Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب کا المیہ کردار خطوط میں

کوثر مظہری

غالب کا المیہ کردار خطوط میں

کوثر مظہری

MORE BYکوثر مظہری

    مرزا غالب گرچہ غیرمحتاط زندگی گزارتے ہیں مگر آس پاس سے پوری طرح باخبر رہتے ہیں۔ مغربی تہذیب کے زوال پر ماتم بھی کرتے ہیں۔ ان کے اندر ایک طرح کا طنطنہ ہے اور خودداری کا مادہ بھی۔ انسانی رشتوں کا انہیں بے حد پاس ہے۔ جب بھی کوئی واقعہ یا سانحہ ان کی افتاد طبع کے منافی وقوع پذیر ہوتا ہے، ان کے احساس لطیف کو صدمہ پہنچتا ہے۔ غالب ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی (جسے انگریزوں نے غدر سے موسوم کیا) کے بارہ برسوں بعد تک حیات رہے۔ اس درمیان اپنے دوستوں اور شاگردوں کو اردو میں بہت سے خطوط لکھے۔ ان خطوط میں ان کی نجی زندگی کے واضح نقوش ملتے ہیں۔ ساتھ ہی محلے، آس پاس اور ملک کے کوائف بھی مذکور ہیں، بالخصوص انقلاب سے پیدا شدہ پر آشوب ماحول کا ذکر غالب کے خطوط میں پوری طرح ہوا ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم نے ایک جگہ لکھا ہے:

    ’’جب تک ہندوستان کا پلہ بھاری رہا، غالب قلعے جاتے رہے اور جب ہندوستانیوں کو شکست ہوگئی تو غالب انگریزوں کے ساتھ ہوگئے۔‘‘

    (غالب کے خطوط، جلد اول ص:۲۱۵)

    دراصل مرزا کو غم تھا کہ ۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی میں جان و مال و ناموس و مکان و آسمان و زمین و آثار ہستی سراسر لٹ گئے۔ اس صورت حال میں غالب جیسے وسیع القلب کا محض قلعے اور دربار شاہی کی تباہی کا ماتم کرنا کسی طرح مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ ان کے خطوط میں بیشتر مقامات پر عزیزوں، احباب اور شاگردوں (بلا امتیاز مذہب) کے قتل ہونے پر اظہار غم ملتا ہے۔ مرزا یوسف کے نام ایک خط کا اقتباس:

    ’’میرا حال سوائے میرے خدا اور خداوند کے کوئی نہیں جانتا… میں قلعہ نامبارک سے قطع نظر کرکے اہل شہر کو گنتا ہوں۔‘‘

    اس کے بعد اسی خط میں جاں بہ حق ہونے والے کئی عزیزوں اور احباب کے نام گنوائے ہیں۔ آگے چل کر مرزا شدت غم کا اظہار حلفیہ طور پر یوں کرتے ہیں:

    ’’کہنے کو ہر کوئی ایسا کہہ سکتا ہے مگر میں علی کو گواہ کرکے کہتا ہوں کہ اموات کے غم میں اور زندوں کے فراق میں عالم میری نظر میں تیرہ و تار ہے۔‘‘

    یہی ہے مرزا کا وہ المیہ کردار جو ان کے خطوط میں جگہ جگہ ابھر کر ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔ یہ المیہ کردار اپنے اندر ہمہ گیریت اور آفاقیت رکھتا ہے۔ یہ کردار اگر بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری پر خوب خوب ماتم کرے اور دوسرے اعزا و اقارب کی تباہی پر سرسری ’’آہ‘‘ بھرتا ہوا گزر جائے تو اس کی آفاقیت اور وسیع المشربی بے معنی ہوجاتی ہے۔ غالب کے نزدیک انسانی رشتوں اور جذبوں میں یکسانیت ہے۔ کوئی خط امتیاز قائم کرنا مشکل ہے۔ غالب کا یہ المیہ کردار غدر کے بعد کی تباہی پر رنج و ملال کی کیفیت کا اظہار کرتا ہے اور کس شدو مد اور پرخلوص جذبے کے ساتھ کرتا ہے، اس ضمن میں منشی ہر گوپال تفتہ کے نام ایک خط کا اقتباس دیکھئے:

    ’’یہ کوئی نہ سمجھے کہ میں اپنی بے رونقی اور تباہی کے غم میں مرتا ہوں۔ جو دکھ مجھ کو ہے، اس کا بیان تو معلوم مگر اس بیان کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ انگریز کی قوم میں سے جو ان روسیاہ کالوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے، اس میں کوئی میرا امیدگاہ تھا اور کوئی میرا شفیق اور کوئی میرا دوست اور کوئی میرا یار اور کوئی میرا شاگرد۔ ہندوستانیوں میں کچھ عزیز، کچھ دوست، کچھ شاگرد، کچھ معشوق، سو وہ سب کے سب خاک میں مل گئے۔ ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو اس کو زیست کیوں کر نہ دشوار ہو۔ ہائے! اتنے یار مرے کہ جو اب میں مروں گا، تو میرا کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

    (جون، جولائی ۱۸۵۸ئ۔غالب کے خطوط، مرتب: خلیق انجم ص:۲۱۷)

    اس المیہ کردار کی وسیع المشربی اور آفاقی دوست داری کے ثبوت میں یہ مذکورہ اقتباس بہ ہر نوع ثبوت پیش کرتا ہے۔ اس المیہ کردار کا ایک ہی مسلک ہے جو انسانی رشتے کی بنیاد پر قائم۔

    میر مہدی مجروح کو خط لکھتے ہیں تو غالب ہلکا طنز بھی کرتے جاتے ہیں:

    ’’خلاصہ میری فکر کا یہ ہے کہ اب بچھڑے ہوئے یار کہیں قیامت ہی کو جمع ہوں، سو وہاں کیا خاک جمع ہوں گے؟ سنی الگ، شیعہ الگ، نیک جدا، بدجدا۔‘‘

    یہ المیہ کردار اسے گوارہ نہیں کرتا کہ آخرت میں بھی احباب مسلکی بنیاد یا نیک و بد ہونے کی بنیاد پر الگ الگ جماعتوں میں بٹ جائیں۔ اس کردار کے نزدیک تمام مسلکوں کی معراج انسانیت پر موقوف ہے۔ اسی ضمن میں غالب کا یہ شعر پیش کیا جاسکتا ہے جو بہ ظاہر کچھ نقادوں کی نظر میں ایک ظریفانہ شعر ہے۔ میں اسے نہایت ہی عالی فکر کا نتیجہ جانتا ہوں:

    طاعت میں تار ہے نہ مے وانگبیں کی لاگ

    دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

    غالب کا یہ المیہ کردار سماجی اور انسانی رشتوں میں یقین رکھتا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہی رشتوں سے غالب میں جینے کی آرزو پیدا ہوتی ہے۔ غالب کا یہ المیہ کردار درّاک اور حساس ہے۔ اس کی آنکھ میں دلی کی ادبی اور تہذیبی فضا کی تصویر بسی ہے۔ وہ خون کے آنسو روتا ہے مگر جب مکتوب الیہ سے محو گفتگو ہوتا ہے تو اس میں طنز اور شوخی کا امتزاج ہوتا ہے۔ میر مہدی مجروح کو ۲۳؍ مئی ۱۸۶۱ء میں لکھتے ہیں:

    ’’او میاں سید زادۂ آزادہ، دلی کے عاشق دلدادہ۔ ڈھئے ہوئے اردو بازار کے رہنے والے، حسد سے لکھنؤ کو برا کہنے والے۔ نہ دل میں مہر و آزرم، نہ آنکھ میں حیا و شرم، نظام الدین ممنون کہاں، ذوق کہاں، مومن خان کہاں۔ ایک آزردہ سو خاموش، دوسرا غالب وہ بے خود و مدہوش، نہ سخن وری رہی نہ سخن دانی، کس برتے پرتتا پانی؟ ہائے دلی! وائے دلی! بھاڑ میں جائے دلی!‘‘

    دلّی کی تباہی سے متعلق اور بھی مثالیں موجود ہیں مگر یہاں اکتفا کرتے ہوئے اس المیہ کردار کا تعلق اپنے دوستوں اور شاگردوں کے لیے تعزینی کلمات کے ضمن میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کسی کا انتقال ہوتا ہے تو اس کی تعزیت ضرور کی جاتی ہے مگر یہ المیہ کردار اپنی زبردست قوت ارادی بھی ثابت کرتا ہے۔ مرزا ہر گوپال تفتہ کی بیوی کے انتقال پر یوں تعزیت کی جاتی ہے:

    ’’تمہارا خط پہنچا۔ مجھ کو بہت رنج ہوا۔ واقعی ان چھوٹے لڑکوں کا پالنا بہت دشوار ہوگا۔

    دیکھو میں بھی تو اسی آفت میں گرفتار ہوں۔ صبر کرو اور صبر نہ کرو گے تو کیا کرو گے۔ کچھ بن نہیں آتی۔‘‘

    اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خود غالب بھی ذاتی طور پر اسی نوع کے سانحے سے دوچار ہوئے تھے۔ اس کی وضاحت میاں داد خاں سیاح کے نام ایک تعزینی خط کے اقتباس سے ہوتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

    ’’تمہارے ہاں لڑکے کا پیدا ہونا اور اس کا مرجانا معلوم ہوکر مجھ کو بڑا غم ہوا۔ اس داغ کی حقیقت مجھ سے پوچھو کہ اکہتر برس کی عمر تک سات بچے پیدا ہوئے۔ لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی اور کسی کی عمر پندرہ مہینے سے زیادہ نہیں ہوئی۔ تم ابھی جوان ہو۔ حق تعالیٰ تمہیں صبراور نعم البدل دے۔‘‘(۲۵؍اگست ۱۸۶۷ئ)

    یہ المیہ کردار اور دلچسپ اور لائق توجہ ہوجاتا ہے جب اپنی الم ناک زندگی کا نقشہ یوں پیش کرتا ہے:

    ’’قبلہ حاجات! میرا حال کیا پوچھتے ہیں۔ زندہ ہوں مگر مردے سے بدتر۔ مرزا پور کیا آؤں، اب سوائے سفر آخرت اور کسی سفر کی نہ مجھ میں طاقت ہے نہ جرأت۔ جوان ہوتا تو احباب سے دعائے صحت کا طلب گار ہوتا۔ بوڑھا ہوں، دعائے مغفرت کا خواہاں ہوں… حوادث زمانہ و عوارض جسمی سے نیم جاں ہوں۔ اس سرائے فانی میں اور کچھ دنوں کا مہمان ہوں:

    ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام

    ایک مرگ ناگہانی اور ہے‘‘

    اس خط میں خالص ذاتی کرب و الم کی عکاسی ہے۔ انتقال سے دوچار سالوں قبل سے ہی اس طرح کے خیالات مرزا کے خطوط میں ظاہر ہونے لگے تھے۔ کبھی مضمحل قویٰ کا ذکر تو کبھی حواس کے مفقود ہونے کا۔ اپنے شاگرد رشید منشی ہر گوپال تفتہ کو لکھتے ہیں:

    ’’میں ناتواں بہت ہوگیا ہوں، گویا صاحب فراش ہوں۔ کوئی شخص نیا تکلف کی ملاقات کا، آجائے تو اٹھ بیٹھتا ہوں، ورنہ پڑا رہتا ہوں۔ لیٹے لیٹے خط لکھتا ہوں۔ لیٹے لیٹے مسودات دیکھتا ہوں۔ اللہ اللہ اللہ۔‘‘

    (صبح، جمعہ ۱۴؍ماہ اکتوبر ۱۸۶۴ئ)

    تفتہ کے نام ایک اور خط کا اقتباس دیکھئے:

    ’’پیر و مرشد! آپ کو میرے حال کی بھی خبر ہے۔ ضعف نہایت کو پہنچ گیا۔ رعشہ پیدا ہوگیا۔ بینائی میں فتور پڑا۔ حواس مختل ہوگئے۔ نہ آنکھوں سے اچھی طرح سوجھے نہ ہاتھ سے اچھی طرح لکھا جائے۔‘‘

    غالب کا یہ المیہ کردار کبھی کبھی خود کلامی سے گزر کر خود انتقامی کے جذبے سے مغلوب بھی ہوتا ہے۔ آخر یہ کردار بھی تو ایک گوشت پوست کا آدمی ہے۔ قاضی عبدالجمیل کے نام خط کا اقتباس دیکھئے جس میں یہ المیہ کردار انتہائے الم کی تصویر پیش کرتا ہے:

    ’’جناب مولوی صاحب آپ کے دونوں خط پہنچے، میں زندہ ہوں مگر نیم مردہ۔ آٹھ پہر پڑا رہتا ہوں۔ بیس دن سے پاؤں میں ورم ہوگیا ہے۔ کف پا اور پشت پا سے نوبت گزر کر پنڈلی تک آماس ہے۔ جوتے میں پاؤں سماتا نہیں۔ بول و براز کے واسطے اٹھنا دشوار۔ میرا نہ مرنا تکذیب کے واسطے تھا مگر اس تین برس میں ہر روز مرگ نو کا مزہ چکھتا رہتا ہوں۔ حیران ہوں کہ کوئی صورت زیست کی نہیں پھر میں کیوں جیتا ہوں۔ روح میری اب جسم میں اس طرح گھبراتی ہے جس طرح طائر قفس میں۔ کوئی شغل، کوئی اختلاط، کوئی جلسہ، کوئی مجمع پسند نہیں۔‘‘

    مرزا غالب اپنی شخصیت کے شیش محل کو بے دریغ اپنی بے لاگ حس کی ضرب سے چور چور کردیتے ہیں اور اس کی کرچیں چن چن کر اپنے گریبان میں سمیٹتے جاتے ہیں، انجام کار انگلیاں تو فگار ہوتی ہی ہیں، گریبان بھی تار تار ہوجاتا ہے مگر دیکھئے کہ غالب کا وہ توانا المیہ کردار کہیں زیر لب متبسم ہے تو کہیں اپنی کوتاہیوں اور زمانے کی ستم ظریفیوں پر قہقہے لگاتا ہے:

    ’’اللہ اللہ اللہ‘‘ ہزاروں کا میں ماتم دار ہوں، میں مروں گا تو مجھ کو کون روئے گا۔ سنو غالب! رونا پیٹنا کیا، کچھ اختلاط کی باتیں کرو۔‘‘

    یا پھر یہ کہ:

    رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

    مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

    یا یہ کہ جب زمانے کی ستم ظریفی حد درجہ بڑھتی ہے تو غالب کا یہ المیہ کردار بارگاہ ایزدی میں دست بہ دعا ہوتا ہے:

    یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے

    لوح جہاں پہ حرف مکرّر نہیں ہوں میں

    ایسا نہیں کہ مرزا غالب نے اواخر عمر میں ہی اس طرح کے خطوط لکھے بلکہ جب اُن کے قویٰ میں توانائی تھی اس وقت بھی ان کی زندگی میں الم ناکیاں کسی نہ کسی نوع کی ضرور موجود تھیں۔ ایک خط سے اقتباس دیکھئے:

    ’’خلاصہ یہ کہ صبح کو جاتا ہوں، دوپہر کو آتا ہوں۔ کھانا کھاکر پانچ چار گھڑی دم لے کر جاتا ہوں، چراغ جلے آتا ہوں۔ بھائی تمہارے سر کی قسم رات کو مزدوروں کی طرح تھک ہار کر پڑ رہتا ہوں۔‘‘(بنام منشی نبی بخش حقیر)

    اوپر ابھی ذکر آیا کہ غالب بے حد قوت ارادی کے مالک تھے۔ آلام روزگار اور گردش لیل و نہار سے نبرد آزما ہوتے ہوئے بھی ان کی اس قوت ارادی میں تزلزل پیدا نہیں ہوتا۔ ہزارہا احباب اور رشتہ داروں کا ماتم گزار ہوتے ہوئے بھی یہ المیہ کردار شان قلندری رکھتا ہے۔ غالب کی دانش اس کردار کو روشنی دکھاتی ہے جس کے نتیجے میں اس کردار میں زندہ دلی اور شوخی پیدا ہوجاتی ہے۔ غالب گرچہ ایک خوددار اور اناپرست شخص واقع ہوئے ہیں مگر انہیں اپنی خامیوں اور بے جا افتخار کا احساس بھی ہے۔ کہیں کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ غالب کی دوہری شخصیت ابھر آئی ہے۔ اپنی انا پرستی کا مذاق یہ المیہ کردار خود بھی اڑاتا ہے۔ مگر اس کردار میں زندگی کی بصیرت اور توانائی ہے۔ مرزا قربان علی بیگ خاں سالک کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

    ’’…اپنا آپ تماشائی بن گیا ہوں، رنج و ذلت سے خوش ہوتا ہوں یعنی میں نے اپنے کو اپنا غیر تصور کیا ہے۔ جو دکھ مجھے پہنچتا ہے کہتا ہوں کہ لو، غالب کے ایک جوتی لگی۔ بہت اتراتا تھا کہ میں بڑا شاعر اور فارسی داں ہوں… لے اب تو قرض داروں کو جواب دے۔ سچ تو یوں ہے کہ غالب کیا مرا، بڑا ملحد مرا، بڑا کافر مرا… کچھ تو اکسو، کچھ تو بولو۔ بولے کیا بے حیا، بے غیرت، کوٹھی سے شراب، گندھی سے گلاب، بزاز سے کپڑا، میوہ فروش سے آم، صراف سے دام قرض لیے

    جاتا ہے۔ یہ بھی تو سوچا ہوتا کہاں سے دوں گا۔‘‘

    مرزا غالب کو اپنی کوتاہیاں اور ذاتی کمزوریاں بیان کرنا باعث عار نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ غالب کی زندگی پر خود فریبی اور مصلحت کوشی کی قلعی نہیں ہے جو جیتے ہیں وہ کہتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ ان کی تمکنت میں انسانی کرب و الم کے عناصر موجود ہیں۔ غالب کی ذہنی افتاد اور دنیا کی افتاد ایک دوسرے میں مدغم ہوکر اس المیہ کردار کو جینے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ یہ المیہ کردار اک ذرا فرصت چاہتا ہے پھر تو:

    دکھاؤں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے نے

    مرا ہر داغ دل اک تخم ہے سر و چراغاں کا

    غالب کی آنکھیں کھلی ہیں۔ ان کی حس بیدار ہے۔ فکر میں توانائی ہے۔ انہیں اپنی ذات کا اور اس کائنات کا عرفان حاصل ہے اور اسی لیے ان کے خطوط میں جو المیہ کردار خود بہ خود وضع ہوگیا ہے، اس میں نہ کاسہ لیسی کا شائبہ ہے نہ دنیا سے بہت زیادہ محبت، کہ دنیا چھوڑ کر راہی ملک عدم ہونا دشوار ہوجائے۔ انہیں پتہ ہے کہ اس مادی زندگی کا انجام موت ہے:

    ’’موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں‘‘

    (غیرمطبوعہ)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے