Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب کا ایک شعر

وزیر آغا

غالب کا ایک شعر

وزیر آغا

MORE BYوزیر آغا

    غالب کا ایک شعر ہے،

    آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں

    غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

    غالب کے اس شعر میں تخلیقی عمل کے جن مراحل کا دکر ہوا ہے ان میں بالترتیب غیب، مضمون، خیال، آواز اور خامہ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ غیب وہ منطقہ ہے جس میں زماں اور مکاں کی دوئی ناپید ہے، جہاں لامتناہیت تمام حدودکو عبور کرچکی ہے۔ سارے نشیب وفراز اورجزرومد ہموار ہوگئے ہیں۔ یہ ایک طرح کا ’’خالی پن‘‘ یا Void ہے جس میں اندر اور باہر کی تفریق تک موجود نہیں ہے۔ پہلے اور بعد کی تقسیم بھی مٹ گئی ہے۔ تاہم ’’نہ ہونے‘‘ کا یہ عالم ایک ایسی موجودگی بھی ہے جس سے وقتاً فوقتاً ’ہونے‘ کا کوندا باہر کو لپکتا ہے۔ غالب نے اس کوندے کو ’’مضمون‘‘ کا نام دیا ہے۔ ہمارے ہاں ’’مضمون‘‘ کا لفظ بالعموم موضوع یا معنی یاداخلی تجربہ کی نشاندہی کے لئے مختص رہا ہے۔ ممکن ہے شعوری سطح پر غالب کے پیش نظر بھی مضمون کا یہی مفہوم ہو مگر لاشعوری سطح پر غالب کے اس شعر میں مضمون کا لفظ ’’کوندے‘‘ کے مفہوم ہی میں استعمال ہوا ہے۔ کوندا جو ایک ایسی نورانی عبارت ہے جس کا کوئی متعین معنی برائے ترسیل نہیں ہے (کوہ طور کا واقعتاً پیش نظر رہے جہاں اس کوندے نے نظروں کو خیرہ کردیا تھا اوریوں ناقابل ترسیل ہونے کا ثبوت مہیا کردیا تھا) گویا مضمون ایک ایسی تجرید ہے جو قوسوں، لکیروں، زاویوں یا بقول دریدا TRACES PATHS CHANNELS GROOVES TRACKS اور FURROWS پر مشتمل ہے۔ یہ ایک طرح کا دکھائی نہ دینے والا خاکہ یا بلیوپرنٹ ہے، اقلیدس کا ایک غیرمربوط مظہر جس نے ابھی اپنی پیشانی پر معنی کا ایک تلک نہیں لگایا۔ مگر بعد ازاں لکیروں اور TRACES کی حامل اس تحریر پر ’’خیال‘‘ کے نقوش ابھرنے لگتے ہیں یعنی صورتیں اور ICONS نمودار ہوتے ہیں۔ خیال آفرینی کے اس عمل کو بت گری کا عمل بھی کہا جاسکتا ہے۔

    نفسیات والے آرکی ٹائپ کو نظرنہ آنے والی کھائی سے موسوم کرتے ہیں مگر جب یہ کھائی صورت پذیر ہوتی ہے تو اسے Archetypal Image کا نام دیتے ہیں یہی عمل مضمون کے خیال میں منتقل ہونے میں دکھائی دیتا ہے۔ غالب یہ کہہ رہا ہے کہ شعر وجود میں آنے کے لئے متعدد منازل سے گزرتا ہے ان میں سے پہلی منزل ’’غیب‘‘ ہے جو ایک بے انت خالی پن کا وہ عالم ہے جو اصلاً ’’ہونے‘‘ کا منبع اور مصدر ہے دوسری منزل اس سلوٹ یا کروٹ کی ہے جو ایک نورانی لکیر کی طرح، غیب کی سفید بے داغ چادر پر نمودار ہوتی ہے۔ تیسری منزل خیال آفرینی کا وہ جہاں ہے جس میں لکیریں اور سلوٹیں جڑ کر اور رنگوں کو خود میں جذب کرکے صورتوں میں منتقل ہوجاتی ہیں۔

    غالب کے اس شعر میں اگلا مرحلہ ’’نوائے سروش‘‘ کا ہے جو صریر خامہ سے ایک مختلف شے متصور ہوتی ہے۔ مگر غالب اس بات کو نہیں مانتا۔ اس کے نزدیک صریر خامہ اصلاً وہی نوائے سروش ہے جو مضمون کے کوندے کے ساتھ ہی لپکی تھی لیکن جو بعد ازاں بصورت ’’صریر خامہ‘‘ سنائی دی۔ ویسے بھی کوندے اور آواز میں جو وقفہ محسوس ہوتا ہے وہ دراصل رفتار کے فرق کا زائیدہ ہے۔ روشنی کی رفتار، آواز کی رفتار سے بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا یوں لگتا ہے جیسے روشنی پہلے وجود میں آئی اور آواز بعد میں حالانکہ دونوں نے بیک وقت جنم لیا تھا تاہم رفتار کی تیزی کے باعث روشنی تو فی الفور پہنچ گئی لیکن آواز نے پہنچنے میں دیر کردی۔ غالب نے اس نازک فرق کو خوب پہچانا ہے اوراس لئے صریر خامہ کو نوائے سروش کا نام دیا ہے جو مضمون کے کوندے کے ساتھ ہی وجود میں آگئی تھی۔ اگریہ بات ہے تو پھر روشنی اور آواز میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر فرق ہے تو فقط یہ کہ آواز روشنی کا نطق ہے۔ بے شک کائنات کی تخلیق روشنی کے ایک کوندے سے ہوئی مگر آپ اسے آواز کا کوندا بھی کہہ سکتے ہیں گویا تخلیق کا منبع اور مصدر وہ نورانی لکیر ہے جس نے ’’کن‘‘ میں اپنا مظاہرہ کیا تھا۔

    ایک اور زاویے سے دیکھیں تو یہ فرق ’’صورت‘‘ اور ’’معنی‘‘ کا فرق بھی ہے۔ معنی کواپنی ترسیل کے لئے آواز درکار ہے۔ معنی کو اگر ایک مسافر کہا جائے تو آواز وہ ناؤ ہے جس میں بیٹھ کر وہ سفر کرتا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ معنی نے آواز کی ناؤ کہیں باہر سے حاصل نہیں کی بلکہ اپنی ہی پسلی سے برآمد کی ہے ہر حرف یا Phonemeایک آواز ہے مگر جب حروف جڑ کر لفظ یا Morpheme بنتے ہیں تو دراصل نشان یا Sign بن جاتے ہیں اورنشاندہی کرنے لگتے ہیں۔ آواز کا خالص روپ یعنی حرف ایک ایسا مظہر ہے جس میں Signification تو ہے مگر وہ خود نشان نہیں ہے وہ دال یا Signifier ہے جو ہمیشہ مدلل یعنی Signified کی طرف اشارہ کرتا ہے گویا ایک خاص معنی کی پیدائش کا باعث بنتا ہے مگر ’’دال‘‘ معنی نہیں بلکہ معنویت ہے۔ یہی فرق نشان اور علامت میں بھی ہے۔ نشان وہ معنی ہے جو دال پر ثبت ہوگیا ہے مگر جب دال پر کوئی خاص معنی ثبت نہ ہو بلکہ وہ معنویت کی اطراف کو کھولدے تو علامتی کہلائے گا۔ کسی بھی لفظ یا شے کو ہم علامت نہیں کہہ سکتے لیکن اگر تخلیقی عمل کی مدد سے کوئی لفظ یا شے اتنی صیقل ہوجائے کہ منعکس کرنے لگے تو ہم کہیں گے کہ اب یہ لفظ یا شے علامتی ہوگئی ہے۔ آواز بجائے خود علامتیت کی حامل ہے مگر جب وہ کسی خاص معنی پر مرتکز ہوجائے تو وہ بھی لسانی نشان بن جاتی ہے۔ تاہم آواز کا معنی آفریں روپ وہ حرف یا نورانی کوندا ہے جو مجسم Signification ہے۔

    آواز Logo-Centrism کی مظہر ہے اس میں تحکم، تفاخر اور کرگزرنے کا عمل پوشیدہ ہے۔ اسی لئے مذاہب اور فلسفوں میں ’’کلام‘‘ کو تحریر کے مقابلے میں زیادہ اہم گردانا گیا ہے۔ انسانی دماغ کے تخلیق کردہ تمام جڑواں تخالف یعنی Binary Opposites میں ایک جزو اولیت، رفعت، صداقت، ترفع اور ’’ہونے‘‘ یعنی Absence کا مظہر متصور ہوا ہے۔ جڑواں تخالف کے اس نظریے کے تحت ’’کلام‘‘ کے مقابلے میں تحریر کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس بات پر زور دینے کے لئے کہ کلام افضل اور برتر ہے اور تحریر ادنیٰ اور کمتر! اس مضمون میں ایک نمایاں مثال یونانی فلاسفروں کی ہے جو گفتار کے غازی تھے اور تحریر کو ایک ادنیٰ عملی قرار دیتے تھے یہی فکری ورثہ بعض دیگر فکری سلسلوں کو بھی منتقل ہوا ہے۔ جہاں Essence Being اور Langue کو افضل جب کہ Experience Becoming اور Parole کو ادنیٰ متصور کیا گیا۔ البتہ چندفکری سلسلوں میں بات اس کے برعکس بھی کہی گئی۔ مثلاً دریدا جس نے سوسپور کی لانگ کی تقدیم اور پارول کی تاخیر کے موقف کی ساخت شکنی کرتے ہوئے ’’تحریر‘‘ کو ’’تقریر‘‘ کا پیش رو قرار دیا۔ دریدا کا یہ موقف تھا کہ ہر معنی یا لکیریں انسانی ذہن کے اندر آواز کی صورت میں نہیں بلکہ عبارت کی صورت میں محفوظ ہوتی ہیں۔ گویا ذہن کی سلیٹ پر لکھ دی جاتی ہیں۔ دریدا سے قبل علامت پسند شعرا نے بھی دنیا کو ایک تحریر متصور کیا تھا اور وہ دنیا کے نقوش اور پیٹرن اور نشانوں کو پڑھنے کی کوشش میں تھے انہیں یہ تمام نقوش اور پیٹرن ہمہ وقت آپس میں خط و کتابت کرتے نظر آتے تھے۔ ملارمے نے تویہ تک لکھ دیا تھا کہ الفاظ طوفان کی زد میں آئی ہوئی وہ کشتیاں ہیں جو کاغذ کی سفیدی پر اپنے سفر کی داستان رقم کرتی ہیں۔

    غالب اپنے اس شعر میں اس بات کا اعلان کرتا نظر آتا ہے کہ صریر خامہ دراصل نوائے سروش ہے بظاہر اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ غالب آواز یا کلام یا کن کے تقدم کا علمبردار ہے لیکن ’’صریر خامہ‘‘ کے الفاظ ایک اورہی کہانی سنا رہے ہیں کیونکہ وہ صریر یا نوا کو خامہ کی کارکردگی کا سبب نہیں بلکہ نتیجہ قرار دے رہے ہیں گویا غالب کے نزدیک اصل اہمیت خامہ کو حاصل ہے جو صریر کو وجود میں لاتا ہے اور ’’صریر‘‘ بقول اس کے نوائے سروش ہی کا دوسرا نام ہے۔

    بیسویں صدی نے کائنات کی تفہیم کے سلسلے میں تحریر کی کارکردگی کو بڑی اہمیت دی ہے۔ مثلاً حیاتیات کے حوالے سے یہ کہا گیاہے کہ زندہ خلیہ میں موجود DNAکی اپنی ایک زبان ہے جو چار حروف پر مشتمل ہے۔ اس کے مقابلے میں ایمونوایسڈز کی وہ زبان ہے جو بیس حروف پر مشتمل ہے۔ تخلیق کاری کے عمل میں DNAاپنے قاصد یعنی RNAکے ذریعے ایمونوایسڈز کی فیکٹری کو خط بھیجتا ہے جس کا فوری طورپر ایک پراسرار طریق سے ایمونوایسیڈز کی بیس حرفی زبان میں ترجمہ ہوجاتا ہے۔ یہ گویا بلیوپرنٹ کی ترسیل کا وہ عمل ہے جس کے مطابق مطلوبہ پروٹین بننے لگتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موروثی ہدایات کی یہ ترسیل آواز سے نہیں بلکہ قوسوں، لکیروں اور دائروں میں بند ہدایات کے ذریعہ ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کام گفتار کے بجائے لکھت کرتی ہے۔ کچھ یہی حال طبیعات کی دنیا کا ہے۔ مشہور سائنس دان Lanz R-Piggels نے لکھا ہے کہ کوانٹم پارٹیکلز کی دنیا اصلاً زبان کی طرح ہے۔ زبان اپنے حروف تہجی، اپنے اوقاف اور اعراب کے مطابق الفاظ اور جملے مرتب کرتی ہے۔ اس طرح کائنات کے بنیادی اجزاء مثلاً سٹرنگز، کوارکس، لپٹونز اور گلواونز بھی حروف تہجی کے مماثل ہیں۔ ہر طرف فطرت کی یہ ابجد کار فرما نظر آتی ہے۔ پارٹیکلز اس کے حروف ہیں، ایٹم اس کے الفاظ ہیں اور سالمے یعنی Molecules اس کے جملے ہیں۔ ان ہی سے یہ کائنات لکھی گئی ہے۔

    حیاتیات اور طبیعات نے لکھنے کے عمل کو جو اہمیت دی ہے اوردریدا اوراس کے ہم نواؤں نے گفتار کے مقابلے میں ’’تحریر‘‘ کو جس طرح افضل گردانا ہے یہ سب بیسویں صدی کی سائنسی اور فکری پیش رفت کا ثمر ہے مگر آج سے بہت پہلے قرآن حکیم نے لکھنے کے عمل کو جس طرح افضل اور برتر جانا، اس کی مثال کسی اور فکری نظام میں نظر نہیں آتی۔ اسلام سے قبل نئی انجیل نے متکلم لفظ کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا تھا،

    ’’ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا مگراس کے کم وبیش سات سوبرس بعد قرآن حکیم نے پڑھنے کے عمل کو بذریعہ قلم آگے بڑھانے کی تلقین کی۔ لفظ سے قلم تک کا یہ فاصلہ ایک انقلابی نوعیت کا تھا جس کا یہ مطلب تھا کہ تحریر کا اپنا ایک فعال وجود ہے یاشاید یہ کہ کائنات بجائے خود ایک طرح کی تحریر یا Sign System ہے ویسے بھی قرآن حکیم میں نشانیوں یا Signs کا ذکر بار بار آیا ہے جو ایک لمحہ فکریہ مہیا کرتا ہے۔

    قابل غور بات یہ ہے کہ اس قرآنی نظریے کی صدائے بازگشت یورپ کی نشاہ الثانیہ میں بھی سنائی دی ہے۔ بقول فوکو جب نشاۃ الثانیہ کا زمانہ آیا تواس میں دنیا کو ایک کتاب قرار دیا گیا۔ رچرڈ ہالینڈ کے الفاظ میں،

    What we now see as the natural world appears in the Rennoseme as a great article a great book in which God inscribes signs and clues and an endless play of

    overlapping resemblances for men to interpret.

    (بحوالہ کتاب Superstructoralosm)

    یہ ساری بات قرآن حکیم سے ماخوذ ہے۔ مگر رچرڈ ہالینڈ نے بوجوہ قرآنی حوالہ دینے سے اجتناب کیا ہے۔

    غالب کے زیرنظرشعر کے عام مفہوم کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالب تخلیق کار کے قلم کی آواز کو نوائے سروش گردانتا ہے اور تخلیق کار کو محض ایک ذریعہ سمجھتا ہے جسے ’’مضمون‘‘ اپنے اظہار کے لئے بروئ ےکار لاتا ہے۔ لیکن اس شعر کی اطراف کو کھولنے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ غالب نے تخلیق کاری کے عمل کو محض خوشہ چینی کا عمل قرار نہیں دیا۔ اس نے اس کے چار مراحل کا ذکر کیا ہے۔ پہلا ’’غائب‘‘ کا مرحلہ جو تحریر اور تقریر دو نوں سے ماورا ہے۔ دوسرا تحریر کا مرحلہ جب عبارت کوندوں، لکیروں، قوسوں، Traces اور Tracks کی صورت غیب کے ناموجود پر بطور ایک خاکہ نمودار ہوتی ہے۔ اس کے بعد ’’خیال‘‘ کا مرحلہ جب اس خاکے پر تصویریں بنتی ہیں۔ چوتھا مرحلہ ترسیل کا ہے جب آواز تحریر کو دوسروں تک پہنچاتی ہے جیسے آر این اے، ڈی این اے کی ترسیل کرتا ہے۔ لہٰذا غائب کے مرحلے کے بعد اولیت ’’مضمون‘‘ کی تحریر اور خیال کی تجسیم کوحاصل ہے نہ کہ آواز کو جو ہر چند کہ ان کے ساتھ ہی پیدا ہوگئی تھی مگر جب قدرے تاخیر سے اپنی منزَ پر پہنچی۔ غالب کے اس شعر میں تحریر کو مقدم اور افضل قرار دینے کی جو جہت نمودار ہوئی ہے اس سے شعر کے عام مفہوم میں نئے ابعاد پیدا ہوگئے ہیں۔ اب یہ شعر کسی ایک معنی تک محدود نہیں رہا بلکہ تخلیق کاری کے Process کو بیان کرنے لگا ہے۔ دوسرے لفظوں میں Sign کے بجائے Significationکو اور ایک خاص معنی کے بجائے معنویت کے جہان کے دروازے کھول رہا ہے۔

    آخر میں وضاحت احوال کے لئے تخلیق کاری کے اس سارے عمل کوجسے غالب نے اپنا موضوع بنایا ہے ایک مثال کے ذریعہ بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ فرض کیجئے کہ آسمان پر بادل لہروں اور ابرپاروں کی طرح نہیں بلکہ ایک سفید یا سیاہ چادر کی طرح محیط ہے اسے آپ غائب کا عالم بھی کہہ سکتے ہیں مگرپھر اچانک اس بے داغ چادر کے اندرسے بجلی کا ایک کوندا لپکتا ہے جو چادر پر ایک نورانی عابرت لکھ دیتا ہے مگراس کوندے کی ایک اپنی کڑک بھی ہے جو کوندے کی روشنی کے خاصی دیر بعد اہل زمین تک پہنچتی ہے۔ تخلیقی عمل میں قلم یا خامہ جو بیک وقت تحریر میں تھی اور صرر بھی۔ تاہم اس عبارت کا تفاعل کچھ یوں ہے کہ قلم سے لکھی ہوئی تحریر یا موئے قلم سے بنائی ہوئی تصویر توآن واحد میں ہم تک آجاتی ہے مگراس عبارت سے منسلک آواز قدرے تاخیر سے ہم تک پہنچتی ہے۔ یوں غالب نے تخلیق کاری کے عمل میں تحریر کی اہمیت کو بڑی خوبی سے اجاگر کر دیا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے