Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غالب: شخصیت اور شاعری: نئے مطالعے کے امکانات

باقر مہدی

غالب: شخصیت اور شاعری: نئے مطالعے کے امکانات

باقر مہدی

MORE BYباقر مہدی

    ہوئی مدت کہ غالب مر گیا، پر یاد آتا ہے

    وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہو تا کیا ہوتا؟

    پتانہیں غالب کے اس شعر کو اچھے اشعارمیں شامل کیا جا سکتا ہے یانہیں، اس لیے کہ ایک حلقہ ان کے علامتی اور استعاراتی اشعار ہی کو ان کے اچھے اشعار سمجھنے اور سمجھانے پر مصر ہے اور دوسرا حلقہ صرف بیانیہ اشعار ہی کو غالب کاا’’اصلی‘‘ رنگ سمجھتا ہے۔ مجھے یہ شعر اس لیے پسند ہے کہ غالب کا یہ شعر ایک روشن دماغ اور سوالیہ ذہنیت کا نمائندہ ہے۔ میری ناچیز رائے میں ہر مسئلے اور اس سے وابستہ سوالات کا حرف آغاز’’یوں ہوتا تو کیا ہوتا‘‘ میں پنہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے لیے غالب کا یہ شعر انوکھی کشش رکھتا ہے۔

    میں نہ تو غالب کا ماہر ہوں اور نہ ہی میں نے غالیبات کے سلسلے میں لکھی گئی ساری کتابیں اور مضامین پڑھے ہیں، ہاں چند کتابوں اور چند مضامین کا مطالعہ کیا ہے اور کلیات غالب (ڈاکٹر گیان چند نسخہ عرشی کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح بھی ہے) کا مطالعہ کرنے کا شرف ضرور حاصل ہے، ا س لیے میں اپنے ’’پراگندہ ذہن‘‘ کی مدد سے چند باتیں لکھنے کی جرأت کر رہا ہوں۔ غالب کے ماہرین اور محققین سے بہ صد عجز عرض ہے کہ دیوانے کی ہو بھی کبھی کبھی قابل توجہ ہوتی ہے۔

    مجھے ہمیشہ کی طرح غالب کی شخصیت کا مطالعہ ایک ایسے ڈیلیما سے دوچار کرتا ہے جس کا حل آسان نہیں ہے۔ غالب کے محققین نے ان کی شخصیت کے ا تنے ایکسرے XRAY پیش کیے ہیں کہ ان کی زندگی کے شب وروز کبھی دھوپ اور کبھی چاندنی کی طرح تیز گرم، روشن اور ٹھنڈے دھندلے عکس نظر آتے ہیں مگر محققین کی اس ’’کامیابی‘‘ کے باوجود غالب کی شخصیت کے سارے پیچ وخم کھل کر سامنے نہیں آتے ہیں۔ غالب سے مکمل تعارف بھی ایک قسم کی پراسراریت کو قائم رکھتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مکمل تجزیہ ہمیشہ تشنہ ہی رہےگا۔ غالب اپنے اشعار اور خطوط میں اتنا عریاں نہیں ہیں جتنا کہ قیس تصویر کے پردے میں تھا، اس لیے کہ قیس تو ایک ایک رخا عاشق اور غالب ’’مجموعہ اضداد‘‘ ہیں اور یہی رنگارنگی ہے جو ہم لوگوں کے لئے سوہان روح‘ بن گئی ہے۔

    اگر اس پر یقین آ جائے کہ ان کی شخصیت کا جائزہ ممکن ہی نہیں ہے تو بحث ختم ہو جاتی ہے اور ان کی شاعری کے بارے میں یقین سے رائے دی جا سکتی ہے مگر ناتمامی اور تشنگی کا یہ مسلسل احساس ہی ان کی شخصیت اور شاعری کو اور بھی قابل توجہ بناتا ہے۔ جشن غالب (۱۹۶۹ء) کے بعد یہ خیال کیا جاتا تھا کہ نئے ناقدین غالب پر ’حملہ آور‘ ہوں گے اور غالب کی پرانی آرزو یعنی’’اڑیں گے پرزے‘‘ پوری ہوگی۔ تماشا تو خوب دھوم سے ہوا مگر کچھ نہ ہوا۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالب آج بھی اردو تنقید پرخندہ زن ہیں۔ میری کیا بساط ہے کہ میں ان کی دیرینہ آرزو پوری کروں، میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں،

    رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

    آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

    غالب کی شخصیت پر لکھے گئے درجنوں مضامین، غالب کے خطوط اور ان کی شاعری کا تمام ترمطالعہ مجھے اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ وہ ایک Precocious Child تھے، کم عمری میں بالغ ہو گئے تھے۔ بچوں کی نفسیات کے ایک امریکی ماہر ڈاکٹر اسپاک Dr. Spock کا خیال ہے کہ ایسے ذہین بچے اکثر اپنی ذہانت کا خود شکار ہو جاتے ہیں اور بہت جلد تازگی ا ور ندرت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ بچے شاید ان غنچوں کی طرح ہیں جو کھلتے ہی مرجھا جاتے ہیں مگر غالب اس تجزیے سے مستثنا نظر آتے ہیں۔ وہ خاصی کم سنی میں فارسی اور اردو زبانوں میں اعلیٰ پائے کے شعر موزوں کرنے کے اہل ہو گئے تھے، یہی نہیں پندرہ بر س کی عمر میں وہ آفات زمانہ کی تلخیوں سے بھی لطف اندوز ہونے کا سلیقہ جان گئے تھے۔ ان کے خطوط ان کی کھلی ہوئی شخصیت Open Personality کی ا چھی مثالیں ہیں مگر اس کے باوجود اپنی شخصیت کے سارے پہلو عیاں نہیں کرتے ہیں۔

    وہ اپنی انا کے ساتھ خاکساری کے جواہر بھی پیش کرتے ہیں، وہ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن ہونے کے باوجود دوستی کے حدود اور دشمنی کی بیکرانی سے واقف ہیں۔ وہ شخص جو کم سنی میں یتیم ہو گیا ہو، جس کو اپنی ماں سے کوئی خاص محبت بھی نہ ہو، جس نے کم عمری سے آزادانہ جنسی زندگی گزاری ہو اور جواپنی شخصیت کی تعمیر میں اتنا کوشاں بھی نہ ہو کہ ہر قدم پر احتیاط کرتا ہو، ایسے شخص کی زندگی سے ساری نقابیں اٹھ جائیں تووہ عریاں نظر آئےگا مگر غالب پھر بھی اپنی شخصیت کا کوئی نہ کوئی پہلو چھپا جاتے ہیں۔ جان بوجھ کر اپنے کو چھپانے والا شخص سہما ہوا اور اکثر بکتربند نظر آتا ہے۔

    غالب کی بے پناہ ذہانت ان کا مطالعہ کرنے والی نظروں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ اگر یہ معلوم بھی ہو جائے کہ وہ بذلہ سنج تھے، شاعر نغز گو تھے، ہشت پہلو شخصیت رکھتے تھے، پھر بھی یہ احساس کیسے قائم رہتا ہے کہ غالب سے ملے لیکن غالب کو نہ سمجھ پائے۔ مجھے دو ایک ماہر غالبیات سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے اور میرے مسلسل سوالات کے بعد بھی وہ میری تشفی نہیں کر سکے۔ غالب کی شخصیت میں خود پرخندہ زن ہونے کی جو بےمثال صلاحیت ہے وہ انہیں (شاید) پراسرار بنائے رکھتی ہے۔ حالی کے ’’حیوان ظریف‘‘ کی ذہانت، فطانت اور ندرت تجزیہ نگار کو مبہوت کر دیتی ہے۔ آپ لاکھ ان کی شخصیت کو مختلف خانوں میں بند کرنے کی کوشش کریں وہ بند بھی نظر آتے ہیں اور نہیں بھی۔ اور ان کی شخصیت کے ایک پراسرار پہلو پر تیز شعائیں ڈالی جائیں یعنی ان کے طنزومزاح کا گہرا تجزیہ کیا جائے تو وہ کبھی ایک دل جلے کی ہنسی ہنستے ہیں جیسے،

    اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

    ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے

    مگریہ تبسم بھی پھیکا نہیں ہے اور معنی خیز ہے اور کبھی ایک ایسے دانشور کے تبسم زیرلب کا احساس ہوتا ہے جو دل ہی دل میں قہقہے لگاتا ہے مگر اس کے چہرے کی سنجیدگی پوری طرح قائم رہتی ہے، صرف آنکھوں کی چمک شوخ تر نظر آتی ہے،

    کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب

    سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

    وہ شخصیت جو اپنے ’’یارب‘‘ سے اتنے گہرے دوستانہ مراسم رکھتی ہو، اس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ لگانا ع، دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ غالب کی آزادانہ شخصیت اپنی آزادی کے حدود سے واقف تھی۔ وہ زخمی ہوکر اپنا ضبط وغم نہیں کھوتے بلکہ اپنی شکست کو بھی ایسے طنز آمیز تبسم سے قبول کرتے ہیں کہ فاتح بھی ان کو دیکھ کر دنگ رہ جائے۔ چارلی چپلین نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں کہیں لکھا ہے کہ ’’وہ مسخرہ کس کام کا جو دوسروں کو صرف ہنسا سکے۔‘‘ غالب تبسم کی زیریں لہر میں خاموش غم کو بھی اس طرح سمونے کا فن جانتے تھے کہ آدمی دکھی ہوکر بھی ان کی خندہ زنی میں شریک ہو جاتا ہے، بے دلی سے نہیں بلکہ کشادہ دلی سے،

    ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

    یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

    اور اس شعر کا ’’اگر‘‘ گناہوں پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ ناکردہ گناہوں کو جنسی تلذذ کی خواب بندی کہا جا سکتا ہے۔ غالب کی شخصیت کا بنیادی مطالعہ ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ وہ یتیم تھے مگر ان کا بچپن محرومیوں سے بہت دور تھا۔ انہیں اپنے باپ کی یاد بھی بہت کم آتی ہے گوکہ خطوط میں وہ اپنے باپ اور چچا کی موت کا اکثر ذکر کرتے ہیں۔ خورشید الاسلام کا خیال ہے کہ ’’افسردگی اور تصوف سے دلچسپی کے اسباب ان کے تجربوں میں ڈھونڈنے چاہئے۔‘‘ یعنی یتیمی، کم عمری کی شادی اور ۲۵ برس کی عمر میں عشق۔ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ بچے کو اگر شروع میں محرومی کا احساس نہ ہو تو یتیم ہونے کے باوجود اپنے والد کے سایے کا خواہاں نہیں رہتا ہے بلکہ اس پودے کی طرح تیزی سے بڑھتا اور پروان چڑھتا ہے جس پر کوئی برگد سایہ فگن نہیں ہوتا ہے، کیونکہ غالب کی شخصیت میں وسیع المشربی، رندی، شوخی اور طنز کے جو بنیادی عناصر ہیں وہ اسی وجہ سے اتنے گہرے اور پائدار ثابت ہوتے ہیں کہ ان کی ترقی میں کوئی روک ٹوک نہ تھی۔

    جنس کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس کو عام بنے بنائے پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا، اس لیے خورشید صاحب نے شخصیت کے نقوش اجاگر کرنے کے لیے جو پیمانہ بنایا ہے وہ اپنی جگہ تمثیلی ہوتے ہوئے بھی غالب کے لیے نامناسب ہے۔ ان کی کم عمری میں شادی بھی اسی لیے کی گئی تھی کہ انہیں آزادانہ زندگی بسر کرنے سے روکا جا سکے۔ اسی لیے انہوں نے شادی کو’بیڑی‘ کہا ہے، ورنہ وہ اپنی بیوی سے محبت نہ کرتے ہوئے بھی نفرت نہیں کرتے تھے۔ اس کا ثبوت اولادیں ہیں۔ ہاں ان کے عشق کے سلسلے میں قیاس آرائیاں کی جا سکتی ہیں۔ حمیدہ سلطان نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’امراؤ بیگم نے ان کے (غالب کے) ذوق شعر کو بلند کیا، کردار کو پاکیزگی بخشی، آگرے کی بےراہ روی اور رنگ رلیاں دلی کے مستقل قیام کے بعد تقریباً ختم ہو گئیں۔‘‘ حمیدہ سلطان کے اس بیان پر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے صحیح نکتہ چینی کی ہے، اس لیے کہ آگے چل کر خود حمیدہ سلطان یہ بھی کہتی ہیں کہ ترک نامی ایک خاتون تھی جس سے مرزا کا عشق تھا۔ محترمہ کے الفاظ ہیں،

    ’’مرزا کی شاعری کا بے مثل حسن، انفرادی بانک پن جس نگہ ناز کا عطیہ ہے، مرزا کے فکر کو جس دلکش خیال نے رنگینی ودل آویزی بخشی، ا س شعلہ خو حسینہ کے حسن صورت پر ہی نہیں حسن سیرت وذہانت پر بھی مرزا فریفتہ تھے۔ بہت ممکن ہے کہ غالب کے ہر شعر میں جو دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے، وہ ترک کا عطیہ ہو۔‘‘ (اقتباس از مضمون ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، نقوش غالب نمبر ص ۳۶۸، ۱۹۶۹ء)

    یہ ایک بیوہ خاتون تھیں۔ ان سے غالب کا عشق ثابت کرنا ایک قسم کی قیاس آرائی ہے۔ اصل میں غالب کا کوئی ایک محبوب نہیں ہے۔ وہ نہ بھونرے ہیں اورنہ مگس، ان میں ان دونوں کی ایک ایک خوبی ہے یعنی حسن پرستی مگریہاں بھی غالب کی دانشورانہ طراری کبھی سپر نہیں ڈالتی، وہ اپنے آپ کو کسی حسین سے کمتر نہیں سمجھتے تھے اور یہ خودنگری اور خودسری اس انا کو جنم دیتی ہے جو ان کی ہمیشہ ممدومعان رہی اور تیزابی ذہانت کے ساتھ ساتھ وہ درد مند دل بخشا کہ اس کو کسی ایک نفسیاتی پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ جینیس خود اپنا پیمانہ لے کر آتا ہے، جبھی تو غالب کی کم سنی، جوانی اور عمر کی خستگی کا اندازہ ایک پیمانے، ایک نظریے اور ایک معیار سے نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ غالب کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے غالب سے مستعار لے کر معیارات قائم کرنے ہوں گے، اس لیے کہ وہ صرف فخر عرفی اور رشک طالب نہیں تھے بلکہ ان سے اپنا الگ معیار رکھتے تھے۔

    آج تک شیکسپیئر کی شخصیت کا مکمل جائزہ نہ لیا جا سکا، گوکہ رویزے نے نہایت طویل سوانح عمری بہت دقیق نظری سے لکھی ہے، اس لیے کہ جینیس کی شخصیت کے سارے پیچ وخم واضح ہوکر بھی کہیں نہ کہیں پنہاں رہ جاتے ہیں اور یہ وہی گوشے ہیں جو وقت کی آہنی دیوار کو بار بار توڑنے میں مدد دیتے ہیں۔ غالب کے خطوط کی مدد سے تیار کی ہوئی ان کی سوانح حیات اسی لیے ان کی ہشت پہلو شخصیت کو بےنقاب نہیں کر پاتی ہے کہ خط ذہن وروح کے یک طرفہ آئینے ہیں اور صرف اس لمحے کے موڈ کو پیش کرتے ہیں جبکہ خط لکھا جا رہا تھا۔ ابوالکلام آزاد کے خطوط غبار خاطر سے ان کے جیل کے کچھ حالات، ان کا مذاق سخن تو معلوم ہو جاتا ہے مگران کی پراسرار شخصیت پر آج تک نقاب پڑی ہوئی ہے۔

    غالب اردو شاعروں میں سب سے کشادہ دل، بلند رو، عمیق شخصیت کے مالک ہیں۔ ان میں انسانی کمزوریاں بھی ہیں یعنی رشک وحسد، کمینگی، بزدلی، غیبت وغیرہ کے عناصر بھی ہیں، اس لیے کہ ان سے پاک ہوکر وہ بھی فرشتہ یا شیطان بن جاتے، مگر ان میں جینیس کی ذہانت، ایک مفکر کی بصیرت اور ایک بڑے شاعر کی غنائیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ حالی سے خورشید الاسلام تک غالب کو جس انداز سے بے نقاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ تہیہ کرکے چلے ہیں کہ آج مرزا کے ’’پرزے‘‘ اڑائیں گے، مگر غالب کی شخصیت اگر اپنی پراسراریت مکمل طور سے کھو دے تو پھر وہ ایک جینیس کی شخصیت نہیں ہوگی بلکہ ایک اعلیٰ درجے کے شخص کی شخصیت بن کر رہ جائےگی اور غالب کو اس کا شروع سے علم تھا کہ وہ غیرمعمولی شخصیت کے مالک ہیں، اسی لیے انہوں نے اپنے فارسی قطعے میں اس کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان کے ہم عصر ان کی زبان تک سے ناواقف ہیں۔

    ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ اردو کے غزل گو شعرا کی طرف تھا۔ وہ ایک باریہ بھی کہہ چکے ہیں کہ کچھ نہیں تو علی حزیں تک تو میں پہنچ گیا ہوں۔ ان میں خاکساری کے ساتھ تفخر، نیاز مندی کے ساتھ بانکپن اور خود ستائی کے ساتھ خود تنقیدی کے غیرمعمولی عناصر ملتے ہیں، جب ہی تو ان کی شخصیت آج بھی قدرے نئی اور روشن نظر آتی ہے گوکہ ان کی شاعری کا ایک اہم حصہ اپنی تروتازگی کھو چکا ہے، پھر بھی غالب کی شخصیت میں جلال اور جمال ابھی بڑی حد تک باقی ہے۔

    میں سمجھتا ہوں کہ غالب کی شخصیت کا مطالعہ کرنے کے لیے اس دور کے تاریخی معرکوں، ماحول، تہذیبی فضا اور جدید نفسیاتی آلات سے مدد مل سکتی ہے مگر پوری کامیابی کی امید کم ہے اور اسی طرح کی ناتمام اور ناکام کوششیں ہی غالب کی دل آٓٓویزی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں کیونکہ انسانی فرد کے سارے پیچ وخم معلوم بھی ہو جائیں تو بھی اس کا الگ الگ جائزہ مکمل شخصیت کو جنم نہیں دے سکتا ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالب ایک جینیس تھے، وہ کم عمری میں رنگ رلیوں میں غرق نہیں ہوئے، تصوف بھی انہیں پوری طرح اپنا نہ سکا اور روزانہ زندگی کے نشیب وفراز بھی انہیں پستہ قد کرنے میں ناکام رہے۔

    یہی نہیں مفلسی بھی انہیں صرف رسوا کر سکی مگر شکست نہ دے سکی، اس لیے کہ غالب کی انا ان کی بے پناہ آزادانہ شخصیت کی پروردہ تھی، وہ زخمی ہوکر حتیٰ کہ مرکر پھر زندہ ہوتی تھی۔ قماربازی، رندی، تصوف سے گہری دلچسپی، اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی نراجانہ زندگی اور اس کے تجربات اپنے اندر جذب کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتی تھی۔ میری کیا بساط ہے کہ میں اس شخصیت کو سمجھنے کا دعویٰ کروں، ہاں اتنا جانتا ہوں کہ یہ دیوقامت شخصیت ہر طرح کے انسانی جذبے اور فکر سے معمور ہونے کے باوجود ہر جذبے اور فکر سے بلند بھی ہے اوریہی اس کی دل کشی اور کشش کا راز ہے۔

    شخصیت کے مطالعے میں گفتگو یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ایک قدم دشت امکاں میں اور رکھنا چاہئے۔ آخر غالب کا شعور بھی تو’’ہدف ملامت‘‘ بنتا رہا ہے۔ احتشام حسین ایسے اہم ترقی پسند ناقد، غالب کے تفکر کی جولان گاہ کو ان کے شعور سے ہی پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے (احتشام صاحب کے الفاظ) ’’اصل چیز جو غالب کے شعور کو پرکھنے کی کسوٹی بن سکتی ہے، ۱۸۵۷ء کا غدر ہے کیونکہ غدر نے ہندوستان کو قدیم وجدید میں تقسیم کر دیا۔ ایک طاقت کی جگہ دوسری طاقت کو لا بٹھایا، جو نئے تصورات زندگی اور نئے سائنسی نظام کی علمبردار تھی۔‘‘ (نقد غالب ص ۱۶، مرتبہ مختارالدین آرزو)

    اس کے بعد احتشام صاحب نے تفصیل سے غالب کی مختلف آرا اور غدر سے متعلق ردعمل کا دستنبو کی مدد سے ذکر کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ غالب کوئی گہری سیاسی رائے نہیں رکھتے تھے ۱۹) ممتاز حسین بھی غالب کے مطالعے میں غدر سے متعلق غالب کو انگریز پرستی کے الزام سے بری کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ عام لوگ یہی چاہتے ہیں کہ غالب کو وطن پرست ثابت کر دیا جائے مگر مجبوری یہ ہے کہ غالب ایک تو سیاسی آدمی نہ تھے، دوسرے وہ سیاسی حالات سے بے حد متاثر ہونے کے باوجود اپنے شعور کو ان حالات کے جانچنے کی کسوٹی نہیں بننے دیتے تھے۔ اگر یہ ثابت بھی ہو گیا کہ غالب مجبوراً انگریزپرست تھے یا یہ یقین دلایا جائے کہ وہ محب وطن تھے تو ان کے شعور کی گہرائیو ں کا کیسے پتہ چل سکتا ہے۔

    سیاسی شعور خاص کر انیسویں صدی کے ہندوستان کا سیاسی شعور کم از کم غالب کے شعور کی کسوٹی نہیں بن سکتا ہے۔ ان کے شعور کی تکمیل تو پہلے ہی ہو چکی تھی۔ غدر کے وقت وہ پختہ شعور رکھتے تھے۔ معاف کیجئے مجھے یہ لفظ بھی پسند نہیں ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ اس سے ان کے شعور کو کسی حد تک سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اس لیے استعمال کر رہا ہوں، وہ لفظ ہے Pragmatist یعنی وہ ہر مسئلے کو اس کے تناظر میں رکھ کر اپنی رائے قائم کرتے تھے جو انہیں اس وقت حقیقت پسندانہ نظر آتی تھی۔ انہوں نے بادشاہ کے نام کا سکہ نہیں لکھا تھا مگر وہ غدر کے دوران دربار میں ضرور حاضر ہوئے تھے۔ غدر کی ناکامی کے بعد انہوں نے انگریزوں سے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی بڑی جدوجہد کی، اس کے باوجود ان پر انگریزپرستی کا الزام لگانا صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اس دور میں ایسا کرنا صحیح معلوم ہوتا تھا۔

    اس سے ان کی خودداری مجروح ضرور ہوئی ہے، مگر ان کا شعور بقا کے طریقوں اور حالات کے مطابق خود محفوظیت کے ذرائع سے واقف تھا۔ احتشام صاحب لینن کا قول دہراکر غالب کو بچانا چاہتے ہیں اور ممتاز حسین گٹیے کے خط کا اقتباس دے کر غالب کی شخصیت کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ دونوں مارکسی ناقد غالب کی شخصیت کے اس نازک پہلو کو سمجھ نہیں پائے ہیں کہ غالب کو اپنی بقا کے لیے کوئی نہ کوئی پناہ گاہ ڈھونڈنی تھی۔ وقتی مفاہمت تو استالین ایسے اکبر نے نازیوں سے بھی کی تھی اور بےچارے غالب تو ’’سیاسی عذاب‘‘ میں مبتلا ہونے کے باوجود ہوا کے رخ کو پہچانتے تھے۔

    ان کے شعور کو سمجھنا ہے تو شروع سے ان کی شخصیت کے ان پہلوؤں پر نظر رکھنی ہوگی جس میں خودسری کے ساتھ خودتنقیدی بھی شامل ہے۔ وہ اپنے قریبی دوست مولوی فضل حق خیرآبادی کے سلسلے میں ایک خط لکھ چکے تھے کہ مولوی صاحب میں مسلمان کی تعریف میں تعصب تھا، یعنی مولوی صاحب تنگ نظر مسلمان تھے۔ غالب کی آزادروی انہیں مفاہمت پرمجبور تو کر سکتی تھی مگر ذلیل نہیں۔ اسی لیے وہ محروم ہوکر بھی بڑے بانکپن سے زندہ رہے۔ وہ یقیناً مشرقی مسلمان، دہلی کے رہنے والے شہری تھے، مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ غالب کسی خانے میں بند ہوکر نہیں رہ سکتے تھے، ان کا شعور انہیں مقید نہیں کر سکتا تھا، وہ زندگی میں بقا کے بنیادی اصول سے واقف تھے۔

    یہیں پر آکر ان کے منفی اور مثبت پہلو یکجا ہو جاتے ہیں اور وہ پورے آدمی سے بلند ہوکر ایک فکری شخصیت میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور ان کے گرد وہ ہالہ بن جاتا ہے کہ جیلانی کامران انہیں صوفی شاعر ثابت کرنے میں اپنی ساری قابلیت صرف کر دیتے ہیں۔ ایک اور نئے ناقد وزیر آغا غالب کی آوارہ خرامی سے یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ انہیں جگہ جگہ کے سفر کا بڑا شوق تھا۔ یہ سارے اجزا ان میں صرف اجزا تھے، ان کے کل میں ان کا دخل تھا مگر غالب کے شعور میں بنیادی خوبی خود تنقیدی کی تھی۔ جب وہ بیدل سے متاثر ہوکر اس سے الگ ہوئے، عرفی کو چاہا، مگر وہاں بھی قیام نہ کیا۔ غالب کی شخصیت ایک مرکز کو اپنا محور بناکر پروان نہیں چڑھی تھی، یہ خودمختارانہ شخصیت تھی، ماحول سے اثرپذیر ہوکر اس سے بلند ہو جاتی تھی، اس طرح اس میں غیرمعمولی بغاوت اور مفاہمت دونوں کے عناصر شیرازہ بند ہو گئے تھے۔ ان کی شخصیت کے ادوار قائم کرکے انہیں ٹکڑ ے ٹکڑے میں تحلیل کرنا صحیح نہ ہوگا، اس لیے کہ یہ ٹوٹ کر بھی کبھی پارہ پارہ نہیں ہوئی۔ اسی لیے غالب کی شخصیت میں اعلا اقدار کے ساتھ ساتھ اسفل انسانی جواہر بھی یوں مل گئے ہیں کہ یہ ہیرا بھی ہے اور پتھر بھی۔

    اردو میں ہی کیا شاید ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی سوانح عمری کا فن ابھی ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے۔ ایک ہندوستانی ماہر نفسیات پروفیسر ککرنے نیپوال کو ایک خط میں لکھا تھا کہ یہاں ہندوستان کا ماحول ہی ایسا رہا ہے کہ کسی صحت مند بلند شخصیت کا پروان چڑھنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ خط نیپوال کی کتاب زخمی تہذیب The Wounded Civilization میں شامل ہے اور غالب کی شخصیت ناممکن کی دیوار کو بہت پہلے ہی کم سنی میں اپنے پہلے تشکیلی دور میں توڑ چکی تھی۔ یہ دوسروں کی رہنمائی میں نہیں ابھری تھی، اس کی پرداخت میں غالب کا اپنا ذہن کار فرما تھا، اسی لیے یہ غم کی گہرائیوں میں ڈوبنے کا حوصلہ رکھتی تھی اور اس کا اپنا ہنر تھا۔ یہ خود پرخندہ زن ہونے کا سلیقہ رکھتی تھی۔

    افسوس ہے کہ غالب کو سمجھنے والے ابھی تک دقیانوسی حضرات ہیں جو خود طرح طرح کے Complexes میں مبتلا ہیں۔ میں جارحانہ جملہ لکھنے کی معذرت چاہتا ہوں مگر حقیقت مجھے یہ لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہمارا ماحول پہلے سے زیادہ تنگ نظر اور تنگ دل ہے۔ غالب کیا، ہم تو اپنے عہد کی معمولی شخصیتوں کو سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔

    غالب کی شاعری کے سلسلے میں اردو ناقدین ان کی شاعرانہ عظمت کی نشاندہی کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں اور بیشتر مضامین’’عظمت کا راز‘‘ فاش کرنے کے جویا ہیں۔ کوئی ان کی مقبولت کو اس کی کسوٹی کہتا ہے اور کوئی ان کے فلسفیانہ افکار کو سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ اس سلسلے میں گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے عظمت کے بارے میں چند باتیں کہنا ناگزیر ہیں۔ زندگی اورادب میں عظمت کا کیا تصور تھا اور ہے، اس کو سمجھنے کے کیا کیا طریقے ہیں۔ زندگی میں کارہائے نمایاں کو معیار قرار دے کر عظمت کا تمغہ حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ الگ سوال ہے کہ ہر عہد پچھلے دور کے عظیم ستونوں کو توڑتا، یا شق کرکے اپنے ستون الگ تعمیر کرتا ہے، پھر بھی قدیم تہذیب کے ’’عظیم ستون‘‘ بچ ہی جاتے ہیں اور جنہیں آنے والی نسلیں اپنے ’’قیمتی ورثے‘‘ میں شامل کر لیتی ہیں۔ اس طرح تہذیبی روایت اپنے لیے ایک آئینہ تعمیر کرتی ہے جس میں ماضی کی شاندار تخلیقات کو دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

    مارکسی ناقدین اس سلسلے میں بہت دلچسپ سوال کرتے ہیں اور یہ سوالات ہیں کہ حکمراں ثقافتی طبقہ اپنی یادگار کے لیے اپنے عہد کے فنکاروں کو’’خریدتا‘‘ ہے اور اس لیے بادشاہ، امرا اور حکمرانوں کے ایوانوں، نگارخانوں اور ہر متبرک جگہوں کی تعمیر میں اکثر و بیشتر گم نام فنکاروں کا حصہ رہتا ہے، اس لیے مارکسی ناقد یہ سوال کرتا ہے کہ ماضی کی عظمت کا راز اس کی اعلیٰ تعمیرات، تخلیقات اور تصورات میں اتنا نہیں ہے، جتنا کہ اس عہد کی معاشی کشمکش، تہذیبی فضا اور روزانہ کی زندگی بسر کرنے کے حالات میں پنہاں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت فکر خیز سوال ہے مگر نیا ڈیلمیا (یہ میرا پسندیدہ لفظ ہے) اس وقت پیدا ہوتا ہے جب معاشی اقدار کا تجزیہ کرکے اس کو فنون لطیفہ ’’پرچسپاں‘‘ کیا جاتا ہے یعنی حالات کی آہنی گرفت میں الجھے ہوئے آدمی کی جدوجہد اور اس کی فتح وشکست کی داستان۔ اس لیے کہ بغاوت ہمیشہ ’’عظمت‘‘ کو چیلنج کرتی ہے اور ثقافتی ناقد ہمیشہ اس کشمکش میں مبتلا رہے ہیں کہ دیکھیں فردوسماج کی ہم آہنگی برقرار رکھنے اور توڑنے میں کون کون سے عناصر زیادہ کارفرما رہے ہیں۔

    مطلب یہ ہے کہ فردوسماج کے روابط ٹوٹ کر جڑتے اور پھر کھوتے رہتے ہیں۔ انفرادیت خاص کر رومانی انفرادیت فرد کو سب سے اعلیٰ درجہ عطا کرتی ہے اور سماجی ارتقا میں اس کو بڑی اہمیت اور عظمت دیتی ہے، لیکن اس کو مکمل طور سے تسلیم کرنے میں وہ ’’فریب‘‘ پوشیدہ ہے جو آگے چل کر آمریت کو جنم دیتا ہے۔ اب کئی مارکسی عظمت کو Personality Cult سے الگ کرکے دیکھ رہے ہیں اور یہ ماننے لگے ہیں کہ عظمت میں آمریت کے خاصے جراثیم نہاں اور عیاں ہیں۔ پھر بھی تاریخ میں عظیم حکمرانوں اور فنکاروں کو سب سے بڑھا چڑھاکر پیش کیا جاتا رہا ہے، اس لیے کہ دنیا کی تاریخ لکھنے والے مؤرخ یہ جانتے ہیں کہ لاکھوں بے نام اور گمنام لوگوں کی اہمیت کو عظمت میں تبدیل کرنے والے خود بھی آمر بنے ہیں۔ اس کی مثال دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

    غالب کی شاعرانہ عظمت کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی شاندار انفرادیت ایک ادبی آمر کی نظر نہیں آتی۔ یوں بھی غالب کی شخصیت میں بڑی لچک تھی۔ ان میں وہ تفخر نہ تھا جو بعض محققین میں نظر آتا ہے، گوکہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دور میں خود کو محقق بناکر پیش کرنے کی فاش غلطی کی تھی۔ اگر قاضی عبدالودود کے طویل رسالے ’’غالب بحیثیت محقق‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غالب کسی بھی زبان کے عالم نہیں تھے اور خود کو عالم سمجھنے کی ’’خودفریبی‘‘ میں مبتلا تھے۔ یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ قاضی صاحب کا یہ مقالہ میں پوری طرح سمجھنے کا اہل نہیں ہوں، البتہ اس سے میں اتنا سمجھ پایا ہوں کہ غالب کو عظیم محقق بننے کی بھی ’’ہوس‘‘ تھی، کیوں؟ اس کا پورا تسلی بخش جواب نہیں دیا جا سکتا، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی انفرادیت نے ’’یہ میدان بھی مار لینے کی کاہش خام‘‘ کی تھی۔

    جیسا کہ میں شروع میں عرض کر چکا ہوں کہ غالب کی انانیت ان کی پناہ گاہ بھی تھی اور رزم گاہ بھی اور اس مرحلے میں چند سخت مقام آتے ہیں۔ غالب کے مداحین انہیں لاکھ بچانے کی کوشش کریں لیکن وہ اس محاذ (عظیم عالم) پر شکست کھا جاتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ غالب نہایت نکتہ رس اور بےحد ذہین تھے۔ وہ شیفتہ کو مذہبی نکات سمجھانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

    غالب کی شاعرانہ عظمت کوسمجھنے کے لیے کن عناصر کو سامنے رکھنا چاہئے؟ اس سے پہلے کہ میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں، یہ بتانا ضروری ہے کہ اردو کے ناقدین نے اس سوال کے کیا جوابات دیے ہیں۔ رشید احمد صدیقی ایک ادبی ناقد نہیں تھے بلکہ بڑی دلچسپ نثر لکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا: ’’مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا، تو میں بےتکلف یہ تین نام لوں گا: غالب، اردو اور تاج محل۔ یہ ہندوستان کی تہذیبی پیداوار ہیں اور ہندوستان کے سوا کہیں اور ظہور نہیں پا سکتے تھے۔ ان تینوں میں ہندوستان کے صوری اور معنوی امتیازات جھلکتے ہیں۔‘‘ (نقد غالب ص ۳۱۶۔ مرتب مختارالدین آرزو)

    اس کے معنی ہیں کہ غالب اپنے عہد کی تہذیب کا اعلی ترین نمونہ تھے۔ اگر اس بیان کاتجزیہ کیا جائے تو پتہ چلےگا کہ رشید صاحب نے بجنوری کی پیروی کرتے ہوئے ایک خوبصورت جملہ لکھا ہے اور اس میں تجزیے کی آگ میں جلنے کی سکت نہیں ہے۔ اس بیان میں مغلیہ سلطنت کو عظیم سمجھنے کا عقیدت مندانہ مبالغہ شامل ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ اردو زبان کی تخلیق میں مغلیہ سلطنت سے کہیں زیادہ ان کاروباری عناصر کا حصہ ہے جو ایک حکمراں طبقہ اپنے محکوم طبقے سے روابط قائم کرنے کے لیے بطور ترسیل Communication استعمال کرتا ہے توکچھ زیادہ غلط نہیں ہوگا اور غالب کی عظمت تو مغلیہ سلطنت کے زوال میں رونما ہوئی تھی، مگر رشید صاحب نے اسی مضمون میں ایک اور دلچسپ بات کہی ہے :’’میں شاعر کی اہمیت کا اندازہ اس سے کرتا ہوں کہ اس کا خدا، انسان اور عورت کا کیا تصور ہے۔ میں نے آج تک کسی بڑی شاعری یا بڑے شاعر کے ہاں یہ نہیں دیکھا کہ اس کا عورت کا تصور معمولی یا ادنیٰ درجہ کا ہو، انسان کی عظمت کا قائل، خدا کی عظمت کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ (نقدغالب ص ۲۳۱)

    اب عظمت کا تصور اور بھی مشکلوں سے دوچار ہو جاتا ہے، یعنی بغیر خدا کو تسلیم کیے ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ بڑے شاعر کا مذہبی ہونا ضروری ہے، یہ کسوٹی میر ے خیال سے زیادہ صحیح نہیں ہے۔ رہا انسان اورعورت کے تصورات، تو یہ بھی بڑے بحث طلب مسائل ہیں، اس لیے کس طبقے، کس ملک وملت اور کن خیالات سے معمور انسان کو عظیم سمجھا جاتا ہے۔ عورت کے سلسلے میں تو اتنے ہنگامے ہیں کہ فی الحال اس موضوع پر زیادہ گفتگو نہ کرنا ہی مناسب ہوگا۔ رشید صاحب کا یہ دلچسپ مضمون ایک فارسی غز ل کے اقتباس پر ختم ہوتا ہے،

    اے ذوق نواسنجی بازم بخروش آور

    غوغاے شب خو نے بربنگہ ہوش آور

    غالب کی بقایش باد ہم پاے تو گرناید

    بارے غزلے فردے زاں موینہ پوش آور

    میں نے رشید صاحب کے مضمون کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ غالبیات کے سلسلے میں لکھے گئے مضامین میں یہ خاصا دلچسپ مضمون ہے، گوکہ تنقیدی مضمون نہیں ہے۔ پروفیسر آل احمد سرور کا ’’غالب کی عظمت‘‘ بھی دلچسپ اور فکرخیز مضمون ہے، اس پر سب سے پہلے جیلانی کامران نے اپنے مضمون ’’غالب کی تہذیبی شخصیت کا تعارف‘‘ (صحیفہ، غالب نمبر حصہ اول مطبوعہ جنوری ۱۹۶۹ء) میں اعتراض کیا تھا کہ ’’آل احمد سرور کا مضمون ہر بات کا ذکر کرتا ہے لیکن غالب کی عظمت کا ذکر نہیں کرتا، تاہم عنوان کی مناسبت سے آل احمد سرور اسی سوال کو اٹھاتے ہوئے لکھتا (لکھتے ہیں) ہے: ’’اب سوال یہ ہے کہ غالب کے فن کی کیا اہمیت ہے اور اس کی عظمت اس کی انفرادیت میں ہے اور ا س کی انفرادیت ایک نیا شاعرانہ سانچا ایجاد کرنے میں ہے۔‘‘ میرے خیال سے سرور صاحب کے مضمون کے کچھ اہم حصے اور بھی ہیں جیسے،

    ’’غالب کی شاعری میں انسان اور ادب پہلی دفعہ بے سہارے کے اپنی عظمت کے بل کھڑے نظر آتے ہیں، انہیں کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، اس لیے غالب کا مطالعہ ہمارے اندر ایک وسعت نظر پیدا کرتا ہے، وہ ہمیں ’’خمار رسوم وقیود‘‘ سے آزاد کرتا ہے۔ انسانی شخصیت کی پرپیچ راہوں میں روشنی دکھاتا ہے، ماضی پرستی سے روکتا ہے، انفرادیت سکھاتا ہے۔‘‘ ۱۲۶ نقد غالب)

    ’’غالب کا اسلوب اردو شاعری کو گہرے فلسفیانہ سیاسی علمی افکار کے اظہار پر قادر کر دیتا ہے۔‘‘ ۱۲۸نقد غالب)

    ’’میں اردو میں غالب کی شخصیت کو پہلی بھرپور جاندار ادبی شخصیت کہتا ہوں جس کا ہر پہلو ہمارے لیے دلچسپی اور لطف کا سامان رکھتا ہے، ان کی روحانیت انہیں تجربات وکیفیات کی نئی نئی فضاؤں میں لے جاتی ہے اور ان کا تنقیدی شعور اس میں کلاسیکی ضبط ونظم پیدا کر دیتا ہے۔ ان کی انانیت میں انفرادیت کی بہاریں ہیں اور برنارڈ شا کی انانیت کی طرح کیف وانبساط کا سامان۔‘‘ ۱۳۱ نقدغالب)

    سرور صاحب کامضمون ۱۹۴۶ء میں شائع ہوا تھا، جس پر انہوں نے ۱۹۵۲ء میں نظرثانی کی تھی۔ اس پر اب زیادہ بحث سودمند نہیں ہوگی۔ اس لیے سرور صاحب نے جشن غالب کے موقع پر ایک اور فکرخیز مضمون لکھا تھا۔ پورے غالب The Whole Ghalib جو ’’عرفان غالب‘‘ میں شامل ہے۔ دونوں مضامین میں خاصا تضاد ہے، مگر یہ تو فطری تھا، ا س لیے کہ پہلے مضمون کے وقت سرور صاحب کسی حد تک ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے اور دوسرے مضمون کی فضا پر ’’جدیدیت کی برق‘‘ لہراتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس لیے اس مضمون میں ایلیٹ اور ریکے کا ذکر ہے۔ بچارے سی ڈی لیوس اور شاکا کا نام تک نہیں ہے، مگر اس مضمون کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہوتے ہوئے بھی سرور صاحب کا یہ کہنا کہ ’’غالب وجدان کے شاعر نہیں، ذہن کے شاعر ہیں Inspiration کے نہیں Intellect کے شاعر ہیں۔‘‘

    اس جملے کی تلخی کم کرنے کے لیے ایک اور جملہ لکھتے ہیں جو میری ناقص رائے میں صرف خوبصورت جملہ ہے مگر کسی حد تک بے معنی۔ سرور صاحب فرماتے ہیں: ’’مگر ان کا ذہن وجدان کی پسی ہوئی بجلیوں سے بنا ہے۔‘‘ (عرفان غالب ص ۲۵۶) وجدان کی پسی ہوئی بجلیوں کو میں بے معنی سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ اولیت جو ذہن کی ہوگی تو وجدان کی اپنی منطق ہو سکتی ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ذہن ہی وجدان کی پسی ہوئی بجلیوں سے بنا ہو، اس مضمون میں غالب کی ا ہمیت کو ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’جب ادب پر نظریے کی گرفت ڈھیلی ہوئی، نظر کی گہرائی اور بلندی کوقابل اعتنا سمجھا جانے لگا تو غالب کی ہمہ گیر متنوع زندگی کے عجائبات، تناقضات اور تضاد کی آئینہ دار شاعری کی معنویت بھی کھلی۔‘‘

    شاید نظریے سے مراد (جہاں تک میرا خیال ہے کہ ترقی پسندوں کا سوویت مارکسزم کا نظریہ ہے) کوئی فارمولہ ہے، اس لیے کہ ناقد تو بغیر نظریے کے تنقید کر ہی نہیں سکتا۔ خواہ وہ کتنا ہی ایک خاص قسم کے نظریے کی مخالفت کرے مگر تجزیے اور تشریح کے لیے اسے کوئی نہ کوئی نظریہ اور زاویہ نگاہ اپنانا ہی پڑےگا۔ وہ لوگ بھی جو مارکسزم کے شدید مخالف ہیں، ان کے تنقیدی خیالات کے مجموعے کے عنوان بھی Armed Vision قسم کے ہیں، مگر سرور صاحب اس بار عظمت کا راز فاش کر ہی دیتے ہیں، فرماتے ہیں :’’غالب کی عظمت اس بات میں ہے کہ ان کے پاس دل کی آنکھ بھی ہے اور سیر لالہ زار بھی، بلکہ دل کی آنکھ نے لالہ زار کو ایک خاص رنگ عطا کیا ہے۔‘‘ یہاں غالب کا شعر بھی سرور صاحب نے پیش کیا ہے،

    بے چشم دل نہ کر ہوس سیر لالہ زار

    یعنی یہ ہر ورق، ورق انتخاب ہے

    مضمون کا آخری جملہ بھی توجہ طلب ہے، ’’میں غالب کا کارنامہ سمجھتا ہوں کہ انہوں نے انفرادیت کی تکمیل اور فن کے بارے میں ایک اعلیٰ قدر کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔‘‘

    سرور صاحب نے عظمت کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کہیں بھی اوریجنلٹی Originality کی بحث نہیں کی ہے اور نہ ہی یہ کہا ہے کہ غزل کی شاعری میں عظمت کی تلاش کے کیا پیمانے ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر بڑا شاعر بڑ ا ہے تو کتنا عظیم ہے اوراس کی عظمت کا اگر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے تو یہ لکھنا پڑےگا کہ عظمت کی سیڑھیاں نہیں ہیں، یہ ہوا میں معلق ایک گھر بند ہے، بس اس کے مکیں ہی اس کے راز سے واقف ہیں۔

    بہت عرصہ ہوا شام لال نے ایلیٹ کے مضامین پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بڑے شاعر کی تعریف کرنے سے قاصر ہے، صرف یہ کہتا ہے کہ بڑا شاعر بڑا ہے۔ یہی نہیں ایلیٹ نے دانتے کو دنیا کاسب سے بڑا شاعر کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اس پایے کا شاعر دنیا کی کسی زبان میں نہیں ہے۔ جب امریکہ میں سیاہ فام ادیبوں نے بورژوا نقادوں کو ہدف ملامت بنایا تھا تو کہا تھا کہ ایلیٹ دنیا کی کتنی زبانیں جانتا تھا؟ اور اس قسم کا بیان محض قصیدہ خوانی ہے اور مغربی سفید فام ثقافت کو اعلیٰ ترین منوانے کی ایک مہم ہے۔ آپ سیاہ فام ادیبوں پر ہنسیے نہیں کہ ان باتوں میں تھوڑی بہت صداقت ضرور ہے۔

    میری ناچیز رائے میں غالب کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لیے نہ تو مقبولیت کی کسوٹی کافی ہے اور نہ ان کے فلسفیانہ افکار کی اہمیت کی۔ سب سے پہلے غالب کی پوری شاعری، فارسی اور اردو غزل کے سرمایے کو سامنے رکھنا پڑےگا اور یہ بحث کرنی ہوگی کہ سبک ہندی کے فارسی شعرا کے مقابلے میں غالب کی فارسی غزل کتنی اہمیت رکھتی ہے، دوسرے غالب کی اردو کے کون کون سے حصے آج بھی زندہ ہیں۔ جہاں تک غالب کی عشقیہ شاعری کی بحث ہے، اس کا خاصا بڑا حصہ اپنا رنگ وروغن کھو چکا ہے اور ان کے وہی عشقیہ اشعار اب بھی اہم ہیں جن میں معنی آفرینی کے ساتھ عش کی گہری لہریں پائی جاتی ہیں جیسے،

    بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی

    وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے

    جہاں تک فلسفہ کلام غالب کا تعلق ہے تو میری ناچیز رائے میں شاعری میں فلسفے کی بحث کو عام فلسفیانہ بحث سے ملانے کے باوجود یہ فرق مدنظر رکھنا چاہئے کہ شاعری میں فلسفہ فن کے ذریعے آتا ہے اور اس کی فکر الگ ہوتی ہے۔ جیلانی کامران نے نہایت دقیق مضمون میں غالب کو صوفی شاعر ثابت کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے،

    ’’غالب کی عظمت کا باعث تنقید غالب نہیں بلکہ غالب کے پرستار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دیوان غالب کو پڑھنے والا غالب سے جس طرح متاثر ہوتا ہے اس تاثر میں غالب کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔ اس تاثر کو تنقید کی عبارتوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے، اسے صرف تشریح کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ تشریح دراصل قاری کے ذاتی حق سے پیدا ہوتی ہے اور جس شاعر کے قارئین تشریح کے بارے میں ذاتی رائے کو مستند خیال کرتے ہیں، اسی قدر وہ شاعر بھی مقبول ہوتا ہے۔ صداقت یہ ہے کہ بڑے شاعروں کے سلسلے میں مقبولت ہی عظمت کہلاتی ہے۔‘‘ ۳۷۳ صحیفہ اول ۱۹۶۹ء)

    یعنی فلسفہ نہیں، وہی مقبول عام کی سند عظمت کا تمغہ ٹھہری جسے میں پوری صداقت نہیں سمجھتا ہوں، اس لیے کہ ہمارے ملک میں پچاس فیصدی بھی خواندگی نہیں ہے اور اردو والوں میں تو مذاق سخن اور مطالعہ عمیق کا خاصا فقدان ہے، اس حلقے میں کتنی مقبولیت ہوگی۔ دیوان غالب صدی ایڈیشن کو فروخت ہونے میں کئی برس لگے تھے گوکہ وہ اغلاط سے پر تھا، جیسا کہ محبی رشید حسن خاں نے اپنے تحقیقی مضمون سے ثابت کیا تھا۔

    میری رائے میں غالب کے زیادہ سے زیادہ سو شعر ہوں گے جو مقبول خا ص وعام ہیں اور یہ مقبولیت کی سند تو دے سکتے ہیں مگر عظمت کی مہر نہیں بن سکتے ہیں۔

    اور پھر یہ سوال بھی آتا ہے کہ غزل کے کتنے اعلیٰ درجے کے اشعار عظمت کی ابتدا و انتہا کرتے ہیں۔ غالب کے کلیات میں یقیناً لسانی نزاکتوں اور شعری جذبے اور فکر سے معمور (کم سے کم) دو ہزار شعر فارسی اور اردو میں ہیں اور غالب دراصل شاعروں کے شاعر ہیں اور ان کی شاعری انسانی فطرت کی کامیابیوں اور لغزشوں دونوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ شاید سرور صاحب ہی نے کرنل زیدی سے کہا تھا کہ کوئی بھی ہنگامہ ہو خوشی یا غم کا وہ اس کی عکاسی غالب کے کسی نہ کسی شعر میں ضرور دکھا سکتے ہیں۔ نظیر صدیقی نے یہ صحیح لکھا ہے کہ غالب ہماری زندگی کے ایک بڑے رقبے پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔

    شیخ محمد اکرام نے عرصہ ہوا لکھا تھا کہ اردو تنقید کی عظمت اور سطحیت کا اندازہ لگانا ہو تو غالب پر لکھے گئے مضامین کا مطالعہ کیا جائے ۔ میں نے تو غزلیات کے صرف ایک حصے کا مطالعہ کیا ہے اور مجھے افسوس ہے کہ غالب پر اعلیٰ درجے کے مضامین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اصل میں یہ صرف اردو کی ہی بدنصیبی نہیں ہے بلکہ آکٹوویوپاز تو یہاں تک لکھتا ہے کہ ہماری زبان یعنی ہسپانوی زبان میں نوبل انعام یافتہ تو کئی ادیب اور شاعر ہیں مگر تنقید فروغ نہیں پا سکی ہے، اس لیے کہ جمہوری فضا ہی نہیں ہے۔ یہ مضمون ۶ اگست ۱۹۷۶ء ٹائمس لائبریری سپلیمنٹ میں شائع ہوا تھا۔

    اب بحث کا ایک اور رخ بھی ہے کہ عظمت کے قضیے کو ترک کیا جائے اور غالب کی پرکھ کے لیے نئے تنقیدی سانچے بنائے جائیں یانئی تنقیدی نظر تشکیل کی جائے، یعنی مغربی تنقیدی معیارات کے بجائے دیسی تنقیدی فکر کو اہمیت دی جائے۔ مگر یہ کوشش بھی کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی ہے، اس لیے کہ تیسری دنیا کے ادب کا ایک سرسر ی مطالعہ بھی یہ بتا دےگا کہ فارسی، عربی، ترکی، چینی، جاپانی اور خودہندوستان کی مختلف زبانوں کی تہذیب ابھی ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہے اور مغربی تنقید کے سایے میں گریزاں بھی ہے اور متاثر بھی۔

    یہ بھی صحیح ہے کہ کبھی بھی تنقید عظیم شاعری کی نہ تو ہم سر ہو سکتی ہے اور نہ ہم قدم، نئے ناقد عظیم شاعر ی کی بحث ہی کو تضیع اوقات تصور کرتے ہیں، اسی لیے ایوان گارڈ Avan Garde عظمت کے تصورات کو کلاسیکی قہاری Classical Tyranny کے مترادف قرار دیتا ہے اور اس طرح یہ رجحان فنکار سے فن کے تجربات، محسوس الفاظ، نئی امیجری اور صنعتی نظام کی نئی نغمگی کواپنے اظہار کے لیے ضروری سمجھتا ہے اور عظمت کو وقت کے ہاتھوں میں سونپ دیتا ہے۔

    میری رائے میں غزل کی تنقید میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ عنوانات مقرر کرکے جیسے صحرا، باغ، تمنا، تماشہ وغیرہ کے ذیل میں اشعارجمع کرنا اور ان کی شرح کرکے معنی آفرینی کی کوشش کرنا ہی ناقدین اور شارحین کا کام رہ گیا ہے، پھر شارحین آپس میں وکیلوں کی طرح ہر شعر کی تشریح پر الجھتے رہتے ہیں۔ جدید ناقد اشعار میں صوتی آہنگ، استعارے اور پیکر تراشی کی نشان دہی کرکے سمجھتے ہیں کہ تنقیدی فرض انجام دے دیا ہے۔ میرے خیال سے اس قسم کی تنقید اب خاصی فرسودہ ہو گئی ہے۔

    نیا تنقیدی سانچا، نظر اور طریقہ کار کیا ہو، اس کی بحث غالب کی شاعری کونئی روشنی میں دیکھنے کی کوشش ہوگی جونہ صرف لفظی تنقید ہوگی اورنہ تشریحی اور نہ ہی تاریخی اور معاشی پس منظر کو مرکز بناکر شعری محاسن کا جائزہ لےگی، بلکہ نفسیاتی، عمرانی اور لسانی تنقیدوں کے معیارات کے سنگم سے ایک نئی جمالیات کی داغ بیل ڈالے گی، جب ہی ہمیں غالب کی شخصیت اور شاعری کو بڑی حد تک سمجھنے کا موقع ملےگا۔

    مأخذ:

    شعری آگہی (Pg. 35)

    • مصنف: باقر مہدی
      • ناشر: ایڈ شاٹ پبلی کیشنز، ممبئی
      • سن اشاعت: 2000

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے