوتی ہے۔ ان تبصروں کے رد عمل میں جو خطوط یا جوابی قسم کی تحریریں شائع ہوئیں اور ان میں سخن فہمی کے بجائے طرف داری کا جو مظاہرہ کیا گیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے مصنف اور ناشر اپنی کتابیں تبصرے کی غرض سے بھیجتے ہیں تو ان کے ذہن میں محض یہ تصور کارفرما ہوتا ہے کہ تبصرہ بھی ایک نوع کا اشتہار ہوتا ہے جو پڑھنے والوں کو کتاب کی خریداری کی ترغیب دیتا ہے۔ فاروقی نے نہ صرف یہ کہ اس روایت پر کاری ضرب لگائی ہے بلکہ ان تبصروں کو کتابی صورت میں شائع کرکے پڑھنے والوں کو ایک بار پھر بحث و تمحیص کی دعوت دی ہے۔

    یہ صحیح ہے کہ ہمارے یہاں تبصرے کی روایت بہت زیادہ جاندار نہیں رہی ہے اور تبصرے کا مقصد عام طور پر کتاب کا سرسری تعارف یا کچھ اشتہاری قسم کی رایوں کا اظہار ہوتا تھا اور اگر اس کے خلاف عمل ہوتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ تبصرہ نگار کو مصنف یا کتاب سے کوئی خاص پرخاش ہے اور یہ تبصرہ محض اس کتاب میں کیڑے نکالنے یا مصنف کی شہرت پر خاک ڈالنے کے لیے لکھا گیا ہے۔ یعنی اس طور پر بھی تصویر کا ایک ہی رخ سامنے آتا تھا مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے یہاں اچھے تبصرے لکھے ہی نہ گئے ہوں۔ جہاں تک مجھے علم ہے، کتابوں پر تفصیلی تبصروں کا سلسلہ سب سے پہلے مولوی عبدالحق نے رسالہ اردو میں شروع کیا تھا۔ مولوی صاحب نے خود بھی متعدد کتابوں پر بہت تفصیلی، بے لاگ اور متوازن تبصرے کیے اور بعض دوسرے ادیبوں سے بھی اسی نوعیت کے تبصرے لکھوائے۔ مولوی صاحب کے تبصروں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے اور رسالہ اردو میں اختر حسین رائے پوری، جلیل قدوائی اور عزیز احمد کے تبصرے بعض لوگوں کو اب بھی یاد ہوں گے۔

    پریم چند کے ناول ’’میدان عمل‘‘ پر اختر حسین رائے پوری کا تبصرہ اور مجاز کے مجموعۂ کلام ’’آہنگ‘‘ کے پہلے ایڈیشن پر جلیل قدوائی کی بے لاگ تنقیدی رائے اس سلسلے میں خاص طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔ علی گڑھ میگزین میں بھی بے لاگ تبصرے شائع ہوتے رہے ہیں۔ ’’انگارے‘‘ جب نئی نئی شائع ہوئی تھی تو آل احمد سرور نے اس پر ایسا منصفانہ تبصرہ کیا تھا جس کی تلخی بہت دنوں تک قائم رہی۔ لگ بھگ اسی زمانے میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کے رسالہ ’’سہیل‘‘ میں سرور صاحب نے اردو کی بعض اہم مطبوعات مثلاً ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ اور ’’بال جبریل‘‘ وغیرہ پر مفصل و متوازن تبصرے لکھ کر تبصرہ نگاری کی روایت کو بہت آگے بڑھا دیا تھا۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ کم کم سہی لیکن کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا ہے۔ ممتاز شیریں نے بنگلور سے ’’نیا دور‘‘ نکالا تو اس میں تبصروں کا حصہ بہت اہم ہوتا تھا۔

    عصمت کی ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ اور سردار جعفری کی ’’نئی دنیا کو سلام‘‘ پر عزیز احمد کے تبصرے اور عبدالقادر سروری کی تصنیف ’’جدید اردو شاعری‘‘ پر محمد حسن عسکری کی بےلاگ تنقید اب بھی میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ اس کے بعد تبصروں کی اس روایت کو صرف محمود ایاز نے اپنے رسالہ ’’سوغات‘‘ میں برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ محمود ایاز نے بعض بہت اچھے تبصرے کیے جن میں اخترالایمان کے مجموعۂ کلام ’’آب جو‘‘ ممتاز شیریں کے ’’میگھ ملہار‘‘ اور قرۃ العین حیدر کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ پر تبصرے اردو زبان کے چند معیاری تبصروں میں شمار ہونے کے لائق ہیں۔

    شمس الرحمٰن فاروقی کے تبصرے جن لوگوں نے پڑھے ہیں انہیں اندازہ ہوگا کہ وہ ان چند لکھنے والوں میں ہیں جن کی مغرب اور مشرق کے ادب پر گہری نظر ہے۔ وہ اپنے تبصرے صرف زیر بحث کتاب تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اس کے وسیلے سے ادب کے بعض اہم مسائل پر اپنے سوچے سمجھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان خیالات سے اتفاق ضروری نہیں لیکن یہ ہمیں غور و فکر کی دعوت ضرور دیتے ہیں اور اپنے بہت سے تاثرات و تعصبات پر نظر ثانی کے لیے مجبور کرتے ہیں۔

    فاروقی کے متعلق یہ رائے عام طور پر سننے میں آئی ہے کہ وہ نئی شاعری کے اندھے پرستاروں میں ہیں اور اس کی جاو بےجا حمایت ان کا مقصد زندگی ہے، مگر زیر نظر کتاب میں سب سے پہلا تبصرہ جو نئے شعراء کے ایک انتخابی مجموعہ ’’آبگینے‘‘ (شائع کردہ ادارہ مصنفین نو حیدرآباد) پر شامل کیا گیا ہے، اس میں فا روقی کی یہ رائے ہمیں سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

    ’’اس کتاب میں جو بات مجھ دودھ سے جلے قاری کو فوراً کھٹکتی ہے وہ جذباتیت اور سطحیت ہے۔ زیادہ تر نظموں اور غزلوں میں شاعر اپنے تصورات کی اوپری سطح میں الجھا نظر آتا ہے۔ اپنی شخصیت کے نہاں خانوں کے کونے کھدروں کی تلاش کی شاید ہمت نہیں پڑتی یا اگر کبھی ادھر جھانکنے کا موقع مل بھی جاتا ہے تو وہاں جو کچھ دیکھا ہے اسے کسی لمحۂ وقت سے منسلک کرکے اس کا بنیادی ربط یا بے ربطی ڈھونڈھنے میں ناکامی ہوتی ہے۔ دوسری طرف عشقیہ جذبات کی عمومیت اور روایتی طرز مطالعہ نظموں اور خاص کر غزلوں کے حسن کو ہم رنگی کے زہر بےتریاق کی نذر کر دیتی ہے۔ یہ سب تو پہلے بھی کہیں پڑھا تھا، کا احساس جو نئی شاعری کے قاری کو اکثر ہوتا ہے، اس کتاب کے مطالعہ کے دوران میں بار بار شدت سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘

    اسی طرح محمد علوی کے مجموعہ ’’خالی مکان‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بے لاگ رائے دی ہے،

    ’’محمد علوی کی خلاقانہ قوت کبھی کبھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہتی ہے اور نتیجے میں ایک طرح کی چپٹی، تجربہ و تصور سے معرا پھیکی شاعری جنم لیتی ہے۔ کھپریل کی منڈیر پر اونگھتے اور غٹرغوں کرتے مٹیالے کبوتر ہوں یا فضائے بسیط میں پرواز کرتے طائر لاہوتی، شعر کا موضوع اسی وقت بن سکتے ہیں جب ان کا تذکرہ قاری کے ذہن میں تجربے کے کسی سلسلے کو تحریک دے یا معنی خیز امکانات کے دروازے کھولے یا تخیل انگیز قال و اقوال پیدا کرے۔ محمد علوی جس طرح کی شاعری کرتے ہیں اس کا توازن بگڑنا بہت مشکل نہیں ہوتا۔ روایتی قسم کی گمبھیر شاعری تو پرانے کار آزمودہ ستونوں کے سہارے ایک اچھی خاصی مضبوط چھت کھڑی بھی کر لیتی ہے لیکن محمدعلوی جب توازن ہاتھ سے کھو دیتے ہیں تو کھوکھلی کوڑیوں کی مالا کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کہیں وہ بھی اسی طرح اپنے لہجے اور محاورے کے غلام ہوکر نہ رہ جائیں جس طرح روایتی شاعری کے علمبردار اپنی بے کیف رعایتوں اور بےمعنی بہارو خزاں اور گل و بلبل کے تار عنکبوت میں اسیر ہوکر رہ گئے تھے۔ روایتی شعرا کو تو چٹپٹے پن اور سہل انگار لفظ بازی تک آتے آتے سو برس لگے لیکن محمد علوی جس بال سے باریک پل پر کھڑے بارہ گولوں والا کھیل دکھا رہے ہیں، اس پر سے گرنے اور الفاظ کے دریائے پرشور میں ڈوبنے میں انہیں زیادہ دیر نہیں لگےگی۔‘‘

    اب ایک اور نئے شاعر راج نرائن راز کے شعری مجموعے ’’اساڑھ کی چاندنی‘‘ پر تبصرے کے ذیل میں یہ سطریں دیکھیے،

    ’’انہوں نے علامت کو محض استعارہ سمجھ کر استعمال کیا ہے اس لیے ان کی شاعری ذاتی رنگ میں رنگی ہونے کے باوجود کسی مکمل اور گہری علامت کا اظہار نہ بن کر اکہرے استعاروں کی محدود شاعری ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری میں تجربے کو عام، غیر مختص اور تقریباً نثری زبان میں بیان کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔۔۔ راج نرائن راز چونکہ بالکل سامنے کی باتوں سے رس نچوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے ان کی نظموں میں خون کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

    زبیر رضوی کے مجموعے ’’لہر لہر ندیا گہری‘‘ پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں،

    ’’ان کا ز یادہ تر کلام کا دھندلا، نیم روشن تاثر ذہن پر قائم رہ جاتا ہے، لیکن کوئی واضح صورت نہیں بن پاتی جو مردانہ شاعری کا خاصہ ہے۔‘‘

    یہ مثالیں میں نے اس لیے فراہم کی ہیں کہ فاروقی کے متعلق یہ خیال کہ وہ محض پرانے یا ترقی پسند شعرا کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے سنگ دلی اور بےرحمی اختیار کرتے ہیں اور نئے شعراء کی محض پیٹھ ٹھونکنا ان کا مشغلہ ہے، کسی صورت صحیح نہیں ہے۔

    فاروقی نے جن کتابوں پر ہنگامہ خیز تبصرے کیے ہیں ان میں سکندر علی وجد کا مجموعہ ’’اوراق مصور‘‘ مخدوم محی الدین کا ’’بساط رقص‘‘ اور سردار جعفری کے مجموعے ’’ایک خواب اور‘‘ اور ’’پیراہن شرر‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہ یں۔ ان تبصروں کی خوبی یہ نہیں ہے کہ یہ بہت متوازن ہیں یا ان میں جو رائیں دی گئی ہیں ان سب سے اتفاق کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ بایت قابل قدر ہے کہ ان مشہور اور مسلم الثبوت شعراء کے بارے میں عام تنقیدی رایوں سے مرعوب ہوئے بغیر لکھنے والے نے اپنی کسوٹی پر انہیں پرکھنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں بعض خیال انگیز باتیں کہیں ہیں۔

    وجد کے مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کی شاعری کو پیش پا افتادہ کہتے ہیں اور اس کی وجیہ یہ بیان کرتے ہیں،

    ’’اس پیش پا افتادگی، سطحیت یا غیر قطعیت کی سب سے بڑی وجہ شاعر کے ذہن میں اس تجسس، کرید، بے چینی اور کتب کی کمی ہے جو اسے کسی چیز کی صوری قیمت کو قبول کرنے سے روکتا ہے اور اسے سوال کرنے، پوچھنے اور الجھنے پر مجبور کرتا ہے۔ بیسویں صدی کے ادب بلکہ ہر اچھے ادب کی سب سے بڑی خصوصیت یہی سوالیہ نشان ہے۔۔۔ اگر آج کا شاعر یہ سوال نہیں کرتا تو اس کے پاس کہنے کے لیے بہت کم بچ رہتا ہے۔‘‘

    اسی طرح وجد کی مقبول عام نظموں ’’اجنتا‘‘ اور ’’ایلورا‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں تعلیم زدہ شاعری کا نمونہ قرار دیا ہے جس سے اس چیز کی کوئی تصویر ذہن میں نہیں ابھرتی جس پر یہ نظم لکھی گئی ہو۔ مثال کے طور پر اگر ان کے عنوان تبدیل کرکے ’’اجنتا‘‘ والی نظم پر ’’ایلورا‘‘ یا ’’ایلورا‘‘ پر ’’اجنتا‘‘ کے عنوان دے د یے جائیں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ ’’اشعار کھجوراہو کے مندر‘‘ ایلفنٹا کے غار یا کسی اور آثار قدیمہ پر منطق کیے جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔‘‘

    وجد پر یہ تبصرہ بڑی حدتک صحیح ہے، مگر فاروقی نے ان کی غزل کے بارے میں جو رائے قائم کی ہے اس سے اتفاق کرنا مشکل ہے، لکھتے ہیں،

    ’’وجد بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی غزل میں وہ کیفیت ملتی ہے جسے میں استادانہ ٹھسے سے تعبیر کرتا ہوں، یعنی لہجے میں ایک اعتماد اور وقار اور ادائیگی خیال میں ایک دھوکا دینے والی آسانی، اس لیے کہ شعر بظاہر بلا کسی غیرمعمولی کوشش کے کہا ہوا اور خود بخود ڈھلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ کیفیت بڑی مشکل سے پیدا ہوتی ہے اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ ان کی غزل کی شاعری بہت محتاط شاعری ہے۔ ان کے یہاں کھیل کھیلنے کے وہ انداز نظر نہیں آتے جو حسرت کی غزل کو اگر زندگی اور گرمی بخشتے ہیں تو اسے بھونڈی، عام اور کچی بھی بنا دیتے ہیں۔‘‘

    میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ وجد نظم ہی کے شاعر ہیں، البتہ ان کی نظم کا سا نچہ اور اس کا اسلوب اس طرح کی نظم گوئی سے قریب ہے جو اب گزرے زمانے کی چیز ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ نظم نگاروں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں چکبست، سرور جہان آبادی اور تلوک چند محروم وغیرہ آتے ہیں۔ اقبال کی ابتدائی نظمیں بھی اس ذیل میں آتی ہیں۔ وجد کی ان نظموں میں جس عنصر کی کمی ہے وہ داخلی عنصر ہے اسی لیے یہ نظمیں اس کرب اور تجسس سے عاری ہیں جس کی فاروقی صاحب کو تلاش ہے۔ مگر یہ خصوصیت دراصل وجد کے شعری مزاج کی ہے۔ ان کے یہاں داخلیت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اسی لیے وہ غزلوں میں اور بھی زیادہ بے کیف نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے ان کی غزلیں ابتذال سے پاک ہوں اور نشیب و فراز کے بجائے ان میں ایک طرح کی ہمواری ملتی ہو مگر اس سے ان کی غزل میں کسی مثبت عنصر کا اضافہ نہیں ہوتا بلکہ ان میں ایک طرح کی نظمیت ملتی ہے۔ خارجی قسم کی نظمیت جو غزل کی تہہ داری، نرمی اور گھلاوٹ سے انہیں دور رکھتی ہے۔

    وجد کو حسرت یا کسی غزل گو کے مقابلے میں رکھنا ایک طرح کی زیادتی ہوگی۔ ان کی جگہ نظم نگاروں کے ہی قبیلے میں ہوگی۔ وہ نظم نگار جو اقبال، چکبست اور جوش کے اسلوب سے آگے نہ بڑھ پائے بلکہ اسی دائرے میں رہ کر اب بھی مطمئن ہیں۔ روش صدیقی، ساغر نظامی وغیرہ کی نظمیں اسی طرز کی حامل ہیں۔ البتہ ان میں تھوڑا بہت فرق موضوعات کی نوعیت سے ہو سکتا ہے۔ وجد نے زیادہ تر تاریخی عمارتوں اور اہم قومی و سیاسی شخصیتوں کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ یہ نظمیں ایک نئے انداز کا قصیدہ ہیں۔ دیکھنے میں شاندار مگر داخلی سوز و ساز اور شخصی تجربے سے خالی۔ اس طرح کی شاعری کو میں اکہری شاعری کہتا ہوں۔

    مخدوم کے مجموعہ ’’بساط رقص‘‘ پر بھی فاروقی نے مفصل تبصرہ کیا ہے، مگر اس تبصرے میں زیادہ توجہ مخدوم کی ابتدائی دور کی نظموں پر صرف ہوئی ہے۔ اس دور کی نظمیں خواہ رومانی ہوں یا انقلابی و سیاسی، اس نسل کی ترجمان ہیں جو ہیجان و فشار کا شکار تھی۔ یہ سب شعراء جوش کی قیادت میں ایک طرح کی اعصاب زدہ شاعری کی تخلیق کر رہے تھے۔ مخدوم کے یہاں تو پھر بھی حسن ہے، دوسرے شعراء کی نظمیں تو دوبارہ پڑھنے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ مخدوم کے یہاں ’’گل تر‘‘ سے ایک واضح ارتقا ملتا ہے اور صحیح معنوں میں پائدار شاعری انہوں نے اسی زمانے میں کی ہے۔ فاروقی نے بجاطور پر ’’چاند تاروں کا بن‘‘ اور ’’لخت جگر‘‘ کو اردو کی چند بہترین نظموں میں شمار کیا ہے۔ اگر وہ ان نظموں کا مفصل تجزیہ کرتے اور ان کی معنویت اور ندرت کو ابھارتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ اس رائے سے بھی اتفاق کرنا مشکل ہے کہ ’’چارہ گر‘‘ معمولی اور سطحی نظم ہے۔ ممکن ہے اس کا گیتوں کا لہجہ اور پھر فلم میں اس کی مقبولیت نے فاروقی کو بدگمان کیا ہو، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ ’’چارہ گر‘‘ اپنی جگہ پر ایک خوبصورت اور موثر نظم ہے۔

    مخدوم کی اور بھی متعدد نظموں پر انہیں غور کرنا چاہیے تھا اس لیے کہ اس کے بعد بھی ان کے یہاں مسلسل تبدیلی اور ارتقاء کا عمل جاری ہے۔ سردار جعفری کے مقابلے میں مخدوم کی تازہ نظمیں نئی شاعری سے زیادہ قریب ہیں۔ اگرچہ وہ اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے نئی شاعری کے بارے میں نامناسب رائیں دیتے رہتے ہیں۔

    سردار جعفری پر بھی تبصرہ اچھا ہے، اگرچہ صرف دو مجموعوں کو سامنے رکھنے سے ان کی شاعری کے بیشتر عیوب پر فاروقی کی نظر نہ جاسکی۔ اس تبصرے میں بعض جگہ متضاد خیالات بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں،

    ’’سردار کے اچھے اشعار میں جو چیز ہمیں فوراً متوجہ کرتی ہے وہ ان کے لہجے کی اشرافیت اور علویت ہے۔‘‘

    مگر آگے چل کر فرماتے ہیں کہ،

    ’’اگر عوامی شاعری کوئی چیز ہے تو اس کی جھلکیاں سردار کے یہاں ملتی ہیں۔‘‘

    میں سمجھتا ہوں کہ جس شاعر کی بنیادی خصوصیت علویت اور اشرافیت ہو وہ عوامی شاعری کر ہی نہیں سکتا۔ عوامی شاعری کی مثال جعفری کا کلام نہیں ہے بلکہ مطلبی فرید آبادی کی نظمیں اور گیت ہیں۔ ان کے مجموعے ’’پنہاری‘‘ ’’کسان رُت‘‘ اور ’’ہیّا ہیّا‘‘ غالباً فاروقی کی نظر سے نہیں گزرے۔

    فاروقی کے تبصرے سے اختلاف اور بھی جگہوں پر ہو سکتا ہے لیکن اس سے ان تبصروں کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ یہ تبصرے ہمیں اکستاتے، چھیڑتے اور کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

    مأخذ:

    جدید اردو تنقید کا تجزیاتی مطالعہ (Pg. 114)

    • مصنف: نشاط فاطمہ
      • ناشر: اثبات و نفی پبلیکیشز، کولکاتا
      • سن اشاعت: 1998

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے