Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حسرت کی غزل گوئی

ممتاز حسین

حسرت کی غزل گوئی

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

    حسرت نے ہمارے لئے دو کتابیں چھوڑی ہیں۔ ایک اپنی غزلوں کی کلیات دوسری اپنی زندگی کی کتاب۔ میں اس موقعے پرحسرت کی زندگی کے بارے میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ وہ ان کے مجموعہ غزل سے کچھ کم اہم نہیں ہے لیکن جب یہ سوچتا ہو ں کہ وہ تو اس راہ پر خار سے گزرے جس راہ پر چلنے سے بقول غالب ’’خضر کو بھی حذر آئے‘‘ تو پھر اس کے ذکر سے کیوں نہ مجھے بھی حذر آوے۔ لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ ان کی سیاسی زندگی اور ان کی غزل گوئی میں ایک ربط پنہاں ہو تو ہو، کوئی ربط ظاہر نہیں ہے اور اس کا احساس انہیں بھی تھا،

    سویٹ آپ کا مقصد، بغاوت آپ کا مسلک

    مگر اس پربھی حسرت کی غزل خوانی نہیں جاتی

    اور وہ جو چند غزلیں کچھ سیاسی انداز کی کہی ہیں،

    اچھا ہے اہل جور کئے جائیں سختیاں

    پھیلے گی یوں ہی شورش حب وطن تمام

    اچھا ہوا کہ خاطر حسرت سے مٹ گئی

    ہیبت سی اک جو خطرہ دار و رسن میں تھی

    وہ ان کے مخصوص رنگ سخن سے خارج میں تسلیم کی جاتی ہیں، تو ایسا کیوں نہ ہو کہ پہلے ان کے رنگ سخن ہی کو متعین کرنے کی کوشش کی جائے۔ دنیا کا کوئی بھی شاعر ایسا نہیں ہے جس کا کلام بالکل ہی یک رنگ ہو۔ میر کے یہاں کتنا حزن و یاس ہے لیکن ان کا کلام یک رنگ نہیں ہے، صدرنگ مری موج ہے میں طبع رواں ہوں۔

    اور اگر شاعر کی طبع میں یہ روانی اور تنوع نہ ہو تو وہ شاعر کا ہے کو، اس کی آزاد افتاد طبع میں اس صد رنگ روانی موج کا پایا جانا اس کی شاعرانہ شخصیت کا ایک فطری خاصہ ہے۔ موضوعات سخن کو شاعر مقید کرتا ہے نہ کہ وہ خود کسی موضوع کا اسیر ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی بھی شاعر کے رنگ کلام کو کسی خاص موضوع کے تکرار کی نسبت سے متعین کرنا درست نہ ہوگا۔ غالب کو کب کسی نے اس طرح جانچا ہے اور اگر یہ معاملہ، اسلوب کا ہے نہ کہ موضوع کا تو اس کا تعین تمام تر زبان ہی کی نسبت سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی شاعر کسی نجی زبان میں گفتگو نہیں کرتا ہے۔ زبان ۹۹ فیصد روایتی ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ایک آدھ فیصدی نئے الفاظ، نئے محاورات اور نئے استعاروں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جب زبان کایہ عالم ہو تو پھر شاعری کا ڈکشن تو اس سے بھی زیادہ روایتی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی بھی شاعر اپنے ماسبق یا معاصر شعراء کے ڈکشن سے اپنے دامن کو بالکل ہی بچا کے چلے۔

    قدما کے کلام سے کسب فیض کون نہیں کرتا ہے۔ پھر بھی ہم یہی دیکھتے ہیں کہ اس اکتساب کے باوجود نیا نیا اور پرانا پرانا ہی رہتا ہے۔ شاعر کے کلام میں وہ نیاپن کچھ تو اس کے اپنی زبان کے خلاقانہ تصرف سے پیدا ہوتا ہے تو کچھ اس کے اپنے تجربات کی انفرادیت یا نیرنگیوں سے۔ افسانہ عشق بڑا پرانا ہے۔ اسے کس دور میں دہرایا نہیں گیا ہے لیکن ہر دور کا افسانہ عشق کچھ تو اس دور کی مخصوص رسم عاشقی اور کچھ شاعر کے اپنے تجربات کی انفرادیت، نگاہ کی جدت اور انداز بیان کے انوکھے پن سے نیا ہو جاتا ہے۔ عشقیہ شاعری یوں ہی جیتی رہی ہے اور یوں ہی ابدالآباد تک زندہ رہے گی۔

    حسرت کے رنگ تغزل کو روایت اور درایت کے اسی پس منظر میں دیکھنا ہوگا لیکن اس روایت اور درایت کا صرف ایک لسانی مطالعہ ہی کافی نہ ہوگا اس کے ساتھ شاعر کے تاریخی دور اور اس کی شخصیت کے مطالعہ کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ حسرت صدق وصفا اور مہرو وفا کے ایک مثالی کردار سہی، ان کا ظاہر و باطن ایک سہی لیکن انسان کی نفسیات کچھ انہیں مساوات پر تو ختم نہیں ہو جاتی ہے۔ یہ ایک بڑی پیچیدہ سی شئے ہے، اس میں بڑی گرہیں اوربڑی گتھیاں ہوتی ہیں، خواہ آدمی بظاہر کتنا ہی سادہ کیوں نہ ہو۔ مجھے تو حسرت کی شخصیت کچھ دو نیم سی نظر آتی ہے۔ وہ اگر ایک طرف اپنے عقائد میں قدامت پسند تو دوسری طرف سیاست میں شدت پسند تھے، وہ سرسید احمد خاں کے اینگلو محمڈن کالج کے گریجویٹ تھے۔ لیکن اپنی وضع قطع میں نہ تو اینگلو تھے اور نہ محمڈن بلکہ سیدھے سادے مسلمان! وہ اصلاح معاشرت کی ضرورت سے باخبر تھے، لیکن سائنس اور معقولات کی رفتار سے کچھ بے نیاز سے تھے۔ ان کے لئے حصول آزادی، تکمیل اخلاق کا ایک ذریعہ تھا، نہ کہ چشم کشائی ذہن آدم کی ایک تمہید۔ وہ ہر عہدمیں معاون تحریک حریت رہے اور اس تحریک کی کڑی سے کڑی منزلوں میں وہ جس ریاضت نفس سے گزرے ہیں وہ کسی بھی مجاہد وطن کے لئے باعث رشک ہے۔ لیکن ایک چیز جو ذہن کی آزادی ہوتی ہے، جس کی ابتدا خود اپنے ہی عقائد پر شک و شبہ کی نظر ڈالنے سے پیدا ہوتی ہے، اس کے آثار حسرت کے یہاں نہیں ملتے ہیں،

    جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

    پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

    غالب

    اس قسم کا استفہامیہ نشان حسرت کی ذہنی زندگی میں نہیں رہا ہے، اس استعداد سے ان کی زندگی اوران کی شاعری دونوں ہی کم مستفیض ہے۔ اسی تجزیے نے مجھے یہ کہنے پر مجبور کیا ہے کہ حسرت ایک جذباتی آدمی تھے۔ شاعر کے لئے جذباتی ہونا فطری ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کی وہ جذباتیت شائستہ فکر نہ ہو۔ حسرت کی شاعرانہ شخصیت میں مجھے اسی شائستگی فکر کی کچھ کمی سی نظر آتی ہے اور جس حد تک کہ وہ ایک سادہ لوح انسان تھے، ان میں اثرپذیری کا جذبہ بھی قوی تھا۔ حسرت اگر سارے شعرائے اردو کے دوادین کا بالاستعیاب مطالعہ نہ بھی کرتے تو بھی وہ اتنے ہی اثرپذیر رہتے جتنے کہ وہ تھے۔

    غالب و مصحفی و میر و نسیم و مومن

    طبع حسرت نے اٹھایا ہے ہر استاد سے فیض

    وہ تو کہیے کہ اس مصرعے میں صرف اتنے ہی ناموں کی گنجائش تھی ورنہ حسرت نے تو اس سلسلہ میں اور بھی بہت سے نام گنوائے ہیں جن میں قائم، جرأت اور تسلیم خاص طور سے قابل ذکر ہیں اور ان بزرگوں کا یہ ذکر کچھ بر بنائے عقیدت ہی نہیں ہے، حسرت نے ان میں سے ہر ایک کے رنگ میں اشعار بھی کہے ہیں۔ کہیں میر کا سوز اور کیا عجب جو میرا اشارہ میر سوزکی طرف بھی ہو، مصحفی کا احساس رنگ وبو، مومن کی معاملہ بندیاں، نسیم کی سخن نوازیاں ہیں تو کہیں طرفہ بہ شوخی انشاء، رنگ جرأت سے بھی چھیڑ چھاڑ ہے۔

    کہاں میر اور کہاں جرأت، ایک سب آگ ایک سب پانی، جرأت بقول میر اپنی چوما چاٹی لکھ لیا کرتے۔ اب حسرت کا قاری ان کے اس تفاوت مذاق کی راہ میں مارا نہ جائے تو اس کا کیا انجام ہو اور کیا عجب جو حسرت کے ایک آدھ نکتہ چیں ان کی اسی شوخی ہی کے کشتہ ہوں۔ لیکن وہ جوشاعری کی پرکھ کا مذاق رکھتے ہیں، انہوں نے حسرت کو بار بار پایا بھی اور دکھلایا بھی ہے، حسرت ترے کلام میں مومن کا رنگ ہے۔

    طرز مومن میں مرحبا حسرت

    تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں

    لیکن طرز مومن باوجود اپنی رنگینیوں کے مشکل پسندی کا بھی ایک طرز ہے۔ طبع حسرت کے لئے اس بارگراں کا اٹھانا مشکل تھا۔ اس لئے انہوں نے مومن کی صرف رنگ نگاریاں لیں اور اسے بنیادی رنگ قرار دے کر اس میں کچھ جرأت کی شوخی ملائی تو کچھ مصحفی کے احساس رنگ وبو کی ہوائیاں چھڑکیں۔ پھر بھی یہ نوشابہ طبع حسرت کو اس وقت تک گوارا نہ ہوا جب تک کہ شیرینی نسیم اور اثر آفرینی میر کی اس میں چاشنی پیدانہ کی گئی، یہ ہے حسرت کے کلام کا روایتی پس منظر جس کی گواہی خود ان کے اشعار دیں گے۔ مشتے از خروارے۔

    توڑ کر عہد کرم ناآشنا ہو جائیے

    بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

    حسن بے پروا کو خود بین و خود آرا کر دیا

    کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا

    روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام

    دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

    اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بخود

    رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

    اے شوق کی بے باکی کیا تری خواہش تھی

    جس پر انہیں غصہ ہے انکار بھی حیرت بھی

    برق کو ابر کے دامن میں چھپا رکھا ہے

    ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے

    نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

    مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

    وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں

    میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

    لیکن کیا اس انتخابیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ حسرت کی شاعری تقلیدی تھی، لیکن اگرحسرت کی شاعری تقلیدی تھی تو وہ پھر حسرت کی شاعری کیونکر ہوئی کیونکہ حسرت کے کلام میں سچائی ہی سب کچھ ہے، وہ بھلا تقلیدی کیوں کر ہو سکتی ہے۔ یہیں سے ان کی شاعری کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے۔ حسرت کی شاعری دل حسرت کی کہانی تھی۔ ہر بیت میں ان کے اپنے عشق کی سرگزشت ہے، جسے انہوں نے اخلاقی احتساب کی زدمیں پروان چڑھایا اور اس رسم عاشقی کو ازسرنو توقیر بخشی جو سربازار رسوا ہو چکی تھی۔ حسرت کا یہ عمل باغیانہ تھا۔ انہوں نے اپنے اس عمل سے طبقہ اشراف کی ریاکاری اور فقہا کی فطرت انسانی سے بے خبری کا پردہ چاک کیا۔ ان کے باغیانہ سیاسی جذبے اور ان کی عشقیہ غزل گوئی کے درمیان یہی وہ ربط پنہاں تھا جس کی مناسبت پر خود حسرت کو بھی حیرت تھی اوریہ اسی شعور ذات کے باعث تھا کہ حسرت نے تصوف کو اپنے اظہار عشق کا پردہ نہ بنایا، ورنہ تصوف سے ان کا لگاؤ کچھ کم نہ تھا۔

    حسرت کے اس عشق میں وہ لطافتیں اور وہ مجبوریاں تو نہیں ہیں، جو دور حاضر کے کلچر سے منسوب ہیں۔ لیکن اس میں تازگی اور شگفتگی ضرور ہے۔ اس سے ہمارے عشق کا وہ سیٹھاپن دور ہو گیا ہے جو شکوہ شکایت، گلہ رقیب اور آہ وفغاں میں تھا۔ اس میں حسرت کی شخصیت کی خودداری، خود اعتمادی اور شان استغنا سبھی کچھ ہے۔ اس کالب و لہجہ نشاطیہ ہے، مگر جس حد تک کہ وہ دل حسرت کی کہانی ہے وہ حسرت خیز بھی ہے۔

    تیری محفل سے ہم آئے مگر با حال زار آئے

    تماشا کامیاب آیا تمنا بے قرار آئی

    حسرت کے کلام میں وہ جو ایک تھوڑی سی لذت تاثیر ہے وہ ان کی انہی حسرتوں کے اظہار سے پیدا ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حسرت کے کلام میں یہ جدتیں کہاں سے آئیں۔ کیا یہ سب ان کی اپنی جودت طبع کا نتیجہ تھیں یا یہ کہ اس میں کچھ تقاضائے وقت کو بھی دخل تھا۔ حسرت کے نقادوں نے تقاضائے وقت کے عنصر کو عام طور سے انداز کیا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ کچھ اس طرف بھی رجوع کیا جائے۔

    حسرت سرسید احمد خاں کی سیاست کے مخالف تھے، نہ کہ ان کی ادبی تحریک کے، جو نیچرلزم کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ صحیح ہے کہ حسرت نے مسلسل گوئی کے اصناف سخن کو ہاتھ نہیں لگایا اور غزل ہی کے رسیا رہے۔ لیکن وہ شاعری میں نیچرلزم کے حامی تھے۔ حسرت شاعری کو ایک قسم کی مصوری سے تعبیر کرتے ہیں جس کا حسن اصل سے قریب تر ہونے میں ہے۔ اس سلسلے میں حسرت کے ’’نکات سخن‘‘ سے ایک اقتباس سنئے۔ اس سے ان کی شاعری کی ماہیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

    ’’ارباب نظر نے شاعر ی اور مصوری کو ایک ہی قبیل سے قرار دیا ہے۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ جس طرح کامیاب مصوری کے لئے لازم ہے کہ جس چیز کی نقل اتاری جائے وہی ہو بہو تصویر میں نظر آئے۔ اسی طرح حقیقی (نیچرل) شاعری کے لئے بھی اس با ت کی ضرورت ہے کہ واقعات محبت کے بیان میں تصنع سے کام نہ لیا گیا ہو اور جذبات کی صحیح ترجمانی کی گئی ہو، عام اس سے کہ وہ جذبات علوی ہی یا سفلی۔‘‘

    اور حسرت نے اپنے اس خیال کی وضاحت کہ ’’شاعری جذبات کی صحیح ترجمانی ہے۔ عام اس سے کہ وہ جذبات علوی ہوں یا سفلی‘‘ مختلف جگہوں اور موقعوں پر کی ہے۔ ۱۹۴۵ء میں جبکہ حیدرآباد میں اردو کانفرنس منعقدہوئی تو راقم الحروف بھی اس موقع پر موجود تھا۔ وہیں میں نے حسرت کو تقریر کرتے ہوئے سنا۔ جب ایک قرارداد ترقی پسند ادیبوں کی طرف سے عریانی کی محالفت میں پیش کی گئی تو مولانا حسرت نے اس کی شدید مخالفت کی اور اپنی اس منطق کو استعمال کیا جس کا اظہار انہوں نے اپنے ایک غیر مطبوعہ مضمون میں بھی کیا ہے۔ اس مضمون کا حوالہ پرنسپل عبدالشکور کانپوری نے انتخاب حسرت کے دیباچے میں دیا ہے۔ اس سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو،

    ’’فاسقانہ شاعری کو بدمذاقی پر محمول کرنا سوقیانہ و مبتذل قرار دینا انصاف کا خون کرنا ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ جب شاعری کا مقصد جذبات کی صحیح مصوری مسلم ہو تو پھر اس کے دائرے کوصرف پاک جذبہ عشق و محبت تک محدود کر دینے اور عامہ خلائق کے ۹۹ فیصدی جذبات ہوس کو اس سے خارج کر دینے کی کوشش اور وہ بھی محض اس بنیاد پر کہ ان کا اظہار واعلان بعض فقیہانہ و ملایا نہ طبائع کی مصنوعی پاکیزگی خیال کے لئے ناگوار ثابت ہوگا، خود مخالفین ہوس نگاری کی انتہائی بدمذاقی اور بےشعوری کے سوا اور کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا۔ البتہ اس ضمن میں حد اعتدال سے گزر جانا جیسا کہ رنگین کی بعض ریختیوں اور صاحب قران و جان صاحب کے مبتذل اشعار میں پایا جاتا ہے، بے شک قابل اعتراض ہے مگر ایسے کلام کو فاسقانہ کے بجائے فاحشانہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔‘‘

    آپ نے ان جملوں میں بین السطوریہ بھی محسوس کیا ہوگا کہ مولانا نے ہمارے شعرا کرام کے تصنع اور ملایانہ طبائع کی مصنوعی پاکیزگی خیال دونوں ہی کی مخالفت کی ہے اور جس چیز پر زور دیا ہے وہ جذبات کی سچائی ہے اور اس کی سچی مصوری ہے اور چونکہ وہ جذبات کو آدمی کے لئے نیچرل سمجھتے ہیں۔ ۹۹ فیصدی سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے اور اگر ایک فیصدی میں کوئی فرشتہ نکلا بھی تو وہ آدمی کا ہے کو رہا، اس لئے وہ ’’جذبات ہوس‘‘ کو عشقیہ شاعری سے خارج کر دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کے اس بیان سے ان کا ایک معیار، سوقیانہ اور مبتذل کلام کے پرکھنے کا بھی ہمارے سامنے آیا ہے۔

    حسرت کا یہ خیال ہے کہ کلام مبتذل، جذبات ہوس کے اظہار سے نہیں بلکہ اپنے طریق بیان سے ہوتا ہے اور اس طریق بیان کو انہوں نے تصنع کا نام دیا ہے۔ میں نے جو یہ نتیجہ نکالا ہے اس کی دلیل ان کے ایک مضمون میں موجود ہے۔ وہ ’’مکاتیب امیر‘‘ کے ریویو میں ثاقب کے اس خیال کی تردید کرتے ہیں کہ داغ کی شاعری سوقیانہ اور مبتذل بہ اعتبار موضوع ہے اور اپنی یہ رائے دیتے ہیں کہ وہ سوقیانہ اور مبتذل تصنع کے عیب سے ملوث ہونے کے باعث ہو گئی ہے نہ کہ جذبات ہوس کے اظہار کے باعث۔ مولانا کا جملہ یہ ہے،

    ’’جذبات روحانی تو درکنار، ہم یہ کہتے ہیں کہ داغ نے خواہشات نفسانی کی بھی صحیح تصویر بہت کم کھینچی ہے۔ جرأت اور انشا کے یہاں اس قسم کے خیالات میں چونکہ صداقت کا رنگ موجود ہوتا ہے، اس لئے ان کی غیر متین اور غیرمہذب شاعری بھی حسن سے خالی نہیں کیونکہ حسن و صداقت کا لازم و ملزوم ہونا ضروری ہے (حسرت کا یہ جملہ بڑا اہم ہے) برخلاف اس کے داغ کی معاملہ بندیوں اور عیاشانہ چوچلوں کو تصنع کا عیب اس قدر مبتذل اور بدنما کر دیتا ہے کہ مذاق صحیح ان سے کسی طرح لذت یاب نہیں ہو سکتا۔‘‘

    یہاں یہ چیز بالکل ہی واضح ہو جاتی ہے کہ حسرت بہ نسبت مولانا حالی کے نیچرل شاعری کے مفہوم کو بہتر طریقے سے سمجھتے تھے۔ حالی نیچرل پر اخلاقیات کی قدغن لگاتے ہوئے حسرت اسے رد کرتے ہیں۔ اس زمانے میں مذاق شاعری کا تقاضا بھی یہی تھا کہ کلام کو تصنع اور تکلف، مبالغہ اور جھوٹ آور داور آخور سے پاک کیا جائے اور اس کا اثر حسرت کے ہم عصر شعرا کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے۔ خواہ وہ نظم گوئی کی طرف راغب رہے ہوں یا غزل گوئی کی طرف۔

    سادگی یعنی غیرمصنوعیت اور سچائی یہی دو چیزیں روح عصر بن کر ان کے سامنے آئیں۔ صفی، محشر، عزیز، وحشت، شاد عظیم آبادی ان سب کے یہاں وہ روح عصر موجود ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ لکھنؤ کے بعض بعض شعرا کلام میں تاثیر پیدا کرنے کی فکر میں گر یہ وزاری پر اتر آئے۔ غالباً مرثیہ گوئی کے زیر اثر ایسا ہوا۔ اس گروہ کے شعرا کے درمیان حسرت کی آوازجو اس قدر منفرد اور دل آویز معلوم ہوئی تو اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے طرز لکھنؤ میں کہنے کے بجائے زبان لکھنؤ میں رنگ دہلی کی اثر آفرینی کو ابھارا اور اپنے اظہار عشق میں نیچرل ہوتے ہوئے گر یہ وزاری کے بجائے معاملات عشق کی سچی مصوری کو اپنے شعری وجدان کا مسکن ٹھہرایا۔ حسرت کی یہی وہ لے تھی جس نے سب کو ان کی طرف متوجہ کر دیا اور صفی کی یہ آرزوپوری ہونے کوآئی۔

    غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا

    ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا

    لیکن حسرت کی اس غزل میں وہ کسک، وہ نشاط الم، وہ لذت خوا ب اور وہ فضائے نغمہ نہیں کہ اس کو چھیڑتے ہی تارِرگ حیات جاگ پڑے۔ اس میں نہ تو خوننابی چشم کی وہ شمع افروزی ہے کہ تیرہ و تار لمحوں میں اس سے غمگساری ہوسکے اور نہ نگارش جمال کے وہ سامان آرائش ہیں کہ ہوش و حواس کو لذت فردوس میسر ہو اور نہ اس میں وہ کیف نغمہ ہے کہ اس کا حرف حرف صدائے چنگ و صوت ہو۔ اس میں سامان تخیل بھی کم ہے۔ نہ غرفہ کوئی سیر کون و مکاں کا، نہ اشارہ کوئی خرد افروزئی چمن کانہ کوئی حرف خواب کا۔ حسرت کا یہ عشق بڑا معصوم سا، نوخیز جوانی کا ہے۔ اس میں نہ تو زیادہ گہرائی ہے اور نہ زیادہ وسعت، لیکن یہ بڑا رنگین اور بامزا ہے اور جہاں اس میں عمر رفتہ کی کچھ یادیں ہیں وہاں یہ اثر بھی ہے،

    یاد کر وہ دن کہ تیرا کوئی سودائی نہ تھا

    باوجود حسن تو آگاہ رعنائی نہ تھا

    عشق روز افزوں پہ اپنے مجھ کو حیرانی نہ تھی

    جلوہ رنگیں پہ تجھ کو ناز یکتائی نہ تھا

    دید کے قابل تھی میرے عشق کی بھی سادگی

    جب کہ تیرا حسن سرگرم خود آرائی نہ تھا

    کیا ہوئے وہ دن کہ محو آرزو تھے حسن و عشق

    ربط تھا دونوں میں گو ربط شناسائی نہ تھا

    لیکن بات کچھ یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ حسرت کی مقبولیت میں ان کے اس اجتہاد سخن کو بھی دخل ہے جو انہوں نے ڈکشن کے میدان میں کیا۔ شعرائے متاخرین کے ہاتھوں غزل کی زبان رعایت لفظی کی دھن میں اس قدر غیرشاعرانہ ہو چکی تھی کہ مستعار منہ کی کوئی نسبت مستعارلہ سے باقی ہی نہیں رہ گئی تھی۔ دشنہ و خنجر ناز و ادا کے استعارے نہ رہے، بلکہ آلات قتل کے لغوی یا حقیقی معنوں میں تبدیل ہو گئے۔ حسرت نے اس رجحان کی شدت سے مخالفت کی اور شاعری کی زبان میں شعریت کا احساس ازسرنو پیدا کیا۔ ہرچند کہ اس میں حسرت تنہا نہ تھے اس میں جلال، صفی اور چند دوسرے شعرا کی کوششوں کو بھی دخل تھا۔ بہرحال حسرت ان لوگوں میں سے نہ تھے جو زبان کی سادگی کو جذبات کی سادگی کا بدل سمجھتے تھے۔ حسرت کی زبان سلیس ہے مگر شاعرانہ، نہ کہ سادگی کے پردے میں نثری اور غیرشاعرانہ۔ وہ شعری زبان کے معاملے میں روز مرہ اور محاورے کے ارادی استعمال کے قائل نہ تھے۔ انہوں نے عام فہم زبان کو اپنے تخیل کی محسوساتی فضا سے رنگین بنایا ہے اس رنگینی تخیل کو وہ شاعری کے لئے لازم تصور کرتے تھے۔

    حسرت نہ تو اس مصنوعی سادگی کے قائل تھے جو آرزو کی غزلوں میں ہے اور نہ اصلاح پسند واعظ حالی کی اس سادگی زبان کے جہاں ان کی سادگی رنگینی تخیل سے عاری ہے۔ حسرت کا یہ کلام سادہ و رنگین ہے نہ کہ سادہ و بے رنگ۔ چونکہ دور حاضر کا عام مذاق شاعری اسی ڈکشن کے اپنانے اور سچائی پر زور دینے کا تھا، اس لئے حسرت کی غزلیں بہت مقبول ہوئیں لیکن حسرت کی یہ شاعری ہر پہلو سے مائنر (MINOR) یا چھوٹی ہے گو کم رتبہ یا کم سودا نہیں ہے۔ حسرت نہ تو کوئی بڑے فن کار تھے اور نہ کوئی بڑے عاشق، عشق کی آگ ان کے آب و گل میں بڑی تھوڑی سی تھی، جو دو ایک ہی موسم گل میں مشتعل ہوکر بجھ گئی۔ حسرت نے جتنی اچھی غزلیں کہیں ہیں وہ سب کی سب ۱۹۲۰ء کے پہلے کی ہیں اور اس زمانے کی غزلوں میں بھی، شورش عشق یا جنون کی باتیں کم کم زیادہ ترحسن و نظر ہی کی باتیں ہیں۔

    شورش عاشقی کہاں اور مری سادگی کہاں

    حسن کو تیرے کیا کہوں اپنی نظر کو کیا کروں

    اور جہاں کہیں کچھ عشق کی باتیں ہیں تو وہ اکثر و بیشتر نری جذباتی قسم کی ہیں جو ان کی نوخیز جوانی کی جذباتیت کی غماز ہیں۔

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

    لیکن حسرت کی زندگی کا سرمایہ کچھ ان کی غزلوں ہی کا مجموعہ نہیں ہے، حسرت کی دوسری کتاب ان کی کتاب زندگی بھی اہم ہے، کیونکہ اس کا ایک رشتہ، اگر کسی اور صورت میں نہیں تو سچائی اور خلوص کی صورت میں تو ان کی شاعری سے یقینا ًہے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ان دونوں میں یعنی ان کی شاعری اور ان کی سیاسی جدوجہد اور حق گوئی میں کوئی مطابقت نہیں ہے، وہ اسے بھلا دیتے ہیں کہ حسرت کی نظرمیں حق وہی ہے جو عین فطرت ہے۔ عشق و محبت کی باتیں کب اس حق سے یا فطرت سے خارج میں ہیں۔ حسرت کا دوسرا نام سچائی اور خلوص تھا۔

    مأخذ:

    ادب اور شعور (Pg. 203)

    • مصنف: ممتاز حسین
      • ناشر: ادارۂ نقد ادب، کراچی
      • سن اشاعت: 1992

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے