aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب کے حضور میں

سلام بن رزاق

غالب کے حضور میں

سلام بن رزاق

MORE BYسلام بن رزاق

    جس طرح فریضۂ حج کے لیے کعبہ کے طواف کے ساتھ سنگ اسود کو بوسا دینا سنت ہے۔ اسی طرح چمنستان غالبؔ کی سیر کئے بغیر اردو ادب کا ہفت خواں طے نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کو قدرے تمثیلی پیرائے میں یوں بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اردو ادب ایک دیو ہے جس کی جان غالبؔ کی شاعری میں قید ہے۔ غالبؔ کی شاعری کا دائرہ اثر اس قدر وسیع ہے کہ ان کے بعد کے ہر بڑے شاعر پر اس کے اثرات نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ غالبؔ کی شاعری میں اردو شاعری کا سارا جوہر سمٹ آیا ہے۔ یہ کہنا بیجانہ ہوگا کہ اگر غزل اردو شاعری کی آبرو ہے تو غالبؔ کی شاعری اردو غزل کی آبرو ہے۔ اردو کے شعراء تو خیر غالبؔ کے آستانے پر جبہ سائی کئے بغیر اپنے ادبی سفر کا آغاز کر ہی نہیں سکتے۔ تاہم اردو کے ادیب اور نثر نگار بھی غالبؔ کی عظمت کو خراج تحسین پیش کئے بغیر ادب کی سرحد میں داخل نہیں ہوسکتے۔ ایک ہیچ مداں افسانہ نگار کی حیثیت سے شعوری یا غیر شعوری طور پر میری شخصیت اور میرا فن بھی غالبؔ کی شاعری کے سحر انگیز اثرات سے مبرا نہیں ہے۔ ان کے شاعرانہ جاہ و جلال کے سامنے میرے بے بضاعت افسانوں کی حقیقت ہی کیا۔ لیکن میرے تخیل کی تربیت اور فکر کی نشوونما میں غالبؔ کی شاعری بھی کسی نہ کسی صورت میں اثر انداز ضرور ہوئی ہے۔ کسی نے غالبؔ کی شاعری کے بارے میں کیسی سچی بات کہی ہے کہ ’’انسانی فطرت کے ارتقا کے لیے ان کا کلام اسی طرح مفید ہے جس طرح ایک عظیم اور بلند مرتبہ شخص کا فیض صحبت۔‘‘ غالبؔ کی دیو قامت شخصیت کے حضور میں میری حیثیت ایسی ہے جیسے آفتاب کی روشنی میں جگنو کی چمک اگر خود غالبؔ کے الفاظ میں کہوں تو،

    میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خار مغیلاں پر

    لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہر درخشاں پر

    غالبؔ کی شاعری میں کسی مخصوص فلسفۂ حیات کی عکاسی نہیں ملتی مگر ان کی شاعری، جام جہاں نما کی مانند ہے جس میں زندگی کا ہر نقش پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ ساماں نظر آتا ہے۔ غالبؔ کی شاعری کی شرح و توضیح میں اب تک ہزاروں مضامین لکھے جاچکے ہیں اور سیکڑوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی شاعری کے ہر ہر پہلو پر نقاد ان فن اپنی اپنی بساط کے مطابق طبع آزمائی کرچکے ہیں۔ اس کے باوصف سبھی بیک زبان اعتراف کرتے ہیں کہ،

    خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھئے

    ناطقہ سربگریاں کہ اسے کیا کہیے

    غالبؔ نے اگر اپنے اشعار کو گنجینۂ معنی کا طلسم کہا ہے تو بجا کہا ہے کہ ایک صدی بیت گئی ان کی شاعری کا سمدر منتھن ہنوز جاری ہے اور ہر بار اس میں سے گوہر نایاب بر آمد ہوتے رہتے ہیں۔ یوں تو غالبؔ کی شخصیت اور شاعری کی ہر جہت ہمیں دعوت فکر دیتی ہے مگر مجھے ذاتی طور پر غالبؔ کی روایت شکنی، مذہبی رداداری اور روشن خیالی سب سے جداگانہ لگتی ہے۔ اگر چہ ان کے ہاں اعلیٰ درجے کے تصوفانہ اشعار بھی ملتے ہیں غالبؔ صوفی نہیں ہیں۔ اور اگر کہنا ہی پڑے تو انہیں زیادہ سے زیادہ دنیا دار صوفی کہہ سکتے ہیں۔ وہ مسلمان ہیں مگر آدھے یعنی ایسا مسلمان جو شراب پیتا ہے مگر سور نہیں کھاتا۔ وہ فلسفۂ وحدت الوجود کے قائل نظر آتے ہیں ساتھ ہی رسول اکرمؐ کو آخری نبیؐ مانتے ہیں اور حضرت علیؒ سے عقیدت بھی رکھتے ہیں البتہ فقہ کے مسائل کو قابل اعتنا نہیں گردانتے۔ وہ ہندو فلسفہ سے بھی کماحقہ واقف ہیں۔ مہر نیم روز کے ابتدائی حصے میں کائنات کی تخلیق کے سلسلے میں ہندو فلسفے کے اندراجات موجود ہیں۔ وہ پارسیوں اور عیسائیوں کے مذہبی عقائد کے بارے میں بھی معلومات رکھتے ہیں۔ مختلف مذہب کے لوگوں سے ان کے تعلقات بڑے خوشگوار تھے۔ وہ مذہب کی بہ نسبت انسان کو بحیثیت انسان زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں۔

    بندہ پرور! میں تو نبی آدم کو مسلمان ہو یا ہندو یا نصرانی عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی گنتا ہوں دوسرا مانے نہ مانے۔ باقی رہی وہ عزیز داری جس کو اہل دنیا قرابت کہتے ہیں، اس کو قوم اور ذات اور مذہب اور طریق شرط ہے اور اس کے مراتب اور مدراج ہیں۔‘‘

    ان کے رویے اور شاعری دونوں میں مذہبی رواداری کا یہ جذبہ موجِ خوں کی طرح جاری و ساری نظر آتا ہے۔

    ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم

    ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں

    اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے

    حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

    از مہر تابہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ

    طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئینہ

    دلم در کعبہ از تنگی گرفت، آوارہ خواہم

    کہ بامن وسعت بت خانہ ہائے ہندو چیں گوید

    میرا دل کعبہ میں تنگی محسوس کرتا ہے۔ میری آوارہ مزاجی قدرے کھلی فضا کی متقاضی ہے لہٰذا مجھ سے ہند اور چین کے بت خانوں کی وسعت بھی بیان کی جائے۔

    کیوں نہ دوزخ کو بھی جنّت میں ملالیں یارب

    سیر کے واسطے تھوڑی سے فضا اور سہی

    غالبؔ کی وسیع المشربی اور آزادہ روی میرے لئے ابتدا ہی سے کشش کا باعث رہی ہے۔ مجھے یاد ہے آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے پہلی بار علامہ نیاز فتحپوری کی متنازعہ کتاب من ویزداں میری نظر سے گزری۔ نیاز صاحب نے کتاب کے شروع میں ایک واقعہ درج کیا تھا۔

    ’’انہوں نے ملک اور بیرون ملک ایک سو چھپن مولویوں کے نام ایک سوال روانہ کیا تھا کہ ایک برہمن زداہ بے حد نیک نفس، شریف الطبع اور اپنے معاملات میں ایماندار ہے مگر بت پرست ہے۔ اس کے بر خلاف ایک دوسرا شخص انتہائی کینہ خصلت، ظالم اور بد اخلاق ہے، جھوٹ اور فریب اس کی گھٹی میں پڑا ہے، شرابی اور زانی ہے مگر کلمہ گو ہے۔ از روئے مذہب بتائیں کون ناجی ہوگا اور کون ناری؟ یعنی کون جنت کا حقدار ہوگا اور کون دوزخ کا ایندھن بنے گا۔‘‘ جواب میں بیشتر علماء نے تو خاموشی اختیار کرلی مگر جو فتوے موصول ہوئے، ان کا لب لباب یہ تھا کہ پہلا شخص اپنی ساری نیکیوں کے باوجود چونکہ مشرک ہے اس لیے دوزخ کا ایندھن بنے گا اور دوسرا شخص اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد بالآخر جنت کا مستحق ہوگا۔ بعد ازاں علامہ نیاز فتحپوری نے اس فتوے کو بنیاد بناکر مولویوں اور مفتیوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ میرے مذہبی عقائد پر یہ پہلی ضرب تھی۔

    اگر چہ اب ’من ویزواں‘ کی علمی تحقیقی اور منطقی حیثیت اہل دانش کے نزدیک زیادہ معتبر نہیں رہی مگر آج سے ۳۰؍۴۰ سال پہلے اس کتاب نے نوجوانوں کی فکر میں ایک ہلچل سی پیدا کردی تھی۔

    محولہ بالا متنازعہ سوال ایک عرصے تک میرے ذہن میں خلش بن کر کھٹکتا رہا۔ بالآخر جب غالبؔ کا مشہور شعر،

    وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے

    مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

    میری نظر سے گزرا تو مجھے ایک حیرت ناک مسرت کا احساس ہوا اور یک لخت میرا تذبذب بھی ختم ہوگیا۔ یہ شعر نہ صرف مذہب کی قطعیت کے لیے ایک چیلینج کی حیثیت رکھتا ہے۔ بلکہ عبادت کے محدود تصور کی نفی کرتے ہوئے خدا اور بندے کے رشتے کو زیادہ مستحکم کردیتا ہے۔ اس مفہوم کو وہ ایک دوسری جگہ اسی طرح ادا کرتے ہیں۔

    نہیں کچھ سجہ وزّنار کے پھندے میں گہرائی

    وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے

    مذہبی عقائد کے مطابق جنّت اور دوزخ یا سورگ اور نرک کو انسانی اعمال کا پھل مانا گیا ہے۔ ہر مذہب ان کے وجود کی توثیق کرتا ہے مگر صوفیائے کرام کے نزدیک ان کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ حضرت رابعہ بصری تو جنت اور دوزخ کو عبادت کے راستے میں ایک رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ اس لیے وہ دوزخ کی آگ کو بجھانا اور جنت کو جلا کر بھسم کر دینا چاہتی ہیں مگر غالبؔ جنت اور دوزخ کے مادّی تصور کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

    ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

    دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

    وہ ایسی جنت کو قبول نہیں کرنا چاہتے جو خشک اور بے کیف عبادت کے عوض حاصل ہوتی ہو۔ جس میں رقص و سرود کی گرمی اور شہد و شراب کی مستی نہ ہو۔ وہ ایسی جنتّ کو جہنم رسید کردینے کی تلقین کرتے ہیں۔

    طاعت میں تار ہے نہ مے وانگبیں کی لاگ

    دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو

    غالبؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی عقیدے کی نفی نہیں کرتے مگر جس ظریفانہ انداز سے اس پر چوٹ کرتے ہیں اس سے اس عقیدے کی دیواریں متزلزل ہوتی نظر آتی ہیں۔

    روز حساب کا عقیدہ اسلام کے جملہ عقائد میں سے ایک ہے۔ واعظ و ملا روز محشر کا جو خوفناک نقشہ کھینچتے ہیں اس سے ایک عام مسلمان کے دل پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے مگر غالبؔ جس ظرافت اور شوخی کے ساتھ اس کا بیان کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے روز حساب میں سزا اور جزا کا محاکمہ نہ ہوکر خدا اور بندے کے درمیان ایک خوشگوار مکالمہ ہوگا۔

    آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد

    مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

    ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

    یارب یہ اگر کردہ گناہوں کی سزا ہے

    وہ سزا اور جزا کے بھی قائل نظر نہیں آتے بلکہ نیکی اور بدی کے روایتی تصور کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ کراماً کا تبین کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں۔

    کڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

    آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا

    غالبؔ کے بارے میں بالکل سچ کہا گیا ہے کہ مذہبی عقائد کی قبا ان کے بدن پر پوری طرح پھبتی نہ تھی۔ غالبؔ بہت کم احکام ظاہری کے پابند نظر آتے ہیں انہوں نے اشعار میں تو جابجا اس کا اظہار کیا ہے خطوط میں بھی کئی جگہ واضح اشارے کئے ہیں، غدر کے بعد جب پنشن بند ہوگئی تو فرماتے ہیں۔ ’’تمام عمر میں ایک دن شراب نہ پی ہو تو کافر، اور ایک دفعہ نماز پڑھی ہو تو گنہگار پھر میں نہیں جانتا کہ سرکار نے کس طرح مجھے باغی مسلمانوں میں شمار کیا۔‘‘

    نماز کے علاوہ انہوں نے کبھی روزہ بھی نہیں رکھا۔ مگر جوازیہ رکھا کہ،

    سامان خور و خواب کہاں سے لاؤں

    آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں

    روزہ مرا ایمان ہے غالبؔ لیکن

    خس خانہ و برف آب کہاں سے لاؤں

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔

    افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو

    اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے

    جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو

    روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

    غالبؔ اس لیے بھی مجھے محبوب ہیں کہ ان میں ریاکاری نام کو نہیں ہے۔ وہ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو چھپاتے نہیں بلکہ انہیں نہایت حسن و خوبی کے ساتھ ظرافت کے پردے میں بیان کردیتے ہیں۔

    اچھے کھانے اور اچھے لباس کے علاوہ شراب کے رسیا تھے اور خالص فرانسیسی شراب پسند کرتے تھے۔ انہوں نے ایک ڈومنی سے عشق کیااور اس کا اظہار بھی کردیا۔ جوّ ابھی کھیلا اور پاداش میں چھ مہینے کی جیل بھی کاٹی۔ کبھی شاہی ملازمت کے لیے بادشاہ کی مدح سرائی کی تو کبھی پنشن حاصل کرنے کے لیے برٹش سرکار کی خدمت میں خوشامدانہ عرضیاں گزاریں۔ مگر ان شخصی کمزوریوں کے سبب ان کی شاعرانہ عظمت میں کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی۔ غالبؔ کو عام طور پر جرمن شاعر گوئٹے کا ہم نوا کہا جاتا ہے۔ گوئٹے میں بھی کئی شخصی کمزوریاں تھیں اور وہ عیسائی مذہب کے رسوم و شعائر کا قائل نظر نہیں آتا۔

    ایک جرمن نقاد سے کسی نے پوچھا ’’گوئٹے ایک بلند مرتبہ شاعر ضرور تھا مگر اس کی ذاتی کمزوریوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔‘‘ نقاد نے بڑا بلیغ جواب دیا۔ اس نے کہا ’’اگر کوئی سورج سے کہے کہ وہ اس کا سگار جلا دے اور اس کا سگار نہ جلے تو کیا سورج کی عظمت سے انکار کردیا جائے گا۔‘‘ یہ جواب غالبؔ کی شخصیت اور فن پر بھی صادق آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ خالص سونے میں لوچ لچک نہیں ہوتی اس لیے اس میں تھوڑا سا تانبا ملا دیا جاتا ہے تا کہ نازک اور خوب صورت زیورات گڑھے جاسکیں۔ غالبؔ میں بھی جو شخصی کمزوریاں تھیں انہیں کے سبب ان کی شخصیت ایسی جاذب نظر ہوگئی تھی کہ وہ اپنے عہد میں یکتا و نمایاں نظر آتے ہیں۔ اپنی کمزوریوں پر ہنسنا اور غموں کو مسکراتے ہوئے پی جانا انہیں خوب آتا تھا۔

    درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

    مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں

    اس سے قبل عرض کیا جاچکا ہے کہ وہ مذہبی رسوم و عقائد کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی وہ کسی صوفی مسلک کے پیرو کار تھے مگر وہ اپنے سلوک اور برتاؤ میں اخلاقیات کے بلند مرتبے پر فائز نظر آتے ہیں۔ دوست داری، مہمان نوازی، راست گفتاری، مروّت اور جو دوسخا ان کے مزاج کے بنیادی اوصاف تھے۔ غالبؔ اس لیے بھی مجھے منفرد نظر آتے ہیں کہ وہ نہ ولی ہیں نہ فرشتہ ں، نہ بلا نوش ہیں، نہ زاہد شب بیدار، نہ وہ اتنے غافل ہیں کہ اپنی ذات کو فراموش کردیں، نہ اتنے ہوشیار ہیں کہ دنیا کی ہر بازی جیت لیں۔ وہ اپنی فتح پر اتراتے نہیں، شکست سے گھبراتے نہیں۔ ان کی شخصیت میں ایک توازن ہے۔ اپنی ساری خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ وہ محض ایک انسان ہیں۔ ایک ایسا انسان جو وسیع المشرب ہونے کے ساتھ اصل روحانیت اور اخلاقیات پر نظر رکھتا ہے۔ میں اسی اعتبار سے غالبؔ کو اپنا آئیڈیل مانتا ہوں اور غالبؔ ہی کے شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

    دیوھن غالبؔ سے اگر الجھا کوئی

    ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا

    یہاں ان سطور کے حوالے سے میں نے غالبؔ کے حضور میں صرف اپنا خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اب رہی میرے فن پر غالب کی شاعری کے اثرات کا ذکر تو یہ کام میں اردو کے ان باذوق طلبہ کی مرضی پر چھوڑتا ہوں جنہیں غالب کی شاعری کے علاوہ خدا نخواستہ میرے افسانے پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے