Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم کس کے لیے لکھتے ہیں

مجتبی حسین

ہم کس کے لیے لکھتے ہیں

مجتبی حسین

MORE BYمجتبی حسین

    سیدھا سا سوال ہے۔۔۔ ’’ہم کس کے لیے لکھتے ہیں؟‘‘

    میرؔ و غالبؔ سے اگر یہ سوال کیا جاتا تو ممکن ہے وہ کوئی واضح اور تسلی بخش جواب نہ دے سکتے۔ حالانکہ غزلوں کو محفوظ رکھنا۔ دیوان مرتب کرنا، ان پر تقریظیں لکھوانا۔ دوسروں کی رائے طلب کرنا، مشاعروں میں شریک ہونا، اپنے زمانے کی ادبی بحثوں میں شدومد سے حصہ لینا، شعراء کے تذکرے لکھنا۔ اپنے کلام کو ’’گنجینہ معنی کا طلسم‘‘ اور ’’نوائے سروش‘‘ سے تعبیر کرنا۔ زمانے کی ناقدری کی شکایت زبان پر لانا،

    نوائے کہ محوِ سخن گستران پیشینی

    مباش منکرِ غالب کر در زمانۂ تست

    اور میرؔ صاحب کا یہ فرمانا کہ، مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ اور معتقد کون نہیں میر کی استادی کا‘‘ اور ’’شاید کہ تم کو میر سے صحبت نہیں رہی۔‘‘ اتنی سنجیدگی اور اتنی کاوش سے تمام عمر اپنے فن میں محورہنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ لوگ بھی دوسروں کی پسند اور ناپسند کی طرف سے بے پروا نہیں تھے۔ ان کے کلام کی مخاطب صرف ان کی ذات نہیں تھی بلکہ اور بہت سے لوگ تھے جن کے درمیان وہ اٹھتے بیٹھتے، ہنستے بولتے تھے۔ اگرچہ ان کے مخاطبین اور قارئین کا حصہ اس زمانے میں نسبتاً مفقود تھا۔ آج جب کہ سماجی شعور اور ہمارے تہذیبی سرمایہ کی وسعت جغرافیائی حدود کو بھی توڑ چکی ہے اور ہم نہ صرف اپنے ملک کی مختلف زبانوں کے ادیبوں کی تحریروں سے واقف ہیں۔ بلکہ غیرملکی زبانوں کا ادب بھی ہم سمجھنے اور قبول کرنے پر تیار ہیں۔ مندرجہ بالا سوالوں کاجواب ہمیں صاف لفظوں میں پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ دینا ہوگا۔!

    ظاہر سی بات ہے کہ اس سوال کا جواب جتنے منہ اتنی باتیں نہیں ہوسکتا۔ اس کے محض دو ہی جواب ہوسکتے ہیں۔

    پہلا یہ کہ۔۔۔ ’’ہم اپنے لیے لکھتے ہیں۔‘‘ اس اعتراف میں ایک طرح کی ایمانداری اور جرأت نظر آتی ہے حالانکہ یہ بدتوفیقی اور بے غیرتی کی نہایت مکروہ مثال ہے۔ بہرحال یہ تسلیم کرلینے کے بعد کہ ’’ہم اپنے لیے لکھتے ہیں‘‘ ان ادیبوں سے صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ بہت اچھا آپ اپنے لیے لکھے، مگر خدا کے واسطے، ہم لوگوں۔ ہم انسانوں سے تمام رشتے منقطع کردیجیے۔ مشاعروں اور جلسوں کی شرکت، ریڈیو اور فلموں کے ذریعہ کسبِ معاش اور اظہارِ فن، رسالوں، اخباروں اور پریس کے ذریعہ اپنے افکار کی اشاعت۔ کتابوں کو چھپوانا اور ان کے پیسے وصول کرنا ادب کے قوانین اور آئین وضع کرنا۔ کسی مخصوص نظریے کی حمایت یا تردید کرنا۔ ادبی معیار کاتعین کرنا اور اس کی تبلیغ میں ایڑی چوٹی کا زور لگانا ترک کر دیجیے اور بحیثیت مجموعی ان تمام سماجی روابط سے دستبردار ہو جائیے جو بے واسطہ یا بالواسطہ آپ کی ادبی شخصیت کو ایک سماجی شخصیت میں بدل دیتے ہیں۔ یہ مطالبہ ان ادیبوں سے سختی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے اور ہم اس امر میں اسی طرح حق بجانب ہوں گے جس طرح یہ ادیب اس امر میں یہ حق بجانب کہے جاسکتے ہیں کہ وہ اپنے لیے لکھتے ہیں۔

    سوال کا دوسرا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ’’ہم اپنے لیے بھی لکھتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی۔‘‘

    جب ہم اپنے لیے لکھتے ہیں تو دوسروں کے لیے بھی لکھتے ہیں اور جب دوسروں کے لیے لکھتے ہیں تو اپنے لیے بھی۔ ہمارے ادب میں اور قاری میں وہی رشتہ ہے جو فرد اور جماعت میں ہوتا ہے۔ اس جواب کے بعد ادیب ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اب اسے طے کرنا پڑے گا کہ اس کی مخاطب کون سی جماعت ہے؟ وہ کن لوگوں کے لیے لکھتا ہے آیا ان چند سرمایہ داروں کے لیے جو ساری دنیا پر مسلط ہیں جن کے قبضے میں تیل کے چشمے، سونے کے ذخائر، بیماری کے مہلک جراثیم اور جنگی دھمکیوں کے ایٹم بم ہیں یا ان لوگوں کے لیے جن کے بدن میں سینگیں اس آسانی سے پیوست کردی جاتی ہیں، گویا پرتکلف دعوت کی میز پر کانٹا چھری سے بھنے ہوئے گوشت کا کوئی ٹکڑا اٹھالیا گیا ہو۔ جن کے سینوں میں گولیاں بال روم کی اونچی ایڑیوں کی طرح رقص کرنے لگتی ہیں اور جو فالتو غلے کی طرح جیل کے گوداموں میں سڑنے کے لیے بھردیے جاتے ہیں۔

    ہم کس کے لیے لکھ رہے ہیں، مفاد پرستوں اور استحصال پسندوں کی محدود جماعت کے لیے۔ یا ان تمام انسانوں کے لیے جو آج ساری دنیا میں امن اور مساوات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس جدوجہد میں انسان ہمیشہ فتح یاب رہا۔ تاریخ کا کوئی باب ایسا نہیں ہے جو اس کی شکست کو ظاہر کرتاہو۔ آج یہ جدوجہد اس منزل پر پہنچ چکی ہے جہاں سرمایہ کی موت لازمی ہے۔ اگر ہم سرمایہ دار طبقے کے ثنا خواں اور ترجمان ہیں تو ہمارے ادب کی موت بھی لازمی ہے۔ لیکن اگر ہم انسانوں کے لیے لکھتے ہیں، اس محنت کش طبقے کے لیے لکھتے ہیں جو کائنات کے اس سرے سے اس سرے تک سکون اور آسائش کی خاطر علم و فن، تہذیب و تمدن کی حفاظت کی خاطر وحشت اور بربریت سے برسرپیکار ہے تو ادب، ادیب اور سماج کے ساتھ تعلقات بہت واضح ہوکر ہمارے سامنے آجائیں گے۔

    وہ ادیب جو عوام کے لیے لکھتا ہے اس کا ادب بھی عوامی ہوگا۔ اس منزل پر پہنچ کر ادب کی بڑی بڑی مرعوب کن بحثیں۔ ادبی اقدار کی جمالیاتی اور فلسفیانہ تاویلیں، فن کے مطالبات کی وجدانی تعبیریں۔ یہ سب بے معنی۔ فضول اور مضحک ہوجاتی ہیں۔ بات بہت صاف ہے، ادیب کو عوام کے لیے لکھنا ہے۔ اس کے بعد فن ہیئت، اسلوب اور موضوعات کاتعین خودبخود ہوجاتا ہے۔ اور وہ تمام اصطلاحات۔ دادا ازم۔۔ فیوچرازم۔ فارملزم، کیوبزم اور ان تمام بڑے بڑے خطوط کی کوئی گنجائش ادب میں باقی نہیں رہ جاتی جن کا سہارا لے کر بعض لکھنے والے اپنی ’’سطحیت‘‘ کو چھپانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ادب کا محور اور مرکز عوام ہیں۔ ان کی زندگی ان کے مطالبات، ان کی جدوجہد کی ترجمانی ہمیں ایسی زبان میں کرنا ہے جو زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک پہنچ سکے۔ لیکن یہ بات جتنی صاف ہے اتنی آسان نہیں۔ ادیب اگر چاہے تو عوام کی زندگی اور ان کے مطالبات آسانی سے پیش کرسکتا ہے۔ مگر یہ زبان والی شرط جو زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک پہنچ سکے ذرامشکل سے حلق سے نیچے اترتی ہے اور وہ درمیانہ طبقہ جوہم میں چوروں کی طرح دبکا بیٹھا ہے۔ بول اٹھتا ہے۔ ’’واہ! یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ زبان نہیں خراب کی جاسکتی۔ جہاں تک عوامی مطالبات کاتعلق ہے ہم ساتھ ہیں۔ مگر عوامی زبان۔ یہ باجو وہ باجو والی ہمارے بس کی بات نہیں، اور نہ یہ ادب کی کوئی مفید خدمت ہے نہ عوام کی۔ ہمارے عوام اگر اتنے تعلیم یافتہ نہیں ہیں تو ہمیں چاہیے کہ انہیں تعلیم دیں، ان کو ادبی معیار تک پہنچائیں۔ عوام تو ’’مست قلندر‘‘ اور ’’بیسویں صدی‘‘ پڑھتے ہیں۔ ہم مست قلندر اور بیسویں صدی نہیں لکھ سکتے۔ ہمارے ادب کا ایک معیار ہے، ایک فضا ہے، اس کا قائم رکھنا ضروری ہے ورنہ ادب ادب نہ رہے گا۔ بھان متی کا پٹارہ ہوجائے گا۔‘‘

    یہ درمیانی طبقے کی آواز ہے جو ادب کو انسانی مطالبوں کے مقابلے میں زیادہ عزیز رکھتا ہے اور اسی سے اس کا کھوکھلاپن ظاہر ہے۔ یہ ادبی عظمتوں کا بری طرح قائل ہے۔ یہ طبقہ ایک طرف تو ادب کو افکارِ عالیہ اور آفاقی مطالبات سے جلا دینا چاہتا ہے تو دوسری طرف حصولِ معاش کی خاطر ادب کو ان پڑھ اور بددماغ ناشروں کے ہاتھ خوشامد کرکرکے بیچ ڈالتا ہے۔ اس کی زندگی میں کسی قسم کی آہنگ اور ربط کا دور دور پتہ نہیں چلتا۔ اس طبقے کا ادیب جب عوام کی زبان کی تحقیر اور تذلیل پر اتر آتا ہے تو وہ یہ بنیادی مسئلہ بھول جاتا ہے کہ ادبی زبان اس زبان کا نام ہے جو صدیوں کے مسلسل استعمال اور عوامی رد و قبول کے بعد ایک واضح خدوخال اختیار کرلیتی ہے اور جس کا معیار چند ادیب اور شاعر نہیں ہیں بلکہ عوام ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس زبان سے وہ خود محروم کردیے جائیں اور ہم آپ اسے اپنی جاگیر سمجھ لیں۔

    عوام ’’مست قلندر‘‘ اور ’’حسن پرست‘‘ اس لیے پڑھتے ہیں کہ مفاد پرستوں نے ان پر تعلیم کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر رکھا تھا۔ وہ عوام کی بیداری سے گھبراتے رہے۔ مگر یہ بات کل کی ہے۔ آج ان کی بہت بڑی تعداد، اتنی بڑی کہ جس کے مقابلے میں ہمارے متوسط طبقے کا ادیب اور متوسط طبقے کے پڑھنے لکھنے والے دال میں نمک کے برابر ہوں گے۔ کتابوں رسالوں ادب اور ادیبوں کے بارے میں اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ جنگی مسائل، مختلف مورچوں اور محاذ کے قیام کے بارے میں اتنی صاف اور صحیح رائے دیتے ہیں کہ تاریخ کے گزشتہ صفحات مشکل سے کسی کمانڈر کسی سردار کا نام پیش کرسکتے ہیں۔ مشینوں کو حرکت دینا۔ ان کے کل پرزوں کو ایک ماہر صناع کی طرح سمجھنا یہ درمیانی طبقے کے بس سے باہر ہے۔

    سیاست کا شعور اور منزل کا تعین عوام ہی کے ہاتھ میں ہے۔ درمیانی طبقہ زیادہ سے زیادہ ان کی رہنمائی میں چل سکتا ہے۔ اسی سماجی اور سیاسی شعور کا نام آج ادب ہے اور اگر اسے حاصل کرنا ہے تو ادیب کو عوام سے وابستہ ہونا پڑے گا۔ لیکن درمیانی طبقے کی ادبی جماعت سے قطع نظر ادبی معیار کاسوال پھر بھی اپنی جگہ وضاحت طلب اور اہم ہے۔ اس لیے کہ عوامی ادب کا بھی بہرصورت ایک معیار ہوگا۔ اس کے کچھ اصول اور آئین ہوں گے۔ اس کا مرتبہ گزشتہ ادب کے مقابلے میں اعلیٰ ہے یا ادنیٰ، یہ پرکھنا ہوگا۔ اس کی کوئی نہ کوئی ادبی شکل ضرور ہوگی۔ یہ نہیں کہ ایک ادبی کتاب جغرافیہ کی کتاب معلوم ہونے لگے۔ ادب کی تراش خراش ادبی ہوگی۔ شیروانی سے پتلون کا کام نہیں لیا جاسکتا۔ ادب کی قطع و برید بھی ادبی معیار کی حامل ہوگی۔

    یہ معیار کیا ہوگا۔ یہ دوسراسوال ہے۔

    فی الحال یہ تسلیم کرلینا ہے کہ ایسے ادب کا بھی جو عوام سے وابستہ ہے ایک معیار ہونا چاہیے۔ آج جو ادب ہوگا اس کا بھی اپنا معیار ہوگا۔ یہاں ہمیں دو موقع پرست نظریوں سے سابقہ پڑتا ہے۔

    پہلا نظریہ تو یہ ہے کہ عوام کو متوسط طبقے کا ادب بے چوں و چرا قبول کرلینا چاہیے۔ اس لیے کہ عوام کے سامنے اس وقت ادب اور ادبی اقدار کا سوال نہیں ہے۔ بلکہ روٹی کا ہے وہ اس وقت کسی اور طرف توجہ دے ہی نہیں سکتے۔ وہ اپنی اس مہم میں اتنا مصروف ہیں کہ بڑا اور پائدار ادب تعمیر ہی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا سرمایہ دار اور متوسط طبقے کے ادب کو اپنالینا چاہیے۔

    دوسرا نظریہ یہ ہے کہ ہمیں ماضی کے تمام ادبی سرمایہ کو ردکردینا چاہیے اور ’’خالص عوامی ادب‘‘ کو پیش کرنا چاہیے۔ ادبی خوبیوں اور ادبی بلندیوں کی فکر کیے بغیر جو کچھ منہ میں آئے لکھتے رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ وقت بڑا کٹھن اور نازک ہے۔ ہم اپنا وقت ’’ادبی بلندیوں‘‘ کی جستجو میں ضائع نہیں کرسکتے۔

    یہ دونوں نظریے گمراہی اور تباہی کے عناصر لیے ہوئے ہیں۔ ان نظریوں نے تاریخی تسلسل اور ارتقاء کو نظرانداز کردیا ہے۔ پہلا نظریہ اگر ہم مان لیں تو اس کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ ہم تخریب چاہتے ہیں تعمیر نہیں اور نہ اس کی اہلیت ہم میں ہے۔ یہ نظر یہ عبوری دور میں، بڑے ادب کا منکر ہے اور اس طرح تاریخ کے تسلسل اور ارتقاء کابھی منکر ہے۔

    دوسرانظریہ بھی تقریباً اسی قسم کا ہے وہ بھی ماضی کے تاریخی پس منظر کو بالکل نظرانداز کردیتا ہے اور صاف صاف اگرنہیں تو بے نیازی کے انداز میں یہ ضرور کہتا ہے کہ ادبی کاوشوں کی فرصت ابھی نہیں ہے۔ یہ دونوں نظریے انسانی جدوجہد، تہذیب اور تمدن کے ارتقا ءکے منکر ہیں۔ یہ اپنی کم علمی اور نااہلی کا اعلان ہیں۔ نئی دنیا کی تعمیر کے ساتھ ساتھ نئے تعمیری خیالات نئے ادبی تجربات اور فن کی نئی بلندیاں بھی لازمی طور پر پیدا ہوتی جائیں گی۔ ماضی کے ادب کی نہ تقلید کی جاسکتی ہے نہ تردید، اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ یہ ادب اپنے دور کے طبقاتی شعور کاآئینہ دار تھا۔ اس نے ہمیں بات کرنے اور بات سمجھنے کا ڈھنگ سکھایا ہے۔ یہ ہمارے تہذیبی ارتقاء کاآئینہ دار ہے۔ اتنا سمجھ لینے کے بعد موجودہ ادب کے معیار کامسئلہ جوں کاتوں رہتا ہے۔ اور چندسوالات ہمارے سامنے آتے ہیں،

    (۱) کیا ہمارا ادبی معیار وہی ہوگا جو قدیم ادبی معیار تھا۔ اگر نہیں تو کیا ہم اپنا قد یا اپنے ادب کاقد گزشتہ ادیبوں اور ادب کے قد سے ناپ سکتے ہیں۔ تاکہ ہم اپنی بلندی یا پستی کااندازہ کرسکیں۔ یا ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟

    (۲) زبان کو یکسر عوامی کردینے سے (معیار کی پستی یا بلندی سے قطع نظر) کیا ہم اپنے اس ادبی سرمایہ سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں گے، جو صدیوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد ہم تک پہنچا ہے۔ یا اور صاف لفظوں میں لغت کے وہ تمام الفاظ خارج کردیے جائیں جو عام فہم نہیں ہیں یا جو متوسط طبقے کے ادب میں تو رائج ہیں مگر نچلا طبقہ ان سے بے بہرہ ہے۔

    (۳) کیا صرف وہی چیزیں لکھی جائیں جو عوام کی موجودہ ذہنی سطح سے ہم آہنگ ہوں۔ ان کی سمجھ سے باہر نہ ہوں۔ خواہ وہ آگے چل کر ان کے لیے مفید ہی کیوں نہ ہوں۔

    (۴) بعض تجربات اور خیالات ایسے ہیں جن کے لیے مخصوص اصطلاحوں کااستعمال ناگزیر ہے۔ فلسفہ۔ تاریخ۔ معاشیات سائنس اور دوسرے علمی شعبوں کے لیے زبان کو ادق اور پیچیدہ الفاظ اور پیرایہ بیان سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ ان موضوعات پر لکھی ہوئی چیزیں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ میں بھی بعض اوقات نہیں آتیں۔ تو کیا ان موضوعات اور ایسی زبان کو خیرباد کہہ دیاجائے۔

    (۵) خود عوام کی کم علمی کس حد تک ’ادب فہمی‘ کی راہ میں حائل ہے؟

    (۶) ادیب کس حدتک بے توفیقی اور کم مائیگی کا شکار ہے۔ اس کی پہنچ عوام تک ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کہاں تک ہے؟ موضوع کا ادراک اور سماجی شعور کس حدتک اس میں پایا جاتا ہے؟

    ان سوالات کے جواب کے بعد ہی ہم موجودہ ادبی معیار کاایک واضح تصور قائم کرسکیں گے۔

    اب پہلے سوال کو لیجیے۔ کیا ہماراادبی معیار وہی ہوگا جو قدیم ادبی معیار تھا؟ ظاہر سی بات ہے کہ اگر ہم چاہیں بھی تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہماری زندگی نئے مسائل سے دوچار ہے۔ نئے علوم اور نئے انکشافات ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ ہمارے مطالبات قدیم زمانے کے مطالبات سے مختلف ہیں۔ لہٰذا ہمارا ادب بھی نئی زندگی اور نئی اقدار کالازمی طور پر حامل ہوگا۔ اس موقع پر بعض ادب دوست حضرات بول اٹھیں گے کہ ہمارے پیش رو ادیبوں نے بہت سی ایسی چیزیں دی ہیں جو آج بھی زندہ اور کارآمد ہیں۔ ہم ان کے کلام اور افکار کو بار بار پڑھتے ہیں اور لطف لیتے ہیں۔ غالب کا دیوان اس زمانے میں جس قدر شائع ہوا اور پڑھا گیا اتنا اس سے قبل نہ پڑھا گیا نہ شائع ہوا۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ غالب ہمیں زندہ تجربات دیتا ہے۔ یہ بات غلط نہیں ہے۔ حالانکہ شعراء کے کلام کی اشاعت میں صنعتی ترقیوں اور سماجی ادراک کی وسعتوں کابڑا دخل ہے۔ میرؔ، غالبؔ اور بہت سے شعراء اور ادباء کے مضامین نظم ونثر میں زندگی کی گہرائی اور گیرائی پائی جاتی ہیں۔ لیکن ان کا وہی کلام زندہ ہے جو عوام کے احساسات کا ترجمان ہے۔ جن میں تمام لوگوں کے دلوں کی دھڑکنیں پائی جاتی ہیں۔ جو انسانی دردمندی اور فکر مندی کی دولت لیے ہوئے ہے۔ یہ کچھ عام یا مشترک انسانی جذبات ہیں جن کی ترجمانی سے ہم ہر دور میں متاثر ہوتے رہیں گے۔ ممکن ہے اس سے بعض لوگوں کے ذہن میں ازلی اور ابدی اقدار کا تصور پیدا ہوجائے اور وہ اس پراصرار بھی کریں کہ ازلی اور ابدی اقدار کاوجود ہے مگر اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہر دور میں عوام نے استحصال اور ظلم کے خلاف جدوجہد کی ہے اور اس جدوجہد نے ہر زمانے کے سماجی شعور کے مطابق ایسی فضا، ایسا ماحول دیا ہے جس میں حزینہ، نشاطیہ یا طنزیہ ادب پیدا ہوتا رہا ہے۔ یہ ماحول ہر بڑے شاعر یا ادیب کے افکارکونہ صرف اپنے زمانے کانمائندہ بتاتا ہے بلکہ آنے والا دور بھی ان کے افکار کے آئینے میں اپنے دیرینہ خدوخال کو دیکھتا ہے اور اپنے چہرے پر نئی آب و تاب پیدا کرتا ہے۔ جس طرح عوام غیرفانی ہیں، ازلی اور ابدی ہیں۔ اسی طرح وہ ادب بھی غیرفانی ہے جوان کا ترجمان ہے۔ انسان نے ہر دور میں محنت اور جستجو سے زندگی کے ہر شعبہ میں نئی راہیں اور نئے موڑ پیدا کیے ہیں۔ ہم انہیں راہوں سے چل کر آج نئی منزلوں تک پہنچے ہیں۔ آج ہمارے سامنے نئی منزلیں ہیں۔ لیکن اس کے یہ معنی تو نہیں ہیں کہ ہم ابتدائی سفر کے حالات سے نہ کوئی سروکار رکھتے ہیں نہ دلچسپی۔ بہت سے مفکرین اور مصنفین نے تاریخ اور معاشرت کے جو بنیادی مسائل پیش کیے ہیں ہم ان سے روگردانی نہیں کرسکتے۔ ارتقاء کے متعلق جو نظریات قائم کیے گئے ہیں اگر ہم انہیں بھول جائیں تو ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاسکتے۔ ماضی کی تحقیق اور جستجو نے ہمیں ایک ایسا آلہ دیا ہے۔ جسے ہم آئندہ مہم میں زیادہ تیزی اور صفائی کے ساتھ استعمال کرتے جائیں گے۔ سوال میرؔ و غالبؔ کے رد کرنے کا نہیں ہے۔ نہ ازلی اور ابدی اقدار کے جھٹلانے کا ہے۔ دائمی اقدار عوام کی بقا کانام ہے۔ اس ارتقا اور ارتقا کے اس شعور کانام ہے جو ہمیشہ جاری اور باقی رہے گا۔ جو نئے سانچوں میں ڈھلتا چلا جائے گااور پہلے سے زیادہ واضح اور صاف ہوتا جائے گا۔ اسی لیے ان اقدار میں جمود و تعطل نہیں ہے۔ حرکت اور تغیر ہے۔ آگ کی دریافت ایک بنیادی کارنامہ تھا۔ مگر روشنی پیدا کرنے کے ذرائع نے پتھر کے دور سے اس وقت تک کتنے مراحل طے کیے ہیں یہ اس سے بڑا کارنامہ ہے۔ یہی حال ان بنیادی اقدار کاہے جن کا نام لے کر بہت سے ناکارہ لکھنے والے زمانے کی رو کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ وہ ان کو آگے بڑھانے اور نئے ماحول میں نئے انداز سے استعمال کرنے کی جگہ ’’فرسودگی‘‘ ہی کو روحِ اقدار سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ میرؔ و غالبؔ اور دوسرے شعراء اور ادیبوں کاکلام ہم دوطرح سے دیکھتے ہیں، ایک تو تاریخی حیثیت سے ان کے کلام کی قدر و قیمت کاتعین کرتے ہیں۔ دوسرے ہم اپنے زمانے کے سماجی پس منظر میں ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ بہت سے ایسے اشعار ہیں جن کاتاثرآج بالکل نیا سماجی شعور لیے ہوئے ہے، جو گزشتہ زمانے میں نہیں تھا۔،

    لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں

    ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

    آج اس شعر کی پسندیدگی غالب کے زمانے سے بالکل مختلف ہوسکتی ہے اور اس کا پس منظر بھی مختلف ہوسکتاہے۔ جنون کے انداز آج دوسرے ہیں اور ہاتھ قلم ہونے کے اسباب بھی بدلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بہت سے عشقیہ اشعار ایسے ہیں جن سے ہم اسی حالت میں لطف اندوز ہوسکتے ہیں جب وہ ہمارے جذباتی تجربات سے ہم آہنگ ہوں ورنہ تصوف کے اشعار کی طرح وہ ہمارے لیے بے سود اور بے کیف بن جاتے ہیں۔۔۔ بہرحال اس تمام بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قدیم ادب کی بزرگی اور عظمت کو نظرانداز کیے بغیر آج ہماراادبی معیار وہی ہوگا جو نئے سماجی شعور اور ترقی کے جدید عناصر سے مل کر بنتاہے۔ بہ الفاظِ دیگر نئے ادب کا معیار بھی نیا ہوگا۔

    اب سوال کے دوسرے حصہ کو لیجیے۔۔۔ کیا ہم اپنا قد یا اپنے ادب کا قد گزشتہ ادیبوں یا ادب سے ناپ سکتے ہیں تاکہ ہم اپنی بلندی یا پستی سے آگاہ ہوسکیں؟ یا ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔؟ یہ سوال بھی دراصل ادب کے معیار ہی سے وابستہ ہے۔ اس سلسلے میں بعض ایسی آوازیں بھی اٹھتی ہیں کہ ہمارا معیار یا ہمارے ادب کامعیار میرؔ، غالبؔ، انیسؔ، اقبالؔ اور جوشؔ ہیں۔ حالانکہ ان شعراء میں سے کوئی بھی کسی ایک کامعیار نہیں قراردیاجاسکتا۔ سب کے مقامات اور سب کا معیار الگ الگ ہے۔ میرؔ کا ادبی معیار خود میرتھے نہ کہ غالبؔ۔ فکری اور جذباتی حیثیت سے ان شعراءکے اکتسابات بالکل علیحدہ ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو چیز ان میں مشترک کہی جاسکتی ہے وہ ایک ادبی سطح ہے۔ جو مختلف نوعیتوں کے باوصف ایک عام بلندی رکھتی ہے۔ یہ کوئی ایسی کسوٹی نہیں ہے جس پر ہر ادیب کا پورا اترنا لازمی ہے ورنہ اس کاکلام معیارسے گرجائے گا۔ ان خیالات کے حامیوں کے لیے ادب کو ان میں سے کسی ایک شاعرکی موت کے بعد ختم ہوجانا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہر نیا شاعر اور ادیب اپنا معیار اپنے زمانے کے لحاظ سے لے کر خود آتا ہے۔ اس معیار کی بلندی یا پستی خود اس کے ادراک اور اظہار کی بلندی یا پستی پر منحصر ہے، جب ہم ان شعراء کو بطور معیار پیش کرتے ہیں تو غالباً ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اردو ادب کی ایک سطح، ایک مزاج قائم ہوچکا ہے۔ جس کالحاظ ضروری ہے۔ یہ لحاظ، یہ خیال ہم اسی وقت رکھ سکتے ہیں اور سطح بلند اسی وقت ہوسکتی ہے جب ہم زمانے کے مطالبات کالحاظ رکھیں اور نئے تقاضوں کے مزاج سے واقف ہوں۔ بغیر اس کے ادبی معیار لفظوں کی بازیگری کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔ اب رہ گیا قد کے ناپنے کامسئلہ تو فی الحقیقت یہ اپنے ادب سے واقفیت اور محبت کاسوال ہے!

    یہ دیکھنا کہ ہمارا ادب کتنی منزلیں طے کرچکا ہے ہمارے یہاں الفاظ اور مضامین کا سرمایہ کس حد تک ہے۔ فن کی تکمیل کہاں تک ہوچکی ہے۔ ہم گزشتہ ادب اور ادیبوں سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہ تمام باتیں کسی ’’تجارتی مقابلہ‘‘ کی حیثیت نہیں رکھتیں۔ یہ واقفیت، یہ آگاہی ہرادیب کے لیے ضروری ہے۔ قد ناپنے کے معنی نہ تقلید ہے نہ تحقیر۔ نہ اندھی محبت، نہ اس کے ذریعہ اپنی پستی یا بلندی کااحساس۔ نئی عمارتوں کی تعمیر، نئے حوصلے، نیا ڈھنگ اور نیا مسالہ چاہتی ہے۔ تاج محل سے پہلے اور تاج محل کے بعد بھی عمارتیں تعمیر ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔

    (۲) دوسراسوال زبان کو ’’یکسر عوامی‘‘ بنادینے کا ہے اور اس صورت میں ان تمام الفاظ سے دست بردار ہوجانے کا جو عام فہم نہیں ہیں۔ مگر متوسط طبقے کے ادب میں رائج ہیں اور لغت میں موجود ہیں۔ زبان کا یکسر عوامی ہونا بے معنی ساٹکڑا ہے۔ انسانی تہذیب، زبان اور ادب کو جس منزل پر لاچکی ہے اس سے روگردانی ممکن نہیں ہے۔ البتہ جہاں تک اردو ادب کاتعلق ہے ہمیں یہ ماننے میں مطلق تامل نہ کرنا چاہیے کہ ان کارشتہ عوام سے جیسا کہ چاہیے ویسا نہیں ہے۔ ہمارے بہت سے ادیب عوام سے آنکھیں ملاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنی دانست میں لکھتے ہیں، عوام ہی کی خاطر زبان وسیلۂ اظہار ہے اور وسیلۂ اظہار اسی وقت کامیاب کہاجاسکتا ہے جب وہ دوسرے تک اپنا مفہوم واضح طور پر پہنچادے۔ زبان کی زندگی اس کے استعمال پرمنحصر ہے۔ اگر اسے محض ایک مخصوص طبقہ استعمال کرتاہے تو اس کافنا ہوجانا یقینی ہے۔ لیکن اگر وہ عوام کی زبان ہے اور اس کاادب عوام کاترجمان ہے توایسی زبان اورایسا ادب باقی رہے گا۔

    ہماری زبان میں گزشتہ جنگِ عظیم کے دوران میں اور اس کے بعد سے لے کر آج تک کتنے الفاظ آچکے ہیں اور طریقۂ اظہار میں کتنا تغیرپیدا ہوچکا ہے۔ اگر ہم صرف اسی پر ایک سرسری نظرڈالیں تو یہ چیز صاف ظاہر ہوسکتی ہے کہ ایسے الفاظ جن کو ادب میں گواراکرنے کا تصور ہم چند سال پیشتر تک نہیں کرسکتے تھے، آج خالص ادبی وقار اور وزن رکھتے ہیں۔ کھیتوں میں کسان کیا گاتے ہیں۔ وہ اپنے چوپال میں بیٹھ کر کیسی گفتگو کرتے ہیں۔ کارخانوں میں مزدور کون سی زبان استعمال کرتے ہیں ان کی مخصوص اصطلاحیں کیا کیا ہیں۔ بغیر ان معلومات کے آج کوئی اچھا ادب مشکل سے پیش کیاجاسکتاہے۔ مختلف طبقوں کی زبان میں بعض مخصوص الفاظ اور ترکیبیں ہوتی ہیں۔ ادیب کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ نہ صرف ان سے واقف ہو بلکہ کامیابی کے ساتھ انہیں منتقل بھی کرسکتا ہو۔ ’’اس باجو اوراس باجو‘‘ پرہنسنا تو بہت آسان ہے مگران کی ادبی اہمیت کو محسوس کرنا بہت مشکل ہے۔ جب تک ’’ادبی احتیاط‘‘ کے ساتھ یہ زبان استعمال نہ کی جائے اس زبان کے بولنے والوں کے خدوخال پورے طور پر کبھی نمایاں نہیں ہوسکتے۔ اور وہ ادب جو زندگی کی سچی عکاسی نہیں کرسکتا بے روح اور بے فیض ہوتا ہے۔ نچلے طبقے کی زبان اور ہماری ادبی زبان کے درمیان کوئی ایسی دیوار نہیں حائل ہے۔ جسے عبور نہ کیا جاسکتا ہو۔ یہ دیوار متوسط طبقے کی دیوار ہے جسے منہدم کردینے کے بعد ہی ادب اپنی پوری تہذیبی توانائی کے ساتھ ابھرسکتاہے۔ عوام میں گھل مل جانے کے بعد ہی ادیب زندہ زبان اور زندہ ادب پیش کرسکتا ہے۔ زندہ زبان صوبہ جاتی بولیوں سے نہ صرف متاثر ہوتی رہتی ہے بلکہ ان کو حسب ضرورت قبول بھی کرتی رہتی ہے۔

    اردو جاگیرداری زبان بن کرنہیں جی سکتی۔ اسے جمہوری زبان بننا پڑے گا۔ کسی شہری ادیب سے یہ مطالبہ البتہ نہیں کیاجاسکتا کہ وہ دیہات کی زبان پر بھی عبور رکھتا ہو۔ حالانکہ اگر ایسا ہو تو بہت اچھا ہے۔ اسی طرح دیہات کے ادیب پر بھی یہ پابندی نہیں عائد کی جاسکتی کہ وہ شہری مزاج اور بول چال سے ضرور واقف ہو۔ مگرا تنا مطالبہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرے کی عوامی زبان کو ادب میں منتقل کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اپنی اپنی جگہ ہر ادیب جو کام کرے گا ان سب کا امتزاج بڑے متنوع اور بڑے وسیع ادب کی صورت میں ہمارے سامنے آتا رہے گااور اس طرح زبان میں ہم آہنگی پیدا ہوجائے گی اور زندگی کی ہزاروں لہریں دوڑنے لگیں گی۔ پوری ہیئت اجتماعی کی قبولیت یا ردکردینے پر زبان کی بقا یا فنا مبنی ہے۔

    عوامی زبان کے استعمال سے ادب مجروح نہیں ہوتا۔ عوامی زبان سے مراد عام فہم زبان ہے۔ وہ زبان جس کے ذریعہ سے ہم عوام تک آسانی سے پہنچ سکیں۔ جس طرح ہمیں عوام کی زبان سمجھنے میں کوئی وقت نہیں محسوس ہوتی۔ ہم ان کا مفہوم سمجھ لیتے ہیں۔ اسی طرح انہیں بھی ہماری ادبی زبان سمجھنے میں کوئی وقت نہیں ہوسکتی۔ بشرطیکہ یہ زبان عوام کے دلوں کی پرخلوص اور صحیح آواز ہو۔ ہم خواہ مخواہ اپنی جگہ فرض کرلیتے ہیں کہ ہمیں ادب کی بلندیوں سے نیچے اترکر عوام تک آنا ہوگا۔ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ ادب کی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے ہم کو عوام کاسہارا لینا ہوگا۔ فنکار کی عظمت ادق نویسی نہیں ہے۔ بڑافنکار تو ا دق الفاظ اور مطالب کو بھی اس طرح پیش کرتا ہے کہ وہ عام فہم اور آسان ہوجاتے ہیں۔

    ہم اگر سعدیؔ، نظیرؔ، انیسؔ اور بہت سے دوسرے ادیبوں کی طرح نہیں لکھ سکتے تو یہ خود ہمارے فن کی کمزوری ہے۔ زبان کاقصور نہیں ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ خیالات صاف سے صاف زبان میں اداکیے جاچکے ہیں بلکہ ادب کابیشتر بلند پایہ حصہ وہی ہے جو واضح اور براہ راست زبان میں لکھا گیا ہے۔ وہ فن جو آسان زبان کے استعمال کے ساتھ ساتھ اعلیٰ مطالب کے اظہار پر بھی قادر ہوتا ہے فن کی معراج ہے۔ اس کی مثالیں نہ پہلے ناپید تھیں نہ اب ہیں۔ فن کی تخلیق جتنی تکمیل محنت اور اظہارِ مطالب پر جتنی قدرت چاہتی ہے اس کی صلاحیت اگر ہم میں نہیں ہے تو یہ ہماری ادبی اور سماجی کم مائیگی اور بے بصری ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ادب کاایک حصہ وہ بھی ہے جو بلند آہنگی اور دقت پسندی کانمائندہ ہے اور معیاری بھی ہے۔ ہم ایسے ادب کو مسترد نہیں کرسکتے اس لیے کہ یہ بھی ہمارا سرمایہ ہے اور ہم ہی اس کے جائز وارث ہیں۔ اس ادب تک پہنچنے کے لیے ہمیں یقیناً تربیت اور محنت کی ضرورت ہے۔ تعلیم کی فراوانی کے ساتھ ساتھ ہم پوری طرح اس سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ ہمیں سیکھنے میں کبھی پس و پیش نہیں کرنا چاہیے۔ ہم جس نظامِ زندگی کے علم بردار ہیں اس میں جہالت، غلط فہمی اور تنگ نظری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن بہرصورت آج وہی ادب کامیاب ہوسکتاہے (خواہ سہل پسند ہو یا مشکل پسند) جس کی جڑیں عوام کی زندگی میں پیوست ہیں۔

    رہ گیا لغت سے مشکل الفاظ کے اخراج کامسئلہ تو الفاظ بذاتِ خود نہ سرمایہ دار ہوتے ہیں نہ عوامی۔ استعمال سے الفاظ زندہ رہتے ہیں اور جب ان کااستعمال بند ہوجاتا ہے تو وہ مر جاتے ہیں یا متروک ہوجاتے ہیں۔ مگر لغت میں بہرصورت رہتے ہیں اور ان کاباقی رکھنا ضروری ہے۔ تاریخ کے پارینہ اوراق ان کی امداد کے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتے۔ لغت میں اضافہ البتہ ہوسکتا ہے اور ہوتاجائے گا۔ نئے الفاظ برابر آتے رہیں گے جوہماری ضروریات کو پوراکرتے رہیں گے۔

    (۳) تیسرا، چوتھااور پانچواں سوال ایک دوسرے سے متعلق ہے۔ یعنی کیا وہی چیزیں لکھی جائیں جو عوام کی موجودہ ذہنی سطح سے ہم آہنگ ہوں۔ ان کی سمجھ سے باہر نہ ہوں خواہ وہ آگے چل کر ان کے لیے مفید ہی کیوں نہ ہوں۔ بعض تجربات اور خیالات کے لیے مخصوص اصطلاحوں اور مشکل زبان کا استعمال ناگزیر ہے تو کیا انہیں چھوڑ دیا جائے اور خود عوام کی موجودہ کم علمی کس حد تک ادب فہمی کی راہ میں حائل ہے۔

    یہ سوالات ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں جن کے جوابات میں کسی قسم کی پیچیدگی یادقت نہ ہونی چاہیے۔ ہمیں عوام کے خیالات اور محسوسات کی ترجمانی کے ساتھ ہی ساتھ ایسے تعمیری خیالات پیش کرنے ہوں گے جو راستہ کی کٹھنائی کو آسان کرنے میں مددگار ہوں، لیکن یہ تعمیری خیالات ہم اس وقت پیدا کرسکتے ہیں جب ہم خود عوام سے قریب ہوں، ان سے دور رہ کر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ آج ہم ہر تعمیری جدوجہد میں ان کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ انہیں کی زندگی سے شعاعیں لے کر ہم اندھیری رات میں مشعلیں جلاسکتے ہیں۔ عوام میں بہت بڑی حدتک ابھی تعلیم کی کمی ہے۔ ان کا ذوق ابھی نکھرا نہیں ہے۔ وہ بہت سی مشکل علمی اور فنی اصطلاحیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ ہم ان فنی اور علمی تجربوں اوراصطلاحوں کو ختم کردیں۔ ایسا فعل عوام دشمنی کے مترادف ہوگا۔ سائنس کے بڑے بڑے اور اہم تجربات صرف اس لیے نہیں روکے جاسکتے کہ ہم ان کی موشگافیوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ تجربہ گاہوں میں جو مہم جاری ہے وہ انسانیت کو آگے بڑھانے کے لیے ہے نہ کہ پیچھے ہٹانے کے لیے۔ ان تجربہ گاہوں کی دریافت ہمیں ہزاروں آسائشوں اور زندگی کے بہت سے سربستہ رازوں سے ہم کنار کرتی ہے۔ یہ عوامی سرمایہ ہیں اور محض ان کی خدمت کے لیے وقف ہیں۔ ان تجربہ گاہوں میں زہریلی گیسوں اور ایٹم بم کے تجربوں کا زمانہ ختم ہوتاجارہا ہے۔ سائنس اب مفاد پرستوں اور خداوندان نعمت کی آقا نہیں ہے وہ عوام کی خادمہ ہے اور یہی اس کا سب سے بڑا مقام ہے۔ اسی طرح بہت سے معاشی، سیاسی، فلسفیانہ خیالات اور نظریات ہیں اور ان سے متعلق اصطلاحیں اور الفاظ ہیں جو ہمارے ادب میں برابر آتے رہیں گے۔ انہیں نہ قبول کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ سماج میں مختلف شعبے ہوتے ہیں اور ہر شعبہ مل کر سماج کی مجموعی تعمیر میں مدد دیتا ہے۔ اسی طرح ادب کا خالص تحقیقاتی اور علمی شعبہ بھی اپنی جگہ بڑا اہم اور مفید ہے۔ عوام جلد ہی اس سطح پرپہنچ جائیں گے۔ جہاں وہ ان تمام علوم و فنون کو نہ صرف بہ آسانی سمجھ سکیں گے، بلکہ ان کے مختارِکل بھی بن جائیں گے۔

    (۶) آخری سوال یہ ہے کہ خود ادیب کی بے توفیقی اور کم مائیگی معیاری ادب کے پیش کرنے میں حائل ہے۔ عوام تک اس کی پہنچ کہاں تک ہے۔ عصری محرکات اور سماجی شعور اس میں کس حدتک پایاجاتا ہے۔ اس کے سامنے زندگی کا کون سا آدرش ہے؟

    اس سوال کے دو حصے ہیں،

    پہلا تو خود ادیب کے ذاتی اکتسابات سے متعلق ہے۔ اس کا مطالعہ کیسا ہے؟ ادب کی تاریخ اس کے مزاج اور تہذیبی تقاضوں سے کہاں تک واقف ہے۔ الفاظ کاکتناذخیرہ ہے۔ ان الفاظ کے صحیح استعمال کس حدتک باخبر ہے۔ کسی بھی ادیب کے لیے ان تمام امور اور مراحل کو طے کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر اس کی تمام تحریریں خام اور بعض اوقات ’’گونگے کاخواب‘‘ بن جائیں گی۔ ادب بڑی محنت اور جانفشانی سے پیدا ہوتا ہے۔ عشق کی چوٹ جب انسانی دل برداشت نہیں کرسکتا تو ادب اسے سہہ جاتا ہے۔ ادب کی یہی توانائی ادیب کا امتحان ہوتی ہے۔ علم سے سنجیدہ اور گہری وابستگی کے بغیر مشکل سے کسی ادیب میں یہ صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے کہ وہ بڑا ادب پیش کرسکے۔

    سوال کا دوسرا حصہ ادیب کی اجتماعی شخصیت سے متعلق ہے۔ یعنی اس کاسماجی شعور کس حدتک بیدا رہے۔ ادیب اگر لفظ اور بیان پر کامل دسترس رکھتا ہے مگر سماجی شعور سے بیگانہ ہے تو اس کافن پوچ، مہمل اور فن کی توہین ہے۔ اس میں نہ فنی خوبی ہوسکتی ہے نہ معنوی، فن معنی سے ہٹ کر کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ اس شعور کے لیے ادیب کو عوام کی زندگی کو اپنانا ہوگا۔ ان کی جدوجہد کو اپنی جدوجہد سمجھنا ہوگا۔ اس کو اپنے احساس میں حل کرنا ہوگا۔ آج بڑا اور زندہ ادب اسی میدان میں پیدا ہوسکتا ہے جہاں سرمایہ اور محنت کی فیصلہ کن جنگ ہو رہی ہے۔ ایک طرف جہل، بربریت اور خودغرضی کے عفریت ہیں تو دوسری طرف علم، اخوت، طہارت اور معصومیت کی قوتیں ہیں۔ ادب اگر زندگی کاترجمان ہے جیسا کہ ہے تو اسے زندگی کی تلاش میں اسی صف میں جانا ہوگا۔ جہاں انسان اپنی آزادی اور خودداری کے بھرپور گیت گارہا ہے۔ زندگی کی عزیز ترین قدریں آج خطرے میں ہیں، ان کا تحفظ زندگی کا تحفظ ہے۔ ادب آج انہیں اقدار کو اپناکر آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہ طے کرنا مشکل نہیں ہے کہ ادب تجوریوں میں ہے یا ہرے بھرے کھیتوں میں۔ وہ ادیب جو پستی، نفرت اور استحصال کو شہ دے رہے ہیں جو اس محدود طبقے سے وابستہ ہیں جس نے انسان کو سکوں کے ہاتھ فروخت کر ڈالا ہے۔ یہ زندگی کون سی اقدار پیدا کرسکتے ہیں اور ان کے ادب میں کتنی جان ہوسکتی ہے۔ یہ ظاہر ہے! ہمارے ادب میں زندگی اور عظمت اسی وقت آسکتی ہے جب ہم اس نئی دنیا اور اس نئے ا نسان کو پیش کرسکیں جو آج تباہی اور بربادی کے طوفانوں سے محبت، یقین اور امید کا چراغ جلائے ابھر رہاہے۔ یہی شعور ادب کا آج قوی ترین منبع اور مخرج ہے۔ یہی ادب کو پابندگی اور بزرگی بخشتا ہے۔

    مأخذ:

    Adab E Lateef July,August 1951-SVK (Pg. 13)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1951

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے