aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب اور تشکیک

باقر مہدی

غالب اور تشکیک

باقر مہدی

MORE BYباقر مہدی

    میں اپنے مضمون کا آغاز غالب کے ایک دعائیہ شعر سے کرتا ہوں۔

    اے آبلے کرم کر، یا ں رنجہ اک قدم کر

    اے نور چشم وحشت، اے یادگار صحرا

    اس لیے کہ تشکیک پر گفتگو ایک معنی میں خار مغیلاں کی راہ سے گزرنے کی داستاں سے کم نہیں ہے۔ آج اس مسئلہ پر بحث کرنا واقعی معنی خیز ثابت ہو سکتا ہے، اس لیے کہ ’’یقین‘‘ کا شور نشور سوالیہ سرگوشیوں کو مکمل سکوت میں بدلنے کے درپے ہے۔ آج ایک طرف اکثریت تیزی سے فاشزم کی طرف بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف اقلیتیں اتنی ہی سرعت سے بنیاد پرستی (Fundamentalism) کی طرف مراجعت کر رہی ہیں۔ انسانی فطرت کو کسی ایک حلقے اور کسی ایک ’’یقین‘‘ میں محصور نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ انسانی تلون مزاجی رنگ لاکر رہتی ہے۔

    یونانی زبان میں مشکک کو (Sektikans) اسکیپسٹی کوس کہتے ہیں بمعنی (Inquirer) دریافت کرنے والا۔ تشکیک باقاعدہ کوئی فلسفیانہ تصور نہیں تھا، اس لیے کہ مشکک کہتے ہیں کہ فوری تجربے کے علاوہ کوئی علم حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ کچھ کا خیال تھا کہ یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سوال بھی تشنہ اور جواب بھی تشنہ۔ سوال کا ذہن میں پیدا ہونا بھی تو ایک قسم کے شک کا اظہارہے۔ جاننے اور جان کر اظہار کی کشمکش ہی شک کو استدلال دینے کی کوشش کرتی ہے۔ برٹرنڈرسل نے ایک مشکک مفکر کا ذکر کیاہے جس کے پڑھانے کا یہ طریقہ تھا کہ وہ کوئی خیال تھیسس (Thesis) خود پیش نہیں کرتا بلکہ طالب علموں سے کہتا تھا کہ وہ خود کوئی بات، خیال یا تصور پیش کریں اور پھر وہ خامیاں نکالتا تھا۔ اس کا نام تھا Arcesileustا رسیسی لاس (اس کی موت ۲۴۰ ق م میں ہوئی)

    رسل کا خیال ہے کہ افلاطون اور سقراط کے مکالمات بھی تشکیک کو فروغ دینے میں پیش پیش رہے تھے۔ ہیراکیلیٹس کی مابعدالطبیعات نے سب سے بڑھ کر اس خیال کو تقویت پہنچائی تھی۔ اسی نے کہا تھا کہ We Step & do not in the same river ہم قدم رکھتے ہیں اور نہیں بھی قدم رکھتے ہیں، اس لیے کہ یہ دریا ہر لمحہ بہتا رہتا ہے۔ اس میں ہر لمحہ تازہ پانی رواں ہے۔ اسی کا خیال تھا کہ ’’ہر دن نیادن ہے۔‘‘ ہیراکیلیٹس کا ایک اور مشہور قول ہے، ’’کثرت میں وحدت‘‘ اور’’وحدت کثرت ہی کی وجہ سے ہے۔‘‘ یہ ہمارے ملک کے Unity in Diversity کے ثقافتی تصور سے ملتا جلتا ہے شاید۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ us. It is the Opposite which is good for

    رسل کا خیال ہے کہ ہیگل کا فلسفیانہ طریقہ کار کہ تضادات کا اتصال ہی علم کی پرکھ کر سکتا ہے ۔ Synthesis of Opposites کے جراثیم Germs اسی تصور میں پائے جاتے ہیں۔ رسل تو یہاں تک کہتا ہے کہ جدید ادبی تحریکوں کے لیے یہیں سے کشمکش ملی تھی۔ دوسرا اہم نام فررحو Pharon کا ہے (۳۶۰ق م سے ۲۷۰ ق م تک) اس نے باقاعدہ تشکیک کے دبستان کی تشکیل کی تھی۔ انسان کے فطری رجحان، ذاتی تجربات کی پرکھ اور سماجی رسوم کو مانتے یابرتتے ہوئے بھی آدمی کے لیے یہ ضروری نہیں ہے وہ دل سے عقائد کو مانتا ہوکہ دل کی کس کو خبر ہے۔ اصل میں ساری بحث صداقت اور حقیقت کی جانکاری، حصول اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے کے سوالات سے منسلک ہے۔

    ڈیکارٹ نے کہا تھا، ’’میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔‘‘ اس پر ایک اور اسکپیسٹی کوس نے کہا تھا، یہ یوں ہونا چاہئے، ’’میں نے سوچا ہوگا اسی لیے میں ہوں۔‘‘ I may have thought therefore I am اس کا نام تھا پیرے ڈینیل ہیو (Pierre Danial Huet) یہاں تشکیک کی تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں، اشارتاً یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ سوال کا ذہن میں پیدا ہونا انسانی فطرت میں شامل ہے۔ اس میں حیرت Wonder اور تجربے کی ملی جلی خواہشات بھی شامل ہیں۔ یہ صرف ذہنی خلش نہیں ہے، شکم کے مسائل بھی اس سے پیدا ہوتے ہیں یعنی روٹی کی جستجو، مسرت کی تلاش۔ کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ بصیرت بھی ان سوالات کے اٹھانے سے مل سکتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تشکیک ایک قسم کی Gedfly ہے جو ناحق لوگوں کو پریشان کرتی ہے مگر دنیا کے بڑ ے ذہین مفکروں کی تلاش وجستجو کی بنیاد بھی تشکیک نے ڈالی ہے۔

    پولیانی نے تو یہاں تک کہا ہے، ’’عیسائی استبداد سے عوام کو بچانے میں یہ معاون رہی ہے۔‘‘ اور یہ تقریباً ہر عہد کے حکمراں ثقافتی رجحانات کے طلسم پر سوالیہ نشانات تشکیک کے بدولت لگائے گئے ہیں اور غالب جس عہدمیں پیدا ہوئے تھے اس عہد میں بھی یہ سوالات تھے کہ علم کی رسائی کہاں تک ہے؟ عرفان کیا ہے؟ حقیقت کسے کہتے ہیں؟ کیا سب وہم ہے؟ تصوف کے بہت سے بنیادی خیالات پر ان ہی مباحث کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں ۔ جب حقیقت کے کئی کئی معنی ہیں تو کون سچ ہے اور خود سچ کیاہے؟ سچ کو کس طرح حاصل کیا جائے اور انسانی ذہن کتنی صداقت حاصل کرنے کی توفیق رکھتا ہے؟ غالب کی شاعری میں یہ شبہات بار بار اٹھتے ہیں اور جبر و اختیار کے سارے مسائل ان ہی سوالات کے بطن سے آتے ہیں اور کیا زندگی صرف سوالات کے جوابات تلاش کرنے کا نام ہے؟ اور پھر زندگی خود کیا ہے؟ ہیراکیلیٹس آگ کو مانتا تھا اور آپ دیکھتے ہیں کہ غالب کے اشعار میں آگ، شعلہ، خاکستر، روشنی، نور اور اس سے منسلک الفاظ بار بار آتے ہیں۔

    انہوں نے یونانی فلسفیوں کے تراجم جو فارسی میں ہو چکے تھے، پڑھے یاسنے ہوں گے۔ شمع کشتہ، داغ ناتمامی، سینہ، دھواں، رقص شرر غرض کہ غالب کی شاعری کی رنگارنگی خلش، جستجو، آرزو، شوق اور یوں ہوتا تو کیا ہوتا کی مسلسل پیکرتراشی سے معمور ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے خیال آتاہے کہ مسلسل ناکامی کے سبب غالب کی اپنی انا Ego کی پرورش میں یہی آگ تھی جس نے انہیں بار بار اپنے ذہنی آئینہ خانے میں جانے پر مجبور کیا تھا۔

    مدعا محو تماشائے شکست دل ہے

    آئینہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے

    یا یہ شعر

    بازی خور فریب ہے اہل نظر کا ذوق

    ہنگامہ گرم حیرت بودو نبود تھا

    غالب ایک Genius کاذہن لے کرآئے تھے اور اس لیے ابتدا ہی سے مسلسل سوالات کرنے کے عادی تھے۔ غالب نے جب یہ کہا تھا کہ ’’ہرکس کہ شدصاحب نظر دین بزرگاں خوش نہ کرد‘‘ توان کے ذہن میں آذر اور ابراہیم کی روایت سے زیادہ اپنی وراثت کے خیالات کے دو نیم ہونے کا خیال تھا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم غالب کی ابتدائی زندگی اور شاعری پر ایک نظر ڈالیں۔

    اردو کے بیشتر ناقد غالب کی زندگی پرسب سے زیادہ اثرات ان کی یتیمی اور تنگ دستی اور اس کے نتیجے میں خواہش مرگ کو قرار دیتے ہیں۔ خورشیدالاسلام ’’یتیمی‘‘، محمد حسن ’’معاشی پریشانیوں‘‘ کو ان کی شخصیت کی تشکیل میں اولیت دیتے ہیں۔ میری رائے میں ان کے خلاقانہ ذہن کو اولیت دینی چاہئے تھی۔ اگر وہ اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے میں اپنی بصیرت اور آزاد خیالی کو فروغ نہ دیتے تو یہ ممکن تھا کہ کسی نہ کسی مقام پر ٹھہر کے رہ جاتے ۔ یہ ہر تیزرو کے ساتھ چل کر اپنی راہ الگ بنانے کا خیال بھی نہ آتا۔ ہمارے ادب میں فلسفی کا لقب سر ڈاکٹر محمد اقبال کے لیے ’’وقف‘‘ ہو چکا ہے مگر میری رائے میں غالب کا ذہن بھی ایک مفکر کا ذہن تھا اور وہ ہر شے پر سوالات لگاتے ہوئے اپنے اندر اور باہر کی حقیقت کا جائزہ لیتا تھا۔

    ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے

    وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟

    آخروہ کسی رنگ، خوشبو، خیال، جذبے اور عقیدے پر مکمل بھروسہ کیوں نہیں کر سکے؟ کیا وہ مستقل مزاجی کا شکار رہے؟ نہیں یہ ممکن نہیں ہے۔ وہی ہیراکیلیٹس کا خیال، تضادات میں وحدت کی تلاش، انسان کی تلاش اور سب سے بڑھ کر اپنی ذات کو ہر آگ میں جلاکر کندن بنانے کی لگن (شوق) اور جب یہ زہران کی رگ وپے میں اترا تو غالب کی انفرادیت کی بنیاد پڑی لیکن انفرادیت کی بنیاد کسی کو اتنا اہم شاعر کیسے تراش سکتی ہے؟ انہیں خود احتسابی کا وہ شعور ملا تھا کہ وہ تماشا اور تماشائی دونوں کو الگ الگ دیکھ سکتے ہیں اور اسی خوبی نے ان میں طنزومزاح کی وہ صلاحیت پیدا کی جوان کی شاعری میں ایک اہم عنصربن گیا یعنی حالی انہیں لاکھ ’’حیوان ظریف‘‘ کہیں مگر یہ ایک مفکر کی خندہ زنی تھی، کسی مسخرے کی نہیں اور یہ صفت انہیں ایک دریافت کرنے والے ذہن نے عطا کی تھی۔ انہیں مشکک کے بجائے اسکیپٹی کوس Skeptikes سے یاد کرنا چاہئے، جب ہی یہ پتہ چلےگا کہ ان کی شاعری میں اتنی تازگی، اتنی رونق اور اتنی نغمگی کیسے آ گئی کہ سو برس گزر گئے مگر آج تک یہ ہمارے دل وجان کو زندگی بخش رہی ہے۔

    محترمی احتشام حسین نے ایک مختصر مضمون میں غالب کی تشکیک کا یوں ذکر کیا ہے، ’’غالب کا زمانہ عام انسانوں کی تقلید اور روایت پرستی کا زمانہ تھا اور حساس انسانوں کے لیے تشکیک کا۔ غالب بھی شک کا شکار تھے لیکن شکوک کو روند کر آگے بڑھ جانا چاہتے تھے۔ مجبوری یہ تھی کہ تاریخی تقاضے یکسوئی حاصل نہ ہونے دیتے تھے۔ امیدوبیم کے درمیان ہچکولے کھاتے رہنا، قدیم اورجدید کے درمیان فیصلہ نہ کر سکنا یہی غالب کی تقدیر بن گیا۔‘‘ (اعتبار نظر، ص ۱۹۸)

    احتشام صاحب کا یہ مضمون ۱۹۴۷ء کا ہے ۔ وہ غالب کو بت شکن تسلیم کرتے ہیں مگر یہ نہیں کہتے کہ غالب ’’بلبل گلشن ناآفریدہ‘‘ اسی کشمکش، اسی ذہنی بحران اور کرب آگہی کی وجہ سے بنے۔ ان کے بیان میں ’’غالب بھی شک کا شکار تھے۔‘‘ ایک معنی میں غلط ہے کہ غالب اپنے اجداد کے ورثے میں پائے ہوئے تصورات پر سوالات لگاتے ہوئے اپنی شاعری اور زندگی کو پروان چڑھا رہے تھے۔ شک کے ہرگز شکار نہ تھے بلکہ شک توان کی فکر میں ایک ’’صیدزبوں‘‘ ہے یعنی شک ان کی فکر کا شکار تھا نہ کہ ان کی فکر۔۔۔ ظاہر ہے کہ احتشام صاحب نے یہ مضمون ۴۲ برس کی عمر میں لکھا تھا۔ انہوں نے ۱۹۵۲ء میں ایک اور مضمون لکھا تھا۔ وہ بھی توجہ طلب ہے ’’غالب کا تفکر۔‘‘ مجھے یہ مضمون سننے کا موقع ملا تھا۔ احتشام صاحب نے یہ مضمون اسرارالحق مجاز کے مکان ’’سراج منزل‘‘ میں پڑھا۔ اس ادبی نشست میں بہت سے اہم ادیب شریک تھے اور سب سے اہم شخصیت پروفیسر مسعود حسین ادیب کی تھی۔ میں نے یہ مضمون کئی بار پڑھا ہے۔ اس لیے میں اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ احتشام صاحب رقم طراز ہیں،

    ’’ان کی عملی زندگی محدود تھی۔ انفرادی اورذاتی تجربات کا لازوال خزانہ ان کے پاس تھا لیکن اسے اجتماعی زندگی کے ڈھانچے میں بٹھانا آسان نہ تھا۔ لامحالہ انہوں نے اسی مواد پر عمارت کھڑی کی جو انہیں ذہنی طور سے ورثہ میں ملا تھا۔ بس انہوں نے یہ طے کیا کہ بدلتے ہوئے حالات اور ذاتی تجربات سے مدد لے کر اس عمارت میں چندا یسے گوشے بھی تعمیر کر دیے جو ان کے پیش روؤں سے نہ ممکن تھے نہ جن کے نقشے ذہن میں تعمیر ہوئے تھے۔ ان ذاتی تجربات کے علاوہ غالب کا وسیع مطالعہ تھا جو ان کے ذہن کے لیے غذا فراہم کرتا تھا اور وہ قدیم علوم کے ذریعہ سے نئے تجربوں کو سمجھنے کی کوشش میں انہیں نیا رنگ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ اسی چیز کو ان کے ناقدوں نے جدت، تازگی اور طرفگی مضامین سے تعبیر کیا ہے ۔۔۔‘‘ (نقدغالب مختارالدین احمد۔ ص ۲۲۔ ۲۳)

    ظاہر ہے کہ غالب نے غزل کی پرانی عمارت کی بنیادوں پر اپنی عظمت کا قصر تعمیر کیا تھا مگر میری رائے میں کوئی شاعر چند گوشے تعمیر کرکے شاعری میں وہ درجہ نہیں پا سکتا تھا جو غالب نے وقت سے چھین لیا تھا۔ اپنی شاعری پر اتنا اعتماد کم ہی شاعروں کو ملا ہے جتنا کہ غالب کو حاصل تھا۔ یہ کچھ توان کی انا Ego نے دیا تھا اور کچھ ان کی اپنی بصیرت نے عطا کیا تھا۔

    ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے

    بے سب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

    یہ خود کو ’’ہدف ملامت‘‘ بناکر اپنی دانائی اور ہنر میں یکتا ہونے کاسلیقہ غالب ہی کو آتا تھا۔ طنز ملیح کی نشتریت ہی غالب کی ماحول پرخندہ زنی کو نمایاں کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی عظمت کا مکان عرش سے پرے بنا چکے تھے اور ایک بلندی سے اپنے فن کا جائزہ لینے کا ہنر جانتے تھے۔ احتشام صاحب کے مضمون کی بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ پرانے مارکسزم کے نظریے کو منطبق کرکے غالب کے شعور کا تجزیہ کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے غالب کے شعور کو سمجھنے کے لیے ۱۸۵۷ء کو کسوٹی قرار دیا ہے جبکہ غالب کا شعور اس وقت تک پختہ ہو چکا تھا اور خواہ سیاسی واقعہ کتنی ہی تاریخی اہمیت کیوں نہ رکھتا ہو، کسی عظیم شاعر کے شعور کو اس کی کسوٹی بنانا صحیح نہیں ہے۔ شاعر کے شعور کا اندازہ اس کی فنکارانہ خصوصیات میں تلاش کرنا چاہئے ۔ یہ ممکن ہے کہ شاعر اپنے دور کے تاریخی عوامل کو نظرانداز کر دے اور پھر بھی اپنا کارنامہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہو جائے، اس لیے کہ فردسماج کا ایک جزو ہوتے ہوئے بھی اپنی الگ کائنات خالق ہوتا ہے۔ خاص کر غالب۔

    ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال

    ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

    اور ایک شعر میں غالب نے نہایت فنکارانہ سلیقے سے کہاہے وہ زندگی کیسے گزارتے تھے۔

    ہم نے وحشت کدہ بزم جہاں میں جوں شمع

    شعلہ عشق کو اپنا سروساماں سمجھا

    پروفیسر محمد مجیب نے اپنے نہایت فکرخیز مضمون ’’غالب پر ایک نظر‘‘ میں لکھا تھا، ’’میرے نزدیک غالب کے ابتدائی دور کی سب سے نمایاں خصوصیت انسانیت کا اثبات ہے۔ ڈاکٹر اقبال کی اثبات خودی نہیں۔ اس کی پشت پر اخلاقی اور روحانی مصلحتیں نہیں ہیں۔ ایک آزادانسان کی واردات قلبی کے سوا کچھ نہیں۔ غالب کے لیے انسان ہونا ایک درد بے اماں تھا،

    شکوہ وشکر کو ثمر بیم وامید کا سمجھ

    خانہ آگہی خراب دل نہ سمجھ بلا سمجھ

    (عرفان غالب مرتب آل احمد سرور ص ۱۱، اشاعت ۱۹۷۳ء)

    اور ڈاکٹر عالم خوند میری نے غالب کے شعور کی بحث کرتے ہوئے لکھا تھا۔ مضمون ’’غالب اور عصریت‘‘ کا اقتباس، ’’غالب نے حقیقت کے بارے میں یہ عظیم کشف حاصل کیا تھا۔ اس کے نزدیک یہ کائنات ایک خیال بھی ہے اور تمنا بھی بلکہ تمنا ہے، اسی لیے خیال بھی ہے۔ یہی ازلی اور ابدی خیال انسانی نفس اور شعو رمیں اضطراب بن جاتا ہے کیونکہ انسانی وجود صرف خارج کی ساکن تصویریں حاصل نہیں کرتا بلکہ کائنات کی حرکت میں حصہ دار بھی ہوتا ہے۔ اسی کو شاعرانہ زبان میں غالب نے ’’توفیق‘‘ کا نام دیا ہے۔ غالب کو شعور کو یہ توفیق ہوئی تھی۔ وہ اس کائنات کے اضطراب کا حصہ دار بن گیا اور یہی اس کی مضطرب شخصیت کا راز ہے۔

    مراشمول ہر اک دل کے پیچ وتاب میں ہے

    میں مدعا ہوں تپش نامہ تمنا کا۔‘‘

    (عرفان غالب مرتب آل احمد سرور۔ ص۔ ۲۷۔ ۲۸)

    غالب کی ابتدائی شاعری پر یہ مختصر بحث غالب کی فنکارانہ فکرخیز شخصیت کی چند جھلکیاں پیش کرنے کی ایک سعی ہے۔ صرف یہ ثابت کرنا مقصدتھا کہ ابتدا ہی سے غالب کو فکر رسا عطا ہوئی تھی۔ اس پر صیقل کرکے انہوں نے ایک ایسا آئینہ بنایا کہ تشکیک ان کی شاعری کی ایک پرتو ہے، کل نہیں مگر یہ بحث ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، اس لیے کہ ۔۔۔ ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور۔

    میں پروفیسر احمد علی کی کتاب ایک سنہری روایت The Golden Tradition میں غالب کے بارے میں یہ جملے پڑھ کرایک لمحے کے لیے ڈر گیا کہ اگر غالب اورنگ زیب کے زمانے میں ہوتے۔۔۔ تو پتہ نہیں کیا ہوتا۔ احمد علی کا یہ خیال پوری تفصیل کے ساتھ ملاحظہ ہو۔ وہ لکھتے ہیں (آزاد ترجمہ)،

    ’’انیسویں صدی ذہنی خلفشار سے دوچار تھی۔ متوسط طبقہ اور دانشور دونوں ہی مباحث میں پورے جوش وخروش سے شریک تھے۔ مذہب اور سیکولر خیالات کے درمیان باریک دھاگے کا فرق تھا۔ غالب کے احباب جہاں زندگی اور شاعری کی بحث کرتے تھے وہیں وہ مذہبی مسائل پر بھی شدومد سے گفتگو کرتے تھے۔ غالب کیسے ان کے اثرات سے بچ سکتے تھے۔ ان پرطرح طرح کے الزامات عائدکیے گئے ہیں ۔ مشکل پسندی، ابہام حتیٰ کہ الحاد تک کا الزام لگایا تھا۔ اگر کہیں وہ اورنگ زیب کے عہدمیں پیدا ہوئے ہوتے۔۔۔ کوئی بھی قیاس کر سکتا ہے کیا ہوتا؟ ان کے یہاں تخیل کی جرأت، مابعدالطبیعاتی خیالات کی گہرائی اور ایک دانشور کی راستی (Integrity) اور سب سے بڑھ کر صداقت کی ایماندارانہ جستجو پائی جاتی ہے۔‘‘ (ایک سنہری روایت۔ ص ۶۶ کولمبیا پریس ۱۹۷۳ء)

    میری رائے میں غالب کی آزاد خیالی ہی نے انہیں لوگوں میں منحرف، مشکک اور حتی کہ کافر کہلایا تھا۔ اب یہ دیکھنا چاہئے کہ غالب نے کن خیالات پر سوالیہ نشان لگائے ہیں اور کن کو نیم جاں چھوڑ دیے ہیں لیکن سب سے پہلے پروفیسر احمد علی کے تنقیدی تاثرات اور تجزیے کا کچھ ذکر ہو جائے۔ لوگ بجنوری پرخندہ زن ہیں کہ انہوں نے غالب کو گیٹے کے علاوہ دنیا کے تمام شعرا میں بہتر قرار دیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ غالب کا اہم یورپی شعرا سے مقابلہ کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ ان کا مرتبہ کسی سے کم نہیں ہے۔ میں نے یہ ذکر اس لیے کیا کہ بجنوری کے تاریخی کارنامہ کو صرف اس لیے بدنام کیا جا رہا ہے کہ وہ ادبی تنقید کے اعلیٰ معیار پوری طرح نہیں اترا جبکہ مغربی تنقید ترقی کرتے کرتے فلسفہ کی ایک شاخ بنتے جا رہی ہے۔

    بیچارے بجنوری نے اپنے دلی تاثرات کا مبالغہ سے اظہار کرکے تنقید کا کارنامہ نہ کیا ہو مگر غالب کی عظمت کی نشاندہی ضرور کر دی تھی۔ اس لیے میری رائے میں اردو تنقید جس حقارت سے ان کا نام لینے لگی ہے اس پر سخت تنقید کی ضرورت ہے تاکہ بجنوری کے تاریخی ادبی رول کا اندازہ ہوسکے۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی ہے کہ دیوان غالب میرے لیے بھی ایک ’’مقدس کتاب‘‘ ہے، اس لیے کہ غالب کی شاعری اور شخصیت ہماری ہندوستانی ثقافت کا ایک روشنی کا مینار ہے۔ خواہ کوئی مجھے ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی نہ سمجھے۔

    اب آئیے ان سوالات کا جائزہ لیں جن کے تلخی نے غالب کو ’’ہدف ملامت‘‘ بنایا تھا۔ اس سلسلے میں پہلا سوال خدا کے تصور کے سلسلے میں ہے۔ غالب صوفی نہیں تھے لیکن ایک عمر تک وحدت الوجود کے قائل رہے اور اس فلسفے کے بارے میں میکش اکبرآبادی لکھتے ہیں، ’’غالب بادہ خوار تھے، آزاد خیال تھے، نماز روزے کے پابند نہیں تھے مگر توحیدورسالت کے قائل تھے، اہل بیت سے محبت کرتے تھے۔ ایک صوفی کی طرح انسان دوست تھے کیونکہ وہ ساری کائنات کو ایک خدا کا ظہور سمجھتے تھے اور وحدۃ الوجود کے قائل تھے۔ یہی تصوف کا اصل اصول ہے۔۔۔‘‘

    اس بیان کے بعد میکش صاحب غالب کی شاعری پر ویدانت اور ابن عربی دونوں کے اثرات کے اشعار پیش کرتے ہیں۔ غالب کا تصور خدا ایک مفکر کا تصور تھا یعنی وہ اس کے یکتا ہونے کے قائل ضرور تھے مگر ان کے ذہن میں چند سوالات بھی اٹھتے تھے،

    زندگی اپنی جو اس شکل سے گزری غالب

    ہم بھی کیا یاد کریں گے خدا رکھتے تھے

    اس شعر میں کشمکش ضرور ہے مگر خدا کا انکار نہیں ہے۔ خدا کے اثبات کا ایک اور شعر دیکھئے،

    یارب ہمیں تو خوا ب میں بھی مت دکھائیو

    یہ محشر خیال کہ دنیا کہیں جسے

    خدا سے قربت کا لب ولہجہ اس شعر کو کتنا خوبصورت بنا دیتا ہے جیسے خدا غالب کا ایک رفیق ہے۔ غالب خدا کا ذکر کبھی یوں نہیں کرتے، ’’تو بھی تو ہرجائی ہے‘‘ یا’’جہاں تیرا ہے یا میرا۔‘‘ غالب کی شاعری میں فلسفیانہ افکار شعری قالب میں ڈھل کر آتے ہیں۔ وہ خالق کائنات کی تخلیق کردہ دنیا پر طنز کرتے ہیں لیکن انہوں نے عبدالحمید عدم کی طرح اسے دلچسپ جرم بھی نہیں کہا۔ دنیامیں رہ کر خدا سے یہ کہنا کہ دنیا کو نہ دیکھنا غالب کے مصورانہ ذہن کا کتنا خوبصورت خیال ہے اور اس میں طنز ملیح کہ یہ کائنات تونے تخلیق کی ہے جو محشر خیال ہے۔ غالب آدمی کو’’محشر خیال‘‘ بھی کہہ چکے ہیں ۔ ایسے خلاقانہ ذہن کے بارے میں یہ کہناکہ وہ کسی ایک خیال، کسی ایک عقیدہ کا ’’قیدی‘‘ ہو جائے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے ۔ غالب نے ملمع سازوں پر ایک فنکارانہ وار کیا ہے۔ اگر اس سے کسی کا عقیدہ نیم جاں یا مجروح ہوتا ہے تو کیا کیا جائے۔

    تھی نگہ میری نہاں خانہ دل کی نقاب

    بے خطر جیتے ہیں ارباب ریا میرے بعد

    اس شعر سے منسلک ایک اور خوبصورت شعر بھی پیش کروں گا تاکہ غالب کے حلقہ احباب کا بھی ذکر ہو جائے۔

    تھا میں گلدستہ احباب کی بندش کی گیاہ

    متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد

    خود کو’’گیاہ‘‘ کہہ کر غالب نے جوگل چینی کی ہے، اس کی شعری نزاکت کو سمجھنا کتنا آسان اور کتنا دشوار ہے۔ احتشام صاحب نے یہ صحیح لکھا تھا کہ ’’غالب کے یہاں بت شکنی کا جذبہ سب سے زیادہ شدید اور واضح ہے۔‘‘ اور اس لیے وہ راز حیات سے واقف تھے۔

    راز دار خوے دہرم کردہ اند

    خندہ بردانا و ناداں می زنم

    قیامت کے بارے میں غالب نے کتنے ہی خو بصورت شعر کہے ۔ مجھے یہ شعر بہت پسند ہے۔

    بجز پرواز شوق ناز کیا باقی رہا ہوگا

    قیامت اک ہوائےتند ہے خاک شہیداں پر

    یا غالب کا یہ لاثانی شعر،

    دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز

    پھرتیرا وقت سفر یاد آیا

    جس ذہن میں ایسے ہنگامہ خیز خیالات پرورش پاتے ہیں، ظاہر ہے ’’روح القدس‘‘ ان کو خاک سمجھ پائےگا، گو کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ غالب کو اسی سے داد سخن ملتی تھی، اس لیے وہ ’’فقط اللہ ہو اللہ ہو‘‘ ہے۔ غالب کا جنت کے بارے میں ایک شعر ہے۔

    طاعت میں تار ہے نہ مے وانگبیں کی لاگ

    دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

    میکش اکبرآبادی فرماتے ہیں، ’’حضرت رابعہ بصریہ کی حکایت ہے کہ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ یہ آگ کہاں لیے جا رہی ہو تو فرمایا، ’’اس سے جنت کو جلانے جا رہی ہوں تاکہ لوگ خدا کی عبادت بغیر لالچ کے کریں۔‘‘ (عرفان غالب، مرتب آل احمد سرور ص ۱۰۹)

    مگرجنت کے بارے میں غالب کا سب سے تیکھا شعر یہ ہے،

    کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملالیں یارب

    سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

    غالب نے طنز ملیح کا جب بھی استعمال کیا ہے، وہ ان کے خیالات کو شعریت کے ساتھ ساتھ فکری بلندی بھی عطا کرتا ہے۔ اس لیے غالب سے بڑا طنز ملیح کا ماہر اب تک اردو ادب میں پیدا نہیں ہوا ہے۔ معجزات کے بارے میں غالب یقیناً وہ عقیدہ نہیں رکھتے جو لوگوں میں عام تھے۔ جیسے غالب کا یہ شعر،

    اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک

    اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

    ڈاکٹر علی سردار جعفری نے اپنے ایک مضمون میں گلشن ناآفریدہ میں سبک ہندی کاایک شعر چسپاں کرکے لکھا ہے، ’’غالب کی فطرت میں رندی اور پیگن ازم کی لہر سب سے زیادہ ہے۔‘‘ (غالب نامہ جلد۔ شمارہ ۱۔ ص ۲۹)

    میری رائے میں غالب کے لیے یہ دونوں لفظ کافی نہیں ہیں۔ وہ شش جہت پہلودار شخصت کے مالک تھے۔ رند اور کافر کے الفاظ میں ان کی شخصیت کو بند نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے ایک جگہ خود کو کافر کہا ہے اور ایک جگہ انکار کیا ہے۔ دونوں شعر ملاحظہ ہوں۔

    چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا

    چھوڑ ے نہ خلق، گو، مجھے کافر کہے بغیر

    حد چاہئے سزا میں عقوبت کے واسطے

    آخر گناہ گار ہوں، کافر نہیں ہوں میں

    جوش نے اپنے بارے میں کہا تھا،

    دریا ہوں اک مقام پر رہتا نہیں ہوں میں

    اک خط مستقیم پہ بہتا نہیں ہوں میں

    غالب پر یہ شعر صادق آتا ہے۔ اس لیے غالب کو کسی ایک پیمانے، ایک نظر یا نظریے یا ایک عقیدہ سے جانچنا صحیح نہیں ہوگا۔ یہ بوتل میں بند ہونے والا جن نہیں تھا، اس لیے کہ یہ اشیا، عقائد اور تصورات کی روح کو پرکھنے کی نظر رکھتا تھا۔

    دیر وحرم آئینہ تکرار تمنا

    واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں

    غالب یقینا ًمروجہ مذہبی رسم ورواج سے منحرف تھے مگرمذہب کی روح کے مخالف نہیں تھے۔ روح میں نے Spirit کے معنی میں استعمال کیا ہے، اس لیے کہ مذہب ایک صحیح راستے کی تلاش بھی ہے۔ غالب صداقت کا جویا تھا۔

    اس طویل جملہ معترضہ کے بعد پھر تشکیک کی بحث شروع کرتا ہوں۔ تشکیک کے سلسلے میں ڈیکارٹ کا مشہور قول ہے، I think, therefore I am میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں، مگر ایک اور مفکر Pierre Daniel Huet نے کہایہ جملہ یوں ہونا چاہئے تھا۔ I may have thought therefore I am میں نے سوچا تھا اس لیے میں ہوں۔ ہیو نے یہ اعتراف کیا تھا کہ تشکیک سوالات اٹھاتی ہے جوابات نہیں دے پاتی۔ اس کے الفاظ میں It admits of no answer & produce no conviction یہ جواب کو قبول نہیں کرتی اور عقیدوں کو جنم نہیں دیتی۔

    اصل میں تشکیک ادعائیت پسند فلسفیوں کے نظریات پر تنقید کرنے کا ایک حربہ سمجھی جاتی ہے۔ Mirat کے خیال میں، ’’کسی مسئلہ کو فلسفہ بنانا اور بات ہے اور زندگی گزارنا اور چیز ہے۔‘‘ تشکیک کی سب سے اہم خوبی یہ سمجھی گئی ہے کہ یہ Non assertive زبان استعمال کرتی ہے۔ یعنی آٖ پ اگر نہ مانیں تو اصرار نہیں کرتی ہے اور دنیا کے ادیبوں اور شاعروں نے اس انداز سے فائدہ اٹھاکر اپنے ادب اور شاعری میں دھوپ اور چھاؤں کی رنگارنگی پیدا کی ہے۔ انسکائیکلوپیڈیا آف فلاسفی کا مصنف رچرڈ ایچ پاپکن لکھتا ہے، (آزاد ترجمہ)، ’’تشکیک کے بغیر جوش وخروش، تعصبات، اوہام اور سنجیدہ بامعنی خیالات میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ہر عہد اپنے نظریات کو پرکھنے کی جہد کرتا ہے تاکہ ان کی قدروقیمت معلوم ہو سکے اور یہ بغیر ان کو چیلنج کیے ممکن نہیں ہے۔‘‘ (انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی جلد ۸۔ ۷ ص ۴۵۹)

    پاپکن بھی تشکیک کی اہمیت اس لیے تسلیم کرتا ہے کہ اس نے Dogmas پر ضرب کاری لگائی ہے۔ ہر دور میں نئی بحثیں اٹھانے والے مورد الزام ٹھہرائے جاتے ہیں اور غالب نے اپنے متعدد اشعار میں اس کی نشاندہی کی ہے۔

    پکڑ ے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

    آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا

    ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال

    کہ گرنہ ہو تو کہاں جائیں ہو تو کیوں کر ہو

    کیا زہد کومانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی

    پاداش عمل کی طمع خام بہت ہے

    ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسم ثواب سے

    ٹیڑھا لگا ہے قط قلم سرنوشت کو

    اہل ورع کے حلقہ میں ہرچند ہوں ذلیل

    پر عاصیوں کے فرقہ میں میں برگزیدہ ہوں

    غالب کے یہ اشعار بھی بظاہر عشقیہ طرز بیان کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں حسن، حیرت اور سوال کی آمیزش سے پیدا ہوا ہے۔

    نہ شعلہ میں وہ کرشمہ نہ برق میں وہ ادا

    کوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے؟

    دیکھئے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ

    اس کی ہربات پر ہم نام خدا کہتے ہیں

    ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور

    کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور

    ان اشعار میں جو گمان، اعتماد، وفا، نارسائی کی ملی جلی کیفیتیں ہیں، وہ اسی سوالیہ ذہن کی خوبیوں کی بدولت ہیں۔ تشکیک، شعری لب ولہجہ کو پراسرار بنا دیتی ہے۔ اس لیے اس کو سپاٹ نثری بیان سے بچاکر ایک سنہری دھندلی شعری فضا تخلیق کرتی ہے ۔ گناہ وثواب کے مسئلہ پر بھی غالب نے اپنی بے باکانہ شعر ی نظر ڈالی ہے اور انسانی فطرت کی چھپی ہوئی خواہشات کو نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔

    بقدر حسرت دل چاہئے ذوق معاصی بھی

    بھروں اک گوشہ دامن جو آب ہفت دریا ہو

    دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک

    میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

    کسی شاعر میں اتنی جرأت ہے کہ کہے کہ میر ی حسرت گناہ باقی رہ گئی۔ سات بچوں کی موت، مسلسل معاشی پریشانیاں۔ اگر غالب کا سوالیہ ذہن نہ ہوتا تو عقائد کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت پاش پاش ہوجاتی مگر وہ اپنی شخصیت کو ہر دور میں فروغ دیتے رہے، جب ہی تو وہ ۱۸۵۷ء کے بعد ایک بڑے نثرنگار کی حیثیت سے ابھرے۔ اردو ادب میں نظم ونثر دونوں میں یہ مرتبہ صرف اسداللہ خاں غالب ہی کو حاصل ہوا ہے۔

    میں اپنا یہ مضمون ایک فلسفی Ludivig Feuerbach لدوگ باخ کے ان جملوں پر ختم کرنا چاہتا ہوں جس سے غالب کے مفکرانہ ذہن کی کچھ نشاندہی ہوتی ہے، ’’فلسفی بننے کی کوشش نہ کرو۔ پہلے انسان بنو، وہ انسان جو سوچتا ہے ۔ مفکر کی طرح نہ سوچو، سیاق وسباق سے الگ کرکے انسانی وجود کے بارے میں الگ الگ نہ سوچو۔ ایک زندہ جری آدمی کی طرح سوچو، جوکہ دنیا کے سمندر کی جان بخش موجوں سے قوت اور تازگی حاصل کرتا ہے ۔ سوچو اپنے وجود کے بارے میں۔۔۔‘‘

    یہ لاش بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے

    حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

    مأخذ:

    شعری آگہی (Pg. 53)

    • مصنف: باقر مہدی
      • ناشر: ایڈ شاٹ پبلی کیشنز، ممبئی
      • سن اشاعت: 2000

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے